working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

کشمیر کے بڑے صوفی مراکز
شہزادہ سلیم
کشمیر کو اولیا کی سرزمین کہا جاتا ہے جبکہ علامہ اقبال نے اسے ایرانِ صغیر کے نام سے پکارا ہے۔ کشمیر کو یہ القابات اس کے بے مثال روحانی و علمی تناظر میں دیے گئے مگر آج دنیا میں کشمیر کی پہچان انتہا پسندانہ سرگرمیوں کے حوالے سے ہو رہی ہے۔ بالخصوص برطانوی پاکستانیوں میں شدت پسندی کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ زیرِنظر مضمون میں کشمیر کے بڑے صوفیاء اور ان کی تعلیمات کا جائزہ لیا گیا ہے جس سے یہ مقصود ہے کہ ماضی میں یہاں شدت پسندی نہیں تھی اور اگر اب آ رہی ہے تو اس کو حالاتِ حاضرہ کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ (مدیر)

صوفیاء نے ہر زمانے میں عوام کے تخیلات و عمل، کردار اور عقائد پر گہرا اثر ڈالا اور کئی بہترین دل و دماغ رکھنے والی فاضل شخصیتوں کو اپنی طرف مائل کیا اور تطہیر قلب و اذہان کی ایسی روح پرور مثالیں قائم کیں کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

حضورۖ کا فرمان ِ عالیشان ہے کہ
ترجمہ۔میری امت میں ایسا گروہ ہمیشہ رہے گا جو قیامت تک حق اور خیر پر رہے گا۔

اگرحدیث کو بنظر غائر دیکھا جائے تو صوفیاء کا طبقہ ہی وہ گروہ ہے جو قیامت تک حق و صداقت کا پرچار کرتا رہے گا۔ پاکستان میں باقاعدہ صوفیانہ تعلیم پھیلانے کا سلسلہ پانچویں صدی ہجری میں حضرت داتا گنج بخش کے ذریعے شروع ہوا اور ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ علم ومعرفت کی یہ شعاعیں کشمیر کے کہساروں پر بھی پڑیں ۔ کشمیر کی سر زمین اولیاء اور صوفیاء کے حوالے سے بہت ثمر آور رہی ہے۔ یہاں ہر دور میں ایسے بندگان خدا موجود رہے ہیں جنہوں نے تصوف کی تعلیم و تبلیغ کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں معرفت و ہدایت کے چراغ روشن کیے اور دینی محبت شاقہ کے ذریعہ سے پورے کشمیر کو اسلام کی ابدی رفعتوں سے روشناس کرایا۔ اور وہاں سے غیر اخلاقی رسوم و رواج کا خاتمہ کیا۔

