working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


 
اگلا شمارہ

طبقہ امرا کی خواتین میں مقبول الہدیٰ ـ ایک تعارف
ساجد سیال

برطانیہ میں پلنے والی 25 سالہ بشریٰ کو یہ اشتیاق ہوا کہ وہ اپنے مذہب کے بارے میں کچھ زیادہ جانے، لیکن اسے نہ اردو آتی تھی نہ عربی۔ سو اس مقصد کے لیے اس نے ایک اسلامک انسٹی ٹیوٹ میںداخلہ لے لیا۔ اس نے بتایا کہ زبان ایک بڑا مسئلہ تھا۔ لیکن نصاب بھی بہت مشکل تھا۔ کیونکہ یہ ان لوگوں نے مرتب کیا تھا جو کہ اسلام کے بارے میں بہت کچھ جانتے تھے۔ جب میں نے انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا تو مجھے محسوس ہوا کہ شاید میں اپنا یہ شوق پورا نہ کر سکوں۔ بالآخر میں نے وہ انسٹی ٹیوٹ چھوڑ دیا۔

بشریٰ کی اگلی منزل ''الہدیٰ'' تھی۔ کیونکہ یہ واحد انسٹی ٹیوٹ تھا جو کہ انگریزی میں بھی پڑھانے کی سہولت دے رہا تھا۔ یہاں سے بشریٰ کی زندگی میں وہ موڑ آیا جو اسے اسلام کی طرف لے گیا۔ اس نے اپنے ذہن پر زور دے کر کہا کہ میں نے ارادی طور پر اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو نے کا فیصلہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ سب کچھ مجھ سے ہوتا گیا۔

بشریٰ نے محسوس کیا کہ اس کے پچھلے انسٹی ٹیوٹ کے مقابلہ میں یہاں کے کورس عام فہم تھے جن کا مقصد آپ کو مذہبی مفکر بنانا نہیں بلکہ آپ کو اس قابل بنانا تھا کہ آپ اسلامی تعلیمات کو اپنی عملی زندگی پر لاگو کر سکیں۔ بشریٰ نے یہ اعتراف بھی کیا کہ الہدیٰ کوئی روایتی مدرسہ نہیں ہے بلکہ وہاں کاماحول اور طرزِ تدریس جداگانہ ہے۔

الہدیٰ کی بنیاد ڈاکٹر فرحت ہاشمی نے 1994ء میں اسلام آباد میں رکھی۔ جنھوںنے اسلامیات میں ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری اورساتھ ہی گلاسگو یونیورسٹی سے حدیث سائنس میں سپیشلائزیشن بھی کی ہوئی ہے۔ یہ عورتوں کی واحد تنظیم تھی جس نے شروع میں خوشحال گھرانوں کی عورتوں کو اپنی طرف مائل کیا۔ جن میں سے ایک سابق صدر فاروق لغاری کی بیوی ہیں۔ ان کو بھی اس گروپ کے تیزرفتاری سے پھیلنے میں ایک اہم کردار سمجھا جاتا ہے۔ سول سوسائٹی کے سرگرم عمل حارث خلیق کے مطابق الہدیٰ سُنی عورتوں کے لیے ایک موزوں جگہ تھی۔ اہل تشیع گرو ہ کے برعکس سُنی عورتیں سماجی رابطہ پر یقین نہیں رکھتیں اور الہدیٰ بالکل ان کے عین مطابق ہے۔

فائزہ مشتاق جو کہ ایک ماہر عمرانیات ہیں اور ابھی الہدیٰ کے پر کام کر رہی ہیں، کے مطابق الہدیٰ کا مرکزی مقصد ایسی عورتوں کو تیار کرنا ہے جو اپنی زندگیاں اسلام کے مطابق گزار سکیں۔ الہدیٰ ایک بڑا سماجی ایجنڈا جو بنیادی اور فرد واحد کی اصلاح کے لیے ہو، رکھتی ہے جب سے انھوں نے محسوس کیا ہے کہ فردِ واحد اسلامی تعلیمات سے دور ہو چکا ہے۔ اپنے تعلیمی طریق کار کو بیان کرتے ہوئے فائزہ مشتاق نے کہا کہ ان کے مطابق الہدیٰ کا مقصد مختلف طرح کے لوگوں کو اسلامی تعلیمات کے دائرے میں لانا ہے۔ ان کا تعلیماتی مواد اس سے مختلف نہیں جو کہ مرد علماء سے پڑھا جاتا ہے۔ خاص طور پر جب وہ اسلام کے بارے میں تشریح کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے جو شہری تعلیم یافتہ اور درمیانے درجے کی عورتوں میں مقبول ہو۔ الہدیٰ اپنے سٹوڈنٹس کو صرف انگلش کے استعمال کے بارے میں ہی نہیں تعلیم دیتا رکھتا بلکہ یہ بہت سے موضوعات پر بحث کرتے ہیں۔ جیسے خودنمائی، وقت کا اہتمام، اپنی قوت کا استعمال اور کیسے کوئی اپنے آپ کو معنی خیز بنا سکتا ہے۔ یہ رسم و رواج کا امتزاج ہے جو کہ جدید تنظیمی ہنرمندی سے سکھایا جاتا ہے۔

