دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں دینی مدارس کے کردار، افکار اور جہتوں پر بحث صحافیوں اور دانشوروں کا پسندیدہ موضوع ہے اور اسی حوالے سے طرح طرح کی آراء سننے کو ملتی ہیں، لیکن حقیقت کیا ہے، دینی مدارس سے وابستہ اساتذہ کا مختلف مسائل پر کیا مؤقف ہے اس حوالے سے محمد عامر رانا کا یہ مضمون اس لیے بھی منفرد ہے کہ اس میں ملک کے مختلف علاقوں میں پہلے چار مکاتبِ فکر کے دوسو اکاون مدارس کے اساتذہ کی آراء اکٹھی کی گئی ہیں۔ جن میں دہشت گردی، مسئلہ کشمیر، جمہوریت اور دیگر مسائل شامل ہیں۔ جماعت اسلامی، دیوبند، بریلوی، اہل حدیث اور اہل تشیع کے مدارس سے وابستہ اساتذہ کیا سوچتے ہیں، ان کی سوچ میں کیا فرق ہے اس پس منظر میں زیر نظر مضمون کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ (مدیر)
دہشت گردی کے حوالے سے مدرسوں کا کردار مسلسل زیر بحث رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ علم و حکمت بانٹنے والے یہ قدیم ادارے اب مذہبی منافرت اور انتہا پسندی کی راہ ہموار کر رہے ہیں اور مذہبی سکالر پیدا کرنے کی بجائے شعبہ تعلیم میں تخریبی ملمع سازی سے ملاوٹ کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ کئی تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں تمام مدارس تو ملوث نہیں لیکن پھر بھی تقریباً 15 فیصد مکتب ایسے نکلے جن کا منفی سرگرمیوں میں براہ راست ہاتھ شامل رہا۔ تاہم طلبا میںانتہا پسندی کے فروغ کے حوالے سے ان کا کردار ایک بنیادی اہمیت کا حامل ضرور رہا ہے کیوں کہ مدرسوں کی انتہا پسند گروہوں سے سیاسی وابستگی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔
مدارس میں طلباء کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے والے معلم کسی نہ کسی سیاسی تحریک سے جڑے ہوتے ہیں اور پھر چپکے سے طلباء میں بھی یہ جراثیم داخل کرنا شروع کر دیتے ہیں اس سلسلے میں سروے ترتیب دے کر تحقیقی مواد اکھٹا کیا گیا ہے جو کہ پاکستانی مدرسوں کے رویوں پر مبنی درپردہ نظریات کو طشت از بام کرتا ہے۔
اس تحقیق میں 9/11 کے بعد دہشت گردی سے وابستہ دیگر معاملات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ پاکستان میں مستعمل مختلف مکاتب فکر کے پانچ تعلیمی بورڈز یعنی دیوبندی مکتبہ فکر کا ''وفاق المدارس العربیہ''، بریلوی سکول کا ''تنظیم المدارس''، فقہ جعفریہ کا وفاق المدارس الشیعہ، اہلحدیث کا ''وفاق المدارس السلفیہ'' اور جماعت اسلامی کے ''رابیت المدارس السلامیہ'' سے منتخب شدہ 251 مدرسوں پر سروے کا اہتمام کیا گیا اور ان میں زیر تعلیم طلباء اور اساتذہ کی رائے جانچی گئی تاکہ معاشرے میں موجود عدم برداشت اور انتہا پسندی کے فروغ کی وجوہات کے اصل مآخذ تک رسائی حاصل کی جاسکے۔
مدرسوں کے معلم بھی ان سوالات کی زد میں آئے اور ان کے بالواسطہ اور بلا واسطہ نظریات سے مرتب شدہ اثرات پر بھی بحث کی گئی ۔ بنیادی طور پر اس سروے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ ان سرپرستوں تک رسائی حاصل کی جائے جو ان مدارس کی سیاسی جہتیں ترتیب دیتے ہیں اور کیا وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے معاملات کا کما حقہ ادراک رکھتے ہیں…؟ وہ پاکستانی فوج کی قبائل علاقوں میں کارروائیوں اور ملک کے سیاسی مسائل کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ خارجہ پالیسی کے حوالے سے ان کے نظریات کیاہیں؟ کیا وہ جمہوری تبدیلیوں کو پسند کرتے ہیں اور ان علما ء کا بین الاقوامی معاملات خصوصاً امریکہ اور یورپ کے مسلم دنیا سے تعلقات کے بارے میں کیا تحفظات کار فرما ہیں؟ کیا یہ لوگ فلسطین ، کشمیر اور افغانستان کے تنازعات کو دہشت گردی کی جنگ سے تعبیر کرتے ہیں؟ زیادہ تر اشخاص نے موزوں اور نہایت ذمہ دارانہ طریقے سے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا۔ ان اصحاب کا مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق تھا اور مختلف جغرافیائی علاقوں کے رہنے والے تھے… سیاسی وابستگیاں بھی مختلف تھیں جبکہ ہر مکتبہ فکر کے بنیادی نظریات میں خاصی ہم آہنگی بھی دیکھنے میں آئی۔
مدرسوں پر کیے گئے اس سروے کی روشنی میں پاکستان کے اندرونی سیاسی ڈھانچے اور بیرونی ممالک سے تعلقات کار کو سمجھنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے کیوں کہ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ تمام معاملات کا دوسرا سرا کسی نہ کسی طرح بیرونی عوامل سے جا ملتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ جانچنے کی کوشش بھی کی گئی ہے کہ کیا مدرسوں میں وضع شدہ رویے سیاسی نظریات کے مرہون منت ہیں اور یہ کس سانچے میں ڈھل کر سیاسی دبائو قبول کر کے اپنی سمت کا تعین کرتے ہیں اور پھر ان کا دائرہ بتدریج اطراف میں پھیلنے لگتا ہے۔
سروے اور اس کا طریقہ کار
مذکورہ ڈیٹا ستمبر2007 سے اکتوبر 2008 کے دوران 13 مہینوں میں اکٹھا کیا گیا اور یہ کام تین مرحلوں میں مکمل ہوا پہلے مرحلے میں 700 مدرسوں کا سروے ترتیب دیا گیا جس میں لاہور ، راولپنڈی اور پشاور کا انتخاب کیا گیا۔ پائلٹ سروے کے طور پر 70 مدارس میں سے 30 اداروں کے احباب نے اس میں حصہ لینے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ زیادہ تر مدرسوں کے لوگ یہی سمجھتے تھے کہ یہ مغرب یا حکومتی عناصر کی کوئی ملی بھگت ہے یا خفیہ سازش ہے جو حکومت ان کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے پہلے پیش بندی کے طور پر کر رہی ہے۔ چنانچہ اس مرحلے میں 251 مدارس تک سروے کو محدود کر دیا گیا۔
یہ مدارس چاروں صوبوں بشمول فاٹا، وفاقی علاقہ اور کشمیر کے اضلاع پر مشتمل تھے۔ اس نمونے میں مذکورہ مکاتبِ فکر کے نظریات کے حامل مدارس کی تعداد کو بھی مد نظر رکھا گیا اور ان کے پانچ مذہبی بورڈوں یا وفاق سے تعلق کے معیار کو بھی جانچا گیا۔ خصوصاً دیوبندی اور بریلوی مدرسوں کی تعداد میں اضافہ نوٹ کیا گیا جو کہ بتدریج 46 اور 27 فی صد رہا جبکہ اہلحدیث اور شیعہ مدارس کی تعداد 12 اور 9 فی صد کے لگ بھگ رہی۔جماعت اسلامی بھی 6 فی صد کے ساتھ اپنا مختصر وجود رکھتی ہے ۔ اس سروے میں ان مدرسوں کو شامل نہیں کیا گیا جو حکومت کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔
یہ سروے فیلڈ میں کام کرنے والے محققین نے ترتیب دیا اور انہوں نے مدارس کی سیاسی اور ثقافتی رجحانات کی اصل روح تک رسائی کی سعی کی تاکہ مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے آسانی پیدا ہو سکے۔اس پائلٹ سروے میں 21 نکات پر مشتمل سوالنامہ تیار کیا گیا۔ بعض سوالات خاصے عام نوعیت کے تھے تاکہ کسی فرد کو اپنی رائے کے اظہار میں کسی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ بعض سوالات خاص اہمیت کے حامل بھی تھے جو مدلل جواب کی حاجت رکھتے تھے۔ مدرسوں کی مالی امداد کے مآخذ اور اقتصادی معاملات کے متعلق کوئی سوال شامل نہیں تھااور غیر ضروری سوالات سے بھی ہر ممکن پرہیز کیا گیا تاکہ کسی مکتبہ فکر کے جذبات مجروح نہ ہوں۔
