Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
|
|
اجمل قصاب کا سفر راولپنڈی سے ممبئی تک |
اریان بیکر، جیوتی تھوتھم
ممبئی حملوں نے نہ صرف پاک بھارت تعلقات کو کھائیوں میں دھکیل دیا ہے بلکہ مسئلہ کشمیر پر جو پیش رفت ہو چکی تھی، وہ بھی سرد خانے میں چلی گئی ہے۔ ان حملوں پر جب بھارت نے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا تو شروع میں اس کی نفی کی گئی مگر اجمل قصاب کے اعترافی بیان نے صورت حال بدل کر رکھ دی۔ پاکستان نے سرکاری سطح پر اجمل قصاب کو نہ صرف اپنا شہری تسلیم کر لیا بلکہ ممبئی حملوں کے الزام میں لشکرِ طیبہ کے کئی رہنمائوں کو حراست میں لے لیا۔ آج کل پاکستان اور بھارت کے درمیان ممبئی حملوں کا کیس ہی سرِفہرست ہے جس کو دنیا، پاکستان میں انتہا پسندی کے پس منظر میں مختلف زاویوں سے دیکھ رہی ہے۔ ایسا ہی ایک انداز معروف امریکی جریدے ٹائم کی ایک حالیہ رپورٹ میں سامنے آیا ہے۔ جس میں ممبئی حملوں کو اجمل قصاب کی روشنی میں دیکھا گیا ہے۔ اجمل قصاب کون ہے؟ وہ کیا چاہتا تھا اور حالات نے اسے کس نہج پر لا کھڑا کیا؟ اس تناظر میں ''ٹائم'' نے پاکستان میں پھیلتے ہوئے دہشت گردی کے رجحانات کو جاننے کی کوشش کی ہے۔ مذکورہ رپورٹ کا ترجمہ قارئین ''تجزیات'' کے لیے پیش خدمت ہے۔ (مدیر)
|
راولپنڈی کوئی ایسا شہر تو نہیں جس کے بارے میں گمان ہو کہ یہاں تقدیریں بدلتی ہیں مگر یہ پاک افغان سرحد پر متاثر ہونے والے افراد کا ایک پڑائو ضرور ہے، اس کے ساتھ ساتھ اُن مزدوروں کا بھی جو دیہات سے شہروں کی طرف مزدوری کے لیے آتے ہیں۔ پنڈی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہاں مجرم سزا سے بچ جاتا ہے اور محنت کار کو کوئی صلہ نہیں ملتا۔ لیکن یہ ہر ایک کو منزل مقصود کے لیے پہلا زینہ فراہم کر دیتا ہے جس پر بعد ازاں وہ اپنی ہمت اور محنت شاقہ کے ذریعے بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔ راولپنڈی گالف کورس کی چمکتی دمکتی گھاس، ان بھوکے ننگوں کا مذاق اڑاتی ہے جو اس کے بند کواڑوں سے جھانکتے ہیں مگر اندر نہیں آسکتے۔ راولپنڈی کی فصیل بہت چوکس ہے یہ کسی کو ادھر اُدھر ہونے نہیں دیتی۔ اسی شہر میں محمد عامر اجمل قصاب نے بھی اُس زینے پر پہلا قدم رکھا تھا جو اسے ممبئی حملوں تک لے گیا جہاں وہ اپنے ساتھی دہشت گردوں کے ہمراہ165 افراد کو ہلاک کرنے کے بعد پکڑا گیا۔ اجمل قصاب اپنے کچھ دیگر ساتھیوں کے ہمراہ 2007ء میں راولپنڈی میں لشکر طیبہ کے سٹال پر گیا۔ تب اجمل قصاب نہ متشدد تھا نہ ہی مذہبی ،وہ جنوبی ایشیاء کے ان لاکھوں ہزاروں نوجوانوں کی طرح تھا جو اپنی زندگیوں کو بدلنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ لیکن یہیں کہیں راہ میںوہ نازک مقام بھی آتا ہے جہاں بندہ ناسمجھی میںکسی کا آلۂ کار بن جاتا ہے۔ وہ عوامل جنہوں نے اجمل قصاب کو یہاں تک پہنچایاان کا جائزہ لینا ہو گا۔
وکٹوریا سٹیشن ممبئی پر جب اجمل قصاب اور اسماعیل خان (جو کہ ممبئی حملوں کی ٹیم کا لیڈر تھا) نے جب فائرنگ شروع کی تو اسماعیل خان پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گیا لیکن اجمل قصاب کو گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد اس نے ممبئی پولیس کے سامنے ایک طویل اعترانی بیان دیا جس کی کاپیاں ٹائم میگزین کو بھی ملیں۔ اجمل قصاب یقینا بہت دبائو میں تھا اور اس اعترافی بیان پر کئی طرح کے سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ لیکن اگر اس کو ایک ایسے ملک کے تناظر میں دیکھا جائے جو جہادیوں کے نرغے میں ہے تو اس اعترافی بیان سے آگے بھی کچھ یقین کیا جا سکتا ہے۔ جب آپ اجمل قصاب کی کہانی کو ملاحظہ کرتے ہیں تو آپ پر یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ نوجوانوں کی اکثریت، جہادیوں کی آلہ کار کیوں بن رہی ہے پاکستان دنیا کا خطرناک ملک کیوں بن چکا ہے؟ کیوں کشمیر صرف دو ملکوں کے درمیان ایک علاقائی تنازعہ نہیں؟ کیوںامیر ممالک کے مقابلے پر غریب ملکوں میںتعلیمی اصلاحات ان کی قومی سلامتی کے لیے ناگزیر ہیں؟ جہادیوں نے ایسی دلدل بنا رکھی ہے جہاں سے کسی کو کھینچ کو باہر نکالنا کس قدر مشکل ہے؟