فائزہ مشتاق الہدیٰ کے ایک اعلیٰ نصاب کے بارے میں تفصیل بیان کرتی ہیں جو کہ دو سال پر مشتمل اور اردو زبان میں متعارف کرایا گیا ہے۔ جس کے لیے دن میں چھے گھنٹے اور ایک ہفتہ میں چھے دن نصاب کا حصہ پڑھایا جاتا ہے۔ تاہم اس کے نصاب میں عربی، حدیث، فقہ، اسلامی تاریخ، قرآنی آیات کا ترجمہ اور قرآن کے سیاق و سباق کی تشریح شامل ہے۔ فائزہ مشتاق کہتی ہیں کہ یہ بالکل 8سالہ درسِ نظامی جو کہ دارالعلوم یا مدرسوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ مدِمقابل ہے۔
روایت پرست علماء الہدیٰ کی ان طالبات کو تنقید کی نظر سے دیکھتے ہیں جو درسِ نظامی جو کہ آٹھ سال کا ہوتا ہے، اس کو مکمل کیے بغیر الہدیٰ کا اپنا کورس جو تین سال کا ہے ، کو مکمل کرنے کے بعد پڑھانا شروع کردیتی ہیں کیونکہ علماء کے مطابق ان طالبات نے آٹھ سال کا نصاب نہیں پڑھا ہوتا۔

قرآن پاک کی تشریح دراصل اپنے آپ کو عملی طور پر ڈھالنے کا عمل ہے۔ جو کہ اس مقصد سے پڑھایا جاتا ہے تاکہ طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ ان تعلیمات کو اپنی زندگیوں میں قابل اطلاق بنائیں جو دوسرے کورسز میں وہ اس طرح ترتیب دیے گئے ہیں جو مختلف طریقے سے زندگی گزارنے والے لوگوں کے لیے مناسب ہوں اور الہدیٰ کے فائدے میں بھی ہوں تاکہ یہ اسے مخصوص قسم کے سامعین کو اپنے طرف متوجہ یا مائل کر سکے۔ ان میں طویل دورانیہ کا تین سال کا سر ٹیفکیٹ کورس، حدیث سائنس اور مذہبی تبلیغی کورسز شامل ہیں جبکہ چھوٹے دورانیے کے کورسز میں رمضان اور موسمِ گرما کے کورسز جو کہ سکول کے بچوں اور نوجوان لڑکیوں کے لیے ترتیب دیے گئے ہیں۔ سکول کے بچوں کو قرآن میں سے کہانیاں، اسباق اور حضورۖ کی زندگی کے بارے میں تعلیم پُرلطف اور پُرکشش طریقے سے دی جاتی ہے۔

فائزہ مشتاق کہتی ہیں کہ انھیں یاد ہے کہ جب پہلی دفعہ کراچی میں 1999ء میں الہدیٰ متعارف کرایا گیا تو وہاں کے لوگوں کا زبردست ردِعمل تھا اور اس طرح فائیو سٹار ہوٹلز کے ہال بھرنے لگے اور یہ ایک وقتی فیشن بن گیا۔ میں الہدیٰ کو ایک تحریک کے طور پر بیان کروں گی کیونکہ اس سے پہلے بہت سے اداریے تشکیل دیے جا چکے تھے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی ہمارے تصورات کی تکمیل اس طریقے سے نہیں کر سکا جیسے کہ الہدیٰ نے کی۔

پھر یہ جو وقتی فیشن تھا ختم ہو گیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تحریک زوال پذیر ہو گئی۔ کیونکہ میرے عام اندازے کے مطابق ہر سال 500 طالبات ڈپلومہ لے کر گریجویٹ ہوتی ہیں۔ ہزاروں عورتیں 13 سالوں سے زیادہ عرصے میں گریجویٹ ہو کر فارغ ہوچکی ہیں۔ شوقیہ دلچسپی رکھنے والی طالبات کا کچھ حصہ کم ضرور ہو گیا لیکن جو مرکزی سنجیدہ گروپ تھا وہ اس سے منسلک رہا۔

