working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

این جی اوز کا وجود خطرے میں
عمر فاروق
تشدد سے متاثرہ علاقوں میں این جی اوز کو نامساعد حالات کا سامناہے۔ سرحد کی حکومت کے مطابق سوات اور قبائلی علاقوں بالخصوص شمالی وزیرستان ، جنوبی وزیرستان ، باجوڑ اور مہمند ایجنسی سے 2007اور 2008کے درمیان ایک سو سے زائد این جی اوز نے اپنے دفاتر متاثرہ علاقوں سے پشاور منتقل کر دیے ہیں جبکہ سرحد کے دیگر تمام علاقوں میں کام کرنے والی این جی اوز میں سے بھی50فیصد نے اپنے دفاتر قریبی شہروں میں منتقل کر دیے ہیں۔ یہ صورت حال اسی حوالے سے بہت تشویشناک ہے کہ بہتر زندگی کا تصور دینے والی این جی اوز کو خود اپنی زندگی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اس سے نہ صرف ان علاقوں میں جاری فلاحی منصوبے متاثر ہوں گے بلکہ این جی اوز سے وابستہ سینکڑوں کارکنوں کے بے روزگار ہونے کا خدشہ بھی پیدا ہو گیا ہے۔ اس حوالے سے ''ہیرالڈ'' نے اپنے مارچ2009ء کے شمارے میں خصوصی رپورٹ شائع کی جس کی تلخیص مذکورہ جریدے کے شکریے کے ساتھ نذر قارئین ہے
(مدیر)


ایبٹ آباد کے خوبصورت اور پرفضاشہر سے20کلومیٹر کے فاصلے پر مانسہرہ واقع ہے جو کہ ایک پرامن مقام سمجھاجاتا ہے۔ 2007میں جب بٹ گرام میں حالات کشیدہ ہونے شروع ہوئے تو اردگرد کی تمامNGO'sمانسہرہ کی جانب ہجرت کرنے لگیں کیونکہ قراقرم ہائی وے کے ساتھ اور مانسہرہ سے تقریباً50کلومیٹر دور بٹ گرام اب مسائل کا گڑھ بنتاجارہاتھا۔ NGO's کے متعدد دفاترپر محض چھ مہینوں میں راکٹ، گرینیڈ اور خود کارہتھیاروں سے حملوں نے حالات کا رخ یکسر تبدیل کردیا۔ حکومت نے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کی مگر وہ بین الاقوامی تنظیموں میں پھیلے ہوئے خوف و ہراس کا تدارک کرنے میں قطعاًناکام رہی۔ بالآخر یہNGO'sایبٹ آباد کی جانب ہجرت کرآئیں جہاں آرمی کے زیرسایہ کام کرنے کی پرامن فضاموجود تھی۔

ان حملوں کے پسِ پردہ عزائم سے پتا چلتا ہے کہ عسکریت پسند حکومت کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ مانسہرہ بھی ان کی پہنچ سے دور نہیں رہا۔ وہ جب چاہیں یہاں کارروائیاں کرسکتے ہیں۔ مقامی پولیس کا نقطۂ نظر کچھ مختلف تھا ایک سینیئر پولیس آفیسر نے مطلع کیا کہ یہ واقعات دراصل مقامی آبادی اور NGO'sکے درمیان باہمی چپقلش کا نتیجہ تھے۔NGOکے ایک سینیئرعہدے دار نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔ زلزلے کے بعد تعمیری کاموں کی انجام دہی کے لیے جو مقامی لوگ بھرتی کیے گئے تھے ان سے اختلافات کی بنا پر2007ء کے آخر میں گولیوں کا تبادلہ بھی ہو چکاتھا اور وہ لوگ بھی ان سماجی تنظیموں کو مسلسل دھمکیاں دے رہے تھے۔ ان میں سے جب کچھ لوگوں کو گرفتار کر کے پوچھ گچھ کی گئی تو انہوں نے بھی اس شک کا اظہار کیا کہ شایدفروری2008کے حملوں میں بیرونی حملہ آور ملوث نہ ہوں۔

بٹ گرام کی صورتِ حال تو نہایت ہی کشیدہ رہی۔ وہاں2007میںNGO'sپر کئی حملے ہوئے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ تمام تنظیمیں وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوگئیں۔"Save the children-USA"ہی ایک ایسی NGOہے جو وہاں ابھی تک کام کررہی ہے جبکہ باقی تنظیمیں ابیٹ آباد اور پشاور منتقل ہوچکی ہیں۔

