working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

حکایتوں کا جال
ڈاکٹر طارق رحمان

ڈاکٹر طارق رحمن۔ کا شمار نہایت چوٹی کے دانشوروں میں ہوتا ہے وہ قائد اعظم یونیورسٹی کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاکستان سٹڈیز کے ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا زیر نظر مضمون ''A cobweb of Myths'' کے عنوان سے ڈان میں چھپا۔ پاکستان میں خبط العام نظریات کے پھیلائو نے جس طرح موجودہ صورت حال کو انتہائی بے یقینی میں بدلا ہے۔ اس تناظر میں زیر نظر مضمون کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ کس طرح ہم اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیے بغیر ہر چیز کا الزام مغرب کے سر تھوپے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے مضمون کا اردو ترجمہ، ڈان کے شکریے کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے۔(مدیر)
اب جبکہ مالا کنڈ میں فوجی آپریشن جاری ہے اس لیے ضروری ہو گیا کہ لوگوں کو اس کی حمایت کرنی چاہئے اور متاثرین کی تمام موجودہ وسائل کے ساتھ دیکھ بھال اور نرمی و احترام کا برتائو ہونا چاہیے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں بہت سی حکایتیں اور خبط العام نظریے پائے جاتے ہیں جو کہ صحیح سوچ کو پروان چڑھنے نہیں دیتے اور یہ ضروری ہو گیاہے کہ ان کو صحیح طریقے سے بیان کیا جائے۔

١۔ امریکہ ہمارے جوہری ہتھیار چاہتا ہے اور طالبان کے ذریعے پاکستان میں انتشار پھیلارہا ہے۔

یہ افسانہ بہت خطرناک ہے کیونکہ جو اس کو مانتے ہیں وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ امریکہ طالبان کو پیسے دیتا ہے تا کہ پاکستان میں انتشار پھیلایا جائے جس سے ان کو یہ موقع مل جائے گا کہ وہ ہمارے جوہری ہتھیار ہم سے چھین لے۔ یہ بات حکومت کو طالبان کے ساتھ لڑائی میں دشواری پیدا کرتی ہے ۔ حالانکہ ایک طرف حکومت امریکہ سے امداد قبول کر رہی ہے اور یہ سب عام پاکستانیوں کو ایک فریب سا لگ رہا ہے۔

امریکہ کے پاس پانچ ہزار چار سو سے زائد کیمیائی وار ہیڈ موجود ہیں۔ اور یہ بھی کہ اس ملک سے ہزاروں کلومیٹر دور ہے۔ مزید یہ کہ امریکہ نے پاکستان کو ان ہتھیاروں کو بنانے کی اجازت دی تھی۔ امریکہ کو پاکستان میں انتشار پھیلنے سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو گا کیونکہ ایسا ہونے سے القاعدہ مضبوط ہوجائے گا اور یہ امریکہ کے لیے خطرے کا باعث ہو گا۔

1971 کی جنگ کے دوران امریکہ نے انڈیا کو خبردار کیا کہ وہ (مغربی) پاکستان پر غلبہ حاصل نہ کرے کیونکہ یہ امریکہ کے مفاد میں نہیں تھا کہ جنوبی ایشیا میں انتشار پھیلے 1999 میں کارگل کی جنگ کے دوران امریکہ نے مزید خون خرابے کو روکنے اور پاکستان کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے مدد کی تھی۔

افغان جنگ کے دوران امریکہ سویت یونین کو شکست دینا چاہتا تھا اور ایسا کرنے کے لیے اس نے پاکستان کو پیسہ دیا۔ پاکستان نے اس کی مدد کی کیونکہ اس کو فوجی امداد اور پیسوں کی ضرورت تھی (اور ضیاء الحق بھی اپنے لئے امریکی حمایت حاصل کرنا چاہتے تھے)اور اب دوبارہ امریکہ اسلامی عسکریت پسندوں کو شکست دینا چاہتا ہے کیونکہ یہ لوگ امریکہ کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں اور پاکستان کو بھی پیسوں کی ضرورت ہے اور اسی کی خاطر کیری یوگر مل ، آئی ایم ایف اور فرینڈز آف پاکستان ان کو اربوں ڈالر دے رہے ہیں۔ یہ امریکہ کے مفاد میں نہیں کہ پاکستان میں بدامنی ہو کیونکہ اگر پاکستان ٹوٹتا ہے تو یہ امریکہ کے لیے خطرے کا باعث بن جائے گا یا جبکہ امریکی پالیسیاں زیادہ مفید نہیں ہوں گی لیکن یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ طالبان امریکہ کے ایجنٹ ہیں اور ہمارے جوہری ہتھیاروں کے خلاف سازش میں شریک ہیں۔

