working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

کمزور ریاست، دہشت گردی کے نشانے پر
خالد احمد

سی آئی ڈی پنجاب نے 22جنوری کو رپورٹ دی کہ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر لاہور میں حملہ ہوسکتا ہے لیکن اس رپورٹ کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ایسا کیوں کیا گیا؟ کیونکہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ ''بیرونی ہاتھ''کے ملوث ہونے کی خبریں محض خبرداری کی حیثیت ہی رکھتی ہیں اور انہیں اہمیت دینے کی بجائے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا جاتا ہے۔ چنانچہ جب 3فروری کو حملہ ہو گیا تو ریاستی سیکیورٹی اس کے لیے قطعاً تیار نہ تھی۔

سری لنکن ٹیم مینجر برنڈ ان کرپو کا کہنا ہے کہ ''اس روز سڑک پر ہمارے آگے پیچھے کئی غیر متعلقہ گاڑیاں تھیں۔ ہمارے آگے سیکورٹی کی تین گاڑیاں تھیں لیکن پاکستان ٹیم ہمارے ہمراہ نہیں تھی اس لیے ہمارے پیچھے سیکیورٹی دستے نہیں تھے۔ عمومی طور پر دونوں ٹیمیں ،کرکٹ کے دیگر حکام کے ساتھ اکٹھی سفر کرتی ہیں جس کی وجہ سے چاروں طرف سیکیورٹی حصار موجود ہوتا ہے۔''

بھارت کے خلاف عوامی جذبات کو دیکھتے ہوئے یہ کہانی گھڑ لی گئی کہ بھارتی دہشت گرد واہگہ بارڈر سے گلبرگ میں آئے جہاں انہیں محفوظ پناہ گاہ ملی۔ جس کے بعد انہوں نے اس چوراہے کا انتخاب کیا جہاں پر انہوں نے سری لنکن ٹیم کا راستہ روک کر یا اُسے اغوا کرنا تھا یا مار دینا تھا۔ لیکن پولیس نے جیسے جیسے شواہد اکٹھے کئے اور مختلف کڑیاں ملائیں تو یہ عقدہ کھلا کہ اس کارروائی میں بھارتی ہاتھ نہیں جیسا کہ سی آئی ڈی نے رپورٹ دی تھی۔کچھ اخبارات نے پولیس کے ذرائع سے خبریں دیں۔ ایکسپریس نے سات مارچ 2009ء کو لکھا کہ سری لنکن ٹیم پر حملے کا ماسٹر مائنڈ کہوٹہ راولپنڈی کا عقیل احمد ہے جو دو سال سے گھر سے غائب ہے۔ اس کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہ حملے کے بعد گلبرگ کے ایک طلباء ہوسٹل میں دیکھا گیا جس کے بعد اسے وزیرستان کے صدر مقام وانا فرار ہو جاناتھا۔

دہشت گردوں کے زیر استعمال ایک سم کا ڈیٹا تفتیش کاروں کو رحیم یار خان تک لے گیا جہاں سے دو افراد کو اٹھا لیا گیا۔ ایک اور ثبوت ،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملہ آور بھارت سے نہیں آئے تھے ،وہ کراچی سے ایک برقعہ پوش جوان کی گرفتار ی ہے جس نے اعتراف کیا ہے کہ وہ لاہور حملے میں ملوث افراد میں سے ایک تھا۔ وہ پہلے ملتان بھاگا پھر کراچی فرار ہو گیا۔ اس نے برقعہ اپنی شناخت کو پوشیدہ رکھنے کے لیے پہن رکھا تھا۔

