working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

ڈرون حملے ،ہمارے بہترین ہتھیار یا بد ترین دشمن؟
پیٹر برگن
معروف امریکی صحافی پیٹر برگن نیو امریکہ فائونڈیشن واشنگٹن سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ وہ نیو یارک یونیورسٹی ، جان ہاپکنز یونیورسٹی اور ہاورڈ یونیورسٹی میں بھی وقتاً فوقتاً پڑھاتے ہیں۔ قومی سلامتی کے امور پر سی ۔ این۔ این کے تجزیہ کار ہیں۔ ان کا حالیہ مضمون ''ڈرون حملے'' کا ترجمہ قارئین تجزئیات کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔ بی۔ بی۔ سی کا کہنا ہے کہ رواں برس ڈرون طیاروں نے تیرہ بار قبائلی علاقہ جات پر حملے کیے ہیں۔ جن میں نو بار جنوبی وزیرستان اور ایک بار اورکزئی ایجنسی ان حملوں کا نشانہ بنی۔ ڈرون حملوں پر امریکہ کی حکمت عملی کیا ہے اور اس سے القاعدہ کو کس حد تک نقصان پہنچا ہے۔ علاوہ ازیں اسلام آباد کو ڈرون حملوں پر کیا تحفظات ہیں۔ ان سوالوں کے جواب کے لیے یہ مضمون معلومات افزاء ہے۔ (مدیر)
القاعدہ کی ایک ویڈیو ٹیپ سے ظاہر ہوتا ہے
'' شیشے کے ایک بڑے ڈبے میں کتا بند ہے۔ دودھیا گیس آہستہ سے اس میں داخل کی جاتی ہے۔ ایک عرب اپنے مصری لہجے میں کہتا ہے۔ '' لمحے گننا شروع کر دو'' ،کتا بوکھلا جاتاہے اور بھونکتے بھونکتے نڈھال ہوجاتا ہے، موت و حیات کی کشمکش میں کچھ دیر مبتلا رہنے کے بعد مر جاتاہے۔ یہ اس زہریلی گیس کا اثر تھا۔''

یہ تجربہ افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد کے نزدیک 'درونتا کے تربیتی کیمپ میں کیا گیا۔ جس کا محرک ایک مصری ابو خباب تھا۔ 1990 کی دہائی کے آخر میں ایمن الضواہری کی ہدایات پر ابوخباب نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا ایک پروگرام شروع کیا، جس کا خفیہ نام 'Yogurt' یعنی دہی رکھا گیا۔ ابو خباب نے سینکڑوں جنگجوئوں کو زہر آلود کیمیکلز اور انتہائی خطرناک گیسوں کے استعمال کے بارے میں بتایا۔

ابو خباب نے اپنی ڈائری میں یہ انکشاف بھی کیا کہ وہ ریڈیو ایکٹو مٹیریل کے ممکنہ استعمال کے بارے میںبھی آگاہ تھا۔ ڈائری پر 2001 کا سال درج ہے جس میں وہ لکھتا ہے کہ جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک عمومی نیوکلیئر ری ایکٹرسے حامل ہونے والا ایٹمی مواد فوجی حملوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ آگے چل کر وہ لکھتا ہے کہ اگر اسے پاکستانی دوست سے اس سلسلے میں مزید معلومات حاصل ہوئیں تو وہ مزید کچھ بتانے کے قابل ہوگا۔ پاکستانی دوست سے اس کی مراد پاکستان کا وہ سینئر ریٹائرڈ ایٹمی سائنسدان ہے جس کی ملاقات اسامہ بن لادن سے ہوئی تھی۔

