working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

پاکستانی پولیس میں اصلاحات کی ضرورت
حسن عباس

حسن عباس، ہارورڈ یونیورسٹی میں فیلو ہیں پاکستان کا ایٹمی پروگرام، ڈاکٹر عبد القدیر خان کا معاملہ،جنوبی ایشیا کی صورت حال، انتہا پسندی ، اسلام اور مغرب کے تعلقات ان کے خاص موضوعات ہیں۔ حسن عباس کو بے نظیر بھٹو اور صدر مشرف کے ساتھ کام کا موقع بھی ملا، ان کی ایک حالیہ کتاب Pakistan Drift into Extremism: Allah , the Army and America's war on Terror کو کافی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ حسن عباس نیویارک ٹائمز، بوسٹن گلوب، فارایسٹرن اکنامک ریویو، دی ہندی اور ڈان جیسے ممتاز اخبارات میں لکھتے ہیں۔ وطن دوست کے نام سے انہوں نے بلاگ بھی شروع کر رکھا ہے۔ ان کا حالیہ مضمون ''پاکستانی پولیس میں اصلاحات کی ضرورت'' انسٹی ٹیوٹ فار سوشل پالیسی اینڈ انڈر سٹینڈنگ امریکہ کے زیر اہتمام شائع ہوا ہے جس کو باقاعدہ اجازت کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے۔ (مدیر)


یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ریاست کی پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردی اور باغیانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے صف اول کا کام انجام دیتے ہیں اور حالیہ دنوں میں یہ تحقیق بھی سامنے آئی ہے کہ پولیس اور سراغ رسانی کے دیگر محکمے فوج کی نسبت زیادہ فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے امریکہ کے پالیسی ساز ادارے اب ''دہشت گردوں سے جنگ'' جیسے الفاظ استعمال کرنے سے احتراز برتتے ہیں کیونکہ وہ یہ جان چکے ہیں کہ دہشت گردوں کو میدان جنگ میں شکست دینا اس مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ایک اور سروے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ملایا اور قبرص میں باغیوں سے نمٹنے کے لیے مقامی پولیس اور فوج کی مدد سے ہی مثبت منصوبہ بندی کی گئی تھی۔

یہ دونوں مثالیں پاکستان کی صورت حال پر بھی منطبق ہوتی ہیں۔ کیونکہ یہ ملک آج کل کچھ ایسے ہی مشکل مسائل سے دو چار ہے۔ کئی سیکورٹی ماہرین کی رائے میں افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں طالبان کا عمل دخل بڑھتا جارہا ہے اور بعض لوگ اسے ''پشتون کی باغیانہ سرگرمیوں'' سے بھی تعبیر کرتے ہیں۔

''کیلیو سپ'' کو ان واقعات کو قریب سے جانچنے کا موقع ملا ہے ۔ اس کی رائے میں دہشت گرد وں کے خلاف کی جانے والی کامیاب کارروائیوں میں پولیس کا رول کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اس نے 'Police in the Lead' میں پولیس کی تربیت کی اہمیت اور اس کے لیے فوج کی جانب سے عقبی مدد کے زمرے میں مناسب تجاویز کا اظہار کیا ہے۔ تاکہ عوام کے تحفظ کوہر طریق سے ممکن بنایا جاسکے۔

جب سے 9/11 کے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں اور رد عمل کے طور پر امریکہ اور Nato کی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئی ہیں تب سے مسلسل پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں کے ساتھ ساتھ عسکریت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان کی دگر گوں مالی حالت اور قانون نافذ کرنے والے اداروںکی قانونی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر فاٹا اور ملحقہ صوبہ سرحد میں پاکستانی طالبان اور دوسرے دہشت گرد عناصر نے اپنے آپ کو مضبوط کر لیا ہے جس سے ان علاقوں میں حکومت کا کنٹرول کمزور پڑگیا ہے اور اس کی قانونی عملداری کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ 2005 سے لے کر آج تک اوسطاً 400 پولیس کے جوان ہر سال دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے ہیں۔ پاکستان کی فوج کے متنازعہ اور مبہم آپریشن کی وجہ سے بھی ان علاقوں میں عدم استحکام بڑھا ہے۔ جبکہ فاٹا میں بھی محدود کارروائیوں کی وجہ سے مذہبی منافرت میں اضافہ ہوا ہے۔ جیسا کہ صوبہ سرحد میں ضلع سوات کے مخدوش حالات سے ظاہر ہے کہ ہر فوجی کارروائی محض حکومت کے لیے ایک سکھ کے سانس کے علاوہ کچھ نہیں کرتی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف پولیس یا دوسرے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی حکومتی رٹ برقرار رکھ سکتے ہیں اور علاقے میں افراتفری کو روکنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اسطرح بروقت کی گئی کارروائی ہی پولیس کے لیے کامیابی کے نوید لا سکتی ہے۔ 2007 میں ''لال مسجد اسلام آباد'' میں پیش آنے والے خونی واقعہ کے باعث سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بنے اور خود کش حملوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا اس سے دو وجوہات واضح ہوتی ہیں :
ا۔ اگر (2004 -05) میں بروقت پولیس کارروائی عمل میں لائی جاتی تو اتنے بڑے پیمانے پر کیے جانے والے فوجی آپریشن سے بچا جاسکتا تھا۔
ب۔ پولیس کے محکمے میں استطاعت کار اور حکومتی سرپرستی کا فقدان رہا ہے ورنہ وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے مسجد کی انتظامیہ پر ہاتھ ڈال سکتی تھی۔

