working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


 
اگلا شمارہ

پاکستانی ذرائع ابلاغ اور شدت پسندی ، ایک دوسرے پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں؟
محمد اعظم

شدت پسندی ان بنیادی مسائل میں سے ایک ہے جو پاکستانی ریاست اور معاشرے کو در پیش ہیں۔ اس کی جڑیں شاید پاکستان کے قیام سے بھی کہیں پہلے جا نکلتی ہیں۔ پاکستان کی پوری تاریخ میں یہ مسئلہ افقی اور عمودی دونوں اطراف میں بڑھتا اور پھیلتا رہا ہے۔ ایک طرف بہت سے عوامل اور کردار اس میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں تو دوسری طرف بہت سے بے گناہ افراد اور گروہ اس کا نشانہ بھی بنتے رہے ہیں۔ پاکستانی میڈیا، جس نے حال ہی میں ایک نئی طاقت اور اہمیت حاصل کی ہے، بھی ابتدائی ایام سے لے کر آج تک اس میں ایک عامل کے طور پر موجود رہا ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ شدت پسند گروہوں اور طبقات کا نشانہ بھی بنتا رہا ہے۔ بالفاظ دیگر پاکستان میں شدت پسندی کا مظہر اور ذرائع ابلاغ دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ اس تحقیقی مضمون کا مقصد یہ ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ یہ دونوں ایک دوسرے پر کس طرح سے اور کس حد تک اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔ کس حد تک پاکستانی ذرائع ابلاغ شدت پسندوں کی طرف سے دباؤ میں ہیں، اور، پاکستانی میڈیا نے کس حد تک شدت پسندی کے عمل میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔

قبل ازیں کہ ہم تفصیل میں جائیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آغاز اس نکتے سے کیا جائے کہ پاکستان کی مختلف حکومتیں اور ذرائع ابلاغ دونوں ایک ایسی موثر حکمت عملی وضع کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کی مدد سے نشر ہونے والے پروگراموں اور کوریج میں ایک توازن قائم کیا جا سکے۔ نتیجتاً تنگ نظر، عسکریت پسند اور شدت پسند طاقتیں معاشرے میں زور پکڑ گئی ہیں۔(1)

اس مضمون میں تاریخی پس منظر کو شامل نہیں کیا گیا جس پر کسی دوسرے مضمون میں بحث کی جائے گی تاہم کہیں کہیں تاریخی حوالوں کا ذکر ضرور کیاگیا ہے۔ اس مضمون میں جن سوالات کو زیر بحث لایا گیا ہے ان میں سے کچھ اس طرح ہیں: 1ـشدت پسندی کا مظہر ذرائع ابلاغ پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟ 2ـشدت پسند گروہ اور تنظیمیں ذرائع ابلاغ پر کیسے دباؤ ڈالتی ہیں اور اس مقصد کیلئے وہ کون کون سے طریقے استعمال کرتے ہیں؟ 3ـشدت پسندوں کی طرف سے ذرائع ابلاغ کو کس قسم کے خطرات اور دھمکیوں کا سامنا ہے؟ 4ـذرائع ابلاغ کس طرح شدت پسندوں کو عظمت دیتے اور ان کی ستائش کرتے ہیں؟ 5ـشدت پسندوں اور ان سے متعلق واقعات اور بیانات کی اشاعت میں ذرائع ابلاغ کس قسم کی کمزوریوں کا شکار ہیں؟ 6ـکیا شدت پسند ذرائع ابلاغ عمومی ذرائع ابلاغ پر کوئی اثر ڈالتے ہیں یا کیا ہمارے عمومی ذرائع ابلاغ شدت پسند ذرائع ابلاغ سے کوئی اثر قبول کرتے ہیں؟ اور 7ـفاٹا (FATA) میں صحافت کی عمومی صورتحال کیا ہے اور فاٹا اور صوبہ سرحد کے علاقوں میں صحافتی برادری کو کس قسم کے مسائل کا سامنا ہے؟

جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، ذرائع ابلاغ شروع ہی سے شدت پسندی کے عمل میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ 1950ء میں حکومت پنجاب نے شدت پسندانہ خیالات کی اشاعت اور فروغ کیلئے ذرائع ابلاغ کو استعمال کیا۔ اس حکومت کے ڈائریکٹریٹ آف انفارمیشن نے اخبارات کو رقوم ادا کیں جواحمدیوں کے خلاف شدت پسندانہ خیالات کی تشہیر کرتے تھے۔ یہ معاملہ ایک انکوائری کمیٹی کے سامنے منظر عام پر آیا اور نوائے وقت گروپ کے حمید نظامی نے اس کی توثیق کی۔(2)

ہر اخبار کی اپنی ایک پالیسی ہوتی ہے۔ مثلاً انگریزی اخبار ڈیلی ٹائمز (Daily Times) کی پالیسی شدت پسندی کے خلاف ہے۔ جبکہ بعض اخبارات، مثلاً نوائے وقت، کی پالیسی شدت پسندی کی بہت حامی ہے۔ مذکورہ اخبار کا ایک پورا صفحہ طالبان کیلئے وقف ہے۔ یہ طالبان اور دہشت گردوں کو 'عسکریت پسند' کہتا ہے۔ اس طرح ایک اور اردو اخبار ہے جس کے چیف ایڈیٹر بعض شدت پسند تنظیموں کے جلسوں میں ایک کلیدی مقرر کی حیثیت سے شامل ہوتے ہیں۔(3) لیکن اس حقیقت کے باوجود کہ ہر اخبار کی اپنی ایک پالیسی ہوتی ہے ذرائع ابلاغ کو باقی معاشرے سے الگ تھلگ نہیں کیا جا سکتا۔ معاشرتی عوامل اس پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔(4)

مبشر بخاری، جو ایک تجربہ کار صحافی ہیں اور ان دنوں جیو انگلش (ایک نجی ٹی وی چینل) میں ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، بیان کرتے ہیں کہ ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ذرائع ابلاغ پر اثر انداز ہونے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی۔ ان کا کہنا ہے کہ جماعتِ اسلامی چونکہ جنرل ضیاء کے بہت قریب تھی اور جنرل ضیاء نے جماعتِ اسلامی کو افغان جنگ میں بھی استعمال کیا تھا، اس کے بہت سے لوگ ذرائع ابلاغ میں داخل ہو گئے۔(5) حسین نقی کے مطابق 'الہلال' کا تقریباً تمام سٹاف جماعتِ اسلامی سے لیا گیا ہے۔(6)

مزید برآں، مبشر بخاری کہتے ہیں کہ جنہوں نے پنجاب یونین آف جرنلسٹس (دستور) کی بنیاد رکھی وہ تمام جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھتے تھے۔ فی الوقت، اس یونین کے کوئی تین سو ارکان ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کم از کم تین سو لوگ ہمارے ذرائع ابلاغ میں ایسے ہیں جن کو مذہبی جماعتوں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ بعد ازاں سپاہِ صحابہ اور سپاہِ محمدۖ کے لوگ بھی ذرائع ابلاغ میں آ گئے۔ یہ لوگ عسکریت پسند تھے اور اپنے اپنے نظریات کی بنیاد پر لوگوں کی جانیں لے رہے تھے۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ میں اپنے لوگ داخل کیے۔ اس کے علاوہ انہوں نے ذرائع ابلاغ کے بعض لوگوں کو خریدا اور انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔ اس قسم کے لوگ اگرچہ اخبارات کی پالیسی کو براہِ راست متاثر نہیں کرتے تاہم اگر ایک شخص نیوزروم میں یا رپورٹنگ سیکشن میں ایک خاص سوچ لے کر بیٹھا ہوا ہے تو اس کے پاس موقع ہوتا ہے کہ وہ کسی خبر کو بڑھا چڑھا کر پیش کر دے یا کوئی خبر اس انداز میں پیش کرے کہ اس کی اہمیت کم ہو جائے۔(7)

