working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


 
اگلا شمارہ

میر پور اوربرطانیہ میں بٹے پاکستانی:معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی تناظر میں-٢
صفدر سیال
 
معاشرتی اور ثقافتی ارتقائ
دیہی پاکستان کے پسماندہ علاقوں سے برطانیہ کی طرف ہجرت کرنے والے پاکستانیوں کے لیے یہ ملک اجنبی تھا جہاں انھیں زندگی کی بنیادی ضروریات کی کمی کا بھی سامنا تھا۔ پاکستانیوںکی ایک کثیر تعداد 1962ء اور 1966ء کے درمیان وہاں پہنچی۔ ان کی پہلی ترجیح معاشی استحکام اور خوشحالی کو یقینی بنانا تھا۔ نئے معاشرے میں معاشی اور سماجی معاونت کے حصول کے پیشِ نظر انھوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ہاں مقیم ہونا بہتر سمجھا۔ کسی بھی نئے علاقے میں کسی پاکستانی کے گھر خریدنے کا نتیجہ پاکستانی دوستوں اور رشتہ داروں کی وہاںآمد کی صورت میں نکلتا اور جلد ہی وہاں پاکستانیوں کی ایک نئی آبادی کا ظہور ہو جاتا۔ اس طرح برطانوی شہروں میں پاکستانیوں کی آبادی میں اضافہ ہوتا رہا۔برطانوی مقیم پاکستانی نئے آنے والے پاکستانی لوگوں کے لیے بہت مددگار ہوتے اور ان کی خوراک، رہائش اور بنیادی ضروریات زندگی فراہم کرتے ۔ یہ عمل آج تک جاری ہے۔

کثیر ثقافتی برطانوی معاشرے میں پاکستانی معاشی، معاشرتی اور مذہبی استحکام کے لیے کمیونٹی کا قیام ضروری سمجھتے ہیں۔ میرپور کے لوگوں نے پاکستانیوں کے برطانیہ میں قیام اور معاشرتی ارتقائی عمل کا آغاز کیا۔ حاجی حسن محمد نے جو میرپور ڈڈیال کے رہائشی تھے، 1914ء میں سمندری جہاز سے اپنے روزگار کا آغاز کیا۔ وہ 1918ء میں برطانیہ پہنچے اور نیو کاسل (New Castle) میں مارکیٹنگ کا کام شروع کیا۔ وہ سب سے پہلے ایشین تھے جنھوں نے نیو کاسل میں پہلا Warehouse قائم کیا۔ اس ادارے میں بہت سی عورتیں سلائی کڑھائی کا کام کرتی تھیں۔ حاجی حسن محمد کے بیٹے حاجی عبدالرحمن اب بھی برمنگھم میںرہتے ہیں۔

پاکستانی نژاد برطانویوں نے نفسیاتی مزاحمت کے باوجود برطانوی ثقافت کا جزو بننے کی کوشش کی ہے۔ نفسیاتی مزاحمت کی وجہ سے وہ بہت سی مشکلات کا شکار ہیں۔ پہلی نسل نے اپنی ثقافت کی حفاظت اور فروغ کے لیے بہت کوشش کی۔ لیکن پہلی نسل کے بچے اپنے آباء و اجداد کی روایات سے افسردہ تھے۔ چودھری پرویز اختر نے جو برطانیہ میں مقیم ہیں کہا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا۔ غربت اور بے روزگاری بنیادی مسائل تھے۔ پاکستانی نژاد برطانویوںنے زیادہ وقت اپنے خاندانوں کے لیے معاش کی فراہمی اور روایات پر صرف کیا جس کی وجہ سے وہ پسماندہ رہے۔ جبکہ دوسرے غیرملکی باشندوں نے صنعتی ترقی پر زور دیا اور اس طرح وہ اچھے شہری ثابت ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ برطانیہ میں نئے ہونے کے ناطے سے میرے باپ نے انگلش لباس پہننے کا مشورہ دیا اور ساتھ ہی یہ تلقین بھی کی کہ مشکلات میں English لوگوں سے مدد بھی حاصل کرو۔ اب ہم اپنا معیارِ زندگی کھو چکے ہیں۔ دوہرے معیار نے نئی نسل کو گھر سے دور کر دیا ہے۔ برطانوی شہروں میں نظام بہت اچھا ہے لیکن ہم نے اس کو قبول کیا اور نہ ہی اس سے کوئی اچھی چیز حاصل کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بہت پسماندہ رہ گئے۔

برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے انٹرویوز میں اس بات پر اتفاق کیا کہ برطانوی ثقافت ان کے آبائی ملک کی ثقافت سے موافقت نہیں رکھتی۔ کچھ جواب دہندگان نے کہا کہ برطانوی ثقافت کی وہ چیزیں جو انکی ثقافت سے متصادم نہیں وہ انھوں نے اپنائیں۔ صرف چند افراد نے برطانوی نژاد ہونے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے برطانوی ثقافت کو ماسوائے چند چیزوں کے قبول کیا۔ انھوں نے کہا کہ اسلام کے منافی چیزوں کو انھوں نے قبول نہیں کیا۔

مذہبی، ثقافتی اور سماجی روایات کے علاوہ نوآبادکاروں کے خاندانی اور برادری نظام نے بھی برطانوی معاشرے میں ان کے معاشرتی ارتقا کو متاثر کیا۔ برطانوی ثقافت سے ناگواری کی وجہ سے برطانوی نژاد پاکستانی اپنے بچوں کی شادیاں اپنے ہی خاندان اور آبائی علاقوں میں کرنے کو ترجیح دیتے رہے ہیں جس کی وجہ سے برطانوی شہریوں اور پاکستانی آباد کاروں کی راہیں جدا ہو گئیں اور دونوں طبقوںکے درمیان فاصلے بڑھ گئے۔ 2005ء میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق جو روزنامہ ٹیلی گراف میں 16 نومبر 2005 ء کو چھپی، 55 فیصد پاکستانیوں نے اپنے چچازاد اور ماموں زاد لڑکے اور لڑکیوں سے شادی کی تھی۔ پپس(PIPS) نے اپنے فیلڈ ورک کے دوران اس بات کا مشاہدہ کیا کہ والدین بچوں کو برطانوی ثقافت سے دور رکھنے کے لیے چچازاد اور ماموںزاد سے شادی کرواتے ہیں۔ کچھ برطانوی پاکستانیوں نے کہا کہ ایسی شادیاں قدرتی نہیں کیونکہ دونوں میاں بیوی مختلف ثقافت میں پروان چڑھے ہوتے ہیں۔ تاہم بہت سے لوگوں نے کہا کہ اکثریت کی تعداد ایسی شادیوں کو قبول کر لیتی ہے اگرچہ کچھ کیسز ناکام ثابت ہو چکے ہیں۔