پاکستان کے تنظیمی ڈھانچوں میں پولیس ہی ایک ایسا ادارہ ہے جس پر بھرپور توجہ نہیں دی گئی، اسے پوری طرح مسلح نہیں کیا گیا، سیاسی عمل دخل میں الجھایا گیا ہے۔ چند ایک کارروائیوں میں اس نے جانبازی کا ثبوت بھی فراہم کیا مگر ایسی مثالیں نہایت قلیل ہیں اور اس کی بڑی وجہ حکومت کی نا اہلی رہی ہے کہ جس نے ابھی تک اس محکمے پر کوئی سرمایہ کاری نہیں کی اور نہ ہی قانونی عمل داری کو بہتر بنانے کے لیے کوئی جدید منصوبہ بندی کی۔ 1947 سے لے کر کئی بحرانوں کا سامنا کرنے کے باوجود نہ تو فوجی آمروں نے اور نہ ہی جمہوری حکومت نے اس شعبے کو ترقی کے قابل سمجھا۔ اس طرح پولیس کی غیر تسلی بخش کارروائیاں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ درحقیقت پولیس کا پنجاب میں مذہبی عسکریت پسندوں کو آہنی ہاتھ ڈالنا اور 1990 کی دہائی میں کراچی میں سماج دشمن عناصر کے خلاف کارروائیوں سے پتہ چلتا ہے کہ اگر سیاسی حمایت اور مطلوبہ ذرائع میسر ہوں تو ان میں اتنی اہلیت ہے کہ وہ مطلوبہ نتائج مہیاکرسکتے ہیں۔ اس طرح اگر حکومت بہتر پالیسیاں ترتیب دے اور پولیس بھی اپنی کارکردگی کو ٹھیک کرے تو حکومتی عملداری مضبوط ہوسکتی ہے۔

صوبہ سرحد کے حالات کو مدنظر رکھ کر اور جنوبی پنجاب میں بدلتے ہوئے پس منظر میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ گروپ جن پر پابندیاں عائد ہو چکی ہیں دوبارہ منظم ہونا نہ شروع ہو جائیں اور یہی وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔

تاریخی طور پر دیکھا جائے تو امریکی امداد صرف ملک کے دفاع پر ہی خرچ کی گئی ہے ۔ بڑے ہتھیار، ٹینک ، جنگی ہوائی جہاز اور افسران کی تربیت کو ہی اہمیت دی گئی۔ اور یہ سویت یونین کے پھیلتے ہوئے چیلنج اور ہندوستان سے دشمنی کی بدولت تھا لیکن حالات قطعی طور پر تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب اندرونی حالات انتہا پسندوں کی وجہ سے نہایت مخدوش ہیں اور ایسی دہشت گردی کا سامنا تو پاکستان کو ماضی میں کبھی بھی نہیں کرنا پڑا تھا۔ لیکن بد قسمتی سے بش انتظامیہ اور مشرف کی حکومت بھی یہ سمجھنے سے قاصر رہی اور 2002 سے 2008 تک محض معمولی رقوم پولیس کے لیے مختص کی گئیں مثلاً 2007 میں امریکن امداد کا 731 ملین ڈالر فوج کے کام آیا جبکہ صرف 4.9 ڈالر کا سرمایہ پولیس کے لیے رکھا گیا۔

موثر پالیسی کی ناکامی کی وجہ
تاریخی وجوہات:
1857 کی جنگ آزادی کے بعد برطانوی حکمرانوں نے شہریوں کے تحفظ کی بجائے انہیں محکوم رکھنے کے لیے 1861 کا پولیس ایکٹ نافذ کیا جو کہ پاکستان میں نافذالعمل رہا۔ اس قانون نے امراء کو جواب دہی سے مبرّا کر دیا اور پولیس کو ظالم بنا دیاایک نظر ڈالنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ قانون جدید اور جمہوری تقاضوں کو پورا نہیں کرتا تھا۔ پاکستان میں 2002 تک یہ قانون نافذ رہا اور بالآخر پولیس میں اصلاحات کا نیا قانون متعارف ہوا۔ مذید برآں قانون میں بار بار تبدیلیوں سے اس کی اصل روح کو بھی مجروح کیا گیا۔ 60 سال سے زائد کے عرصے میں تقریباً دو درجن کمیشن رپورٹس سامنے آئیں لیکن پولیس اصلاحات کے حوالے سے شاید ہی کوئی رپورٹ قابل عمل سمجھی گئی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستان میں آج بھی 1861 کا قانون ہی کئی علاقوں میں نافذ ہے جس میں ضرورت کے مطابق تبدیلی اور اصلاحات کر دی گئی ہیں۔

