working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

طالبان کا نمائندہ خاص ـ مسلم خان
امتیاز علی

پاکستان کے طالبان آج کل دو محاذوں پر مصروفِ عمل ہیں ایک جانب تو وہ پاکستانی فوجی دستوں کے ساتھ قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد کے بندوبستی علاقوں میں الجھے ہوئے ہیں اور دوسری جانب مقامی آبادیوں کی حمایت کے ساتھ بیرونی سیکیورٹی فورسز کو بھی ہراساں کر رہے ہیں۔ تحریکِ طالبان پاکستان(TTP)بیت اللہ محسودکی قیادت میں وفاق کے انتظامی علاقوں(FATA) میں عسکری کارروائیاں کرتی ہے۔ بیت اللہ محسود وہی شخص ہے جسے آمرانہ دور میں بے نظیر کے قتل میں ملوث ہونے پر شک کی نظر سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ پاکسانی فوج نے عسکریت پسندوں پر کمر توڑ وار کیے ۔ حکومت کی کامیاب ترین کارروائیوں کے باوجود بھی طالبان کے نمائندوں نے حکومتی دعووں کے برخلاف ایسا موثر اور مضبوط انداز اختیار کیا کہ انہیں ہر روز تمام میڈیا میں نمایاں جگہ دی جانے لگی۔ ان کی رائے کو احترام کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔

پچھلے دنوں جب پاکستان کی فوج صوبہ سرحد کے علاقے سوات میں طالبان سے نبرد آزما تھی تو اس وقت مقامی طالبان کا ایک عسکریت پسند نمائندہ مسلم خان باقاعدگی سے خبروں کا مرکز بنا ہوا تھا اور اسے کسی دوسرے نمائندے کی نسبت زیادہ پذیرائی بھی حاصل تھی مثلاً 15فروری کو خان نے حکومتِ سرحد کے ساتھ سوات کے حوالے سے 10روزہ جنگ بندی کا اعلان کیا۔ مسلم خان کی لوگوں میں شہرت کی بنیادی وجہ سوات میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی کامیاب رپورٹنگ تھی مسلم خان کا مختلف زبانوں پر عبور اور اس کے وسیع تجربہ اور مہارت نے بھی اسے راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا جو کہ اسے مغربی ممالک جن میں شاید امریکہ بھی شامل تھا کی جہاں گردی کے سبب حاصل ہوئی تھی۔

مزید تفصیل کے لیے ہمیں ماضی کی راکھ کھنگالنا ہوگی پاکستان نے جب سے فاٹا میں لاقانونیت سے نمٹنے کے لیے عسکری کارروائیاں شروع کیں تب سے ہی سوات کی خوبصورت اور دلکش وادی میں امن وامان کی صورت بگڑنا شروع ہو گئی اور انتہا پسندی کے حوالے سے سوات ایک مرکزی حیثیت اختیار کر گیا پچھلے سالوں سے درجنوں عسکری آپریشن ناکامی سے دوچار ہوئے اور وادی مقامی طالبان رہنما مولانا فضل اللہ کے کنٹرول اور کمان میں آگئی انہوں نے اپنے نظریات کے پرچار کے لیے ایک FMریڈیو اسٹیشن بھی قائم کر لیا اور ہزاروں جنگجو تیار کیے اور یوں سوات ایک چھوٹی طالبان اسٹیٹ کے طور پر ابھری۔ خواتین کی تعلیم کے حوالے سے مختلف تحفظات سامنے آئے اور طالبان کی عدالتوں نے رہزن، چور، ڈرگ سمگلروں اور مجرموں کی پکڑ دھکڑ کی اور سرِ عام کوڑے مارے۔ اب تک سوات کے تنازعے میں تقریباً1200شہری اور 189کے لگ بھگ فوج کے جوان کام آچکے ہیں جبکہ 2000کے قریب شہری زخمی بھی ہوئے۔