2001 کے موسم سرما میں جب طالبان کے اقتدار کا سورج غروب ہوا تو ابو خباب پاک افغان سرحد کے ملحقہ علاقوں میں روپوش ہوگیا۔ امریکہ نے اس کے سر کی قیمت 5 ملین ڈالر رکھی۔ جنوری 2006 میں ڈمہ ڈولا میں ابو خباب اور ایمن الضواہری کی موجودگی کی اطلاع پر ڈرون میزائل حملہ کیاگیا۔ ابتدائی خبروں میں بتایا گیا کہ ابو خباب اس حملہ میں ہلاک ہو گیا مگر جب حملے کی گرد چھٹی تو معلوم ہوا کہ 25 شہری جن میں سے ایک درجن بچے بھی شامل تھے وہ اس حملے میں ہلاک ہوگئے جن میں ابو خباب شامل نہیں تھا۔ شہری ہلاکتوں پر بھرپور احتجاج ہوا۔ ہزاروں قبائلیوں نے ''امریکہ مردہ باد '' کے نعرے لگائے۔ معصوم شہریوں کی ہلاکت ایک ایسا پوائنٹ تھا جس کو طالبان نے اپنے پراپیگنڈے کے لیے بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ ڈمہ ڈولہ حملے کے بعد ایمن الضواہری ایک وڈیو ٹیپ میں ظاہر ہوئے جس میں انہوں نے حملے کو ناکام اور صدر بش کو ''قصائی '' کا لقب دیا۔

28 جولائی 2008 کو ڈمہ ڈولا حملے کے دو سال بعد آخر کار ابو خباب ایک ڈرون حملے کا نشانہ بن گیا جس میں ابو خباب کے ساتھ دو دیگر جنگجو اور تین لڑکے بھی ہلاک ہوئے۔ ابو خباب کی ہلاکت کے بعد، ڈرون حملے کے ذریعے القاعدہ کی لیڈر شپ کو ہلاک کرنے کاامریکی عزم اور پختہ ہو کر سامنے آیا۔ چنانچہ ابامہ نے نہ صرف ان حملوں کو جاری رکھا بلکہ ان کو تیز بھی کر دیا۔ 2007 میں پاکستان میں صرف تین بار ڈرون حملے ہوئے، 2008 میں 34 اور 2009 کے پہلے مہینے میں ہی 16 ڈرون حملے ہوئے۔

ڈرون حملوں کا ہدف القاعدہ کے اہم رہنما اور پاکستان میں موجود ان کے طالبان دوست ہیں مگر جب کبھی ان حملوں کے نتیجے میں عام افراد نشانہ بنتے ہیں تو صورتحال مختلف ہو جاتی ہے بالخصوص ایک ایسے ملک کے لیے جو اس جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہے۔ جس کے بعد یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ ڈرون حملے مفید ثابت ہوئے یا نقصان دہ۔ کیونکہ القاعدہ کی لیڈر شپ کے ساتھ ساتھ جو عام افراد ان حملوں کا نشانہ بنے ، ان کا کیس ، پاکستانی طالبان نے امریکی مخالفت میں خوب طریقے سے اچھالا اور لوگوں کو امریکہ کے خلاف بھرتی کیا۔ پھر ڈرون حملے جنگجوئوں کو پاکستان بھر میں پھیلانے کا بھی موجب بن گئے۔ اب پاکستان بھر میں تو ڈرون حملے ہونے سے رہے کیوں کہ ان حملوں کے نتیجے میں اسلام آباد کے حکمرانوں کو خاصی تنقید کا سامنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈرون حملے ایک مختصر المدتی حکمت عملی ہے کیوں کہ اس سے علاقے کا استحکام ، القاعدہ اور اس کے اتحادیوںکے خلاف ایک طویل المدتی جنگ جیتنے کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔

سرکاری سطح پر لوگوں کو ہلاک کرنا، امریکہ کی حکمت عملی نہیں ہے۔ چرچ کمیٹی کی تحقیقات کے بعد جن میں معلوم ہوا کہ فیڈرل کاسترو کو ہلاک کرنے کے لیے سی آئی اے نے 8 منصوبے بنائے۔ چنانچہ ان تحقیقات کے منظر عام پر آنے کے بعدصدر فورڈ اور کارٹر دونوں نے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت اس طرح کے قتلوں کو بین کر دیا۔ لیکن یہ بھی دیکھا گیا کہ امریکی صدور نے ایسے سیاسی رہنمائوں کو قتل کرایا جنہوں نے امریکہ پرحملوں کی دھمکی دی تھی۔ رونالڈ ریگن نے 1986 میں اُس وقت کرنل قذافی کے محل پر فضائی حملہ کرایا جب لیبیا کے ایجنٹوں نے جرمنی میں ایک ایسے مے خانے کو نشانہ بنایا تھا جس کو امریکی فوجی استعمال کرتے تھے۔ اسی طرح صدر کلنٹن نے بھی القاعدہ کے تربیتی کیمپوں پر کروز میزائل حملے کا حکم دیا کیونکہ القاعدہ 1998 میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارتخانوں پر حملوں کی ذمہ دار تھی۔ قانونی طور پر ایسی کارروائیاں کرنے کا جواز امریکہ کے پاس موجود تھا کیونکہ دشمن کمانڈر کی ہلاکت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ اس طرح طالبان اور القاعدہ کے رہنمائوں پر حملوں کا بھی جواز بھی موجود تھا۔ صدر بش نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد اس طرح کے اہداف کو نشانہ بنانے کے کئی حکم دیے۔ نومبر 2001 میں کابل کے نزدیک ایک ڈرون حملے کے ذریعے القاعدہ کے فوجی کمانڈر عاطف کو ہلاک کیا گیا۔ عاطف کا شمار القاعدہ کے اہم رہنمائوں میں ہوتا تھا اور اس کی ایک بیٹی اسامہ کے بیٹے کے ساتھ بیاہی ہوئی ہے ایک سال بعد امریکہ پر حملوں کے مبینہ ملزم ابوعلی الہریتھی یمن میں امریکی ڈرون کا نشانہ بنے، یہ افغانستان سے باہر، اس طرح کا پہلا ڈرون حملہ تھا۔ اس حملے میں ایک امریکی شہری کمال درویش بھی ہلاک ہوا جو القاعدہ میں شامل تھا۔

شروع میں ڈرون حملے سست روی کا شکار تھے مگر بش انتظامیہ کے آخری دنوں میں جب معلوم ہوا کہ القاعدہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں منظم ہو چکی ہے تو ان حملوں میں تیزی آگئی۔ جولائی 2007 میں امریکہ کے خفیہ اداروں نے خبر دی کہ القاعدہ سے امریکہ کے اندر کارروائیوں کا پھر خطرہ ہے کیوں کہ اب وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں پوری طرح متحرک ہے۔ جس سے بش انتظامیہ چوکس ہوگئی اور پھر 7 جولائی2007 کو لندن حملے جن کے نتیجے میں 52 شہری ہلاک ہوئے۔ ان حملوں کی منصوبہ بندی بھی قبائلی علاقوں میں ہوئی اور اس کے بعد 2006 کا وہ منصوبہ جس کے ذریعے ہیتھرو ائیر پورٹ سے اڑنے والے سات کینڈین اور امریکی ہوائی جہازوں کو مادے کے ذریعے اڑایا جانے کا منصوبہ بھی قبائلی علاقوں میں بنا تھا۔ 2007 میں جرمنی میں دو جرمن اور ایک ترک شہری کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ جرمنی میں امریکی ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ان سب وارداتوں کے ڈانڈے پاکستان کے قبائلی علاقوں اور القاعدہ سے ملتے ہیں اس دوران اسامہ اور ایمن الظواہری کے وڈیو ٹیپس بدستور منظر عام پر آتی رہیں جن میں وہ امریکہ کو للکارتے رہے۔

اس عرصے میں پاکستانی حکومت نے 2005 اور 2006 میں طالبان کے ساتھ امن معاہدے بھی کیے۔ افغانستان کے اندر ہونے والے کئی حملے، پاکستانی علاقے سے کیے گئے۔ حتی کہ یہ آگ پاکستان کے اندر بھی پھیل گئی اور صرف 2007 کے دوران جتنی ہلاکتیں پاکستان میں ہوئیں اتنی گذشتہ چھ سالوں میں نہیں ہوئی تھیں۔

