working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

عسکریت پسند اور ان کا خاندانی پس منظر
کرسٹین فیئر
زیر نظر مضمون معروف امریکی محقق کرسٹین فیئر کی کاوش ہے، جو پاکستان ، بھارت ، افغانستان اور جہادی تحریکوں کے حوالے سے مستند رائے کی مالک سمجھی جاتی ہیں۔ ابھی حال ہی میں بلوچستان کے حوالے سے ان کی ایک رپورٹ کو میڈیا میں کافی پذیرائی ملی جس میں انہوں نے بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے حوالے بھی دیئے۔ کرسٹین فیئر کو یہ خاصیت بھی حاصل ہے کہ انہوں نے دوران طالبعلمی ایک عرصہ لاہور میں گذارا، اس وجہ سے وہ یہاں کی تھذیب و ثقافت سے بھی بخوبی واقف ہیں ۔ کرسٹین فیئر نے پاکستان و بھارت کے کسانوں پر کتاب بھی لکھ رکھی ہے ۔ وہ آج کل امریکہ کے ادارہ برائے امن (USIP) میں سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ اور واشنگٹن کے معروف تھنک ٹینک اینڈ کارپوریشن میں سینئر پولیٹیکل سائنٹسٹ کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔ وہ گذشتہ دنوں پاکستان آئیں تو انہوں نے اپنا یہ تحقیقی مقالہ قارئین تجزیات کے لئے پیش کیا جس کے لئے ہم ان کے مشکور ہیں۔ (مدیر)

آج کل دنیا بھر میں پاکستان عسکریت پسندی کے حوالے سے خاصی اہمیت اختیار کر گیا ہے اور یہ کافی حد تک درست بھی ہے حالانکہ حکومت نے 2001ء سے مسلسل کئی تنظیموں پر پابندی بھی عائد کی مگر اسلامی جہادی گروپ مسلسل سر اٹھاتے رہے ہیں۔ پاکستانی عسکریت پسند تنظیموں نے روایتی طور پر جہاد کشمیر کے پس منظر سے جنم لیا۔ ان میں دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی جیش محمد، حرکت الا نصار، حرکت المجاہدین، الحدیث تنظیم میں لشکر طیبہ جب کہ جماعت اسلامی کے زیرِ اثر البدر اور حزب المجاہدین وغیرہ خبروں کا مرکز بنیں دوسری گروہی تنظیموں میں شیعہ مکتب فکر کی مخالفت میں بننے والی لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ پاکستان قابل ذکر ہیں۔ اور یہ دونوں دیوبندی تنظیمیں جمعیت العلمائے اسلام (JUI) کے زیر سایہ پھلی پھولیں انہیں کئی عرب امراء اور تنظیمیں بھی مدد فراہم کرتی رہی ہیں۔ ماضی میں کئی گروہی شیعہ تنظیمیں بھی سرگرم عمل رہی ہیں خیال کیا جاتا ہے کہ انہیں بھی ایک ہم خیال پڑوسی ملک سے مدد ملتی رہی ہے۔ لیکن اب یہ تنظیمیں محض قصئہ پارینہ بن چکی ہیں۔

ان مختلف گروہوں اور ان کے ہمدردوں نے پاکستان کی اندرونی اور علاقائی سا لمیت کو دائو پر لگائے رکھا جس کے مضر اثرات بشمول ہندوستان اور افغانستان تینوں ملکوں پر مرتب ہوئے۔ پاکستان میں رہ کر القاعدہ کو طالبان اور دیوبندی مکتب فکر کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کا سنہری موقع میسر آیا اور اس کو تربیت اور ترسیل میں مدد ملی۔

پاکستان میں سرگرم ان تنظیموں میں شامل عسکریت پسندوں کے متعلق یہ بتانا نہایت مشکل ہے کہ وہ کون سے محرکات اور معاشرتی اور گھریلو عوامل تھے جنہوں نے انہیں ان تنظیموں سے وابستہ ہونے پر اکسایا۔بہت سے دانشوروں کے چیدہ چیدہ انٹرویوز سے یہ بات عام ہوئی کہ پاکستانی دینی مدارس غریب بچوں کو تعلیم اور تربیت دے کر عسکری تنظیموں میں بھیجتے ہیں ان دانشوروں کا یہ خیال بھی تھا کہ تمام عسکریت پسند غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی شعوری سطح نا پختہ ہونے کی وجہ سے دینی مدرسے انہیں بنیاد پرستی کے صحرا کی جانب دھکیل دیتے ہیں خصوصاً 9 نومبر کے امریکہ پر حملے کے نتیجے میں ارباب ِ اختیار مسلسل اس بات کا تقاضا کر رہے تھے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں میں تعلیم کا معیار بلند کیا جائے صدر بش نے بھی اپنے ایک بیان میں وضاحت کی کہ ہمیں غربت سے لڑنا ہے کیونکہ اس سے وابستہ موہوم امید ایک ایسی کرن ہے جو کہ شاید دہشت گردی کا سدِباب بن پائے گی۔

