working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

قاضی جاوید سے انٹرویو۔۔۔۔
گفتگو: زاہد حسن
قاضی جاوید' جن کا پیدائشی نام جاوید حسین ہے، 7، فروری 1946 کو لاہور میں پیدا ہوئے ۔ انہوں نے فلسفے میں اعلٰی تعلیم حاصل کی اور بطور ریسرچ سکالر شعبہ فلسفہ پنجاب یونیورسٹی میں 1973 ء سے 1985 ء تک کام کیا۔ وہ 1988 ء سے 2009ء تک اکادمی ادبیات پاکستان میں ریذیڈنٹ ڈائریکٹر رہے۔ آج کل ادارہ ثقافت اسلامیہ میں بطور ڈائریکٹر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ فلسفہ، سماجیات اور تصوف پر ان کی بے شمار مطبوعات آچکی ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں: برصغیر میں مسلم فکر کا ارتقائ، وجودیت، ہندی مسلم تہذیب ، برٹرینڈ رسل، پنجاب کے صوفی دانشور، سرسید سے اقبال تک، خاموش اکثریت کا احتجاج، افکار شاہ ولی اللہ، فلسفہ جدید کا تعارف، پنجاب دی صوفیانہ روایت اور دیگر۔ہم نے موجودہ صورت حال کے تناظر میں ان سے گفتگو کی ہے جو تجزیات پڑھنے والوں کی خدمت میں پیش ہے۔ (مدیر)
تجزیات: موجودہ بحران سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے؟ قاضی جاوید: پاکستان کے حوالے سے 'موجودہ بحران' ایک مبہم اصطلاح ہے۔ اس ملک کو کئی بحران درپیش ہیں اور ، زاہد صاحب، یہ واضح نہیں ہوتا کہ آپ کس بحران کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ بہر طور اگر آپ کا اشارہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اس صورت حال کی طرف ہے جو مالاکنڈ ڈویژن اور ملحقہ علاقوں میں پیدا ہوئی ہے تو میں یہ گذارش کروں گا کہ اس کے خاتمہ کے لیے دو طریقے ہیں۔ایک فوری مقاصد کے حصول کے لیے اور دوسرا پائیدار امن کے لیےفوری طریقہ کار تو یہ ہے کہ چونکہ انتہا پسند مسلح ہیں اور ایک عرصہ سے انہوں نے دہشت گردی شروع کر رکھی ہے۔ وہ آئین اور قانون کے دائرے میں رہنے سے منکر ہیں اور ریاست کی بالادستی کو قبول نہیں کرتے ہیں، لہذا ان کو قابو میں لانے کے لیے طاقت کا استعمال قانونی اور اخلاقی دونوں اعتبار سے جائز ہے۔

ریاست کی طرف سے طاقت کے استعمال سے حاصل ہونے والے مثبت نتائج کو پائیدار بنانے کے لیے طویل المدت پالیسی درکار ہوگی۔ ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہوگا جو تہذیب و تمدن کے تمام حاصلات کو فنا کرنے پر اکساتی ہے۔ اس کے لیے لبرل اور روشن خیال تعلیمی پالیسی بنانی ہوگی۔ متاثرہ علاقے میں ایسے عناصر کو سامنے لانا ہوگا جن کے مفادات انتہاپسندی سے متصادم ہیں۔ عدالتی نظام میں تبدیلیاں لانی ہوگی اور عوام کو روزگار سمیت زندگی کی بنیادی سہولتیں مہیا کرنی ہوں گی۔انتہا پسند موت کے نمائندے ہیں۔ وہ زندگی کو حقیر سمجھتے ہیں۔ ان سے نمٹنے کے لیے زندگی کو باوقار اور دلکش بنانا ہوگا۔