پولیس ایکٹ 2002
جنرل مشرف کے نیشنل ریکنسٹرکشن بیورو (NRB) کے تحت قانونی ماہرین اور سرکردہ پولیس افسران نے جاپانی نیشنل سیفٹی کمیشن سسٹم کی تقلید کرتے ہوئے 2002 کا پولیس ایکٹ تیار کیا جس میں پولیس کی کارکردگی کو لوکل، صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران کے اثر و رسوخ سے مبرا رکھنے کی کوشش کی گئی۔ دوسرے نمبر پر پولیس پر مزید نظر رکھنے کے لیے ایک آزاد اور قانونی سروس بھی مسلط کی گئی۔

مزید برآں صوبائی اور وفاقی سطح پر پولیس کے شکایت سیل قائم کرنے کی تجاویز بھی تھیں ۔ تاہم پولیس کو مناسب اپریشنل خود مختاری دی گئی جو کہ کافی عرصے سے حل طلب مسئلہ بن چکی تھی۔ اس کے علاوہ مختلف اقسام کی ذمہ داریاں مثلاً تحقیقات ، سراغ رسانی، دیکھ بھال اور گارڈ ڈیوٹی کو پولیس کے مختلف محکموں میںتقسیم کر دیا گیا تاکہ ان کی کارکردگی میں اضافہ ہو۔ رفتہ رفتہ ان معاملات میں بیورو کریسی اور سیاسی عمل دخل سامنے آیا جس کے تحت صدر مشرف نے 2004 میں پولیس ایکٹ میں خود ساختہ تبدیلیاں کیں اور آزاد سیفٹی کمیشن سے ترقی اور تبدیلیوں کی سفارشات جیسے معاملات واپس لے کر دوبارہ سیاسی اشخاص کو منتقل کر دیئے جس سے پولیس کے لیے اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کی خاطر دوبارہ سیاسی عمائدین کو خوش کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا۔

سیاسی جوڑ توڑ
پاکستان کے وجود میں آنے سے لے کر آج تک سیاسی اور فوجی حکمرانوں نے پولیس کو اپنے مخالفین اور حزب اختلاف کوسیاستدانوں کے خلاف ہی استعمال کیا ہے۔ پولیس کا تشخص 90 کی دہائی میں اس وقت بھی خراب ہوا جب کئی پولیس افسران کا جھکائو دوبڑی سیاسی پارٹیوں PPP اور PMLN کی جانب واضح دکھائی دینے لگا اور ان کی ترقی اور تبادلے اقتدار میں آنے والی جماعتوں سے وابستہ ہوگئے۔ ابھی حالیہ دنوں میں عدالت کے متنازعہ فیصلے سے جب وزیر اعلی شہباز شریف سبکدوش ہوئے تو پنجاب کے گورنر نے اپنی من مرضی کے افسران کی کھیپ مسلط کر دی اس بڑی تبدیلی کے دوران لاہور میں سری لنکا کی ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ تاہم کچھ جونئیر افسران کھلاڑیوں کو بچاتے ہوئے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹے مگر درجن بھر دہشت گرد بحفاظت بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ جس سے پولیس کی نا اہلی اور ان میں نظم و ضبط کا فقدان سامنے آیا۔ پھر جب شہباز شریف دوبارہ وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو انہوں نے آتے ہی گورنر سلمان تاثیر کے حکم سے تعینات پولیس کے تمام افسران کو تبدیل کر دیا۔

پولیس کا کمزور ساختی ڈھانچہ
قانون کی عملداری کی ذمہ داری بنیادی طور پر چاروں صوبوں کی صوبائی حکومتوں کو ودیعت ہے تاہم فوجداری مقدمات میں صوبائی اور وفاقی حکومتیں برابر کی قانون سازی کرتی ہیں جس میں وفاقی قانون کو سبقت حاصل ہوتی ہے۔ صوبائی اور دارالحکومت کی پولیس ایک دوسرے کے اثرات سے عموماً آزاد رہتی ہے۔ سینئر افسران کی تعیناتی پولیس سروس آف پاکستان (PSP) سے افراد لے کر کی جاتی ہے جنہیں ملک کے کسی بھی حصے میں لگایا جاسکتا ہے اس طرح جونئیر افسران جو کہ صوبوں سے آتے ہیں اور مذکورہ سینئر افسران میں خلیج حائل ہو جاتی ہے بعض نقاد کہتے ہیں کہ PSP کے افسران اوپر سے مسلط ہونے کی وجہ سے معیاری تبدیلیوں کے مخالف ہوتے ہیں مزید برآں خرید و فروخت ، ترقی و تبدیلی کا چاروں صوبوں میں مرکزی کمان کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ جو کہ کئی مشکلات کا باعث ہے۔