پاکستان کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے 9نومبر کی کمیشن رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ غربت ، رشوت ستانی اور حکومتی معکوس روئیے ہی ایسے ،منفی رجحانات تھے جنہوں نے عسکریت پسندی کو ہوا دی۔ ان تمام خدشات پر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے برملا اظہار خیال کیا جاتا رہا ہے۔پاکستان کے معروضی پس منظر کے بغیر عسکریت پسندوں کے متعلق متنازعہ خیالات کسی مضبوط بنیاد پر استوار نہیں تھے۔ نہ ہی جہادیوں کے خاندانی پس منظر پر کوئی عقدہ کشائی کی گئی تاہم اس زمرے میں تحقیقی کام جو کہ مریم ابو زاہب اور محمد عامر رانا نے انجام دیا خاصا قابل تشائیش اور اہمیت کا حامل تھا۔

عسکریت پسندی کے محرکات ،خاندانی پس منظر اور مذہبی رجحانات کی بنیاد پر سروے ترتیب دئیے گئے جن کی روشنی میں جامع تحقیق مرتب کی گئی ہے کہ یہ لوگ کون تھے کس طرح جہادی تنظیموں میں شمولیت اختیار کی اور بالا آخر کشمیر یا افغانستان کے محاذوں پر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے شہید کہلوائے اس رپورٹ میں مختلف سوالوں کے جوابات حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں ذاتی سوالات سے لے کر گھریلو معاملات کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔باوثوق ذرائع سے شہداء کی تعلیمی قابلیت، روز گار اور خاندانی پس منظر کے متعلق آگاہی حاصل کی گئی۔ جس سے پتہ چلا کہ انہیں کہاں سے بھرتی کیا گیا کس گروپ نے انہیں قبول کیا ان کی تربیت کہاں کی گئی خدمات کہاں انجام دیں اور پھر کیسے شہید ہوئے۔ اس ڈیٹا کی بنیاد پر ایسے مضبوط شواہد سامنے آئے جن کا پالیسیاں ترتیب دینے میں بنیادی کردار ہو سکتا ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اس سے عسکریت پسندوں کو سمجھنے میں بہتر مدد ملے گی اور معاملات حل کرنے کی جانب مثبت اقدامات کیے جا سکیں گے۔

اس سروے کو امریکہ کے ادارے ''انسٹیٹیوٹ آف پیس برائے تنازعات اور ان کا تدارک'' کی مدد سے مصنف ہذا نے ترتیب دیا۔ زیادہ تر توجہ کا مرکز پنجاب اور سرحد کے صوبے رہے تاہم سندھ، بلوچستان اور آزاد کشمیر کو بھی شامل کیا گیا تمام ڈیٹا اور معلومات اگست 2004ء سے لے کر اپریل 2005ء کے درمیان اکٹھی کی گئیں۔ اور یہ بھی کوشش کی گئی کہ ہر اس خاندان سے ملا جائے جس کا کم از کم ایک شہید جہاد کی نذر ہوا ہو۔ اور یہ بھی مد نظر رکھا گیا کہ سویت یونین کی افغانستان میں جنگ کو نظر انداز کرتے ہوئے 1990ء کے بعد کے دور کے ارد گرد ہی رہا جائے کیونکہ یہی وہ دور ہے جب افغانستان اور کشمیر میں موجودہ تنازعات نے سراٹھایا مکمل رپورٹ تیار کرنے میں شہید کے خاندان کی گھریلو معلومات مثلاً اخراجات کا حجم، گھر کا رقبہ، کنبے کے افراد کی تعداد، ازدواجی حیثیت، عمر، تعلیم اور دیگر افراد کی تعلیمی قابلیت کو بھی جانچا گیا۔ مذہبی اور دنیاوی تعلیم کے متعلق بھی اعدادوشمار اکٹھے کیے گئے۔ اس ڈیٹا میں ان لوگوں کا سول سروس اور حکومتی اداروں سے تعلق، مردوں اور عورتوں میں ملازمت کے رجحانات، آمدنی اخراجات اور وراثت کو پرکھنے کے ساتھ ساتھ مختلف مکتبہ فکر کے متعلق ان کے نظریات کو سمجھنے میں بھی مدد ملی۔ جب کہ شہداء کی شہادت سے پہلے اور بعد کے ان اثرات پر بھی غور کیا گیا جو کہ ان کے گھر والوں کے ساتھ پیش آئے۔

خاندانی خصوصیات:
سروے کے اس نمونے میں جغرافیائی تقسیم کی بنیاد پر کچھ تحقیقی کام مرتب کیا گیا جس سے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں (شکل نمبر 1ملاحظہ کریں)
اکثریتی افراد کا تعلق صوبہ سرحد سے تھا اور یہ تعداد 55 فی صد کے قریب تھی جب کہ 26 فی صد افراد صوبہ پنجاب کے رہنے والے تھے اگر پشتو سمجھنے کی بنیاد پر تجربہ کیا جائے تو یہ تعداد 55 فی صد بنتی ہے۔ جب کہ 13 فی صد پنجابی 12 فی صد اردو اور 11 فی صد کشمیری زبان سمجھتے تھے۔ تاہم کچھ تعداد ہند کو، سرائیکی اور پوٹھوہاری جاننے والوں پر بھی مشتمل تھی۔

