working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
جاوید آفتاب

سانجھے تاریخی ،تہذیبی، ثقافتی، علمی،ادبی،سماجی اور سیاسی رنگ میں ڈوبے سرخ جنوبی ایشیاء کے اس خطے کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ،برصغیر کے حوالے سے لہو میں رنگی ہوئی نظر آئے گی۔ جس میں انگریزوںکی شاطرانہ چالوں اور ان اشاروں پر کٹھ پتلیوں کی مانند اچھلتے کودتے لاتعداد سیاسی و غیر سیاسی (فوجی) کرداروں سے بھر ی دکھائی دے گی۔ خاص کر برصغیر ہی کی تقسیم کے وقت یہاں سے جاتے جاتے پاک و ہند اور کشمیریوں کے درمیان کشمیر کی صورت میں ایک ایسا زہریلا بیج بویا جو آج تناور درخت کی شکل اختیار کرنے کے بعد گذشتہ باسٹھ62 سالوں سے تنازعے کا باعث بنا ہوا ہے اور شاید ہمیشہ بناہی رہے گا کہ پہلے برطانوی کمپنی بہادروں کااس کی بنیاد رکھنے میں ہاتھ تھا، پھر اب امریکن کمپنی بہادروں اور اقوام متحدہ نے ان کی جگہ سنبھال لی ہے۔ یوں ان دونوں ممالک (پاک و ہند) کے درمیان حقیقتاً یہ مسئلہ' اگلے تو اندھا ،کھائے تو کوڑی'کی مثال بن گیا ہے۔پاکستان جس دو قومی نظریے پر قائم ہوا تھا۔ ایک قومی نظریہ مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے کے بعد فنا فی اللہ ہو گیاہے۔ بنگالیوں نے اس پاکستان سے آزادی حاصل کرنے کے بعد کشمیر کے حوالے سے کبھی صدائے احتجاج اس طرح بلند نہیں کی جیسے پہلے پاکستان کا ایک بازو ہونے کی صورت میں کرنے کے پابند تھے۔پھر دونوں ممالک کی افواج،انٹیلی جنس ایجنسیاں ،اسٹیبلشمنٹ، بیورو کریسی،عدلیہ،تمام مذہبی ،سیاسی،جہادی،فرقہ وارانہ و لسانی جماعتیں سبھی خطے میں موجود تنازعات کے گرد گھومتے ہیں۔دوسری طرف انہی ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام نے جس طرح اپنے پنجے پیوست کیے ہیں اور ان تمام قوتوں کی جو دامے درمے سخنے مدد کی اسی وجہ سے مغربی طاقتوں کے طفیل اقتدار کے نشے میں ڈوبے اس مراعات یافتہ طبقے کے منہ کو ایسا خون لگ چکا ہے جس کی پیاس وہ سرخ جنوبی ایشیاء کے خطے کی محکوم رعایا کے ہی خون سے پی کر بجھا رہے ہیں۔

 ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے       سبھی اسی زلف کے اسیر ہوئےہم ہوئے