2008 کے شروع میں بش انتظامیہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوگئی کہ پاکستانی حکومت فاٹا میں جنگجوئوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیںرکھتی یا پھر وہ ایسا چاہتی نہیں چنانچہ جولائی میں صدر بش نے سپیشل آپریشن فورسز کو یہ اختیار دیا کہ وہ پاکستان کی اجازت کے بغیر قبائلی علاقوں میں زمینی کارروائیاں کر سکتی ہیں۔ 3 ستمبر 2008 کو امریکی فوج نے پاکستانی سرحدوں کے اندر آکر جنوبی وزیرستان میں جنگجوئوں کے ایک کمپائونڈ پر حملہ کیا ۔ جس کے نتیجے میں 20 لوگ مارے گئے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی۔ پاکستانی میڈیا نے اس واقعے کو خوب اچھالا ۔ پاکستانی حکام نے اس پراحتجاج کیا کہ ان کی قومی خود مختاری پر حرف آیا ہے۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے کھلے عام کہا کہ پاکستان کی علاقائی خود مختاری کی حفاظت ہر قیمت پر کی جائے گی۔ جس کا واضح مطب یہ تھا کہ اگر امریکہ نے مستقبل میں اس طرح کی کوئی کارروائی کی تو اس کا جواب پوری طاقت سے دیا جائے گا۔

پاکستان میں اپوزیشن کے خدشات کو سامنے رکھتے ہوئے بش انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ صرف ڈرون حملوں پر ہی انحصار کیا جائے۔ ڈرون حملوں سے متعلق بش انتظامیہ کے ایک اعلی اہلکار کا کہنا ہے کہ بش انتظامیہ نے ڈرون حملوں کی پیشگی اطلاع پاکستانی حکام کو دینا بند کر دی جس سے ڈرون کی حملے کی صلاحیت بڑھ گئی اس طرح ایک حملہ جس پر پہلے کئی گھنٹے صرف ہوتے تھے اب یہ دورانیہ کم ہو کر 45 منٹ تک آگیا۔

ڈرون حملوں کو امریکی ریاست نیواڈا میں موجود ایک اڈے سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ہیلفائر میزائل اور جی ڈی اے ایم بم جو 12 فٹ لمبے ہوتے ہیں وہ ہر وقت پاکستانی قبائلی علاقوں میں ہدف کی تلاش میں رہتے ہیں۔ جولائی 2008 اور صدر بش کی رخصتی کے درمیانی عرصے میں صدر بش نے 30 ڈرون حملوں کے حکم دیے جب کہ اس کے مقابلے پر 2008 کے پہلے چھ مہینوں میں صرف چھ حملے ہوئے تھے۔

طالبان یہ کہتے ہیں کہ ان حملوں کا نشانہ عام شہری ہیں جب کہ پاکستانی اور امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ ہدف جنگجوہیں۔ سچ یقینا کہیں درمیان میں ہے لیکن اس مسئلے کا حل بھی اس کے علاوہ کوئی نہیں کیونکہ جنگجو شہری آبادیوں میں رہتے ہیں اور وہ کوئی یونیفارم بھی نہیں پہنتے جس سے ان کی پہچان ہو سکے۔ ہمارے اعداد و شمار، جنہیں امریکی اور پاکستانی میڈیاکی رپورٹوں سے مرتب کیا گیا ہے ، سے معلوم ہوا ہے کہ 2006 سے اب تک ڈرون حملوں کے ذریعے 600جنگجواور عام شہری ہلاک ہوئے جن میں دو تہائی ہلاکتیں گذشتہ دوسالوں میں ہوئیں۔ یہ اعداد و شمار پاکستانی صحافی عامر میر کی جانب سے مرتب کیے جانے والے اعداد و شمار کے قریب ہیں جن کے بقول گذشتہ ساڑھے تین سالوں میں سات سو ہلاکتیں ہوئیں۔