حضرت سیّد علی ہمدانی
12رجب المرجب 713 ھ بمطابق12 اکتوبر1313کو ہمدان(ایران) میں پیدا ہوئے آپ کے والدِ ماجد کا نام سید شہاب الدین تھا جو صوبہ ہمدان کے حاکم اعلیٰ تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے ماموں سید علائو الدین سمنانی سے حاصل کی شیخ تقی الدین اور شیخ محمود مزدقانی سے باطنی علوم حاصل کیے آپ نے شیخ محمود مزدقانی کی ہدایت کے مطابق تین بار دنیا کا پیدل سفر کیا۔ وسطی ایشیاء کے نامور فاتح امیر تیمور نے آٹھویں صدی ہجری میں ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی وہ آپ کے اثر و رسوخ کو اپنے لیے خطرہ محسوس کر رہا تھا اس لیے اس نے آپ کو جلا وطن کر دیا۔ آپ761ھ میںاپنے چند رفقاء کے ہمراہ کشمیر آگئے۔ کشمیر میں ان دنوں سلطان شمس الدین کی حکومت تھی کچھ عرصہ یہاں قیام کرنے کے بعد آپ واپس چلے گئے اور دوبارہ 774ھ میں سات سو سادات کو اپنے ہمراہ لائے یہ سلطان شہاب الدین کا عہد تھا جو دہلی کے سلطان فیروز شاہ تغلق سے برسر پیکار تھا۔ آپ نے دونوں مسلمان حاکموں میں صلح کرائی کہا جاتا ہے کہ آپ اور آپ کے رفقاء نے 37ہزار غیر مسلموں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا اور علم و ادب کو خوب فروغ دیا۔آپ تیسری مرتبہ 780ھ بمطابق 1383ء کو کشمیر آئے اور دریائے جہلم کے کنارے سری نگر شہر میں رشدو ہدایت کے لیے ایک مخصوص طرز کا چبوترہ بنوایا حضرت سید علی ہمدانی زاہد شب گزار مرشد با کمال تھے۔ آپ انشاء پرداز اور شاعر بھی تھے آپ فرقہ بندی کے قائل نہ تھے اصلاح معاشرہ آپ کا اولین مقصد تھا آپ حکمران طبقے کی تربیت وصلاح فرماتے تھے۔آپ کا وصال786ھ کو ہوا۔ آپ نے 170 کتابیں لکھیں لیکن آپ کی کتاب ذخیرہ الملوک جس نے شہرت عام حاصل کی۔ اس کتاب میں دین و سیاست کے زریں اصول بیان کیے گئے۔ یہ کتاب علم ومعرفت کا بیش بہا خزانہ ہے۔ علماء صوفیاء عوام الناس اور ارباب اقتدار کے لیے یکساں مفید ہے اور اس کتاب کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے۔

میاں محمد بخش عارفِ کھڑی شریف
میاں محمد بخش عارفِ کھڑی (میر پور)کے قریب چک ٹھاکرا میں1830ء کو پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم گھر پر اور سموال شریف کی دینی درسگاہ سے حاصل کی۔ 15برس کی عمر میں آپ کے والدِ گرامی اس دنیائے فانی سے چل بسے۔ حدیث کا درس حافظ غلام حسین سے لیتے رہے فارسی حافظ محمد علی سے پڑھی۔ جب کہ شعر و ادب میں حافظ غلام ناصر سے رہنمائی لیتے رہے۔ آپ نے صوفیانہ شعر و شاعری، عبادت،ریاضت اور خدمتِ خلق کو زندگی بھر اپنا اشعار بنائے رکھا۔ آپ نے زندگی بھر شادی نہ کی۔میاں محمد بخش پنجابی زبان کے عظیم شاعر تھے انہوں نے ڈیڑھ درجن پنجابی تصانیف یادگار چھوڑیں ان میں سوہنی مہینوال،تحفہ میراں، قصہ شیخ سفان،شیریں فرہاد،مرزا صاحباں اور ہدایت المسلمین وغیرہ شامل ہیں۔ مگر سیف الملوک کو بہت زیادہ شہرت نصیب ہوئی۔ سیف الملوک کو تحریر کرنے کا زمانہ 1800ء سے 1862ء تک ضلع کوٹلی کے موضع کھوئی رٹہ کے قریب پنجتی شریف میں قیام کا ہے۔ مثنوی سیف الملوک کا مرکزی خیال ملک ستارستان کی ایک حسین و جمیل شہزادی اور مصر کے بادشاہ عاصم بن صفوان کے شہزادے سیف الملوک کا عشق ہے۔ میاں محمد بخش نے سیف الملوک میں فکر انگیز تمثیلیہ لکھا ہے جس میں ایک معصوم فاختہ کو دو دشمنوں کے نرغے میں پھنسا ہوا دکھایا گیا ہے۔ دونوں اس معصوم کو ہڑپ کرنا چاہتے ہیں لیکن خدا کی قدرت کہ جونہی شکاری فاختہ پر نشانہ باندھتا ہے ایک سانپ اسے ڈنگ مار دیتا ہے۔ جس سے شکاری کا تیر باز کو لگ جاتا ہے یوں باز بھی مر جاتا ہے اور شکاری بھی اپنے انجام کو پہنچتا ہے۔اس تمثیلیہ میں میاں صاحب نے فاختہ کو کشمیر سے تشبیہ دی ہے شکاری اور باز اس کے وہ پڑوسی ہیں جو اسے ہڑپ کرنا چاہتے ہیں میاں محمد بخش کی پیشن گوئی کے مطابق بالآخر کشمیر شکاریوں کے نرغے سے بچ جائے گا اور آزادی سے ہمکنار ہو گا۔ اس کتاب میں شاعر کی مشاقی کایہ عالم ہے کہ کتاب کے بیشتر اشعار ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ جو علاقہ کشمیر اور پوٹھوہار میں عام لوگوں کی روز مرہ کی بول چال میں نمایاں نظر آتے ہیں۔

