Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
پاکستانی مدارس کے مسائل |
کرسٹین فیئر
معروف امریکی دانشور اور محقق کرسٹین فیئر کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ انہوں نے دوران طالب علمی ایک عرصہ پاکستان میں گذارا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے مسائل کی جانکاری کے حوالے سے ان کا نکتہ نظر دیگر مغربی مفکرین سے کافی یکتا ہے۔ کرسٹین فیئر آج کل امریکہ کے ادارہ برائے امن (USIP) میں سینئر ریسرچ ایسوسی ایٹ اور واشنگٹن کے معروف تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن میں سینئر تجزیہ کار کے طور پر وابستہ ہیں۔ کرسٹین کا زیر نظر مضمون ان کی کتاب "The Madrassah Challenge" کی تلخیص پر مشتمل ہے۔ جسے قارئین تجزئیات کے لیے خصوصی طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ (مدیر)
|
عمومی طور پر پاکستان میں تعلیمی نظام کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی عام تدریسی طریقہ اور دوسرا مذہبی تعلیمی مدرسوں کا نظام۔عمومی تعلیم کے لیے پبلک سکول موجود ہیں جنہیں 'سرکاری سکول ' یا 'اردو میڈیم سکول ' کہا جاتا ہے یا پھر پرائیویٹ سکولوں کو 'انگلش میڈیم سکول' کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ چاہے وہ انگریزی زبان کو بطور میڈیم استعمال کریں یا نہ کریں۔
ملک کا عام تعلیمی شعبہ برطانوی نظام تعلیم سے متاثرہے ۔ پرائمری تعلیم پانچ سالہ کورس پر مشتمل ہے۔ سکینڈری تعلیم تین سالہ مڈل اور دوسالہ ہائی اسکول کی تعلیم پر محیط ہے جب کہ پوسٹ گریجویشن میں F.A اور B.A. کی تعلیم شامل ہے ۔یوں ماسٹر اور مخصوص شعبوں کا تعلیمی سلسلہ چل نکلتا ہے حالیہ برسوں تک ان اداروں میں اسلامی تعلیم محض رسمی طور پر ہی متعارف رہی جس میں ''اسلامیات''کو لازمی طور پر پڑھایا جاتا ہے اس کے علاوہ والدین بھی اپنے بچوں کو باقاعدہ سکولوں میں بھجوانے سے پہلے ''حافظ قرآن'' بنانے کو اہمیت دیتے ہیں۔ چاہے اس کے لیے بچے کو مسجد سکول کا انتخاب کرنا پڑے یا پھر کوئی معلم گھر آکر مذہبی تعلیم سے بہرہ ور کردے۔ تاہم ان تمام تعلیمی معاملات پر گفتگو سے پہلے نظام تعلیم کے حوالے سے ایک سیر حاصل بحث درکار ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے ملک کے تعلیم اداروں کی اقسام پر روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے ۔
عمومی تعلیم ادارے
عمومی تعلیم کے لیے سرکاری اور پرائیویٹ سکول دونوں ہی سرگرم عمل ہیں۔ پبلک سکولوں میںذریعہ تعلیم اردو ہے یا پھر صوبائی زبانیں مثلاً سندھی، بلوچی، اور پشتو بھی رائج ہیں۔پبلک سکولوں کے نصاب میں انگریزی بھی بطور مضمون شامل ہے ۔ جب کہ پرائیویٹ یا غیر سرکاری سکولوں میں عموماً انگریزی کو ہی اظہار اور پڑھائی کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ ملک کے ہر حصے میں پبلک اور پرائیویٹ تعلیمی ادارے موجود ہیں جو پرائمری ، سکینڈری اور اعلی تعلیم دینے کے لیے کوشاں ہیں۔ پرائمری اور سکینڈری سکولوں پر صوبائی حکومتوں کا رنگ غالب ہے۔ پرائیویٹ یونیورسٹیاں بھی ایک نئے انداز سے ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ 1991 سے پہلے محض دو تسلیم شدہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں تھیں جن میں آغا خان اور مینجمنٹ سائنس کی لاہور یونیورسٹی سرفہرست تھیں لیکن 1997 کے بعد تعلیم کی وزارت نے مزید 10 نئی پرائیویٹ یونیورسٹیوں کو کام کرنے کا اجازت نامہ دیا ہے اور اب رسمی اسلامی تعلیم سمیت ہر سطح کے ادارے موجود ہیں۔
پبلک سکول حکومتی نصاب پڑھاتے ہیں اس لیے انہیں سرکاری سکول بھی کہا جاتا ہے اور طلبا بھی اپنے اپنے متعین شدہ بورڈز کے تحت امتحانات دیتے ہیں۔ تعلیمی پالیسی ، نصاب اور مقاصد کا تعین کرنا وفاق کی ذمہ داری ہوتی ہے جب کہ ان پالیسیوں کا نفاذ صوبوں کے کندھوں پر ہوتا ہے اس سطح کی تعلیم میں B.A.تک اسلامیات کا مضمون لازمی قرار دیا گیا ہے کیوں کہ حکومت سمجھتی ہے کہ اخلاقی اور جمہوری رویوں کو مضبوط کرنے کے لیے مذہبی تعلیم کا عنصر نہایت ضروری ہے۔
تعلیم کی وزارت نے نہ صرف اسلامیات کو نصاب کا لازمی جزو قرار دیا ہے بلکہ وہ مساجد سکولوں (مکتب) پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھتی ہے تاکہ پرائمری سطح پر اس شاخ سے بھی استفادہ ممکن ہو۔ اعداد و شمار کے اس کھیل میں زائچہ نمبر ایک سے رجوع کیا جاسکتاہے۔ جس سے مکتب اور سرکاری سکولوں کا موازنہ ممکن ہے۔
پرائیویٹ سکولوں کے متعلق بنیادی معلومات کا فقدان ہے کیوں کہ ان کی رجسٹریشن کا کوئی باقاعدہ طریقہ کار موجود نہیں۔ بہرحال پھر بھی چند معلوماتی ذرائع موجود ہیں جس سے چند حقائق منظر عام پر لائے گئے ہیں۔ کچھ پرائیویٹ سکول ایسے بھی ہیں جو کیمرج یونیورسٹی کی سطح کے امتحانات لیتے ہیں ۔ غیر سرکاری سکولوں کے حصے میں حکومت کی جانب سے نہایت قلیل مدد آتی ہے اور ان کا کوئی مصدقہ ریکارڈ بھی موجود نہیں ہے۔
مدارس کی طرح پرائیویٹ سکولوں کے متعلق طرح طرح کی باتیں مشہور ہیں ۔ پاکستان سے باہر رہنے والے عموماً یہی خیال کرتے ہیں کہ یہ سکول مخصوص طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں، مہنگے ہیں اور شہروں میں تعمیر کیے جاتے ہیں۔ حالاں کہ ان میں زیادہ تعداد ایسے پرائیویٹ سکولوں کی ہے جہاں تعلیم کی سہولت ارزاں ہے اور اسی طرح یہ دیہات میں بھی اپنا مقام بنا چکے ہیں۔ پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن آف پاکستان PEIP کی مارچ 2000 کی مردم شماری کے مطابق جس کا ریکارڈ پاکستان فیڈرل بیورو آف سٹیٹسٹکس PFBS نے مہیا کیا تھا، پاکستان کے تمام طلباء کی تعداد کا 26 فی صد حصہ پرائیویٹ سکولوںمیں زیر تعلیم تھا۔