خاندانی یونٹ کی بنیاد پر تقریباً 53 فی صد چھوٹے کنبے پر مشتمل تھے شہری تناسب سے چھوٹے کنبوں کی تعداد بھی اتنی ہی بنتی تھی جب کہ شہداء کے خاندانوں کو مدِنظر رکھیں تو ان کا حجم 12 افراد پر مشتمل تھا جب کہ پاکستان کے حوالے سے خاندان کا اوسط حجم 7 اور 8 افراد کے درمیان ہے۔
141مجاہدین کے سروے کے مطابق اوسط خاندانی تناسب 144 فی صد رہا۔ 90 خاندانوں میں ایک مجاہد تھا 28 خاندانوں میں 2 اور 12 خاندانوں میں 3 مجاہدین تھے جب کہ 2 خاندانوں میں بتدریج 4، اور 5 کی تعداد میں تھے۔

6

اس سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمومی طور پر تمام خاندان والے اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ ان کے کنبے کے فرد نے شہادت کا جام پی لیا ہے۔ 141 میں 110 یعنی 78 فی صد یہ بھی سمجھتے تھے کہ ان کا عزیز کسی تنظیم میں شمولیت اختیار کر چکا ہے۔ کنبے کے باقی افراد بھی جانتے تھے کہ ان کا بھائی بند کسی تنظیم کا ممبر بن چکا ہے۔

مدعاعلیان کی خصوصیات:
جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہر خاندان کا سربراہ کل اختیارات کا مالک تصور ہوتا ہے اس مقصد کے لیے سروے سے جو معلومات اکٹھی کی گئیں ان میں مدعاعلیان کے گھروں کا محل ِوقوع، قابلیت، عمر ، جنس اور تعلیمی پس منظر بھی جانچا گیا ہے۔ محض 17 (12فی صد) مدعاعلیہ نے مذہبی مدرسوں میں داخلہ لیا جب کہ ان میں سے صرف 7 نے تعلیمی سرٹیفیکیٹ حاصل کئے انہوں نے کلی طور پر کم از کم دو سال تک مدرسوں میں حاضری کو ممکن بنایا جب کہ مدرسے کی مکمل تعلیم کے لیے 8 سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف 4 فی صد ہی طلبا ایسے تھے جنہوں نے مکمل تعلیم حاصل کی پاکستان کے باقی مدرسوں کی صورتِ حال بھی کچھ مختلف نہیں تھی۔

جہاں تک سیکولر تعلیم کا تعلق ہے اس سروے میں بھی لوگوں کی خاصی تعداد پڑھی لکھی نکلی مردوں کی جنس میں27 فی صد کی کوئی رسمی تعلیم نہیں تھی جب کہ 22 فی صد نے میٹرک یا اس سے کم تعلیم حاصل کی تھی۔ 22 فی صد میٹرک یا انٹرمیڈیٹ سے کم تعلیمی درجے کے تھے۔ 16 فی صد انٹرمیڈیٹ یا گریجویشن سے کم تھے اس تمام سروے سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ آدھے سے زائد مجاہدین اوسطاً میٹرک تھے۔ میٹرک تک تعلیم مکمل کرنا پاکستان جیسے ملک میں ایک بڑا سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ پاکستانی آبادی میں میٹرک پاس مردوں کی تعداد 32 فی صد ہے قومی معیار کو مدِنظر رکھتے ہوئے سروے کے اس نمونے میں پڑھے لکھے مجاہدوں کی تعداد خاصی بڑی دکھائی دیتی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہرہوا ہے کہ عسکریت پسندوں کا تعلق کن طبقات سے تھا۔

پاکستان میں سیکورٹی فورسز اورملڑی انٹیلیجنس کی ایک لمبی تاریخ ہے ان حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے جہادی عناصر کے فوجی پس منظر کے حوالے سے بھی سروے گیا گیا جس سے پتہ چلا کہ 14 فی صد ایسے لوگ تھے جنہوں نے فوجی تربیت حاصل کی تھی 10 افراد یعنی 14 فی صد آرمی میں خدمات انجام دے چکے تھے ایک فی صد بحری فوج میں جب کہ ایک فی صد نے نیشنل گارڈز کی ملازمت کی تھی ایک فی صد پولیس اور 5 فی صد سیکورٹی ایجنسیوں سے آئے تھے۔