تجزیات: بحران کے حل کے لیے مکالمہ کس حد تک معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ میری مراد طالبان کے ساتھ ڈائیلاگ سے ہے؟
قاضی جاوید : ایک مہذب اور شائستہ صورت حال میں مسائل حل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ڈائیلاگ۔ لیکن جن لوگوں کی آپ بات کر رہے ہیں وہ ابتدائی شائستگی سے بھی محروم ہیں۔ لہٰذا ان کے ساتھ مکالمے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ مکالمے کا ایک اور پہلو بھی ہے جو اسی نتیجے کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ طالبان کے نزدیک ان کے مقاصد خدائی طور پر طے شدہ ہیں۔ لہذا ان میں کسی لچک کی گنجائش نہیں ۔ اچھا یہ تو آپ جانتے ہیں کہ ڈائیلاگ وہاں کامیاب ہوتا ہے جہاں فریقین ایک دوسرے کے لیے لچک رکھتے ہوں۔ ''وہ کچھ لو ، کچھ دو '' پر یقین رکھتے ہوں ۔ بدقسمتی سے اس بحران میںیہ صورت حال موجود نہیں ہے۔

تجزیات: نفرت اور تشدد کی لہر کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے؟
قاضی جاوید: صاحب ، اس کے لیے برسوں کی جدو جہد …میرا مطلب ہے کہ منظم جدوجہد درکار ہوگی۔ سب سے پہلے تو تعلیمی شعبے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں لانی ہوگی ۔ خاص طور پر نصاب میں ۔ تمام معاشروں میں استاد عموماً قدامت پسند ہوا کرتے ہیں، وہ اپنے گروہی تعصبات کے دائرے میں رہتے ہیں اور تبدیلیوں کو آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ تعلیم و تدریس سے تعلق رکھنے والے ہمارے افراد البتہ کچھ زیادہ ہی تنگ نظر اور قدامت پرست ہیں ۔ ایک تو یہ وجہ ہوئی اور دوسری یہ کہ ہماری ریاست اور ہمارے حکمرانوں کے رویے گذشتہ 60 برسوں سے بہت جارحانہ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو تعلیمی پالیسیاں بنیں اور جو نصاب طے ہوئے وہ ذہنوں میں وسعت اور روشن خیالی پیدا کرنے کی بجائے تنگ نظری ، نفرت اور جارحیت کی پرورش کرنے والے تھے۔ اس طرح کے نصاب نے ایسی نسلیں تیار کیں جو آج کے زمانے کے تقاضے پورے کرنے کی بجائے ماضی کے خوابوں اور آدرشوں کی تکمیل میں جت گئیں۔ یہ اِن کی کوتاہی نہ تھی۔ اِن کو تعلیم ہی ایسی دی گئی تھی کہ وہ جدید دنیا کو ، جدید زندگی کو مسترد کریں۔اس کا نتیجہ ہم نے دیکھ لیا ہے۔ ہم نے جو بویا تھا، وہ کاٹ رہے ہیں۔ اب اگر ہم سنبھل جائیں، اپنی پالیسیاں بدلیں ، اپنے رویے بدلیں، نئے آدرش بنائیں، دنیا کے ساتھ لڑنے کی بجائے اس کے ساتھ امن سے مل جل کر رہنا سیکھیں تو نفرت اور تشدد کی لہر بھی ختم ہوجائے گی۔

تجزیات:بالفرض محال، جس طرح کہا جارہا ہے۔ اگر ایٹمی ہتھیار، طالبان کے ہاتھ لگ جاتے ہیں تو اس کا انجام کیا ہوگا؟
قاضی جاوید:یہ امکان تو موجود ہے لیکن زاہد صاحب یہ امکان بہت کم ہے۔ ہماری فوج پیشہ ورانہ استعداد رکھتی ہے اور مالاکنڈ میں اس کے حالیہ آپریشنز نے یہ تاثر (اللہ کا شکر ہے کہ) غلط ثابت کر دیا ہے کہ طالبانی اثرات فوج میں پھیل چکے ہیں۔ اس لیے ہم سب کو یقین ہے کہ فوج جو ایٹمی ہتھیاروں کی محافظ ہے ، وہ ان ہتھیاروں کو غیر متعلقہ لوگوں کے ہاتھوں تک نہ پہنچنے دے گی۔ تاہم جیسا کہ آپ نے خود کہا، بالفرض محال ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ جن میں یہ ہتھیار محفوظ نہ رہ سکے تو پھر ظاہر ہے کہ دنیا خاموش تماشائی نہ بنی رہے گی اور دوسرے ملک ان خوفناک ہتھیاروں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے کسی مؤثر کارروائی سے دریغ نہ کریںگے۔ تاہم یہ کوئی خوشگوار بات نہ ہوگی۔ ان ہتھیاروں کی حفاظت خود ہمارے سلامتی کے اداروں کو ہی کرنی چاہئے۔