دراصل حالات اس وقت قابو سے باہرہونا شروع ہوئے جب اسلام آبادمیں لال مسجد پر دھاوا بولاگیا۔ حکومتی آپریشن کے ردِ عمل کے طورپر بٹ گرام میں بھی بین الاقوامی NGO'sپر حملوں میں شدت آگئی۔ ہوسکتا ہے کہ صورتِ حال کے پیچھے کوئی براہِ راست عوامل کارفرما نہ ہوں لیکن لال مسجد کے وہ طلباء جو بٹ گرام سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کارروائیوں میں ان کے خفیہ ہاتھ کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔

لاقانونیت کا آغاز کیئرانٹرنیشنل کے دفاتر پر حملوں کی صورت میں ہوا۔ جہاں اگست اور ستمبر 2007میں کم از کم چار حملے کیے گئے ان کارروائیوں میں فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔ مگر شکر ہے کہ کسی کی جان نہیں گئی۔Save the Childrenپر دیسی ساخت کے دستی بم پھینکے گئے۔ستمبر کے مہینے میں ہی بیلجیم کی ریڈکراس کے دفاتر بھی ان حملوں کی زد میں آئے۔

ان مسلسل حملوں کے بعد فوجی کمانڈروں نے مقامی مذہبی عمائدین جو کہ الائی اور بٹ گرام کے رہنے والے تھے کے ساتھNGO'sکے نمائندوں کی ملاقاتیں کرائیں۔2007اور2008 میں ہونے والی ان ملاقاتوں کے بعد بظاہر امن و امان کی صورت حال بہتر ہوگئی۔ بٹ گرام کے بنیادی مسائل کی نوعیت ثقافتی تھی اس لئے انہیں گفت و شنید کے ذریعے حل کرلیا گیا۔ مقامی لوگوں کی رائے تھی کہ یہ ایجنسیاں محض صحت کے شعبوں میں ہی کام کرتی ہیں جن میں خواتین کارکنوں کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے۔

پھر2008کے وسط میں36سے زائد کام کرنے والیNGO'sکو مجبور کرکے ایبٹ آباد اور پشاور کی جانب دھکیل دیاگیا جس کی بنیادی وجہ ایک پاکستانی تنظیم SPOپر بم حملے تھے… سٹرنتھنگ پارٹیسی پیٹری آرگنائزیشن(SPO)نے بٹ گرام کے جس ہوٹل میں اپنا دفتر کھول رکھا تھا، اس پر حملے میں عمارت کو جزوی نقصان پہنچااور پارکنگ میں کھڑی گاڑیاں تباہ ہوئیں جبکہ چھ افراد شدید زخمی ہوئے۔

مانسہرہ کی طرح بٹ گرام کے رہنے والے لوگ بھی حملہ آوروں کی شناخت کے حوالے سے گومگو کا شکار تھے لیکن وہ اتنا ضرور سمجھتے تھے کہ یہ تمام صوبہ سرحد کے اضلاع اور خصوصاًسوات کے واقعات کا ہی شاخسانہ ہے۔ بعض لوگوں کی رائے میں ابھی بھی حالات اس نہج تک نہیں پہنچے تھے جن کی عمومی طورپر توقع کی جارہی تھی۔ جبکہNGO'sکے کارکنوں کے ذہنوں میں بھی یہ خدشات سراٹھارہے تھے کہ طالبان اپنا اثرورسوخ ان علاقوں تک بھی پھیلانا چاہتے ہیں کیونکہ بٹ گرام کے لوگوں میں بھی ان کے لئے ہمدردی کے جذبات بدرجہ اتم پائے جاتے تھے۔ ان خدشات کی تصدیق ان مصدقہ و غیرمصدقہ ذرائع سے بھی ممکن ہوئی جو کہ ان ٹیکسی ڈرائیوروں کو دھمکیوں کی صورت میں ملتے رہے ہیں جن کا تعلق سوات اور اورکزئی ایجنسی سے تھا۔ کیونکہ NGO'sکے ملازمین پرائیویٹ گاڑیوں میں ہی سفر کرتے تھے جبکہ ان ڈرائیوروں نے مزید خدمات مہیاکرنے سے صاف انکار کردیاتھا۔ جب ٹیکسی مالکان سے رابطہ قائم کیاگیا تو انہوں نے بتایا کہ طالبان نے انہیں دھمکی دی ہے کہ اگرNGO'sکے ساتھ تعاون کیاگیا تو ان کے خاندان کے افراد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