مطلوبہ ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے مختلف علاقوں کے رسم و رواج اور مقامی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے 10 موزوں افراد پر مشتمل گروپ تشکیل دیے گئے۔ زیادہ تر سوالنامے انہی فیلڈ ریسرچ پر مامور افراد نے اکٹھے کیے تھے اور سوالات کی روشنی میں مدرسوں کے اساتذہ ، معلم اور طلباء سے بحث مباحثوں کا اہتمام کیا گیا۔ ان سے مضبوط روابط استوار کیے گئے اور پھر مکمل اور جامع رپورٹ سامنے آئی۔
مسئول کا کردار
پاکستان کا تعلیمی نظام، مختلف نظریات کے حامل معاشرے کا ملغوبہ ہے۔ طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر ملک میں تعلیم کے چھ نظام رائج ہیں اور ان میں مدرسے کا سب سے آخری درجہ ہے اور اسے معاشرے کے نظر انداز اور محروم طبقے سے آنے والے طلباء کا سکول کہا جاتا ہے جب کہ احمد شیخ اقتصادی سماجی اونچ نیچ ، اچھے اداروں تک رسائی کی کمی، دیہاتی اور شہری زندگی میں تفاوت اور جنس کی اہمیت کو بھی مورد الزام ٹھہراتاہے۔ مدارس کے اساتذہ معاشرے کے مختلف کرداروں کے طور پر جانے جاتے ہیں کیوں کہ وہ مختلف مکتبہ فکر کے مدرسوں سے پڑھ لکھ کر آتے ہیں اور انہوں نے اپنی تمام زندگی مدرسے کے ماحول ہی میں بسر کی ہوتی ہے۔ تاہم چند مختلف مثالیں بھی ہیں۔ خصوصاً جماعت اسلامی کے مدارس میں دیگر کوالیفائیڈ اساتذہ بھی بھرتی کیے جاتے ہیں جو عموماً روایتی اداروں سے اسلامی ، عربی یا مشرقی علوم سے بہرہ ور ہوتے ہیں ۔
مدرسوں کے استاد مقامی طور پر دستیاب مرد حضرات ہوتے ہیں اور غیر ملکی اساتذہ کا ملنا ناممکنات میں سے ہے تاہم سعودی عرب اور مصر سے وظائف ملنے کے بعد پڑھ کر آنے والے چند محدود معلم ضرور موجود ہیں۔ خواتین کے مدرسوں میں خوتین استانیاں بھی ہیں لیکن ان کی تعداد مردوں کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جامعہ بنوریہ کراچی کی طرح یہ رواج بھی عام ہے کہ فارغ التحصیل طلباء اسی مدرسے میں دوبارہ پڑھانا شروع کر دیتے ہیں… کچھ مدرسوں میں ٹیچنگ کے لیے گریجویشن کو کم از کم معیار مانا گیا ہے جب کہ ترجیحاً ماسٹر ڈگری کے حامل اساتذہ کو اہمیت حاصل ہے ۔ ان کی عمر 24 سے 60 کے درمیان اور تنخواہ نہایت قلیل یعنی 5000 روپے (تقریباً 60 امریکی ڈالر ) ہوتی ہے طلباء کی طرح اساتذہ کو بھی مدرسے کی جانب سے بغیر کسی معاوضے کے رہائش فراہم کی جاتی ہے۔ عام طور پر ایک مدرسے میں 30 سے 50 اساتذہ ہوتے ہیں جب کہ جامعہ بنوریہ کی طرح بڑی جامعات میں145 کے قریب ٹیچرز موجود ہیں۔
مدرسے اور معاشرے کا رشتہ
اس حقیقت کے باوجود کہ سیاسی طور پر مدرسوں کا وجود خاصا حساس اہمیت کا حامل ہے لیکن ان کے معلم، طلباء اور انتظامی مشینری سے معاشرے میں عام طبقے کی طرح ہی برتائو کیا جاتا ہے تاہم اساتذہ میں خود ساختہ اور روایتی قدغن کا مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا ہے ۔ وہ اپنے آپ کو عمومی سرگرمیوں مثلاً موت، شادی اور پیدائش کی روایتی تقریبات تک محدود رکھتے ہیں اور عام لوگوں سے میل جول بھی مساجد میں نماز کے اوقات پر ہی موقوف ہے لوگ بھی مدرسوں کے اساتذہ سے یہ امید قائم کرتے ہیں کہ وہ مذہبی سکالرز کی طرح عام لوگوں سے فاصلہ رکھیں۔ تفریحی سرگرمیوں ، میلوں ٹھیلوں اور کھیل کود سے باز رہیں۔ ان تمام وجوہات نے اساتذہ کو مساجد ، گھر اور سکول کی حدود تک محدود کر دیا ہے اور وہ مذہبی تقریبات کے علاوہ ثقافتی یا روایتی میل ملاپ سے اجتناب برتتے ہیں۔ مخصوص خیالات کے حامل ہونے کی وجہ سے وہ اسلامی سیاسی جماعتوں سے تعلقات استوار کر کے بالآخر مذہبی فرقہ واریت کا باعث بنتے ہیں اور یوں رفتہ رفتہ مشنری جذبات انہیں عسکریت پسندی کی جانب دھکیل دیتے ہیں۔ اساتذہ کرام مخصوص لٹریچر اور مذہبی اشاعتیں پڑھتے ہیں جس سے محض ان کا ذاتی مکتبہ فکر اور عقیدہ ہی متفق ہوتا ہے یہی وہ تمام وجوہات ہیں جو کہ مدرسوں کے اساتذہ کی ذہنی تربیت اور سوچنے سمجھنے کے انداز پر پہرے بٹھا دیتی ہے۔