حالیہ دنوں میں ایلڈرمین کی تحقیق بھی سامنے آئی ہے اس کی رائے میں پرائیویٹ سکول کم آمدنی والے والدین کا استحصال کر رہے ہیں کیوں کہ عموماً یہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور وہ اس سے بے خبر ہوتے ہیں کہ ان کے بچے ان سکولوں میں تعلیم حاصل کر بھی رہے ہیں یا نہیں ، مگر والدین پھر بھی اچھی تعلیم کی دھن میں انہی سکولوں کا رخ کرتے ہیں۔ اس سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ پرائیویٹ سکول کئی لحاظ سے قابل ستائش بھی ہیں کیوں کہ وہ اعلیٰ پیمانے کی تعلیم سے طلباء کو بہرہ ور کر رہے ہیں اور پبلک سکولوں سے بھی اس لحاظ سے کافی آگے ہیں۔
پچھلی ایک دھائی سے ایسے کئی سکول بھی دیکھنے میں آئے ہیں جنہوں نے اسلامی اور دنیاوی تعلیم کو ملا کر مختلف مضامین متعارف کرائے ہیں یا پھر وہ دنیاوی تعلیم کو اسلامی ماحول کے نئے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کوشاں رہے ہیں تاکہ عوام الناس کو اپنی جانب راغب کر سکیں۔ کئی نئے سکولوں نے حکومت کا سرکاری نصاب اور اعلی طبقے کا پرائیویٹ بنیادوں پر استوار کیمرج کے معیار کو روایتی اسلامی عوامل کے ساتھ ملغوبہ بنا کر بھی پیش کیا ہے۔ ایسے کچھ پروگرام تو انفرادی سطح پر دیکھنے میں آئے ہیں اور اقرأ روضة الاطفال ٹرسٹ (IRIT) جیسے پرائیویٹ سکول بھی اس سلسلے کی کڑی ہیں۔ IRIT کی لاہور میں واقع شاخ (سیدنا سید بن زید) کے منتظمین کے مطابق دیوبندی مکتبہ فکر کے سکالرز نے سب سے پہلے 1984 میں کراچی میںاپنا ٹرسٹ قائم کیا اور اس کی بنیاد رکھنے والوں نے پبلک سکولوں میںدنیاوی اور مدارس میں دینی تعلیم کو اہمیت دی لیکن وہ حضرات یہ بھی جانتے تھے کہ والدین اپنے بچوں کے لیے دونوں یعنی دنیاوی و اخروی تعلیم کے خواستگار ہیں، میتھو نلسن نے راولپنڈی کے علاقے میں 112 ، افراد سے انٹرویو لیے تو انہوں نے بھی اس نظریے کی تائید کی چنانچہ مذکورہ ٹرسٹ نے تعلیم کے ماہرین سے رابطہ کیا اور وہ بھی اس نتیجے پر پہنچے کہ عوام الناس مخلوط طرز کے تعلیمی نظام کی خواہش رکھتے ہیں۔ پاکستان میں IRIT کے فی الوقت 115 سکولوں کا لامتناہی جال پھیلا ہوا ہے۔
IRIT دو طرز کے سکولوں سے طلباء کو اپنی جانب راغب کرتی ہے ایک طرف تو سکولوں کا سیکشن ہے اور دوسری جانب مدرسے بھی قائم کیے ہیں جب کہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ سیکشن ہوتے ہیں۔ ان مدرسوں کی بنیاد رکھنے والوں نے اس بات کا خیال رکھا کہ دنیاوی اور اخروی تعلیم کو ساتھ ساتھ روشناس کرایا جائے یہی وجہ ہے کہ محض 115 شاخوں میں سکول کا نظام موجود ہے ۔ ان کی لاہور میں پانچ ، کراچی میں آٹھ ، شمالی علاقہ جات میں چار ، پشاور ، راولپنڈی اور کوئٹہ میں 2 جب کہ قصور اور گوجرانوالہ میں ایک ایک شاخ کھلی ہے۔ زیادہ تر شہروں میں طلباء اور طالبات کے لیے علیحدہ علیحدہ بندوبست ہے مگر چند شہروں میں محض لڑکوں کے لیے ہی سکول دستیاب ہیں۔
'IRIT' کے مدرسوں کے سلسلے کے چار درجات ہیں۔ سب سے پہلا کنڈر گارٹن طرز کی ''روضة الاطفال'' کہلاتی ہے اور اس میں تین سے پانچ سال کے بچوں کو داخلہ دیا جاتاہے۔ دوسرا لیول''روضہ جم'' کہلاتا ہے اور یہ دونوں پرائمری سے پہلے کے درجات ہیں۔ تیسرے درجے میں ''شعبہ قاعدہ ناظرہ'' ہے جس میں طلباء عربی زبان سیکھتے ہیں ۔اس کے بعد چوتھے درجے کا نمبر آتا ہے ، یہ ''شعبہ حفظ ِ قرآن'' کہلاتا ہے اس میں طلباء قران حکیم کو زبانی یاد (حفظ) کرتے ہیں یہ عموماً چار سالوں پر محیط ہوتاہے مگر اس کے دورانیے کا اصل دارو مدار طلباء کے قران حفظ کرنے کی استطاعت پر ہے۔ عموماً 10 سے 12 سال کی عمر کے طلباء یہ مرحلہ کامیابی سے مکمل کر لیتے ہیں۔ جب طلباء تعلیم کی اس سطح کو عبور کر لیتے ہیں تو پھر وہ سکول کی تعلیم کے لیے موزوں شمار کیے جاتے ہیں۔سکول کا سیکشن ایک سالہ کورس سے آغاز کرتاہے جو کہ مکمل حکومتی نصاب کا حصہ ہوتاہے اور یوں ایک سال میں ہی ایک گریڈ سے پانچویں گریڈ تک ترقی دے دی جاتی ہے۔ اس کے بعد چھٹے گریڈ کا آغاز کیا جاتا ہے جو بالآخر میٹرک کی تعلیم پر منتج ہوتا ہے ۔
IRIT کی یہ شاخیں صوبائی بورڈ کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں اور انہی کا منظور شدہ نصاب پڑھاتی ہیں۔ ایک سال میں پرائمری کورس پڑھنے کے باوجود یہ طلباء اچھے نمبروں سے پاس ہوتے ہیں۔ IRIT کی مقبولیت دیکھتے ہوئے دوسرے تعلیمی ٹرسٹ بھی ملتے جلتے ناموں سے سامنے آئے ہیں جن میں اقرا مدینہ، اقراریاض الطفائ، اقرا جنت الطفاء وغیرہ قابل ذکر ہیں جو کہ IRIT کے مقاصد پر ہی کام کرتے ہیں۔
''ارقم اکیڈمی'' بھی بغیر کسی نفع کے IRIT کی شاخوں کی طرح ایسے طلباء پیدا کر رہی ہے جنہیں جدید تعلیم سے بھی آراستہ کیا جاتا ہے اور وہ قرآن مجید کے حافظ بھی ہوتے ہیں۔ ارقم کا کنڈر گارٹن طرز کا دوسالہ کورس ہے جبکہ پرائمری سیکشن پانچ گریڈ پر مشتمل ہے اور وہ قرآن مجید حفظ کرانے کے ساتھ ساتھ انگریزی، جنرل نالج، حساب، الجبراء اور سائنس کی تعلیم دیتے ہیں، دوسرے اسلامی ادارے (مثلاً الھدیٰ) اسلامی تعلیم پر خاص طور پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں لیکن ان کے مقاصد میں خواتین کے گھریلو انتظام کے حوالے سے خانہ داری، غرباء کی مدد، مریضوں کی امداد، قیدیوں سے حسن سلوک اور طلباء کی تعلیم وتربیت میں مدد بہم پہنچانا شامل ہے۔
سمندر پار پاکستانیوں کے پرائیویٹ سکول '' نظامت اسلامی'' کی ملک بھر میں 2000 کے قریب شاخیں ہیں ۔ ان سکولوں میں میڈیکل کلینک بھی ہوتے ہیں جو مقامی آبادیوں کو طبی امداد مہیا کرتے ہیں ۔ ''نظامت اسلامی '' دراصل سیاسی تنظیم جماعت اسلامی کا تعلیمی شعبہ بھی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی جماعت اسلامی کے ممبران کے پرائیویٹ سکول بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ مثلاً ''گرین کریسنٹ ٹرسٹ'' نے جنوبی صوبہ سندھ میں درجنوں شاخیں کھول رکھی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جماعت اسلامی کے جھنڈے تلے تقریباً 2000 سکول کام کررہے ہیں۔ یہ سکول آزادانہ طور پر فنڈ اکھٹا کرتے ہیں ، اساتذہ کی تربیت کی جاتی ہے اس طرح یہاں سے تعلیم پانے والے طلباء پبلک اور پرائیویٹ کالج اور یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
