Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
دہشت گردی ، نفسیات کے تناظر میں |
امجد طفیل
امجد طفیل پاکستان کے معروف ادیب ہیں۔ ادب اور نفسیات پر ان کی 15کتابیں اور متعدد تحقیقی مقالہ جات شائع ہو چکے ہیں۔ آج کل وہ ایم اے او کالج لاہور میں نفسیات کے استاد کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور ساتھ پی ایچ ڈی بھی کر رہے ہیں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کا انہوں نے نفسیات کے تناظر میں تجزیہ کیا ہے۔ ان کا یہ مضمون اپنے عنوان کے حوالے سے خاصا منفرد ہے جس میں کئی طرح کے گوشے سامنے آئے ہیں۔ اس مضمون کا پہلا حصہ دسمبر2002ء میں لکھا گیا جبکہ دوسرا فروری2009ء میں تحریر ہوا جس کو امجد طفیل نے ''تجزیات'' کے صفحات کے لیے بطور خاص پیش کیا ہے۔ (مدیر) |
آج ہم جس دنیا میں بستے ہیں اس میں تشدد اور دہشت گردی (Terrorism) کا ذکر بار بار سننے میں آتا ہے۔ نفسیات کے حوالے سے جو کانفرنسیں اب منعقد ہو رہی ہیں اس میں بھی دہشت گردی کی نفسیات پر مضامین پڑھے جا رہے ہیں۔11 ستمبر2001ء کے واقعات کے بعد خاص طور پر امریکہ میں دیگر شعبہ ہائے علم کے ساتھ ساتھ ماہرین نفسیات نے بھی دہشت گردی کے اسباب کو سمجھنے، انسانی شخصیت اور کردار کے ان عوامل کا کھوج لگانے کی کوششیںتیز کردی ہیں جو فرد کو تشدد ، جارحیت اور دہشت گردی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس بات کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ دہشت گردی کوئی نیا مظہر نہیں ہے۔ انسانی تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے اور آج ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے واقعات ہو رہے ہیں جنہیں دہشت گردی کہا جاسکتا ہے لیکن سماجی سائنسز میں تحقیقی کام کرنے والوں کو ایک بات یاد رکھنا چاہئے کہ انہیں مختلف باتوں اور تصورات کی وضاحت نہایت احتیاط سے کرنا چاہئے اور اس سلسلے میں جس حد تک ممکن ہو سیاسی، سماجی اور ذاتی مفادات سے گریز کرنا لازمی ہے موجودہ صورتحال میں ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف علوم سے وابستہ ماہرین نفسیات مختلف تصورات کی وضاحت میں اپنے اپنے قومی مفادات کے اسیر ہیں، دہشت گردی کے حوالے سے امریکی ماہرین نفسیات پر ١١ ستمبر کے واقعات کا اثر اب بھی نمایاں ہے اور وہاں سنجیدہ تحقیق بہت کم، جذباتی رد عمل اور میڈیا کی بنائی ہوئی صورت حال کی توجیہات زیادہ کی جارہی ہیں۔
دہشت گردی کیا ہے؟ اس سلسلے میں Bryn Mawr College کے نفسیات کے پروفیسر کلارک آر میکاولی نے اپنے مضمون میں اس کی تعریف و توصیح کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ''عموماً دہشت گردی کی وضاحت یوں کی جاتی ہے کہ کسی سیاسی یا ذاتی مقصد کے حصول کے لیے تشدد کا استعمال یا استعمار کی دھمکی ایک بڑے گروپ کے خلاف چھوٹے گروپ کی جانب سے ہو تو دہشت گردی کہلاتی ہے۔ اس میں چھوٹے گروپ کے لوگ بڑے گروپ کے غیر مسلح افراد کو نشانہ بناتے ہیں''۔پروفیسر موصوف نے دہشت گردی کی تعریف واضح کرتے ہوئے صرف امریکی، یہودی مفادات کو پیش نظر رکھا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دہشت گردی کی ایسی تعریف وضع کرنے کی کوشش کرنا چاہئے جس کا اطلاق وسیع پیمانے پر کیا جاسکے مگر افسوس ماہرین نفسیات بھی خود کو سیاسی و معاشی مفادات سے بلند نہیں کر پاتے۔ اپنے اسی مضمون میں پروفیسر میکاولی نے ایک تفریق کی ہے۔ جو یقینا ہمارے کام آسکتی ہے اور یہ تفریق ہے دہشت گردی میں اوپر سے نیچے یا نیچے سے اوپر کی طرف رخ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر بالادست طبقوں کی دہشت گردی کو ہمیشہ دہشت گردی قرار نہیں دیا جاتا تو نچلے طبقوں کی طرف سے جواب کو کیا ہمیشہ دہشت گردی کہنا درست ہے۔ افسوس اپنے اس نقطے کی زیادہ وضاحت انہوں نے نہیں کی۔ اس سوال کا جواب یقینا ہاں میں دیا جاسکتا ہے۔ دہشت گردی اگر قوت کا استعمال ہے جارحیت اور تشدد سے کسی سیاسی یا سماجی مقصد کے حصول کے لیے تو پھر یہ کسی بھی طرح کے گروپ کی طرف سے کسی کے خلاف بھی روا رکھی جائے اسے دہشت گردی ہی کہا جائے گا۔
دہشت گردی کے حوالے سے دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ اسے فرد کی نفسیات کے حوالے سے دیکھا جائے۔ فرد کی نفسیات کے حوالے سے جب ہم دہشت گردی پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہم اپنی توجہ انفرادی عوامل پر لگاتے ہیں۔ یہاں ہم فرد کو شرارتی، خودکشی کرنے والے، سائیکو پیتھ، اخلاقیات سے عاری، دوسروں کے احساسات کا خیال نہ کرنے والا قرار دیتے ہیں۔ یہاں دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ تیس سال کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ دہشت گردی کرنے والے اپنی شخصیت اور ذہنی بگاڑ کے درجے کے اعتبار سے نارمل افراد سے مختلف نہیں ہوتے بلکہ بعض ماہرین نے تو یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دہشت گرد مکمل طور پر نارمل افراد ہوتے ہیں اور دہشت گردی کسی وقتی اشتعال کا فوری جواب نہیں ہوتی بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ ہوتا ہے ۔ دراصل فرد رفتہ رفتہ دہشت گردی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ سماجی، سیاسی اور بین الاقوامی حالات فرد کی سوچ میں تبدیلی پیدا کرتے ہیں۔ وہ جب خود کو اپنے دشمن کے سامنے مکمل طور پر بے بس پاتا ہے تو آخری چارہ کار کے طور پر وہ خود کو تباہ کر کے اپنے دشمن کو ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس سلسلے میں اسرائیل میں فلسطینیوں کی جانب سے کیے جانے والے خود کش حملے نہایت اہم مثال ہیں۔
ماہرین نفسیات اس سوال پر غور کر رہے ہیں کہ ایک نارمل افراد کس طرح دہشت گرد میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ ایک دلچسپ نتیجہ یہ نکالا گیا ہے کہ نارمل افراد رفتہ رفتہ تشدد کی طرف مائل ہوتے ہیں ایسا بالکل غیر محسوس انداز میں ہوتا ہے اس کے پیچھے اکثر اوقات اخلاقی تصورات موجود ہوتے ہیں لوگ اس لیے جان قربان کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے دل کی گہرائیوں سے محسوس کرتے ہیں کہ زندگی میں کچھ باتیں ایسی بھی ہیں جو زندگی سے زیادہ اہم ہیں۔ جن کے لئے فرد اپنی جان قربان کر سکتا ہے۔ یعنی اس حوالے سے غور کریں تو ہمیں دہشت گرد اخلاقی اعتبار سے نارمل افراد جیسے ہی نظر آتے ہیں۔
دہشت گردی کو دیکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اس کے اثرات آبادی پر دیکھیں۔ اس میںسٹینڈ فورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر فلپ زمباڈو نے بعض اہم باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ دہشت گردی میں عام آبادی کو خوف زدہ کیا جاتا ہے لوگوں کے خود پر موجود اعتماد کو مجروح کیا جاتا ہے اور ایک محفوظ اور آرام دہ دنیا کو خارزار میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ دہشت گرد غیر متوقع طور پر تشدد کی کارروائی کر کے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہیں ۔ پروفیسر زمباڈو مزید کہتے ہیں کہ دہشت گرد لوگوں کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے اس صورت میں یا تو مقابلہ کیا جاتا ہے یا گریز اختیار کیا جاتا ہے۔ تیسری بات یہ ہوسکتی ہے کہ وہ خوف ہمیں بالکل منجمد کر دے۔ خوف اس وقت تشویش میں بدل جاتا ہے جب وہ مخصوص حالات سے آگے نکل جائے اور فرد یہ محسوس کرنے لگے کہ وہ ہر وقت کسی نہ کسی خطرے کی زد میں ہے۔ اس حوالے سے دیکھیں تو بعض چیزیں انسان کے لیے فطرتاً نقصان دہ ہیں جیسے قدرتی آفات وغیرہ اور بعض چیزوں کو انسان کے لیے نقصان دہ بنا دیا جاتا ہے جیسے اسلحہ۔ فرد میں تشویش اس صورت میں بھی پیدا ہو سکتی ہے جب وہ موجودہ حالات کا تانا بانا ماضی کے تجربات سے جوڑے اور محسوس کرے کہ اپنے حالات پر اسے بالکل قابو نہیں۔ اسی طرح جوا ن افراد اپنے بچپن کے تجربات کو اپنے موجودہ حالات سے جوڑ کر خود کو زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں۔ پروفیسر زمباڈو نے اپنے مختصر مضمون میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر غور سے دیکھا جائے تو دہشت گردی سے وابستہ ہر چیز نفسیات کے دائرہ مطالعہ میں آتی ہے۔ اگرچہ یہ بات کچھ مبالغہ آمیز معلوم ہوتی ہے لیکن پھر بھی اس میں کافی سچائی موجود ہے ہم آج کے مظہر کو سمجھنے کے لیے ماضی کے نفسیاتی افکار سے بھی مدد لے سکتے ہیں۔ جارحیت ایک ایسا موضوع ہے جو مدت سے ماہرین نفسیات کی دلچسپی کا مرکز ہے۔ ماہرین نفسیات جارحیت (Aggression) کو جذباتی اور آلاتی میں تقسیم کرتے ہیں جذباتی جارحیت غصے سے منسلک ہے اور اس میں طویل مدتی منصوبہ بندی شامل نہیں ہوتی۔ اس میں فرد تکلیف پہنچانے والے کو براہ راست تکلیف دیتا ہے، آلاتی جارحیت زیادہ نپی تلی ہوتی ہے ۔ آلاتی جارحیت میں جارحیت بعض مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ دہشت گردی میں ہمیں دونوں طرح کی جارحیت کا رفرما نظر آتی ہے۔ دہشت گردی کے مظہر کو سمجھنے کے لیے اس سے ہمیں ایک اچھا فریم ورک مہیا ہو سکتا ہے۔
حال ہی میں اسرائیل کی طرف سے غزہ پر جدید ہتھیاروں سے اندھا دھند بمباری کو بھی آپ دہشت گردی کے ایک حربے کے طور پر شناخت کر سکتے ہیں کیونکہ یہ دو فریقین کے درمیاں جنگ بالکل نہیں تھی۔ جیسا کہ قومی میڈیا نے اسے پیش کرنے کی کوشش کی ۔ نہ ہی یہ حماس کو سزا دینے کی کوشش تھی جیسا کہ ہمارے ہاں بعض دانشوروںکا خیال ہے۔
دہشت گردی کی وہ صورت جسے ہم سب سے زیادہ جانتے ہیں وہ بعض سیاسی ، مذہبی گروپوں کی طرف سے سول آبادی کو نشانہ بنانا ہے۔ پاکستان میں اس نوعیت کے واقعات گذشتہ چند سالوں میں کثرت سے رونما ہوئے ہیں۔ اکتوبر 2007ء میں کراچی میں بے نظیر کے جلوس پر ہونے والا حملہ اور پھر دسمبر 2007ء میں اسی نوعیت کے واقعے میں بے نظیر بھٹو اوران کے متعدد ساتھیوں کا قتل ' دہشت گردی کی ہولناک مثالوں میں سے ہیں۔ اسی طرح لاہور میں بعض سرکاری اداروں اور تھیٹروں پر ہونے والے حملے، افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں ہونے والے ڈرون طیاروں کے حملے یا طالبان کی طرف سے سول آبادی کو دہشت زدہ کرنے کی کارروائیاں، ان سب کو دہشت گردی میں رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم بے معنی سیاسی نعروں سے گریز کرتے ہوئے علمی نقطہ نظر سے معاملہ کا جائزہ لے سکیں۔