وہNGO'sجو تاحال وہاں کام کررہی ہیں انہوں نے اپنے حفاظتی اقدامات میں اضافہ کردیا ہے۔ وہ سیکورٹی کے زمرے میں ای میل کی وساطت سے روزانہ ایک دوسرے سے تبادلہ خیال کرتی ہیں جبکہ مانسہرہ اور اس کے اردگردکے علاقوں کی صورت حال کے متعلق ہفتہ وار اجلاس منعقد کیے جاتے ہیں۔ درحقیقت ہر بین الاقوامی تنظیم کا اپنااپنا سیکورٹی انچارج اور مکمل حفاظتی نظام موجود ہے۔ اس کے علاوہ وہ ضلعی حکومت کے ساتھ بھی مشاورت کرتے رہتے ہیں۔ جس کی روشنی میں انہوں نے اپنے اندر کئی تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں۔ مثلاًانہوں نے اپنی گاڑیوں پر سے مخصوص نشان اور ایجنسیوں کے نام مٹاڈالے ہیں تاکہ ان کی شناخت ممکن نہ ہوسکے۔

تاہم کچھ NGO'sاب بھی مانسہرہ اور اس کے اطراف میں خوف کے سائے میں سماجی کاموں میں جتی ہوئی ہیں۔ ان کے ورکروں کو سختی سے ہدایت ہے کہ وہ سورج غروب ہونے سے پہلے کام ختم کرکے دفتروں میں لوٹ آئیں۔ بٹ گرام کی صورت ِحال مسلسل مخدوش ہورہی ہے۔ یہاں2008میںNGO'sکے ورکروں پر تشدد میں اضافہ ہوا۔اور وہ علاقے جو ابھی تک عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں نہیں ہیں وہاں بھی ترقیاتی کاموں کی راہ میں رکاوٹیں حائل کی جاتی رہی ہیں۔

''اخپل کور''ایک مقامی NGOہے جو سوات میں بے سہارااور یتیم بچوں کا اسکول چلاتی ہے۔ یہ تنظیم500لڑکوں اورلڑکیوں کو چھت، کھانا اور تعلیم مہیاکرتی ہے۔ اخراجات کا بندوبست کرنے کے لیے یہ چھوٹاموٹا کاروبار کرتی ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات کے لیے ٹینٹ سروس اور کراکری کرائے پر دیتی ہے۔ عوام کی بنیادی سہولتوں مثلاًگھروں کی تعمیرات اور شادی کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ تنظیم اپنا مستقبل محفوظ خیال کرتی تھی پھر عسکریت پسندی کا دور آیا جس کا نتیجہ ملٹری آپریشن کی صورت میں برآمد ہوا۔ چنانچہ یہ تنظیم بھی دیگر کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ تباہی کا شکار ہوتی گئی۔ پراپرٹی کی قیمتیں گرنے لگیں اور شادی بیاہ کی رسومات بند ہونے سے''اخپل کور''کا ٹینٹ سروس کا کاروبار بھی چوپٹ ہوگیا اور حالات اس نہج تک پہنچ گئے کہ انہیں تنظیم چلانے کے لیے اپنا تمام اسباب اور برتن فروخت کرنا پڑے۔

کاروبار میں اتارچڑھائو نے خاصا متاثرکیا مگر عسکریت پسندوں نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی۔''اخپل کور''کے اسکول کو بمباری کا نشانہ بنایا گیااور ٹینٹ سروس کی دکان جزوی طور پر جلا دی گئی اور تنظیم پر یہ الزام عائد کیاگیا کہ وہ یتیم بچوں کو زبردستی عیسائی بنارہی ہے۔ حالانکہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے۔SPOنامی تنظیم جو کہ کئیNGO'sکی سرپرستی کرتی ہے نے بھی سختی سے ان شبہات کو رد کیا ہے۔ جبکہ اخپل کور کے ایک رہنما محمدعلی نے بھی ان خبروں پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ تنازعہ حکومت اور طالبان کے مابین ہے اس لیے حکومتی سرپرستی میں چلنے والے اسکول ہی تباہی کی زد میں آئے ہیں جبکہ ہماری تنظیم کے اسکول کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ تاہم علی نے یہ ضرور اقرار کیا کہ تعلیمی اداروں کامستقبل مخدوش ہے اور شاید ہمیں بھی اپنے اسکول کو ایبٹ آباد منتقل کرناپڑے۔

