Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
برطانیہ میں شخصی و مذہبی آزادی |
بشارت رٹوی
بشارت رٹوی کا تعلق آزاد کشمیر کے شہر ڈڈیال سے ہے، وہ آزاد کشمیر کے سینئر صحافی اور برطانوی پاکستانیوں پر لکھی جانے والی کتاب ''وطن سے وطن تک'' کے مصنف ہیں۔ ان کے خاندان آزاد کشمیر اور برطانیہ میں بٹا ہوا ہے وہ گذشتہ 30 سال سے برطانیہ آجا رہے ہیں۔ انہوں نے برطانیہ میں کیا دیکھا، دہشت گردی کے حالیہ تناظر میں برطانوی مسلمان کہاں کھڑے ہیں۔ برطانوی مسلمانوں کو وہاں پر کون کون سی آزادیاں میسر ہیں۔ اس حوالے سے ان کا مضمون خاصا دلچسپ ہے۔ قارئینِ تجزئیات یقیناً اس سے حظ اٹھائیں گے۔ (مدیر)
|
خیبر سے کراچی تک پورا ملک دہشت گردی کی لپیٹ میںہے۔ بدامنی اور عدم تحفظ کی آکاس بیل نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میںلے رکھا ہے۔ نام نہاد اسلام پسندوں نے مذہب کے نام پر جتنا خون بے گناہ انسانوں کا بہایا ہے اور پوری اقوام عالم میں جس طرح اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کیا ہے اس پر ہر محب وطن کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ان طالبان کی جانب سے لگائی گئی بدامنی اور دہشت گردی کی آگ قبائلی علاقوں سے نکل کر بندوبستی علاقوں سے ہوتی ہوئی اب بڑے شہروں میں داخل ہو چکی ہے۔ اس آگ پر قابو پانے کے لیے پوری قوم کو حکومت اور فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ اسلام تو ایک بے گناہ انسانی جان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ یہاںتو سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں بے گناہ لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ حتیٰ کہ مساجد، امام بارگاہوں اور جنازوں کے جلوس بھی خون انسانی سے رنگین کر دیے گئے۔ ملک اور انسانیت دشمن ان نام نہاد اسلام پسندوں کی ان مذموم کارروائیوں کے باوجود بھی اگر کوئی ان کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے تو پھر اس کی عقل اور سوچ پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ نائن الیون اور سیون سیون جیسے افسوسناک واقعات کے بعد اعلیٰ انسانی قدروں کے حوالے سے خوبصورت ترین ملک برطانیہ میں بھی مسلمانوںکو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔
گذشتہ تیس برسوں میں مجھے والدین اور خاندان کے دیگر افراد سے ملنے کئی بار برطانیہ جانے کا اتفاق ہوا۔ اس سفر کے دوران برطانیہ کے تقریباً تمام بڑے ایئر پورٹس پر اترنے اور وہاں سے پرواز کرنے کا موقع بھی ملا۔ برطانیہ میںمسلمانوں کو حاصل مذہبی آزادی کا یہ عالم ہے کہ ان تمام ایئر پورٹس پر نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد کے طور پر الگ ہال بنائے گئے ہیں جہاں وضو کرنے جیسی تمام سہولتیں حاصل ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ایسے تمام سرکاری اداروں جہاں مسلمانوں کو کام کی غرض سے جانا پڑتا ہے، یہ سہولتیں موجود ہیں۔ تمام ہسپتالوں میں بھی نماز کی ادائیگی کے لیے الگ جگہ مختص کی گئی ہے۔ موسم کے لحاظ سے ٹھنڈے اور گرم پانی کا بھرپور انتظام دیکھا گیا ہے۔