تھانوں میں غیر انسانی رویے
''تھانہ'، ایک بدنام زمانہ لفظ بن چکا ہے جہاں پولیس کی کال کوٹھڑیاں ہیں جن میں اعتراف جرم کرانے کے لیے انسانیت سوز سزائیں دی جاتی ہیں۔ بد عنوانیاں عام ہیں اور معاشرے کا طاقت ور اور اثر ورسوخ یافتہ طبقہ قانون سے بالا تر خیال کیا جاتا ہے۔ روزانہ کے اخبارات پولیس کی کہانیوں اور جعلی مقابلوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ معصوم لوگوں کی گرفتاریاں، تلاشی ایک عام سی بات بن چکی ہے۔ اس قسم کے رویوں نے پولیس کے تشخص کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ روایتی اور سادے ہتھیاروں سے مسلح پولیس کی یہ کوشش رہی ہے کہ سماج دشمن عناصر سے چھٹکارہ پانے کے لیے انہیں ماورائے عدالت قتل کرا دیتے ہیں اس طرح گرفتاریوں اور عدالتوں کے فرسودہ طریقہ کار سے بھی نجات مل جاتی ہے۔

تربیت اور تحقیقات کی سہولتوں کا فقدان
اعتراف جرم کرانے کے لیے پولیس عموماً جسمانی اذیت کے غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کرتی ہے کیونکہ ان کے پاس تحقیقات کے لیے کوئی ترقی یافتہ ذرائع نہیں ہوتے۔ مثلاً پاکستان میں ابھی تک عدالتی استطاعت کار ابتدائی شکل میں ہے۔ یہ تو محض 90 کی دہائی میں جاکرکہیں ممکن ہوا کہ راولپنڈی میں ماہرین کی ایک لیبارٹری قائم ہوئی اور اب اس کے ساتھ کی مزید لیبارٹریاں ہر ایک صوبائی دارالحکومت میں بھی وجود میں آچکی ہیں۔ حالانکہ یہ ایک اچھی تبدیلی ہے مگر پھر بھی ضرروریات کو پورا کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ حیرت انگیز طور پر نئی منتخب شدہ حکومت نے معاشی بحران اور محدود بجٹ کی وجہ سے National Forensic Science Agency (NFSA) کے اسلام آباد میں واقع ہیڈ کوارٹر اور لیبارٹری کی ضروریات کے لئے رقم کی ترسیل روک دی ہے۔ PSP افسران کے لئے اسلام آباد میں ایک پولیس اکیڈمی قائم کی گئی جس نے 2005-06 میں اپنا کام شروع کیا جب کہ تمام صوبے اپنے اپنے علیحدہ تربیتی مراکز چلا رہے ہیں اس میں سے پنجاب کے تربیتی اسکول کی حالت زار دیدنی ہے۔ مناواں ٹریننگ سکول میں 800 ریکروٹس چار ماہ کے ایک کورس کی تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ وہاں کوئی بیڈ نہیں اور سردیوں میں کمروں کو گرم رکھنے کا کوئی بندوبست نہیں صرف بارہ عدد ٹائیلٹ ہیں جن میں نہانے کے لئے کوئی شاور موجود نہیں اس پر طرہ یہ کہ یہاں میڈیکل کی سہولت بھی میسر نہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق 30% ریکروٹس بیماریوں کیوجہ سے تربیتی پروگراموں سے غیر حاضر رہتے ہیں۔ یہ وہی تربیتی مرکز ہے جہاں 29 مارچ 2009 کو دہشت گردوں نے حملہ کر کے درجنوں پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا تھا۔