للہ عارفہ
کشمیر کی یہ عظیم صوفیہ خاتون 1330ء کو سری نگر سے تین میل ''دوریا ندرھُن'' گائوں میں پیدا ہوئی۔ ہندو اسے للہ ایشوری اور للہ دید کے نام سے یا دکرتے ہیں۔ کشمیری زبان میں ان کا نام للہ ماجہ ہے جب کہ مسلمان انھیں للہ عارفہ کے نام سے پکارتے ہیں۔ للہ عارفہ سترہ برس کی تھیں کہ ان کی شادی ایک ہندو برہمن سے کر دی گئی وہ جاہل اور اجڈ تھا۔ آپ کا ظالم شوہر نہ صرف خود آپ کو مارتا پیٹتا بلکہ آپ کی ساس بھی آپ پر بے پناہ ظلم کرتی تھی۔ یہ سلسلہ جب حد سے گزر گیا تو للہ عارفہ خاتون حالت دیوانگی میں ویرانوں کی طرف نکل گئی۔ وہ صوفیوں، سادھوئوں اور رشیوں کی محفلوں میں بیٹھ کر معرفت اور شعور و آگہی کی تعلیم حاصل کرنے لگی۔ رفتہ رفتہ للہ عارفہ سلوک کی راہ میں اتنی بے خود ہو گئی کہ اس نے دیوانگی کے عالم میں معرفت و حکمت کی باتیں کرنی شروع کر دیں اور صوفیانہ اشعار کہنے لگی جنہیں لوگ یاد کر لیتے۔ للہ عارفہ نے انسان دوستی کا فلسفہ پیش کیا۔ وہ اخوت، مساوات اور عدل و انصاف کی پیروکار تھی۔ کہا جاتا ہے کہ کشمیر کے عظیم صوفی بزرگ شیخ نور الدین ولی جب پیدا ہوئے تو وہ اپنی والدہ کا دودھ نہیں پیتے تھے۔ اس بات کا علم للہ عارفہ کوہوا تو وہ خود بچے کو دیکھنے آگئی اس نے بچے کو اٹھا کر سینے سے لگایا اور بچے سے مخاطب ہو کر بولی ''پیدا ہونے میں شرم محسوس نہ کی ،اب دودھ پینے سے کیوں شرماتا ہے ،پی دودھ پی لے''۔چنانچہ شیخ نور الدین نے للہ عارفہ کا دودھ پی لیا۔للہ عارفہ خاتون کشمیری زبان کی پہلی صوفی شاعرہ ہے۔ اس کا کلام حکمت و معرفت کا خزینہ ہے۔ للہ عارفہ کی وفات کا واقعہ بھی بڑا ایمان افروز ہے کہ اس کی وفات پر ہندو اسے جلانا چاہتے تھے اور مسلمان دفن کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب چادر ہٹائی گئی تو وہاں پھولوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ تاریخ میں اس امر کا کوئی ثبوت نہیں کہ للہ عارفہ خاتون کہاں گئی اور کہاں دفن ہے۔ (حوالہ جموں کشمیر باب آف نالج صفہ)