چونکہ فضل اللہ عموماً صحافیوں کے سامنے نہیں آتے اس طرح حاجی مسلم خان نئی طالبان اسٹیٹ کے حوالے سے عوام میں مقبول ہونے لگے۔ وہ فضل اللہ کی ملیشیا میں تقریباً دو سال تک خدمات انجام دیتا رہا تھا مگر پھر اچانک کیا ہوا کہ اس نے سوات میں TTPکے نمائندے سراج الدین کی جگہ لے لی، اس کی تقرری اس وقت عمل میں آئی جب سوات میں کنٹرول حاصل کرنے کے لیے طالبان کے عسکریت پسندوں اور سرکاری فوج کے درمیان لڑائی عروج پر تھی۔ نمائندے کا منصب سنبھالنے کے تقریباً ایک ماہ بعد اس نے طالبان کی بھی نمائندگی کی جو کہ صوبہ سرحد میں عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت سے امن معاہدے کی خاطر مذاکرات کے لیے روانہ ہوئے تھے طالبان کی نمائندگی کرتے ہوئے اس نے چار تجاویز دیں جن میں وادی سوات میں شریعت کے قوانین کا اجرا علاقے سے پاکستانی فوج کی واپسی اور جو لوگ ملٹری آپریشن کے دوران ہلاک یا زخمی ہوئے تھے ان کی مالی معاونت اور تمام گرفتار شدہ لوگوں کی بغیرپیشگی شرط کے رہائی شامل تھی۔ حالانکہ امن معاہدے کو ناکامی کی تلخی سہنا پڑی لیکن معاہدے کے بنیادی کردار کے طور پر مسلم خان کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی اس طرح وہ TTPکے لیے مرکزی حیثیت اختیار کرتا گیا۔

55سالہ مسلم خان کے حالات زندگی کے حوالے سے پتاچلتا ہے کہ وہ وادی سوات کے گائوں کوزہ بانڈہ میں پیدا ہوا تھا مقامی اسکول سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اس نے گورنمنٹ گریجویٹ جہانزیب کالج مینگورہ سے مزید تعلیم حاصل کی ان دنوں بے نظیر بھٹو کے والد ذولفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیر اعظم تھے۔ پوسٹ گریجویٹ کالج میں وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے فلسفے سے متاثر ہوا اور اس نے PSFمیں شمولیت اختیار کر لی جو کہ پیپلز پارٹی کی طلباء کی شاخ تھی خان پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور اسلام اور شریعت کے حامی مولانا کوثر نیازی کا بھی مداح تھا۔خان پارٹی کا زبردست کارکن تھا اور ان کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا ایک دفعہ PPPکے کسی سرگرم طالب علم کے قتل کے خلاف اسے دو حکومتی اہلکاروں کو اغوا کرنے کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے پر 25دن جیل کی ہوا بھی کھانا پڑی اپنی جوانی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اس کے رویے سے ایک متعدل مزاج شخصیت سامنے آتی ہے۔ خان کہتا ہے کہ ان دنوں وہ جذباتی تھااور PPPکی حقیقی اور اصلی پالیسیوں کو سمجھنے سے قاصر تھا۔

1990ء کی دہائی کے شروع میں خان نے تحریک نفاذِ شریعتِ محمدی میں شمولیت اختیار کر لی جس نے مولانا صوفی محمد کی قیادت میں صوبہ سرحد میں مالاکنڈ کے علاقہ میں شریعت نافذ کرنے کے لیے تحریک کا آغاز کیا تھا۔ TNSMکی طرف سے خان نے کئی ایک احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیا۔ انہوں نے 1994میں بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور میں بھی اسلامی قوانین کے نفاذ کے لیے صدا بلند کی ۔ چند سال پہلے خان کے TNSFکے پیشوا جناب صوفی محمد سے نفاذِ اسلام کے سلسلے میں لچکدار رویہ اپنانے پر تحفظات سامنے آئے۔