دار العلوم اسلامیہ (اسلام آباد) لڑکوں کا جدید مدرسہ ہے طلباء یہاں دنیاوی اور اخروی دونوں تعلیمات سے بہرہ مند ہوتے ہیں اس مدرسے کی بنیاد 1986 میں رکھی گئی تھی اور اس میں کئی درجوں کی تعلیم دی جاتی ہے پہلی اور ابتدائی تعلیم قرآن حکیم کا حفظ کرنا ہے جس کے لیے 2سے 3 سال کا عرصہ درکار ہوتاہے۔ اس کے بعد ''مرحلہ متوسطہ'' ہے اس میں قرآن مجید کا ترجمہ ، حدیث، فقہ' گرائمر، عربی اور دوسرے مذہبی مضامین تین سال کے عرصے میں پڑھائے جاتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسلام آباد فیڈرل بورڈ سے منظور شدہ چھٹی سے آٹھویں سطح تک نصابی کورس بھی شامل تعلیم ہوتا ہے ۔ تیسرے درجے پر ''مرحلہ کلیہ''ہے۔ یہ چارسالہ کورس ہے جس کے مکمل ہونے کے بعد طلبا F.A. کا امتحان دیتے ہیں اس کے نتیجے میں انہیں دو ڈگریاں ملتی ہیں ایک سرکاری بورڈ سے جبکہ دوسری وفاق المدارس العربیہ سے سند کا اجراء ہے۔ جب کہ آخری ''مرحلہ علمیہ'' ہے جس کا دورانیہ دو سالوں پر محیط ہے۔ ان ٹرسٹوں کے علاوہ بھی پرائیویٹ اور پبلک شعبوں میں کئی انگلش میڈیم سکول اور پبلک سکول کام کر رہے ہیں جو حکومت کا منظور شدہ نصاب تو پڑھاتے ہیں مگر اسلامی مضامین اتنی چابکدستی سے نافذ نہیں کرتے۔
اس کے علاوہ بھی حکومت نے متعدد انگلش میڈیم سکول قائم کر رکھے ہیں جن میں انگلش اور اردو دونوں زبانوں میں مضامین پڑھائے جاتے ہیں اس قسم کے فیڈرل انگلش میڈیم سکول 88 کی تعداد میں فوجی چھائونیوں میں قائم ہیں جہاں فوجیوںکے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ مزید براں فوجی انتظامیہ کے ماتحت بھی کئی سکول چل رہے ہیں جن میں 2003-04 میں 120 سکول اور کالج قائم تھے جب کہ ائر فورس اور نیوی 27 سکول اور 29 کالج چلا رہے تھے۔
آرمی کے ماتحت فوجی فائونڈیشن نے 88 سکینڈری سکول اور چار عدد ہائیر سکینڈری سکول قائم کر رکھے تھے۔ یہ سکول فوجیوں کے بچوں سے نہایت واجبی فیسیں لیتے ہیں جب کہ عام لوگوں سے ان کی فیسوں کا معیار نہایت بلند ہے۔ اس کے علاوہ نیوی کی ''بحریہ فائونڈیشن'' اور ایئر فورس کی ''شاہین فائونڈیشن '' بھی کامیاب ہونے والے طلباء کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہی ہیں۔ رحمان کے سروے کے مطابق ، آرمی کے سکول انگریزی معیار کو ترجیح دیتے ہیں اور اپنے بچوں کو سستی تعلیم بھی مہیا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ واپڈا، ریلوے، ٹیلی فون، اور پولیس کے ادارے بھی انہی خطوط پر اپنے سکول چلا رہے ہیں۔
مذہبی تعلیمی ادارے
عمومی طور پر مذہبی سکولوں میں عربی یا اردو زبان میں تعلیم دی جاتی ہے جب کہ غیر ملکیوں کے لیے عربی کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی رائج ہے۔ عام تعلیم کے طور پر پاکستان میں کئی رسمی ادارے مصروف عمل ہیں جب کہ غیر رسمی تعلیمات میں درس قرآن کا عام گھروں میں اہتمام کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ مختلف اسلامی اسکالروں اور تنظیموں نے انٹرنیٹ پر بھی اپنا جال پھیلا رکھا ہے۔
جہاں تک رسمی اسلامی تعلیم کا تعلق ہے اسے باقاعدہ طور پر رائج کیا گیا ہے اور اپنے مکتبہ فکر کے لحاظ سے تعلیم کا دورانیہ اور تعلیمی کورس میںمناسب تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ مدرسوں میں نصاب کی تفصیل اس طرح ترتیب پاتی ہے۔
1 پرائمری یا پہلی سطح ''ابتدائیہ'' کہلاتی ہے اس میں قرآن حکیم کی تعلیم دی جاتی ہے اور اس کا عرصہ 5 سالوں پر محیط ہوتا ہے۔
2 دوسرا درجہ ''متوسطہ'' کہلاتا ہے اور 3 سال پر مشتمل یہ عرصہ مڈل کے برابر ہوتاہے اور اس میں مخصوص نصاب پڑھایا جاتا ہے جس سے استفادہ کر کے ''علمائ'' کی کھیپ تیار ہوتی ہے۔
3 تیسرا درجہ دو دو سالوں کی 6 سطحوں پر مشتمل ہے اس میں طلباء مختلف علوم کے کورس پڑھتے ہیںجو کہ عموماً ''درس نظامی'' کہلاتا ہے اور اسے ہر مکتب فکر کے نظریات کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے ۔کبھی کبھی یہ آٹھ سالہ اور چار سالہ پروگرام ''فعو کانی'' یا '' علوم کے کورس'' کہلاتے ہیں جو کہ سند حاصل کرنے سے پہلے ضروری بھی ہیں۔ ان چار درجوں میں پہلی سطح ''تنویحہ عامہ'' ہے جب کہ اس کے بعد ''تنویحہ خاصہ'' کا نمبر آتا ہے۔ مزید 2 اگلے سال درجات ''عالیہ'' اور ''علمیہ'' ہیں۔ طلباء ''علمیہ'' مکمل کرنے کے بعد ''درس نظامی'' کا نصاب مکمل کر لیتے ہیں۔ اور یہ ڈگری M.A. کے برابر تصور ہوتی ہے اور عرف عام میں اسے اسلامیات یا عربی میں ماسٹر کہا جاتا ہے۔
4 اسلامی تعلیمات جو کہ پوسٹ گریجویٹ کی سطح کے برابر ہیں ''تکمیل'' کہلاتی ہے ۔ یہ درجہ مزید ایک سال یا اس سے زائد مخصوص تعلیم حاصل کرنے کے بعد حاصل ہوتا ہے ۔
عمومی طور پر دو اقسام کی رسمی اسلامی تعلیم ، مکتب اور مدرسے کی سطح سے اپنا آغاز کرتی ہے ۔ پرائمری یا ابتدائیہ کی تعلیم مسجد سکول یا مکتب سے ملتی ہے۔ طلباء کی یہ جماعتیں مسجد یا کسی گھر کی چار دیواری میں بھی منعقد کی جاتی ہیں اور اس درجے میں طلباء کی عمر 5 سے 9 سال کے درمیان ہوتی ہے۔ مکتب کا نصاب ناظرہ قرآن اور حفظ قرآن تک محدود ہوتا ہے اور یہ طلباء تمام دن مکتب میں نہیں پڑھتے ۔ عموماً صبح اور دوپہر کو کلاسوں کا انعقاد ہوتا ہے اور دن کو وہ عام سکولوں میں ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ جب کہ مکتب سکول کے برعکس مدرسہ ایک مکمل اسلامی ادارہ تصور ہوتا ہے جہاں پوری اسلامی سائنس یعنی قرآن ، حدیث، فقہ، صرف و نحو، زبان دانی اور دوسرے ضروری مضامین کی تعلیم دی جاتی ہے۔
اگر مکتب سکولوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو مدرسے میں ان کی نسبت سکینڈری ، ہائیر سکینڈری اور بعض اوقات پوسٹ سکینڈری تعلیم بھی مروج ہے اور یہاں سینکڑوں طلباء تعلیم حاصل کرتے ہیں اور تمام دن کلاسیں لگتی ہیں۔ کچھ مدرسوں میں دن کو تعلیم دی جاتی ہے اور بعض میںرہائش کا انتظام بھی ہوتا ہے۔ ان مدرسوں کی پہچان اس طرح بھی کی جا سکتی ہے کہ کالج کی سطح کا ادارہ ''جامعہ'' کہلاتاہے جب کہ یونیورسٹی لیول کے مدرسے کو ''در العلوم'' کہا جاتا ہے طلباء اپنی پسند کے مضامین اور مروجہ نصاب کے مطابق مدارس کا انتخاب کرتے ہیں۔