رؤف شیخ کا بھی کہنا ہے کہ شدت پسندوں نے اپنے افراد ذرائع ابلاغ میں داخل کیے ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ پوری کی پوری فکر کو ہی تبدیل کر دیا جائے اور وہ لوگ بڑی حد تک اس مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ معاشرتی وثقافتی واقعات کو وہ شائع ہی نہیں ہونے دیتے۔ بسنت کو انہوں نے بند کروا دیا ہے جو پنجاب کا سب سے بڑا تہوار تھا، رؤف شیخ افسوس کے ساتھ کہتے ہیں۔(8)

پروفیسر مہدی حسن کہتے ہیں کہ پاکستانی ذرائع ابلاغ بالواسطہ طور پر اور دبے لفظوں میں شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر لال مسجد کے ایشو کو لے لیں۔ اس پر ذرائع ابلاغ نے یکطرفہ کردار ادا کیا۔ اسی طرح دوسرے ایشوز کو بھی یکطرفہ طور پر پیش کیا جاتا ہے۔(9) جن تنظیموں پر پابندی ہے ان کی خبریں بھی مسلسل چھپ رہی ہیں۔ صرف ان کے نام کے ساتھ 'سابقہ' کا لفظ لگا دیا جاتا ہے۔ ایسی تنظیموں کو بھرپور تشہیر مل رہی ہے، ان کے بیانات بھی چھپتے ہیں۔ قصداً یا غیر قصداً ان کو ترویج دی جا رہی ہے۔(10)

شدت پسندی سے متعلق معاملات کو جتنی تشہیر ملنی چاہئے، ''ذرائع ابلاغ میں مقابلے کے باعث ان کو اس سے زیادہ مل جاتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر کہیں پٹاخہ بھی پھٹتا ہے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ ایک دھماکے کی آواز سنی گئی، پولیس جگہ کا تعین کر رہی ہے۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ شدت پسندوں کے حوصل بلند ہو جاتے ہیں۔ طالبان کے ترجمان کو ذرائع ابلاغ میں سب سے زیادہ کوریج ملتی ہے۔ بعض ایسے گروپ بھی ہیں جو اس قسم کی کارروائیوں میں ملوث نہیں ہیں لیکن وہ باجوڑ یا کسی ایسی جگہ پر بیٹھ کر بم دھماکوں کی ذمہ داری قبول کر لیتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔''(12)
بعض اہلِ صحافت کا خیال ہے کہ شدت پسند گروہوں کو برائے نام کوریج ہی ملتی ہے۔ تحریکِ طالبان کے اکّا دکّا لوگوں کا کوئی بیان چھپ گیا۔ باقیوں کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔١٢ ایک صحافی کا یہ بھی کہنا تھا کہ شدت پسندوں کو تو ذرائع ابلاغ تک رسائی ہی نہیں ہے۔(13)

پروفیسر مہدی کہتے ہیں کہ ہمارے ذرائع ابلاغ میں gatekeeping کی روایت معدوم ہے۔ جو شخص ذرائع ابلاغ سے منسلک ہے اسے ایک gatekeeper کے طور پر کام کرنا چاہئے۔ نیوز رپورٹر یا ایڈیٹر کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اسے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کوئی خبر اگر فائدے کی نسبت نقصان زیادہ کرے گی تو وہ اسے روک لے۔(14)
ایڈیٹر روزنامہ آواز، خالد فاروقی کہتے ہیں کہ ''میڈیا مجبور ہو جاتا ہے، اگر یہ ان (شدت پسند) لوگوں کو مناسب کوریج نہیں دیتا تو پھر اس کیلئے مشکل کھڑی ہو جاتی ہے۔''(15) ایک اور مسئلہ، وہ کہتے ہیں، یہ ہے کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا حال ہی میں سامنے آیا ہے اور لوگ اس کیلئے مناسب طور پر تربیت یافتہ نہیں تھے۔ خالد فاروقی کی رائے میں یہ ''ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔'' وہ کہتے ہیں کہ پرنٹ میڈیا میں جب کوئی چیز تحریر ہوتی ہے تو تحریر کرنے والے کے پاس کچھ وقت ہوتا ہے کہ وہ اس کو دوبارہ دیکھ سکے اور پھر وہ تحریر مدیر کی نظر سے بھی گزرتی ہے۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا میں اس طرح کا عمل نہیں ہوتا۔ الیکٹرانک میڈیا کے رپورٹروں کے پاس ضرورت سے زیادہ گنجائش ہوتی ہے۔ یہ ان عوامل میں سے ایک ہے جن کی وجہ سے ہمارے ٹی وی چینل شدت پسندی سے متعلق واقعات اور معاملات کو اکثر غیر موزوں طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ مزید برآں پاکستان میں پرنٹ میڈیا کے پاس کوئی سو ڈیڑھ سو سال کا تجربہ ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا مقابلتاً نوخیز ہے۔

روزنامہ ''آج کل'' نے امِّ حسان (جو لال مسجد والے مولانا عبد العزیز غازی کی اہلیہ ہیں) کا ایک کارٹون چھاپا تو اس اخبار کو کھلے عام دھمکی دی گئی کہ وہ اس کے نتائج بھگتنے کیلئے تیار رہے۔ نمازِ جمعہ کے بعد لال مسجد والے عناصر نے اس اخبار کے خلاف نعرے لگائے۔ انہوں نے اخبار کے خلاف الزام عائد کیا کہ اس کی پالیسی جہاد کے خلاف ہے اور اسے ''سبق سکھایا جائے گا''۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جاوید خان، جو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے رکن تھے، وہ لال مسجد کے خلاف فوجی آپریشن کی رپورٹنگ کرتے ہوئے جاں بحق ہو گئے تھے۔ اسی طرح ایک اور صحافی شدید زخمی ہو گیا تھا۔

1977ء سے لے کر اب تک پاکستانی اخبارات اور ٹی وی سٹیشنوں کے خلاف ایک سو تریسٹھ (163) حملے ہو چکے ہیں۔ اٹھائیس صحافی قتل ہو چکے ہیں۔ ایک سینئر ماہرِ ذرائع ابلاغ کے مطابق تقریباً یہ تمام ان شدت پسندوں کے ہاتھوں ہی قتل ہوئے ہیں۔(16)

خاور نعیم ہاشمی، جو ١٩٧٠ء سے شعبۂ صحافت سے منسلک ہیں، کا کہنا ہے کہ شدت پسند ذرائع ابلاغ کیلئے مسلسل ایک دباؤ کا سبب ہیں۔ اگرچہ یہ دباؤ قبائلی علاقے اور صوبہ سرحد میں ملک کے باقی علاقوں کی نسبت زیادہ ہے تاہم لاہور یا کراچی میں کام کرنے والے ایک صحافی پر بھی اسی طرح کا دباؤ ہے جیسا کے قبائلی علاقوں میں کام کرنے والے صحافیوں پر ہے۔ (17) وہ کہتے ہیں کہ ''ذرائع ابلاغ آزادی کے ساتھ نہیں لکھ رہے اور شاید لکھ بھی نہیں سکتے''۔(18) اگر شدت پسندوں کے خلاف کوئی بات چھپتی ہے تو ذرائع ابلاغ پر الزام لگا دیا جاتا ہے کہ وہ ''خلافِ اسلام'' باتیں چھاپ رہا ہے۔ (19)خالد احمد کہتے ہیں کہ ''ان (شدت پسندوں) کے خلاف کچھ بھی نہیں چھاپا جا سکتا''۔