مذہبی شناخت اور برادری میں عزت برقرار رکھنے کے لیے والدین بالعموم لڑکوں کی اور بالخصوص لڑکیوں کی شادیاں اپنے خاندان اور مسلک میں کرتے ہیں۔ ایسے بہت سے کیسز سامنے آئے ہیں جن میں والدین نے اپنی لڑکیوں کو پاکستان میں لا کر زبردستی شادی کی ۔ ایسی شادیاں نہ صرف پاکستانیوں بلکہ دیگر ایشیائی ممالک کے لوگوں میں بھی عام ہیں۔ برطانوی حکومت نے مختلف ایئر پورٹوں پر ریسکیوسنٹر بنائے ہیں تاکہ ایسی صورت حال سے بچا جا سکے۔

تعلیم کی کمی بھی ایک بڑی رکاوٹ تھی جس نے پاکستانیوں کو وہاں کے میزبان معاشرے سے دور رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ دوسرے ایشیائی لوگوں سے بہت پیچھے ہیں۔

اس تناظر میں نئی نسل بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ اگرچہ ان کے والدین نے اپنے آبائی ملک میں کچھ تعلیم حاصل کی تھی۔ انھوں نے تعلیم پر کچھ توجہ نہ دی۔ پپس (PIPS)نے اپنے انٹرویوز کے دوران 90 فیصد لوگوں کو میٹرک اور ایم۔اے کے درمیان پایا جبکہ 10 فیصد لوگ انڈرمیٹرک تھے۔ یہ تمام لوگ زیادہ تر پہلی نسل جو برطانیہ میںمقیم ہوئی اس میں سے تھے۔ اگرچہ تعلیم برطانیہ میں مقیم ہر شہری کے لیے ضروری ہے لیکن بہت سے برطانوی نژاد پاکستانی بچے سکول جانے کے باوجود اَن پڑھ رہتے ہیں۔ وہ خوش نصیب جو جی سی ایس ای تک تعلیم مکمل کر لیتے ہیں، اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

جی سی ایس ای (GCSE) برطانوی نظام میںابتدائی تعلیم کا درجہ رکھتی ہے۔ 78 فیصد برطانوی نژاد پاکستانی لڑکے اور 67 فیصد لڑکیاں اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے سے قاصر ہیں۔ نتیجتاً لڑکے اور لڑکیاں بمشکل روزگار حاصل کرتے ہیں۔ صرف 7 فیصد یونیورسٹی ڈگری حاصل کرتے ہیں۔ تقریباً 40 فیصد لڑکیاں اور 27 فیصد لڑکے اَن پڑھ رہتے ہیں۔

سماجی روابط میں رکاوٹیں
برطانوی پارلیمنٹ کے چاروںمسلمان ممبران کا تعلق پاکستانیوں سے ہے۔ پاکستانی نژاد برطانوی لوگوں کے برطانیہ میںکافی کاروبار ہیں۔ تقریباً 100 سے زیادہ کروڑپتی پاکستانی نژا برطانیہ میں مقیم ہیںلیکن سماجی روابط میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔

پاکستانی نژاد برطانوی لوگوں کا جو رویہ وہاں کے معاشرے کے متعلق ہے، اس کے بارے میں مشہور سائیکالوجسٹ تھامس رے نولڈ کہتے ہیں کہ برطانوی مسلمان اور خاص طور پر پاکستانی برطانوی معاشرہ سے علیحدہ رہتے ہیں اور نہ ہی وہ اس میں شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ برطانوی اقدار اور رسم و رواج کی پیروی کریں۔ انھوں نے کہا کہ برطانوی مسلمانوں نے اپنا معاشرہ قائم کیا ہوا ہے۔ جو مسلمان گذشتہ 50 سالوں سے برطانیہ میںرہ رہے ہیں، وہ اب بھی برطانوی معاشرے کا حصہ نہیں بن سکے۔

ا۔ زبان
پاکستانی نژاد برطانوی اردو زبان بولتے ہیں۔ پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی بھی بولتے ہیں۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ گھروں میں مادری زبان بولتے ہیں نہ کہ برطانوی زبان۔ جب پہلی نسل کے خاندان اپنی ضروریات زندگی کے لیے برطانیہ میں آباد ہوئے تو تعلیم کی کمی اور انگریزی نہ جاننے سے ان کو بہت مشکلات پیش آئیں۔ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد جو مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) اور مغربی پاکستان سے Arranged Marriages کے بعد برطانیہ میں آئیں وہ انگریزی زبان سے بالکل ناآشنا تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی سماجی سرگرمیاں اپنے پڑوس کے ایشائی لوگوں تک محدود رہیں۔ بریڈفورڈ میں ایسے لوگوں کی کثیر تعداد انگریزی سے ناآشنا ہے۔مغربی یارکشائر کے ایک علاقے سے رکن پارلیمنٹ این کرائر اولڈہام، برن لے اور بریڈ فورڈ کے 2001ء کے نسلی فسادات سے، جن کی وجہ کچھ علاقوں میں مخصوص نسل کے لوگوں کی کثرت بتائی گئی، مسلمان خواتین کے انگریزی نہ بول سکنے کے مسئلے کو اٹھاتی چلی آ رہی ہیں۔ این کرائر کا کہنا ہے کہ خواتین کی شادی کے بعد ان کے نئے رشتہ دار جان بوجھ کر ان کو انگریزی زبان سے دور رکھتے تھے۔ چنانچہ بچے بھی سکول کی تعلیم انگریزی زبان کی آشنائی کے بغیر ہی شروع کرتے۔

ب۔ تعلیم
تعلیم کی کمی بھی سماجی روابط میں ایک اور بڑی رکاوٹ رہی ہے۔ اسی وجہ سے وہاں کے مسلمان صرف اپنے کاروبار سے ہی جڑے رہتے ہیں۔ ان کا رجحان میڈیسن، انجینئرنگ اور قانون کی تعلیم اور پیشوں کی طرف کے متعلق بہت کم ہوتا ہے۔ پہلی نسل کے مسلمان جدید علم سے ناآشنا تھے لیکن انھوں نے اپنے بچوں کو بھی اس طرف مائل نہیںکیا۔ مزید برآں بہت سے لوگوں نے اپنے بچوں کو برطانوی مدرسوں میں بھیجنا شروع کیا۔ نتیجتاً نئی نسل نے اپنی معاشی ضروریات کو پوراکرنے کے لیے اپنے والدین کے کاروبار میںمدد کی۔ جس کی وجہ سے وہ برطانوی معاشرے کا حصہ نہ بن سکے۔

