Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
شریعت، طالبان کی یاوالی ٔ سوات کی |
خالد احمد
" وہ لوگ نہ ختم ہونے والی غربت کی گرفت میں آچکے ہیں اور ساتھ ہی طالبان Taliban Utopia میں گھِر کر رہ گئے ہیں اور یہ کبھی ختم نہیں ہوسکتی جیسا کہ افغانستان میں بھی اسے (تاحال) ختم نہیں کیا جا سکا یہ صورت حال مزید خدشات کو جنم دے گی۔ بجائے اس کے کہ پاکستان میں ایک قابل عمل اور غیر حقیقی عدالتی نظام کی واپسی ہو۔" |
تحریک نفاذ شریعت محمدی کے لیڈر صوفی محمد کے سوات میں تحصیل دار عدالتوں اور قاضی عدالتوں میں وکلا کے داخلے کو ممنوع قرار دینے سے وہاں پانچ سو کے قریب وکلاء بے روز گار ہوگئے ہیں۔بمطابق ایک وکیل Daily Times, March 23, 2009 جیسا کہ سوات کے وکلاء نے احتجاج کیا کہ صوفی محمد کی شریعت کے تحت اکثر قاضی عدالتوں میں کیس کو بالکل سادہ درخواستوں کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ وکلاء کی خدمات حاصل کی جائیں۔ اس سے طالبان عدالتوں میں ایک مخصوص عنصر نظر آیا ہے جسے لوگ غیراہم سمجھتے ہیں۔ جس کی بظاہر حقیقت یہ ہے کہ اسلامی شریعت قانون کو(un codifide) وضاحت کی ضرورت نہیںہے۔ اس لے ان ''عدالتوں'' میں وکلا کی 'مدد' کی ضرورت نہیں ہے۔ جو کہ قانون کی تفصیلاً وضاحت کر سکیں۔ آئین کے مطابق یہ قاضی پہلے ہی ان قوانین سے آگاہ ہیں۔
درحقیقت جب صومالیہ (Somalia) کی ریاست کے انتشار کے بعد اس نے اپنے لیے اسلامی عدالتوں کو حاصل کر لیا تو ہر عدالت نے اپنی طرف سے فیصلوں کا اجراء شروع کر دیا جو کہ ہر دوسری عدالت کے فیصلوں سے مختلف ہوتا جبکہ باقی عدالتوں میں بھی اسی نوعیت کا کیس چل رہا ہوتا۔ یوں وقت کے ساتھ ساتھ ہر عدالت نے اپنی فوج بھی بنانی شروع کردی۔ پھر جلد ہی ایک ہی ریاست رہ گئی جو کہ آج صومالیہ (Somalia)ہے۔ ان عدالتوں نے اپنی فوجوں کے ذریعے اقتدارمیں شراکت بنا لی تھی ۔ سوات کے کیس میں ''طالبان'' حکمران ہیں اور جس شخص نے نظام شریعت کی بالا دستی اٹھا رکھی ہے وہ ''صوفی محمد'' ہے۔
پاکستان کی سرکاری شریعت کو چیلنج کرنا:
پاکستان میں شریعت شروع ہی سے زیر اثر رہی ہے۔ جو کہ مذہبی علماء اور ان کے زیر اثر مدارس کے ذریعے مسلسل چیلنجز کا شکار رہی ہے اور پھر اس پر کوئی بھی حیران نہیں ہوتا جب اسی شرعی قانون کا مطالبہ کیا جاتا۔
تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد نے آئین کے نکات203 (c) کو چیلنج کیا ہے جس کے ذریعے وفاقی شرعی عدالتوں کا نفاذ مکمل طور پر عمل میں آتا ہے اور یہ اس کا اختیار بھی دیتا ہے جس کے ذریعے کسی بھی قانون کو جو کہ اسلام کے منافی ہو ختم کر سکتا ہے۔