٢۔ پاکستان میںوہی ہوتا ہے جو امریکہ چاہتا ہے۔

یہ اس سے قبل کی حکایت کا ایک مختلف رخ ہے اور غلط ہے۔ کوئی بھی ملک اتنا طاقتور نہیں ہے کہ وہ جو چاہے وہ ہوجائے۔ پاکستان نے امریکی خواہشات کے برخلاف کیمونسٹ چین کے ساتھ دوستی نبھائی۔ بعد میں امریکہ نے چین سے تعلقات استوار کرنے کے لیے پاکستان کی مدد مانگی اور پاکستان نے امریکی خواہشات کے خلاف جوہری ہتھیار بنائے۔ وکلاء تحریک کے دوران امریکہ مشرف کا حامی تھا لیکن جب وہ کمزور پڑ گئے تو یہ امریکہ کے مفاد میں نہیں تھا کہ وہ اس کی حمایت جاری رکھے۔٣۔ طالبان ملک میں اسلام چاہتے ہیں لیکن ان کا طریقہ کا رغلط ہے۔

اس کا انحصار شریعت کی انفرادی تشریح پر ہے۔ طالبان اپنی طرز کی شریعت لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم یہ صرف شریعت کے طریقہ کار کا معاملہ نہیں بلکہ شریعت کی تشریح بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ یقینا طالبان والی شریعت سے تمام لوگوں کی زندگیاں اجیرن اور عورت کے لیے اذیت کا سبب بن جائے گی۔ دوسرا یہ کہ یہ ملک اپنے ذہین لوگوں کو دوسرے ممالک کے ہاں گنوا دیں گے۔ تیسرا یہ کہ پیداوار ی قوت کم ہو جائے گی اور پاکستان کو تنہا کر دیا جائے گا۔چوتھا یہ کہ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور تمام علوم کو نقصان پہنچے گا جب تخلیقی اذہان کو خوف کی فضاء میں دبا دیا جائے گا۔ پانچواں یہ کہ امریکہ یا انڈیایا ایران اس قدر خطرے میں ہوں گے کہ ہم پر حملہ کر دیں اور ہماری ساری بیرونی امداد بند کردے کیونکہ اس طرح کی حکومت ان کے زندگی کے طریقہ کار اور مذہبی رسومات کے لیے خطرہ بن جائے گی۔ آخری یہ کہ طالبان مختلف گروپوں اور لٹیروں کا ایک نام ہے۔ یہ طاقت حاصل کرنے کے لیے لڑیں گے اور ہم کو دوسرا افغانستان بنا دیں گے۔٤۔ اگر نیٹو افواج افغانستان سے چلی جائیں تو امن قائم ہو جائے گا۔

نیٹو افواج کو اصولاً افغانستان سے چلے جانا چاہیے لیکن یہ عمل طالبانائزیشن کو ختم نہیں کرنے پائے گا۔ یقینااگر نیٹو افواج پیچھے ہٹتی ہیں تو طالبان دوبارہ افغانستان کے کچھ حصوں پر قابض ہو سکتے ہیں۔ اگر پاکستان ان کا ساتھ دیتا ہے تو باقی دنیا اس کو علیحدہ کر دے گی۔ اگر یہ ساتھ نہیں دیتا تو اِس کا سامنا ایک مخالف ہمسایہ کے ساتھ ہو گا۔ دونوں صورتوں میں طالبان کے نظریات پاکستان میں زور پکڑیں گے۔

وہ گروپ جو طاقت حاصل کرنے کے درپے ہیں تاکہ پاکستان میں طالبان طرز کی حکومت قائم کی جائے یہ لوگ اپنی کامیابی حاصل کرنے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکیوں کے سکولوں، خواتین کا آزادی سے گھومنا پھرنا، لباس کا چنائو، ادب اور موسیقی کے لیے خطرہ ہمیشہ برقرار رہے گا۔