وہ مزید کہتے ہیں:(20)
''میڈیا مارکیٹ فورسز (market forces) کے تحت چل رہا ہے۔ پہلے جب میڈیا حکومت کی تحویل میں تھا تو وہ مارکیٹ فورسز سے علیحدہ تھا۔ اب مارکیٹ کیا چاہتی ہے، وہ معاشرے کا عمل ہے۔ میڈیا بھی اسی رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ معاشرے کے اوپر عمل بھی کرتا ہے اور رد عمل بھی دکھاتا ہے اگر معاشرہ انتہا پسندانہ ہے یعنی اگر ریاست کی عمل دار ی کم ہو چکی ہے اور انتہا پسند حلقوں کا رسوخ معاشرے پر زیادہ ہے تو میڈیا میں بھی وہ چیز آپ کو نظر آئے گی۔ جو اس وقت سب سے زیادہ متاثر کرنے والی تحریک ہے وہ یہ ہے کہ … پہلے معاشرے کو تکلیف دی جائے اور معاشرہ اس تکلیف کے رد عمل میں اپنا نقطہ نظر بدلے۔ جب آپ خود کش حملہ کرتے ہیں تو … اس کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ اپنی رائے کو تبدیل کرنے پر مائل ہوتا ہے۔ یہ ہے جبر کی نفسیات۔ مثلاً اگر آپ تکلیف پہنچاتے ہیں تو رائے آپ کیلئے تبدیل ہوتی ہے کیونکہ ریاست کمزور ہے۔ جب آپ خود کش حملہ بند کرتے ہیں تو تکلیف کا عمل بند ہوتا ہے اور تسکین ہوتی ہے۔ وہ تسکین بھی آپ کی رائے کو ہموار کرتی ہے اس شخص اور اس تنظیم کیلئے جو کہ آپ کو تکلیف پہنچا رہا ہے۔ یہ چیز میڈیا پر بھی لاگو ہے۔ اگر، فرض کیجئے، میں خود کش حملہ آور کی استثناؤں میں شامل ہوں، اگر مجھ پر حملہ نہیں ہو رہا تو میں سوچوں گا کہ واقعی یہ حملہ نہ ہو۔ میں وہ بات کروں گا جو خود کش حملہ آور کی رائے کے مطابق ہو۔ لہذا … وہ میڈیا جو جوش دکھاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں آزادیٔ اظہار کی طرف ہوں، وہ خود کش حملہ آور کی طرف سے استثنا مانگتا ہے۔ تو (اس طرح) معاشرے میں ایک پوری رائے بن گئی ہے۔ اصل مسئلہ ریاست کی عمل داری کا کم ہوناہے''۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ ایک وحدت نہیں ہیں۔ آئی اے رحمان کے خیال میں''انگریزی اور اردو میڈیا میں بڑا فرق ہے۔ ان کے کوریج کے دائرۂِ کار اور انداز دونوں میں فرق ہے۔ اردو اخبارات کا شروع سے یہ خیال ہے کہ پاکستان کے بیشتر عوام قدامت پسند ہیں تو وہ ان کی قدامت پسندی کے مطابق لکھتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ان کو اس طوق سے نکلنے میں مدد دیں، اس میں ان کو پختہ کرتے ہیں۔ اس طرح دانستہ طور پر اور بعض اوقات نادانستہ طور پر عسکریت پسندی کو فروغ دیتے ہیں۔''

اردو ذرائع ابلاغ شدت پسندوں کی اس لئے حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ اس میں کاروباری طور پر فائدہ ہے۔ وہ ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ اخبار کی تعدادِ اشاعت میں اضافہ ہو جائے گا اور ان کا بڑا نام ہو جائے گا۔ بعض اوقات سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بھی انہیں کوئی خاص قسم کا تاثر دینے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔(21) اردو ذرائع ابلاغ میں عسکریت اور شدت پسندوں کیلئے ہمدردی کا عنصر کسی نہ کسی شکل میں موجود رہتا ہے تاہم ہمارے انگریزی ذرائع ابلاغ نے کسی حد تک بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے۔(22)

حسین نقی کے تجزیے کے مطابق ''میڈیا کو تو قارئین چاہئیں۔ اس لئے آپ دیکھیں کہ کوئی بھی رسالہ، کوئی بھی اخبار شدت پسندانہ عنصر سے خالی نہیں۔ … میڈیا کا بہت کم حصہ ایسا ہے جس کا ایک روشن خیال نقطۂ نظر ہے۔ بہت سارے تو سرمایہ کار ہیں، کچھ سمگلر ہیں، کچھ ہیروئن کے سمگلر ہیں، اس میں گولڈ اسمگلنگ کرنے والے بھی ہیں، اس کے اندر اسلحہ کے سمگلر بھی ہیں۔ یہ سب اس انڈسٹری میں داخل ہو گئے ہیں۔ ان کا زیادہ اثر اردو پریس پر ہے۔ اس پر تو لگتا ہے کہ سارے کا سارا قبضہ ہی اِن لوگوں کا ہے''۔(23)

اس سوال کے جواب میں کہ آیا شدت پسند تنظیمیں ذرائع ابلاغ پر دباؤ ڈالتی ہیں، حسین نقی کا کہنا تھا کہ ''بالکل ڈالتی ہیں۔ وہ تو یہاں تک پریشر ڈالتی ہیں کہ اس کی ہیڈ لائن یہ لگے گی۔ اس چیز کو اتنا display ملے گا۔ اور دوسرا یہ کہ اگر تم نے اخبار نکالنا ہے تو وہ اسی شرط پہ نکل سکتا ہے ورنہ آگ لگا دیں گے۔ … ذرائع ابلاغ کی جرات نہیں ہے کہ ان کی مرضی کے خلاف کچھ چھاپیں۔'' پاکستانی صحافی حکومت پر تنقید کرنے میں تو آزاد ہیں لیکن وہ مذہبی جنونیوں کے خلاف تنقید نہیں کر سکتے۔ (خالد احمد، ''عدم رواداری اور ذرائع ابلاغ،'' در ''پاکستانی معاشرہ اور عدمِ رواداری،'' مرتّبہ حسن عابدی، لاہور، مشعل، 1997ئ)
آئی اے رحمان کے تجزیے کے مطابق ''ہمارا پدر شاہی معاشرہ ہے۔ ہمارے ہاں کسی کو مارنا بڑی بہادری ہے۔ کسی کو قتل کرنا بڑی بہادری ہے۔ اس کو بھی ذرائع ابلاغ میں پیش کرنے کا طریقہ ایساہوتا ہے کہ جس سے ترغیب ہوتی ہے کہ کسی کو مارا جائے … میرا یہ خیال ہے کہ پاکستان میں violence کو بڑھانے میں میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے۔ انگریزی میڈیا کم کرتا ہے، اردو میڈیا زیادہ کرتا ہے۔ کرتا وہ بھی ہے۔''

امتیاز عالم اس صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''میڈیا نے دیکھا کہ شدت اور عسکریت پسندی کے حوالے سے خبریں گرما گرم ہیں، اُس نے اِس پہ فوکس کیا اور ایک طرح سے ان کا آلۂ کار بن گیا ہے۔ اس نے انہیں ہیرو بناکے پیش کیا ہے۔ خاص طور پہ اگر لال مسجد کے ایشو کو دیکھیں تو اس میں میڈیا پنڈولم (pendulum) کی طرح ایک سکرین سے دوسری سکرین تک گیا۔ پہلے انہوں نے سول سوسائٹی کی آواز بلند کی کیاکہ ریاست اپنی عملداری قائم کرے۔ جب ایکشن ہوا تو سارے میڈیا نے ریاست پر الزام عائد کر دیا۔ جب برسی منائی گئی تو ان فوجیوں کی نہیں منائی گئی جنہوں نے وہاں جانیں دیں۔ ان کے بارے میں تو میڈیا میں ایک لائن تک نہیں آئی کہ یہ لوگ وہاں لڑتے ہوئے اور ریاست کی عملداری قائم کرتے ہوئے مارے گئے تھے۔ اس کے برعکس لال مسجد کے شہداء کو ہیرو بنا کے پیش کیا گیا۔ میڈیا اس چیز کا پوری طرح خیال نہیں کر رہا۔ یہ عدمِ استحکام میں اضافے کا باعث بن رہا ہے، شاید اس لیے کہ اسے جو آزادی ملی ہے وہ ابھی نئی نئی ہے، خاص طور پر ٹیلی وژن کے حوالے سے تو یہی لگتا ہے کہ اسے تجربہ نہیں ہے، بالغ نظری اور پختگی نہیں ہے۔ گائڈ لائن بھی نہیں ہے، جو ہے وہ بڑی ہی عوامی قسم کی ہے کہ چینل بڑا مقبول ہو جائے گا۔ یہ بڑی خطرناک بات ہے۔ میڈیا اس بات کو نظر انداز کر رہا ہے کہ ایسا کرنے سے مستقبل میں اظہارِرائے کی آزادی برقرار رہے گی یا نہیں۔''(24)