ج۔ مذہب
پاکستانی نژاد برطانویوں کے لیے برطانوی سماج میں سمانے میں مذہب بھی ایک بڑی رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمان علماء کی قدامت پسندانہ سوچ وہاں کے مسلمان باسیوں کے لیے ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ظاہراً وہ سمجھتے ہیںکہ میزبان معاشرے سے میل جول ان کے مذہب اور اعتقاد سے متصادم ہے اور یہ ان کے لیے نقصان دہ ہے۔ دوسری طرف 9/11 کے بعد دہشت گردی کی لہر نے پاکستانی نژاد مسلمانوں کے لیے ایک خطرناک اشارہ دیا ہے۔ 9/11 کے بعد پاکستانی نوجوانوں پر نسل پرستی کے حملوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ صرف مسلمان نوجوانوں کو روک کر ان کی تلاشی لی جاتی ہے۔ اس طرزِ عمل نے مسلمانوں پر بہت برااثر ڈالا۔ برطانوی مسلمان اپنے آپ کو اس صورتحال میں بہت مشکل میں محسوس کر رہے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے روزگار اور سماجی زندگی پر برے اثرات پڑیں۔

شناخت کا بحران اور روےّوں کی تشکیل
پاکستانی نژاد برطانوی ،برطانوی معاشرہ میں کیا مقام رکھتے ہیں؟ کیا لوگ پاکستانی نژاد برطانوی ' کی اصطلاح ترجیحاً استعمال کرتے ہیں؟ کیا ان کی کوئی منفرد شناخت ہے؟ ان کی شناخت کی بنیاد کیا چیزیں ہیں؟

مختلف عوامل کی وجہ سے برطانوی معاشرے میں ادغام سے خوفزدہ یہ پاکستانی اب اپنے نظریات میں اور زیادہ سخت ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ دونوں کو مسترد کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ دونوں ا ن پر برے اثرات ڈال رہے ہیں۔پاکستانی نژاد برطانویوں سے کیے گئے پپس (PIPS) کے سروے کے دوران 34 فیصد جواب دہندگان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت کی کہ دہشت گردی مسلمانوں کو بدنام کر رہی ہے، اور برطانیہ میں ان کی شناخت کو متاثر کر رہی ہے، 44 فیصد نے اس جنگ کو یکطرفہ قرار دیتے ہوئے رد کیا جبکہ 22 فیصد نے اپنی رائے محفوظ رکھی۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک اہم اتحادی ہونے کے حوالے سے برطانوی خارجہ پالیسی پر پاکستانی نژاد برطانویوں کی رائے منقسم نظر آتی ہے۔ 34 فیصد نے اس کی حمایت کی، 30 فیصد نے مخالفت اور 36 فیصد نے سوال کا جواب نہیں دیا۔ وہ سمجھتے ہیںکہ دہشت گردی کی جنگ نے ان کے امیج اور شناخت کو بہت متاثر کیا ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے وہ سمجھتے ہیںکہ لوگ ان کو دہشت گرد سمجھتے ہیں۔ برطانوی معاشرے میںمسلمانوں کے لیے دہشت گردی کے حوالے سے تقویت پکڑنے والے تاثرات نے پاکستانی نژاد برطانیوں کو برطانوی معاشرے سے اور دور کر دیا۔نتیجتاً برطانوی مسلمانوں نے 9/11 کے بعد اجتماعی شناخت پر بہت زیادہ زور دیا۔ نسل پرستی اور علاقائی بنیادوں سے ہٹ کر مسلمانوں نے مشترکہ مذہبی اعتقاد پر اپنی شناخت کو تعمیر کرنے کی خواہش ظاہرکی۔ پاکستانی نژاد برطانویوں کی ایک بڑی تعداد مذہب کے اور زیادہ قریب ہو گئی۔ انھوں نے برطانوی ثقافت کی اقدار جو ان کے مذہب سے متصادم نہیں تھیں، ان کو ترک کر دیا۔ انھوں نے مذہبی اعتقادکو سخت گیر طریقہ سے اپنایا جومنطقی دنیا کے لیے ایک منفی جواب تھا۔

پپس (PIPS)سروے نے یہ بھی بتایا کہ میرپور کے لوگوں سے کیے گئے مطالعے نے یونس عالم اور چارلس ہسبینڈ تحقیقی مطالعے کے نتیجے کو سپورٹ کیا ہے کہ اسلام برطانوی نوآبادکار مسلمانوں کی سیاسی، اخلاقی اور روحانی تعلیمات کا بنیادی جزو ہے۔ یونس عالم اور چارلس ہسبینڈ نے 25 جواب دہندگان جو 16 سے 38 سال کی عمر کے برطانوی نژاد پاکستانی جو بریڈفورڈ کے رہنے والے تھے، ان سے انٹرویو اور سروے کے بعد اس نتیجے کو رقم کیا تھا۔

تاہم پپس (PIPS) کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی کہ مذہب کُلی طور پر پاکستانی نژاد برطانویوں کی زندگیوں کامحور نہیں ہے بلکہ ان کے سماجی اور ثقافتی رویوں پر اثرانداز ہونے والے دیگر عوامل میں ان کا سماجی و ثقافتی پس منظر، سماجی روابط میں موجود رکاوٹیں، تعلیمی اور معاشی پس ماندگی، سیاسی خلوت اور برطانوی حکومت کی طرف سے ان کے معاشرتی ادغام کی خاطرخواہ کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہیں۔ موجودہ دہشت گردی کی جنگ نے ان کے نظریات کو اور زیادہ پختہ کر دیا ہے۔ اگرچہ اس کے اثرات انفرادی طور پرمختلف ہیں۔

ا۔ سماجی، ثقافتی اور نفسیاتی تناظرمیں
پپس (PIPS)کی تحقیق کے مطابق بہت سے پاکستانی نژاد برطانوی برطانوی قانون کو پسند کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ برطانوی معاشرے میں سمانے کے بغیر ترقی اور خوشحالی کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔ لیکن نوجوان بہت سے سماجی مشکلات کا شکار ہیں۔ تعلیم اور لیبرمارکیٹ میں نوجوانوں کا کردار معیار کے مطابق نہیں۔

برطانیہ میں سماجی اور ثقافتی مشکلات کے متعلق 36 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ کسی بھی قسم کی مشکلات کا شکار نہیں ہیں۔ 38 فیصد نے کہا کہ ان کو سماجی مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ 26 فیصد نے جواب نہیں دیا۔ جواب دہندگان کی اکثریت نے کہا کہ برطانوی معاشرہ کی اقدار شاید ان کے لیے رکاوٹ نہیں ہیں بلکہ ان کے سماجی، ثقافتی نظریات اور برطانوی معاشرہ سے بچنے کا خوف سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