نتائج
ا۔ وفاداری بشرطِ استواری
عمومی رائے کے خلا ف سروے کی روشنی میں یہ حقائق سامنے آئے کہ 251 مدرسوں میں سے 172 یعنی 62 فی صد کی سیاسی وابستگی تھی، 59 فیصد مذہبی سیاسی جماعتوں سے وابستہ تھے ، 3 فی صد قومی جماعتوں سے وابستہ جب کہ 18 فی صد جہادی پارٹیوں سے تعلق رکھتے تھے اس کے علاوہ 18 فی صد مدرسوں نے کسی بھی پارٹی سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔
مدرسوں کی کثیر تعداد کا سیاسی جماعتوں کی جانب جھکائو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ مدارس سیاسی کردار ادا کرنے کو ہر دم تیار ہیں ۔ مدرسوں کی 60 فی صد انتظامیہ اس بات سے متفق تھی کہ سیاست میں حصہ لینا ایک مذہبی ذمہ داری بھی ہے یعنی بقول حضرت علامہ اقبال
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
9 فی صد مدارس محض اس وجہ سے سیاسی جماعتوں سے جڑے ہوئے ہیں کہ ان کے دیرینہ مفادات ان سے وابستہ تھے اور اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے حکومتی اداروں میں اپنا اثر رسوخ رکھنے کے حامی تھے۔ تاہم 21 فی صد اپنی قومی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے سیاسی جماعتوں کا حصہ تھے جبکہ 10 فی صد نے اپنی وابستگی کی وجوہات مخفی رکھیں۔
سروے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ دیو بندی اور جماعت اسلامی کے زیر سرپرستی چلنے والے مدارس میں بتدریج 82 فی صد اور 100 فی صد کی سیاسی وابستگی تھی۔ جماعت اسلامی کے مدارس چونکہ جماعت کے جھنڈے تلے متحد ہیں اس لیے ان کا سیاسی جھکائو اظہر من الشمس ہے جبکہ دیو بندی مدارس بھی اپنی پرانی روایات کے پیروکار سمجھے جاتے ہیں کیوں کہ ماضی میں دار العلوم دیوبند کی تحریک کے دوران 1857 کی جنگ آزادی میں ان کا کردار خاص اہمیت کا حامل رہا ہے۔ جب ان کی تحریک ناکامی سے دوچار ہوئی تو وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان میں انگریز بہادر کو فوجی طاقت کے زعم سے نہیں کچلا جاسکتا کیوں کہ برصغیر کے مسلمانوں میں تعلیم اور سماجی اصلاحات کا فقدان ہے اس لیے دار العلوم میں تعلیمی اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔ یہ مکتبہ فکر مذہبی معاملات میں بھی تبدیلی کا خواہاں تھا تاکہ برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی اور انسانی حقوق کی خاطر مضبوط آواز بلند کی جاسکے۔ چنانچہ انگریز سامراج کے عہد میں برصغیر پاک و ہند میں دیو بندی مکتبہ فکر کے سکالرز ایک مذہبی طاقت بن کر ابھرے ۔ چوں کہ موجودہ مدارس نے بھی انہی سیاسی بنیادوں پر اپنا ڈھانچہ استوار کیا ہے اس لیے وہ اپنے مکتبہ فکر کے نظریات کے امین ہیں اور پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد انہی خیالات کا پرچارکر رہے ہیں ۔ جمعیت العلمائے اسلام کے رہنمائوں کی کھیپ بھی انہیں مدرسوں کے اساتذہ کے طور پر کام کر چکی ہے اس لیے وہ اسلامی ورثے کو ہی آگے بڑھا رہے ہیں۔