ہمارے معاشرے میں خوف کا ایک عنصر دھر آیا ہے اور یہ حقیقت ہمارے میڈیا پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں جو رپورٹنگ ہو ر ہی ہے وہ ایک خوف کے ماحول میں ہو رہی ہے، ڈان اخبار پشاور کے بیورو چیف وسیم احمد شاہ کہتے ہیں۔ اس خوف کے باعث ذرائع ابلاغ کے نمائندے اور رپورٹر وہ باتیں بھی نہیں لکھ رہے جو ان کے علم میں ہیں۔ قارئین اور ناظرین کو صحیح معلومات نہیں مل رہیں۔ بڑے بڑے واقعات کے بارے میں بتاتے ہوئے رپورٹروں کو اور بھی زیادہ خوف کا سامنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر عسکریت پسندوں کے کسی کمانڈر کا جنازہ ہو تو رپورٹروں کو، جو اس کی کوریج کر رہے ہوتے ہیں، معلوم نہیں ہوتا کہ عسکریت پسندوں کا رد عمل کیا ہو گا۔(25)

شدت پسند گروہوں اور تنظیموں کو کوریج چاہئے کیونکہ انہوں نے اپنا پیغام پھیلانا ہے۔ میڈیا اس بات سے آگاہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ انہیں خوش کرنے کیلئے اتنی زیادہ کوریج مہیا کر رہا ہے۔ اگرچہ طالبان کے خلاف بہت سارے آرٹیکل لکھے گئے ہیں تا ہم ان کیلئے ہمدردی کا ایک عنصر موجود ہے۔(26)

اگرچہ صحافتی برادری کی بھاری اکثریت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ شدت پسندی کے مظہر نے ذرائع ابلاغ کو منفی طور پر متاثر کیا ہے، چند مستثنیات بھی موجود ہیں۔ یہ ایک دوسرا نقطۂ نظر ہے۔ مائد علی دوٹوک الفاظ میں بیان کر تے ہیں کہ شدت پسندی ذرائع ابلاغ پر کوئی منفی اثر نہیں ڈال رہی۔ عاصم حسین بڑے وثوق سے کہتے ہیں کہ شدت پسند میڈیا پر کوئی دباؤ نہیں ڈالتے۔ تاہم میڈیا نے روز مرہ ہونے والے تشدد کو رپورٹ کرنا ہوتا ہے اور اسے پس منظر میں جا کر بتانا پڑتا ہے کہ یہ لوگ طالبان ہیں۔(27) یہ نقطۂ نظر اگرچہ بہت محدود ہے تاہم موجود ضرور ہے۔ اس کے مطابق حکومت کوشش کر رہی ہے کہ میڈیا کا ان (شدت پسند) لوگوں کے ساتھ تعامل روکا جائے تا کہ وہ انہیں وہی نام دے سکے جو وہ دینا چاہتی ہے۔ مزید برآں حکومت جو زبان بول رہی ہے وہ اہلِ مغرب کی زبان ہے۔ایک صحافی کا ایک خاص کمیونٹی کے ساتھ کوئی رابطہ ہی نہیں ہے۔ معلومات ایسے لوگوں کے ذریعے عوام تک پہنچ رہی ہیں جو تربیت یافتہ صحافی نہیں ہیں۔ تحریک طالبان کے جو انٹرویوز یا بیانات میڈیا میں آتے ہیں وہ بہت محدود ہیں۔(28)

شدت پسند میڈیا پر کیسے دباؤ ڈالتے ہیں؟
صحافتی برادری میں سے اکثر کا خیال ہے کہ شدت پسند ذرائع ابلاغ پر دباؤ ڈالنے کیلئے تمام طریقے استعمال کرتے ہیں۔ کبھی وہ اخبارات، صحافیوں اور ٹی وی چینلز کو کھلم کھلا دھمکی دیتے ہیں اور کبھی چھپ کر۔ گمنام خطوط لکھتے ہیں، فون کالز کرتے ہیں، یا ای میل بھیجتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو رشوت بھی دیتے ہیں۔(29) نیوز ایڈیٹر اور رپورٹر شدت پسندوں کے حوالے سے بعض باتیں لکھتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح دھمکیاں کارگر ہو جاتی ہیں اور شدت پسند اپنا مقصد حاصل کر لیتے ہیں۔(30) ''کئی دفعہ ہمیں پولیس کو فون کرنا پڑا کہ ہمیں گھر تک چھوڑ آئیں،'' لاہور میں ایک سینئر صحافی نے کہا۔ ١٩٨١ء میں روزنامہ جنگ نے اسلامی جمعیت طلبہ کے خلاف ایک خبر چھاپی۔ طلبہ دو بسوں میں سوار ہو کر آئے اور جنگ اخبار کے دفتر کو آگ لگا دی۔ اس کے بعد آج تک جنگ اخبار نے اسلامی جمعیت کے خلاف کوئی خبر نہیں چھاپی۔(31)

بعض شدت پسند گروہ ذرائع ابلاغ کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کا نقطۂ نظر بھی شائع ہونا چاہئے اور زیادہ سے زیادہ ہونا چاہئے۔ بعض صحافی ان کے خلاف لکھتے بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ان گروہوں سے ان کے اچھے تعلقات ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ پیشہ ورانہ طور پر بددیانتی نہیں برتتے۔ غالباً شدت پسند گروہ بھی اس چیز کو سمجھتے اور اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ لیکن اگر ان کو شبہ ہو کہ کوئی صحافی کسی ایجنسی کیلئے کام کر رہا ہے تو پھر وہ مشکلات پیدا کرتے ہیں۔

بعض اوقات شدت پسند صحافیوں سے کہتے ہیں کہ اگر وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو یہ کام چھوڑ دیں۔ خاور نعیم ہاشمی کہتے ہیں کہ آپ اس ملک میں صحافی برادری کے مسائل کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں جہاں پر شدت پسند گروپ صحافیوں کو ان کی زندگی کے بدلے صحافت چھوڑنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ اس نے کہا کہ پاکستانی صحافی بہادر ہے اور میڈیا لوگوں کا نمائندہ ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ میڈیا شدت پسندی اور شدت پسندوں کے خلاف اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

خالد احمد جو پاکستان میں شدت پسندی کے موضوع پر بہترین لکھاری ہیں، انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ''ہم لال مسجد کی طرف سے دی جانے والی دھمکی کی زد میں ہیں۔ ہم نے ان کے خلاف لکھنا چھوڑ دیا ہے اور ہم نے معذرت خواہانہ رویہ اپنا لیا ہے۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اگر آئندہ ہمارے خلاف لکھا تو ہم تمھیں بم سے اڑا دیں گے۔ نقی نے کہا کہ شدت پسند صحافی حضرات کے بچوں کو اغوا کرنے یا انھیں جسمانی نقصان پہنچانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ وہ نہ صرف رپورٹر اور کمنٹیٹرز کو دھمکی دیتے ہیں بلکہ اخبار اور ٹی وی چینل کے مالکان کو بھی اور تمام میڈیا تنظیموں کو دھمکیاں دیتے ہیں(32)۔ حسین نقی نے شدت پسندوں کے ایک ناقد کا ذکر کرتے ہؤے کہا کہ اس نے اپنی حفاظت کے لیے ان میں سے ایک گروپ کی امداد حاصل کی ہے۔ جس کے لیے وہ انھیں رقم فراہم کرتا ہے۔حسین نقی کے مطابق بہت سارے اخبارات ان شدت پسند گروہوں کو اپنی حفاظت کے لیے رقم مہیا کرتے ہیں اور ان کے لوگوں کو نوکریاں بھی دیتے ہیں۔