''فنڈ کی کمی اور رشوت ستانی''
"Transparency International" کی 2007 کی اشاعت میںپاکستان کی پولیس کو کرپٹ ترین ادارہ ظاہر کیا گیا ہے 172 ملین کی آبادی والے ملک کے لئے صرف 350,000 پولیس کے افراد ہیں اور یہ نسبت 1:477 کی ہے اور موجودہ صورتحال میںپولیس کو اہم شخصیات کی حفاظت کے لئے اور بیرونی ممالک سے آنے والے VIP اشخاص ، سیاستدانوں اور اعلی افسران کی گارڈ ڈیوٹی کی وجہ سے اپنی استطاعت کارمیں نفری کی کمی سے مسائل کا شکار ہیں جبکہ ایک عام سپاہی کی تنخواہ محض 100 ڈالر ماہانہ ہے جس سے وہ بمشکل اپنی گذر اوقات کر پاتا ہے۔ پنجاب پولیس کے اعلی افسر سے حالیہ ملاقات میں یہ بات سامنے آئی کہ ایک چوتھائی فورس خود بھی جرائم میں ملوث ہے جس کا ثبوت اس کی کمان میں کی گئی کئی پولیس افسران کی گرفتاری کی شکل میں سامنے آیا۔ پنجاب کے وزیر قانون نے اپنے حالیہ بیان میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ جوانوں کی تنخواہیں بڑھادی جائیں تاکہ کرپشن کا خاتمہ ہو سکے اور وزیر اعلی پنجاب نے اس پر عمل کرتے ہوئے پولیس کی تنخواہیں دگنی کرنے کا اعلان کر دیاہے۔دہشت گردوں اور عسکری تنظیموں سے نمٹنے میں پولیس کی ناکامی کی وجوہات

1۔ اس کی بنیادی وجہ پولیس، انٹیلی جنس کے سول اور فوجی اداروں میں باہم معلومات کا فقدان ہے اور ان اداروں کا ایک دوسرے پر بھروسہ نہ کرنا اور بد اعتمادی بھی ایک اہم عنصر ہے آج بھی اگر ٹیلی فون کمپنیوں سے سماج دشمن عناصر یا دہشت گردوں کی ٹیلی فون کال کا پتہ لگا نا ہو تو پولیس اور فیڈرل انوسٹی گیشن اتھارٹی (FIA) کوانٹیلی جنس سے درخواست کرنا پڑتی ہے اور ایسی صورت حال میں وقت کا ضیاع نقصان کا موجب بنتاہے۔
2۔ جرم اور مجرموں کے حوالے سے مکمل کوائف کی عدم دستیابی بھی پولیس کے لیے ہزیمت کا باعث بنتی ہے کئی مجرم ایسے بھی ہیں جو عسکریت پسند مذہبی گروپوں میں شمولیت اختیار کر چکے ہیں ، وہ بڑی زہانت سے جل دے گئے ہیں۔ عسکریت پسند تنظیمیں جن پر پابندی عائد کی جا چکی ہے ابھی تک ان کا مکمل خاکہ تیار نہیں کیا جاسکا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ عسکریت پسند بڑی آسانی سے اپنے گروپ تبدیل کرتے رہتے ہیں تاکہ حکومت کو دھوکہ دے سکیں۔ اس طرح پولیس ان کا سراغ لگانے میں ناکام رہتی ہے۔ حتیٰ کہ 90 کی دہائی میں کشمیر اور افغانستان کے لیے لڑنے والے جہادیوں کو تیار کرنے والی تنظیموں سے بھی پولیس نابلد رہی۔ ان لوگوں کا انٹیلی جنس کے اہلکاروں سے بھی تعلق تھا۔ جن سے پولیں دانستہ طور پر نظریں بچاتی رہی۔
3۔ جولائی 2003 میں سپیشل انوسٹی گیشن گروپ (SIG) جو کہ FIA کے ماتحت تھا ، کا وجود عمل میں لایا گیا تاکہ وہ دہشت گردوں کی تلاش ممکن بنائے اور انہیں مالی امداد دینے والوں کی نشاندہی کرے،تحقیقاتی کام انجام دے اور صوبائی حکومتوں کے ساتھ ان مسائل پر تعاون و گفت و شنید کرے ان افسران کی تعداد نہایت کم افراد پر مشتمل تھی یعنی 37 تحقیقات کرنے والے ہیں اور مزید 13 ماہرین ان کے معاون ہیں جو کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل کے ماتحت ہیں ۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق امریکہ کی FBI نے SIG کی تربیت کرنی تھی تاکہ وہ تباہ کن ہتھیاروں کو تلاش کر ے اور بموں کو پھٹنے سے پہلے ناکارہ بنائے، دہشت گردوں کی مالی امداد کرنے والوں کی نشاندہی کرے، پیسے کی آمدو رفت پر نظر رکھے، رشوت ستانی کے واقعات کا نوٹس لے، فنگر پرنٹنگ اور دیگر ٹیکنالوجی تک رسائی کو ممکن بنائے لیکن نہایت افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ 2003 سے لے کر اب تک ہر سال محض 4 یا 5 افراد ہی امریکہ جا سکے ہیں جنہوں نے FBI سے جدید تربیت حاصل کی۔
4۔ دہشت گردی کا بہادرانہ مقابلہ کرنے والے پولیس افسران، تحقیقات کرنے والے افسر اور چھوٹی عدالتوں کے جج صاحبان جو کہ متاثرین میں شامل تھے کو کوئی سر ٹیفیکیٹ ، انعام وغیرہ نہیں دیا گیا۔ نتیجتاً ان میں سے بعض کو ٹارگٹ کلنگ میں قتل کر دیا گیا۔ مزیر برآں پولیس ہی سب سے زیادہ دہشت گردوں کے غیض و غضب کا نشانہ بنی ہے۔ خصوصاً صوبہ سرحد، اسلام آباد، لاہور اور کوئٹہ میں ان کے خلاف سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حملے کیے گئے جس کی بنا پر انہیں خاصا جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔
5۔ 2006-07 میں سرحد حکومت کی بار بار درخواست کے باوجود کہ اسے طالبان کے پھیلتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے مناسب سہولتیں فراہم کی جائیں تاکہ وہ ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو، کوہاٹ، سوات وغیرہ میں موزوں اقدامات کر سکے، اس کی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ جہاں تک سوات کا تعلق ہے صرف وہاں سے مولانا فضل اللہ کی اس دھمکی پر کہ اپنی ملازمتیں ترک کردو ورنہ طالبان کے غیض و غضب کا نشانہ بننے کے لیے تیار رہو۔ 1737 کی نفری سے 700 پولیس والے بھگوڑے ہوگئے اور جواب میں نہ تو صوبائی حکومت نے اور نہ ہی وفاق نے ان کے لیے کوئی موافق قدم اٹھایا۔ جہاں تک صوبہ سرحد کا تعلق ہے۔ وہاں 55000 پولیس کے افراد ہیں اور ان کے لیے 217 پولیس اسٹیشن ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کے سب سے خطرناک خطے میں 364 میل کے فاصلے پر صرف ایک پولیس کا جوان تعینات ہے۔ جنوری 2009 ، اسلام آباد میں واقع امریکن سفارت خانے نے اعلان کیا کہ وہ صوبہ سرحد کی پولیس کے لیے 401 ملین ڈالر کی خطیر رقم فراہم کرے گا تاکہ گاڑیاں، موٹر سائیکلیں، ہیلمٹ اور بلٹ پروف جیکٹوں کا بندوبست کیا جاسکے۔''دیر آید درست آید'' کے مصداق یہ ایک اچھا قدم ہے۔ اس سے پہلے بھی جون 2008 میں امریکن قونصلیٹ نے پشاور میں دفاتر کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ضروری سامان مہیاکیا تھا۔
6 ۔ عسکریت پسند گروہ اپنے ریکروٹس کو بھاری معاوضے ادا کرتے ہیں جبکہ دہشت گردی سے نمٹنے والے پولیس افسران سے حکومتی برتائو اس کے برعکس ہے۔ مثلا عسکری گروہ اپنے خود کش بمبار کے گھروالوں کو 20,000 ڈالر ادا کرتے ہیں ۔ جبکہ حکومت دہشت گردی کے شکار ہونے والے مقتول سپاہی کی فیملی کو محض 6,000 ڈالر سے نوازتی ہے۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔پولیس کی چند کامیاب کارروائیوں کے اسباب
پاکستان کی موجودہ تاریخ میں پولیس کے دو کامیاب آپریشنوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ایک ایکشن تو 90 کی دہائی میں متحدہ قومی موومنٹ (MQM) کے خلاف کیا گیا جبکہ دوسری کارروائی 1997-99 میں فرقہ واریت پھیلانے والی جماعتوں مثلا سپاہ محمد اور لشکر جھنگوی کے خلاف پنجاب میں کی گئی اور ان کامیابیوں میں مندرجہ ذیل عناصر نے بنیادی کردار ادا کیا۔

