Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
دینی مدارس کے نصاب کی تشکیل جدید |
فقہی مواد کا خصوصی جائزہ
قبلہ ایاز
قبلہ ایاز پشاور یونیورسٹی کی شعبہ علوم اسلامیہ و شرقیہ میں مطالعات سیرت کے پروفیسر ہیں۔ انہوں نے ایڈمبرا یونیورسٹی سے 1986 میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا شمار اسلامی سکالروں میں کیا جاتا ہے۔ مختلف جریدوں میں ان کے دس سے زائد مقالے چھپ چکے ہیں۔ دینی مدارس میں نصاب کی تشکیل جدید آج کا ایک اہم موضوع ہے۔ جس پر قبلہ ایاز نے قلم اٹھایا ہے اور اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ یہ کیوں ناگزیر ہے، کن کن مضامین کے نصاب میں ترقی و تبدیلی کی ضرورت ہے، اس حوالے سے اگر کوئی صاحب مزید لکھنا چاہیں تو تجزیات کے صفحات حاضر ہیں۔ (مدیر)
|
درسِ نظامی کا موجودہ نصاب مختلف مراحل سے گزرا ہے اور علماء واساتذہ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مناسب تبدیلیاں کی ہیں۔ فقہی نصاب کے حوالے سے خلاصہ کیدانی، منیة المصلّی ، المختصر القدوری، نورالایضاح، کنزالدقائق، مختصر الحقائق، مستخلص،شرح الیاس، شرح وقایہ اور کتاب الہدایہ کو خاصی شہرت حاصل رہی ہے۔ اس وقت ان میں سے اول الذکر دوکتابیں اور مستخلص وشرح الیاس کو ہٹادیا گیا ہے۔ جبکہ باقی کتب کو التزام کے ساتھ پڑھایا جاتاہے۔ اِن کتب کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس نصاب سے گزر کر مدارس دینیّہ نے مختلف ادوار میں دینی وفقہی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے بڑے بڑے فقہاء پیدا کیے ہیں۔
موجودہ دور میں ، تاہم ، اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ موجودہ قابل قدر فقہی ذخیرے کی زیادہ بہتر ترتیب کے ساتھ تشکیل جدید کی جائے۔ موجودہ دور علمی حوالے سے بہت سخت مقابلے کا دور ہے اور اب مختلف میادین علم کے پرانے نصابوں میں مناسب تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دیگر ذرائع نے معلومات کے حصول کو بہت آسان بنادیا ہے۔نئے حالات نے نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ آج کے نئے ذہن کو مربوط اور محکم دلائل کے بغیر آسانی سے قائل نہیں کیا جاسکتا۔ آج کا نوجوان بالخصوص بہت متجسس بن گیا ہے اور اس کے ذہن میں بہت مشکل سوالات اُبھر رہے ہیں۔دینی مدارس کے منتظمین اور علماء کرام کے فہمیدہ اور حساس افراد کو اس حقیقت کا پوری طرح ادراک ہے ۔ اس ادراک کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے ضروری ہے کہ اس سلسلے میں کچھ ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔درس نظامی کے پورے نصاب پر جیّد علماء کرام کی نگرانی میں ازسر نو غورکیا جائے اور اس کے فقہی نصاب کو بالخصوص نئے تقاضوں کی روشنی میں نئی ترتیب دی جائے۔ ہمارے اسلاف فقہاء کرام کی دینی خدمات کی ایک دنیا معترف ہے۔ انہوں نے اپنے اپنے دور میں وقت کے تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کی بہترین رہنمائی کی کوشش کی ہے ۔ اُن کے ہاں توسُّع اور حالات وزمانہ کی حکمت کے فہم کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اس تسلسل کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ فقہی نصاب میں بہت زیادہ تکرار ہے ۔ ان میں کچھ کتب کا اندازبیان اور ان کی زبان خاصی مغلق ہے۔ فی زمانہ نصاب میں ربط وترتیب کے مسلّمہ اصولوں کی رعایت ضروری ہے۔ یہ نصاب اپنے وقت کے تو مطابق تھا، لیکن اب اس کو تشکیل جدید کے ذریعے اور زیادہ مفید بنایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ذیل کی کچھ تجاویز پیش ِ خدمت ہیں:
1۔ اس نصاب کو ایک باقاعدہ ترتیب کے ساتھ وضع کیا جائے۔ سب سے پہلے بنیادی فقہی اصطلاحات مثلاً فرض، واجب، سنت، مستحب، حرام، مکروہ اور مباح وغیرہ کی تعریف سمجھاد ی جائے۔ اس کے بعد طہارت، عبادات اور معاملات کے احکام کو ایک مربوط طریقے سے ترتیب دیاجائے۔ ابتدائی مرحلے میں اِ ن امور کے بارے میں سادہ طریقے سے مختلف صورتیں اور اُن کے بارے میں فقہی حکم بیان کیا جائے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں مختلف مسائل میںاختلاف آئمہ اور ان کے دلائل کو تفصیل کے ساتھ درج کیا جائے۔ اس سے طلبہ کو معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے آئمہ اور اسلاف کے درمیان علمی اختلاف کا طریقہ کار کیا تھا۔ تعبیری تنوع ہماری علمی بنیادوں کے استحکام کی علامت ہے۔ امام ابوحنیفہ کے ساتھ اپنے شاگردوں امام محمد، امام ابویوسف اور امام زفر نے اختلاف کیا ہے اور بعض مسائل میںامام صاحب نے اپنے شاگردوں کی رائے کی طرف رجوع فرمائی ہے۔ اختلاف رائے کے احترام کی یہ بہت بڑی مثال ہے۔ ترتیب کے سلسلے میں الشیخ جاسم بن محمد بن مھلھل الیاسین کی مرتب کردہ کتاب الجلد اول الجامعة العلوم النافعہ (مطبوعہ مؤسسة الکلمہ، کویت) سے مدد لی جاسکتی ہے۔ یہ کتاب عرب ممالک میں خاصی مقبول ہے۔ 1999میں اس کا چوتھا ایڈیشن شائع ہوگیا ہے۔
2۔ غلامی سے متعلق ابواب ومباحث (کتاب العتاق) میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مناسب ہوگا کہ غلامی کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات دی جائیں۔ ابتدائی دور کے احکام اور مسائل اور اصطلاحات کی ایک تعارفی تلخیص تیار کی جائے۔ رسول اللہ ۖ نے غلامی کی بیخ کنی کے لئے جو مساعی فرمائیں، ان کا ذکر مفید ہوگا۔
3۔ جنابت اور غسل کے حوالے سے بعض باریک اور جزوی مباحث کے لئے طالب علم کی عمر کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ کم عمری میں بعض غیر مناسب تفصیلات اور غیر ضروری مباحث میں ان کو اُلجھانا نہیں چاہئے۔
4۔ مناسب مرحلے پر طلبہ کو جیّد فقہاء کرام کی حیات وسوانح اور ان کی فقہی خدمات سے روشناس کرانا ضروری ہے۔ اکثردیکھا گیا ہے کہ دینی مدارس میں طلبہ کو اس طرف متوجہ نہیں کیا جاتا۔اکثرطلبہ کو تو نصابی کتب کے مصنفین /مؤلفین کے نام تک معلوم نہیں ہوتے۔ یہ معلومات ان کے فقہی فہم اور استعداد بڑھانے کے لئے بہت مفید ہوسکتی ہیں۔
5۔ بڑے درجے کے طلبہ کو فقہ حنفی کے علاوہ دیگر فقہی مسالک کے مہم مراجع سے واقف کرانا بہت مفید رہے گا۔ ان کے جستہ جستہ مقامات انہیں پڑھائے جاسکتے ہیں یا کم ازکم انہیں ترغیب دی جاسکتی ہے کہ وہ اُن کا ازخود مطالعہ کرنے کی کوشش کریں۔دینی مدارس کے کتب خانوں کے لئے ان مراجع کا حصول یقینی بنایا جائے۔
6۔ فقہ میں تخصّص کے درجے کے طلبہ کے لئے کچھ کتابوں کا دقیق مطالعہ بہت مفید رہے گا(ان کی فہرست منسلک ہے، ضمیمہ 3)۔ تخصّص کے طلبہ کے لئے کمپیوٹر سے علمی استفادہ کرنے کے طریقوں کا سیکھنا ضروری ہے۔ اکثر دینی طلبہ زیادہ آسانی کے ساتھ کمپیوٹر سیکھنے کی استعداد رکھتے ہیں۔
7۔ اس وقت جن جدید مسائل نے جنم لیا ہے ، ان کے بارے میں یا تو الگ جامع کتب ترتیب دے کر نصاب میں شامل کیا جائے یا ان کو موزوں متعلقہ ابواب کے ساتھ لاحق کردیا جائے، مثلاًکلوننگ کے مسائل کو جنین کی بحث کے ساتھ لاحق کیا جاسکتاہے۔
8۔ علماء کرام /ماہرین فقہ کی ایک مجلس (بورڈ) ان تجاویز کا جائزہ لے سکتی ہے۔ فقہ کی کچھ قدیم کتابوں کو برقرار رکھا جاسکتاہے لیکن فقہی نصاب کی ترتیب ِ نو کی ضرورت محسوس کی جانی چاہئے۔اس مجلس میں حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب (کراچی)، مفتی محمد عیسیٰ گورمانی صاحب(گوجرانوالہ)، مولانا زاہد الراشدی صاحب(گوجرانوالہ)، مفتی عبدالقیوم حقانی صاحب(نوشہرہ) اور مفتی غلام الرحمن صاحب(پشاور) کو شامل کیا جاسکتاہے.