(i)آبائی وطن اور ثقافت سے وابستگی
پاکستانی نژاد برطانویوں کی ذہنی شناخت اور اس کی تشکیل کو ان کے آبائی وطن کی سماجیات، ثقافت اور نفسیات سے بہتر طریقہ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ انھوں نے اپنے آبائی علاقوں سے مضبوط تعلق جوڑے رکھا۔ یہ لوگ اپنے آبائی علاقوں کی سیاسی، مذہبی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ ہر برطانوی نژاد کا میرپور میں خوبصورت گھر اور اس میں ہر طرح کی آسائش ہے۔ یہ پُرتعیش گھر یا تو خالی یا پھر ان میں سمندر پار پاکستانیوں کے رشتہ دار رہ رہے ہیں(تفصیلات کے لیے گذشتہ شمارے میںاس مطالعہ کا پہلا حصہ ملاحظہ کیجیے)۔ سمندر پار پاکستانی وقفے وقفے سے میرپور آتے جاتے رہتے ہیں ۔

(ii) جنریشن گیپ
جواب دہندگان نے کہا نئی نسل اپنے آباء و اجداد کی ثقافتی اور سماجی اقدار سے دور ہٹ رہی ہے۔ 48 فیصد جواب دہندگان اپنی اولاد کے رویے سے ناخوش تھے۔ جبکہ 18 فیصد نے اس کو فطری عمل قرار دیا۔ 34فیصد نے اس کا جواب نہیں دیا۔ تقریباً 32 فیصد نے اس سوال کا جواب دینے سے بھی انکار کر دیا کہ وہ اپنی سماجی اور ثقافتی اقدار کو اپنائے ہوئے ہیںیا نہیں۔ 52فیصد نے کہا کہ وہ اپنی ثقافت کوسنبھالے ہوئے ہیں۔ 12فیصد نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کر سکے ہیں۔ یہ کسی نے نہیں کہا کہ وہ اپنی سماجی اور ثقافتی اقدار کو پسند نہیں کرتے۔

نئی نسل کی سوچ دو سماجی سانچوں کی وجہ سے منقسم ہے۔ ایک برطانوی سماجی سیٹ اَپ اور دوسرا ان کے والدین کی طرف سے دبائو۔ نئی نسل دوسرے ایشیائی لوگوں کو سخت محنت اور برطانوی سماج میں سما جانے کی وجہ سے ان کی زندگی کو کامیاب سمجھتی ہے جوپُرتعیش زندگی گزارتے ہیں۔ اس نظریہ کی وجہ سے نئی نسل اور ان کے اسلاف کی سوچ متصادم ہے۔ وہ سکولز، مساجد اور گھروں میں منقسم رہتے ہیں۔ آج برطانیہ میں بچے اور والدین پریشان ہیں۔ والدین بچوں کو تعلیم پر دھیان پر زور دیتے ہیں۔ وہ بُری صحبت سے بچنے کی تلقین بھی کرتے ہیں لیکن بچے برطانوی معاشرے میں نشوونما پاتے ہیں۔ ٹی وی ، سیٹلائٹ اور ڈراما ان کو برطانوی کلچر کی جانب مائل کرتا ہے۔ جبکہ ان کے آبائو اجداد ان کو ان چیزوں سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

(iii) تعصب
پپس (PIPS)کی تحقیق کے مطابق زیادہ تر پاکستانی نژاد برطانوی نسلی تعصب کو برطانوی معاشرے میںان کے ادغام میںرکاوٹ نہیں سمجھتے۔ 54 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ برطانوی معاشرے میں کوئی نسلی تعصب نہیں ہے۔ 34 فیصد نے نسلی تعصب کو تسلیم کیا جبکہ 12 فیصد نے جواب نہیں دیا۔

تاہم پاکستانی نژاد برطانوی برطانوی حکومت کے رویے کو ایک بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اکثریت کے نزدیک مسلمانوں کو درجہ دوم کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے سماجی نفوذ پذیری میں مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیںکہ ان کو مخصوص علاقے میں رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کو اپنی کمیونٹی کے سکولوں میں بھیج سکیں۔ پاکستانی نژاد برطانوی خورشید احمد نے کہا ''اگر ہمارے بچے برطانوی جھنڈے کو برمنگھم میں سڑک پر جلاتے ہیں یا پھر پاکستانی جھنڈے کے ساتھ مارچ کرتے ہیں تو یہ اقدام نفرت اور اشتعال انگیزی کا سبب بنتے ہیں۔ درحقیقت برطانوی معاشرہ تعصب سے بھرا پڑا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کے ساتھ مساویانہ سلوک نہیں کیا جاتا۔ ان کو مساویانہ سہولتیں نہیں دی جاتیں۔ مسلمان گریجویٹس کو پانچ یا پانچ سے زائد انٹرویوز کے بعد بھی نوکری کے لیے نہیں چنا جاتا جبکہ دوسرے گریجویٹس کو فوراً نوکری مل جاتی ہے۔ مسلمانوںکو اپنی ایجوکیشن مزید بہتر کرنے کے لیے تجاویز دے دی جاتی ہیں۔ ان حالات میں والدین اپنے بچوں کو ٹیکسی چلانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہمارے پی ایچ ڈی جوان برمنگھم اور بریڈفورڈ کی سڑکوں پر گاڑیاں چلاتے ہیں۔''

محمد طارق جو لارڈ نذیر کے چھوٹے بھائی ہیں، ان کا کہنا تھا جب بڑے بچے نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیںتو ان کے چھوٹے بھائی تعلیم میں توجہ کم کر دیتے ہیں۔ بہت سے طلبہ مجرمانہ اور ڈرگ مافیا کی سرگرمیوں میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نسلی تعصب 9/11 اور 7/7 کے واقعات کے بعد بہت پروان چڑھا ہے۔ انھوں نے کہا اپنی داڑھی کی وجہ سے میں نے کئی مرتبہ ناروا سلوک کا سامنا کیا۔