1۔ فعال لیڈر شپ
کراچی آپریشن 1994-96 موجودہ انٹیلی جنس بیورو کے انچارج شعیب سڈل جبکہ پنجاب میں کارروائیوں کے کلیدی انچارج طارق پرویز تھے جو پہلے دنوں FIA کے ڈائریکٹر جنرل تھے یہ دونوں سینئر پولیس افسران اپنی پیشہ وارانہ صلاحیتوں ذہانت اور ملکی سا لمیت کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی محنت شاقہ اور مصمم ارادوں کی بدولت مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے اور یہ ان کی مستقبل بین شخصیت اور لیڈر شپ کے بغیر نا ممکن تھے۔

2۔ سیاسی پشت پناہی
مذکورہ بالا دونوں مثالوں میں سیاسی حکمرانوں نے ان لیڈروں کی بھرپور معاونت کی۔ پہلے کیس میں بے نظر بھٹو وزیر اعظم تھیں جبکہ پنجاب کے پیچیدہ مسئلے کو دبانے کے لیے نواز شریف کی حکومت نے مکمل تعاون کیا اور پولیس ایکشن کی ہر طرح سے پشت پناہی بھی کی۔ اندرونی طور پر انسانی حقوق کی پامالی بھی دیکھنے میں آئی لیکن جو افسران ان آپریشنوں میں شامل تھے انہوں نے ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے کارروائیوں کو منطقی انجام تک پہنچایا۔