دیو بندی مسلک کی طرح بریلوی سیاسی تحریک بھی خاصی فعال رہی ہے اور اس نے پاکستان بننے کی سیاسی جدو جہد میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن پھر انہوں نے اس سیاسی عمل کو جاری نہ رکھا اس سروے کی رو سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ 27 فی صد بریلوی مدارس بھی سیاسی جماعتوں سے منسلک ہیں ان کی سیاسی وابستگی نہ صرف مذہبی جماعتوں سے ہے بلکہ قومی جماعتوں سے بھی ان کا گہرا رشتہ استوار ہے جو کہ فقہ حنفی کے مسلک کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ 70 فی صد اہل حدیث اور 48 فی صد شیعہ مدارس ان سیاسی جماعتوں سے منسلک ہیں جو کہ ان کے مکاتبِ فکر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ صرف 20 فی صد مدارس سیاست کو مذہبی فریضہ سمجھتے ہوئے سیاست سے منسلک ہیں۔
فیلڈ میں سروے کرنے والوں کو یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ جب مدارس کی انتظامیہ سے فرقہ واریت یا عسکریت پسندوں سے تعلقات کے بارے میں سوالات کیے گئے تو وہ خاصے سیخ پا ہوئے حالاں کہ یہ ایسے حقائق تھے جن سے انکار ممکن نہیں تھا اور بعض مدارس کے ہاتھ رنگے ہوئے بھی تھے مگر انہوں نے تخریبی عناصر سے کسی وابستگی سے صاف انکار کر دیا۔ تاہم 18 فی صد مدارس ایسے نکلے جنہوں نے کھلم کھلا فرقہ واریت کی حمایت کی اور ایک قلیل تعداد نے عسکریت پسندوں اور جہادیوں سے روابط کا اقرار بھی کیا۔
ب۔ دہشت گردی کی جنگ متعدد مدارس نے دہشت گردی کو ایک برائی سے تعبیر کیا ہے مگر یہ نکتہ چینی مختلف تحفظات پر مبنی تھی۔ 57 فی صد مدارس نے اس رائے کا اظہار کیا کہ یہ جنگ اسلام اور مسلمانوں پر مسلط کی گئی ہے اور دہشت گردی کی آڑ میں دراصل اسلام کو بدنام کرنے اور مسلمانوں کو کچلنے کی سازش ہے۔ 31 فی صد نے اس نظریے کی بغیر کسی پس و پیش کے حمایت کی صرف 13 فی صد مدارس ایسے تھے جنہوں نے کہا کہ پاکستان کو بھی دہشت گردی کی مہم کے خلاف اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ جب کہ 77 فی صد نے مخالفت کی لیکن تمام مدارس نے دہشت گردی کے روایتی نظریے سے اتفاق نہیں کیا۔ ان کی رائے میں پاکستان کو اس وقت تحریک کا حصہ بننا چاہیے جب کہ یہ مسلمانوں اور اسلامی ممالک کے خلاف نہ ہو۔ کچھ نے امریکہ کو سب سے بڑا دہشت گرد قرار دیا۔ مزید برآں صرف 7 فی صد نے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کی حمایت کی جب کہ 81 فی صد نے مخالفت کا اظہار کیا 12 فی صد نے محض دہشت گردی کی تعریف پر بحث کی اور کوئی واضح عندیہ نہیں دیا۔
شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے 23 مدارس میں سے 16 نے مسلمانوں کے ہاتھوں دیگر مسلمانوں کے قتل کو اصل دہشت گردی سے تعبیر کیا ساتھ ہی 70 فی صد شیعہ مدارس نے پاکستان کی عالمی دہشت گردی کی جنگ میں حصہ لینے کی نہایت سختی سے مخالفت کی اور اسے استعمار کی سازش قرار دیا۔
69 فی صد بریلوی مدارس کی تقریباً نصف تعداد نے دہشت گردی کو امریکہ کی ان پالیسیوں کا شاخسانہ قرار دیا جو کہ سویت یونین کے خلاف اقدامات کا منظقی نتیجہ تھا۔ تاہم 35 فی صد نے اسے نہایت اہم مسئلہ قرار دیا جب کہ 17 فی صد نے پاکستان کو عالمی برادری کا حصہ دار بننے کی رائے کا اظہار کیا۔
جماعت اسلامی کے 14 مدارس میں سے 11 مدارس کی رائے میں دہشت گردی کی جنگ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ اسلام کو نشانہ بنانے اور عام طور پر مسلمانوں کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے۔ جماعت کے تمام مدارس نے پاکستان کو عالمی پروپیگنڈے سے علیحدہ رہنے کی خواہش کا اظہار کیا اور قبائلی علاقوں میں طالبان کے خلاف عسکری کارروائی سے باز رہنے کی ہدایت کی ۔ اہل حدیث مدارس نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ جبکہ 30 میں 5 نے اس سروے کے دوران دہشت گردی کی جنگ کو انتہائی سنجیدہ مسئلہ قرار دیا۔
