working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

سوال یہ ہے !
اختر شہزاد، ٹانک

چند ایک ماہ سے شہر کے کچھ حصوں میں مسلح لوگوں کی نگرانی میں غیر ضروری ناکہ بندیاں اور ایک مخصوص قبیلے کے افراد کی آمد ورفت پر قد غن کے باوجود ،یہ تبدیلی اکثر لوگوں کو ناگوار نہیں گزری۔اندرون شہر اور مضافات میں فوج اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے افراد کے ساتھ ساتھ لوگ اب کچھ غیر مانوس مسلح لوگوں کی مسلسل آمدو رفت سے بھی آشنا ہو رہے ہیں۔

سچ تو یہ ہے کہ 2004ء کے بعد تیزی سے بدلتی سماجی تبدیلی نے شورش زدہ جنوبی وزیرستان سے ملحقہ بندوبستی اضلاع میں رہنے والوںکے ذہن بری طرح ہلا کر رکھ دیے تھے۔نہ صرف ثقافتی اقدار ملیا میٹ ہوئیں بلکہ خوف اور تشدد کے سائے تلے جنم لینے والے حالات نے لوگوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی سلب کر لیا تھا۔

تحریک طالبان کا روپ دھارنے تک ٹانک جو محسود قبائل کا سرمائی سکونتی مرکز بھی گردانا جاتا ہے اب پوری طرح نئی اقدار سے آشنا ہو چلا تھا۔نوجوان اور نو خیز لڑکے اب ظاہری شکل و شباہت میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ طالبان تحریک کے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے خاصی حد تک متحرک ہوگئے تھے۔غیر شرعی قرار دی جانے والی تجارتی ،سماجی اور مذہبی سرگرمیوں پر بھی قد غنیں لگنا شروع ہوگئیں۔لیکن جہادی کلچر کا یہ بڑھتا ہوا رنگ اب معدوم پڑنے لگا ہے۔

بیت اللہ محسود اور تحریک طالبان کے بے پناہ بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ میں کمی لانے کیلئے ان سے مخاصمت رکھنے والے کچھ عسکریت پسند گروہوں کو حکومت نے بڑھاوا دیا تو ملک ترکستان بیٹنی کی پرائیویٹ ملیشیاء اور سابق جنگجو کمانڈر عبداللہ محسود کے دھڑے سے وابستگی کا دعویٰ کرنے والے قاری زین الدین گروپ سامنے آیا۔حکومتی حمایت کے غیر معمولی سائے میںتیزی سے پرورش پانے والایہ نیا پلیٹ فارم ٹانک اور ڈیرہ کے اضلاع میں لوگوں کیلئے جزوقتی ریلیف کا سبب یو ںبنا ہے کہ مخصو ص حکمت عملی کے تحت یہ مسلح گروپ اب غیرمعمولی طور پر متحرک ہوگئے ہیں جو بزور شمشیر اسلام اور شرعی قوانین کے نفاذ کے خواہش مندوں سے بری طرح سے پیش آئے۔ شہر کے اطراف اور بیچ سے بیت اللہ محسود کے کئی مبینہ ساتھیوں کی گولیوں سے چھلنی نعشیں برآمد ہوئیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ ان عناصر کا قلع قمع کرنے میں سیکورٹی ایجنسیوں کے علاوہ ان لوگوں کا بھی ہاتھ ہے۔قتل کی یہ وارداتیں خواہ کتنی ہی بڑھا چڑھا کر پیش کی جائیں، ایک بات طے ہے کہ وہ لوگ جو مبینہ طالبان کی کارستانیوں سے عاجز ہوچلے تھے اس نئی افتاد کو بہر طور ریلیف کے تاثر میں لینے کے قائل نظر آئے ۔ یقینا اب کی بار طالبانائزیشن کے بڑھتے ہوئے نفوذ پر گویا کاری ضرب پڑی تھی۔

قاری زین الدین اور ملک ترکستان نے 2007ء میں بیت اللہ محسود سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد طالبان کے غیض و غضب کا جس طر ح سامنا کیا وہ ایک الگ داستان ہے۔ 2008ء میں مؤخرالذکر کی کھل کر مخالفت کا خمیازہ ترکستان بیٹنی کو جنڈولہ میں غیر معمولی کشت وخون کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ترکستان جس نے جنڈولہ امن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے تحریک طالبان سے برملا مزاحمت کی ٹھان لی تھی،طالبان سے خون خرابہ کے دوران اس کے چالیس سے زائد آدمی کام آئے جبکہ بیٹنی نعمت خیل قبیلے کے افراد کو ترکستان سے وابستگی کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑا اور سینکڑوں خاندان جنڈولہ اور اس کے اطراف سے محفوظ مقامات کی طرف ہجرت کرگئے۔لیکن 2008ء کے آخر میں ساری قوت مجتمع کرکے ملک ترکستان نے قاری زین الدین گروپ کی معیت میں خاصی حد تک ٹی ٹی پی کے اثرات کوکچلا تھا اس بار ان عناصر کو فوج کی واضح حمایت حاصل تھی۔ خودکش حملوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کو یکسر غیر انسانی اور غیر شرعی قرار دے کر یہ حلقے بیت اللہ محسود کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔

لیکن سنجیدہ طبقہ اس مختصر المدتی ریلیف کو ناکافی سمجھتے ہوئے ایک سوال مسلسل اٹھا رہا ہے کہ طالبان کی جگہ لینے والے ان حکومتی حمایت یافتہ عناصر کی جاری کاروائیوں سے مستقبل قریب میں کیا مضمرات سامنے آئیں گے۔اب تک حکومتی منشاء کے مطابق پانچ کے قریب دفاتر کھولے جانے کے نتیجے میں درجنوں مزید ایسے لوگ بھی ملک ترکستان کے گروپ میں شامل ہوچکے ہیں جو تحریک طالبان کے ہاتھوں بالواسطہ یا بلاواسطہ زک اٹھا چکے ہیں (جن میں بعض مقامی پولیس کو جرائم میں مطلوب بتائے جاتے ہیں)۔سوال یہ ہے کہ کل کو پانسہ کسی اور جانب پلٹنے سے حکام کی مصلحتوں پر مبنی اس حکمت عملی کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ ان عناصر کا عمل دخل ٹانک اور دیگر ملحقہ علاقوں میں بڑی سُرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے۔تاہم راقم کی دانست میں یہ قیاس کرنا قبل از وقت ہے کہ یہ حکومتی حمایت یافتہ عسکریت پسند گروپ ٹی ٹی پی کا شیرازہ وزیرستان میں بکھیرنے کے قابل سکے گا جو بیت اللہ محسود کا اب بھی مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