تجزیات:جنوبی ایشیا ایک بلاک کی صورت میں باہمی تجارت اور مفادات کو فروغ دے سکتا ہے، جس طرح یورپ نے کیا ہے اور شنید ہے کہ اسی طرح مستقبل میں عرب کرنے جارہے ہیں۔
قاضی جاوید:یہ صرف یورپ کا معاملہ نہیں ۔ اس وقت دنیا علاقائی بلاکس میں تقسیم ہوچکی ہے۔ لیکن اس قسم کا علاقائی بلاک اس وقت پیدا ہوتا ہے جب لوگوں میں علاقائی شعور اجاگر ہو۔ ہمارے ہاں …… یعنی ہمارے جنوبی ایشیائی خطے میں یہ علاقائی شعور بہت کمزور اور ابتدائی قسم کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ علاقائی تنظیم سارک کو وجود میں آئے ربع صدی گزر چکی ہے مگر اس کی کامیابیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وہ اس خطے میں باہمی تجارت اور مشترکہ مفادات کو فروغ نہیں دے سکی۔ تاہم، حالات آہستہ آہستہ بدل رہے ہیں اور اس خطے میں بھی لوگ محسوس کرنے لگے ہیں کہ علاقائی تعاون ان کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ احساس بھی اصل میں جنوبی ایشیا میں باہی تعاون و اشتراک کو ترقی دینے کی بنیاد بنے گا۔


جنوبی ایشیائی اشتراک کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے سلسلے میں عموماً بھارت اور پاکستان کے باہمی اختلافات کا حوالہ دیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ خوش اسلوبی سے حل ہوجائے تو نہ صرف یہ اختلافات ختم ہوجائیں گے بلکہ علاقائی اشتراک کے راستے میں بھی کوئی بڑی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ یہ بات طویل عرصے سے اس قدر تواتر کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ اب وہ اس قدر پختہ سچائی معلوم ہوتی ہے کہ جس کے بارے میں شک و شبہ کا اظہار کوئی معقول قسم کی بات معلوم نہ ہوگی۔ لیکن درحقیقت یہ سچائی ادھوری ہے۔ مانا کہ کشمیر کا مسئلہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک سے زیادہ بار جنگ کا باعث بن چکا ہے اور مسلسل کشیدگی کا بڑا ذریعہ ہے لیکن پاکستان اور بھارت کے اختلافات کشمیر کے مسئلے تک محدود نہیں ہیں ۔ وہ اس سے زیادہ گہری جڑیں رکھتے ہیں۔ ان کی بنیادی وجہ ہندو مسلم دشمنی ہے۔ آزادی کے بعد چونکہ بھارت کا قومی مفاد اس میں تھا کہ ملک میں لگ بھگ پندرہ بیس فیصد مسلمانوں کی موجودگی کے باعث مسلم دشمنی کے جذبوں کی شدت کو کم کیا جائے اور سیکولر نظام کے تحت زندگی کے مختلف شعبوں میں ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جن سے فرقہ واریت کا دبائو کم ہو جائے۔ لہذا اس نے ہندو مسلم دشمنی کے شعلوں کو ہوا نہ دی۔ پاکستان میں اس کے الٹ عمل ہوا۔ یہاں کے حکمرانوں اور دائیں بازو کی جماعتوں اور دانش وروں نے علامہ اقبال اور قائداعظم کی واضح تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کی نظریاتی اساس ہندو دشمنی پر رکھ دی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیم کا شعبہ ہو یا خارجہ پالیسیاں ہوں ان سب کا بنیادی مقصد ہندو مسلم تضادات کو تیز کرنا اور یوں نفرتوں میں شدت پیدا کرنا بن گیا۔