دہشت گردی کے حوالے سے ہمارے ہاں علمی اور تحقیقی کام کا کافی فقدان ہے اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تحقیق کا کلچر ہی بہت کم پروان چڑھا ہے۔ دوسرا اس میں ان افراد تک رسائی جو ان معاملات میں ملوث ہوتے ہیں تقریباً ناممکن ہے۔ جو لوگ گرفتار بھی کیے جاتے ہیں وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں رہتے ہیں تو سماجی علوم سے وابستہ افراد کو ان تک براہ راست رسائی ناممکن ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ہمارے ہاں جو معلومات حاصل کرتے ہیں عام طور پر وہ صیغہ راز میں رکھی جاتی ہیں اور ان تک سماجی علوم کے محققین کی رسائی بہت کم ہوتی ہے اس لئے دہشت گرد کیا سوچتا ہے؟ دہشت گردی کے واقعہ کا ارتکاب کرنے کے بعد اس کی ذہنی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ اس حوالے سے ہمارے پاس معلومات نہایت ناکافی ہیں۔
بعض تنظیموں کی طرف سے کچھ آڈیو ، ویڈیو فلمیں جاری کی گئیں ہیں جس میں ان افراد کے انٹرویوز اور گفتگو ئیں ہیں جو دہشت گردی کا ارتکاب کرنے جارہے ہیں یہ ایک بہت اچھا ذریعہ ہے دہشت گردوں کے ذہنی و نفسیاتی کیفیات تک رسائی حاصل کرنے کا ۔ لیکن میری معلومات کی حد تک ابھی ان آڈیو ، ویڈیو کیسٹ کی تجزیہ متن (Content Analysis) کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ میڈیا سے وابستہ بعض افراد ان لوگوں تک رسائی حاصل کر کے ان سے گفتگو کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن صحافت سے وابستہ افراد کا اپنا طریقہ کار ہوتا ہے جو عام طور پر سماجی کردار اورعلوم میں کار آمد ثابت نہیں ہوتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملہ پر سنجیدہ نوعیت کا تحقیقی کام کیا جائے۔
دہشت گردی کے واقعات عام طور پر لوگوں پر کیا اثرات مرتب کرتے ہیں یہ بھی ایک اہم پہلو ہے یہاں لوگوں سے مراد وہ افراد ہیں جو دہشت گردی کے واقعات سے براہ راست متاثر نہیں ہوتے۔ اس میں میرا اپنا مشاہدہ او رمطالعہ بتاتا ہے جب بھی دہشت گردی کے کسی واقعہ کی خبر ملتی ہے پہلا تاثر خوف ، بے یقینی اور اپنی ذات پر عدم اعتماد کا ہوتا ہے۔ رفتہ رفتہ جیسے جیسے واقعہ کے بارے میں مستند معلومات آتی چلی جاتی ہیں ہمارا رد عمل واضح ہوتا چلا جاتا ہے ۔ اگر واقعہ معمولی نوعیت کا ہے اور اس واقعہ میں کسی فرد کی موت کی خبر نہیں آتی تو ہم ایک گونا سا سکون محسوس کرتے ہیں ہمارے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑ جاتے ہیں لیکن اگر واقعہ شدید نوعیت کا ہے اور اس میں لوگوں کے مرنے اور زخمی ہونے کی خبریں آرہی ہیں تو ہمارے اعصاب ارتعاش کا شکار رہتے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلز جس طرح ان واقعات کی کوریج کرتے ہیں اس میں مثبت پہلوئوں کے ساتھ ساتھ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان واقعات کی کوریج میں بعض حدود کا تعین ضروری ہے خاص طور پر وہ مناظر جو انسانی شخصیت اور نفسیات پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں اس حوالے سے ضابطہ اخلاق موجود ہے لیکن ہمارے ہاں اصل واقعہ سے ہٹ کر جو سنسنی خیزی پیدا کی جاتی ہے وہ لوگوں کی نفسیات پر زیادہ منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔
راقم نے خود بعض ماہرین نفسیات اور ماہرین دماغی امراض کے ساتھ جو باتیں کیں ہیں ان سے واضح ہوتا ہے کہ گذشتہ چند سالوں میں پاکستان میں ذہنی امراض کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ ان میں (Anxiety Disorder) اور خاص طور پر (obsessive complsive disorders) کے مریضوں کی تعداد کافی بڑھی ہے ۔ اسی طرح (Post. tranmatic stress disorder) کے مریضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے لیکن اصل صورت حال جاننے کے لئے اس پہلو پر بھی منضبط تحقیق کی ضرورت ہے خاص طور پر ان علاقوں میںجہاں دہشت گردی کے واقعات روز مرہ کا معمول ہیں۔
|
|
|
|
|