9 ۔ فقہ کے ساتھ ساتھ اصولِ فقہ کے نصاب کی بھی ترتیب ِ نو کی ضرورت ہے۔ اساسی ماخذ فقہ سے استخراج اور استنباط کے طرق کو زیادہ پختہ طریقے سے سمجھانا وقت کی شدید ضرورت ہے۔صبحی مخمصانی کی کتاب فلسفتہ التشریع الاسلامی کو ابتدائی مرحلے پر شامل نصاب کرنا مفید رہے گا۔جدید دور کے مسائل میں اجتماعی اجتہاد کے تصور کی زیادہ بہتر انداز میں تفہیم ضروری ہے۔ مثلاً طبی میدان میں پیش آمدہ مسائل کے بارے میں ماہرین طبّ اور ماہرین فقہ اسلامی کی مشترکہ مجلس کے بغیر صحیح نتیجے/حکم تک پہنچنا ممکن نہیں۔جدید بینکاری نظام سے متعلق مسائل میں ماہرین جدید اقتصادیات کی رائے لینا ضروری بن گیا ہے۔ استحسان اور مصالح مرسلہ کی مباحث ہمارے لئے ماہرین اصول فقہ کا ایک عظیم اور قابل ِ فخر علمی ورثہ ہے۔عصر جدید کے بیشتر مسائل کو ان کے حدود میں حل کیا جاسکتاہے۔ اگر ان مباحث کو زیادہ مدلّل اور تفصیل کے ساتھ ترتیب دیا جائے تو شاید بہت سارے امور کو بدعت حسنہ قراردینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
10 ۔ فقہ اور اصول ِ فقہ کے نصاب کی تشکیل جدید کی افادیت، تاہم ، اس وقت تک محدود رہے گی جب تک دیگر علوم وفنون اسلامیہ کے نصابات میں مناسب تبدیلیاں نہ کی جائیں۔ مثلاً عربی زبان ہمارے دینی علمی ذخیرے کی فہم کے لئے بنیادی اساس ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زبان فہمی اور زبان شناسی کے وقواعد و ضوابط کو دینی مدارس میں متعارف کرایا جائے۔ اجنبی زبانوں کی تدریس کے لئے آج کل بہت مفید کتابیں سامنے آئی ہیں۔ ان کو شامل نصاب کیاجائے۔ مولانا عبدالرزاق سکندر کی کتاب، کیف تعلم اللغة العربیہ لغیر الناطقین بھا(دارالقلم ، کراچی ،1996) اس سلسلے میں بہت اچھی کاوش ہے ، جس کو ابتدائی کتاب کے طور پر پڑھایا جاسکتاہے۔صرف ونحو کے قواعد کو بھی بہت آسانی اور مربوط طریقے سے ترتیب دیکر جمع کیا گیا ہے ۔ یہ نئی کتابیں طلبہ کو غیر ضروری مباحث میں اُلجھانے سے بچا کر مثالوں کے ذریعے پیچیدہ اور مغلق صرفی اور نحوی عقدوں کو حل کرنے کے طریقے سکھاتی ہیں۔ علم منطق کی اہمیّت عصر حاضر میں بہت بڑھ گئی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس حقیقت کا ادراک کیا جائے اور قدیم قواعد منطق کے ساتھ ساتھ جدید اصول منطق کی طرف بھی توجّہ دی جائے۔
11۔ مغربی تہذیب کے زیر اثر ہماے ہاں کا عائلی اور معاشرتی نظام بری طرح شکست وریخت کا شکارہے۔ عائلی اور معاشرتی نظام میں عورت کا کردار اساسی ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ طالبات/خواتین کے لئے ایک مربوط اور آسانی کے ساتھ قابل فہم نصاب ترتیب دیا جائے۔ اگر اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت یافتہ خواتین گھروں کا نظام سنبھالیں تو ہمار اعائلی اور معاشرتی نظام بچ سکتاہے۔
مندرجہ بالا بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ دینی نصاب کے موجودہ ذخیرے میں تخفیف (کچھ مضامین، موضوعات اور کتب کو نکالنا)، ترمیم(کچھ پرانی کتابوں کی جگہ نئی کتابیں شامل نصاب کرنا) اور تزیید(نئے مسائل ، ضروریات اور عصر حاضر کے تقاضوں کو ملحوظ نظر رکھ کر کچھ نئی کتابیں اور موضوعات شامل نصاب کرنا) ضروری ہوگیا ہے۔