میڈیا کا کردار
برطانوی پرنٹ میڈیا نے بھی برطانوی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو محسوس کیا ہے۔ کچھ لکھاری بھی اس مسئلے پر روشنی ڈالتے رہتے ہیں۔ 2فروری 2007 کو گارڈین اخبار میں چھپنے والے ایک مضمون میں کہا گیا کہ برطانیہ میں آج مسلمانوں کو اسی تعصب اور امتیازی سلوک کا سامنا ہے جو کئی سال پہلے یہودی قوم نے دیکھا تھا۔کچھ لوگ برطانوی میڈیا پر نسلی تعصب کا الزام بھی لگاتے ہیں۔ تھامس رے نولڈ کے مطابق جب پاکستانی نژاد برطانوی جب کسی مشکل حالات سے دوچار ہوتے ہیں وہ میڈیا کے ذریعے اپنی مشکلات کا اظہار نہیں کرسکتے۔ اس وجہ سے صحافیوں کو من گھڑت کہانیاں بنانے کا موقع مل جاتا ہے جس سے برطانوی پاکستانیوں کا تاثر اور خراب ہوتاہے۔

ب۔ مذہبی تناظر
تقریباً 70 فیصد میرپور کے باشندے بیرون ملک خاص طور پر برطانیہ میں آباد ہیں۔ یہ لوگ مذہب سے بہت پیار کرتے ہیں اور اپنے بچوں کو اسلامی تعلیمات کی پیروی کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ صوفیائے کرام اور پیری مریدی پر یقین رکھتے ہیں۔ سروے کے دوران کچھ لوگوں نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کوبرطانوی معاشرے میں مذہب کی پیروی کرنے کے لیے مجبور نہیں کرتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی شکایت کی کہ نئی نسل کا رجحان مذہب کی طرف کم ہے۔ اگر نئی نسل کی اچھے طریقے سے مذہب سے رہنمائی نہ کی جائے تو وہ برطانوی ثقافت سے تھک جاتے ہیں اور ممکن ہے کہ ان کا رجحان متشدد اسلامی فرقوں کی طرف ہو جائے۔
پالیسی ایکسچینج کی ایک رپورٹ نے برطانوی نژاد مسلم نوجوانوں کے سماجی اور سیاسی مسائل پر سخت گیر مؤقف اپنانے کی نشاندہی کی ہے۔ حزب التحریر اور المھاجرون برطانوی نژاد مسلمان نوجوانوں میںبہت مقبول ہو رہی ہیں۔ یہ گروپ بے روزگار برطانوی نژاد مسلمانوں میں بے چینی پھیلانے کے ذمہ دار بھی گردانے جاتے ہیں۔ برطانیہ میں حزب التحریر کے 6 مشہور رہنما میرپور کے ضلع سے ہیں۔

کانگریشنل ریسرچ سروس (CRS)کی ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی اکثریت جو یورپ میں آباد ہے وہ شدت پسند سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہے تاہم مسلمان کمیونٹی میں بیانات کی حد تک شدت پسندوں کی حمایت موجود ہے۔ مسلمانوں کی یہ بڑی اکثریت شدت پسندی کو درست کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ 2005ء کے وسط میں برطانوی وزیراعظم نے اعتدال پسند مسلمانوں کے رہنما ؤںسے ملاقات کے دوران اس بات پر اتفاق کیا کہ ایک ٹاسک فورس قائم کی جائے جو شدت پسندی کے خلاف اقدامات کرے۔

پپس (PIPS)سروے (CRS) کی رپورٹ کو سپورٹ کرتا ہے۔ فیلڈ ریسرچ کے دوران برطانیہ میںمقیم میرپور کے لوگوں میں 64 فیصد اعتدال پسنداور 16 فیصد شدت پسند پائے گئے۔ نوجوانوںمیں باوجود اس کے کہ ایک بڑی تعداد اعتدال پسندوں کی ہے لیکن مذہبی شدت پسند علماء نوجوانوں میں شدت پسندی کابیج بو رہے ہیں۔

(i)۔ علماء کا کردار
بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ دوسری اور تیسری نسل کے کچھ مسلمان نوجوان اپنے آپ کو برطانوی معاشرے سے دور کرتے جا رہے ہیںکیونکہ وہ معاشرہ ان کوقبول نہیں کرتا۔ وہ اسلام کی طرف رجوع کرتے ہیں او رمذہب کو ثقافتی شناخت کے طور پر استعمال کرتے ہیں او رتب وہ مذہبی جنونیوں کے ہاتھوں چڑھ کر شدت پسند ہو جاتے ہیں۔

بہت سے مذہبی علما جو برطانیہ میں مسجدوں کو کنٹرول کرتے ہیں وہ مسلمان ممالک سے آتے ہیں۔ 1500 مساجد کو پاکستانی علماء کنٹرول کرتے ہیں۔ ان امام اور خطیبوں کا تعلق دیوبندی اور بریلوی مکتبہ فکر سے ہے۔ لارڈ نذیر نے ایک TV انٹرویو میں کہا کہ یہ علماء عام طور پر پنجابی اور اردو میں جمعہ کا خطبہ دیتے ہیں۔ برطانوی نژاد مسلمانوں کی نئی نسل علماء کے خطبوںکو سمجھنے سے قاصر ہے۔

مساجد سے باہر جب نئی نسل کے مسلمان حزب التحریر اور المھاجرون کے اراکین کے ساتھ ملتے ہیں تو وہ بہت آسانی محسوس کرتے ہیں کیونکہ ان گروپوں کے اراکین انگریزی زبان سے اچھی طرح واقف ہیں۔ ان گروپوں کے اراکین لٹریچر تقسیم کرتے ہیں اور نوجوانوں کو ان کے دفاتر آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ کچھ نوجوان ان کے نظریات سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کی تنظیموں کاحصہ بن جاتے ہیں۔

صوفی محمد بشیر نے کہا کہ ہمارے علما کے پاس تعلیم کی کمی ہے۔ وہ صرف قرآن پاک کے حفظ کے متعلق جانتے ہیں۔ کاش وہ انگریزی زبان کے ماہر ہوتے اور ہمارے بچے ان سے بہت کچھ سیکھتے۔ شدت پسندی کے متعلق، بچوں کی دماغ شوئی (Brain Wash) کو روکنا بہت ضروری ہے۔ برطانوی حکومت کو چاہیے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور روشن خیال علماء کو وقتاً فوقتاً مسلمان نوجوانوں سے خطاب کے لیے بلائے۔