تاہم یہ اِ س اصول کے باوجود کہ کوئی یہ نہیں چاہتا کہ ایک ملک دوسرے ملک پر قبضہ کرے یہ ایک امید ہو گی کہ امریکہ افغانستان سے پیچھے ہٹے کیوں کہ قبضہ بذات خود مخالفت کو جنم دیتا ہے۔ چنانچہ ہم اگر یہ خطرہ مول بھی لے لیں کہ طالبانائزیشن پشتو زبان بولے جانے والے علاقوں میں مضبوط ہو جائے پھر بھی ہماری حکومت اور مفکرین کو نیٹو افواج کے واپس جانے کے لیے آواز بلند کرنی چاہیے۔ جب ایسا ہو گاتو پاکستان کو طالبان کے ساتھ لڑنا آسان ہو جائے گا کیوں کہ پاکستان کے لوگ اس کو نو آبادیاتی مخالف جنگ نہیں کہلائیں گے۔٥۔ غربت اور جہالت کی وجہ سے اسلامی عسکریت پسندی پیدا ہوئی ہے۔

یہ صرف آدھی حقیقت ہے ۔ اُسامہ بن لادن، ایمن الضواہری اور ابو مصعب الزرقاوی جو کہ اسلامی عسکریت پسندی کے رہنما ہیں اُن کاخاندانی پس منظر غربت والا نہیں ہے۔ ضواہری کا تعلق مصر کے ممتاز خاندان سے ہے۔ زرقاوی کے والد فوجی افسر تھے اور اُردن میں زرقا شہر کے میئر تھے۔اور نہ ہی یہ رہنما ء ان پڑھ ہیں۔ تمام تعلیم یافتہ ہیں لیکن لبرل آرٹ اور سماجی علوم میں نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کا یہ نظریہ کہ عسکریت پسندی کے ذریعے مغرب کے غلبے کو اور مسلمان دنیا کے کرپٹ مُقتدر قوتوں کو شکست سے دوچار کیا جائے یہ اخوان المسلمین کے سید قطب اور مصر کے عبدالسلام فراج سے منسلک ہے۔ یقینا وہ تقی الدین ابو تمید (1263-1328) کے دور کا رُخ کرتے ہیں جس نے منگولوں کے حملوں کے ایک ہنگامہ خیز دور میں زندگی بسرکی۔

یہ عسکریت پسند قائدین مسلمان نوجوانوںکو اسرائیل کے فلسطینی علاقے پر قبضے کو نوجوان لوگوں کو جو غصے کی آگ میں جلتے ہیں تک پھیلاتے ہیں۔ یہاں پر غربت کار شتہ واضح ہے کیوں کہ اس عسکری تحریک کے عام آدمی کا تعلق غریب اور ناخوش گھرانے سے ہے۔ یہ لوگ پیسہ، غربت کا خاتمہ اور انصاف چاہتے ہیں اور اِن محروم نوجوان کو اس کا وعدہ دلایاجاتا ہے۔ یہ لوگ پھر عسکریت پسندوں کے لیے ہتھیار بن جاتے ہیں۔

اگر ہم اِن اور اِس جیسے اور افسانوں کو سمجھیں اور یہ مانیں کہ ہم نے خود ہی ان کو پیدا کیا ہے نہ کہ بیرونی ممالک نے کہ زیادہ تر عسکریت پسند ہمارے اپنے لوگ ہیں نہ کہ غیر ملکی(البتہ کچھ غیر ملکی ہیں) کہ بیرونی ممالک عسکریت پسندوں کی کچھ مدد کرے گی لیکن وہ اتنے طاقت ور نہیں کہ وہ ہمیشہ کے لیے اُن کو موجود رکھیں، کہ ہم نے ماضی میں غلطیاں کی ہے جس کی ہم سزا بھگت رہے ہیں تو تب ہم پاکستان کو اپنے بچوں کے لیے محفوظ جگہ بنا سکتے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ''ڈان''
انگریزی سے ترجمہ: مسعود احمدخان