Untitled Document
|
|
|
|
اگلا شمارہ |
 |
|
2008ء : پاکستان کے لیے ایک بدترین سال |
ادارہ
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز نے سالانہ سیکیورٹی رپورٹ 2008ء جاری کر دی ہے۔ یہ ادارے کی جانب سے مرتب کی جانے والی تیسری رپورٹ ہے۔ جو پاکستان میں جاری دہشت گردی اور تشددکا احاطہ کرتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آنے والا ہر سال پاکستان میں سیکیورٹی کے نئے چیلنج لے کر آتا ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ، جہادی گروپوں کی سرگرمیاں، بلوچستان میں باغیوں کی کارروائیاں اور خودکش حملے، یہ وہ تمام عوامل ہیں جن کے ذریعے 2008ء میں امن و امان کی صورت حال ناگفتہ بہ رہی۔ 26نومبر 2008ء کو ممبئی حملوں اور اس میں پاکستانی گروپ لشکرِطیبہ کی مبینہ مداخلت کے بعد حکومت پاکستان پر دبائو میں اضافہ ہوا ہے کہ پوری طاقت کے ذریعے دہشت گردی سے نمٹے۔ پوری عالمی برادری اور بالخصوص امریکہ کی نئی حکومت، پاکستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کو ایک چیلنج سمجھتی ہے۔ پاکستان کی نومنتخب حکومت بھی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں اور حکمت عملی پر یقین رکھتی ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے وسیع تر اقدامات اٹھائے ہیں اور اس مسئلہ پر یکجہتی پیدا کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بھی ہو چکا ہے مگر پارلیمنٹ نے جو مشترکہ قرارداد منظور کی تھی اس کے خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری اور حامد کرزئی دونوں ہی دہشت گردی کے خلاف وسیع تر کوششوں کا اعادہ کرتے آئے ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کی موجودہ صورتحال، افغانستان کے حالات سے وابستہ ہے۔ افغانستان میں مزید 30ہزار امریکی فوجیوں کی آمد سے دہشت گرد عناصر سرحد کے اُس پار سے اِس پار منتقل ہو رہے ہیں۔ ممبئی حملوں کے بعد امریکہ اور بھارت کی جانب سے پاکستان پر مزید دبائو آیا ہے کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف سختی سے نمٹے۔
پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کی سیکیورٹی رپورٹ نہ صرف دہشت گرد عناصر کی کارروائیوں، دہشت گرد گروہوں کے مختلف حربوں کا احاطہ کرتی ہے بلکہ دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کا بھی تذکرہ کرتی ہے جس سے نہ صرف صورتحال کا حقیقی ادراک ہوتا ہے بلکہ مستقبل میں اس خطرے سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا احاطہ کرنا کوئی آسان کام نہیں اور بالخصوص اس پیرائے میں کہ یہ کارروائیاں مختلف عوامل اور ماحول لیے ہوئے ہیں۔ القاعدہ اور طالبان عناصر ہوں یا نسلی و مذہبی تفرقہ بازی، قبائل کی باہمی جنگیں ہوں یا بلوچستان کے باغیوں کی کارروائیاں، سیاسی تشدد ہو یا پھر سرحدوں پر ہونے والی جھڑپیں، یہ واقعات اس تواترکے ساتھ ہو رہے ہیں کہ ایک کے زخم ہرے ہوتے ہیں کہ دوسرا واقعہ ہو جاتا ہے۔ سوات میں کچھ اور ہو رہا ہے تو ہنگو اور وزیرستان میں کچھ اور۔ قبائلی علاقوں کی صورت حال مختلف ہے تو سرحد کے دیگر علاقوں کی مختلف اور بلوچستان کے باغی عناصر کی اور مختلف۔ ان حالات میں ایک ایک واقعہ کا ریکارڈ مرتب کرنا نہایت نازک اور پیچیدہ عمل ہے۔ تاہم اس کام میں پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے محققین نے نہایت جانفشانی سے کام کیا ہے۔ انھوں نے ہفتہ وار سیکیورٹی رپورٹیں بنائیں۔ پھر ان کو اکٹھا کر کے ماہانہ سیکیورٹی رپورٹ بنائی اور جب ماہانہ رپورٹیں مل گئیں تو سالانہ سیکیورٹی رپورٹ آ سامنے گئی۔ رپورٹ میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2008ء کے دوران پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں کے 2148واقعات ہوئے جن میں 2267افراد ہلاک اور4558 زخمی ہوئے۔صوبہ سرحد دہشت گردوں کا سب سے بڑا نشانہ بنا جہاں 1009حملے ہوئے۔جبکہ بلوچستان میں 682،قبائلی علاقہ جات میں 385،پنجاب میں 35،سندھ میں 25، اسلاآباد میں7،آزاد کشمیر میں 4اور شمالی علاقہ جات میں صرف ایک حملہ ہوا۔پورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2008ء میں پاکستان بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا۔2005ء کے مقابلہ پر 2008ء میں دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں 746فیصد اضافہ ہوا ہے۔گزشتہ سال دہشت گردی کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2267ہے اور اگر اس تعداد میں سیکورٹی آپریشنز ،سیکورٹی فورسز اور جنگجو عناصر کے درمیان ہونے والی چھڑپیں ،سیاسی فسادات، قبائل کے درمیان فرقہ وارانہ فسادات اور سرحدوں پر ہونے والی چھڑپوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد کوبھی شامل کرلیا جائے تو 2008ء کے درمیان مجموعی طور پر 7997افراد ہلاک ہوئے ۔جبکہ مجموعی طور پر زخمی ہونے والوں کی تعداد 9670تک جا پہنچتی ہے ۔سیکورٹی رپورٹ میں بتائی گئی تفصیلات کے مطابق سیکورٹی آپریشنز کے نتیجے میں ہلا ک ہو نے والوں کی تعداد 3182ہے جو کہ دہشت گردوں کا براہ راست نشانہ بننے والوں کی تعداد سے 915افراد زیادہ ہے۔2008ء کے دوران قبائل کے مابین 1336افراد، فرقہ وارانہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے۔سیکورٹی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کل 63خودکش حملے ہوئے جن کے نتیجے میں 967افراد ہلاک ہوئے تاہم ہلاک شدگان کی تعداد میں بھاری اضافے کی وجہ صرف خودکش حملے نہیں تھے بلکہ دہشت گردوں نے دیگر حربے بھی استعمال کئے۔2008ء کے دوران 381راکٹ حملے،لوگوں کو ذبح کرنے کے46،ریموٹ کنٹرول بموں کے 112،بارودی سرنگوں کے 110،فائرنگ کے 451،سبوتار کے 116اور حساس دھماکہ خیز مواد کے 343 واقعات بھی ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں بھاری اضافے کی وجہ بنے ۔سیکورٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی کے خلا ف حکومت نے کچھ کامیابیاں بھی حاصل کیں اور گزشتہ سال کے دوران 4113دہشت گردوں کو گرفتار کیاگیا۔جن میں القاعدہ کے 30،طالبان اور جہادی گروپوں کے 3759اور بلوچ مزاحمت کاروں کے354افراد شامل تھے تاہم بہت سے گرفتا ر شدگان کو دہشت گردوں کی جا نب سے گرفتار کئے جانے والے حکومتی اور سیکورٹی اہلکاروں کے تبادلے میں رہا کردیا گیا۔
درج ذیل عوامل پاکستان میں گذشتہ سال کی سیکیورٹی رپورٹ کو سمجھنے میںممد و معاون ثابت ہوتے ہیں:
1۔ دہشت گردی کے حملوں میں اضافہ ــ اگر 2008ء میں دہشت گردی کے حملوںمیں ہونے والی ہلاکتوں کا موازنہ 2005ء کے حملوں میں ہونے والی ہلاکتوں سے کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان میں 746 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔
2۔ 2008ء میں 63خودکش حملے ہوئے جو کہ بہت زیادہ ہیں۔
3۔ فاٹا اور سوات میں جو لوگ سیکیورٹی فورسز کے آپریشنز میں ہلاک ہوئے ان کی تعداد دہشت گردی کے حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 3,182 افراد ہلاک ہوئے جبکہ دہشت گردوں کے حملوں میں 2,267 افراد مارے گئے۔