جولائی2008ء میں خان کی جانب سے یہ بیان آیا کہ کفار سے نبردا آزما ہو نے کے لیے وہ افغانستان میں بھی لڑائی لڑ چکا ہے۔ مگر اس معاملے میں انہوں نے کسی خاص محاذ کی نشاندہی نہیں کی جب ان سے جمہوریت کے متعلق خیالات جاننے کی کوشش کی گئی تو اس نے کہا کہ مغربی طرز کی جمہوریت شریعت کے منافی ہے۔ مسلم خان کے بقول وہ صرف خلافت کا حامی ہے اس نے تمام مسلمانوں سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ بطور ایک امہ کے ایک جھنڈے تلے متحد ہو جائیں اور ان ممالک کی کرنسی اور افواج بھی مشترکہ ہو جب اُن سے طالبان کی تحریک کے مقاصد کے متعلق سوال پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ ہم اپنے علاقے یعنی مالاکنڈ میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں اس ابتدائی پیش رفت کے بعد پورے صوبہ سرحد میں اسلامی حکومت قائم ہو گی اور بالا آخر پورے ملک میں اسلام نافذ ہو جائے گا۔

خان نے جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے لیڈران جناب فضل الرحمن اور قاضی حسین احمد کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ وہ محض اسلام کا نام استعمال کر کے اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں تاکہ محض مراعات سے بہرہ ور ہو سکیں۔

مسلم خان نے ڈگری حاصل کیے بغیر کالج چھوڑا تو پاکستان شپنگ کارپوریشن کی مدد سے 1980کی دھائی میں برٹش کمپنی میں ملازمت اختیار کر لی وہاں اس نے دو سال تک خدمات سرانجام دیں اس دوران اس نے پورا یورپ اور دوسرے کئی ممالک کی سیر و سیاحت کی پھر اس نے یہ ملازمت ترک کر کے ایک کویتی ٹرانسپورٹ کمپنی کو جائن کر لیا۔ جب1991 میں خلیج کی جنگ شروع ہوئی تو وہ بھی دوسرے سینکڑوں پاکستانیوں کے ساتھ کویت سے اپنے ملک لوٹ آیا۔ خیال ہے کہ پھر اس نے اپنا کاروبار شروع کیا اور اپنے مقامی گائوں میں میڈیکل کی دوکان کھول لی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جب مسلم خان TNSMکا سرگرم کارکن تھا تو غالباً1998ء کے ارد گرد امریکہ سے بھی ہو آیا خیال ہے کہ وہ 2000تک وزٹر ویزا پرمیساچیوسٹی اسٹیٹ میں بوسٹن کے علاقے میںرہائش پزیر رہا۔ کچھ ذرائع کے مطابق انہوں نے وہاں کسی پینٹ کمپنی میں ملازمت اختیار کی۔ اس نے اخباری نمائندوں کے سامنے امریکہ میں اپنے قیام کے حوالے سے مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔

مسلم خان کہتے ہیں کہ اسے تمام ہدایات بیت اللہ محسود سے ملتی ہیں لیکن اس بات پر شک کا اظہار کیا گیا کیونکہ یوں لگتا ہے کہ دونوں تحریکوں کے راستے علیحدہ ہو چکے ہیں یہ خلیج اس وقت گہری ہوئی جب جنوری میں مسلم خان نے سوات میں خواتین کے تعلیم حاصل کرنے کی سخت مخالفت کی۔ جبکہ بیت اللہ محسود کے مضبوط نمائندے مولوی عمر نے میڈیا کے سامنے اعتراف کیا کہ TTPکو لڑکیوں کے اسکول بند کرنے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اور یہ اختلاف ابھی تک حل طلب چلے آتے ہیں۔

مسلم خان کی کئی زبانوں پر سترس اور مغربی ممالک میں کام کرنے کے تجربات کی بنیاد پر اسے طالبان تحریک میں ممتاز مقام حاصل ہو چکا ہے خصوصاً وہ طالبان جو مدرسوں سے تعلیم یافتہ ہیں یا جو بالکل ان پڑھ ہیں اسے نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس کی ذمہ داریاں شریعت کے نفاذ افغانستان میں امریکی مفادات کو نشانہ بنانے، پاکستان حکومت کے رویے میں تبدیلی اور لڑکیوں کے اسکولوں میں توڑ پھوڑ میں بھی اس کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے وہ اب طالبان کی تحریک کے حوالے سے ایک کلیدی ممبر تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہ تحریک جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے مسلم خان کا کردار بھی روز بروز نکھر کر سامنے آرہا ہے۔