صوبہ سرحد میں محض سوات ہی ایسا مقام نہیں جہاں طالبان کے زیرسایہ کئی تنظیمیں سانس لے رہی ہیں۔ بنوں میں بھی ''خوندہ کور''کیNGOمیں کام کرنے والی خواتین کو مجبور کیاگیا کہ وہ شرعی لباس زیب تن کریں اور پردے کا خیال رکھیں۔ خوندہ کور کئی اسکول چلاتی ہے اور خواتین اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے کام بھی کرتی ہے۔

اس تنظیم کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ وہ طالبان کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت کام کررہے ہیں کیونکہ طالبان راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور بے حیائی کی مخالفت کرتے ہیں۔ اس لیے ہماری خواتین ورکر جب فیلڈ میں کام کی غرض سے جائیں گی تو انہیں ٹوپی والا برقعہ اوڑھنا پڑے گا۔ اس معاہدے میں بنوں کے قبائلی ملکوں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ جب کہ انہیں مقامی آبادی کی حمایت بھی حاصل رہی کیونکہ وہ لوگ آگاہ ہیں کہ مذکورہNGOعوام کی صحت، پانی اور سیوریج کے حوالے سے خاصا کام کررہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے اس تنظیم کے ایک رکن کواغوا کر لیاگیا اور انہیں مجبور کیاگیا کہ وہ اپنا دفتر بند کردیں۔ عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی وجہ سے NGO'sکے کاموں میں روزبروز رکاوٹیں حائل ہورہی ہیں اور امن و امان کی مخدوش صورتِ حال نے فیلڈورک کو مشکل بنادیا ہے۔ خصوصاًبنوں، سوات اور ڈیرہ اسماعیل خان میںNGO's کا مزید کام کرنا دشوارہورہا ہے۔ اسی طرح''خوندہ کور''کی تنظیم دیر اور کرک میں تو اپنے اسکول چلا رہی ہے مگر ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں میں اپنی شاخیں ختم کررہی ہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ عسکری کارروائیوں سے پہلے بھیNGO'sکو ان علاقوں میں پرامن فضا میسر نہیں تھی کیونکہ صوبہ سرحد کی سماجی قدریں مختلف ہیں اس لئے انہیں کبھی بھی کھل کر کام کرنا نصیب نہ ہوا۔ کیونکہ خواتین کے حقوق کی بنیاد پر معاشرتی پابندیاں نہایت محتاط انداز میں کام کرنے کی متقاضی تھیں۔ مثلاًہیومن ریسورس مینجمنٹ اینڈ ڈیویلپمنٹ سنٹر کے ایک سرگرم رکن نے بتایا کہ1995ء میں ان کی تنظیم پر محض اس لئے پشاور سے باہر سوری زئی میں داخلے پر تین سال کی پابندی لگا دی گئی تھی کہ انہوں نے طلباء میں ایسی ڈائریاں تقسیم کی تھیں جس میں لڑکوں اور لڑکیوں کے کارٹون بنا کر انہیں شرٹس اور نیکریں پہنے دکھایاگیاتھا اور یقینا یہ ان کی ثقافت سے مطابقت نہیں رکھتاتھا۔ اور پھر طالبان کے ظہورپذیر ہونے سے سماجی روایات کو مضبوط بنانے کے لیے مزید تقویت ملی۔ کیونکہ وہ لوگ مضبوط کردار اور مضبوط اعصاب کے مالک تھے اور اپنے اصولوں پر ڈٹے ہوئے تھے۔ اس لئے ان سے گفت و شنید کرکے اپنی مرضی کا نتیجہ نکلوانا نہایت مشکل تھا۔ مثلاً ''پولیو''کے قطرے پلوانے پر بھی انہوں نے پابندی عائد کررکھی ہے جس کے پس منظر میں ان کے اپنے خدشات پوشیدہ ہیں۔

''عورت فائونڈیشن''بھی صوبہ سرحد کے مختلف اضلاع مثلاًڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، بنوں، کرک اور پشاور میں18کمیٹیاں چلارہی تھی جس میں سے اب محض کرک کا دفتر باقی ہے۔ یہ تنظیم ان علاقوں میں خواتین کو اپنے حقوق کے حوالے سے ان کے کردار کو مضبوط بنانا چاہتی تھی مگر یہ بھی معروضی حالات سے متصادم تھے۔