3 ۔ مالی معاونت
ان کارروائیوں میں شامل سرکاری افسران کے لیے سپیشل پیکج کی پیشکش کی گئی نئے گریجویٹس کی حوصلہ افزائی کی گئی اور انہیں ترقیاں بھی دی گئیں اور ان کو متحرک رکھنے کے لیے تیز سے ترقی کرنے والے محکموں میں تعینات کیا گیا۔

4۔ مطلوبہ ذرائع کی فراہمی
مذکورہ بالا دونوں افسران کو آڈٹ کے جھنجھٹ سے آزاد رقم فراہم کی گئی تاکہ وہ تحقیقات اور خفیہ معلومات آسانی سے حاصل کر سکیں۔
نیشنل ہائی وے اور موٹروے پولیس بھی کامیاب کہانیوں کی خوب صورت اقساط میں شامل ہے وفاقی ٹریفک پولیس جب بین الاقوامی معیار اپنا کر عوام کے سامنے آئی تو لوگوں نے بھی ان کی کارکردگی اور اخلاقی رویوں کی حوصلہ افزائی کی ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق پولیس کی کامیاب مثبت حکمت عملی کے پیچھے مندرجہ ذیل عوامل کارفرما تھے۔
l سیاسی شعور اور بالغ النظری
l مضبوط کردار کی لیڈر شپ
l بہتر تنخوائیں اور الائونس،اچھا ماحول اور کردار
l قانون کی نظر وں میں برابر ی ۔ یعنی اگر آپ تیز رفتاری کے مرتکب ہوئے ہیں تو آپ کا چالان کٹے گا چاہے آپ کا تعلق کسی بھی بڑے عہدے سے کیوں نہ ہو۔
ابھی حال ہی میں حکومتِ پاکستان ، دہشت گردی کی کارروائی سے نمٹنے کے لیے نیشنل کائونٹر ٹیرر ازم اتھارٹی(NACTA)کا وجود عمل میں لائی ہے جو کہ عسکریت پسندوں کے خلاف ایک ادارے کے طور پر کام کرے گی۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے اس کے قیام کا اعلان پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس میں بتایا گیا کہ حکومت بیرونی حکومتوں کی مدد سے 80,000افراد پر مشتمل ایک ایلیٹ فورس بنانے کا منصوبہ بنا رہی ہے جس کے لیے ہر صوبے سے 20,000افراد کا انتخاب کیا جائے گا۔ اور NACTAکی فورس کو بہترین ہتھیاروں سے مسلح کیا جائے گا اور ان کی تنخواہیں بھی قابلِ رشک ہوں گی لگتا ہے کہ ماضی سے سبق حاصل کر لیا گیا ہے لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اتنے بڑے کام کے لیے رقم کب مہیا ہو گی اور آیا اُسے ریاست کے تمام ستونوں کی حمایت اور مدد بھی حاصل ہو گی…؟اس سلسلے میں پولیس کے ریٹائرڈ انسپکٹر جنرل طارق پرویز کی خدمات حاصل کر لی گئیں ہیں تاکہ وہ اس اہم ادارے کی درست سمت کے تعین میں مدد فراہم کرے۔