امتیاز عالم نے کہا کہ ''میڈیا شدت پسندی کی وجہ سے بہت زیادہ دبائو کا شکارہو چکا ہے۔ صحافیوں نے اپنے اوپر خود ہی سنسرشپ لگا دی ہے۔ صحافی معاشی مسائل پر لکھنا زیادہ آسان سمجھتے ہیں۔ لیکن شدت پسندی کے موضوع پر لکھنا اور بحث کرنا پسند نہیں کرتے(33)۔

تاہم صحافیوں میں سے بعض کہتے ہیں کہ شدت پسند میڈیا کو کبھی دھمکی نہیں دیتے(34)۔ عاصم حسین کے مطابق ''ملک کے نچلے اور وسطی علاقے شدت پسندوں کے اثرات سے بالکل محفوظ ہیں۔ صرف پشاور میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ اخبارات اور بیورو آفس میں ان کا اثر ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ وہاں پر خود موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اور کسی جگہ ایسی صورت حال نہیں۔'' جب ان سے یہ پوچھا گیاکہ 'کیا ہمارا میڈیا شدت پسندوں سے خوفزدہ نہیں ہے؟' تو انہوں نے جواب دیا کہ ''نہیں قطعاً نہیں۔ ہمارا میڈیا ان کی مذمت کر رہا ہے۔ یہ اصل مسئلہ کی طرف توجہ نہیں دے رہا۔ بلکہ یہ اس مسئلہ کے حواے سے مغربی میڈیا کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اور ان کی دی ہوئی لائن پر چل رہا ہے۔''

شدت پسندوں کو نمایاں طور پرپیش کرنا
ہمارا میڈیانادانستہ طور پر عسکریت پسندوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ یہ بات وسیم احمد شاہ نے پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیراہتمام ایک میڈیا ورکشاپ میں گفتگوکے دوران کہی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ صحافی غیرتربیت یافتہ ہیں۔ اس طرح کے ماحول میںجہاں عسکریت پسندی اپنے عروج پر ہو کیسے کام کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انٹرنیشنل میڈیا جیسے BBC کی اردو اور پشتو سروس ہم سے زیادہ شدت پسندوں کو سامنے لا رہے ہیں(35)۔ تمام بڑے بڑے نیوز چینلز ان طالبان اور القاعدہ لیڈروں اور ان کے ترجمانوں کے بیانات اور ویڈیو چلانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

مختلف اصطلاحات کا استعمال
آئی اے رحمان کے مطابق جہاد اور شہید جیسے الفاظ ان شدت پسندوں کے پروپیگنڈہ میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ تمام شدت پسند تنظیمیں، افراد اور ان کے رہنما اس بارے میں بہت سخت ہیں اور وہ سختی سے نوٹس لیتے ہیں۔ خالد احمد کے مطابق اگر انھیں کوئی 'شدت پسند' یا 'انتہا پسند' کہے تو وہ برا مناتے ہیں لیکن اگر انھیں کوئی 'جنگجو' یا 'عسکریت پسند' کہے تو وہ اتنا برا نہیںمناتے۔ بعض اوقات میڈیا تنظیموں کو نامعلوم ٹیلی فون کالز کے ذریعے دھمکیاں بھی موصول ہوتی ہیں کہ ہمارے فلاں آدمی کو شہیدکی بجائے ہلاک کیوں لکھا ہے۔ امتیاز عالم نے کہا کہ نوائے وقت کی اہم اور سب سے بڑی سرخی میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ فلاں فلاں طالبان شہید ہو گئے۔ دیگر تمام اخبارات نے بھی 'شہدائے لال مسجد' لکھا۔ اگر کوئی ایسے نہیںلکھتا تو وہ ان کے عتاب کا نشانہ بن جاتا ہے۔

رؤف شیخ نے کہا کہ وہ ان چیزوں کو خاص طور پر مدِنظر رکھتے ہیں۔ وزیرستان میں دو اخبارات کے دفاتر صرف اس بات پر جلا دیے گئے کہ وہ ان کے لیے صحیح الفاظ نہیں استعمال کرتے تھے(36)۔

شاہین بونیری سوات سے اپنا واقعہ سناتے ہیں کہ میںسوات میں رپورٹنگ کر رہا تھا کہ عسکریت پسندوں نے مجھے فون کیا کہ میں نے ان کے لوگوں کو ہلاک کیوں لکھا ہے۔ وہ ہلاک نہیں ہوئے شہید ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم حکومتی ایجنسیوں کے بھی دبائو کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نوجوان شہید ہوئے ہیں۔ بعض اوقات صحافی کے لیے بہت مشکل ہو جاتا ہے(37)۔

کچھ صحافی اس بات سے متفق نہیں کہ یہ شدت پسند میڈیا میں شائع ہونے والی اصطلاحات کو اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ مظہر عباس ڈپٹی ڈائریکٹر ARY نیوز چینل اور سیکرٹری جنرل پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کہتے ہیں کہ شدت پسند ان اصطلاحات کو اتنی اہمیت نہیں دیتے تاہم ایک خاص سطح پر بعض اوقات ایسا ہوتا ہے(38)۔

شدت پسند میڈیا کا مرکزی میڈیا پر اثر
شدت پسند میڈیا پاکستان کے مرکزی میڈیا پر اتنا اثرانداز نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ بعض لوگ پہلے شدت پسند میڈیا سے مرکزی میڈیا میں شامل ہوتے ہیں، پھر واپس جا کر اپنے شدت پسند میڈیا کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس طرح مرکزی میڈیا کو شدت پسند میڈیا کے لیے تربیتی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں (39)۔ جبتک وہ مرکزی میڈیا میں رہتے ہیں اپنے پسندیدہ گروپوں کو نمایاں کوریج دیتے ہیں۔ کچھ صحافی حضرات کا کہنا ہے کہ شدت پسند میڈیا مرکزی میڈیا پر براہِ راست تو اثرانداز نہیں ہوتا لیکن معاشرے کے ذریعے بالواسطہ طور پر ضرور اثر انداز ہوتا ہے(40)۔