سری لنکن ٹیم اور امپائرز پر اس طرح آزادانہ حملہ اور گولیوں کی بوچھاڑ کی وجہ بظاہر عام فہم تھی کیونکہ سیکیورٹی میں کئی خامیاں موجود تھیں۔ روزنامہ ایکسپریس نے 7مارچ کو لکھا کہ سری لنکن ٹیم کا قافلہ لبرٹی چوک پہنچا توایس ایچ او گلبرگ عدالت میں پیشی کے بہانے غیر حاضر تھے۔اے ایس پی گلبرگ قافلے کی محافظ ٹیم کی نگرانی کر رہے تھے۔ ماڈل ٹائون کے دو ایس پی صاحبان جنہیں ٹیم کے ساتھ ہونا چاہیے تھا وہ گھروں میں محوِ خواب تھے۔ ایس پی ڈیفنس اپنے کانوائے کے ساتھ قذافی سٹیڈیم کی طرف گئے مگر جیسے ہی انہوں نے فائرنگ کی آواز سنی وہ غائب ہو گئے۔

سی آئی ڈی رپورٹ کی صداقت کے حوالے سے روزنامہ پاکستان کی رپورٹ نے تو سارا راز ہی فاش کر دیا۔ سات مارچ کی رپورٹ میں روزنامے نے لکھا کہ سی آئی ڈی کی رپورٹ جس میں سری لنکن ٹیم پر بھارتی حملے کی اطلاع دی گئی تھی اس کو ایک افسر بکار خاص(او ایس ڈی) نے تحریر کیا۔ اے آئی جی ملک محمد اقبال نے رپورٹ لکھتے وقت کوئی شواہد نہ دیے۔ ممکن ہے کہ انہوں نے کسی غیر متعلقہ شخص کی فون کال سنی ہو لیکن یہ صداقت جانچنے کا کوئی درست ذریعہ نہیں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسی رپورٹ فائل کرتے وقت انہوںنے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی بجائے اپنی بھارت دشمنی کو پیش نظر رکھا ہو۔
میڈیا کے ذریعے پہلے تاثر دیا گیا کہ بھارت نے ممبئی حملوں کا بدلہ لینے کے لیے لاہور میں حملہ کرایا مگر بعد ازاں پاکستان نے حملے میں غیر ریاستی عناصر کو ملوث قرار دینا شروع کر دیا۔لیکن کسی نے بھی جہادی عناصر کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا بلکہ پاکستان نے ان کو کالعدم تنظیموں کی کارستانی قرار دیایہاں دہشت گردوں کے لیے عموماً جنگجو کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، دہشت گرد ایک متنازعہ ٹرم، نہ صرف مشرقِ وسطیٰ میں ہے بلکہ پاکستان میں بھی ہے۔

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل نے ایک ٹی وی پر آکر یہ کہا کہ لاہور حملہ بھارت کی کارستانی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بھارت، سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کی مدد کر رہا ہے اور اس نے تامل ٹائیگرز کو سری لنکن ٹیم پر حملہ کرنے کے لیے مدد فراہم کی۔ جبکہ بھارت نے موقف اختیار کیا کہ القاعدہ کے تامل ٹائیگرز کے ساتھ پرانے رابطے ہیں اور القاعدہ پاکستان میں موجود اپنے عناصر کے ذریعے سری لنکا کے خلاف کارروائیاں کر سکتی ہے۔ اگر ممبئی میں حملے بھارت کراسکتا ہے تو اس کا جواب لاہور حملہ کیوں نہیں ہوسکتا؟

لیکن بھارت سے سامنے آنے والی ایک آواز بہت مختلف ہے جس میں یہ مفروضہ قائم کیا گیا ہے کہ لاہور میں تین مارچ کوہونے والے حملہ کا مقصد سری لنکن ٹیم کو اغوا کرنا تھا۔ را کے ایک ریٹائرڈ افسر کا کہنا ہے کہ لاہور حملہ لشکرِ طیبہ نے کرایا جس کا مقصد ٹیم کو اغوا کرنے کے بعد یہ مطالبہ کرنا تھا کہ ذکی الرحمن لکھوی اور ان کے علاوہ لشکرِ طیبہ کے دیگر دو ارکان کو پاکستانی سیکیورٹی ادارے آزاد کردیں۔ را کے آفیسر کا مزید کہنا ہے کہ لشکرِطیبہ ریاستی اداروں کی پیداوار ہے اس لیے اب وہ گرفتار شدگان کو آزاد کرنے کا بہانہ چاہتے ہیں۔