حکومت پاکستان وقتاً فوقتاً تعلیمی پالیسی کا اعلان کرتی رہتی ہے اسی زمرے میں 1970 میں بھی ''نئی تعلیمی پالیسی'' متعارف کرائی گئی جس میں مکتب اور مدارس کے کردار کی اہمیت کو محسوس کیا گیا۔ اس دور کے سروے کے مطابق اس وقت مغربی پاکستان میں تقریباً 700 مکتب طرز کے سکول قائم تھے۔سقوط مشرقی پاکستان کے بعد 1972~80 کی تعلیمی پالیسی کا اعلان ہوا۔ جس میں پرائیویٹ اداروں کو حکومتی ہدایت کی روشنی میں غیر سرکاری سکول کھولنے کی اجازت دی گئی۔ 1970 کی دہائی کے دوران حکومت نے نئے مساجد سکولوں کی حوصلہ افزئی کی اور پہلے سے موجود مکاتب کو بھی مضبوط کیا۔ 1990 کی دہائی میں مکتب سکولوں میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا۔ 1992 میں نیشنل ایجوکیشنل پالیسی میں ان سکولوں میں جدید سائنسی اور فنی تربیت کے فقدان کی وجہ سے عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا۔
تعلیمی سکولوں میں داخلے اور پڑھائی کے رجحانات
پاکستانی سکولوں میں داخلے کا رجحان خاصا کم ہے جب کہ شرح تعلیم بھی کم ہے۔ لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان بھی تعلیمی مقابلے کا فقدان ہے اور یہ خلیج مسلسل وسیع ہوتی جارہی ہے۔ اسلامی تعلیم بھی محض سطحی ہے جس سے اسلام کا آفاقی تصور خاصا مجروح ہوکر سامنے آیا ہے۔ سوشل پالیسی اور ڈویلپمنٹ سنٹر (SPDC) کے 2001 کے اعداد و شمار کے مطابق پورے پاکستان میں پرائمری کی سطح تک داخلوں کی شرح 74.2 فی صد تھی جن میں 83.9 فی صد لڑکے اور 63.9 فی صد لڑکیاں تھیں جب کہ سکینڈری سکول کی سطح تک داخلے کی شرح 28.4 فی صد رہی ۔ لڑکوں اور لڑکیوں کی نسبت کے لحاظ سے بالترتیب 33.1 فی صد اور 28.4 فی صد تھی اور تعداد چھٹی سے دسویں جماعت کے بچوں پر مشتمل تھی۔ جب کہ اقوام متحدہ کا ترقیاتی انڈیکس برائے سال 2003 اور بھی ہو ش ربا نتائج سامنے لایا ہے جس کے تحت پرائمری تعلیم کے اداروں میں داخلوں کی شرح 59 فی صد رہی ۔ جب کہ پرائمری اور سکینڈری کی مشترکہ شرح داخلہ 35 فی صد رتھی۔ لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں کی سکولوں میں داخلے کی شرح بھی حیرت انگیز حد تک کم رہی۔
2002 کے سروے کی روشنی میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ مجموعی طور پر تعلیم کا حصول خاصا کم رہا ہے۔ یعنی سکول کا سالانہ عرصہ اوسطاً 6.2 جماعتوں پر محیط رہا جن میں خواتین کی شرح 3.5 فی صد رہی۔ جب کہ پاپولیشن کونسل کے اس سروے کی رو سے 36فی صد نے سکول کا رخ ہی نہیں کیا جن میں 46 فی صد لڑکیاں اور 16 فی صد لڑکے تھے۔
تعلیمی دھارے میں شامل مختلف سکولوں میں شرح داخلہ
پاکستان کے تعلیمی شعبے میں شامل تینوں مرکزی دھارے اپنا اپنا حصہ ادا کرتے نظر آتے ہیں ان میں پبلک یعنی سرکاری ادارے، پرائیویٹ سکول اور مدرسے شامل ہیں، نیشنل ریپریذنٹیٹو سروے آف پاکستان اور PIHS کی سروے رپورٹ کے مطابق مدارس کی تعلیم نسبتاً دوسرے سکولوں سے کم ہے اور اس کی شرح تمام دن کی حاضری کی بنیاد پر 0.9 فی صد ہے جب کہ سرکاری سرپرستی میں چلنے والے سکولوں میں زیر تعلیم طلباء کی تعداد 73 فی صد اور پرائیویٹ سکولوں میں یہ تناسب 26 فی صد ہے۔ شہری اور دیہاتی حوالے سے بھی خاصا تغیر پایا جاتاہے۔ مثلاً مدارس کا شہری تناسب 0.7 فی صد سرکاری سکول میں ، شہری مارکیٹ کا حصہ 62 فی صد اور 37 فی صد پرائیویٹ سکولوں کے حصے میں آتا ہے۔ دیہی علاقوں کے مدارس میں 1.1 فی صد طلباء داخلہ لیتے ہیں۔ سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں میں دیہی طلباء کا تناسب بالترتیب 83 اور 17 فی صد ہے ۔
سماجی اور اقتصادی پس منظر کا پہلو
PIHS کے (2001) سروے نے سماجی اور اقتصادی پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر ایک تفصیلی سروے ترتیب دیا جو کہ مذکورہ تینوں مکاتب فکر کے سکولوں کے طلباء کے اعداد و شمار پر مشتمل تھا اس تجزیے کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوئی کہ مدارس میں زیر تعلیم کل0.9 فی صد طلباء کے سرپرست افراد (یعنی43 فی صد) کی سالانہ آمدنی 50,000 (865 ڈالر) سے بھی کم تھی اور ایک بڑا حصہ یعنی 50,000/- روپے سے لے کر 1,00,000/- روپے سالانہ آمدنی والے افراد پر مشتمل تھا جب کہ 16 فی صد ایسے خاند ان تھے جن کی سالانہ آمدنی 1,00,000/- روپے (1730 ڈالر) اور 2,50,000/- روپے (4325 ڈالر) کے درمیان تھی۔ جب کہ مزید 12 فی صد طلباء کا تعلق ایسے خاندانوں سے تھا جن کی سالانہ آمدنی 2,50,000/- سے زائد تھی۔ (میزانیہ نمبر 3 ملاحظہ کریں)۔
سرکاری اردو میڈیم سکولوں کے طلباء جو کہ تمام پرائمری طلباء کا 73 فی صد بنتے ہیں ، کے اعداد و شمار بھی مدرسوں کے اعداد و شمار کے برابر ہی ہیں جب کہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ عمومی اوسط آمدنی 93,684/- روپے (1620 ڈالر) بنتی ہے۔
اندرابی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان والدین سے رابطہ کیا جنہوں نے ترجیحی طور پر اپنے بچوں کو سکولوں اور مدارس میں داخلہ دلوایا۔ دراصل وہ ایسے نتائج جاننا چاہتے تھے کہ کن وجوہات کی بنا پر کنبے کے لوگ کم از کم ایک فرد کو مدرسے میں ضرور بھجوانا چاہتے ہیں یا پھر اس کے بالکل برعکس عمل کرتے ہیں۔
پنجاب چونکہ سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے چنانچہ یہاں مدرسوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں یہی وجہ ہے کہ اندرابی کے سروے کے مطابق جو کہ 2003 میں ترتیب دیا گیا، سے یہ بات سامنے آئی کہ سب سے زیادہ مدرسے پنجاب ہی میں موجود ہیں۔ سلیم منصور خالد کے 2000 کے سروے میں پنجاب میں کل تعداد 3153 بتائی گئی جب کہ ملک میں کل 6741 مدرسے موجود تھے۔
اندرابی کی تحقیق کے مطابق یہ مدارس اسلامی نظریے کی اصل روح سے خاصے دور ہیں اور والدین ان معاملات میں معصوم واقع ہوئے ہیں۔ اندرابی نے مدرسوں کی جانب والدین کی رغبت کے کچھ نتائج مندرجہ ذیل بنیاد پر اخذ کیے ہیں۔