صوبہ سرحد اور قبائلی علاقہ جات میںمیڈیا اور شدت پسند
صوبہ سرحد کے بعض علاقے اور قبائلی علاقہ جات، جو اس وقت عسکریت پسندی کا اہم مرکز بن چکے ہیں، میں میڈیا زیادہ دبائو کا شکار ہے۔ ڈھائی سالوں میں قبائلی علاقوں میں 6 صحافی اغوا اور مارے جا چکے ہیں۔ جبکہ بہت سے زخمی بھی ہوئے ہیں۔ چیف ایڈیٹر کاروان قبائل سیلاب محسود نے کہا کہ کچھ دنوں پہلے ہمارے ایک ساتھی کو عسکریت پسندوں نے اغوا کرنے کی کوشش کی۔ مگر وہ بچ نکلا۔ لیکن اسے تین گولیاں لگیں۔ قبائلی صحافت عسکریت پسندی اور شدت پسندی کے رحم و کرم پر ہے۔ دھمکی آمیز خطوط سیلاب محسود کو بذاتِ خود ملتے رہے ہیں۔ انہیں اغوا اور قتل کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ جنوبی وزیرستان اور قبائلی علاقوں کے درجنوں بھر صحافیوں کو علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا(41)۔ قبائلی علاقہ جات میں صحافی کی حیثیت سے کام کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ جن مشکلات کا سامنا اس علاقے میں صحافی کر رہے ہیں وہ تمام دنیا کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ سچائی کو آپ مکمل طورپر رپورٹ نہیں کر سکتے۔ وہ رپورٹرز جو علاقے میں اپنا اثرو رسوخ رکھتے ہیں صرف وہی تھوڑا بہت سچ لکھ سکتے ہیں۔ ان حالات میں صحافی اپنے فرائض س طریقے سے ادا نہیں کر سکتے جیسا وہ کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی صحافی طالبان کے خلاف لکھتا ہے تو اس کو اغوا کرلیا جاتاہے اور پھر مار دیا جاتا ہے۔ ایک قبائلی صحافی کو ایسی خبر کی اشاعت پر ڈیڑھ لاکھ جرمانہ کیا گیا، بعد میں 50 ہزار معاف کر دیے گئے اور ایک لاکھ جرمانہ وصل کیا گیا(42)۔ کچھ صحافیوں کو ایسے خطوط ملے ہیں جن میں دھمکی دی گئی ہے کہ قبائلی علاقوں میں غیر ملکی کے مرنے کی خبر شائع نہ کی جائے (43)۔ صحافی اپنے اخبارات اور اپنی صحافی تنظیموں کے کارڈز بھی اپنے ساتھ اس خوف سے نہیں رکھتے کہ انھیں مارا، اغوا یا قتل نہ کر دیا جائے۔ مذہبی تنظیمیں اور طالبان صحافیوں کو امریکی ایجنٹ تصور کرتے ہیں۔ تاہم بیت اللہ محسود نے ایک پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا تھا کہ وہ صحافیوں کا احترام کرتے ہیں اور سیلاب محسود کے مطابق اس نے اپنے آدمیوں سے کہا ہے کہ وہ علاقے میں صحافیوں کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ سیلاب محسود نے کہا کہ بیت اللہ محسود کے علاقے میں صحافیوں کے لیے پہلے سے اب بہتر صورتحال ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس علاقے میں صحافی بالکل محفوظ اور پُرامن ہیں۔ اس خبر کی اشاعت کے بعد کہ 'کچھ طالبان نے باجوڑ ایجنسی میں دوسرا گروپ بنا لیا ہے' ایک عالم دین نے ایف۔ایم ریڈیو پر یہ اعلان کیا کہ تمام صحافیوں کو قتل کر دیا جائے۔ اس اعلان کے بعد علاقے کے صحافیوں میں سخت خوف و ہراس پیدا ہو گیا۔ اس کے بعد ایک جرگہ بلایا گیا جس میں علما کو یہ باور کرایا گیا کہ اخبارات کی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں اور صحافی اخبارات کی ہر خبر کے ذمہ دار نہیں ہوتے اس لیے انھیں کچھ نہ کہا جائے (44)۔ مہمند ایجنسی اور باجوڑ کے کچھ علاقوں میں حکومت کی عملداری بالکل نہیں ہے اور وہاں سارے احکامات طالبان کے ہوتے ہیں۔ اس لیے وہاں رپورٹنگ بہت مشکل ہے(45)۔

میڈیا پر ایک نظر
وہ اخبارات اور میگزین جو مختلف شدت پسند تنظیموں کی نمائندگی کرتے ہیں، انھیں اس تحقیقی مقالے میں شدت پسند میڈیا کا نام دیا گیا ہے۔ مرکزی اور شدت پسند میڈیا کے نمائندہ رسائل و جرائد کا ایک ماہ تک (جولائی 2008ئ) بغور جائزہ لیا گیا تاکہ ان کی اشاعت میں شدت پسند عناصر کی کوریج کا جائزہ لیا جائے۔ تجزیہ کے مقصد کے لیے منتخب شدہ مواد کو تین قسموںمیں تقسیم کیا گیا ہے۔ (i) اخبارات کی مرکزی اور اہم خبریں (شہ سرخیاں) (ii) تنظیمی سرگرمیاں اور (iii)مضامین اور اداریے۔

14 اخبارات، جن میں 11 روزنامے(46) اور تین ہفت روزہ (47) شامل تھے، مرکزی میڈیا سے منتخب کیے گئے۔ 28 خبروں اور تحریروں کی نشاندہی کی گئی جن میں سے 21 کا تعلق ایسے مسائل سے ہے جن کو شہ سرخیوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ایک کا تعلق تنظیمی سرگرمیوں سے ہے جبکہ چھ نکات مضامین اور اداریے کے ضمن میںآتے ہیں۔

ایک شہ سرخی حنیف قریشی (48) کے بیان پر مشتمل تھی کہ مغربی اور ہندوستانی ثقافت کو فروغ دے کر اسلامی ثقافت کو مسخ کیا جا رہا ہے (49) جبکہ ایک شہ سرخی میں لشکرِ اسلام کے ترجمان کے مطابق گروپ کے امیر منگل باغ علاقہ چھوڑ کر کہیں نہیں جا رہے وہ علاقے میں شریعت کے نفاذ کے لیے مسلسل کام کرتے رہیں گے (50)۔ منگل باغ کا یہ بیان کہ وہ اپنی لڑائی جاری رکھیں گے روزنامہ خبریں میں شائع ہوا (51)۔ ایک اور بیان میں منگل باغ نے کہا کہ لشکرِ اسلام باڑا میں اپنا گشت جاری رکھے گی (52)۔ حزب المجاہدین کا بیان کہ امریکہ اور ناٹو فورسز کے خلاف افغانستان میں لڑے گی انگلش اخبار ''دی پوسٹ'' نے نمایاں طور پر شائع کیا(53)۔ ایک عالم زمان چشتی کا یہ بیان اردو اخبار روزنامہ مشرق میںنمایاں طور پر شائع ہوا کہ مدارس کے خلاف کسی بھی قسم کی سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا (54)۔ انھوں نے کہا کہ مدارس معاشرتی برائیوں کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ 18 جولائی کو بہت سے اخبارات نے بیت اللہ محسود کے اس بیان کو بھی نمایاں طور پر پیش کیا جس میں صوبہ سرحد کی حکومت کو یہ دھمکی دی گئی تھی کہ پانچ دن کے اندر اندر حکومت مستعفی ہو جائے۔ اس مہینہ میں سب سے اہم سرگرمی جو مرکزی میڈیا نے رپورٹ کی ''شہدائے لال مسجد کانفرنس'' تھی۔ مضامین اور اداریوں کی فہرست میں مندرجہ ذیل شامل تھے:
سلطان صدیق کا مضمون ''افواہیں اور صوبہ سرحد میں دہشت کا ماحول'' (55)، سجاد ستی کا مضمون ''اگر سزائے موت ختم کر دی جائے، قاتلوں کی دعا''، آصف نثار کا ''کیا صوبہ سرحد کی قسمت تبدیل نہیں ہو گی''، زاہد الراشدی کا ''شہدائے لال مسجد کانفرنس کا کامیاب انعقاد اور نئے چیلنجز''(56)، حشمت حبیب کا ''مرکز غازی شہید''(57) اور عبدالقاسم صدیقی کا مضمون ''کراچی میں طالبانائزیشن کا شور''(58)۔

حشمت حبیب نے اپنے مضمون '' مرکز غازی شہید'' میں لال مسجد انتظامیہ اور مدرسہ کے طلبہ کو سراہا، حکومت پر سخت تنقید کی اور لال مسجد آپریشن کو معرکۂ کربلا سے تعبیر کیا۔ سیاسی جماعتوں پر بھی سخت تنقید کی کہ انھوں نے لال مسجد کے مسئلہ کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا لیکن انتخابات کے بعد اس آپریشن کی مذمت نہ کی۔ ان غیرحکومتی اداروں کو بھی ہدف تنقید بنایا جنھوں نے آپریشن کے متاثرین کے لیے کچھ نہیں کیا۔

اگرچہ پاکستان کا مرکزی میڈیا غیرجانبدارانہ دکھائی دیتا ہے لیکن یہ بعض اوقات دانستہ یا نادانستہ طور پر ان شدت پسند گروہوں کی حمایت کرتاہے اور ان کے افراد اور ان کی سرگرمیوں کو بہت کوریج دیتا ہے۔