اس سارے عمل میں ہم لوگوں نے یہ حقیقت نظر انداز کیے رکھی کہ جس معاشرے اور ریاست کی بنیاد نفرت پر رکھی جائی گی۔ وہ صحت مند نشوو نما سے محروم رہ جائے گی۔ اس کا کردار جنونی ہوتا جائے گا۔ زاہد حسن صاحب ، کیا کبھی آپ نے اس بات پر توجہ دی ہے کہ پاکستان نے ایٹمی ہتھیار تو بنالیے ہیںلیکن اس کے پاس دودھ کا تجزیہ کرنے والی ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے۔ یہ بات میںنہیں کہہ رہا ہوں۔ ملک کی ایک بڑی اور سرکاری لیبارٹری کے ڈائریکٹر نے گذشتہ دنوں اس امر کا انکشاف کیا تھا اور اخباروں میں اس کی رپورٹنگ بھی ہوئی تھی۔ تو جناب اس سے آپ وطن عزیز کی ذہنی صحت کا اندازہ لگا سکتے ہیں اور یہ اندازہ بھی کر سکتے ہیں کہ ہمارے ترقیاتی منصوبوں کے ٹارگٹ کیا رہے ہیں۔
تو صاحب بات یہ ہے کہ جب تک اس قسم کی نفرتیں اور ان نفرتوں کو پروان چڑھانے والی پالیسیاں موجود رہیں گے، تب تک علاقائی تعاون و اشتراک تو کجا، اس خطے میں امن بھی قائم نہ رہ سکے گا۔ آپ نے جس جنوبی ایشیائی بلاک کی بات کی ہے، اس کو وجود میں لانے کے لیے اس خطے کے حکمرانوں کے طرز فکر میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں پیدا کرنی ہوں گی اور ان کو مجبور کرنا ہوگا کہ وہ موت کی بجائے زندگی کو تقویت دینے والی پالیسیاں بنائیں اور ان پر عمل بھی کریں۔

تجزیات: موجودہ صورت حال میں صوفیا کی تعلیم کی کیا اہمیت بنتی ہے اور اس کے لیے کون سا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے؟
قاضی جاوید: زاہد صاحب، درحقیقت یہ ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے اور میر ا نہیں خیال کہ ایک نشست میں اس سوال کا کوئی واضح جواب دیا جاسکتا ہے۔ اس کے بہت سے پہلو ہیں اور معاملے کی وضاحت کی خاطر ان سب کو نہ سہی، ان میں اکثر کو تو پیش نظر رکھنا ہی ہوگا،
دیکھیے ناں۔ جس بات کو ہم صوفیا کی تعلیم، کہتے ہیں، وہ بجائے خود ایک مبہم بات ہے۔ مختلف صوفیائے کرام کی تعلیمات مختلف رہی ہیں۔ وہ کئی گروہوں اور مکاتیب فکر میں منقسم رہے ہیں اور ان کے خیالات ایک دوسرے سے مختلف ہی نہیںبلکہ متصادم بھی رہے ہیں لہذا خیالات کا کوئی ایسا مجموعہ موجود نہیں جو ہم آہنگ ہو، تضادات سے پاک ہو اور جس پر ہم 'صوفیا کی تعلیم' کا لیبل بے دریغ لگا سکیں۔آپ چونکہ جنوبی ایشیا کے، یعنی متحدہ ہندوستان کے تناظر میں گفتگو کر رہے ہیں، اس لیے میں یہ عرض کروں گا کہ یہاں بہت سے صوفی ایسے رہے ہیں جو مذہبی تقسیموں سے بالا تر ہو کر عالم گیر محبت اور انسانوں کی برابری کی تعلیم دیتے تھے۔ آج ہم ان کا بہت چرچا کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی تعلیمات کے احیا سے ان نفرتوں پر قابو پایا جاسکتا ہے جنہوں نے ہمارے بدقسمت خطے کو گھیر رکھا ہے۔ مگر زاہد ، یہاں ایسے صوفی بھی موجود رہے ہیں جو انسانوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لانے کی بجائے ان میں فاصلوں کو بڑھانے پر زور دیتے تھے۔ تصوف کی داخلی دنیا میں وہ کوئی چھوٹے موٹے لوگ نہ تھے۔ یعنی ایسے نہ تھے کہ جن کو نظر انداز کیا جا سکے۔تو صاحب ، آپ کا جو سوال ہے کہ موجودہ صورت حال میں صوفیا کی تعلیم کی کیا اہمیت بنتی ہے، تو میں اس کے جواب میں یہ کہوں گا کہ اس کی اگر کوئی اہمیت آج کے زمانے میںہے تو یہ ہے کہ ہم اس سے محبت سیکھ سکتے ہیں اور نفرت بھی۔ انحصار اس بات پر ہے کہ ہم سیکھنا کیا چاہتے ہیں۔ شاید اس سے پہلے یہ طے کرنا ہوگا کہ ہم کسی سے کچھ سیکھنا چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔ میرا خیال تو یہ ہے کہ ہم نے ایک ایسا معاشرہ بنا لیا ہے جس میں کسی کو کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہاں لوگ صرف جبلتوں کے سہارے، فطری خواہشوں کے سہارے، جی رہے ہیں۔ وہ لُوٹ مار اور ماردھاڑ میں مصروف ہیں۔ سیکھنے کی خواہش اور ضرورت مہذب معاشرے میں ہوا کرتی ہے۔