دیو بندی مدارس میں سے تقریباً 20 فی صد نے دہشت گردی کی جنگ کو ایک مسئلہ ضرور قرار دیا لیکن یہ تجویز بھی دی کہ پاکستان کو اس مسئلے سے خود نمٹنا چاہیے اور مغرب کی ہدایت پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ 115 میں 103 دیوبندی مدارس نے قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن کی مخالفت کی جبکہ سندھ سے تعلق رکھنے والے 3 دیو بندی مدارس نے حکومتی عسکری کارروائی کی حمایت کی۔
ج۔ طالبان کی حمایتکسی بھی مدرسے نے اس بات کا اقرار نہیں کیا کہ انہوں نے طالبان تحریک کی کوئی عملی مدد کی ہے لیکن 43 فی صد نے افغانستان کے طالبان کی اخلاقی مدد کا اظہار کیا کیوں کہ ان کی رائے میں بیرونی قابض اور جارح فوج کے خلاف اعلان جنگ اصلِ ایمان ہے ۔ صرف 19 فی صد نے طالبان کے نظریات سے اتفاق کیا جب کہ پاکستانی طالبان اور عسکریت پسند گروہوں کی حمایت میں 29 فی صد مدارس سامنے آئے۔ 49 فی صد نے کہا کہ وہ کسی عسکری گروہ کی حمایت نہیں کرتے جب کہ 25 فی صد نے اپنی کسی رائے کا اظہار نہیں کیا۔
دیوبندی مدارس میں عسکریت پسند گروپوں کی حمایت دیکھنے میں آئی جیسا کہ 57 فی صد نے اخلاقی اور نظریاتی ہم آہنگی کا اظہار کیا لیکن ان میں سے زیادہ تعداد نے کسی براہ راست مدد سے لاتعلقی ظاہر کی۔ شیعہ مدارس میں سے کسی عسکری گروہ کی حمایت سامنے نہیں آئی جبکہ 30 میں سے 7 اہل حدیث کے مدارس نے عسکریت پسندوں کے ساتھ حمایت کی تائید کی۔
د۔ خود کش حملے اور خونی احتجاج
90 فی صد سے زائد نے پاکستان کے اندر خود کش حملوں کی مخالفت کی لیکن 2 فیصد نے حمایت بھی کی لیکن اس شرط پر کہ حکومت اسلام سے ہٹ جائے اور اپنے ہی شہریوں کے خون میں ہاتھ رنگے۔ زیادہ تر لوگوں نے عراق ، فلسطین اور افغانستان میں خود کش حملوں کو جائز قرار دیا اور یہ نتائج اُن فتاویٰ کے عین مطابق تھے جو علماء نے اس زمرے میں جاری کیے تھے۔ جن میں مسلمان معاشرے میں خود کش حملوں کو ''حرام'' قرار دیا گیا تھا جبکہ عراق، کشمیر، فلسطین اورافعانستان میں ان کارروائیوں کی حمایت کی گئی تھی۔ تاہم انہوں نے اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا کہ غیر ملکیوں کی پاکستان میں موجودگی اور ان کی پڑوسی ممالک میں دراندازی قابل ستائش تھی.
اس سروے میں 52 مدارس نے پاکستان میں خود کش حملوں کو افغانستان میں بیرونی فوجی مداخلت سے مشروط کیا اور 20 فی صد کی رائے تھی کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے کردار کی وجہ سے یہ دیکھنے پڑرہے ہیں جب کہ 12 فی صد نے غربت ، بے روزگاری اور سماجی ناانصافیوں کو مورد الزام ٹھہرایا جبکہ 8 فی صد نے مذہبی عناصر کو خود کش حملوں کا ذمہ دار قرار دیا۔
92 فی صد مدرسوں نے ملک میں برپا ہونے والے بد امنی پر مبنی احتجاج کی بھی مخالفت کی جیسا کہ جذبات بھڑکانے والے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے موقع پر دیکھنے میں آیا ۔ جب کہ ایسا ہی رد عمل PIPS کے تحت ہونے والے عوامی رائے کے سروے کے نتیجے میں بھی سامنے آیا جس میں 97 فی صد افراد نے پر امن احتجاج کی حمایت کی اور 95 فی صد نے لاقانونیت پھیلانے والے جلسے جلوسوں سے کھلم کھلا مخالفت کا اظہار کیا۔
ر۔ مدرسوں کا انتہا پسندی کے فروغ میں کردار