ابNGO'sان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے منفرد طریقہ کار پر غوروخوض کررہی ہیں۔ مقامی علاقوں میں کرائے پر جگہ کے حصول کا معاملہ بھی زیرغور ہے۔ تاہمFATAمیں تو یہ اصول بھی کارفرما نہیں ہوسکتا کیونکہ وہاں ہرNGOکو امریکہ کے جاسوس ادارے کی صورت میں دیکھا جاتا ہے۔ چنانچہ ایسے ماحول میں کام کی انجام دہی نہایت دشوار تھی۔

یہی وجہ ہے کہ مقامی اور بین الاقوامی NGOاپنے اپنے دفاتر بند کرکے نسبتاًپُرامن علاقوں کی جانب منتقل ہوگئی ہیں۔ فاٹا ڈیویلپمنٹ اتھاڑتی نے مہمند ایجنسی میں مقامیNGOکے ساتھ مل کر ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا لیکن جب ملٹری آپریشن شروع ہوا تو فنڈ کا رخ خیبر ایجنسی کی جانب موڑ دیاگیا بعدازاں جب وہاں بھی حالات دگرگوں ہوئے تو یہ دفاتر بھی بند کردیے گئے۔

صوبہ سرحد کے بندوبستی علاقوں میں بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں پہلے فنڈ اور تعمیراتی منصوبوں کا رخ نسبتاًپرامن علاقوں کی جانب موڑا گیا مثلاًزلزلہ کی تباہ کاریوں سے بروقت نپٹنے کے لئے SPOبٹ گرام میں اپنے پروگرام پر کام کررہی تھی اور ''آکسفام''اسے امداد مہیا کررہی تھی۔ جب اپریل2008میں یہاں امن و امان کی حالت بگڑ گئی تو یہ تمام منصوبے مظفرآباد (آزادکشمیر)میں منتقل کردیے گئے۔ اسی طرح کیئرانٹرنیشنل جو کہ بٹ گرام میں200تباہ حال اسکولوں کی دوبارہ تعمیر کررہی تھی اس نے بھی اپنا کام ترک کردیا۔ صوبہ سرحد اور فاٹا میں کئی منصوبے بند کرنا پڑے جس کی وجہ سے اب امداد دینے والی ایجنسیاں کہیں اور پراجیکٹس شروع کرنے پر غور کررہی ہیں۔

کسی بھی منصوبے پر کام کرنے کے لیے امن وامان کو سب سے پہلے مدِ نظر رکھاجاتا ہے اس لئے اب NGOمل کر ایک ایسی تنظیم بنانے پر غور کررہی ہیں جو کہ علاقے میں امن کو بہتر بنانے پر کام کرے۔ مثلاًسوات پارٹی سی پیٹری کونسل کے قیام کا منصوبہ تیار ہے اس سے مختلف پارٹیوں کے مابین مباحثوں کے لئے اجلاس منعقد کرکے ایک دوسرے کے نظریات کوسمجھنے میں مدد ملے گی۔ اس تنظیم کا لیڈر ایک مقامی کالج میں تاریخ کا استاد ہے۔ اسی طرح ایک سال کے اندر ہی ایک دوسرا گروپ بھی منظر عام پر آیا ہے جس میں مقامی NGOنے ڈیزاسٹر ریسپانس نیٹ کے نام سے شہرت حاصل کی ہے۔ یہ تنظیم سوات میں بے گھر ہونے والے لوگوں کے لئے کام کررہی ہے اور ''زوانڈن''(زندگی)کے تحت ثقافتی قدروں کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں میں سماجی تنازعات پر گفتگو کو بڑھانے میں مدد دے رہی ہے۔

اس وقت کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ اقتصادی اور سماجی کاموں کے حوالے سے ان نقصانات کا ٹھیک طرح اندازہ لگاسکے۔ ایسا کوئی ڈیٹا بھی موجود نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر یہ معلوم ہو کہ موجودہ دگرگوں حالات سے قبلNGOکیا کررہی تھیں بلکہ پورے ملک میں ایسی کسی مرکزی باڈی کا وجود بھی نہیں جو ان تنظیموں کے کام کی نگرانی کرتی ہو کہ وہ کس طرح اقتصادی کام انجام دیتی ہیں اور آمدنی کے ذرائع کیسے مہیا ہوتے ہیں اور ان کا تحفظ کیونکر ممکن بنایاجاسکتا ہے ۔ بہرحال پر امید رہنا چاہیے کہ ایک روز امن قائم ہوجائے گا اور یہ تنظیمیں اپنا کردار بھرپور انداز میں ادا کریں گی۔