2)شدت پسند میڈیا
چار اخبارات اور میگزین جو شدت پسند گروہوں کی نمائندگی کرتے ہیں (59) کا اس مہینہ میں بغور جائزہ لیا گیا۔ ان تمام میں سے 59 نکات کو سامنے لایا گیا۔ 59میں سے 38 ایسے تھے جو اہم اور مرکزی شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوئے۔ 9 کا تعلق ان تنظیموں کی سرگرمیوںکے متعلق تھا جبکہ 12 کا تعلق اداریے اور مضامین کی قسم سے تھا۔ ان 38 شہ سرخیوں میں سے نو کا تعلق افغانستان سے، جبکہ چھ کا تعلق کشمیر کے بارے میں تھا۔ 8خبروں کا تعلق امریکہ، انڈیا اور اسرائیل اور قادیانیوں کے بارے میں تھا۔ 5 کا تعلق جہاد، جہادیوں اور جہادی تنظیموں سے تھا۔ 5 خبریں لال مسجد، جامعہ حفصہ اور مدارس سے تھا۔ جبکہ دو اور ایسی تھیں جو اسلامی سیاسی نظام، غیراسلامی نظام اور پاکستان کی خارجہ پالیسی اور پاک ایران تجارت کے بارے میں تھیں۔

9خبریں تنظیموں کی سرگرمیوں سے متعلق تھیں۔ یہ سیمینار کنونشن، فنڈز اکٹھا کرنے او راسلامی تربیتی کورس کے بارے میں تھیں۔ 12 اداریے اور مضمون مختلف مسائل جیسے امریکی غلبہ، لال مسجد، مقصود شہید کو سلام، جہاد اور مجاہدین کی عظمت، امریکہ کی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں ، اور سزائے موت کو ختم کرنے کے قانون سے متعلق تھیں۔ ایک مضمون میں مولانا منصور نے یہ تبصرہ کیا کہ حکومت طالبان اور مدارس کو مغربی ممالک سے فنڈز لینے کے لیے ہوا دے رہی ہے(73)

مرکزی میڈیا اور شدت پسند میڈیا کا تقابل
ایک ماہ کے دوران مرکزی میڈیا کے 14 رسائل وجرائد میں صرف 28 خبریں/تحریریں اور شدت پسند میڈیا کے صرف 4 رسائل وجرائد میں 59 خبریں/تحریریں، شدت پسندی اور اس سے متعلقہ موضوعات پر پائی گئیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ دونوں قسم کا میڈیا ایسے موضوعات کو کتنی کوریج دیتا ہے، میں بہت زیادہ فرق ہے۔ مرکزی میڈیا کے رسائل وجرائد نے پورے ماہ میں اوسطاً دو جبکہ شدت پسند میڈیا نے اسی عرصہ میں اوسطاً پندرہ خبریں/تحریریں اس موضوع پر شائع کیں۔ دونوں قسم کا میڈیا مختلف قسم کی اصطلاحات استعمال کرتا ہے جیسے شہید، جہاد، جہادی، عسکریت پسند، ہلاک وغیرہ۔ یہ اصطلاحات معانی اور مفہوم پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ ان کا استعمال کسی بھی مضمون یا رپورٹ کی ہیئت کو تبدیل کر دیتا ہے۔ عسکریت پسند جو حکومت کے ساتھ لڑائی میں مارے جاتے ہیں، وہ بھی شدت پسند میڈیا کے مطابق شہید ہیں، جبکہ حکومت کے لیے وہ فوجی بھی شہید ہیں جو ان عسکریت پسندوں کے ساتھ لڑائی میںشہید ہوتے ہیں۔ مرکزی اخبارات ابھی تک اس مخمصے میں ہیں کہ کون شہید ہے اور کون ہلاک۔ اگر وہ کسی فوجی کو شہید لکھتے ہیں تو شدت پسند گروپ ناراض ہو جاتے ہیں۔ اور اس طرح مرکزی میڈیا ان کے دبائو کے تحت کام کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

سروے کا تجزیہ
اس مقالہ کے لیے 28صحافیوں کے انٹرویوز کیے گئے تاکہ ان سے ان کی رائے لی جا سکے۔ انھیں 13سوالات دیے گئے۔ ان 68 صحافیوں میں سے 39 قبائلی علاقہ جات اور صوبہ سرحد سے، 11 راولپنڈی اور اسلام آباد سے، 10 لاہور سے اور 8 آزاد کشمیر سے تھے۔ اس میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ مرد و زن کو مناسب نمائندگی دی جائے لیکن پاکستان میں میڈیا میں عورتوں کی نمائندگی بہت کم ہے۔ مزیدبراں صرف چند صحافی عورتیں اس موضوع کے بارے میں آگاہ تھیں۔ ان تمام صحافیوں میں سے 59 (87فیصد) مرد حضرات تھے اور 9(13 فیصد) عورتیں تھیں۔ ان تمام سوالات کا جائزہ ایک ایک کر کے لیا جا رہا ہے۔

مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستانی صحافیوں کی اکثریت (87فیصد) اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ پاکستانی میڈیا پر شدت پسندی اثرانداز ہوتی ہے۔ جیسا کہ آنے والے سوالات سے ظاہر ہوتا ہے۔

سوال نمبر 1: کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ شدت پسندی کا عنصر پاکستانی میڈیا پر اثرانداز ہو رہا ہے؟
 
Responses Percentage
Yes 87%
No 10%
Don't Know 1.5%
No Response 1.5%
1

سوال نمبر2: کیا ہمارا میڈیا شدت پسندی کے مسئلہ کے بارے میںحقائق کو چھپا رہا ہے؟
 
Responses Percentage
Yes 57%
No 28%
Don't Know 5%
No Response 10%
2

سوال نمبر3: کیا اس وجہ سے بہت سے اہم مسائل کو اخبارات میں مناسب کوریج نہیں دی جاتی کیونکہ
اخبارات میں شدت پسندی اور اس سے متعلقہ موضوعات اور واقعات نمایاں جگہ حاصل کر لیتے ہیں؟
 
Responses Percentage
Yes 60%
No 24%
Don't Know 6%
No Response 10%
3

سوال نمبر4: کیا شدت پسندی اظہارِ رائے کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے؟
 
 
Responses Percentage
Yes 69%
No 21%
Don't Know 3%
No Response 7%
4

سوال نمبر5: اظہارِ رائے کی آزادی میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لیے شدت پسندی کا عمل دخل کتنا ہے؟


Responses Percentage
Very High 15%
Fairly High 29%
High 24%
No Response 32%
5

سوال نمبر6: میڈیا کا رویہ شدت پسندی کے بارے میں کیسا ہے؟

 
Responses Percentage
Very Favorable 3%
Fairly Favorable 9%
Favorable 23%
Very Critical 15%
Fairly Critical 18%
Critical 22%
Don't Know 7%
No Response 3%

6

سوال نمبر7: کیا شدت پسند میڈیا کا اثر مرکزی میڈیا پر بھی ہوتا ہے؟

 
Responses Percentage
Yes 50%
No 37%
Don't Know 7%
No Response 6%
7

سوال نمبر8: کیا شدت پسند میڈیا، شدت پسندوں کیلئے مرکزی میڈیا کے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا سبب بنتا ہے؟

 
Responses Percentage
Yes 51%
No 15%
Don't Know 3%
No Response 31%
8

سوال نمبر9: مرکزی میڈیا میں لوگوں کی ہمدردیاں شدت پسند عناصر کے بارے میںکتنی ہیں؟

 
Responses Percentage
Very high 4%
Fairly high 9%
High 22%
Low 16%
Very Low 3%
Don't Know 3%
No Response 43%
9

سوال نمبر10: کیا شدت پسند تنظیموں کی طرف سے میڈیا پر کوئی دباؤ ہے؟
 
Responses Percentage
Yes 77%
No 13%
Don't Know 10%
10

سوال نمبر11: کیا شدت پسند اپنے لیے میڈیا میں زیادہ کوریج کا مطالبہ کرتے ہیں؟

 
Responses Percentage
Yes 50%
No 24%
Don't Know 1%
No Response 25%
11

سوال نمبر12: کیا وہ اپنے حق میں زیادہ کوریج کیلئے دباؤ ڈالتے ہیں؟

 
Responses Percentage
Yes 69%
No 13%
No Response 18%
12

سوال نمبر13: یہ شدت پسند مختلف الفاظ جیسے شہید، ہلاک، عسکریت پسند، شدت پسند، دہشت گرد، اور جہادی کے استعمال کے حوالے سے میڈیا پر دبائو ڈالتے ہیں؟