چوہدری پرویز اختر نے کہا کہ کچھ اہل حدیث علما نے سعودی عرب سے گرین لینڈ مسجد جو سمال ہیتھ (Small Heath) برمنگھم میں واقع ہے کا دورہ کیا اور برطانوی معاشرے کو تباہ کرنے کا اشتعال دیا۔ مثال کے طور پر انھوں نے ایک فتویٰ دیا ہے کہ ایک مسلمان جو برطانوی فوج کی طرف سے افغانستان میں لڑ کر مرا ہے وہ مرتد ہے۔ کیونکہ وہ مسلمانوں کے خلاف لڑ رہا تھا۔ عرب علماء نے ہم جنس پرستی(homosexuality) کے لیے سزائے موت کا اعلان کیا ہے۔ وہ مرد مسلمانوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی عورتوں کو حجاب پہننے کی ترغیب دیں۔ اگر عورتیں حکم پر عمل نہیں کرتیں تو ان کو زبردستی نقاب پہنائیں۔ پرویز اختر کہتے ہیں کہ نئی نسل سعودی علماء سے بہت متاثر ہے کیونکہ وہ انگریزی زبان میں درس دیتے ہیں۔

عمران حسین چودھری اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ برطانیہ مغربی ممالک میں سے سب سے زیادہ مذہبی آزادی دیتا ہے۔ لیکن ہمارے کچھ علما اس آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی بریلوی مکتبہ فکر کے عالم کو دہشت گردی یا اس سے متعلق کسی سرگرمی میں ملوث نہیں پایاگیا۔ بلکہ دیوبندی اور اہل حدیث علما اشتعال انگیز تقاریر کرتے ہیں۔ ان کا تعلق بھی پاکستانی دہشت گرد تنظیموں سے ہوتا ہے۔

(ii) اسلام کا خوف
جدید برطانوی معاشرے میں اسلام کے خوف(Islamophobia) سے متعلق سب سے پہلی رپورٹ 1997 میں رنے میڈی ٹرسٹ (Runnymede Trust) نے منظرعام پر لائی۔پاکستانی نژاد برطانوی برطانیہ میں چلنے والی نقاب سے متعلق بحث کو بھی برطانوی معاشرے میں اسلام سے خوف کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ جبکہ برطانیہ میں جو عورتیںنقاب پہنتی ہیں زیادہ تر برطانوی ان کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ وہ برطانوی معاشرے کو رد کر رہی ہیں اور اپنی مخصوص نسلی شناخت بنا رہی ہیں۔

پاکستانی نژاد برطانویوں کا مذہب سے لگائو اگرچہ ایک جیسا نہیںہے لیکن کم سے کم سطح پر بھی یہ موجود ضرور ہے۔ اسلام کے ڈر نے اسلامی حساسیت کو نوجوان افراد کے گروہ میں اجاگر کیا۔ جو شاید ان کے آباء و اجداد کی نسل میں نہیں تھی۔ اس تناظر کی قانونی حیثیت وہ اجتماعی طور پر تصور کر لیتے ہیں۔ برطانوی معاشرے میں اتصال کی امید ایک بیوقوفانہ امید ہے۔ اسلام کا عمل دخل سیاسی روحانی اور عملی دنیا میںروزانہ ہوتا ہے۔ فیملی اتھارٹی کا کمزور ہونا، ثقافتی اور گھر کی ذمہ داریوں سے مبرّا ہونا برطانوی معاشرے میں خلا پیدا کر رہا ہے۔ اور اس خلا میں متنوع ذاتی مصروفیات اسلام کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہیں۔

(iii) جہاد کی بنیادیں
برطانوی معاشرے میں جہاں کی بنیادیں سوویت یونین کے افغانستان پر حملہ کے وقت سے موجود ہیں۔ جب برطانیہ بھی مسلمان مجاہدین کی حمایت کرنے والے ملکوں میںشامل تھا۔ مذہبی گروہوں کو برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں جہاد فنڈ اور دوسری سرگرمیاں پھیلانے کا موقع ملا۔ افغانستان جنگ کے دوران، جہادیوں نے برطانیہ میں جہاد کی تبلیغ کے لیے بھی تگ و دو کی۔ 1995ء کے اواخر تک افغان اور پاکستان جہادی گروہ جہادی چندے کے لیے اپنے نیٹ ورک چلاتے رہے۔ جہادی لٹریچر اور پبلی کیشنز مسلمان آبادیوں میں آسانی سے مل جاتے تھے۔

کوئی جامع ڈیٹا جو جہادی گروہوں کے متعلق ہو یا پھر برطانوی مسلمانوں کے جہاد میں شامل ہونے کا ہو نہیںملتا لیکن اس کے کچھ اشارے اور کنایے ایسے ہیں جو جہادی میڈیا سے ملتے ہیں۔ حرکت الجہاد اسلامی سب سے بڑی تحریک سمجھی جاتی ہے جو اس بات کا دعویٰ کرتی ہے کہ چھ برطانوی مسلمانوں نے اس جہادی گروپ کے پلیٹ فارم سے شہادت کا رتبہ حاصل کیا۔

جہادی رہنما برطانیہ کا باقاعدہ دورہ کرتے تھے اور ان کے دورے کی تفصیل جہادی میڈیا کی کی تصانیف میںموجود ہے۔ لیکن اب صورتحال مختلف دکھائی دیتی ہے۔ پاکستانی نژاد برطانوی اپنے آپ کو جہاد سے جڑا ہوا محسوس نہیں کرتے اور نہ ہی اس میں متحرک ہونے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ دوران انٹرویو 69 فیصد جواب دہندگان نے جہادی تنظیموں سے تعلقات کا انکار کیا اور ان کو چندہ دینے میں بھی شامل نہیں تھے۔ صرف 4 فیصد جواب دہندگان ایسے تھے جن کا جہادی تنظیموں سے چندے کی حد تک تعلق تھا۔

( iv) مذہبی جماعتوں اور شدت پسند گروہوںکاکردار
پاکستانی نژاد برطانوی اگرچہ جہادی تنظیموں سے جڑے ہوئے نہیں ہیں لیکن وہ مذہبی جماعتوں سے کسی طور پر جدا نہیں۔ 30 فیصد جواب دہندگان کا کسی نہ کسی مذہبی جماعت سے تعلق تھا ۔

پاکستانی مذہبی جماعتوں کی ایک بڑی تعداد کا برطانیہ میں بھی نیٹ ورک ہے۔ یہ مذہبی جماعتیں برطانیہ میں چھوٹی تنظیمیں، مذہبی سکول اور خیراتی ادارے چلاتی ہیں۔ یہ مذہبی جماعتیں بین الاقوامی اسلامی گروہوں اور خیراتی اداروں کے ساتھ منسلک ہیں جن کا ایک بین الاقوامی ایجنڈا ہے۔ تقریباً 150 مذہبی جماعتیں اور خیراتی ادارے برطانیہ میں متحرک ہیں جو برطانوی نژاد پاکستانیوں نے قائم کیے ہیں۔