1990ئمیں پاکستان ایک نئے موڑ پر کھڑا تھا۔ روسی افواج کی افغانستان میں شکست کے بعد جہاد کا نعرہ ہر کسی کی زبان پر تھا۔ اس دوران کشمیری مسلمان بھارت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہیں سے مجاہدین کو اپنے لیے نیامیدان مل گیا۔ پاک فوج نے جہادیوں کو اپنے ازلی دشمن بھارت کے خلاف استعمال کیا اور کشمیر میں گوریلا جنگ چھیڑ دی۔ پاکستان میں جہادی گروہوں نے کشمیر کے نام پر چندہ اکٹھا کیا۔ پاکستانی نوجوانوں کو جہاد کے نام پر جہادی کیمپوں میں تربیت دی گئی جہادصرف عام زندگی سے نکل کر گولی چلانے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مکمل فلسفہ ہے۔ لیکن پھر گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد منظر نامہ تبدیل ہو گیا۔ امریکہ نے پاکستان کو یہ موقع نہیں دیا کہ وہ افغانستان میں طالبان کی مزید حمایت جاری رکھ سکے جہاں جہادیوں نے اپنے تربیتی مراکز قائم کر رکھے تھے۔ 13دسمبر2001ء کو پاکستان میں اپنے کیمپ رکھنے والے جنگجوئوں نے بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کر دیا۔ دو ہفتے بعد امریکہ نے لشکرطیبہ پر اس حملے میں ملوث ہونے کی وجہ سے پابندی عائد کر دی۔ اگلے مہینے اُس وقت کے صدر جنرل مشرف نے عالمی دبائو کے سامنے یہ بیان دیا کہ پاکستان کسی کو اجازت نہیں دے گا کہ وہ اس کی سرزمین اسلام کے نام پر دہشت گردی کے لیے استعمال کر سکے۔ مشرف نے پانچ جہادی تنظیموں پر( جن کی پرورش ان کی فوج نے کی تھی) پابندی عائد کردی واشنگٹن میں مشرف کے ساتھ رابطہ کاروں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے تھا کہ اس فیصلے پر کہاں تک عمل ہوا ۔جہادی زیر زمین چلے گئے اور انہوں نے اپنے لیے متبادل منصوبے تیار کر لیے۔ وہ نئے ناموں کے ساتھ ایک بار پھر سامنے آگئے۔ حکومتی سطح پر کیمپ بند ہو گئے مگر یہ لوگ شہروں سے نکل کر دور دراز پہاڑوں میں چلے گئے جہاں ان کی سرگرمیوں کو حکومت نے نظر انداز کیا۔ ناانصافی اورامریکہ کی اسلامی ممالک کے خلاف دشمنی کے نام پر نوجوانوں کی بھرتی جاری رہی۔ یہ وہ ماحول تھا جس میں اجمل قصاب راولپنڈی پہنچا۔ وہ کسی جنت کی تلاش میں سرگرداں ہرگز نہیں تھا۔ جیسا کہ اجمل قصاب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اور اس کا دوست،امیر بننے کی تگ و دو میں تھے'' جب تک ہمارے پاس بہت سا روپیہ نہیں آجاتا تب تک ہم نے چوری کا فیصلہ کر لیا'' اجمل قصاب نے کہا کہ ظاہر ہے کہ اس کے لیے کسی گھر کا ہی انتخاب کرنا تھا۔ عمران اصغر جو کہ ڈیلی ٹائمز کے رپورٹر ہیں کا کہنا ہے کہ پنڈی میں نوکری ڈھونڈنے کے مقابلے پر ایک گھر لوٹنا زیادہ آسان ہے لیکن ایک گھر لوٹنے کے لیے اجمل قصاب کو اسلحہ چاہئے تھا۔ چنانچہ19 دسمبر 2007ء کو اجمل قصاب راجہ بازار گیا جہاں پر اسلحہ کی دکانیں ہیں لیکن بغیر لائسنس کے اسلحہ خریدنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ چنانچہ وہ راجہ بازار میں لشکر طیبہ کے سٹال پر چلا گیا۔ ''ہم نے سوچا کہ ہم اسلحہ حاصل کر بھی لیں تب بھی اگر ہمارے پاس اسے چلانے کی مہارت نہیں ہو گی تو یہ ہمارے لیے کس کام کا'' اس نے اپنے اقبالی جرم میں بتایا، چنانچہ ہم نے اسلحہ کے استعمال کی تربیت حاصل کرنے کے لیے لشکرطیبہ میں شمولیت اختیار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ قصاب نے اپنے اقبالی جرم میں یہ نہیں بتایا کہ اس نے کوئی گھر لوٹا بھی تھا۔ لیکن یہ کوئی اہم سوال نہیں۔ دنیا بھر میں مجرموں اور دہشت گردوں کے باہمی رابطے ہوتے ہیں۔ چاہے ہتھیاروں کی سمگلنگ ہو یا اغوا برائے تاوان ہر جگہ مجرم اوردہشت گرد ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں۔ لیکن پاکستان میں یہ رابطہ اور بھی گہرا ہے۔ اصغر کا کہنا ہے کہ ''پاکستان میں جب کوئی جرم کرتا ہے تو اس کے کئی مدد گار ہوتے ہیں کچھ اسے راہ راست پر بھی لے آتے ہیں، اگر میں اپنے جرم پر پشیمان ہوں گا تومسجد میں جاکر توبہ کروں گا جہاں مجھے جہاد کی دعوت اور جنت میں داخلے کا سر ٹیفکیٹ دے دیا جائے گا۔ لشکرطیبہ کے سٹال پر اجمل قصاب کو مرکز کے دفتر رابطہ کرنے کا کہا گیا۔ جہاں ایک مکمل انٹرویو کے بعد اُسے ایک تربیتی کیمپ کا پتہ اور بس کا کرایہ دیا گیا۔ یہیں سے اس کے نئے سفر کا آغاز ہوتا ہے۔نفسیات دان اس بات سے آگاہ ہیں کہ خام ذہنوں کو اپنے اپنے مطالب میں ڈھالنا دشوار نہیں ہوتا، چاہے وہ مذہب کے نام پر دہشت گردی ہی کیوں نہ ہو۔ اپنے اقبالی جرم میں اجمل قصاب جس کی عمر اب 21سال ہے کہتا ہے کہ وہ پنجاب کے گائوں فرید کوٹ میں پیداہونے والا وہ عام نوجوان تھا۔ جس کا مذہب سے کوئی خصوصی لگائو بھی نہ تھا۔ اس کا خاندان غریب تھا۔ اس کا باپ ،بس سٹاپ پر پکوڑے بیچتا تھا۔ قصاب نے گائوں کے پرائمری سکول میں داخلہ لیا لیکن 13 سال کی عمر میں وہ کام کرنے کی غرض سے اپنے بڑے بھائی کے پاس لاہور آ گیا۔ پاکستانی ماہر عمرانیات سہیل عباس کا کہنا ہے کہ اجمل قصاب کی کہانی بڑی اہم ہے۔2002ء میں سہیل عباس نے 517 افراد سے انٹرویو کئے جو امریکہ کے خلاف لڑنے کے لیے افغانستان گئے تھے۔ جس سے یہ بات سامنے آئی کہ مدرسوں میں پڑھنے والوں کے مقابلے پر عام سکولوں میں پڑھنے والے، زیادہ تعداد میں دہشت گردی کی طرف مائل دیکھے گئے ۔صرف مذہب ہی وہ عنصر نہیں جو انہیں جہاد کی طرف رغبت دلاتا ہے۔ ایک پاکستانی جو افغانستان کے صوبہ کنٹر میں ایک جہادی کیمپ میں تھا اس سے جب ٹائم نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ افغانستان سیروسیاحت کے لیے آیا تھا۔
فرید کوٹ کوئی ایسا گائوں نہیں جہاں انتہا پسندی پائی جاتی ہے۔ یہاں پکا راستہ آتا ہے۔ گائوں کے اطراف دو فلنگ سٹیشن بھی ہیں یہاں زرخیز زمینوں کے علاوہ فیکٹریاں بھی ہیں۔ یہاں بلیک بیری بھی کام کرتا ہے لیکن ان تمام کے باوجود یہاں گھٹن ہے۔ جاگیرداروں نے غریب افراد کو اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے اچھی زندگی سے گائوں کے سبھی لوگ کوسوں دور ہیں۔ چنانچہ قصاب جیسے لوگوں کے لیے صرف جہاد ہی ایک راستہ بچتا ہے۔ سہیل عباس کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جاں مسائل کا انبار ہے، حساس نوجوان یہ لازمی سوچتا ہے کہ وہ یہاں پر کیسے تبدیلی لا سکتا ہے۔ وہ بدعنوانی سے کیسے جان چھڑا سکتا ہے۔ اور اگر اس طرح کے عزائم کی تکمیل کے لیے جہاد آپ کی راہنمائی فراہم کرے تو آپ ایسا کیوں نہیں کریں گے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرہ میں کچھ ایسے خلاء موجود ہیں جہاں لوگوں کو باآسانی ورغلایا جا سکتا ہے۔ چاہے وہ ریاستی حمایت یافتہ جہاد ہی کیوں نہ ہوں۔ضلعی ناظم غلام مصطفی جو اس بات کے انکاری ہیں کہ اجمل قصاب کا تعلق فرید کوٹ سے ہے۔ انہوںنے کہا اس علاقے سے لوگ جہاد کشمیر پر جاتے رہے ہیں۔ ''جنگجو گروہوں کے ساتھ منسلک ہونا اگرچہ خطرات سے خالی نہیں لیکن اس سے سماجی سطح پر آپ کو ایک ایسا مقام مل جاتا ہے جس کا تصور عمومی طور پر پاکستانی معاشرے میں ممکن نہیں''۔ یہ خیالات محمدعامر رانا کے ہیں جو کہ شدت پسندانہ گروہوں کے ماہر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ لوگ جہادی گروہوں کے ساتھ منسلک ہونے کو اپنی سماجی حیثیت میں بڑھوتری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
دیہاتیوں کا کہنا ہے کہ اجمل قصاب جب ممبئی جانے سے قبل گھر والوں سے ملنے آیا تو وہ ایک بدلا ہوا انسان تھا۔ اسے جو مقصدِحیات دیا گیا تھاوہ اس سے بہت مطمئن اور اپنی جنگجویانہ صلاحیتوں سے سرشار تھا۔ آج کل اجمل قصاب کے ہمسائے کسی کو کچھ نہیں بتاتے اور نہ ہی صحافیوں کا سامناکرتے ہیں۔ ڈان کے نمائندے نے گائوں کے ایک شخص کا انٹرویو کیا تھا جس کا کہنا تھا کہ وہ اجمل قصاب کا والد ہے۔'' میں شروع میں اس لیے اجمل قصاب کو بیٹا ماننے سے انکاری تھا کیونکہ میں سوچتا تھا کہ یہ میرا بیٹا کیسے ہو سکتا ہے ۔ ''عامر قصاب نے کہا ''لیکن اب میں نے تسلیم کر لیا ہے، چند سال قبل جب وہ گھر آتا جاتا تھا تو اس نے ایک بارمجھ سے عید پر نئے کپڑوں کی فرمائش کی، جو میں پوری نہیں کر سکا جس پر وہ ناراض ہو کر چلا گیا'' قصاب کے اعترافی بیان سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے بعد وہ 2005ء میں صوفی بزرگ داتا صاحب کے مزار پر چلا گیا۔ اجمل قصاب کا کہنا ہے کہ داتا دربار گھر سے بھاگنے والوں کا ٹھکانہ ہے۔ داتا دربار کے منتظم محمد سہیل کا کہنا ہے کہ یہاں لوگوں کے لیے رہائش گاہیں نہیں ہیں لیکن لوگ ارد گرد ٹھہر جاتے ہیں اور پھر دربار سے انہیں مفت کھانا بھی مل جاتا ہے یہاں روزانہ ہزاروں لوگ آتے ہیں وہ کسی قصاب کو بطور خاص نہیں جانتا۔ لیکن میںاتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہاں جو کوئی برے ارادے سے بھی آئے تو وہ ایک اچھا مسلمان بن جاتا ہے۔ اجمل قصاب کیس، جنوبی ایشیاء میں مختلف مسلمان فرقوں کے درمیان تضادات کو بھی واضح کرتا ہے۔ 2007ء میں رینڈکارپوریشن نے ایک مطالعے سے اخذ کیا کہ بریلوی جہاد کے موجودہ نظرئیے سے اتفاق نہیں کرتے اس لیے وہ شدت پسند گروہوں کے انتہا پسندانہ خیالات کا مقابلہ کرنے کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن روس کے خلاف جہاد کے دوران وہابی گروہ جن کی قیادت سعودی عرب کر رہا تھا انہوں نے جنوبی ایشیاء کے مسلمان فرقوں کو بہت متاثر کیا بالخصوص دیوبندیوں کو پاکستان کے اندر منظم ہونے کا زیادہ موقع ملا۔ سہیل عباس کا کہنا ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ بنی کریمۖ کا طرز حیات لوگوں کو امن اور محبت کا سبق دیتا ہے لیکن ملاّ،عام آدمی کوجو پڑھا لکھا نہیں ہوتا اس کو ورغلاتا ہے اور کہتا ہے کہ تم خود کش دھماکہ کرو گے تو سیدھا جنت میں جائو گے چنانچہ وہ سادہ لوح ان کے دام فریب میں آجاتا ہے۔
بہرحال اس کی وجہ جو بھی تھی قصاب زیادہ عرصہ داتا دربار پر نہیں رہا۔ یوں اس نے چھوٹی موٹی نوکری کر لی لیکن قلیل تنخواہ نے اس کو نوکری چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ جس کے بعد وہ لاہور سے پنڈی ہجرت کر آیا۔ جہاں لشکرطیبہ کے کیمپ سے اسے مرکزدعوة والارشاد کے مرکزی دفتر مرید کے بھیج دیا گیا۔مرکزدعوةوالارشاد کی بنیاد1987ء میں لاہور کے نزدیک مرید کے میں رکھی گئی اس کو قائم کرنے میں افغان جہاد میں حصہ لینے والوں کا اہم کردار تھا جس کے لیے فنڈزاُسامہ بن لادن نے بھی فراہم کیے بعد ازاں یہ مرکز مجاہدین کے لیے لانچنگ پیڈ کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اگلے چند سالوں میں یہاں مدرسہ، لڑکے لڑکیوں کے علیحدہ علیحدہ سکول ، مفت ہسپتال اور یونیورسٹی بھی بنا دی گئی۔ حافظ سعید، ظفر اقبال اور عبداللہ اعظم نے اپنے اہداف بڑھا لیے اور انہوں نے کہا کہ وہ ایک مکمل اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ عبداللہ اعظم جو کہ اسامہ بن لادن کے مشیر بھی رہ چکے تھے وہ 1989ء میں پشاور میں ایک کار بم دھماکے میں مارے گئے۔ یہاں کی تعلیم کا مرکزی نقطہ جہاد تھا اگرچہ ساتھ ساتھ سائنس اورٹیکنالوجی کی تعلیم بھی تھی۔ مثلاً کمپیوٹر ، ورکشاپ، فونڈری، مسجد اور دیگر تعلیمی لوازمات کا بھی یہاں خیال رکھا گیا حتیٰ کہ یہاں پر موجود سہولیات پاکستان کے کئی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں بہتر تھیں۔ اجمل قصاب نے اعتراف کیا کہ مریدکے میں دوران تربیت اسے مختلف مراحل سے گزارا گیا جن میں جسمانی مشقیں، نماز کی ادائیگی اور مذہبی مباحثے بھی شامل تھے۔ لشکرطیبہ کے وہ جنگجو جو یہاں سے فارغ التحصیل ہوئے وہ اس بات کو ماننے سے انکاری ہیں کہ یہ کسی قسم کاتربیتی مرکز ہے۔ جب کہ یہاں انھیں تیراکی اور لڑائی کے طور طریقے سکھائے جاتے ہیں ،جدید ہتھیاروں کے استعمال کی تربیت پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حصے میں موجود تربیتی مراکز میں دی جاتی ہے۔بعد ازاں صرف چند منتخب طلباء ہی اصل اہداف کوحاصل کرنے کے لیے منتخب کیے جاتے ہیں اور باقی طلباء اپنے مسلک کی اجارہ داری کے لیے کام کرتے ہیں۔ دیہات کے وہ والدین جو مرید کے مرکز میں اپنے بچوں کو تعلیم کے لیے بھیجتے ہیں وہ یہاں کے معیار ِ تعلیم سے مطمئن ہیں۔ چوالیس سالہ غلام قادر کے دو بچے یہاں پڑھتے ہیں اگرچہ وہ خود بریلوی مسلک کا ہے۔ سکول میں پڑھنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزانہ پانچ وقت کی نماز پڑھیں اور روزے رکھیں، انہیں ٹی وی دیکھنے یا میوزک سننے کی اجازت نہیں'' مجھے امید ہے کہ میرے بچے میرا مسلک نہیں چھوڑیں گے لیکن میں ان کا بہتر مستقبل چاہتا ہوں ''غلام قادر نے جواب دیا۔ پھر یہاں بچوں کی تعلیم نہ صرف مفت ہے بلکہ انہیں دوپہر کا کھانا بھی ملتا ہے۔
بریلوی علاقوں میں وہابی مسلک کی ترویج صرف مرید کے تک ہی محدود نہیں بلکہ پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی مساجد، مدرسوں اور سکولوں کے ذریعے شدت پسندی پھیل رہی ہے بہاولپور اور ملتان اس کی بڑی مثالیں ہیں بہاولپور کے ایک رہائشی کا کہنا ہے کہ حکومت کی چھتری تلے جہادی اپنا انفراسٹر کچر بنا رہے ہیں مریدکے کی طرز پر بہاولپور میں بھی ایک مرکز قائم ہو چکا ہے جہاں پر طلبا سرعام اپنے ہاتھوں میں کلاشنکوفیں لیے پھرتے ہیں گائوں کی دیواروں پر ایمان نہ رکھنے والوں کے خلاف جہاد کے نعرے درج ہیں اور کفار کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی ہے عامررانا کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی سرگرمیوں میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے2002ء کے بعد جتنے دہشت گرد حملے ہوئے ان میں سے 60 فیصد کا نشانہ پنجاب تھا۔ جب کہ عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ جنگجو گروہ لوگوں کو بھرتی کرکے ہر کہیں بھیج رہے ہیں۔ کچھ کو کشمیر بھیجا جا رہا ہے جب کہ اس سے کہیں زیادہ کو باجوڑ، سوات اورشمالی وزیرستان میں حکومت کے خلاف لڑنے کے لیے بھیج دیا جاتا ہے۔ لشکرطیبہ کا اصل مقصد ایک اسلامی ریاست کا قیام ہے جس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہے چاہے وہ تشدد کا راستہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگلے مرحلے میں وہ جہادکو گلی محلوں میں بھی لے آئیں گے بلکہ لے آئے ہیں۔3مارچ کو سری لنکن ٹیم پر لاہور میں ہونے والا حملہ اس کی مثال ہے جس میں چھ پولیس اہلکاراور ایک ڈرائیور ہلاک ہو گیا جب کہ متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔ اگرچہ اس کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی مگر ممبئی اور لاہور کے واقعات میں بہت حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔جنت کے حصول کے لیے کسی کومار دینے والے مریدکے ،کے منتظموں نے اجمل قصاب کی تربیت ذراہٹ کر کی۔ جہاد کے بارے میں مریدکے میں آگاہی دینے کے بعد اسے کشمیر بھیج دیا گیا جہاں اسے بندوق چلانے کی تربیت دی گئی۔ قصاب کا کہنا ہے کہ اسے مانسہرہ میں 21 روز کی تربیت میں ہینڈ گرنیڈ، راکٹ لانچر، مارٹر،ازی گن،پستول، وغیرہ چلانے اور بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں کے بارے میں بتایا گیا۔ محمد عثمان جو ایک سابق جہادی ہیں انہوں نے ٹائم کو بتایا کہ یہ تربیت بہت مشکل ہوتی ہے۔ لیکن جب میں نے پہلی بار لائن آف کنٹرول کو پار کیا تو میں پندرہ روز تک اپنے گروپ سے الگ بھٹکتا رہا۔ میری تربیت میںیہ نہیں بتایا گیا تھا کہ ایسے حالات میں مجھے کیا کرنا ہے۔ عثمان کی عمر اب36 سال ہے جو لشکرطیبہ کے بانی ارکان میں سے ہے اس کی کہانی بھی پاکستان میں شدت پسندی کو سمجھنے میں کافی مدد فراہم کرتی ہے. اسے مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کے خلاف بھارتی مظالم کا سن کر بہت رنج ہوا۔ 1990ء میں کشمیری مہاجرین پاکستان پہنچ کر اپنے اوپر روا رکھے گئے مظالم کو بتا کر چندہ اکٹھا کرتے تھے۔ایک کشمیری مہاجر نے عثمان کو بتایا کہ بھارتی فوج نے اس کے ایک بھائی کو قتل کر ڈالا جب کہ ایک بہن کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔ اس کے بعد اس نے عثمان سے سوال کیا کہ اگر تمہاری بہن کے ساتھ ایسا ہوا ہوتا تو تم کیا کرتے۔ جس کے بعد عثمان نے جہاد میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا۔ ابتداء میں عثمان نے ایک کشمیری جہادی گروہ میں شمولیت اختیار کی مگر بعد ازاں اس نے حافظ سعید کے ساتھ مل کر لشکرطیبہ کی بنیاد ڈالی۔ عثمان کا کہنا ہے کہ ہماری جنگجویانہ صلاحیتوں کے کشمیری بھی معترف ہیں ہم حملہ کرتے اور بھاگتے نہیں ہیں بلکہ آخری دم تک مقابلہ کرتے ہیں۔ یہ اعتماد ہماری تربیت کا حصہ ہے۔ ہم خوف سے مبراہیں قرآن نے ہمیں بتایا ہے کہ اگر ہم شہید ہو گئے تو ہم کامیاب وکامران ٹھہریں گے۔ یہ میری بدقسمتی تھی کہ شہادت نصیب نہیں ہوئی۔ شہادت جنت کی ضمانت ہے اس بات کو لشکرطیبہ نے بھارتی افواج کے خلاف جہاد میں خوب استعمال کیا جس کے بعد مجاہدین بھارتی افواج کے کیمپوں میں گھس جاتے اور اپنے آپ کو آگ لگا کر انہیں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے۔ عثمان کا کہنا ہے کہ ہم جب کبھی ایسی کارروائیوں کے لیے روانہ ہوتے تو سب لوگ مل کر دعا کرتے کہ ہم شہید ہوجائیں اور اس کے بعد پھر ملیں ۔ اجمل قصاب کسی ایسے گروہ کا حصہ تو نہیں رہا مگر اس کی تربیت بھی ایسے ہی مجاہدین کی طرز پر کی گئی تھی۔ اجمل قصاب نے اعترافی بیان میں کہا کہ آخری مرحلے میں اسے مظفرآباد کے قریب واقع ایک کیمپ میں بھیجا گیا جہاں اس کی ملاقات ذکی الرحمن لکھوی المعروف چاچا سے ہوئی جس نے اسے16 بندوں پر مشتمل ایک خفیہ مشن کے لیے منتخب کیا۔ ذکی الرحمن لکھوی کو پاکستانی سیکورٹی اداروں نے 07 دسمبر کو مظفرآباد کے قریب لشکرطیبہ کے کیمپ سے گرفتار کر لیا۔ اجمل قصاب نے بتایا کہ 16 افراد میں سے تین بھاگ گئے جب کہ باقیوں کو مریدکے میں تیراکی کی تربیت دی گئی اور بتایا گیا کہ سمندر میں مچھیرے حالات کا مقابلہ کس طرح کرتے ہیں۔ مریدکے مرکز میں دو بڑے بڑے تالاب ہیں جہاں طلبا کو تیراکی سکھائی جاتی ہے، مریدکے میں قیام کے دوران اجمل قصاب کو نہ صرف بھارتی خفیہ اداروں کے متعلق بتایا گیا بلکہ بھارت میں مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے والے مظالم کی وڈیو فلمیں بھی د کھائی گئیں۔13 میں سے چھ مجاہدین کو کشمیر کے راستے بھیجا گیا۔ جس کے بعد تین نئے افراد کو گروپ میں ڈالا گیا۔ اس طرح 10 افراد کو دو دو کے حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ ممبئی حملوں کا تعلق کشمیریوں کی جدوجہدسے تھا مگر نہ تو انڈیا نے ممبئی حملوں کے تانے بانے کشمیر سے جوڑنے کی کوشش کی اور نہ ہی کشمیری لیڈروں نے ایسا کیا بلکہ کشمیری رہنمائوں نے تو یہاں تک کہا کہ ممبئی حملے ان کی جدوجہد سے توجہ ہٹانے کی سازش ہے۔ لیکن قصاب اپنے مشن کے سیاسی مقاصد کے بارے میں نابلد تھا۔ گوگل ارتھ سے معلوم ہوتا ہے کہ لشکر طیبہ کے کمانڈوز نے کسی طرح کشتیوں سے چھلانگیں لگائیں، قصاب اور اس کے ساتھی اسماعیل خان کس طرح اپنے ہدف تک پہنچے۔چتراپتی شواجی ٹرمینل اور وکٹوریہ ٹرمینل پر صبح سات سے دن گیارہ بجے تک یا پھررات ساتبجے سے گیارہ بجے تک رش کے اوقات میں انہیں فائرنگ کرنے کی ہدایت تھی۔ جس کے بعد کچھ لوگوں کو اغواء کر کے کسی نزدیکی عمارت میں لے جا کر یرغمال بنا کر اپنے مطالبات پیش کرنے تھے۔ مشن پر روانگی سے قبل قصاب کا آخری پڑائو کراچی کے نزدیک ایک گھر تھا۔ لیکن ممکن ہے کہ اس مشن کی بھنک باہر پڑ گئی ہو۔ کیونکہ ستمبر کے اواخرمیں بھارتی خفیہ ادارے آئی بی نے تاج محل ہوٹل اور ٹاور ہوٹل کو نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات فراہم کر دی تھیں۔ جب کہ اکتوبر کے درمیان امریکی خفیہ اداروں نے بھی خبردار کیا تھا کہ سمندر کے راستے ممبئی پر حملہ ہو سکتا ہے۔ جس پر ہوٹلوں کو اضافی سیکورٹی فراہم کر دی گئی تھی۔ لیکن جب ایسا کچھ نہیں ہوا تو نومبر کے درمیان سیکورٹی ہٹا لی گئی۔ اجمل قصاب کا گروپ 22 نومبر کو صبح سوا چار بجے کراچی سے روانہ ہوا جب کہ کراچی بندرگاہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اجازت کے بغیر یہاں سے کوئی نہیں جا سکتا۔ لیکن عباس علی جو کہ لانچ کے کاروبار سے وابستہ ہیں ان کا کہنا ہے کہ رجسٹرڈ لانچ کے ذریعے جانا آسان ہے اور کراچی میں روزانہ150 لانچیں آتی جاتی ہیں۔ جب لانچیں گہرے سمندر میں چلی جاتی ہیں تو وہاں ایک طرح سے آزاد ہو جاتی ہیں۔ کیونکہ ایسا کوئی انتظام نہیں کہ ہرلانچ پر نظر رکھی جا سکے۔ اجمل قصاب کی ٹیم ایک لانچ سے دوسری کشتی میں سوار ہوگئی۔پھر ایک جہاز الحسینی جس کے بارے میں پاکستانی خفیہ اداروں کا کہنا ہے کہ یہ ایک اسلامی گروپ جو کہ لشکرطیبہ کے ساتھ منسلک ہے اس کی ملکیت ہے۔ یہاں ہرجنگجو کو ایک کلاشنکوف،200 گولیاں، دو میگزین اور ایک موبائل فون دیا گیا۔ قصاب اور اس کے ساتھیوں نے اپنے سیٹلائٹ فون کیٹی بندر جو کہ کراچی سے 150 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے صبح پونے سات بجے آن کر لیے۔ جہاں سے انہوں نے اپنے سفر کا آغاز کیا یہاں سے الحینی جہاز جس پر جنگجو سوار تھے ان کا سامنا بھارتی مچھیروں کے ایک جہاز ایم وی کبیر سے ہوا۔ اجمل قصاب نے اپنے اعترافی بیان میں کہا کہ جب ان کا جہاز بھارتی پانیوں میں پہنچا تو انہوں نے مل کر مچھیروں کی ایک کشتی پر قبضہ کر لیا۔ لیکن بھارتی دستاویزات جو کہ بھارتی تحقیقاتی ادارے نے مرتب کیں ان سے قطعی ایک مختلف کہانی سامنے آتی ہے یہ کہ بھارتی جہاز کے مالک امرسنگھ سولنکی کو پاکستانی پانیوں میں پا کر اسے بھاری پیسوں کے عوض ورغلایا گیا اور کہا گیا کہ یہ سمگلنگ کا مال پار کرنا ہے۔امرسنگھ کے چار ملازمین الحینی جہاز میں سوار ہو گئے (جہاں لشکرطیبہ کے سات جنگجو پہلے ہی سوار تھے) جنہیں بعد ازاں موت کے گھاٹ اتار دیا گیاامرسنگھ جنگجوئوں اور ان کے ساتھ اسلحے سے بھرے تھیلوں اور خشک میوہ جات کے پیکٹس لے کر ممبئی کے ساحل کی جانب چل دیا جو یہاں سے 1020 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ شہر سے ساڑھے سات کلو میٹر دور جہاز کو سمندر میں روک لیا گیا تاکہ اندھیرا پھیل جائے۔ اسی دوران گروپ کے رہنما اور قصاب کے ساتھی اسماعیل خان نے پاکستان میں بات کی۔ یہ بات بھارتی دستاویزات میں کہی گئی ہے اسماعیل خان کو امرسنگھ سولنکی کو قتل کرنے کی ہدایت ملی۔ قصاب اور اس کے ساتھی امرسنگھ کی کشتی سے اتر کر ایک چھوٹی کشتی جو کہ موٹر سے چلتی تھی اس پر سوار ہو گئے اور تقریباً ایک گھنٹہ میں ساحل پر پہنچ گئے۔ بہادر پارک مچھیروں کی جیٹی جہاں پر اجمل قصاب اور اس کے ساتھی اترے ، بعض مچھیروں نے ان سے معمولی باز پرس کی لیکن زیادہ تر مچھیرے کرکٹ میچ دیکھنے میں مصروف تھے اس لیے وہ با آسانی باہر آکر بذریعہ سڑک اپنے اپنے اہداف کی جانب روانہ ہو گئے۔ اجمل قصاب کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اسے ممبئی کے اس اہم ترین ریلوے اسٹیشن کا ہدف کیوں دیا گیا تھا ۔ یہ وکٹوریہ ممبئی کا اہم ترین ریلوے سٹیشن تھا جہاں سے روزانہ تقریباً35 لاکھ مسافر گزرتے ہیں۔ اجمل قصاب اور اس کا ساتھی خان یہاں صبح 09 بج کر20 منٹ پر پہنچ گئے۔ یہاں فائرنگ سے58لوگ اپنی جانوں سے گئے۔ اور 104 زخمی ہوئے جب کہ اس کے مقابلے پر دوسری جگہ تاج محل ،اوبرائے ہوٹل اور یہودیوں کے سینٹر میں نشانہ غیر ملکی اور امراء تھے۔ریلوے سٹیشن پر نشانہ بننے والے عام لوگ، دیہاتی اور تنخواہ دار ملازم تھے۔اس لیے یہاں کسی کو ہدف بنا کر فائرنگ نہیں کی گئی بلکہ جو بھی فائرنگ کی زد میں آیا وہ مارا گیا۔ مرنے والوں میں ایک پولیس انسپکٹر بھی تھا جو کہ ریلوے سٹیشن پر کتابوں کی دکان سے میگزین خرید رہا تھا۔ یہاں مسلسل آدھا گھنٹہ فائرنگ کے بعد اجمل قصاب اور اس کا ساتھی پیدل چلتے ہوئے کسی ایسے مقام کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے جہاں پر چند لوگوں کو یرغمال بنا کر عالمی میڈیا کی توجہ حاصل کی جا سکے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے گلابی رنگ کی ایک عمارت منتخب کی جو درحقیقت ایک ہسپتال تھا جسے ممبئی کے ایک امیر خاندان نے غریبوں کے مفت علاج کے لیے بنایا تھا یہاں پر ڈاکٹر سوشیل سوناونے ڈیوٹی پر تھے۔ اس کی دوسری منزل پر انتہائی نگہداشت کا شعبہ تھا اور یہاں پر جو آٹھ افراد مارے گئے ان میں سے زیادہ تر وہ تھے جو زچہ و بچہ وارڈ میں آئے تھے۔ ڈاکٹر سنوانے کا کہنا تھا جسے ہی ہینڈ گرنیڈپھٹے ہم نے اور دوسرے ساتھی ڈاکٹروں نے کمروں کو اندر سے بند کر لیا۔ جبکہ بچے اور ان کی مائیں خوف سے شور مچا رہے تھے۔ یہاں پانچ پولیس آفیسر اور دو وارڈ کلرک فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہو گئے۔ یہاں پر کسی کو یرغمال بنانے میں ناکامی پر اجمل قصاب اور خان جس راستے سے ہسپتال میں آئے تھے اسی سے باہر نکلے ،انہوں نے ایک پو یس کی گاڑی دیکھی جس میں پو یس کے تین آفیسر اور ریاست کے انسداد دہشت گردی سکواڈ کے سربراہ کرکرے بھی سوار تھے۔ اجمل قصاب نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس گاڑی سے ایک پولیس آفیسر اترا اور اس نے ہم پر فائرنگ کی جس سے ایک گولی میرے ہاتھ پر لگی اور مجھ سے کلاشنکوف چھوٹ گئی۔ میں جیسے ہی کلاشنکوف کو اٹھانے کے لیے جھکا دوسری گولی بھی اسی ہاتھ پر آ کر لگی۔لیکن اس کے ساتھی نے اسی اثناء میں تینوں پولیس آفیسر کو ہلاک کر دیا۔ خان نے تینوں لاشوں کو گاڑی سے نکال کر گاڑی بھگا دی۔ اس دوران دوسرے جنگجو تاج ہوٹل،اوبرائے ہوٹل اور نرمان ہائوس میں کافی لوگوں کو یرغمال بنا چکے تھے۔ قصاب اورخان گاڑی کو گلیوں میں دوڑاتے رہے یہاں ان کا سامنا ایک پولیس کار سے ہوا جس میں تین خواتین سوار تھیں مگر انہوں نے انہیں نظر انداز کر دیا۔ سمندر کی طرف جاتے ہوئے وہ اوبرائے ہوٹل کے پاس سے گزرے یہاں ایک چوک میں پولیس نے انہیں گھیر لیا۔
خان کے مشن کے آخری لمحوں کے حوالے سے جب موقع پر موجود تین پولیس آفیسروں سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ خان نے یو ٹرن لینے کی کوشش کی مگر ان کی گاڑی ایک پتھر پر چڑھ کر رک گئی۔جس پر پولیس گاڑی کی طرف دوڑی مگر خان جو کہ ڈرائیور سیٹ پر تھا اس نے فائرنگ کر دی پھر جوابی فائرنگ میں وہ مارا گیا۔ قصاب نے پہلے توخود کو حوالے کرنے کے لیے اپنے ہاتھ اوپر کھڑے کئے لیکن جب ایک پولیس آفیسر نے کار کا دروازہ کھولا تو قصاب نے گاڑی سے چھلانگ لگا کر پولیس انسپکٹر تکرم امبالے کو نیچے زمین پر گرا دیا جس نے اجمل قصاب سے کلاشنکوف چھیننے کی کوشش کی مگر اسی مڈ بھیڑ میں اجمل قصاب نے اسے ہلاک کر دیا۔ جس کے بعد پولیس کے دیگر لوگوں نے اجمل قصاب پر لاٹھیوںکی برسات کر دی تا وقتیکہ وہ بے ہوش نہیں ہو گیا۔ ایک پولیس آفیسر کا کہنا تھا کہ قصاب کار ڈرائیور سے قطعاً مختلف معلوم ہوتا تھا کار ڈرائیور بہت ناراص شخص تھا مگر قصاب نارمل معلوم ہوتا تھا۔ بھارتی پولیس نے قصاب کے ساتھ عام مجرموں جیسا سلوک کیا۔
بھارتی دستاویزات میں اجمل قصاب کے خلاف جو کیس بنایا گیا ہے وہ حملے کے منظر نامے اور اجمل قصاب کے موبائل فونوں سے ملنے والے ڈیٹا پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود ممبئی کرائم برانچ کے کیس میں کچھ کمزوریاں بھی ہیں ایسے لگتا ہے کہ اس کا مقصد دنیا کو دکھانا ہے کہ اجمل قصاب کے پیچھے پاکستان اور لشکرطیبہ کا ہاتھ ہے۔ شواہد میں کئی جگہ خامیاں موجود ہیں کہ دہشت گردوں نے ممبئی پر حملوں کے لیے پاکستانی سرزمین استعمال کی۔ وہ عمومی اشیاء جو اجمل قصاب اور اس کے ساتھیوں نے کشتیوں میں چھوڑیں ان میں ایک ماچس کی ڈبیا، ڈٹرجنٹ پائوڈر، ٹچ می شیونگ کریم اور ماوٰنٹین ڈیو کی بوتل سمیت سب عام استعمال کی اشیاء ہیں جنہیں کوئی بھی استعمال کر سکتا ہے۔ مگر شواہد میں ان کے ''میڈان پاکستان ''لیبل کو اہمیت دی گئی ہے۔یہ اس اجمل قصاب کی کہانی ہے، جو اب کوئی عام آدمی نہیں رہا، وہ جن حالات و واقعات سے گزر کر اس مرحلے تک پہنچا اس کے بعد وہ اب اس واقعے کا اہم کردار ہے جس نے برصغیر کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ اس نے کچھ اچھا نہیں کیا۔ وہ اگر کوئی اور جرم کرتا تو ممکن ہے کہ وہ فرید کوٹ اور راولپنڈی سے فرار ہو جاتا لیکن اب وہ ایسا نہیں کر سکتا اب وہ یہی سوچتا رہے گا کہ اس نے ایسا کیوں کیا۔
(انگریزی سے ترجمہ: سجاد اظہر)
|
|
|
|
|