موسم گرما 2008 تک ڈرون حملوں میں القاعدہ اور طالبان کی درمیانی اور اعلی قیادت کے درجن بھر لوگ مارے گئے۔ جن میں سے ایک لیتھل الابی بھی تھا جو کہ امریکی نائب صدر ڈک چینی پر حملے میں امریکہ کو مطلوب تھا۔ الابی نے اس وقت ڈک چینی پر خود کش حملہ کرایا جب وہ 2007 میں بگرام کے ہوائی اڈے پر پہنچے تھے۔ الابی کے بارے میں یہ بھی کہا جاتاہے کہ وہ القاعدہ میں تیسرے نمبر پر فائز تھا۔ ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والوں میں الجیریا کا جہادی رہنما ابو سلیمان، ابو خباب، طالبان کمانڈر عبدالرحمن، القاعدہ کے پاکستان میں چیف ابو حارث، خالد حبیب، ابو زبیر المصری اور عبداللہ عزام السعودی شامل ہیں۔ ان میں سے آدھے القاعدہ کے انتہائی اہم رہنما تھے۔ ابو جہاد المصری القاعدہ کے پراپیگنڈہ چیف تھے۔ اسی طرح راشد رئوف ہیتھرو ایئر پورٹ پر امریکی و کنیڈین ہوائی جہازوں کو اڑانے کے منصوبے میں مطلوب تھا۔ (یہ بات ابھی بحث طلب ہے کہ برطانوی نژاد راشد رئوف مارا گیا یا ابھی زندہ ہے)۔ ڈرون طیاروں کا اہم ہدف پاکستانی طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کا علاقہ جنوبی وزیرستان ہے امریکہ اور پاکستانی حکام کا خیال ہے کہ بیت اللہ محسود ، دسمبر 2007 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہے۔ بیت اللہ بھی اب تک ڈرون سے بچا ہوا ہے جب کہ اسامہ بن لادن تو سرے سے ہی غائب ہے۔

بش انتظامیہ کے آخری دنوں میں ڈرون حملوں میں تیزی آئی جس کا مقصد القاعدہ کی ٹاپ لیڈر شپ کو نشانہ بنانا تھا۔ ڈک چینی نے ابامہ کے حلف اٹھانے سے گیارہ روز پہلے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے رجائیت پسند لہجے میں کہا تھا کہ اسامہ کو ہلاک کرنے کا ہدف اب صرف چند دن دور ہے۔ جس کے ایک ہفتے بعد بش انتظامیہ کو یہ اچھی خبر سننے کو ملی کہ اسامہ الکینی اپنے ساتھی کمانڈر شیخ احمد سلیم سویڈان کے ہمراہ وزیرستان کے میزائل حملے میں ہلاک ہو گیا۔ الکینی اور سویڈان دونوں کا 1998میں مشرقی افریقہ میں، امریکہ کے دو سفارت خانوں پر حملوں میں کلیدی کردار تھا۔ بش نے لیری کنگ شو میں اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ اسامہ بھی دوسروں کی طرح ایک دن مارا جائے گا۔

ڈرون حملوں کے حوالے سے بش اور ابامہ انتظامیہ کی ترجیحات یکساں ہیں۔ مثلاً سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیکل بیڈن نے 13 نومبر 2008 کو ، جب ڈرون حملے پوری آب و تاب سے جاری تھے ، کہا کہ ''ہم القاعدہ کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں چھوڑیں گے۔ دوسروں کی جانیں لینے والوں کو اپنی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ ہم ان کے منصوبوں کو خاک میںملادیں گے۔''

بیڈن کا مطلب یہ تھا کہ وہ القاعدہ کو کسی نئے حملے کی منصوبہ بندی کرنے کا وقت دینے کی بجائے انہیں صرف اس بات پر لگائے رکھیں گے کہ وہ اپنی جانیں کیسے بچاسکتے ہیں۔ یہ حکمت عملی اس کا حصہ ہے جس کے تحت القاعدہ اور طالبان کو مغرب پر حملوں سے باز رکھنا ہے۔ چنانچہ موسم گرما 2008 کے بعد متعلقہ اداروں کا کہنا ہے کہ القاعدہ یا طالبان کی جانب سے مغرب پر حملوں کا کوئی امکان نہیں ہے۔امریکی حکام ڈرون حملوں کی کارکردگی سے اس حد تک مطمئن ہیں کہ وہ ان حملوں کو اب یمن اور صومالیہ تک پھیلانا چاہتے ہیں۔ مگر گذشتہ ایک سال کے دوران فاٹا میں امریکی جاسوسی کے الزام میں طالبان نے متعدد افراد کو ہلاک کیا ہے۔