ان علاقوں میں جہاں سرکاری اور غیر سرکاری سکول موجود ہیں وہاں آمدنی کی شرح کے مطابق والدین اپنے بچوں کے داخلے کراتے ہیں ۔ تاہم 30 فی صد کے قریب کم آمدنی والے کنبے اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں بھیجتے ہیں اور ان علاقوں میں مدرسوں میں داخلے کی شرح بلا تفریق امیر و غریب ایک فی صد سے بھی کم رہی۔ ایسے علاقے جہاں صرف سرکاری یا پرائیویٹ سکول بنائے گئے تھے وہاں بھی داخلوں کی صورت حال پہلے سروے سے مختلف نہیں پائی گئی۔ تاہم وہ مقامات جہاں سرکاری اور غیر سرکاری دونوں سکول موجود نہیں وہاں نتائج کچھ مختلف رہے۔ لوگوں نے عموماً بچوں کو مدرسوں میں بھیجنے کی بجائے انہیں ناخواندہ رکھنے کو ترجیح دی اور عدم دلچسپی کی یہ گرتی ہوئی شرح کچھ یوں رہی کہ غریب لوگوں میں 70 سے 40 فی صد اور صاحب ثروت حضرات میں 87 فی صد سے 68 فی صد رہی۔
اندرابی کی رائے کے مطابق جغرافیائی طور پر منقسم علاقوں کے مدرسوں میں داخلے کے مختلف رجحانات دیکھنے میں آئے ہیں 1998 کی مردم شماری کے ڈیٹا کی رو سے مدرسوں کی مارکیٹ کی حصہ داری کے زمرے میں سب سے آگے جو دس مدارس تھے ان تمام کا تعلق پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ واقع صوبہ سرحد اور بلوچستان سے تھا۔ اندرابی کی ٹیم کے سروے کے مطابق انتہا پسند مدرسوں کی تعداد یعنی جہاں 2 فی صد سے زائد مارکیٹ حصہ داری ہوتی ہے وہ پاکستان کے 14 اضلاع میں پائے گئے اور بعض مدرسوں میں یہ حصہ داری 9 فی صد تک بھی رہی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مردم شماری کے دوران فاٹاکو شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی وہ اس سروے میں موجود ہیں ۔ یہ اضلاع لسبیلا، خاران، قلات، کوہلو، لورالائی، قلعہ عبداللہ، خوست، پشین، ہنگو، کرک، لوئر دیر، شانگلہ، بونیر اور چترال پر مشتمل تھے۔
سکولوں میں داخلے کا رجحان اور رکاوٹیں
سودا لکشن کی تحقیق نے بھی کئی مضبوط نکات پر روشنی ڈالی ہے۔ سب سے اہم یہ کہ لڑکیوں کے داخلے کے حوالے سے کئی مسائل سامنے آئے ہیں۔ یعنی معاشرے میں لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کی تعلیم کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ۔ لڑکیوں کے پرائمری اور سکینڈری سکولوں کی کمی بھی آڑے آئی ہے ۔ اندرابی کی رائے بھی اس نظریے کو مستحکم کرتی ہے کہ تعلیمی مارکیٹ میں خواتین کے لیے وسائل کی کمی انہیں قومی دھارے سے علیحدہ کردیتی ہے۔
دوسری اہم وجہ خواتین اساتذہ کی کمی ہے۔ چاہے گرلز سکول گھر کے قریب ہی کیوں نہ واقع ہو۔ خواتین ٹیچرز کے نہ ہونے کی وجہ سے والدین اپنی بچیوں کو سکول بھیجنے سے کتراتے ہیں۔ چوہدری کی رائے کے مطابق اگر بچیوں کو پیسوں کی ترغیب بھی دی جائے یعنی وظائف مقرر کر دیے جائیں مگر خواتین اساتذہ کا بندوبست نہ ہو تو تب بھی دیہات کے سکولوں میں لڑکیاں داخلہ لیتے ہوئے ہچکچاتی ہیں۔اس لیے سکول تک رسائی بھی قریب ہونی چاہیے کیوں کہ والدین بچیوں کی عزت کے معاملات کو سب سے مقدم تصور کرتے ہیں۔ اگر سکول دور ہوں تو وہاں تک گاڑی کے اخراجات ، مرد ڈرائیوروں کا رواج بھی والدین کے لیے برداشت سے باہر ہوتاہے اور وہ اسے غیر محفوظ بھی جانتے ہیں۔ مثلاً مرد عورتوں کو ورغلا سکتے ہیں، میل جول بڑھ سکتا ہے اور منفی سرگرمیوں میں اضافہ ممکن ہے جس سے خاندان کی بدنامی کا امکان موجود رہتا ہے۔
سودا لکشن کی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بعض والدین اس لیے بھی اپنے بچوں کو سکول نہیں بھیجتے کہ اساتذہ تربیت یافتہ نہیں ہوتے ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح براہ راست اخراجات مثلاً سکول ، کتابیں، یونیفارم، اور ضروری اشیاء کی خریداری کے مواقع کے فوائد مثلاً گھریلو کام کاج، اور بچوں سے محنت مشقت لینے سے محرومی کی شکل میں سامنے آتا ہے اور بچوں کے مستقبل کے متعلق بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ مزید برآں اگر والدین پڑھے لکھے ہوں تو بچوں کی تعلیم کے متعلق فکرمند بھی ہوں گے، ورنہ نتائج اس کے الٹ بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ والدین کی وراثت اور تنخواہ بھی بچوں کی تعلیم کی راہ میں حائل ہوتی ہے۔ کیوں کہ اولاد کی بیماریاں یا قریبی عزیز کے فوت ہونے کی صورت میں اخراجات کا بار بھی بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ کا موجب بن جاتا ہے۔
پاکستان جیسے ملک میں غیر تربیت یافتہ اور نا اہل خواتین ٹیچر جو کہ پہلے ہی تعداد میں کمی کا شکار ہیں۔ خواتین کی تعلیم کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس سلسلے میں کم از کم لڑکیوں کے پرائمری سکولوں کی تعداد بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔
اسلامی تعلیم کے لیے فنڈ کی فراہمی
پاکستان کے سرکاری نظامِ تعلیم کو فنڈ کی کمی کی وجہ سے تمام دنیا میں تنقید کا سامنا ہے۔ محض 2003 میں دفاعی اخراجات پر GDP کا 4.8 فی صد حصہ صرف ہوا۔ جب کہ پبلک ہیلتھ اور تعلیم کے معاملے میں سب سے کم بجٹ رکھا گیا جو کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں GDP کی سب سے کم شرح ہے۔ اقوام متحدہ کی ہیومین ڈویلپمنٹ رپورٹ کے مطابق پاکستان ان سات ممالک میں آخری ملک تھا جو محض GDP کا 2 فی صد سے بھی کم تعلیم پر صرف کرتا ہے۔
تاہم جنوری 2002 میں مدرسوں اورسکولوں میں اصطلاحات کے حوالے سے کچھ کام سامنے آیا اس میں حکومت نے تعلیمی اصلاحات کے نام سے کام کا آغاز کیا جس میں یہ طے پایا کہ سکولوں کو گرانٹ فراہم کی جائے گی، ٹیچرز کی تنخواہوں میں اضافہ ہو گا اور ان کی باقاعدہ تربیت کی جائے گی۔ طلباء کو مفت کتابیں فراہم کی جائیں گی اور لیبارٹریوں کو ضروری سامان سے لیس کیا جائے گا۔ تعلیمی اصلاحات کا یہ بھی مقصد ہے کہ مروجہ نصاب میں روایتی مضامین کے ساتھ انگریزی ، سوشل اور پاکستان سٹڈیز اور جنرل سائنس وغیرہ رکھی جائے، جب کہ پرائمری مڈل اور سکینڈری سطح پر اکنامکس اور کمپیوٹر سائنسز کا اضافہ کر دیا جائے اور پانچ سالہ منصوبے کے تحت یہ نصاب مدارس میں بھی متعارف کرادیا جائے گا۔اس سلسلے میں حکومت نے 2005 میں جدید مدارس کا قیام کراچی سکھر اور اسلام آباد میں عمل میں لایاجب کہ اسلام آباد کا مدرسہ صرف خواتین کے لیے مخصوص تھا۔