سروے سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ 60 فی صد کا تعلق دیوبندی مسلک سے تھا 22 فی صد اہل سُنت مسلک اور جماعت اسلامی سے متاثر تھے 11 فی صد بریلوی اور 6 فی صد الحدیث مکتبہ فکر کے تھے جب کہ اس نمونے میں کوئی شیعہ شامل نہیں تھا۔ جب کہ اس حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں کہ پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے بریلوی اکثریت میں ہیں۔

جب متعلقہ خاندان والوں سے مجاہدین کے مذہبی رجحانات کے متعلق سوالات دریافت گئے گئے تو 105 خاندانوں یعنی 75 فی صد کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ وہ لوگ باقی افرادِ خانہ کی مانند ہی تھے۔جبکہ 21فی صد نے کہا کہ ان میں مذہبی وابستگی باقی اہلِ خانہ سے نسبتاً زائد تھی 5 فی صد ایسے تھے جو خاندان کے دوسرے لوگوں سے کم مذہبی تھے۔

جب مذہبی مجالس اور دیگر اسلامی درسوں میں حاضری کی کیفیت کو مدِنظر رکھ کر سروے ہوا تو 97 فی صد مرد ایسے تھے جو باقاعدگی سے اسلامی اجلاسوں میں شرکت کرتے تھے جب کہ 82 فی صد خواتین بھی تھیں۔ 2001ء میں ورلڈ ویلیو سروے کی رپورٹ کے مطابق 50 فی صد لوگ ہفتے میں ایک سے زائد بار مذہبی تقریبات میں شرکت کرتے رہے تھے۔23 فی صد ہفتے میں ایک بار جاتے تھے جب کہ 17 فی صد کے متعلق یہ رپورٹ تھی کہ وہ مہینے میں ایک بار ضرور مذہبی اجلاس میں اپنی شرکت ممکن بناتے تھے۔ کل تعداد کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اوسطاً 91 فی صد لوگ ہر ماہ میں ایک بار ضرور مذہبی مجالس میں جاتے تھے اور 8 فی صد سال میں ایک مرتبہ کسی خاص موقعے پر ضرور حاضری دیتے تھے۔

جب شہداء کے اہل خانہ سے پوچھ گچھ کی گئی کہ کیا شہادت کے بعد شہید کے گھر والوں میں مذہبی سرگرمیوں کے حوالے سے کچھ کمی ہوئی ہے تو جواب نفی میں تھا 58 فی صد میں مذہبی رجحانات جوں کے توں پائے گئے جب کہ 41 فی صد یا 58 فی صد افراد میں پہلے سے بھی زائد مذہب کی جانب التفات دیکھا گیا۔

شہداء کے اعدادوشمار:
مختلف خاندانوں کے سروے رپورٹ کے مطابق (141میں سے 99) 70فی صد کنبوں میں ایک شہید تھا ہر پانچ میں سے ایک خاندان کے دو شہید تھے 10 میں سے ایک خاندان میں تین مجاہد تھے جب کہ دو خاندان میں بتدریج چار اور پانچ کی تعداد میں مجاہد تھے۔ ان میں سے زیادہ تر تعداد نے افغانستان کی بجائے کشمیر میں جہادی سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا۔

سروے میں یہ بات سامنے لائی گئی ہے کہ مجاہدین کا تعلق کن علاقوں سے تھا اور انہوں نے کہاں شہادت پائی۔ مجاہدین کے لیڈر ہر شہید کے گھر بہ نفسِ نفیس تشریف لاتے اور انہیں مبارک باد کے علاوہ کچھ مراعات اور امداد بھی بہم پہنچاتے تھے نیچے دئیے گئے ذائچے میں یہ تفصیلات درج ہیں کہ شہداء نے کن خطوں میں جام شہادت نوش کیا۔
7

جب خاندان والوں سے شہدا کی عمر کے متعلق استفسار کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ تمام مجاہدین جنہوں نے جام شہادت نوش کیا اس وقت نوعمر تھے عمومی اور اوسط عمر 22سال تھی سب سے کم عمر 12سال کا شہید تھا اور سب سے بوڑھا شخص52سال کی عمر کا تھا۔ زیادہ تر تعداد17اور 25سال کے درمیان بنتی ہے جو کہ 79فی صد تھے(جیسا کہ شکل نمبر4میں واضح ہے)

خاندان کے عمائدین نے ان مذہبی گروپوں کے نام بھی بتائے جن سے ان کے نوجوانوں کا تعلق رہا۔ مگر کسی فرد نے بھی شیعہ مخالف تنظیمیں مثلاً لشکرِ جھنگوی یا سپاہِ صحابہ پاکستان سے اپنی وابستگی کا اظہا رنہیں کیا۔ سروے کے اس نمونے میں 57فی صد کا تعلق جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیموں سے تھا یعنی البدر سے54اور حزب المجاہدین سے27لوگ وابستہ تھے۔ سروے کے اس نمونے میں چوتھائی افراد کا تعلق دیوبندی تنظیم سے تھا18عدد حرکت المجاہدین اور 6عدد کی جیشِ محمد سے وابستگی تھی۔ اہلحدیث کی تنظیم میں 13فیصد لوگ شامل تھے جن میں سے 13لشکرِ طیبہ اور 5افراد کا تعلق تحریک المجاہدین سے تھا۔ جماعت اسلامی سے عناد رکھنے والے تحریک نفاذِ شریعت محمدی کے شہدا کی تعداد 9بنتی تھی جو کہ 6فیصد کے قریب ہے۔ بریلوی مکتبئہ فکر کی 2شہداء کے ساتھ 2فیصد تعداد بنتی تھی جو کہ سنی جہاد کونسل اور تحریک جہاد کی نمائندگی بھی کر رہے تھے۔
8