دیوبندی مذہبی سیاسی جماعتیں برطانیہ میں بہت متحرک ہیں جو جہادی، ویلفیئر اور سیاسی سرگرمیوں کے لیے چندہ اکٹھا کرتی ہیں۔ پاکستان سلفی تحریک برطانیہ میں بڑی تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اور اس تحریک میں بین الاقوامی روابط ہیں جیسا کہ اس کا تعلق اخوان المسلمین (Muslim Brotherhood) کے ساتھ بھی ہے۔ مرکزی اہل حدیث اور اس سے جڑی ہوئی چھوٹی جماعتیں لندن اور برمنگھم میںبہت متحرک ہیں۔

بریلوی مکتب فکر برطانیہ میں سب سے زیادہ مشہور ہے اور یہ 70 سے زائد گروہوں میں بٹا ہوا ہے۔ ان میں تفریق شدت پسند گروہوں خاص طور پر نوجوانوں کے لیے خلا مہیا کر رہی ہے۔ کچھ بریلوی تنظیمیں کشمیر میں قائم جہادی تنظیموں کے لیے چندہ اکٹھا کرتی ہیں اور ان کی معاشی معاونت کرتی ہیں۔
حزب التحریر جو سیاسی تحریک ہے یورپ، مشرق وسطیٰ، بنگلہ دیش، وسطی ایشیا اوردوسرے علاقوںمیںمتحرک ہے۔ اس تنظیم کی نظریاتی اساس اسلامی خلافت کے ایک نظریہ پر قائم ہے جو اخوان المسلمین کے ایک رکن تقی الدین النبھانی نے 1950ء میں متعارف کروایا تھا۔ حزب التحریر جمہوریت کی سخت مخالفت کرتی ہے۔ برطانیہ میں اس پرپابندی کے باوجود یہ بہت متحرک ہے۔ یہ تنظیم یقین رکھتی ہے کہ مسلمان نوجوانوں میں شدت پسندی دہشت گردی کا سبب بنتی ہے۔

جن نوجوانوں نے 7/7 کے واقعات میں حصہ لیا یا اس سازش کا حصہ تھے ان کا تعلق کسی حد تک غیر متشدد اسلامی تنظیموں سے تھا۔ القاعدہ، حزب اللہ، حماس، طالبان اور کشمیری شدت پسندوں کے تعلقات مستقبل میں ممکنہ دہشت گردی کا سبب بن سکتے ہیں۔ پاکستانی نژاد برطانویوں کی نئی نسلوں میں شدت پسندی کی مختلف حالتیں تیزی کے ساتھ ابھر رہی ہیں۔ تاہم یہ حالتیں مختلف ہیں۔ کیونکہ ان کے نظریات، سیاسی مقاصد اور طریقہ کار اور تنظیمیںمختلف ہیں۔

(iv)کشمیر
برطانیہ میں آباد پاکستانیوں میں ایک بڑی تعداد کشمیر کے لوگوں کی ہے۔ کشمیر پاکستان اور انڈیا کے درمیان تقسیم شدہ متنازعہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ کشمیر میں بھارتی قبضہ کے خلاف گوریلا جنگ جاری ہے۔ یہ پاکستانی خاص طور پر کشمیری کشمیر ایشو کے ساتھ خاص جذباتی لگائو رکھتے ہیں۔ پپس (PIPS)کے سروے کے مطابق 64 فیصد جواب دہندگان نے بات چیت کے ذریعے امن پسندانہ حل کی طرف داری کی ہے۔ 18 فیصد نے پاکستان کے لائحۂ عمل کی حمایت کی اور 4 فیصد نے جہاد کے ذریعے حل نکالنے کا مشورہ دیا ہے۔ 16 فیصد نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ج۔ سیاسی تناظر
پاکستانی نژاد برطانویوں کی سیاسی شناخت بھی اپنے آبائی اور میزبان ملک کے درمیان تقسیم ہے۔ وہ دو نظریاتی گروپوں میں تقسیم ہیں۔ ان میں سے ایک سیاست اور ریاستی اداروں میں نمائندگی لینے کو جائز سمجھتا ہے۔ جبکہ دوسرا گروپ ریاستی اداروں سے دوری رکھتا اور سیاسی طور پر اپنے آپ کو اکیلا تصورکرتا ہے۔ یہ گروپ مذہبی جماعتوں اور تنظیموں میں شمولیت کو ترجیح دیتا ہے۔ پیٹر اور برین (Peter O'Brien) تجویز کرتا ہے کہ مسلمانوں کو ان کے تمام سیاسی حقوق دیے جانے چاہئیں تاکہ وہ لبرل بن جائیں۔

بہت سے برطانوی مسلمان امریکی مسلمانوں سے اپنے آپ کو اچھی حالت میں سمجھتے ہیں۔ پپس (PIPS) سروے کے دوران بہت سے جواب دہندگان نے کہا کہ مسلمانوں کے مسائل کی خاطر ان کو سیاست میں حصہ لینے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ مکمل طور پر آزاد ہیں۔ اگر وہ متحرک ہوں تو سیاسی پارٹیوں میں اپنی پوزیشن بہتر بنا سکتے ہیں۔ ان کو سبقت لے جانے کے کافی مواقع میسر ہیں۔ جواب دہندگان نے کہا کہ اس کے لیے کافی اضافی وقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ برطانوی سیاسی جماعتوں کے علاوہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کے حلقے بھی برطانیہ میں موجود ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستانی نژاد برطانوی سیاسی طور پر تقسیم ہیں۔

(i) پاکستانی نژاد برطانوی مسلمانوں کا برطانوی سیاست میں کردار
پاکستانی نژاد برطانوی مقامی اور قومی سطح پر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ وہ لیبر پارٹی، کنزرویٹو پارٹی اور ٹوری پارٹی کے ساتھ منسلک ہیں۔ لیبر پارٹی ان میںسب سے زیادہ مقبول ہے۔ کچھ پاکستانی نژاد سرگرم سیاسی کارکنوں نے پپس (PIPS)کو بتایا کہ انھوں نے سیاست میں اس لیے شرکت کی تاکہ اپنی کمیونٹی کے حقوق کا تحفظ کر سکیں اور اپنی مشکلات اتھارٹی تک پہنچا سکیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ پاکستانی نژاد لوگوں کو وہاں کے مقامی معاشرے میں جذب کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ 56 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ برطانوی سیاسی جماعتوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ 34 فیصد جواب دہندگان نے منفی میں جواب دیا اور 10 فیصد نے جواب نہیں دیا۔
 