پاکستان میں اگر کسی مذہبی عالم سے پوچھا جائے چاہے وہ دیو بندی ، بریلوی ہو وہ یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ شریعت کا نفاذ اسی طرح ہو جیسے آئین میں بتایا گیا ہے۔جیسا کہ اس کی ظاہری صورت نظر آنے لگی ۔ جس کو متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے صوبہ سرحد میں متعارف کروانا چاہا تھا، علماء وہاں اور طرح کی شریعت نافذ کرنا چاہتے تھے۔ پشاور میں علما کی حکومت کی ماتحت شریعت نے جلد ہی اندازہ لیا کہ وہاں وفاق کبھی بھی ''امر بالمعروف و نہی عن المنکر '' کو نافذ کرنے پر رضامند نہیں ہوگا اور یہ کہ حسبہ بل (Hasba Bill) کو بھی آگے چلنے سے باز رکھیں گے۔اس کی سب سے بڑی وجہ اختلاف پشاور کی المعروف کی خلاف ورزی پر سزا دینے کے لیے متحد ہونا ہے۔ پاکستانی آئین کے مطابق سزا صرف منکر کو سنائی جاتی ہے۔ جبکہ المعروف کو رائج کرنے یا نہ کرنے پروہ بالکل خاموش رہا ہے۔علما ء یہ نہیں چاہتے کہ المعروف کی سزا پر کوئی مشاہدہ نہ کیا جائے ۔ یہ دور جدید سے پہلے کا ایک تصور تھا۔ نظام انصاف کے بارے میں جو کہ بالکل حقیقت پسندانہ نہیں تھا۔ جدید دور جرم کو سزا دلاتا ہے جبکہ المعروف کی فراہمی میں (بالکل خاموش رہتی ہے) کوئی سزا نہیں دیتی۔ یہ بہت آسان ہے کیونکہ یہاں کوئی ایسا پیمانہ موجود ہی نہیں ہے کہ جس کے ذریعے سے لوگوں کی عزت و احترام (نیکی) کو عام کیا جاسکے اور اس کا بغور جائزہ لیا جائے تاکہ پھر اس کو ثابت کرایا جاسکے۔ یہ صرف جرم کو ہی سزا دلاتی ہے کیونکہ جرم کو ثابت کیا جاسکتا ہے ۔ پاکستانی علما المعروف کو تو چاہتے ہیں کیونکہ وہ اس کو ثابت کرانے کے لیے ثبوت کی موجودگی کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کے مطابق اگر المعروف یہ کہتاہو کہ (لوگو) اپنی نماز قائم کرو اور داڑھی بھی رکھو اور پھر یہ بھی کہے کہ جو نماز نہیں پڑھتا (قائم کرتا) اور داڑھی بھی نہیں رکھتا تو اسے سزا سنائی جائے۔
سوات کے لوگ کیا چاہتے ہیں؟
کیا سوات کی عوام المعروف پر سنائے جانے والی سزائوں کا مطالبہ کرتے ہیں ؟ ایک ثبوت کے طور پر جب فضل اللہ کے دور اقتدار میں طالبان حکمران خود بھی بہت زیادہ سزائیں دینے کے حق میں نہ تھے اور اسطرح (فجام) کو قتل کرنا پسند نہیں کرتے تھے اور نہ ہی لڑکیوں کے سکولز جلانے کے حق میں تھے جبکہ سوات کے عوام سابقہ دور کی اسلامی نظام عدالت کے خواہاں بھی تھے ۔ جیسا کہ 1969 میں پاکستان کی ریاست سوات میں رائج تھا۔ انہوں نے 1990 ء کی دہائی میں صوفی محمد کی تحریک کے ساتھ قدم اٹھایا ''اصل شریعت کے نفاذ کے لیے ۔ کیا وہ یہ جانتے تھے کہ وہ کس چیز کا سودا کر رہے ہیں؟ کیا وہ یہ سمجھتے تھے کہ تحریک نفاذ شریعت محمدی اس شریعت کو لاسکتی ہے جو کہ والی سوات کے دور میں تھی؟ اس کے بارے میں وہ خود بھی صحیح طرح سے نہیں جانتے کہ والی سوات کے پاس کس طرح کی شریعت تھی؟ والی سوات ایک جابر ہوتا (حکمران) تھا جو کہ عدالتی نظام کو اپنی ذات اور اپنے حامیوں کے مفاد کی خاطر استعمال کرتا تھا۔ یہ صورت حال مواخذہ نہیں کرتی ہے کیونکہ طالبان بھی جابر ہیں اور صوفی محمد کے رائج کردہ عدالتی نظام کو بھی ساز باز کرکے استعمال کریں گے(کرتے ہیں) اور یہ بھی کہ وہ کبھی بھی قاضی عدالتوں میں چیلنج نہیں کئے جاسکتے۔ ان قتلوں کے جرم میں جو انہوں نے سوات میںکیے ہیں کیا ہم والی سوات کی بنائی ہوئی شریعت پر نظر دوڑا سکتے ہیں جس کی عوام بھی خواہش مند ہوا کرتی تھی ؟
خوش قسمتی سے سوات صومالیہ (Somalia)نہیں ہے اس کی (تاریخ) کو قدیم عرصے سے پڑھا جاتا رہا ہے۔ غیر ملکی اور مشہور سکالرز نے جس میں دو سیاسی صحافی Winston Charcill اور Norwegian authropologist, Fredirik barth جیسے لوگوں نے۔ اسی لئے ہم کسی حد تک یہ جان گئے ہیں کہ اس وقت کیا چلتا رہا ہے۔
والی سوات کے دور کا نظام
چلئے ہم ایک جدید تحقیقی تصنیف سے quote لیتے ہیں جو کہ Dr. Sultan-i-Rome کی تحریر ہے جس کا موضوع کچھ یوں ہے
"Administrative System of the Princely State Swat"
(Journal of Research Society of Pakistan)
Lahore, Vol.xxxx iii, December 2006, No 2.
جس میں وہ درج کرتے ہیں:
''(تمام) قاضی کو پوری ریاست کا اقتدار سونپا جاتاتھا، ایک گائوں کے اندر، تحصیل کے اندراور حاکمی(Hakimi)سطح پر بھی، تاکہ کیس کا فیصلہ سنا سکیں جس کی وجہ سے فیصلہ کرنے والے(ججوںقاضی)کو عدالتوں تک پہنچنے کے لیے دور تک سفر نہیں کرناپڑتاتھا۔ تحصیل کے قاضی نہ صرف تحصیل کی سطح تک کے کیس کا فیصلہ کرتے بلکہ گائوں کی سطح کے قاضی کے فیصلوں کے آگے اپیل کرانے کا مجازبھی رکھتے۔قاضی ہر حاکم (Hakim)سے منسلک ہوتا جو کہ ایک ہائی کورٹ کی اپیل کی سطح کا حق بھی رکھتاتھا جس سے اوپر والی سطح پر عدالت ہوتی جو ریاست کے وفاق میں موجود ہوتی تھی اور جو چیف قاضی پر مشتمل ہوتی تھی، اور دوسرے(پڑھے لکھے)اسلامی قوانین جاننے والے سکالرز ، جو کہ سنجیدہ نوعیت کے کیس کو ڈیل کرتے اور اسلامی قوانین عدالت کے لیے ایک سپریم کورٹ کی حیثیت سے کام کرتے اور سب سے بڑی اپیل کرنے والی عدالت کی حیثیت سے بھی۔جبکہ عدالتی اقتدار میں سب سے اوپر''سربراہ'' (Ruler)معتین ہوتا اور تحصیل دار سب سے نچلی سطح پر متعین کیا جاتاتھا۔ قاضی تب تک کیس کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیتاتھا جب تک کہ اُسے تحصیل دار، حاکم، مشیر، وزیر، وارث اور سربراہ یا پھر کوئی اور سرکاری ملازم اُس کی طرف خود رجوع نہ کرواتا۔ جبکہ کمانڈر اِن چیف خودبھی عدالتی اختیار اور ڈیوٹیز کو متعین کرسکتا تھا، جبکہ بعد میں ایک نئے ادارے جسکا نام''محکمائے منصفان'' بنایا گیا، جس میں منصف قابلِ اعتماد ہوتے تھے۔ اپنے عدالتی اختیارات کے ساتھ، ان کا عملہ جائے وقوع پر جاتا اور اپنی رائے(فیصلے) کوبھی صادر کرسکتاتھا یا پھر براہ راست''سربراہ''(Ruler)کو یا وارث (Heir apparent)کو رپورٹ پیش کردیاکرتاتھا۔''
والی کی شریعت، بغیر شرعی سزائوںکے:
وادیٔ سوات کے لوگوں کے لیے یہ بات بھی بہت دلچسپ ہے کہ تب سوات کی آبادی محض ایک لاکھ تھی۔ جبکہ آج یہ آبادی تقریباًتیس لاکھ کے قریب ہوچکی ہے۔ لیکن اس کا کوئی ثبوت واضح نظر نہیں آتا کہ جو سزائیں شریعت کے مطابق جو پاکستان کے آئین میں نہیں ہیں جیسا کہ ہاتھوں کو کاٹ ڈالنا، موت کی سزا سنانا۔ پہلے کبھی سوات جیسے علاقوں میں دی گئی ہوں۔ پاکستان میں بھی ایسی سزائوں کا تاحال کوئی عمل پیش نہیں آیا، پاکستان کی سپریم کورٹ عام طور پر ان کیسوں کو نچلی عدالتوں کے سُپرد کردیا کرتی ہے۔ والیٔ سوات کے ذہن میں بھی ایسی سزائوں کا تصور نہیں تھا جو طالبان لاگو کرناچاہتے ہیں۔
سلطانِ رومی کے الفاظ کے مطابق:
''اس کو اس طرح نہیں لینا چاہیے، جیسا کہ عام معنوں میں خیال کیا جاتا ہے کہ شریعت میں یہی برتر قانون تھا اور تمام لوگ اس کو ماننے کے پابند بھی تھے(ہر حال میں)اور ان کیسوں کو قاضی عدالتوں کے ذریعے ہی چلایاجائے۔ یہاں پر اختیارات کی تخصیص کسی بھی لحاظ سے روا نہ رکھی جاتی تھی سرکاری عہدیداروں، انتظامیہ، کاروباری اداروں، مالی امور کے اداروں اور عدالتی اختیارات سب تخصیص سے پاک تھے، جو کہ اس وقت ریاست کے عہدیداروں اور سربراہ کے ہاتھ میں تھے، لیکن قاضی اُس وقت کسی بھی قسم کے انتظامیہ کے امور، کاروباری اداروں، مالی و عدالتی اختیارات کا مجاز نہیں تھا۔ قاضی عدالتیں انتظامیہ امور سے متعلق عدالتی عہدیداروں کے زیراثر(ماتحت)زیادہ کام کرتی تھیں اور اسلامی قوانین کو''علاقائی سطح''کی حد تک Code of conductکے ذریعے ہی پرکھا جاتاتھا اور دونوں ہی''سربراہ''(Ruler)کے حکم کے آگے فرمانبردار ہوتے تھے۔''
''حدود''کے نہ ہونے کا مطلب''شریعت''کا نہ ہونا ہے:
''''حدود''کے نہ ہونے کا مطلب''شریعت کا نہ ہونا''ہے۔ سب سے اہم مشاہدہ ہے جوسلطانِ رومی نے دیا تھا کہ''ہر قسم کے جارحانہ اقدام کے اوپر جُرمانہ ہواکرتاتھا، جیساکہ قتل، چوری، بدکاری اور دوسرے…اِن پر سخت اسلامی اصول و قوانین کو کبھی کبھی عمل میں لایا جاتا تھا۔ تمام جرمانہ لوکل جرگہ کے تحت ہی لاگو کیا جاتا۔ اصول و ضوابط کے دائرے میں رہتے ہوئے یا پھر''سربراہ''کے ماتحت۔یہ ''یوسف زئی'' کی ریاست تھی اور پختون والی بھی اس طرح کے(عمل)میں شریک تھے۔ اگر یہاں کوئی حدود قوانین نہ ہوتے تو یہ شریعت بھی نہیں ہوسکتی تھی جس کے زیراثر شریعت کے اندر سوات کے لوگ زندگی بسر کررہے تھے۔ اگر یہ ایسا ہی تھا، تو سوات کے لوگ شریعت کا مطالبہ ہی کیوں کرتے؟ صاف ظاہر ہے کیونکہ جس کے زیراثر(شریعت)کے یہ لوگ اُس وقت تھے جبکہ وہ شریعت ہی نہیں تھی جو کہ طالبان بیان کرتے ہیں۔یہ بہت آسان (سادہ) اور بہتر(شریعت)تھی۔ ریاستِ سوات میں نہ صرف عدالتی کارروائی کا سلسلہ آسان تھا بلکہ کیسوں کا فیصلہ بھی دو یا تین پیشیوں میں جلدہی سُنا دیا جاتاتھا اور فیصلوں کو بھرپور طریقہ سے عمل میں بھی لایا جاتا۔ مزید یہ کہ عدالت کی کوئی(وصولی رقم)فیس بھی نہیں لی جاتی تھی۔''
پاکستانی شریعت، طالبان کی شریعت کے مقابل ''بہتر''ہے:
پاکستانی شریعت ،طالبان کی شریعت سے بہتر رہی ہے۔کیونکہ جو کچھ بھی آج تک انہوں(سوات کے لوگوں)نے حاصل کیا ہے، یہ سب خوفناک ہے31دسمبر1970ء کو گزٹ نوٹیفیکشن برائے قبائلی علاقات کے لیے میں نئے ضابطے لاگوکیے گئے، قوانین کی درخواست، اور اس کے تحت جرائم کی عدالت(Criminal Courts)متعارف کرائیں گئیں اور ساتھ ہی مندرجہ ذیل قوانین کو بھی متعارف کرایاگیا جس میں
پولیس ایکٹ 1861ئThe Code of Criminal Prolelure
The Pakistan Pannel Code (Act, xlVof 1860, 1886اورThe Evidence Act 1872جن کے تحت پرانے قوانین کو منسوخ قرار دیاگیا۔
17اپریل1974ء کونئے ضابطے کے تحت سول اور محاصل کی عدالتیں بھی قائم کردی گئیں اور یہ مندرجہ ذیل قوانین کی وسعت(مزید وضاحت کرے)کرکے تشکیل دی گئی تھیں۔
The west Pakistan Civil Courts Ordinance(1962)
The Code of Civil Procedure, 1908اور
The west Pakistan land Revenue Act(1967)قوانین شامل ہیں۔
یہ صاف ظاہر ہے کہ سوات کے لوگ''اصل''میں کیا چاہتے ہیں اور یہ معاملہ اتنا پیچیدہ نہ تھا ، اور نہ ہی وہ اتنا غیر معمولی عدالتی نظام چاہتے ہیں اور جس کو حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یقینی طور پر یہ سب کچھ پاکستان میں نہ رہتے ہوئے وہ کھبی حاصل نہیں کرسکتے تھے لیکن ان لوگوں کو ہر گز اب یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اب وادی کے غیر منظم نظام میں''غیرملکی باشندوں '' کی طرح بن کر رہ گئے ہیں اور''یہ لوگ نہ ختم ہونے والی غربت کی گرفت میں آچکے ہیں اور Talban utopiaمیں گھِر کر رہ گئے ہیںاور یہ ختم نہیں ہوسکتی بالکل اس طرح جیسا کہ افغانستان میں ابھی تک ختم نہیں کی جاسکی، جو کہ دراصل مزید خدشات (مشکلات)کو جنم دے رہی ہے، بجائے اس کے پاکستان میں پھر سے قابلِ عمل لیکن غیرمثالی (Non-ideal) عدالتی نظام کی واپسی ہو۔''
(بشکریہ فرائیڈے ٹائمز،انگریزی سے ترجمہ:شگفتہ حیات)
|
|
|
|
|