دراصل مدرسوں کا وجود اسلام یا اپنے اپنے مکتبہ فکر کے فروغ کے لیے عمل میں آیا تھا وہ اس نظریے کو کھلم کھلا رد کرتے ہیں کہ انتہا پسندی کے فروغ میں ان کا کوئی کردار کار فرما ہے۔ 79 فی صد نے اس سوال کا جواب نفی میں دیا کہ مدرسے انتہا پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔ انہوں نے انتہا پسند مدرسوں اور عام مدرسوں میں تمیز کرنے کے معیار کا احساس دلایا۔ 8 فی صد کی رائے تھی کہ چند مدرسے ایسے ہیں جو دہشت گردی کے فروغ میں ملوث پائے گئے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ حکومت کے حلقہ اثر میں ہیں اور بیرونی ممالک سے بھی ان کی پشت پناہی ہوتی ہے۔ جن مدرسوں نے انتہا پسندی کو اصل مسئلے کی حیثیت سے جانا، انہوں نے اس کے فروغ سے صاف انکار کیا اور امریکہ ، اسرائیل اور دوسرے مغربی ممالک پر انتہا پسندی کے فروغ بخشنے کا الزام عائد کیا جب کہ شیعہ مدارس نے دہشت گردی کے دو پہلو آشکار کیے یعنی مذہبی منافرت اور عالمی دہشت گردی جس سے مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کر کے کمزور کیا جائے اور بیرونی طور پر بھی انہیں آڑھے ہاتھوں لیا جائے۔
سروے سے دو طرح کے حقائق کا انکشاف ہوا۔ ایک تو مدرسوں کی انتظامیہ اپنے آپ کو دنیا اور اس کے معیاروں سے ماورا اور مقدس خیال کرتی ہے ۔ دوسرا وہ خود کو ذہنی طور پر ہر وقت مغرب اور پاکستان میں اس کے اتحادیوں کی سازشوں کے جال میں گھرا ہوا محسوس کرتے ہیں۔
س۔ جمہوری قوتوں کے لیے تعاون
مدارس کی اکثریت نے ملک میں جمہوری کلچر کے فروغ کی حمایت کی 73 فی صد نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ملک کے مسائل کا حل جمہوریت کی بقا میں مضمر ہے لیکن اس نظریے میں بھی کئی تحفظات سامنے آئے ۔ زیادہ تر مدرسے اس فکر کے حامی تھے کہ جمہوریت سے اسلامی اصلاحات کے نفاذ میں آسانی پیدا ہوگی۔ کچھ مدارس نے شریعت کونسل کی قانون سازی کی بجائے مذہبی سیاسی پارٹیوں کے کردار کو اہمیت دی۔ انہوں نے جمہوریت کے آزادانہ اور سیکولر نظریات کی مخالفت کی اور ایسی قدروں اور نظام کی حمایت کی جو کہ اسلام کے فروغ کا باعث بنیں۔ کسی مدرسے نے بھی 2006 کی مشرف حکومت کی اصلاحات کے حوالے سے خواتین کے حقوق کے بل کی حمایت نہیں کی۔ 72 فی صد نے ان اصلاحات کو پاکستانی معاشرے کو مغرب زدہ کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا۔ بعض نے 2006 کے Women's protection Act., کو بیرونی دبائو کا شاخسانہ قرار دیا۔
تاہم 14 فی صد مدارس نے جمہوری نظام کی مخالفت کی جب کہ 6 فی صد نے فوجی راج اور 8 نے دونوں نظاموں کو یکسر رد کرتے ہوئے خلفاء کے نظام کو نافذ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔
ص۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور گلوبل نظریات
تقریباً 73 مدارس نے پاکستانی خارجہ پالیسی کی ناکامی پر تنقید کی۔ انہوں نے امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک کو اس تمام صورت حال کا ذمہ دار قرار دیا۔ کچھ نے اس رائے کا اظہار کیا کہ بحیثیت نیوکلیئر پاور ، پاکستان کو بھی اپنے کردار کا تعین مضبوط بنیاد پر کرنا چاہیے اکثریت نے اسلام آباد کو بیرونی شکنجے میں جکڑے ہوئے ایسے دماغ سے تعبیر کیا جو بیرونی آقائوں کے حکم کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔
11 فی صد نے پاکستان کے سعودی عرب ، ایران اور بنگلہ دیش سے تعلقات کو کامیاب خارجہ پالیسی سے تعبیر کیا جب کہ 75 فی صد نے مسلم امہ کے اتحاد پر زور دیا اور کہا کہ مسلم دنیا اور پاکستان کے مسائل کا حل صرف اس بات میںمضمر ہے کہ وہ زنجیر کی طرح آپس میں جڑے رہیں۔ 75 فی صد کی رائے میں مغربی ممالک مسلم دنیا کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کے خواہاں ہیں۔ 29 فی صد اس بات پر فکر مند تھے کہ مغرب اپنی ثقافت ٹھونس کر اسلام کو کمزور کرنے کے درپے ہے۔
ط۔ مسائل کا حل
