working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

نظامِ عدل ریگولیشن ـ تیر کمان سے نکل چکا
اداریہ قومی اسمبلی کی تائید سے نظامِ عدل ریگولیشن کے مسودے پر صدرِ جمہوریہ کے دستخط کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ یہ نہ صرف سوات میں امن قائم کرنے میںمعاون ہو گا بلکہ طالبان کے بڑھتے قدم بھی روک دے گا۔ جیسا کہ سرحد حکومت اور تحریک نفاذ شریعت محمدی کے امیر مولانا صوفی محمد کا کہنا تھا کہ طالبان مسودے پر دستخط ہونے کے بعد ہتھیار ڈال دیں گے۔

لیکن سرِ دست ایسا ہوتا ممکن دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ نہ تو طالبان نے ہتھیار ڈالے ہیں اور نہ ہی ان کی پیش قدمی رکی ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ سوات میں امن معاہدے اور نظامِ عدل ریگولیشن کے نفاذ سے ان کے حوصلے مزید بڑھے ہیں۔ صوفی محمد صاحب کے مطالبات کی فہرست بھی طویل ہوتی جا رہی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے جس بنیاد پر نظامِ عدل ریگولیشن کی مخالفت کی تھی، اس کی تائید کرنے والی جماعتیں بھی اب اس کی ہمنوا بنتی جا رہی ہیں۔

سوات کو تشدد کے چنگل سے نکالنے کے لیے امن معاہدے اور نظامِ عدل کے نفاذ کو آخری حل کے طورپر پیش کیا گیا ہے اور اس کے مضمرات پر بھی غور نہیں کیا گیا۔ یہ صحیح ہے کہ فوجی آپریشن سے سوات میں صورتحال پرقابو نہیں پایا جا سکا تھا، لیکن کیا اس کے علاوہ کوئی اور عارضی یا مستقل حل ممکن نہیں تھا، سوات کے مخصوص تناظر میں نظامِ عدل کا نفاذ اور تحریکِ شریعت محمدی کی دو سے زائد دہائیوں پر پھیلی تحریک پر بھی بے شمار دلائل دیے جا رہے ہیں۔ لیکن ہم سمجھتے ہیںکہ حکومت نے اس مسئلے کے دیگر حل کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی اور سب سے سہل راستے کا انتخاب کیا۔

سوات میں امن کی بحالی کے لیے صوفی محمد صاحب کاانتخاب صوبہ سرحد کی حکومت کی بنیادی غلطی ہے۔9/11 کے بعد افغانستان میں صوفی محمد صاحب کے ہزاروں جھتہ برداروں کے ساتھ جو بیتی، وہ ان کی ساکھ اور تحریک کے لیے بڑا دھچکا تھا اور گذشتہ سات سالوں سے جیل میں مقید صوفی صاحب کا علاقے پر اثرونفوذ اس سطح پر نہیں تھا جو اسّی اور نوّے کی دہائیوں میں تھا بلکہ ملا فضل اللہ نے ان کی جگہ لے لی تھی۔ صوبہ سرحد کی حکومت نے انھیں جیل سے نکال کر ان کی حیثیت بحال کی اور ان کے ساتھ امن معاہدے سے ان کو تقویت بخشی۔ اس کے پیچھے یہ تصور کارفرما تھا کہ صوفی محمد کے ذریعے طالبان کی حیثیت کو کمزور اور ان سے ہتھیار ڈلوائے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ تصور غلط ثابت ہو رہاہے۔ طالبان صوفی محمد کے احترام کے باوجود ان کے ''حکم'' کے آگے سرِتسلیم خم کرتے نظر نہیں آ رہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سواتی طالبان وزیرستان سے لے کر سوات اور بندوبستی علاقوں تک پھیلی تحریک کا حصہ ہیں۔ وہ صوفی محمد صاحب سے روحانی فیض اور مذہبی رہنمائی کے خواستگار تو ہوں گے لیکن وہ ان کی طرف سے حکومت کو دی جانے والی کسی بھی یقین دہانی کے ذمہ دار نہیں ہوں گے۔ صوفی محمد صاحب کی ذہنی ساخت کو سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ماضی میں چھوٹے مطالبات کے حصول کے بعد وہ کس طریقے سے بڑے مطالبات کی طرف بڑھتے گئے ہیں۔

ان حالات میں سوات کو تشدد سے بچانے کے لیے وزیرستان اور باجوڑ طرزکے معاہدے بدترین ہی سہی ، ایک عارضی حل ثابت ہو سکتے تھے۔ کچھ لے دے کے پالیسی کے ساتھ ساتھ حکومت علاقے میں اپنی رِٹ بحال کر سکتی تھی لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ نشانے پربیٹھتا ہے یا نہیں۔۔۔!

مدیراعلیٰ