پنجاب کے اندر پولیس کے اپنے مسائل بھی ہیں۔ انٹرویوز سے معلوم ہوا کہ نچلے درجے کے ملازمین کی ڈیوٹیاں اوقات سے مبرا ہیں۔ افسران جب چاہتے ہیں انہیں بلا لیتے ہیں۔ وی آئی پیز ان کے لیے ایک اور دردِ سر ہیں۔ پنجاب کے سیاسی بحران کی وجہ سے شہباز شریف نے یہ کوشش کی کہ وہ مسلم لیگ قائد اعظم کے منظورِنظر پولیس افسران کا اثرو رسوخ کم کریں۔ اس طرح پنجاب کا صوبہ تین بڑی جماعتوں کے درمیان اکھاڑہ بن گیا۔گورنر راج کے نفاذ کے بعد پنجاب کی انتظامیہ کو ایک سال کے دوران تیسری مرتبہ اکھاڑ پچھاڑ کا سامنا کرنا پڑا۔ پنجاب میں دہشت گردی شاید اس موقع پر کسی کے وہم و گمان میںبھی نہ تھی۔ یہ مسلم لیگ(ن) ، میڈیا اور وکلا تھے جنہوں نے ا س کا موردِ الزام پنجاب کی انتظامیہ کو ٹھہرایا۔ سوات کا امن معاہدہ جس کو میڈیا نے بہت سراہا تھا اس کے بعدالقاعدہ پس منظر میں چلی گئی ۔

کیا یہ سی آئی ڈی کی خواہش تھی کہ لاہورحملہ میں بھارتی ہاتھ ہی ہو؟ یہ فریقین کے مفاد میں بھی جاتا ہے۔ القاعدہ جو کہ قبائلی علاقوں میں برسرِ پیکار ہے اس پر سے پاک فوج کا دبائو کم ہوجاتا کیونکہ پاک فوج کو مشرقی سرحدوں پر توجہ مبذول کرنی پڑتی۔ پولیس لاہور حملے کو انڈیا کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن ہو جاتی۔ میڈیا بھی القاعدہ پر بحث نہیں کرتا اور نہ ہی اس کا نام لیتا ہے جس کی وجہ سے لاہور حملوں کو ان کے حقیقی پیرائے میں نہیں دیکھا جاسکتا۔جب انڈین کارڈ نہ چل سکاتو میڈیا نے نیا ڈھنگ اختیار کرلیا ۔ اس نے پولیس کی تعریف و توصیف شروع کر دی اور ان جوانوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جو دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے تھے۔ قوم ابھی اس تذبذب میں تھی کہ برطانوی میچ ریفری اور آسٹریلوی امپائرز نے حفاظتی اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا جس کو قوم نے ناپسند کیا۔ اس واقعہ نے پاکستانی ریاست کو ایک ایسی صورت حال میں دھکیل دیا ہے جہاں پر القاعدہ ہی نظر آتی ہے۔ پاکستان میں جاری سیاسی کشیدگی حالات کو اورابتر بنا رہی ہے کیونکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے پیچھے پڑی ہوئی ہیں۔ درحقیقت جب بھی کوئی حکمران سیاسی جماعت بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر توجہ دیتی ہے تو فوج اسے اٹھا کر اقتدار سے باہر کردیتی ہے۔ پاکستان کی کمزور ہوتی ہوئی ریاست کے پاس امن معاہدوں کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ایک وقت تھا جب پاکستان میں صرف کچھ لوگ یہ دلیل سننا پسند کرتے کہ القاعدہ اور طالبان کے ساتھ کمزور پوزیشن پر امن کی بات نہ کی جائے۔ لیکن شاید اب یہ وقت گذر چکا ہے۔

(بشکریہ ''فرائیڈے ٹائمز''
انگریزی سے ترجمہ: سجاد اظہر)