عموماً جہادی افراد اپنے مسلک کی تنظیمیں ہی منتخب کرتے رہے ہیں لیکن پچھلے سروے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر دفعہ یوں نہیں ہوا۔ مثلاًاہلِ حدیث کی تنظیم لشکر طیبہ اپنے سماجی اور جہادی پروگراموں کی وجہ سے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کراچکی تھی۔ ان کا وجود طبی کلینک، اسکولز اور مدرسوں کی شکل میں پھیلا ہوا ہے جس سے وہ دوسرے مکاتبِ فکر کو بھی جلد ہی اپنی جہادی تنظیموں کی جانب راغب کرتے رہے ہیں۔


9

مجاہدین کی بھرتی اور ذرائع کے حوالے سے بھی اعدادوشمار مرتب کیے گئے، عمومی طورپر صاحبِ رائے یہی اظہارِ خیال کرتے ہیں کہ مجاہدین اور عسکریت پسندوں کا بنیادی راستہ مدرسہ سے ہوکر آتا ہے مگر اس سروے کے نمونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شہدا کی بڑی تعداد یعنی 35فی صد اپنے دوستوں کی وساطت سے تنظیموں میں آئے تھے جبکہ رشتے داروں کی مددسے آنے والے شہدا کی تعداد9فی صد رہی۔ مساجد کا کلیدی کردار بھی رہا مگر وہاں سے محض ایک چوتھائی لوگ منتخب ہوئے۔ تبلیغ یا چھوٹے چھوٹے گروپوں نے 19فیصدشہداکوبھرتی کی ترغیب دی ۔ مدارس اور پبلک سکول دونوں نے 13فیصدعسکریت پسند مہیا کیے۔ جبکہ پرائیویٹ سکول کا کوئی نوجوان رجسٹرڈ نہیں ہوا تھا اور28فیصدکے ریکروٹمنٹ کے ذرائع کی تصدیق نہ ہوسکی۔ مجموعی طورپر پتہ چلتا ہے کہ 44 فیصدشہدا مساجد اور تبلیغ سے متاثرہوکر بھرتی ہوئے جبکہ محض26فیصدتعلیمی مدارس سے وابستہ تھے۔

لیکن دیکھا گیا ہے کہ خود کش بمبار جو کہ آج کل افغانستان اور پاکستان میں سرگرم عمل ہیں ان کی تربیت مخصوص مدارس میں ہی ممکن ہوئی ہے۔جب تنظیمی تربیت کے حوالے سے مجاہدین کے خانوادوں سے استفسار کیاگیا کہ کیاان افراد نے باقاعدہ مذہبی تنظیموں میں شمولیت اختیار کی تھی مثلاًاسکولوں اور کالجوں کی چھٹیوں کے دوران بھی بعض تنظیمیں طلباء کو اپنے تربیتی پروگراموں کی جانب راغب کرتی ہیں۔ اس سروے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ141سے117یعنی83فیصد حضرات نے یہ تربیتی کورسز مکمل کیے ۔ مثلاًکیمپوں میں حاضری دی اور کم از کم ایک شہید ایسا بھی تھا جو کہ ایئرفورس میں بھی خدمات انجام دے چکاتھا۔ جب جہادی حضرات کے رینک اور سٹیٹس کے متعلق پوچھاگیا تو معلوم ہوا کہ شہدا میں30شہید یعنی 21فیصدکمانڈر کے درجے پر فائز تھے جبکہ باقی ماندہ عام کیڈٹ تھے۔

شہدا کے ریکارڈ سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ ان کی تعلیمی قابلیت عام پاکستانی کی اوسط تعلیم سے زائد تھی۔ جبکہ محض6فی صد ایسے لوگ تھے جن کی تعلیم رسمی نوعیت کی تھی۔ 35فی صد کا تعلیمی معیار پرائمری سے زائد اور میٹرک سے کم تھا جبکہ 40فی صد میٹرک کرچکے تھے اور انٹرمیڈیٹ کی ڈگری حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔13فی صد گریجوایشن نہ کرپائے تھے جبکہ انٹرمیڈیٹ کی ڈگری لے چکے تھے اور6فی صد ایسے بھی جو سیکنڈری سے اوپر کے درجے تک تعلیم یافتہ تھے۔ دوسرے لفظوں میں58فی صد کے قریب شہدا میٹرک کی تعلیم حاصل کرچکے تھے اور ان میں سے کئی ایک نے مزید تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ اگر تمام پاکستان کو مدِ نظر رکھاجائے تو میٹرک پاس طلبا کی تعداد ہر تین نوجوانوں میں سے ایک ہے اور اس سروے میں تمام خاندان صوبہ سرحد سے منتخب کیے گئے تھے جہاں تعلیم کے معاملے میں دیگر صوبوں سے پسماندگی کا تناسب بھی زیادہ ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس نمونے میں شہدا کی تعداد خاصے پڑھے لکھوں کی تھی۔ جس سے ان شواہد کو بھی ہوا ملتی ہے کہ عسکریت پسندوں کو سامنے لانے میں محض مدرسوں کا کردار ہی نہیں رہا بلکہ ان تجزیوں کو مزید باریک بینی سے حقائق دیکھنے کی ضرورت ہے۔