برطانوی معاشرے کی عمارت صحت، تعلیم، روزگار، دیانتداری، انصاف جیسے بلند اور مضبوط ستونوں پر کھڑی ہے۔ انسان تو کیا کسی بھی جاندار کی جان کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ ایک بار مجھے ایک دوست کے گھر رات قیام کرنے کا موقع ملا۔ اس سے ملحقہ مکان میں میں نے بلیوں کی ایک بڑی تعداد دیکھی جو پچاس ساٹھ سے کسی بھی طور کم نہیں تھی۔ اتنی بڑی تعداد میں ایک ہی گھرمیں بلیاں دیکھ کر میرے استفسار پر میرے دوست نے بتایا کہ یہ آوارہ بلیاں ہیں۔ یہاں کے سوشل سیکیورٹی نظام کے تحت جانوروں کے حقوق کے تحفظ کے ادارے نے ان بلیوں کو خوراک کی تلاش میں باہر سڑکوں پر جا کر خوراک ڈھونڈنے کے دوران کسی گاڑی کے نیچے آ کر کچلے جانے کے خوف سے اس مکان میں جس کا خاطر خواہ کرایہ دیا جا رہا ہے، ان بلیوں کو رکھا گیا ہے۔ جہاں حکومت کی طرف سے مقرر ایک تنخواہ دار ملازم دو وقت آکر ان بلیوں کو خوراک اور پانی دیتا ہے۔ میرا دوست جب یہ باتیں مجھے بتا رہا تھا تومیری آنکھوں میں ان بچوں کی تصویر گھوم رہی تھی جہاں ایک طرف میرے ملک کی ایلیٹ کلاس کے دسترخوانوں پر انواع و اقسام کے کھانے چنے جاتے ہیں تو دوسری طرف میرے ملک کے نیم برہنہ بدن پر بھوکے بچے گندگی اور کچرے کے ڈھیر پر جانوروں سے بھی بدتر حالات میں اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے گلا سڑا فروٹ اور خوراک تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر میری ان باتوں سے کسی مغرب مخالف مُلّا کو اختلاف ہو تو وہ یہاں بڑے شہروں کے چوکوں اور چوراہوں پر یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔
اس دوست نے مجھے برطانیہ میںحقوق کے حوالے سے ایک واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ برطانیہ کے دو شہروں کو موٹروے کے ذریعے لنک کرنے کے لیے موٹروے تعمیر کی جا رہی تھی کہ اس راستے میں ایک بڑا درخت تھا جس کو کاٹے بغیر یہ تعمیر ممکن نہ تھی۔ جب اس درخت کو کاٹا جانے لگا تو ایک مزدور نے دیکھا کہ اس درخت کی ٹہنی پر ایک پرندے نے گھونسلا بنا کر اس میں انڈے دے رکھے ہیں۔ ایک پرندے کی آزادی اور اس کے حقوق میں دخل اندازی کے خوف سے لاکھوں پونڈ کا منصوبہ روک دیا گیا۔ قانون فطرت کے تحت اس پرندے کے ان انڈوں سے بچے پیدا ہونے اور ان کے بال و پر نکل کر ان کے اڑنے کے قابل ہونے تک تک کام بند رکھا گیا۔ جب وہ پرندہ اپنے بچوں کو لے کر وہاں سے جا چکا تو پھر دوبارہ کام شروع کیا گیا۔ فرض شناسی اور دیانتداری کا ایک واقعہ خود میرے ساتھ بھی پیش آیا۔ یہ کوئی تیس برس پہلے کی بات ہے۔ اس وقت برطانیہ میں موبائل فون تو دور کی بات، ہر گھر میں بھی فون کی سہولت موجود نہ تھی۔ جن لوگوں کے گھروں میں فون کی سہولت نہیں تھی، وہ شہری حکومت کی طرف سے باہر سڑک پر نصب ٹیلی فون بوتھ پر جا کر استفادہ کرتے تھے۔ وہ میرا برطانیہ جانے کا پہلا روز تھا۔ میں برمنگھم میں اپنے والدین کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا۔ دوست احباب ملنے آ رہے تھے۔ شام ڈھلے میں باہر نکلا تاکہ ٹیلی فون بوتھ پر جا کر ایک دوسرے شہر شیفیلڈ میں اپنے ماموں زاد بھائی کو اپنی برطانیہ آمد کی اطلاع دے سکوں۔ میں نے جاتے ہی فون بوتھ میں پچاس پنس کا سکّہ ڈالا جو سکّہ ڈالنے کی مخصوص جگہ میں پھنس گیا اور میری کوشش بسیار کے باوجود وہ سکّہ نہ اندر جا رہا تھا اور نہ باہر نکل رہا تھا۔ بوتھ کے شیشے پر برٹش ٹیلی کام کی طرف سے ایک ہدایت نامہ درج تھا۔ میں نے اسے پڑھنا شروع کر دیا۔ وہاں لکھا تھا کہ اگر آپ کو فون کرنے میں کوئی دشواری پیش آئے تو آپ ہیلپ لائن کے اس نمبر پر آپریٹر سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ یہ تحریر پڑھ کر میں نے مخصوص نمبر ملایا تو پلک جھپکتے ہی آپریٹر نے مجھ سے میرا مسئلہ پوچھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا ہے تو اس نے مجھے انتہائی اخلاق اور ادب کے ساتھ پوچھا کہ فون بوتھ میں نمایاں طور پر درج ہے کہ آپ صرف بیس اور دس پنس کا سکّہ ڈال سکتے ہیں۔ میں نے شرمندگی کے ساتھ اسے بتایا کہ آج آپ کے ملک میں میرا پہلا دن ہے۔ میں معذرت چاہتا ہوں کہ میں نے یہ تحریر پڑھے بغیر ہی ایک اجنبی کے طور پر پچاس پنس کا سکّہ ڈال دیا ہے۔ آپریٹر نے میرا نام اور پتہ پوچھنے کے بعد یہ کہا کہ جس شیشے پر ہدایت نامہ درج ہے، اسی شیشے پر اس فون بکس کا نمبر لکھا ہے۔ آپ مجھے نمبر بتائیں اور ساتھ ہی جہاں آپ نے فون کرنا ہے وہ نمبر بتا کر ریسیور ایک منٹ کے لیے رکھ دیں۔ میں نے ہیلپ لائن کے اس آپریٹر کے کہنے کے مطابق دونوں نمبر بتا کر ابھی ریسیور رکھا ہی تھا کہ گھنٹی بجی۔ جب میں نے ریسیور اٹھایا تو دوسری طرف میرا ماموں زاد بھائی ہیلپ لائن پر موجود تھا۔ میں اپنی آمد کی اطلاع دے کر گھر آ گیا۔ دل ہی دل میں برطانیہ کے اس نظام کی تعریف کرتے نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ صبح نو بجے کا وقت تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے ہی جا کر دروازہ کھولا تو باہر ایک انگریز کھڑا تھا۔ اس نے میرا نام لے کر بتایا کہ اس گھر میں اس شخص کے نام ایک رجسٹرڈ لیٹر ہے۔ اس نے قلم اور رسید میرے ہاتھ میں دیا۔ میں دستخط کرکے وہ لفافہ لے کر دروازہ بند کرکے اپنے کمرے کی طرف آتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ کل ہی میں یہاں پہنچا ہوں۔ یہ سرکار کی طرف سے خط نہ جانے میرے نام کیوں آیا ہے۔ جلدی جلدی میں نے لفافہ کھولا تو اس کے اندر پچاس پنس کا چیک اور ساتھ ایک معذرت نامہ پر مبنی خط تھا۔ جس پر برٹش ٹیلی کام کی طرف سے ٹیلی فون بوتھ پر میری پریشانی جو کہ خود میری اپنی پیداکردہ تھی کی وجہ سے مجھ سے معذرت کی گئی تھی اور ساتھ ہی لکھا گیا تھا کہ آپ کے جو پچاس پنس ضائع ہوئے ہیں، ان کا چیک ارسال ہے۔ اور امید ہے کہ آپ برطانیہ کے وزٹ سے لطف اندوز ہوں گے۔ میں اس نظام کی داد دیتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ آپریٹر نے میری بات بھی کرا دی تھی۔ اور پھر پچاس پنس واپس کرنے کے لیے انھوں نے بیس پنس کا ڈاک ٹکٹ استعمال کیا۔ ایک پوسٹ مین کو میرے گھر آنے کے لیے اپنا قیمتی وقت بھی صرف کرنا پڑا۔ میں اس سوچ میں گم ہو گیا کہ ایک میرے اپنے ملک میںجہاں حق لینے کے لیے برسوں لڑنا اور انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اور ایک یہ ملک جو میرا حق بنتا بھی نہیں تھا۔ مجھے دروازے کے اندر پہنچا دیا گیا۔ میرے دل سے جو اس وقت آواز نکلی وہ یہی تھی کہ ایسی قوموں اور ملکوں پر کبھی زوال نہیں آتا۔ پورے یورپ میں برطانیہ اس حوالے سے ممتاز حیثیت رکھتا ہے کہ جہاں آپ کے حقوق کی سرحدیں ختم ہوتی ہیں، وہاں دوسرے کی شروع ہو جاتی ہیں۔