اس سروے میں جنوبی ایشیاء کے دو اہم تنازعات یعنی افغانستان اور کشمیر پر بھی رائے جانچنے کی کوشش کی گئی۔ PIPS کی ٹیم تمام تر عرق ریزی کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ متعلقہ مدارس اپنی اپنی رائے قلم بند کرانے میں پیش پیش تھے اور انہوں نے اس سلسلے میں حل اور اقدامات بھی تجویز کیے۔ تقریباً 90 فی صد نے کشمیر کے مسئلے کے پر امن حل پر زور دیا۔ ان میں سے 69 فی صد نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد سے جب کہ 23 فی صد نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان مذاکرات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کی موجودگی پر ہر فرد نے نکتہ چینی کی اور بین الاقوامی برادری کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔ جو اب تک محض خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ لیکن 9 فی صد نتیجہ ایسا بھی رہا جس نے صرف جہاد کو ہی اس مسئلے کا واحد حل قرار دیا۔ کیوں کہ نصف صدی سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ اہم مسئلہ حل طلب چلا آتا ہے اور مستقبل میں بھی کوئی راہ دکھائی نہیں دیتی ۔
اسی طرح صرف 6 فیصد نے افغانستان کے مسئلے کو جہاد سے حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا جب کہ 82 فی صد کی اکثریت نے بیرونی دستوں کی پر امن طور پر ملک چھوڑدینے کو حل کی جانب اصل پیش رفت قرار دیا۔ جب کہ 12 فی صد نے روایتی طریقے آزمانے کو یعنی جرگے کو فعال بنا کر طالبان سے مذاکرات کرنے کو اہم قرار دیا۔
اختتامیہ
پرجوش احتجاجات ، خود کش حملوں اور پاکستان میں جمہوریت کے فروغ کے حوالے سے مدرسوں اور عام لوگوں کی رائے میں بے حد مماثلت پائی جاتی ہے۔ مدرسوں کے اساتذہ کی طرح عام لوگ بھی شدت پسندوں کی جانب سے خود کش حملوں کی مخالفت کرتے ہیں۔ جہاد افغانستان کے معاملے میں بھی عوام الناس اور مدرسوں کے معلم ایک جیسی رائے رکھتے ہیں لیکن شدت پسندی کے حوالے سے دونوں طبقات میں نظریات کا تضاد دیکھنے میں آیا ہے۔ دسمبر 2008 کے گیلپ کے اعداد و شمار کے مطابق 60 فی صد پاکستانیوں نے مذہبی انتہا پسندی کو سنجیدہ مسئلے سے تعبیر کیا۔ جب کہ مدرسوں کی حد تک 31 فی صد نے اس رائے کے حق میں اظہار خیال کیا تھا۔ گیلپ سروے کے مطابق 60 فی صد لوگوں نے پاکستان کے انتہا پسندوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی حمایت کی تھی جب کہ مدرسوں کی اکثریت نے سیاسی حل پر زور دیا۔ کشمیر اور افغانستان کے مسائل کے حل کے حوالے سے بھی مدارس کے طلباء اور اساتذہ کے خیالات میں خاصا تضاد سامنے آیا تھا۔ طلباء نے انڈیا کے خلاف عسکری طاقت کے استعمال پر زور دیا جب کہ 90 فی صد اساتذہ پر امن حل کے داعی تھے۔
مذہبی معاملات میں محض مدرسوں کے سیاسی نظریات ہی صائب رائے کے حامل نہیں لیکن ان کے خیالات عوام کے جذبات کے آئینہ دار ضرور ہیں۔ آیا مدرسوں کو باقی سکولوں کے برابر سمجھنا چاہیے یا صرف مذہبی تعلیم دینے والا مکتب ہی خیال کرنا چاہیے۔ دراصل یہ ادارے سیاسی اور ثقافتی اقدار کے امین بھی ہیں چنانچہ انہیں بھی سیاسی طور پر ساتھ ساتھ چلانے کی اشد ضرورت ہے ان کی قومی دھارے میں شمولیت کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ ایسے تربیتی پروگرام اور کانفرنسوں کا اہتمام کرے جو کہ خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی تعلقات کے حوالے سے قومی پالیسی کی روشنی میں درست اقدامات پر منتج ہوں۔ یوں ہر شخص میںاپنے ملک کے شہری ہونے کی حیثیت سے ذمہ داری کا احساس جاگ اٹھے گا۔ قومی شاعر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا
ہے کہافراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