تجزیات: ماضی میں بھگتی تحریک کے پیچھے کیا نظریہ کارفرما تھا اور اس وقت کے معاشرے پر اُس کے کیا اثرات پڑے تھے؟
قاضی جاوید: بھگتی تحریک کے معاملے کو گذشتہ پانچ چھے دہائیوں میں خاصا متنازعہ فیہ بنا دیا گیا ہے۔ اُس سے پہلے سیاسی، ذہنی اور مذہبی تینوں امور کے مؤرخین تسلیم کرتے تھے کہ بھگتی تحریک ہندوستانی باشندوں پر مسلمانوں کے تہذیبی اور مذہبی اثرات کی وجہ سے وجود میں آئی تھی۔ بعد میں جب تاریخ کے شعبہ میں فرقہ پرستی کا زہر پہنچا تو اس تحریک کی اور ہی تاویلات منظرِعام پر آنے لگیں۔ مثلاً ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب نے، جو بلاشبہ بہت ممتاز مؤرخ تھے، یہ دعویٰ کیا کہ بھگتی تحریک کا مقصد ہندوستان کے دو بڑے گروہوںـــ یعنی ہندوئوں اور مسلمانوں میں فاصلوں کو کم کرنا اور ان کے درمیان بھائی چارہ پیدا کرنا نہیں تھا بلکہ فاصلے کم کرنے کی آڑ میں بھگت مسلمانوں کے جداگانہ تشخص کو ختم کرنے کے درپے تھے۔ گویا ڈاکٹر صاحب نے اس تحریک کو ہندوستان کی پہلی اسلام دشمن تحریک کا درجہ دے دیا۔


سرحد کے اُس پار بھی اسی قسم کا کام ہونے لگا۔ وہاں کے فرقہ پرستوں کو یہ بات ہضم نہ ہوتی تھی کہ بھگتی تحریک مسلم اثرات کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی جو اہلِ ہند کی تہذیبی، مذہبی اور سماجی اصلاح کی خواہاں تھی۔ لہٰذا انھوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اس تحریک کا آغاز چودھویں اور پندرھویں صدیوں کے شمالی ہند میں نہ ہوا تھا بلکہ وہ آٹھویں صدی کے جنوبی ہند میں پیدا ہوئی تھی۔ اور یہ کہ اس تحریک کے آغاز اور اس کی نشوونما یا بعد میں حاصل ہونے والی عوامی مقبولیت میں مسلمانوں کو یا ان کے اثرات کو کوئی دخل نہ تھا۔ یہ خالص ہندووانہ تحریک تھی۔ آپ گذشتہ ربع صدی کے دوران بھگتی تحریک سے متعلق عبارت میں شائع ہونے والی کتب اور تحقیقی مقالے دیکھیں تو ان میں سے اکثر میں آپ کو یہی نقطۂ نظر ملے گا۔