ڈینیل بمان جو کہ جارج ٹائون یونیورسٹی میں ایک مطالعاتی پروگرام چلا رہے ہیں، انہوں نے دہشت گردوں کی اس طرح ہلاکتوں کے اثرات پر تحقیق کی ہے۔ اسرائیل نے کئی سال تک اپنے مخالف رہنمائوں کو قتل کیا مثلاً حماس وغیرہ کے، لیکن جیسے ہی کوئی سینئر رہنما قتل ہوا اس کے جگہ انتہائی جونیئر رہنمانے لی جو کہ اپنے پیشروئوں کے مقابلے میں تجربہ کار نہ تھے۔ کچھ ایسا ہی القاعدہ کے ساتھ ہوا ہے۔ قومی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر ڈینس بلیئر کے بقول کانگریس کو بتایا گیا کہ القاعدہ کو اپنے ہلاک ہونے والے رہنمائوں کے متبادل تلاش کرنے میںمشکلات کا سامنا ہے۔

ڈرون حملوں سے القاعدہ کو کتنا نقصان ہو رہا ہے اس کا اندازہ ان وڈیو اور آڈیو ٹیپس سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ دہشت گردوں نے اپنے پروپیگنڈہ پروگرام کے تحت ریلیز کیں، بن لادن اپنی 90 فی صد جنگ میڈیا کے ذریعے لڑ رہا ہے۔ الظواہری بھی ایسے ہی کر رہا ہے۔ 2007 انہوں نے ایک سو ٹیپس جاری کیں لیکن 2008 میں یہ تعداد گھٹ کر آدھی رہ گئی۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اب انہیں تعلقات عامہ سے زیادہ عزیز اپنی جان بچانا ہے۔ مگر 2009 کے اوائل سے اب تک القاعدہ نے متعدد کیسٹس جاری کی ہیں جس کا یہ بھی مطلب ہے کہ القاعدہ اب فاٹا سے نکل کر پاکستان کے شہروں مثلاً پشاور میں پھیل چکی ہے۔ 2002 اور 2004 کے دوران القاعدہ نے پاکستانی شہروں کا رخ کیا مگر جیسے ہی انہوں نے موبائل فونوں اور انٹرنیٹ کا استعمال کیا وہ پکڑے گئے ایک پاکستانی انٹیلی جنس افسر کے بقول 11 ستمبر کے بعد پہلے تین سالوں میں القاعدہ کے کئی اہم رہنما کراچی، پشاور، کوئٹہ ، فیصل آباد، گجرات اور راولپنڈی سے گرفتار ہوئے۔ جس کے بعد القاعدہ نے فاٹا کی طرف ہجرت کی اور اسے محفوظ جنت بنا لیا مگر آخرکب تک؟