 
Responses Percentage
Yes 63
No 19
Don't Know 2
No Response 16
13
  

ماحصل
اگرچہ بہت سے صحافی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ شدت پسندی کا میڈیا پر منفی اثر ہو رہا ہے کچھ مستثنیات ضرور موجود ہیں۔ میڈیا ابتدا ہی سے پاکستان میں شدت پسندی کو فروغ دینے میں ملوث رہا ہے۔ مختلف حکومتوں نے مختلف ادوار میں خاص مقاصد کے لیے معاشرے میں شدت پسندی کو فروغ دینے کے لیے میڈیا کو استعمال کیا ہے۔ میڈیا میں مقابلہ کی وجہ سے شدت پسندی کے مسائل اور واقعات بہت زیادہ کوریج حاصل کر لیتے ہیں۔
میڈیا نہ چاہتے ہوئے بھی عسکریت پسندوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ اگرچہ مرکزی میڈیا کا ایک حصہ اپنے آپ کو یکسر متوازن رکھ رہا ہے۔ لیکن عام طور پر ایسا نہیں ہے۔ میڈیا شدت پسند گروہوں، افراد اور ان کی سرگرمیوں کو بہت زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ انگلش اور اردو میڈیا میں اس حوالے سے بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ اردو میڈیا کا شدت پسند عناصر کی طرف جھکاؤ زیادہ دکھائی دیتا ہے۔

قبائلی علاقے اور صوبہ سرحد کے بعض علاقہ جات جو عسکریت پسندی اور تصادم کا سخت شکار ہیں۔ ان علاقوں میں میڈیا بہت زیادہ دبائو کا شکار ہے۔ اس سروے کے مطابق:
87 فیصد پاکستانی میڈیا پر شدت پسندی کے اثر انداز ہونے کو حقیقت سمجھتے ہیں۔
57فیصد یہ کہتے ہیں کہ شدت پسندی کے موضوع پر میڈیا حقائق چھپاتا ہے۔
60 فیصد یہ کہتے ہیں کہ شدت پسندی کی وجہ سے دیگر اہم مسائل اخبارات میں نمایاں
مقام نہیں حاصل کر پاتے۔
69 فیصد کہتے ہیں کہ شدت پسندی اظہارِ رائے کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
جبکہ
77 فیصد کے خیال کے مطابق شدت پسند گروپ میڈیا پر دبائو ڈالتے ہیں۔
____________
حوالہ جات
١ـ خالد فاروقی، ایڈیٹر روزنامہ آواز، لاہور، راقم کے ساتھ ایک انٹرویو، ١٤ جولائی ٢٠٠٨ئ
٢ـحسین نقی، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان، لاہور، راقم کے ساتھ ایک انٹرویو، ١٥ جولائی ٢٠٠٨ئ
٣ـمبشر بخاری، رپورٹر جیو انگلش (GEO English)، راقم کے ساتھ ایک انٹرویو، ١٥جولائی ٢٠٠٨ئ
٤ـسیف الاسلام سیفی، بیورو چیف ٹی وی وَن، پشاور، راقم کے ساتھ ایک انٹرویو، ٢١ اگست ٢٠٠٨ئ
٥ـمبشر بخاری
٦ـحسین نقی
٧ـمبشر بخاری
٨ـرؤف شیخ، دی نیوز، لاہور، راقم کے ساتھ ایک انٹرویو، ١٥ جولائی ٢٠٠٨ئ
٩ـمہدی حسن، سربراہ شعبۂ ابلاغیات، بیکن ہاؤس یونیورسٹی، لاہور، راقم کے ساتھ ایک انٹرویو، ١٤ جولائی ٢٠٠٨ئ
١٠ـمہدی حسن
١١ـ شاہین بونیری، ویب ایڈیٹر خیبر نیوز ٹی وی، پشاور، راقم کے ساتھ ایک انٹرویو، ٢١ اگست ٢٠٠٨ئ
١٢ـمائد علی، سینئر رپورٹر، دی نیوز، لاہور، راقم کے ساتھ ایک انٹرویو، ١٤ جولائی ٢٠٠٨ئ
١٣ـعاصم حسین، رپورٹر، دی نیوز، لاہور، راقم کے ساتھ ایک انٹرویو، ١٤ جولائی ٢٠٠٨ئ
١٤ـمہدی حسن
١٥ـخالد فاروقی
١٦ـمہدی حسن
١٧ـخاور نعیم ہاشمی، بیورو چیف جیو ٹی وی، لاہور، راقم کے ساتھ ایک انٹرویو، ١٤ جولائی ٢٠٠٨ئ
١٨ـمظہر عباس، سیکرٹری جنرل پاکستان یونین آف جرنلسٹس و ڈپٹی ڈایریکٹر اے آر وائی نیوز، اسلام آباد، راقم کے ساتھ ایک انٹرویو، ٢٢ جولائی ٢٠٠٨ئ
١٩ـخاور نعیم ہاشمی
٢٠ـخالد احمد، مدیر مشاورت ڈیلی ٹائمز، لاہور، راقم کے ساتھ ایک انٹرویو، ١٥ جولائی ٢٠٠٨ئ
٢١ـ شاہین بونیری
٢٢ـخالد فاروقی
٢٣ـحسین نقی
٢٤ـامتیاز عالم، سیکرٹری جنرل ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسوسی ایشن، راقم کے ساتھ ایک انٹرویو، ١٥ جولائی ٢٠٠٨ئ
٢٥ـوسیم احمد شاہ، بیورو چیف روزنامہ ڈان پشاور،، راقم کے ساتھ ایک انٹرویو، ١٥ جولائی ٢٠٠٨ئ
٢٦ـامتیاز عالم
٢٧ـعاصم حسین
٢٨ـمائد علی
٢٩ـرؤف شیخ
٣٠ـمہدی حسن
٣١ـمہدی حسن
٣٢ـرؤف شیخ
٣٣ـامتیاز عالم
٣٤ـعاصم حسین
٣٥ـوسیم احمد شاہ
٣٦ـایضاً
٣٧ـشاہین بونیری
٣٨ـمظہر عباس
٣٩ـمبشر بخاری
٤٠ـحسین نقی
٤١ـسیلاب محسود، چیف ایڈیٹر ہفت روزہ کاروانِ قبائل، بانی صدر ٹرائبل یونین آف جرنلسٹس، راقم کے ساتھ انٹرویو، پشاور، ٢١ اگست ٢٠٠٨
٤٢ـایضاً
٤٣ـشاہین بونیری
٤٤ـوسیم احمد شاہ
٤٥ـایضاً
٤٦ـامت، نوائے وقت، اسلام، جناح، آج، مشرق، دی نیوز، خبریں، دی پوسٹ، ڈیلی ٹائمز، اور ایکسپریس
٤٧ـاخبارِ جہاں، تکبیر اور فرائیڈے ٹائمز
٤٨ـحنیف قریشی، شبابِ ملی پاکستان کے رہنما ہیں۔
٤٩ـنوائے وقت، اسلام آباد، ١١ جولائی ٢٠٠٨
٥٠ـآج، پشاور،١٢ جولائی ٢٠٠٨
٥١ـخبریں، اسلام آباد، ١٣ جولائی ٢٠٠٨
٥٢ـدی نیوز،١٥ جولائی ٢٠٠٨
٥٣ـدی پوسٹ،١٥ جولائی ٢٠٠٨
٥٤ـمشرق، ١٦ جولائی ٢٠٠٨
٥٥ـاخبارِ جہاں، ٧تا١٣ جولائی ٢٠٠٨
٥٦ـاسلام، ١٢ جولائی ٢٠٠٨
٥٧ـجناح، ١٤ جولائی ٢٠٠٨
٥٨ـفرائیڈے اسپیشل، ٢٧ جون تا ٣ جولائی ٢٠٠٨
٥٩ـضربِ مومن، القلم، غزوہ، اور الجمعیة
٦٠ـضربِ مومن، ١١ تا ١٧ جولائی ٢٠٠٨