تخفیف اور ترمیم کے حوالے سے کچھ تجاویز اوپر آگئی ہیں ۔ تزیید کے حوالے سے کچھ مزید تجاویز ذیل میں پیش کی جاتی ہے:
1۔ سائنس ، ٹیکنالوجی اور طب کے حوالے سے سامنے آنے والے نئے مسائل کی تفہیم کا انتظام ہو۔ 2۔ مغرب کی مادی اور صنعتی ترقی کے اسباب اور مغربی افکار کا ناقدانہ جائزہ شامل نصاب ہو۔
(استغراب ، Occidentalism)
استغراب کی روایت مسلمانوں میں بہت قدیم سے موجود ہے۔
(یونانی علوم کا مطالعہ ، عباسی دور میں بیت الحکمة استغراب کا مرکز تھا)3۔ عصر حاضر کے عالمی اداروں کی تاریخ اور طریقہ کار کے بارے میں مدارس دینیہ کے علماء اور طلباء کو آگاہ کرنا چاہئے۔
(ورلڈ بنک، آئی ایم ایف، اقوام متحدہ، سارک، آسیان، یوریپین یونین، ناٹو وغیرہ)4۔ 20ویں صدی میں سامراجیت اور اشتراکیت کی جنگیں، نیوکلیر، کیمیائی ، ایٹمی اور حیاتیاتی ہتھیاروں، خلائی مہمات، حیاتیاتی انجینئرنگ اور توانائی کے ذرائع کے حوالے سے انہیں معلومات فراہم کی جانی چاہئیں۔ 5۔ اسلامی تاریخ کا ایک عمومی جائزہ ان کے سامنے رکھا جانا چاہئے۔6۔ پرانے فرقے اور افکار میں سے بعض اب معدوم ہیں اور ان کی جگہ نئے فرقے اور افکار نے جنم لیا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عقائد اور کلام کی کتب میں اضافہ کیا جائے اور نئے فرق اور افکار کے بارے میں بھی طلباء کو معلومات فراہم کی جائیں۔ 7۔ آج کی دُنیا ایک عالمی گائوں بن گئی ہے ۔ دُنیا کے لوگوں کے مذاہب سے آگاہی اب پہلے کی نسبت بہت ضروری ہوگئی ہے۔ مذاہب عالم کا مطالعہ مدارس دینیہ کے نصاب کا حصہ ہونا چاہئے۔ اس میدان علم میں دوروسطیٰ کے مسلمان علماء کو ارہاص کا درجہ حاصل ہے مثلاً:
علامہ ابن حزم۔8۔ معلمین اور متظمین مدارس کی تربیت کے لئے تدریب المعلمین والمنتظمین کا ادارہ قائم کیا جانا بہت ضروری ہے۔ وفاق المدارس نے اس کی ضرورت کا ادراک کرلیاہے جو کہ بہت مستحسن بات ہے۔
تزیید کے حوالے سے یہ دیکھنا چاہئے کہ ان کتب اور موضوعات کو اس طریقے سے شامل نصاب کیا جائے کہ یہ متعلمین پر اضافی بوجھ نہ ہو اور نہ ان کی توجہ اصل علوم دینیہ سے ہٹ جائے بلکہ ریفریشر کو رسسز یا سیمیناروں کے ذریعے ان کو ان کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔
نئے تشکیل شدہ نصاب کی تکمیل کے مراحل سے گزرکر فارع التحصیل علماء کے بارے میں اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ زیادہ بہتر انداز میں قوم کی رہنمائی کرسکیں گے۔ وہ نوجوان طبقے کو مسجد کی طرف راغب کرنے میں بہتر صلاحیّت اور استعداد کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہوں گے ۔ ان کے انداز میں غیر ضروری معذرت خواہانہ پہلو ختم ہوگا اور ان کے اندر اعتماد میں اضافہ ہوگا۔اسلاف کی سنت کے مطابق ان کے اندر تعبیری تنوع اور نقطۂ نظر کے اختلاف میں وسعت نظری کی روایت مستحکم ہوگی، جو علمی ترقی کا باعث بنے گی۔ یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ قوموں کا عروج وزوال اس امر کے ساتھ منسلک ہے کہ وہ علوم وفنون کی ترقی کو ترجیحات کے کس درجے میں رکھتی ہیں۔
|
|
|
|
|