بہرحال یہاں مزید تفصیل میں جانے کا موقع نہیں ہے۔ لہٰذا میں اپنی بات کو مختصر کرتے ہوئے کہوں گا کہ بھگتی تحریک ہند پر مسلم اثرات کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ اس نے خدا کی وحدت اور اس کے ساتھ ساتھ انسانوں کی برابری کا درس دیا۔ تمام مذہبی تقسیموں کو رد کیا اور ایک انسان دوست سماج کے قیام کی تعلیم دی۔ یہ وہی تعلیم تھی جو اس علاقے میں چشتیہ مکتبہ فکر کے صوفیائے کرام دے رہے تھے۔ پورے ہندوستان کے مقابلے میں پنجاب میں ان تعلیمات کو زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تعلیمات یہاں کے لوگوں کے ذہنی و سماجی رویوں اور مزاج کے مطابق تھیں۔ پنجاب میں بھگتی تحریک نے درجنوں شاعروں کو تخلیقی تحریک عطا کی۔ یہ شاعر عام طور پر نچلے طبقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں اس تحریک کے اثرات ہی تھے جو بابا نانک کے خیالات کی تشکیل کا باعث بنے۔

تجزیات: برصغیر کے صوفیا نے جومذہب، رنگ و نسل اور ذات پات سے بالاتر ہو کر جینے کی بات کی ہے تو کیا موجودہ صورت حال میں اس کا احیا ممکن ہے؟
قاضی جاوید: صاحب، اس سوال کے جواب میں آپ سے میں یہ گزارش کروں گا کہ تصوف کا اس کے تمام تر تانے بانے کے ساتھ احیا نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے۔ تصوف کو جس ماحول، جس عہد اور جن روحانی اور تہذیبی تقاضوں نے جنم دیا تھا وہ اب ماضی کا قصہ بن گئے ہیں۔ ان کا زمانہ بیت گیا ہے۔ تو زاہد حسن صاحب، جوکچھ بیت چکا وہ بیت چکا، وہ اب واپس نہ آئے گا۔ یہی زندگی کا چلن ہے۔ وہ پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھتی۔


ویسے بھی صاحب، اب ہم کو اس کی ضرورت بھی نہیں۔ آج کے زمانے میں تصوف کی جو شے ہمیں درکار ہے وہ اس کا فلسفہ وحدت الوجود ہےـــ یعنی وہ فلسفہ، وہ نقطۂ نظر، وہ بصیرت اور وہ رجحان جو کثرت میں وحدت کو دیکھتا ہے، امتیازات اور اختلافات میں ہم آہنگی تلاش کرتا ہے۔ تو اصل میں وحدت الوجود کا نظریہ ہے جو آج ہمیں درکار ہے تاکہ ہم میں برداشت کا حوصلہ پیدا ہو سکے، ہم دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا سیکھ سکیں۔ اونچ نیچ اور امتیازات کو رد کر سکیں۔

تجزیات: جس صورت حال سے آج ہم دوچار ہیں، اس کو پیدا کرنے میں ہمارے نصاب تعلیم کا قدر دخل ہے۔ کیا اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے؟
قاضی جاوید: جناب، اس موضوع پر میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ موجودہ صورت حال کو پیدا کرنے میں جن عوامل نے بنیادی اور فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے، ان میں ہمارا نصاب تعلیم اور تعلیمی نظام شامل ہیں۔ اگر ہم بہتر مستقبل کے متمنی ہیں، اگر ہم تہذیب و شائستگی کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں تو اس نصاب کو صرف تبدیل نہیں کرنا ہو گا بلکہ اس کو نئے طرزِ فکر اور نئے مقاصد کے حوالے سے سراسر ازسرِنو مرتب کرنا ہو گا۔