سکول اور مدارس کو فنڈ کی ترسیل کے حوالے سے ابھی تک کوئی خاص ریکارڈ سامنے نہیں آیا جب کہ مدرسوں کی انتظامیہ نے آگاہ کیا کہ انہیں معاشرے کے مخیر حضرات فنڈ فراہم کرتے ہیں ، اس لیے انہیں کسی مالی معاونت کی ضرورت نہیں۔
کراچی میں جامع بنوریہ کا مدرسہ اپنی مثال آپ ہے اس کا رقبہ 12 ایکڑ زمین پر مشتمل ہے جس میں فیملی ریسٹورنٹ اور طلباء کی کینٹین موجود ہیں، شادی ہال، بیکری، اور دوسرے تجارتی مراکز اس مدرسے کی آمدن کا ذریعہ ہیں۔ کچھ مدارس ایسے بھی ہیں جنہیں طلباء کے لیے کھانا اور کچن کی دیگر اشیاء وافر مقدار میں ملتی ہیں مگر مدرسوں کی انتظامیہ اسے زکوٰة سے تعبیر نہیں کرتی۔ تاہم مذہبی امور کی وزارت ان طلباء کو زکوٰة کا مستحق سمجھتی ہے جو زکوٰة فارم کی تصدیق کروا کر جمع کرائیں چاہے ان کا تعلق کسی سکول یا مدرسے سے ہی کیوں نہ ہو۔ بعض مدرسوں کے طلباء کئی حوالے سے بورڈنگ، کتابیں اور ٹیوشن کی مد میں بھی زکوٰة کی رقم وصول کرتے ہیں۔
تعلیم کی مارکیٹ میں اہمیت
تعلیمی نظام کی اس دوڑ میں انگریزی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ تمام ادارے ایسے طلباء کو ملازمتوں کے لیے ترجیح دیتے ہیں جو انگریزی پر عبور رکھتے ہوں جب کہ اسلامی مدرسوں سے آنے والے گریجویٹس کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔عمومی گھرانوں میں ایک آدھ بچے کو اسلامی تعلیم اور قرآن حفظ ضرور کرایا جاتا ہے کیوں کہ والدین سمجھتے ہیں کہ یہ عمل ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بخشش کا موجب ہے۔
اندرابی کی ریسرچ کے مطابق خاندانوں میں کم از کم ایک بچے کو اسلامی مدرسے میں داخل کرنے کے حوالے سے 23.5 فی صد والدین رضامند تھے جب کہ 50 فی صد کی اکثریت نے مدرسے اور سرکاری سکول دونوں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی جب کہ دوسرے 28 فی صد طلباء نے مدرسے اور پرائیویٹ سکولوں سے ملی جلی تعلیم حاصل کی ۔
پاکستان چونکہ اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا اسی لیے اسلامی تعلیم محض مدرسوں میں ہی موجود نہیں بلکہ پاکستان کے 70 فی صد طلباء جو کہ سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم ہیں وہاں بھی انہیں اسلامی تعلیم سے روشناس کرایا جاتا ہے۔ مدرسوں میں طلباء کو روایتی اسلامی تعلیم دی جاتی ہے، جو کہ فل ٹائم اسٹوڈنٹس کی بنیاد پر تمام ملک کا ایک فی صد بنتا ہے ان طلباء میں غریب اور نادار بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہوتی ہے جب کہ 12 فی صد کا تعلق پاکستان کے امیر گھرانوں سے اور تقریباً ایک تہائی درمیانی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
اسلامی سکولوں کا ایک جائزہ
حکومتی ڈیٹا کے مطابق مختلف ادوار میں دینی مدرسوں کی تعداد پھلتی پھولتی رہی ہے نیچے دیے گئے میزانیے میںمکمل کوائف پیش ہیں جو کہ مذہبی امور کی وزارت کے 1979 کے سروے اور وزارت تعلیم کے 1988، 2000 کی رپورٹوں اور خالد کے جمع کیے ہوئے اعداد و شمار پر مشتمل ہے۔
مدارس اور مکاتب (مکتب کی جمع) کے درمیان کئی مماثلتوں کے باوجود نصاب اور پرائمری مقاصد کے لحاظ سے بنیادی فرق نمایاں ہے۔ مکتب کے برعکس مدرسہ ، درس نظامی یا عالم کورس نہیں کراتا جو کہ عالم بننے کی بنیادی شرط ہے۔ یہ نصاب ملا نظام الدین سہالوی (تاریخ وفات 1748 ) نے ترتیب دیا جو کہ اسلامی فقہ اور فلسفے کے ماہر تھے اور لکھنوء میں فرنگی محل میں واقع مدرسے میں درس دیتے تھے۔
ملا نصیر الدین طوسی (تاریخ وفات 1064)نے جو مدرسہ نظامیہ گیارہویں صدی میں بغداد میں قائم کیا تھا اس کا نصاب لکھنو میں قائم مدرسے سے مختلف تھا۔ اہل سنت کے تمام مکاتب فکر بشمول بریلوی، اہلحدیث، جماعت اسلامی یا دیوبندی مدارس یہی نصاب پڑھاتے تھے جو کہ 1867 میں ہندوستان کے دیوبندی مدرسے میں بھی رائج تھا۔ بعد ازاں تمام مکاتب فکر نے اپنی اپنی فقہی ضروریات کے مطابق اس میں ترامیم کر لیں۔ شیعہ فقہ میں بھی ایسا ملتا جلتا نصاب موجو د ہے۔
عالم کورس کے لیے سنی مدارس میں عموماً 8 سال لگتے ہیں جو کہ مڈل یامیٹرک کے بعد شروع کیا جاتا ہے۔ جب کہ خواتین طلباء کو 2 سال کی رعایت دی جاتی ہے تاکہ وہ جلد اپنا گھر بساسکیں۔ کچھ مدارس میں تعلیم کا یہ دورانیہ زائد بھی ہے کیوں کہ وہاں دنیا بھر کے نصاب کو مدنظر رکھ کر پڑھایا جاتا ہے۔
عالم کورس اور درس نظامی کا نصاب تقریباً 20 مضامین پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ دو اقسام میں منقسم ہوتا ہے یعنی العلوم النقلیہ (جنرل سائنس) اور العلوم العقلیہ (سائنس)۔ ان میں سے آدھے مضامین مذہبی سکالروں نے لکھے ہیں جو کہ سیرت النبی، حدیث ، تفسیر ، اسلامی قوانین، فقہ، صرف و نحو، عربی لٹریچر، منطق اور مختلف نظریات پر مبنی ہیں جب کہ دوسرے مضامین میں حکمت ، حساب ، فلکیات، تاریخ، فلسفہ، عالمی مذاہب کا تقابلی جائزہ اور طب کی تعلیم شامل ہوتی ہے۔
ضیا الحق نے علمیہ کی سند کو M.A. کے برابر درجہ دیا جو کہ ایم اے ، اسلامیات یا ایم اے اسلامک اسٹڈیز کہلاتی ہے۔ پھر 2002 کے جنرل الیکشن میں الیکشن کمیشن نے کم از کم بی۔اے کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کی شرط کی وجہ سے مذکورہ سند یافتہ علماء کو ایم۔اے کے برابر درجہ دیا۔
ملک میں موجود تمام مدارس تعلیمی بورڈز کی طرح ایک وفاق سے جڑے ہوئے ہیں یہ پانچوں وفاق ہر مسلک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ چار بورڈ زسنی الخیال یعنی دیوبندی، اہلحدیث ، بریلوی اور جماعت اسلامی مکاتب فکر کے لیے قائم کیے گئے ہیں جب کہ ایک وفاق (بورڈ) شیعہ مسلک کے لیے مخصوص ہے۔