شیخ نور الدین ولی (چرار شریف مقبوضہ کشمیر)
شیخ نور الدین ولی جنہیں کشمیر کے لوگ نندہ رشی اور نور الدین ولی کے ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ 779 کو کمہوہ گائوں میں پیدا ہوئے۔ انھیں کشمیریوں کے بہت بڑے روحانی پیشوا کا مقام حاصل ہے۔ آپ اپنے زمانے کے معروف صوفی بزرگ تھے اسی لیے انھیں شیخ العالم کے خطاب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ آپ کی تبلیغ اسلام وشریعت میں گراں قدر خدمات ہیں۔ آپ کا شمار کشمیری زبان کے ابتدائی شاعروں میں ہوتا ہے۔ آپ نے اپنی لا زوال شاعری کے ذریعے اسلامی تعلیمات کو زبان زدِ عام کیا۔کہا جاتا ہے کہ نور الدین ولی کے والد شیخ صلاح الدین اور والدہ سدرہ ماں ایک صوفی بزرگ یاسمین رشی کی خدمت میں حاضر تھے کہ اچانک وہاں مشہور مجذوبہ للہ عارفہ بھی تشریف لائیں جن کے ہاتھ میں ایک خوبصورت پھول تھا یاسمین رشی نے وہ پھول لے کر سدرہ ماں کو دیا اور فرمایا اسے سونگھ لو تو تمہارے بطن سے ایک برگزیدہ بچہ پیدا ہو گا۔ اس برگزیدہ بچے کی پیدائش کی خوشخبری حضرت سید علی ہمدانی نے بھی دی تھی۔ حضرت شیخ کی باقاعدہ تربیت نہ ہو سکی لیکن آپ کو خدائے بزرگ و برتر نے اپنے خصوصی فضل سے علم لدنی عطا کیا۔آپ کا مزار چرار شریف میں مرجع خلائق ہے شیخ العالم کے کلام اور ان کی تعلیمات وہدایات پر محققین نے گراں قدر کام کیا ہے۔ ''رشی ناصر'' آپ کی صوفیانہ تعلیمات پر مبنی منظوم تصنیف ہے۔

سخی سائیں سہیلی سرکار
سرزمین مظفر آباد میں ایک اور صوفی و قلندر بزرگ حضرت سخی سائیں سہیلی سرکار کا مزار پاک ہے جو کہ کشمیر کے قدیم مزارات میں شمار ہوتا ہے۔ حضرت سہیلی سرکار قلندرانہ زندگی کے خوگر تھے آپ نے اپنی ساری زندگی ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر میں ہی گزار دی ۔ آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایک بار مانسہرہ کے راستے مظفر آباد آتے ہوئے راستے میں انگریز ٹھیکیدار نے آپ کو دوسرے لوگوں کے ساتھ پکڑ کر سڑک پر کام کرنے میں لگا دیا اور بہت مارا پیٹا پھر جب شام کو وہ انگریز اپنی مخصوص بگھی پر گھر کو جا رہا تھا تو ایک کھائی میں اس کی بگھی گر گئی اور وہ مرتے مرتے بچا اور کہنے لگا کہ وہ بزرگ جسے میں نے دن کو مارا تھا اس نے میری بگھی کھائی میں پھینک دی ہے۔ حضرت سخی سائیں سہیلی سرکار کا دربار مظفر آباد کے درمیان واقع ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ روزانہ حاضری دیتے ہیں۔ لوگ دفتروں میں جانے سے پہلے دربار پر حاضری دیتے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹیز کے طلباء کا امتحان کے دنوں میں ہجوم رہتا ہے۔