جب سیکولر تعلیمی بنیاد پر سروے کیاگیا تو ان شہدا کے گھروالوں سے دینی مدرسوں میں حاضری کے حوالے سے یہ پتہ چلاکہ چارشہیدوں میں سے ایک سے بھی کم شخص نے مدرسے کی تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیااور اس کا نسبتی تناسب23فی صد بنتا ہے۔33شہدا جنہوں نے جامِ شہادت نوش کیا تھا اس میں سے13افراد نے مذہبی اسناد حاصل کی تھیں۔ یہ تعداد سروے کے نمونے کی 9فی صد بنتی ہے اور تمام افراد جنہوں نے باقاعدہ مدرسوں سے تعلیم حاصل کی ان کی تعداد 40فیصد بنتی ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ یہ تعلیمی اسناد چار اقسام کی ہیں دو سالہ تعلیم مکمل کرنے پر ''تنویأ عامہ''اور سب سے آخری سند''عالیمیائ''ہے جو کہ 8سال کے بعد ملتی ہے۔ جب تک یہ پتہ نہ چلے کہ کس شہید نے کون سی سند حاصل کی تھی یہ کہنا مشکل ہے کہ کہاں تک مدرسوں سے استفادہ کیاگیاتھا۔ بہرحال ان شہدا نے جو درمیانی مدت تک مدرسہ میں جاتے رہے تین افراد تھے اور اکثریت یعنی 93فی صد پانچ سال یا اس سے کم عرصے تک زیرتعلیم رہے۔

سروے کے اس نمونے میں عسکریت پسند پڑھے لکھے افراد پر مشتمل تھے اور مدرسوں سے فارغ التحصیل طلباکی تعداد نہایت قلیل تھی۔ حالانکہ ان میں سے بھی ایک چوتھائی یا تقریباًہر دس میں سے ایک فرد کے پاس مدرسے کی سند موجود تھی۔ ان میں سے زیادہ تر نے کشمیر میں جہادی آپریشن کیے اور وہیں شہادت پائی اور اگر تناسب دیکھیں تو یہ لوگ نسبتاًزیادہ پڑھے لکھے افراد کا ٹولہ تھا یہ نتائج بھی دوسرے تجزیوں کے عین مطابق ہیں جس میں عسکریت پسندوں کے گروپوں کی جانب سے انسانی سرمائے اور دہشت کی قسموں کے درمیان موازنے کو پرکھا گیا ہے۔

اس سروے میں یہ معلومات بھی اکٹھا کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ شہدا کی جہادی تنظیموں میں بھرتی ہونے سے ایک سال پہلے روزگار کا کیا سلسلہ تھا۔ اس تجزیے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر افراد یعنی 50فی صد شہدا جہادی تنظیموں میں آنے سے پہلے بے روزگار تھے۔ تقریباً چار میں سے ایک شہید کو کبھی کام مل جاتاتھا اور وہ پارٹ ٹائم ملازمت کرتاتھا جبکہ ایک شہید دیہاڑی دارتھا۔ اگرتمام افراد کے تناسب کو مدِ نظر رکھیں تو تقریباًتین چوتھائی افراد بے روز گار تھے یا انہیں کم روزگار ملتاتھا۔ اگر تمام پاکستان کے اعدادوشمار کا موازنہ کیا جائے تو یہ دیکھا گیا ہے کہ 2002ء سے2006ء کے درمیان بے روزگاری کی شرح 8فی صد سے کم رہی جبکہ1990ء کی دہائی میں یہ شرح5فی صد سے کچھ زائد رہی اور 1980کی دہائی کے پہلے نصف میں 3.3فی صد تھی۔ اس سے یہ بات سامنے آئی کہ مندرجہ بالا سروے کے نمونے میں بے روزگاری کا تناسب خاصا بلند تھا اور لوگ خاصے تعلیم یافتہ بھی تھے۔