دیو بندی مکتب
دیوبندی مسلک کے بانیوں میں مولانا محمد قاسم نانوتوی (1877-1833) اور مولانہ رشید احمد گنگوہی (1905-1829) شامل ہیں ۔ انہوں نے مدرسہ دارالعلوم کی انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے شہر دیوبند میں بنیاد رکھی۔ جس کے نصاب میں درس نظامی شامل تھا۔ یہ علماء خیال کرتے تھے کہ اسلام میں صوفی ازم ہندو نظریات سے در آیا ہے لہٰذا اسے ان فرسودہ نظریات سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میںجے۔یو۔آئی(ف)اور جے۔یو۔آئی (س)اس فلاسفی سے متاثر ہیں جب کہ دیگر ہم خیال جماعتوں میں شیعہ مخالف لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ پاکستان بھی وجود میں آئیں۔ ان تنظیموں نے افغانستان میں 1980 کی دہائی میں روسی دراندازی کے خلاف آپریشن میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
بریلوی مکتبہ فکر
ہندوستان میں بریلوی تحریک کے بانی احمد رضا خان بریلوی (1921-1856) کو سمجھا جاتا ہے۔ بریلوی مسلک ایک صوفی تحریک بھی کہلاتا ہے ۔ یہ لوگ مزارات ، عرس اور قوالی کے رسیا ہیں۔ پیروں، ولیوں سے انہیں خاص محبت ہوتی ہے
اہلحدیث سکول
اس مکتبہ فکر کا آغاز 19 ویں صدی میں بھوپال (انڈیا) میں ہوا اس تحریک کی بنیاد رکھنے والوں میں مشہور مذہبی اسکالرز سید احمد بریلوی (وفات1831 ) ، شاہ ولی اللہ دہلوی (وفات 1832 ) شامل ہیں یہ ایک اصلاحی تحریک تھی جو اسلام میں غیر مذہبی عناصر کے جذب ہونے کے خلاف وجود میں آئی تھی۔ یہ تحریک سعودی عرب کی وہابی تحریک سے ملتی جلتی ہے۔ اہل حدیث کے مدارس میں بھی درس نظامی ہی پڑھایا جاتا ہے مگر ان کا ارتکاز قرآن اور حدیث کے اردگرد زیادہ ہے۔ یہ لوگ ورثہ جیسی معاشرتی روایات سے انکار کرتے ہیں اور عرس وغیرہ کے بھی مخالف ہیں۔
جماعت اسلامی
جماعت اسلامی کی سیاسی جماعت کی بنیاد سید ابواعلٰی مودودی نے 1941 میں رکھی۔ وہ 1979 میں فوت ہوئے۔ یہ ایک نظریاتی جماعت ہے۔ مودودی صاحب خود بھی دیوبندی مسلک سے متاثر تھے۔ یہ جماعت مسلمانوں کے لیے ایک امہ کے حوالے سے کام کرتی ہے۔ اس کی شاخیں ہندوستان، کشمیر، بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی اپنا وجود رکھتی ہیں۔ جب کہ مدرسوں کا نصاب بھی درس نظامی پر ہی انحصار کرتا ہے مگر یہاں طلباء سیاست، اقتصادیات اور تاریخ سے بھی استفادہ کرتے ہیں تاکہ مغربی نظریات سے کما حقہ مقابلہ کیا جاسکے۔ ان کے عسکری گروہ مثلاً حزب المجاہدین اور البدر بھی خاصے فعال ہیں۔ مصر کے اخوان المسلمین، القاعدہ اور ایرانی مسلم، تحریکوں سے بھی جماعت کے روابط ہیں۔
شیعہ مکتبہ فکر
دیگر چار مکتبہ فکر کی طرح شیعہ سکول میں بھی مدارس موجود ہیں یہاں بھی درس نظامی ہی رائج ہے مگر نصاب میں مختلف کتب پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ لوگ اہل بیت رسولۖ سے نسبتاً زیادہ عقیدت رکھتے ہیں۔ ماضی میں چند شیعہ انتہا پسند گروپ بھی سامنے آئے مگر حکومت نے جلد ہی ان کا شیرازہ بکھیر دیا۔ ان کی سیاسی جماعت تحریک جعفریہ کے نام سے موجود ہے اور یہ MMA کا حصہ بھی ہے۔
پاکستان میں تمام مدارس کا ہم خیال سیاسی پارٹیوں سے ملاپ رہتا ہے ۔ اور یہ جماعتیں ان طلباء کو سٹریٹ پاور کے طور پر بھی استعمال کرتی رہی ہیں اور ان کی پشت پناہی میں بھی پیش پیش ہیں۔
مدرسے اور عسکریت پسندی کا تعلق
حالیہ سروے کی روشنی میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انتہا پسند عناصر کو سامنے لانے میں مدرسوں کا کردار اتنا اہم نہیں جتنا کہ عموماً خیال کیا جاتا رہا ہے ۔ مارک سیج مین، ایلن کروگر، پیٹر برگن، کلاؤڈ بیری بی اور خود میں نے جو معلومات اکھٹی کی تھیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عسکریت پسندوں کی اکثریت جنہوں نے 1980 کی دہائی میں افغانستان اور کشمیر کے جہاد میں حصہ لیا اوسط درجے کی تعلیم سے کچھ زیادہ پڑھے لکھے تھے۔ تاہم اس سے بھی انکارممکن نہیں کہ خود کش بمباروں کی ایک قلیل تعداد مدرسوں سے ہی فارغ التحصیل تھی۔
تعلیم اور عسکریت پسندی کے حوالے سے میں نے ایک تفصیلی سروے ترتیب دیا۔ اس مقصد کی خاطر ان گھرانوں کا انتخاب کیا جن میں سے ہر کنبے کا کم از کم ایک فرد 2004 میں افغانستان اور کشمیر میں شہید ہو چکا تھا۔ یہ سروے 141 مجاہدین کے اعداد و شمار پر مشتمل تھا اور ان میں سے مدرسوں سے آنے والے شہداء کی تعداد محض 19 تھی اور اتنی ہی تعداد سرکاری سکولوں سے فارغ التحصیل طلباء کی تھی جب کہ 50 عسکریت پسند دوستوں کی وساطت سے آئے تھے 32 مساجد سے اور 27 مجاہدین مختلف گروہوں کی ترغیب سے اور 13کو ان کے رشتہ داروں نے جہاد کے لیے اکسایا تھا۔ مدرسے نے بھرتیوں کے حوالے سے بنیادی کردار ادا نہیں کیا۔ 141 میں سے محض33 مجاہدین ایسے تھے جنہوں نے کبھی مدرسے کا منہ دیکھا تھا ، اس پر مستزاد یہ کہ ان 33 نوجوانوں میں سے بھی 27 نے محض چار سال یا اس سے بھی کم عرصے تک مدرسے میں پڑھا تھا اورزیادہ تر سرکاری سکولوں سے ہی تعلیم مکمل کر کے آئے تھے۔ جبکہ دوسری جانب 141 میں سے 82مجاہدین خاصے پڑھے لکھے تھے اور کم از کم میٹرک تک تعلیم حاصل کر چکے تھے۔ جب کہ 9 شہداء ایسے تھے جنہوں نے روایتی تعلیم بھی حاصل نہیں کی تھی۔
حالیہ گرفتار شدہ خود کش بمبار افراد سے لیے گئے انٹرویو سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان کی زیادہ تعداد ان نوجوانوں پر مشتمل تھی جو جاہل اور غریب تھے اور ان کو وزیرستان کی قبائلی ایجنسیوںمیں واقع مدارس میں تربیت دی گئی تھی۔