4۔ سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف نئے طریقے ضرور اپنائے مگر دوسری طرف دہشت گردوں نے بھی اپنے طریقہ واردات بدل ڈالے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ دہشت گرد عناصر نے طالبان اور القاعدہ کی مدد سے دہشت گردی کے لیے جدید ترین طریقے اختیار کیے جیسے القاعدہ اس سے قبل عراق میں اختیار کر رہی تھی۔ مثال کے طور پر پاکستان میں 2008ء میں جو بڑے حملے ہوئے ان میں سے ایک ایف آئی اے بلڈنگ لاہور، دوسرا ڈنمارک کا سفارتخانہ اور تیسرا میریٹ ہوٹل حملہ، ان تینوں میں سی 4 نامی پلاسٹک مادہ استعمال کیا گیا۔ اور اس سے قبل یہ القاعدہ نے اپریل 2005ء میں ابوغریب جیل کو اڑانے اور اپنے قیدی چھڑانے کے لیے استعمال کیا تھا۔ چنانچہ یہ حملے یہ سمجھنے میں کافی مدد دیتے ہیںکہ دہشت گردوں نے جدید طریقے اپنا لیے ہیں اور ان کے رابطے القاعدہ کے ساتھ زیادہ مربوط ہو چکے ہیں۔
5۔ بلوچستان میں دہشت گردوں نے حکومتی تنصیبات اور گیس پائپ لائنوں کو اڑانے کے لیے بھی بھاری اور جدید دھماکہ خیز مواد استعمال کیا۔ اسی طرح سیکیورٹی فورسز کے خلاف طالبان اور بلوچستان کے باغیوں کے راکٹ حملے بھی بڑھ گئے۔ ریموٹ کنٹرول بم حملے بھی کامیابی کے ساتھ کیے گئے۔ سرحد میں 54 اور فاٹا میں 19 حملے ریموٹ کنٹرول بموں کے تھے جبکہ بلوچستان کے باغیوں نے سیکیورٹی فورسز کے خلاف بارودی سرنگوں کا استعمال بھی کیا۔ جبکہ فاٹا میںطالبان نے بھی 16 بار بارودی سرنگوں کااستعمال کیا۔
6۔ فاٹا اور سرحد میں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش رہی جہاں پر اغواء برائے تاوان، طالبان کی جانب سے شرعی عدالتوں کا قیام، نیٹو کے قافلوں پر حملے ہوئے۔ طالبان کے خلاف قبائلی لشکر کا قیام ایک مؤثر حکمت عملی تھی مگر قبائلی سرداروں اور ملکوں کے قتل نے اس کے اثرات زائل کر دیے۔ ڈرون کے حملوں کی وجہ سے لوگوں کی ہمدردیاں طالبان کے ساتھ بڑھیں اور چند مقامات پر طالبان اور مقامی قبائل میں امن معاہدے بھی ہوئے مگر ان کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوئے۔
7۔ لاہور جیسے ثقافتی مرکز میں سینمائوں، تھیٹرز اور دیگر ثقافتی مراکز پر حملے یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہیں کہ شدت پسندوں کے اہداف کیا ہیں اور وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔
8۔ بلوچستان میں دہشت گردوں کی کارروائیاں کم ضرور ہوئیںمگر دہشت گردی کا خطرہ بدستور موجود ہے۔
9۔ اگرچہ 2008ء کے دوران 2007ء کے مقابلے میں مذہبی تفرقہ بازی کے صرف چند واقعات ہوئے مگر کرم ایجنسی، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو اور کوہاٹ میں اب بھی یہ مسئلہ حکومت کے لیے کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں۔
10۔ کراچی، سیاسی تشدد کی لپیٹ میں رہا مگر اب وہاں لسانی و مذہبی منافرت بڑھ رہی ہے۔
11۔ پاکستان کی مغربی سرحدوں پر کشیدگی تو تھی ہی مگر ممبئی حملوں کے بعد مشرقی سرحد وں پر بھی کشیدگی بڑھ گئی۔
تجاویز:
جیسا کہ سال 2008ء میں سیکیورٹی کی حالت بہت خراب ہو چکی ہے، لہٰذا ریاست کی حکمت عملی بنانے والوں، سیاست دانوں اور مذہبی لیڈروں، عام لوگوں اور میڈیا کو ان پہلوؤں کی طرف فوری توجہ دینی چاہیے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ اس وقت نہ صرف سیکیورٹی فورسز کی سطح پر دہشت گردی کے خلاف پالیسی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے بلکہ ساتھ ہی سیاسی، سول سوسائٹی اور میڈیا کی سطح پر بھی بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ یہ پالیسی صرف اس وقت تشکیل پا سکتی ہے جب سب لوگ اس کے خطرے کو سنجیدگی سے محسوس کریںگے۔ اس میں گورنمنٹ، سول سوسائٹی اور میڈیا کی خاص ذمہ داری ہے کہ وہ سب کو ایک نقطہ پر اکٹھا کریں۔