فاطمہ ثریا بجیا
میں اپنے شفیق اور مہربان نانا کے ساتھ رہتی تھی جو کہ بہت مذہبی آدمی تھے جس کی وجہ سے میں جب بمشکل چار سال کی تھی تو قرآن مجید پڑھنا شروع کر دیا۔ میر عاشق علی ہمارے مولوی، ریٹائرڈ میجر اور غیر شادی شدہ تھے۔ وہ پنجابی سید گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں فالج کی تکلیف ہونے کی وجہ سے آرمی کو چھوڑنا پڑا۔ وہ میرے نانا کے ذریعے بھرتی ہوئے تھے جو میرے نانا کے گھر میں ہی رہتے تھے اور آخر کار وہ ہمارے گھرانے کے فرد جیسے بن گئے۔

شروع میں انھوںنے میری چھوٹی بہن کو اور مجھے پڑھایا۔ ہر روز وہ ہمیں سورة الفاتحہ کی دو آیات پڑھاتے تھے۔ پھر ہمیں یہ آیات یاد ہو گئیں۔ انھوں نے ہم سے کہا کہ جب تم قرآن کو کھولتے ہو تو تم پر بہت سی برکات نازل ہوتی ہیں۔ عربی کے لفظوں کو پڑھنا ہمارے لیے مشکل ہوتا تھا۔ مولوی صاحب ہمیں عربی کے حروف تہجی کو اردو کے حروف تہجی سے منسوب کر کے پڑھاتے جن سے ہم کافی زیادہ واقف تھے۔ وہ ہمیں عربی، اردو اور انگلش کی لکھائی کے مختلف طریقوں کے بارے میں بھی پڑھایا کرتے تھے۔ جب وہ ہمیں سورة اقرا پڑھا اور تلاوت کر رہے تھے تو اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھ کر کہا کہ یہ پہلی آیت تھی جو حضورۖ پر نازل ہوئی تھی۔ اس طریقے سے مولوی صاحب ہمیں واقعات جو کہ سورة سے متعلق ہوں اور حضورۖ کے بارے میں، بتایاکرتے تھے۔

مذہب کی تعلیم ہمارے گھرانے میں صرف قرآن سیکھنے کے بارے میں ہی نہیں تھی۔ یہ ہماری سماجی اصولوں اور سماجی ذمہ داریوں کے بارے میں بھی تھیں۔ ہمارا تعلق امیر گھرانے سے نہیں تھا۔ لیکن میرے نانا حیدرآباد دکن کے چیف کمشنر تھے اور یہ روایت تھی کہ رمضان شریف کے دوران مختلف چیزوں سے بھرے رنگا رنگ تھالیاں ہمارے محلے میں غریب گھرانوں میں تقسیم کی جاتی تھیں۔ دو بڑے یتیم خانوں انجمن انیسز گورابا اور انجمن حمایت اسلام سے بچے ہمارے ہاں افطار کے لیے دعوت پر آئے اور ہمیں ان کے ساتھ بیٹھنے کو کہا گیا۔ میں بیٹھ گئی۔ شاید میں نے سوچا کہ مجھے ان یتیم بچوں کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہیے لیکن میرے نانا نے اونچا سا کہا کہ ثریا بیٹھ جائو۔ بعد میں انھوں نے مجھے بچوں کی پلیٹیں اٹھانے کو کہا گیا۔ شاید وہ میری برتری زدہ سوچ کو ختم کرنا چاہتے تھے۔

پڑھائی کی طرف واپس آتے ہیں۔ مولوی صاحب نے ہمیں پورا قرآن نہیں پڑھایا حتیٰ کہ جب ہم اپنی لکھائی کو بہتر بنا چکے تھے اور قرآنی آیات کو بھی سمجھ سکتے تھے۔ انھوں نے اپنا دھیان زیادہ تر چھوٹی سورتوں پر رکھا۔ تین مہینوں کے اندر میں قرآن مجید کی چھوٹی سورتوں کو یاد کرنے کے قابل ہو چکی تھی۔ میرے بچپن کے دوران خواجہ نظامی کی قرآن کی تشریح سب سے زیادہ بہتر سمجھی جاتی تھی اور جو خاص طور پر ہمارے اسباق کے لیے خریدی گئی تھیں۔ ہم ایک دن میں ایک رکوع سیکھتے تھے اور اگلے دن مولوی صاحب ہمارا ٹیسٹ لیتے تھے جو انھوں نے سکھایا ہوتا تھا۔