قاضی فتح اللہ گلہار شریف
کوٹلی میں گلہار شریف میں قاضی فتح اللہ صاحب کا مزار پر انوار ہے جو دینی اور روحانی سرگرمیوں کے حوالے سے بہت مشہور ہے۔ خواجہ محمد صادق (مرحوم) آج کے اس پرفتن دور میں بھی علم و عرفاں کی شمع روشن کیے ہوئے تھے۔ حضرت خواجہ محمد صادق کا خاندان مدینہ شریف سے ہوتا ہوا، مصر اور پھر افغانستان سے کشمیر تشریف لایا اور کشمیر کی وادیوں میں علم و آگہی کی شمعیں روشن کیں۔ اس طرح پورے کشمیر میں جا بجا صوفیاء کرام کے مزار اب بھی روحانیت کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔
گلہار شریف کے سّجادہ نے نہ صرف پاکست
ان و کشمیر بلکہ بیرونی ممالک میں بھی مساجد و مدارس کا جال بچھا دیا ہے۔ آپ کے بہت سے عقیدت مند بیرونی ممالک میں سکونت پذیر ہیں خصوصاً برطانیہ میں تو آپ کے پیروکاروں اور عقیدت مندوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے جو کہ میر پور اور کوٹلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ حضرت خواجہ محمد صادق جن کاانتقال پر ملال چند ماہ قبل ہوا ہے آپ کے بارے میں مشہور ہے کہ مسجد کی فوری تعمیر کے لیے رقم کا انتظام فرما دیتے تھے۔

پیر سید نیک عالم شاہ
انھیں بزرگان دین میں سے پیر سید نیک عالم شاہ کا نام نامی بھی ہے آپ سادات گوڑہ سیداں کے روشن چراغ تھے 1280ہجری میں ولادت ہوئی اور چالیس سال کی عمر میں اس جہان فانی سے کوچ کر گئے قدرت نے آپ کو اعلیٰ شاعرانہ ذوق عنائت فرمایا تھا۔ آپ کی شاعری میں اکثر مقامات پر قرآن، حدیث، اصطلاحات تصوف اور دیگر فنون عقیلہ کا پرتو ملتا ہے۔ آپ معرفت کا درس بھی دیتے تھے اور اپنے طالب علموں کو سلوک مجددیہ طے کرا کے خلافت سے سرفراز فرماتے تھے۔
اس کے علاوہ بھی کشمیر میں بہت سارے بزرگانِ دین ہیں جنہوں نے دین اسلام کا پیغام مختلف طریقہ ہائے کار کے ساتھ عوام الناس تک پہنچایا۔ جیسے بھمبرمیں بابا شادی شہید کا نام بھی ایسے ہی روحانی پیشوائوں میں آتا ہے۔ جنہوں نے خدا خوفی اور انسانی مساوات کا ساری زندگی پرچار کیا۔

حضرت شاہ حسین البخاری(پیر چناسی)
دربار پیر چناسی مظفر آباد کے سیاحتی مقام پیر چناسی کے مقام پر واقع ہے جہاں حضرت شاہ حسین البخاری محوِاستراحت ہیں۔ پیر چناسی کا دربار چیل اور دیار کے گھنے جنگلات کے درمیان واقع ہے اور دیکھنے والوں کی آنکھوں کو خیرہ کرتا ہے۔حضرت شاہ حسین البخاری تقریباً آٹھویں صدی ہجری میں کشمیر تشریف لائے اور ہجوم سے تنگ آکر عبادت الٰہی میں متغرق رہنے کے لیے جنگل میں ڈیرہ ڈال لیا۔ جہاں موسم گرما میں لوگ جوق در جوق حاضری دیتے۔ اگرچہ پیر چناسی ظاہری خوبصورتی اور سرد مقام مونے کی وجہ سے اب سیاحتی مقام بن گیا ہے تاہم متلاشیانِ بندگان خدا اب بھی وہاں روحانی تسکین کے حصول کے لیے مظفر آباد سے 20کلو میٹر کا کٹھن سفر طے کر کے وہاں جاتے ہیں۔