محمد سرور پہلے پاکستانی ہیں جو گلاسگو سے برطانوی پارلیمنٹ کے لیے منتخب ہوئے۔ آخری انتخابات میں تین پاکستانی خالد محمود، شاہد ملک اور صادق خان پارلیمنٹ کے ممبر بنے جبکہ نذیر احمد جو میرپور کے رہنے والے ساری زندگی کے لیے ہائوس آف لارڈز کے ممبر بنے۔ ایک کثیر تعداد میں پاکستانی لوکل ممبر اور میئر منتخب ہوئے ہیں۔ ایک درجن سے زیادہ پاکستانی اور کشمیری کونسلرز بریڈ فورڈ کونسل کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔

محمد عجائب پاکستانی نژاد برطانوی 1985ء میں بریڈفورڈ کے لارڈ میئر منتخب ہوئے۔ 9/11 اور 7/7 کے واقعات کے بعد پاکستانی نژاد برطانوی مسلمان سیاست سے جدا نظر آئے۔ محمد طارق کا تعلق لیبر پارٹی سے ہے اور سیاسی سرگرمیوں میں بہت متحرک ہیں۔ انھوں نے کہا میں سیاست میں کافی متحرک تھا لیکن 9/11 کے واقعات نے مجھے سیاست سے دلبرداشتہ کر دیا کیونکہ مسلمانوںکو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ میں ڈسٹرکٹ سنٹرل کمیٹی، مانیٹری کمیٹی، لوکل پولیس، گورننگ باڈی اور دوسری بہت سی کمیٹیوں کا ممبر رہا ہوں۔

(ii) آبائی سیاست سے تعلق
پپس (PIPS) سروے کے دوران میرپور کے 46 فیصد جواب دہندگان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی سیاسی جماعتوں کے ساتھ منسلک ہیں۔ 12 فیصد نے اپنی وابستگی بتانے سے انکار کر دیا جبکہ 42 فیصد نے کہا کہ ان کاتعلق سیاست سے نہیں۔ پاکستان اور آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کے دفاتر برطانیہ میں ہیں۔ لیکن وہ متحرک نہیں۔ سمندرپار کے لوگ پاکستانی سیاست میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاکستانی سیاست دان برطانوی دورے کے دوران زیادہ تر بریڈفورڈ میں ٹھہرتے ہیں۔ پاکستانی سیاست برادری نظام کے گرد گھومتی ہے۔ برطانیہ میں پاکستانی سیاسی پارٹیاں برادری کے سربراہ کے ساتھ رابطے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں کے لیڈر پاکستانی نژاد کمیونٹی کی بہت عزت کرتے ہیں۔ نہ صرف ان کی پرفارمنس پر بلکہ ان کی معاشی مدد کی وجہ سے ۔

(د) تعلیمی تناظر
برطانیہ میں ہونے والے (Ethnic Research Network) کے ایک حالیہ تحقیقی مطالعے کے مطابق پاکستانی نژاد برطانوی اپنے کاروبار پربہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ یہ واحد اقلیتی گروپ ہے جو اپنے کاروبار پر زیادہ زور دیتے ہیں۔2001-02 میں 20 فیصد پاکستانی نژاد برطانوی اپنے ذاتی کاروبار سے منسلک تھے۔ ہر 6 آدمیوں میں سے یا تو ایک آدمی ڈرائیور ہے یا پھر خانساماں۔ پپس (PIPS)سروے کے مطابق 66 فیصد جواب دہندگان نے کہا کہ وہ اپنا ذاتی کاروبار چلاتے ہیں۔ 24 فیصد نے کہا کہ وہ پرائیویٹ نوکری کرتے ہیں۔ 6 فیصد حکومت کی نوکری جبکہ 6 فیصد ریٹائرڈ آفیسر ہیں ۔

پاکستانی نژاد برطانوی حکومتی ملازمت میں بہت کم ہیں او رپرائیویٹ ملازمت میں بھی اچھی پوزیشن پر نہیں ہیں۔ یہ بات اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان برطانوی معاشرہ سے بہت دور ہیں۔ اس حقیقت سے پاکستانی نژاد برطانوی مسلمانوں کی معاشرتی شناخت کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔

اختتامیہ
میرپورسے برطانیہ میں مقیم پاکستانی زندگی کے ہر شعبہ میں برطانوی معاشرے سے بہت پیچھے ہیں۔ انھوں نے اپنے آبائی علاقوں سے سماجی ، ثقافتی اور سیاسی سطح پر بہت مضبوط تعلقات رکھے ہوئے ہیں۔ ان دونوں چیزوں نے برطانوی مسلمانوں کی معاشرتی اور ثقافتی شناخت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ نئی نسل برطانوی معاشرے میںکئی مسائل سے دوچار ہے۔ مثال کے طور پر گھر، مسجد اور سکول کے مسائل۔ تعلیم کی کمی اور پیشہ ورانہ تعلیم کے نہ ہونے کی وجہ سے وہاں کے مسلمانوں کو بہت کم مواقع میسر ہوتے ہیں۔ اور اس وجہ سے ان کو اور زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نئی نسل سماجی تفریق، سیاسی علیحدگی اور جنریشن گیپ جیسے مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔ شناخت کی تلاش میں وہ زیادہ شدت پسند ہوتے جا رہے ہیں جبکہ ان کے والدین اس طرح نہیں تھے۔

علما جو پاکستان سے برطانیہ جاتے ہیں ان کے کردار پر پاکستانی نژاد برطانوی بہت افسردہ ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان علما اور خطیبوں کو برطانیہ بھیجا جائے جو وہاں کے ماحول کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ اسلام کے خوف کا مطلب یہ نہیں کہ لوگ اسلام کے تمام پہلوئوں پر تنقید کرتے ہیں۔ مذہبی اور غیر مذہبی خیالات پر بحث کرنے کی ضرورت ہے۔ اور جو فرق ہیں ان کو نشر کیا جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ جو فرق ہیں ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھاجائے۔ پاکستانی نژاد برطانوی لوگوں کی اکثریت اعتدال پسند ہے اور حالات کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ برطانوی مسلمانوں میںشدت پسند عناصر بھی موجود ہیں۔ ان میں کچھ شدت پسند سرگرمیوں کی سپورٹ بھی کرتے ہیں لیکن ایسی سرگرمیوں کی وہاں کوئی جگہ نہیں۔ ایک اجتماعی اور منظم کوشش جو شدت پسندی طرز کو سمجھ سکے اور اسے روک سکے وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ حقیقت پسندانہ اور بروقت پالیسی بنانی چاہیے جو پاکستانی نژاد برطانوی مسلمانوں کو معاشرے کا حصہ بننے میں بھرپور مدد کرے۔ ایک ایسی پالیسی جو دہشت گردی اور شدت پسندی پر صرف بحث نہ کرے بلکہ اس کے خاتمے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