ملک کی پیراملٹری فورسز میں شامل پنجاب اور سندھ صوبے کے رینجرز نے صوبہ سرحد کی فرنٹیئر کور اور بلوچستان کی فرنٹیر کور سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے انہیں اکثر اوقات اپنی سرحدی ذمہ داریوں کے علاوہ پولیس کی مدد کے لیے طلب کیا جاتا رہا ہے یہ تمام فورسسز سینئر آرمی آفیسران کی قیادت میں کام کرتی ہیں اور پولیس کی نسبت ان کی تربیت اور سہولتیں خاصی بہتر ہوتی ہیں پولیس اور نیم فوجی دستوں میں بہتر تعاون اور کام کی اہلیت دہشت گردی سے نمٹنے میں ان کی استعداد کار میں اضافہ کا موجب بن سکتی ہے۔ اور اس طرح سے سرحدی علاقوں کی حفاظت میں بھی بہتری آئے گی۔چند تجاویز
1۔ پولیس کی کارکردگی میں اضافے کے لیے 2002کے پولیس آرڈر کو اس کی اصل روح کے مطابق نافذ العمل کرنا ہوگا اور پولیس کو فعال کرنے اور سیاسی طرف داریوں سے دور رکھنے کے لیے 2004میں کی جانے والی تمام ترمیمات کو ختم کرنا پڑے گا اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ پولیس سیفٹی کمیشن کو طاقت ور بنانا ہوگا تاکہ وہ پولیس کی کارکردگی پر نظر رکھ سکے۔
2۔ بہترین معیار پانے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پولیس کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے اور ان کی خدمات میںاضافہ کیا جائے جیسا کہ نیشنل ہائی وے اورموٹر وے پولیس کے حوالے سے دیکھا گیا ہے کہ کارکردگی میں اضافے کے لیے مطلوبہ سہولتیں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔
3۔ VIPکی حفاظت کے لیے علیحدہ فورس ہونی چاہیے اور یہ امریکن سیکرٹ سروس کے سانچے کے مطابق کام کرے اس طرح باقاعدہ پولیس کے کندھوں سے اضافی بوجھ کم ہو جائے گا۔
ٍ4۔ فخر الدین جی ابراہیم کے ذہن کی پیداوار ایک غیر سیاسی ادارہ جو کہ کرچی میں سیٹیزن پولیس لٹین کمیٹی(CPLC)کے نام سے کام کر رہا ہے کی تقلید کرتے ہوئے اسے سارے پاکستان میں متعارف کرانے کی ضرورت ہے اس کی ویب سائیٹ
www.cplc.org.pkمیں تمام تفصیل درج ہیں۔ یہ مقامی آبادی پر مشتمل پولیس کے افراد کے نظریے کو مضبوط معاشرتی اکائیوں اور قدروں کی بنیاد پر استحکام بخشتی ہے کیوں کہ جب تک عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوگی جرائم میں کمی نہیں ہوگی اور کوئی تعمیری پروگرام کامیاب نہیں ہو سکتا
5۔ نیشنل پولیس بیورو اسلام آباد(
www.npb.gov.pk) میں نئے اور جدیدنظریات اور تحقیق کے حوالے سے مزید ترقی کی ضرور ت ہے تاکہ وہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پولیس کی کارکردگی میں اضافے کا موجب بنے۔
6۔ صوبہ سرحد میں عسکریت پسندوں کے خلاف مضبوط منصوبہ بندی کے لیے باخبر اور باشعور پولیس افسران درکار ہیں اور اس مقصد کی خاطر انہیں معلومات حاصل کرنے کے لیے عوام سے رابطوں کو بڑھانا ہوگا تاکہ جاسوسی کا جال بچھا کر مجرموں تک پہنچا جا سکے علاقائی پولیس کے افراد جو کہ مقامی ثقافت، زبان اور قوم کے پیداوار ہوتے ہیں اس مقصد کی تکمیل کی خاطر بہترین معاونت فراہم کر سکتے ہیں مزید برآں انٹیلیجنس بیورو(IB) اور پولیس کے درمیان بہتر تعلقات سے ان کی استعداد کار میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔
7۔ دہشت گردی روکنے کے حوالے سے ملنے والے فنڈ کی معقول رقم پولیس اور دوسرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی ملنی چاہیے اور ان کے استعمال پر گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی۔
8۔ بالغ النظری اور جواب دہی کا اعلیٰ ظرف ہونا چاہیے اور یہ فنڈ چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق تقسیم کرنا چاہیے اور اس مقصد کے لیے شفاف طریقہ کار اپنانا ہوگا۔
9۔ FBIاور فیڈرل انوسٹیگیشن ایجنسی (FIA) دونوں ایک دوسرے کے ساتھ منشیات ، دہشت گردی، عدالتی بکھیڑے ، سائبر جرائم اور مجرموں کے حوالے سے تعاون کریں اور اس مقصد کے لیے امریکن اداروں کی آزادانہ طرز پر پاکستانی اداروں میں بھی ریفارم کے لیے مدد فراہم کی جائے۔
10۔ جونیئر اور درمیانی رینک والے پولیس آفیسران اور قانون نافذ کرنے والے دیگر لازمین کی مشہور انٹرنیشنل اداروں میں تربیت کی ضرورت ہے تاکہ دہشت گردی سے نمٹنے کی جدید سہولتوں سے استفادہ ممکن ہو۔
11۔ پاکستان کی فورسز کی استعداد کار میں اضافے کے لیے امریکن اور یورپی اقوام کو آگے آنا چاہیے تاکہ مطلوبہ نتائج جلد حاصل کیے جاسکیں۔
امید ہے کہ ان تجاویز پر عمل درآمد کر کے دوبارہ امن حاصل کیا جاسکتاہے اور یقینا وہ دن دور نہیں جب اسلام کے ابدی اور آفاقی پیغام کی حقیقی روح کے مطابق ملک میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا۔ لوگ اپنے عقائد کی بجا آوری میں آزاد ہوں گے۔ پاکستان تمام دنیا کے لیے ایک مثالی ملک بن جائے گا اور وادی چین ہی چین لکھے گا۔

(انگریزی سے ترجمہ :مالک اشتر)