سروے کی رو سے یہ بات تو سامنے آچکی ہے کہ جہادیوں کا تعلق مدارس سے اس درجہ نہیں تھا تاہم عسکریت پسندی کے حوالے سے ان میں جھکائو ضرور موجود رہا ہے جو کسی وقت بھی کام خراب کر سکتا ہے۔ کیوں کہ جہاد کے حوالے سے مدرسے سے تعلق رکھنے والے طلباء میں خاصے گرم جذبات پائے گئے۔ جب کہ دوسرے سکولوں میں بشمول سرکاری اور غیر سرکاری میں تخریبی رجحان کم ہے۔ طارق رحمن کے اپنے حالیہ سروے سے جو ملک کے تمام اقسام کے سکولوں کے ہم عمر طلباء پر مشتمل تھا ، اس شبے کو مزید تقویت ملی ہے کہ مدرسے کے طلباء نے سرکاری اور غیر سرکاری طالب علموں کے مقابلے میں پر امن مقاصد کے حصول کی مخالفت کی اور طاقت سے مسائل حل کرنے کو ترجیح دی جب کہ خواتین کے حقوق کے سوال پر بھی تنگ نظری کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ لیکن یہ بھی کوئی واضح دلیل نہیں کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ یہ طلباء گھریلو ماحول کی وجہ سے ان مختلف نظریات پر جارحانہ رویہ رکھتے ہوں۔ کیوں کہ روشن خیال والدین اپنے بچوں کو پرائیویٹ انگلش میڈیم سکولوں میں بھیجتے ہیں یا شاید قدامت پسند نظریات رکھنے والے والدین اپنے بچوں کو مدارس میں داخلہ دلواتے ہیں اس طرح یہ نوجوان اپنے ماں باپ اور خاندان کی قدروں کے اسیر ہو سکتے ہیں جس میں ان کا اپنی کوئی قصور نہیں ہوتا۔ لیکن ایک بات ضرور واضح ہے جس کی وجہ سے ارباب اقتدار اور سنجیدہ طبقہ گو مگو کی کیفیت کا شکار ہے کہ ان مدارس کی وجہ سے شیعہ سنی خصوصاً شیعہ اور دیوبندی مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء ایک دوسرے کے نظریات سے متصادم عوامل کو ہوا دینے میں پیش پیش رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں امن و امان کے مسائل جنم لے رہے ہیں
حکومتی اصلاحات
حکومت چاہتی ہے کہ مدارس میں ایسا نصاب رائج کیا جائے جو معاشی طور پر قابل قبول ہو اور بہتر روزگار کے مواقع بھی مہیا کرے۔ اس مقصد کی خاطر حکومت دو پہلوئوں پر توجہ دے رہی ہے۔ ایک تو وہ تمام مدارس کو رجسٹرڈ کرنا چاہتی ہے اور دوسری جانب سکولوں کی ریگولیشن کو بہتر بنانامقصود ہے۔ 2001 میں حکومت نے پاکستان مدرسہ ایجوکیشن آرڈیننس متعارف کرایا جس کا نظم و نسق حکومتی عہدیدار کے پاس تھا جس کے نائب منتخب کرنے کے لیے پانچ مسلکوں کے فقہی وفاق سے ایک شخصیت منتخب کرنا تھی۔ مزید برآں ہر مسلک کا ایک شخص بھی نامزد ہو کر آنا تھا۔ حکومت کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح ہر مدرسے کے اپنے مسلک سے روابط ظاہر ہوجائیں اور سرکاری نصاب بھی نافذ ہوجائے جس سے دنیاوی تعلیم کی اضافی سوجھ بوجھ سے یہ ماڈل دینی مدرسوں میں تبدیل ہوجاتے مگر شومئی قسمت مختلف مسلکوں پر مشتمل یہ کمیٹی عمل میں نہ آسکی کیوں کہ تمام مسالک کے علماء کے اپنے تحفظات تھے۔
بالآخر ستمبر 2006 میں کچھ پیش رفت ممکن ہوئی جب مدرسوں میں اصلاحات کے حوالے سے ایک باڈی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ''اتحاد تنظیم المدارس الدینیہ''(ITMD) کے نام سے 2005 میں پانچ وفاق المدارس کا نمائندہ گروپ تشکیل پا گیا۔ حکومت اس تنظیم سے خاصی پر امید تھی۔ کیوں کہ اس سے پیشتر گفت و شنید کے لیے کوئی پلیٹ فارم ہی موجود نہ تھا ۔ اس طرح مدارس کے نمائندوں کے پرزور اصرار پر محکمہ تعلیم سے الگ ہو کر مذہبی امور کی وزارت سے گفت و شنید کا آغاز ہوا۔ حکومت اس بات پر مصر تھی کہ رجسٹریشن اس وقت ممکن ہوگی جب کہ نصاب میں بنیادی تبدیلی کا عندیہ ملے۔ مدارس بھی رجسٹریشن کی مخالفت نہیں چاہتے تھے ۔ کیوں کہ جس وقت ان کا قیام عمل میں آیا تھا اس وقت بھی رجسٹریشن کی گئی تھی اور ان کی انتظامیہ سمجھتی ہے کہ وہ 501(c)(3) کی کلاز کے تحت جو کہ اقوام متحدہ کی طرف سے ودیعت ہے ، فنڈ بھی اکٹھا کر سکتے ہیں۔ 1994 تک یہ مدرسے سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ (SRA 1860) 1860 کے تحت رجسٹرڈ ہوتے رہے پھر 1994 میں بے نظیر حکومت کی جانب سے پابندی نافذ ہونے سے بے شمار غیر قانونی مدرسے وجود میں آگئے جس کی وجہ سے نہ تو ان کی زمین کے مالکانہ حقوق کے متعلق پوچھ تاچھ کی گئی اور نہ ہی کوئی سیکورٹی کی کارروائی عمل میں لائی جاسکی۔ 2005 میں حکومت نے دوبارہ رجسٹریشن کا عمل شروع کیا تو SRA, 1860 کے تحت تقریباً 6000 مدارس رجسٹرڈ کیے گئے۔
نئے قوانین کے تحت ان مدارس کو مذہبی منافرت کے پھیلانے سے دور رہنے کی یقین دہانی کرانی تھی۔ نفرت اور عسکریت پسندی سے برات کا اظہار بھی شامل تھا۔ مزید برآں ان مدارس کو اپنی سالانہ رپورٹ بھی حکومت کو جمع کرانی تھی جس میں آمدنی کا حساب کتاب بھی شامل تھا۔
ان نکات پر حکومت نے پانچ بورڈز کی منظوری دی جس میں مختلف مسالک کے مدرسوں کا الحاق شامل تھا۔ الحاق کا یہ قانون تو موجود ہے مگر ابھی تک اس پر عمل درآمد ہونا باقی ہے۔ کیوں کہ الحاق شدہ اداروں کو اس بات کی اجازت مل جائے گی کہ وہ سکینڈری سرٹیفیکٹ جاری کر سکیں اور فارغ التحصیل طلباء ملازمت کی غرض سے ملک کے تمام اداروں میں بھرتی کے لیے اہل تصور ہوں گے۔
2006 میں ہی یہ تنازعہ ابھر کر سامنے آیا کہ تمام بورڈز اپنے اپنے مسالک کے لحاظ سے علیحدہ امتحانات کا نظام چاہتے ہیں جب کہ حکومت بضد تھی کہ ITMD کے تحت یکساں امتحانات لیے جائیں کیوں کہ خدشہ تھا کہ ہر بورڈ اپنے طلباء کو امتیازی نمبروں سے نواز سکتا ہے۔ متفق نصاب کے حوالے سے بھی کئی اختلافات ابھر کر سامنے آئے۔ تعلیم کی وزارت نے فنڈ بھی مختص کر دیے، تاکہ مدارس جدید تعلیم شامل کرنے کے لیے اساتذہ کی خدمات مستعار لے سکیں تاہم تمام ذرائع دستیاب ہونے کے باوجود یہ مدارس گومگو کاشکار نظر آتے ہیں اور انہوں نے ابھی تک کوئی رقم قبول نہیں کی کیوں کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید یہ امداد امریکہ سے آرہی ہے جو کہ بعد ازاں بیرونی ایجنڈے پر عمل درآمد کی شکل میں واپس لوٹاناہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اصلاحات کا یہ پروگرام بحران کا شکار نظر آتا ہے۔ لیکن امید کی جانی چاہیے کہ جلد ہی اس مسئلے کا کوئی بہتر حل تلاش کر لیا جائے گا۔
تاہم اب بھی پاکستان میں پبلک ، پرائیویٹ سکولوں اور مدارس کے تعلیمی نظام میں بہت کچھ کرنا باقی ہے اور ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسی تعلیمی پالیسی بنائی جائے جو امن اور محبت کا درس پھیلائے اور طلباء میں عسکریت پسندی کی بجائے قلم سے جہاد کے نظریے کو اجاگر کرے۔
(تلخیص و ترجمہ مالک اشتر)
|
|
|
|
|