ایک بڑا عنصر بے روزگاری بھی رہی ہے جس نے اسکول کی سطح سے ہی طلباء کو جہادی تنظیموں کی جانب راغب کیا۔ جب شہدا کے خاندان والوں سے مجاہدوں کی ملازمت کے حوالے سے سوالات پوچھے گئے تو معلوم ہوا کہ تنظیموں میں شمولیت سے پہلے33نوجوان یعنی23فی صد پبلک اسکولوں یا مدرسوں میں زیرتعلیم تھے اگر70میں سے33منہا کریں تو تقریباًچار میں سے ایک بیروزگاربنتا ہے نہ کہ دو میں سے ایک۔ اس سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انتہائی پڑھے لکھے لوگوں میں بے روزگاری کی شرح بلند تھی۔ برسرِ روزگار افراد کے حوالے سے بھی مختلف شواہد سامنے آئے۔ ان مجاہدین کے ملازمتوں کے حساب سے مختلف پیشے تھے۔ زیادہ تر افراد دکاندار، کسان اور دیہاڑی دار مزدور تھے۔ اچھے ہنرمندوں کی تعداد بھی کچھ کم نہ تھی۔ بطور ڈاکٹر، نرس، آٹومکینک، ایکسرے ٹیکنیشن وغیرہ کی خدمات انجام دے چکے تھے۔ شہدا میں سے ایک فرنٹیر کنسٹیبلری (FC)کا ممبر بھی رہاتھا۔ 69باروزگار شہدا میں سے56یعنی81فی صد افراد کی سابقہ ملازمتوں کو محض ایک سے چار سال کا عرصہ گزرا تھا۔ بہرحال پڑھے لکھے افراد کی بے روزگاری کے مسئلے کو کم اہم نہیں سمجھنا چاہیے۔
اس سروے میں ازدواجی پہلو کو بھی مدِ نظر رکھاگیا ہے جس میں بھرتی ہونے کے وقت سے شہادت تک اوراگران کے ہاں بچے تھے تو ان کا تناسب بھی شامل کیاگیا ہے۔ عمومی طورپر یہی خیال کیاجاتا ہے کہ جہادی حضرات نوجوان اور غیرشادی شدہ لوگ ہوتے ہیں مگر اس تجزیے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھرتی کے وقت 20شہید یعنی 14فیصد شادی شدہ تھے جبکہ ایک جوڑے میں علیحدگی ہوچکی تھی۔ 19افراد یعنی 13فی صد اپنی شہادت کے وقت ازدواج سے منسلک تھے جبکہ ان میں سے بھی ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے رکھی تھی۔ جبکہ شادی شدہ افرادمیں سے 15فی صد یعنی 11فی صد صاحبِ اولاد تھے.

شہادت کے فوائداور معاشرتی علوم:
پاکستان میں بھی فلسطین اور دیگر کئی اسلامی ممالک کی طرح شہادت کا تصور اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود ہے اورمعاشرہ بھی شہید کے خاندان کو سرآنکھوں پر بٹھاتا ہے۔ شاعرمشرق ڈاکٹرسرمحمداقبال کا ایک شعر اس کا بہترین غماز ہے:

صلہِ شہید کیا ہے
تب و تابِ جاودانہ

شہید کے گھر والوں کو لوگ تمام معاشی ضروریات بہم پہنچاتے ہیں اس کے نام پر کنوئیں کھودے جاتے ہیں۔ تختیاں لگتی ہیں۔ گلیوں اور سڑکوں کے نام شہید کے نام سے منسوب کردیے جاتے ہیں۔ شہید کے بیٹے اور بیٹیوں کا رہن سہن بہتر ہوجاتا ہے۔ بچوں کی شادیوں پر بھرپور معاونت کی جاتی ہے۔

شہادت حاصل کرنے والے مجاہدوں کے گھروں سے پوچھ تا چھ کے بعد مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے17یا12فی صد گھروالوں نے اعتراف کیا کہ ان کے حالاتِ زندگی بہتر ہوئے ہیں۔75فی صد نے بتایا کہ ان کے گھریلوحالات جون کے توں ہیں۔10فیصد خاندانوں نے حالات کی خرابی کا رونا رویا۔

شہید کے خاندان کے لوگوں کی شادیوں کے معاملات پر بھی ایک سروے ترتیب دیاگیا۔ جس میں جہیز کے معاملے میں کوئی خاص تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔67میں58خاندانوں کی بیٹیوں کا جہیز عام لوگوں کی طرح ہی ادا کیاگیا۔ 6نے کم ادا کیااور 3نے زائدتعداد میں دیا۔ جبکہ تمام افراد کو اچھے اور امیر خاندانوں میں رشتے ملے۔90خاندانوں کے اعداد و شمار کے مطابق 23افراد یا 26فیصد کو بہتر خاندانوں میں رشتے میسر آئے۔66افراد یا73فی صد نے کسی تبدیلی کا ذکر نہیں کیا جبکہ محض ایک رشتہ برے حالات میں بھی ہوا۔

افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد کئی عرب اور افغان پاکستان میں آکرآباد ہوگئے اور مقامی لڑکیوں سے شادیاں رچالیں اور یہ زیادہ تر ان پشتون علاقوں میں ہوا جو پاکستان اور افغانستان کے بارڈر کے علاقے تھے۔ نوجوانوں کی شہادت کے بعد جب ان کے خاندان سے رابطہ کیاگیا کہ کیا ان غیرملکیوں نے ان کے افرادِ خانہ سے شادی کے معاملے میں رجوع کیا تو معلوم ہوا کہ ایک فی صد یا دو خاندانوں کی لڑکیوں کے ساتھ ان مجاہدوں نے بیاہ کیے۔

اس سوال پر کہ کیا حکومت، تنظیموں اور قومی اورمعاشرتی اداروں نے ان کی مدد کی تو شہدا کے خاندان والوں کے جوابات کے مطابق19خاندانوں یا13فی صد کو حکومت کی طرف سے اقتصادی مدد دی گئی۔61خاندانوں یا43فی صد کی تنظیموں نے مدد کی، یہ مدد مختلف حجم کی تھی کبھی تو محض ایک دفعہ یا پھر ماہوار، سالانہ یا مذہبی تہواروں مثلاًعیدین وغیرہ پر مالی امداد کی صورت میں مدد کی گئی۔

اختتامیہ:
عمومی رائے کے خلاف کہ پاکستانی عسکریت پسند نظرانداز اور محروم طبقات کے لوگ تھے یہ بات ظاہر ہوچکی ہے کہ مجاہدین کی اکثریت اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد پر مشتمل تھی اور انہیں مختلف مکتبہ فکر کی تنظیموں نے اپنی کوششوں سے بھرتی کیاتھا۔ ان میں سے زیادہ تر کشمیر کے جہاد میں شہید ہوئے کیونکہ ان گروپس کو ایسے افراد کی ضرورت تھی جنہوں نے سیکورٹی کے نقطۂ نظر سے ہراول دستے کے طورپر کام دیا اور ان کے عقب میں باقاعدہ تربیت یافتہ فورس سے حملہ کی منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

افغانستان میں جہاد کے لیے منتخب افراد نسبتاًکم تعلیم یافتہ تھے اور اغلب خیال ہے کہ وہ مدرسوں کے ہی فارغ التحصیل تھے کیونکہ خود کش بمبار کی اکثریت پاکستانی قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے اور یہ کشمیری جہادیوں کی نسبت نوخیز جوان ہیں۔ یعنی ان کی عمروں کا تعین15سال یا اس سے بھی کم کیاگیا ہے۔ ان کی تعلیم نہایت معمولی یا نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔

جیساکہ دیکھا گیا ہے یہ عسکریت پسند بنیادی طورپر مدرسوں سے نہیں چنے گئے تھے بلکہ اس سروے کے مطابق مساجد، تبلیغ اور دوسرے ذرائع سے آئے تھے جبکہ مدرسوں سے آنے والے مذہبی منافرت اور خود کش حملوں کے لیے استعمال ہوئے اس سے ان شواہد کا تخمینہ لگانے میں مدد ملی کہ محض مدرسوں کی وساطت سے ہی عسکریت پسندوں کو بھرتی کرنے کا تخمینہ یا اندازہ درست نہیں بلکہ اگر کشمیر یا دوسرے چنوتی والی کارروائیوں کو جانچا جائے تو پبلک اسکولوں کے طلباء کا کردار بھی بنیادی اہمیت اختیار کرجاتا ہے کیونکہ ملک میں70فی صد سے زائد طلباء انہی اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جبکہ مدرسوں میں محض3فی صد یا اس سے بھی کم طلباء داخلہ لیتے ہیں۔ طلباء کی سروے رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی کہ پبلک، پرائیویٹ اور مذہبی سکولوں کے ساتھ ساتھ مدارس کے طلباء جہاد کی حمایت کرتے تھے اور ہندوستان کے خلاف جارحانہ رویہ رکھتے تھے۔

اس سروے نے ایک نئے راستے کی سمت راہنمائی کی ہے کہ خاندان والے اپنے اپنے پیاروں کی مذہبی تنظیموں میں شرکت سے آگاہ تھے اور کئی ایک افراد گھر سے بغیر اجازت لیے بھی چلے آئے ۔شاید اس کے لیے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ وہ کون سے محرکات ہیں جو کہ گھر والوں کو اپنے بچوں کی جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے کو معیوب خیال نہیں کرتے۔شاید یہ ان سماجی قدروں کی کارفرمائی ہے کیونکہ خاندان کے افراد ایک بڑے کنبے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ دوسرے تجزیوں سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جن خاندانوں کے اثاثے یا جائیداد زیادہ ہوتی ہے وہ مجاہدوں کی رائے سے متفق نہیں ہوتے بلکہ ان کی تنظیموں میں رکنیت سازی کی مخالفت کرتے ہیں۔

یہ تھی وہ مکمل رپورٹ جس سے جہادی پس منظر کی گھتیاں سلجھانے میں مدد مل سکتی ہے۔