working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


 
اگلا شمارہ

باراک حسین اوباما سے وابستہ توقعات
باراک حسین اوباما ، امریکہ کے چوالیسویں صدر کا حلف اٹھا کر وائٹ ہائوس میں براجمان ہو چکے ہیں۔ باراک حسین اوباما کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ وہ امریکہ کے پہلے سیاہ فام صدر ہیں۔ امریکہ کے سولہویں صدر ابراہم لنکن نے 22 ستمبر 1862ء کو امریکہ سے غلامی کا خاتمہ کیا تھا اور 20جنوری 2009ء کو ٹھیک 146 سال بعد غلاموں کی نسل میں سے ایک امریکہ کا صدر بن گیا۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ باراک حسین اوباما کی ڈیموکریٹ پارٹی سے بطور صدارتی امیدوار نامزدگی سے لے کر صدر بننے تک، جو سفر انھوں نے طے کیا اسے اگر 146 سال پہلے کی تاریخ میں دیکھا جائے تو یہ ایک خواب محسوس ہوتاہے۔ مگر یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ اچھائی کا آغاز ایک مشکل مرحلہ ضرور ہوتا ہے لیکن یہ ایسے مثبت اور دور رس نتائج لاتی ہے جو پائیدار تبدیلی کا موجب بن جاتے ہیں۔ باراک حسین اوباما اس تبدیلی کا تسلسل ہیں جس کا آغاز ابراہم لنکن نے کیا تھا۔ اور آج جب وہ امریکہ کے چوالیسویں صدر منتخب ہو چکے ہیں تو نہ صرف امریکی قوم بلکہ پوری دنیا باراک حسین اوباما کو تبدیلی کی علامت سمجھتی ہے۔

آج کی دنیا جس میں دہشت، خوف اور غیر یقینی کا بسیرا ہے، خطرات پھیل رہے ہیں اور ان سے مقابلے کی قوتیں بکھر رہی ہیں، ایسے میں دنیا کو ایک راسخ ارادے کی ضرورت ہے جس میں الجھائو ہو اور نہ ہی دوعملی کی جھلک، سچ دنیا کی ناگزیر ضرورت ہے، دنیا کے مسائل کو ان کی پوری سچائی کے ساتھ پرکھا جائے تو کوئی مشکل نہیں کہ ان پر قابو نہ پا لیا جائے۔ لیکن اگر کسی نے اس سچ میں اپنے اپنے جھوٹ کی آمیزش کر دی تو پھر سچائی کا جنازہ اسی طرح نکل کر دنیا کے امن کو دفن کرتا رہے گا جیسے آج کر رہا ہے۔

باراک حسین اوباما کا پہلا صدارتی خطاب اس حوالے سے بہت حوصلہ افزا ہے کہ وہ مسائل کی جانکاری ان کی جڑ تک رکھتے ہیں۔ ان کے پاس وہ سوچ موجود ہے جو امریکی قوم اور دنیا کے مسائل حل کرنے پر قدرت رکھتی ہے۔ ان کا فکروفلسفہ تبدیلی کا واضح اشارہ ہے۔ ان کی تقریر کے بعض جملے ان کے فکر اور عزم کو واضح کرتے ہیں جیسا کہ انھوں نے کہا ''اب تنگ نظر مفادات کے تحفظ اور مشکل فیصلوں کو ٹالنے کا وقت گزر چکا ہے۔ آج سے ہمیں اپنے آپ کو سمیٹنا ہے اور امریکہ کی تشکیلِ نو کا کام دوبارہ شروع کرنا ہے۔۔۔ ہماری معیشت کی کامیابی کا دارومدار صرف ہمارے جی ڈی پی کے حجم پر نہیں ہے بلکہ ہماری خوشحالی کی پہنچ اور ہر خواہش مند فرد کو موقع کی فراہمی پر ہے۔ ہم یہ مواقع خیرات میں نہیں دیتے بلکہ یہ مفادِ عامہ کا بہترین راستہ ہے ۔۔۔ مسلم دنیا کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ ہم ایک نئی راہ کی تلاش میں ہیں جس کی بنیاد باہمی احترام اور باہمی مفاد پر ہو۔ مغرب کو اپنے معاشرے کی خرابیوں کا ذمہ دار سمجھنے والے سمجھ لیں کہ آپ کے عوام آپ کو ان چیزوں پر پرکھیں گے جو کہ آپ نے تعمیر کیں نہ کہ جو آپ نے تباہ کیں۔''

امن، خوشحالی اور ترقی دنیا کا مشترکہ ایجنڈا ہے۔ مگر دنیا کے مختلف حصوں میں موجود تنازعات اس کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ آج یہ تنازعات ایک نئی شکل میں سامنے ہیںجہاں پر یہ صرف اپنے اپنے خطوں کے لیے ہی خطرہ نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے خوف اور دہشت کی علامت بن چکے ہیں۔ آج کے دہشت گرد انہی تنازعات کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں اور جب تک یہ کوکھ ہری رہے گی، امن اور خوشحالی ایک خواب ہی رہے گا۔ امریکہ دنیا کی بڑی معاشی اور عسکری قوت ہے جو ان مسائل کے حل کے لیے قائدانہ کردار ادا کر سکتی ہے۔ یہ امریکہ کے لیے آخری موقع ہے اور اس کے باعزم صدر کے لیے ایک چیلنج کہ وہ یہ قائدانہ کردار کس طرح ادا کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ تاریخ پھر یہ موقع کبھی نہ دے اور حالات مواقع کو کھوکر ابتر سے ابتر ہو جائیں۔ افغانستان، عراق، پاکستان اور فلسطین میں جو مواقع آج موجود ہیں، وہ کل نہیں ہوں گے۔ اس بدتر کل سے پہلے آج جس تبدیلی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے اس کے لیے پوری دنیا اور تنازعات میں گھرے ان ممالک کے کروڑوں لوگ باراک حسین اوباما سے بہت سی توقعات رکھتے ہیں۔ باراک حسین اوباما کو امریکہ کے اندر اور امریکہ سے باہر ایک جیسی توقعات کا سامنا ہے۔ وہ سبھی ان سے امن، خوشحالی اور ترقی کی طرف رہنمائی چاہتے ہیں۔ بے شک، دنیا اعتماد کے بحران میں گھری ہے۔ امید کی لَو بھی ٹمٹما رہی ہے مگر انھیں اس لَو کو برقرار رکھنا ہے۔ اگر یہ بجھ گئی تو اعتماد کا یہ بحران نجانے کون کون سے مہیب بحران لے کر آئے گا۔

سجاد اظہر
مدیر