ڈرون حملوں نے القاعدہ کی آپریشنل صلاحیت کو کس حد تک متاثر کیا ہے؟ اس سے بھی زیادہ یہ سوال اہم ہے کہ ڈرون حملوں سے پیدا ہونے والی صورتحال نے پاکستانی ریاست کو بھی متاثر کیا اور جنگجو اس کے لیے روزبروز ایک بڑا چیلنج بنتے جا رہے ہیں جس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ اس کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ اگر پاکستان جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے، وہ کمزور ہوتا ہے تو امریکہ اور مغرب کے مفادات کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ڈرون حملوں کو پاکستان میں انتہائی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کیونکہ اس سے پاکستان کی سا لمیت اور خودمختاری پر حرف آتا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں امریکہ کے خلاف نفرت بڑھ رہی ہے اور آج ہر پانچ پاکستانیوں میں امریکہ کا حامی صرف ایک ہے۔ گذشتہ سال جاری ہونے والے ایک سروے کے مطابق 52 فیصد پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ملک میںحالیہ تشدد کا ذمہ دار امریکہ ہے اور صرف آٹھ فیصد اس کا ذمہ دار القاعدہ کو سمجھتے ہیں۔ لاہور میں پولیس اکیڈمی پر ہونے والا حملہ جس میں 18 لوگ مارے گئے، اس کی ذمہ داری بیت اللہ محسود نے قبول کرتے ہوئے یہ بیان بھی دیا کہ ''یہ ڈرون حملوں کا ردِعمل ہے، پاکستان امریکہ کے ساتھ مل کر ہمارے لوگوں کو مار رہا ہے۔'' لیکن فاٹا میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ آریانہ انسٹیٹیوٹ کی طرف سے سامنے آنے والے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ آدھے سے زیادہ لوگ ڈرون حملوں کو درست سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا نشانہ جنگجو تنظیمیں ہیں جبکہ آدھے لوگوں کا خیال تھا کہ ڈرون حملوں کے بعد امریکہ مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستانی حکمرانوں کا خیال ہے کہ ڈرون حملوں سے عوام ان کے خلاف ہو رہی ہے۔ صدر آصف علی زرداری نے گذشتہ نو مبر میں نیویارک میں ڈرون حملوںپر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ یہ میری خودمختاری کو تسلیم نہ کرنا ہے اور اس طرح لوگوں کے دل نہیں جیتے جا سکتے۔ جنوری میں یوسف رضا گیلانی نے سی این این کو بتایا کہ ڈرون حملوں کی اجازت سے متعلق ان کی حکومت اور امریکہ کے درمیان کوئی معاہدہ موجود نہیں لیکن اگلے ہی مہینے انٹیلی جنس کمیٹی کی صدر سینیٹر ڈین فینٹن کا یہ حیران کن بیان سامنے آیا کہ ''ڈرون پاکستانی ہوائی اڈوں سے پرواز کرتے ہیں۔'' پاکستانی سیاستدان اگرچہ ڈرون حملوں پر احتجاج کرتے ہیں لیکن دوسری طرف یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ایک انتہائی مؤثر ہتھیار ہے اور اس نے وہ کچھ کر دکھایا ہے جو اس کے فوجی آپریشن اور امن معاہدے نہیں دکھا سکے۔

ابامہ کو اپنا منصب سنبھالے ہوئے تین دن ہوئے تھے جب اس نے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ڈرون حملے جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ ابامہ کے صدر بننے کے بعد اب تک 16 حملے ہو چکے ہیں۔ ہر ہفتے میں تقریباً ایک حملہ، جن کے ذریعے 170 لوگ مارے گئے مگر ان میں القاعدہ کا صرف ایک اہم رہنما شامل تھا۔ اخبارات میں یہ خبریں بھی آ رہی ہیں کہ سی آئی اے ڈرون حملوں کو پاکستان کے دیگر علاقوں تک پھیلانا چاہتی ہے جیسا کہ بلوچستان جو کہ افغان طالبان کا ہیڈکوارٹر ہے۔ لیکن شاید یہ ممکن نہ ہو۔ مغربی قبائلی علاقے کے لوگ اپنی روایات اور رسم و رواج کے تحت زندگیاں گزار رہے ہیں اور یہ علاقے ماضی میں پاکستان کا حصہ نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو میں اسے ''علاقہ غیر'' کہا جاتا ہے لیکن بلوچستان، پاکستان کا حصہ ہے۔ اور اگر یہاں ڈرون حملے کیے گئے تو پاکستان اُسی طرح جواب دے گا جس طرح اس نے گذشتہ سال امریکہ کی زمینی افواج کو دیا تھا۔ شجاع نواز کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے علاوہ جہاں کہیں بھی ڈرون حملہ ہوا تو یہ ایک المیہ ہو گا اور اس کے بعد پاک فوج اور امریکہ کے تعلقات ختم ہو جائیں گے۔

قومی سلامتی کے ماہرین کا اتفاق ہے کہ ڈرون حملے القاعدہ اور اس کے طالبان اتحادیوں کے خلاف ایک بُرا آپشن ہے۔ کیونکہ پاکستان ایک کمزور جمہوری حکومت اور مضبوط فوج میں بٹا ہوا ہے اور کسی کے پاس بھی ملک کو ان جنگجوئوں سے نجات دلانے کا کوئی منصوبہ موجود نہیں۔ ان حالات میں ڈرون کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن باقی نہیں رہتا۔