میں نے اپنے اس تیس سالہ برطانیہ کے سفر میں وہاںموجود مسلمانوں کو حاصل جو مذہبی آزادی دیکھی وہ شاید ہی کسی دوسرے یورپی ملک میں ہو۔ اس وقت پورے برطانیہ میں سینکڑوں کے حساب سے بڑی بڑی جامع مساجد اور ہزاروں کے اعتبار سے چھوٹے چھوٹے گلی محلوں میںجہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، مساجد اور مدارس قائم ہیں۔ ان مساجد اور مدارس کو چلانے کے لیے پرائیویٹ فنڈنگ کے علاوہ وہاںکی شہری حکومت جنھیں سٹی کونسل کہا جاتا ہے، بھرپور مدد کرتی ہیں۔ ہزاروں لاکھوں پونڈ کے حساب سے گرانٹ دی جاتی ہے۔ نماز جمعہ، نماز تراویح اور عیدین کے موقع پر بڑے بڑے اجتماع ہوتے ہیں۔ جہاں مسلمانوں اپنے بھرپور مذہبی عقیدت اور احترام کے ساتھ اپنا مذہبی فریضہ ادا کرتے ہیں۔ بلکہ ایک بار یہ بھی دیکھنے کا موقع ملا کہ ہمارے ہاں کی طرح وہاں بھی عید میلادالنبیۖ کے موقع پر لوگ عشق رسولۖمیں ایک بڑے جلوس کے ہمراہ کلمہ طیبہ کا ورد کرتے جھنڈے اٹھائے جا رہے تھے۔ ساتھ مقامی پولیس کا ایک دستہ ٹریفک کے نظام کو چلانے کے لیے بھی چل رہا تھا۔ برطانیہ میں ہفتہ اور اتوار کو چھٹی ہوتی ہے۔ اگر کسی مسلمان گھرانے میں کوئی شخص ان چھٹی کے دنوں میں فوت ہو جائے تو ڈیتھ سرٹیفیکیٹ جاری کرنے کے لیے متعلقہ ادارے کا دفتر ہفتہ اور اتوار کو بھی کھول دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی وہاں کے قبرستان جو ہفتہ اور اتوار کو بند ہوتے ہیں ، تدفین کی غرض سے وہاں کی شہری حکومت گورکن کو اوور ٹائم دے کر قبر کی کھدائی کا انتظام کرتی ہے ۔ صرف یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے ہسپتالوں میں داخل مریضوں اور سکول میں پڑھتے مسلمان بچوں کے لیے حلال کھانے کا انتظام بھی کیا گیا ہے۔ برطانیہ میں موجود پاکستانی اور کشمیری مسلمان بنیادی طور پر پرامن اور قانون کا احترام کرنے والے شہری ہیں۔ دنیا بھر میں اور بالخصوص نائن الیون اور سیون سیون کے واقعات کے بعد برطانیہ میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خوف کا سارا نزلہ مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانی اور کشمیری تارکین وطن مسلمانوں پر ہی گرتا ہے لیکن برطانیہ کا نظام تفتیش اس قدر شفاف ہے کہ اگر شک کی بنا پر پولیس نے کسی بے گناہ کو پکڑ بھی لیا ۔ تو بے گناہی ثابت ہونے پر اسے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
بلند اخلاقی قدروں، قانون اور انصاف ، مساوات اور برابری کے ستونوں پر قائم اس معاشرے میں مسلمانوں کو حاصل مذہبی اور شہری آزادیوں کی جس قدر بھی تعریف کی جائی وہ کم ہے۔ ہمارے تارکین وطن کی تیسری نسل جو کہ برطانوی شہری ہے ۔ اسے اسلام کی بنیادی روح اور فلسفے سے آشنا کرنے کی بھرپور ضرورت ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر اس وقت برطانیہ میں مساجد اور مساجد اور مدارس میں درس و تدریس کا فریضہ انجام دینے والے پڑھے لکھے انگریزی زبان سے آشنا علما کرام نہیں بلکہ واجبی سی مذہبی واقفیت رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ اس میں قصور برطانوی حکومت کا نہیں بلکہ ہمارا اپنا ہے کہ ہمارے اکثر لوگوں اور بالخصوص مساجد کی کمیٹیوں نے اسلام کی تبلیغ اور اس کی اصل روح سے ناواقف اپنے رشتہ داروں کو صرف برطانیہ بلا کر روزگار دلانے کی غرض سے ڈاڑھیاں رکھوا کر بطور امام مسجد برطانیہ بلوا لیا ۔ اب وہاں کے مدارس اور مساجد میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے غرض سے جانے والے ہمارے بچے جو اپنی زبان سے واقف نہیں اور وہاں موجود مولوی حضرات کو انگریزی زبان آتی نہیں۔ جس کی بنا پر ان مساجد اور مدارس کا کما حقہ مقصد پورا نہیں ہو رہا ۔ اسلام ایک آفاقی دین ہے ۔ جس سے انسانیت کی بھلائی کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ اسلام کے فلسفے اور اصل روح سے اس نوجوان نسل کو آگاہ کرنے کے لیے اُن مذہبی سکالرز کی ضرورت ہے جو انگریزی زبان پر عبور رکھتے ہوں ۔ جو اس نوجوان نسل کو یہ بتا سکیں کہ دہشت گرد اسلام اور انسان دونوں کے دشمن ہیں۔ انتہا پسندی کسی بھی ملک اور معاشرے میں نفرت سے دیکھی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن بھرپور اورپرامن نظام زندگی کی تعلیم دیتا اور نشاندہی کرتا ہے۔ جب تک ان مساجد اور مدارس میں انگریزی زبان اور اسلام کی بھرپورتعلیم رکھنے والے سکالرز کی خدمات حاصل نہیں کی جاسکتیں تب تک نام نہاد عسکریت پسند اور انتہا پسند تنظیمیں ان نوجوانوں کو غلط راستے پر ڈالنے میں کامیاب ہوتی رہیں گی۔ برطانیہ جیسے ماڈریٹ، لبرل اور بلند اعلی انسانی اور اخلاقی قدروں کے حوالے سے خوبصورت ترین ملک میں مسلمانوں کو حاصل مذہبی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے جہاں اوپر ذکر کی گئی باتوں کا مدنظر رکھا جانا ضروری ہے وہاں آبادپاکستانی اور کشمیری تارکین وطن والدین پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر بھرپور نظر رکھیں اور انہیں ہر وقت یہ بتانے کی کوشش کریں کہ برطانیہ آپ کا اپنا وطن ہے۔ اس کے قانون، ضابطوں اور قدروں کا احترام آپکا مذہبی ، اخلاقی اور قانونی فریضہ ہے۔
جب تک اس نوجوان نسل کو ان خطوط پر زندگی گزارنے کی بھرپور تعلیم نہیں دی جائے گی تب تک القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں ان ناپختہ ذہنوں کو استعمال کرنے کی کوشش کرتی رہیں گی۔
ابھی ایک ہفتہ قبل سلو لندن سے آئے میرے جاننے والے نے پاکستان میں جاری دہشت گردی کی لہر پر جہاں پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا وہاں اس نے یہ بھی بتایا کہ میں موقع ملے تو برطانیہ کی سلامتی کے لیے بھی دو نفل ادا کرتا ہوں کہ وہاں ہم کو جو سہولتیں حاصل ہیں۔ ان کا یہاں تصور ہی کیا جاسکتا ہے ۔ پاکستان ہمارا وطن ہے۔ اس مٹی نے ہم کو جنم دیا۔ اس ارض پاک کی مٹی کو ہم مقدس جانتے ہیں ۔ جبکہ برطانیہ ہماری اولاد کا وطن ہے جہاں ان کا خوبصورت مستقبل وابستہ ہے۔ ہم دن رات پاکستان اور برطانیہ کی سلامتی اور دونوں ملکوں کی لازوال دوستی کے مزید استحکام کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔
|
|
|
|
|