باقی کی تعلیم بھی مجھے گھر ہی میں دی گئی۔ میں سکول نہیں گئی۔ جب میں سات سال کی تھی تو میرے لیے انگلش کے دو اساتذہ رکھے گئے۔ ایک ہندو اور دوسرے مسلمان تھے۔ ہمیں سری راماچندر، رام جی، سیتا جی اور راون کی کہانیوں کے بارے میں پڑھایا گیا۔ جب میں گیارہ سال کی تھی تو میں قرآن مجید، بائبل، توراحا او رویداس کی تمام بڑی کہانیوں اور واقعات سے واقف تھی۔

جاوید غامدی
جب میں سکول جانے کی عمر کو پہنچا تو میری پڑھائی کے بارے میں میرے والدین کی رائے ایک دوسرے سے مختلف تھی۔ میری والدہ مجھے جدید تعلیم دلوانے کے حق میں تھیں جبکہ میرے والد مجھے فارسی اور عربی کی تعلیم دلوانا چاہتے تھے۔ جس کے نتیجے میں میں نے دونوں کو کرنے سے انکار کر دیا۔
جنھوں نے مجھے فارسی، عربی زبانوں اور لٹریچر سے پہلی دفعہ متعارف کرایا وہ سادہ طبیعت کے مالک مولوی نوراحمد تھے جو کہ پاکپتن کی ایک چھوٹی سی مسجد جو کہ دریا کے کنارے پر واقع تھی، کے نگران تھے۔ میرے والد جب میں آٹھ سال کا تھا تو ان کے پاس لے کر گئے اور میں نے ان کے زیرِسایہ اگلے تین سال کے لیے تعلیم حاصل کی۔ مولوی صاحب اللہ کے خاص بندے تھے۔ ان کے شاگردوں میں تمام دیہات کے بچے امیر بشمول غریب دونوں شامل تھے۔ کسی سے بھی فیس نہیں لی جاتی تھی اور مولوی صاحب بچوں میں کسی قسم کا فرق ظاہر نہیں کرتے تھے۔ پرانے خیالات کے مُلا جو اشتعال انگیز ہوتے ہیں، کے برعکس مولوی صاحب ایک شریف اور مہربان انسان تھے۔

ایک دفعہ مجھ سے نیا ہونے کی وجہ سے آذان دیتے ہوئے اس کا کچھ حصہ چھوٹ گیا۔ جس کی وجہ سے وہ دکاندار جو مسجد کے آس پاس تھے، پریشان ہو گئے۔ مولوی صاحب نے انھیں کہا کہ کچھ بھول چوک ہونے کے باوجود اذان قابل قبول ہے۔ انھوں نے کبھی بھی مجھے اس کا قصوروار نہیں ٹھہرایا اور نہ ہی انھوں نے اپنے کسی دوسرے شاگرد کو سزا دی۔

میرے ہائی سکول کے تمام اساتذہ اپنے شاگردوں کو سکول کے اوقات کے بعد بھی ان کی پڑھائی میںمدد کے لیے فالتو وقت دیتے تھے اور ان میں سے کوئی بھی اس چیز کے لیے ہمارے والدین سے فیس نہیں لیتا تھا۔ تمام بچے صحیح معنوںمیں برابر تھے۔ ایک اسسٹنٹ کمشنر کے بچے اور ایک عام کلرک کے بچوں کو ایک ہی جیسی توجہ دی جاتی تھی۔

میرے خیال میں سب سے اہم سبق میں نے اس سے سیکھا جو رسمی طور پر اساتذہ میں شامل نہیں تھا۔ وہ ایک بینک کا چوکیدار تھا جو لائبریری کے قریب تھا۔ میری اکثرچھوٹی کتاب کے بارے میں توجہ دلائی جاتی جو کہ میں پڑھتا تھا اور اس نے مجھ سے کہا کہ میں اسے جتنی جلدی ہو کتاب پڑھ کر آگاہ کروں۔ تاہم میں نے ایسا ہی کیا اور یہ کرنے پر اس نے مجھے ایک اور کتاب دی جو کہ دراصل پہلی کتاب کی تنقیدتھی۔ اس وقت میں پہلی دفعہ دلیل کی اہمیت سے واقف ہوا۔ وہ آگاہی میری شاندار رجائیت ہے جو میرے پاس موجود ہے۔
 
(الہدیٰ کے بارے میں یہ مضمون انگریزی ماہانہ جریدے ''ہیرلڈ'' کے جنوری 2009ء کے شمارے میں شائع ہوا جسے ہم مذکورہ جریدے کے شکریے کے ساتھ شائع کر رہے ہیں۔ مدیر)