2۔ دہشت گردی کے واقعات کا بڑھنا اس چیز پر زور دیتا ہے کہ مؤثر نتائج شدہ پالیسی اور قانون نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس پہلو کی طرف زور دینے کی ضرورت ہے اور بہتر تربیت، ہنر، سامان اور دوسرے ملکوں کی فورسز سے مشترکہ طور پر تجربہ شیئر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس خطرے سے پیشہ ورانہ طریقے سے نمٹا جا سکے۔
3۔ افغانستان میں پاک افغان بارڈر پر 30,000 امریکی فوجیوں کی تعیناتی طالبان گروپوں کے درمیان تکلیف دہ ہو سکتی ہے جس سے دہشت گردی کے واقعات پاکستان کے اندر بڑھ رہے ہیں۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے بہتر کڑی نگرانی کی صلاحیت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔
4۔ جیسا کہ طالبان اپنا نیٹ ورک صوبہ سرحد کے شہری علاقوں میں بڑھا رہے ہیں، ان کا اگلا نشانہ صوبہ پنجاب بھی ہو سکتا ہے۔ پنجاب حکومت اور پولیس کو اس خطرے پر قابو پانے کے لیے پہلے سے ہی دہشت گردی کے خلاف حکمتِ عملی کو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
5۔ حکومت کو بھی اندرونی سیکیورٹی معاملے کے حوالے سے فوج پر سے انحصار کم کرناچاہیے اور غیر سرکاری نیم فوجی فورسز مثال کے طور پر رینجرز، فرنٹیئر کور اور دوسری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے دائرۂ کار کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
6۔ مؤثر اور پیشہ ورانہ انٹیلی جنس دہشت گردی کے خطرے کو روکنے کے لیے اہم کردار ادا کرتی ہے۔ لہٰذا پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے دائرۂ کار کو بڑھانے کی ضرورت ہے اور مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں بہتر ہم آہنگی کو یقینی بنانا چاہیے۔
7۔ حکومت میڈیا کو ثقافتی اور سماجی پروگراموں کی طرف راغب کرے۔ نوجوانوں کو صحت افزا سرگرمیاں مہیا کی جائیں اور ثقافت کی ترقی کے لیے متعین فنڈز کے استعمال کو مناسب اور یقینی بنانا چاہیے۔
8۔ اسلام آباد کو فاٹا اور صوبہ سرحد میں شدت پسندی اور دہشت گردی کے خطرے سے نبرد آزما ہونے کے لیے طویل اور مختصر دورانیہ کی حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے تمام لوگوں کو اعتماد میںلینا چاہیے بشمول صوبائی حکومتیں، سیاسی منتظمین، قبائلی لیڈر اور مقامی سیاسی لیڈروں کو تاکہ ان کی موجودہ خستہ حال ہم آہنگی کو بہتر بنایا جا سکے۔
9۔ اس وقت بلوچستان میں مفاہمت کی پالیسی کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے اور لوگوں کی محرومیوں کو ختم کرنا چاہیے۔ ان کے لیے صحت، تعلیم کے شعبوں کی ترقی کے لیے اور زیادہ فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے۔
10۔ وفاقی اور سندھ کی حکومت کو بہتر سیکیورٹی کے لیے اقدامات لینے چاہئیں۔ خاص طور پر سیاسی تشدد کو روکنے کے لیے کراچی کو فوری طور پر اسلحہ سے پاک کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ حکومت کو سیاسی ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے ایسے پروگرام ترتیب دینے چاہئیں جن میں سب کی شمولیت ممکن ہو سکے جیسے آل پارٹیز کانفرنس وغیرہ ۔
|
|
|
|
|