ڈرون حملے، ایک شاطرانہ چال ہو سکتی ہے مگر یہ کوئی منصوبہ نہیں۔ جارج ٹائون یونیورسٹی کے پروفیسر بروس ہوفمین کا کہنا ہے کہ ڈرون پر اکتفا محض خود کو دھوکہ دینا ہے۔ جیسا کہ 2006ء میں عراق میں القاعدہ کے رہنما ابو موسیٰ الزرقاوی ایک فضائی حملے میں مارے گئے مگر اس سے ان کی تنظیم غیرمؤثر نہیں ہوئی بلکہ الزرقاوی کی موت کے بعد عراق میں تشدد بڑھ گیا۔ القاعدہ، روایتی مجرموں کی تنظیم نہیں اس لیے اگر اس کے اکثر لوگ مارے بھی جائیں تب بھی یہ موجود رہے گی کیونکہ ان کا ایمان ہے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ درست ہے۔


پاکستانی حکمران جو عرصے تک یہ سمجھتے رہے کہ ان کو حقیقی خطرہ مشرقی سرحدوں سے ہے مگر گذشتہ کچھ عرصے سے اس سوچ میں تبدیلی آئی ہے۔ طالبان کی جانب سے بینظیر بھٹو کا قتل ، میریٹ پر القاعدہ کا حملہ، سری لنکن کرکٹ ٹیم پر لاہور میں ہونے والا حملہ، سوات میں ایک 17 سالہ لڑکی کو کوڑے مارنے جیسے واقعات کے بعد جنگجوئوں کے خلاف پاکستانی عوام میں نفرت بڑھی ہے۔ سوات کے طالبان کا وہ فیصلہ جس میں انھوں نے بونیر کی جانب پیش قدمی کی جس کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے ہر قیمت پر ان کو ختم کرنے کی مہم کا آغاز کر دیا حالانکہ بونیر جو کہ اسلام آباد سے صرف 60میل کے فاصلے پر ہے، میں طالبان کی آمد کی بعد مغربی میڈیا میں یہ بحث چھڑ گئی تھی کہ پاکستان پر طالبان کا قبضہ ہونے والا ہے۔ لیکن پاکستان نے ان اندازوں کو غلط ثابت کیا۔ گذشتہ عرصے میں پاکستان میں تین ایسے شواہد سامنے آئے جنھوں نے ثابت کیا کہ پاکستان طالبان کے لیے تر نوالہ ثابت نہیں ہو گا۔ مثلاً وکلاء کی تحریک جس نے جنرل مشرف جیسے ڈکٹیٹر کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور پھر پاکستان میں ایک آزاد خیال اور جمہوریت پسند میڈیا موجود ہے۔ پھر یہ کہ 2008 ء کے عام انتخابات میں طالبان کے حامی ایم ایم اے کو صرف 2 فیصد ووٹ ملے۔ اسی طرح 2002ء میں خود کش حملوں کے حامی 33 فیصد تھے جو اَب گَھٹ کر 5 فیصد رہ گئے ہیں۔

پاک فوج سوات میں ایک غیر روایتی تنازعے کو روایتی جنگ سے حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس جنگ کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے جس کا یہ بھی مطلب ہے کہ پاک فوج کو اس طرح کی مزاحمت ختم کرنے کا تجربہ نہیں جبکہ پاکستان میںڈرون حملوں کا مستقبل تابناک ہے کیونکہ مزاحمت کو روایتی طریقے سے ختم کرنے کا عمل سالوں پر محیط ہوتا ہے جیسا کہ امریکہ نے عراق میں دیکھا مگر ڈرون حملوں کے بعد مؤرخ یہ ضرور لکھے گا کہ ان کے نتیجے میں ابوخباب اور اس کے ساتھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔

(انگریزی سے ترجمہ ۔سجاد اظہر)