Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
|
|
خود اصلاحی کے مسائل |
خالداحمد
خالد احمد، پاکستان کے معروف صحافی اور دانشور ہیں۔ وہ آج کل ڈیلی ٹائمز اور فرائیڈے ٹائمز سے منسلک ہیں۔ خالد احمد، ان چند لکھاریوں میںسے ہیں جنہیں سمجھنے اور لکھنے کا ایک خاص وصف عطا ہوا ہے، خالد احمد کا یہ مضمون بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے منفرد ہے، جس میں مصنف نے پاک بھارت تناظر میں خود اصلاحی کو اجاگر کیا ہے۔ (مدیر)
|
سابقہ سیکریٹری خارجہ ریاض کھوکھر نے 19جون 2009ء کو ''دنیا ٹی وی'' کے ایک مباحثے میں صدر پاکستان جناب آصف علی زردار ی کی ہندوستان کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ساتھ اچانک ملاقات پر پروٹوکول کے متنازعہ معاملے میں صدائے احتجاج بلند کی ۔ایک اخباری اطلاع کے مطابق ڈاکٹر منموہن سنگھ نے زرداری صاحب کو پیشگی ملاقات کے لیے وقت طے کرنے کے معاملے پر اپنا رویہ تبدیل کرنے کا مشورہ دے کر پاکستان کو آڑے ہاتھوں لیا جس کا حکومت کی جانب سے دو ٹوک جواب نہ دے کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیاتھا۔
پروگرام کے میزبان ڈاکٹر موید پیرزادہ نے ''انڈس ایکسپریس'' کے ایڈیٹر شیکھر گپتا کو ٹیلی فون کر کے پوچھا کہ کیا ہندوستان کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ منموہن سنگھ نے پاکستان کے ساتھ درشت رویہ اختیار کر کے عوام کو سکون پہنچانے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔ مسٹرگپتا کی رائے میں سیکریٹریز خارجہ کی ملاقات قبول کرتے وقت مسٹر سنگھ کا رویہ جارحانہ نہیں بلکہ معتدل تھا اور جہاں تک دہشت گردی کے حوالے سے بیان کا تعلق ہے تو وزیر اعظم ہندوستان نے کوئی نئی بات نہیں کہی بلکہ انہوں نے وہی پرانی بات ہی دہرائی تھی جس پر انڈیا آج تک مسلسل زور دیتا آرہا ہے اور یہ میڈیا کے نقطئہ نظر سے بھی ایک دفاعی حکمت عملی تھی ۔
گفت و شنید میں دراڑیں
میڈیا کی رائے میں باہمی تعلقات میں اتار چڑھائو کی وجہ سے پاکستان گفت و شنیدکا تسلسل دوبارہ شروع کرنے کا خواہاں ہے کیونکہ بحرانوں کے مسلسل ارتکاز کا رخ بدلنے کے لیے وہ دنیا کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ وہ اس خطے میں ایک اہم ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس طرح بین الاقوامی برادری کے ساتھ بھی تعلقات کار میں بہتری آئے گی اور مشترکہ بحرانوں پر شروع ہی میں قابو پا لینے میں آسانی پیدا ہوگی۔
مذاکرات کی بھو ل بھلیاں
اسے کیا کہیے کہ اکثر اوقات حل ہو سکنے والے مسائل بھی بے اثر پڑے رہتے ہیں ۔سرکریک کی پہلی لائن کو کئی اجلاسوں میں زیر بحث لاتے ہوئے دونوں طرف کے احباب نقشے پر کھینچی گئی لائن کی موٹائی یعنیThicknessکے چکر سے ہی نہیں نکلتے جس کی وجہ سے کئی ایکڑزمین کا ضیاع ہو چکا ہے۔ مزید برآں انڈیا کی جانب سے مزید کئی مسائل اٹھائے جاتے ہیں جس سے اصل مسئلہ اندھیرے میں چلا جاتا ہے۔ ''انڈس واٹر ٹریٹی'' کے سمجھوتے کے ساتھ ساتھ بگلیہار ڈیم کی طرح کئی چھوٹے چھوٹے مسائل بھی زیر بحث لائے جا سکتے ہیں مگر انڈیا کشمیرکے اصل مسئلے سے نظر ہٹانے کے لیے غیر اہم مسائل شامل کر تارہا ہے۔
اندرا گاندھی سوچ رہی تھی کہ1971کی جنگ کے بعد کشمیر کا مسئلہ کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ شملہ معاہدے کے بعد پاکستان دھیمی رفتار سے آگے بڑھتا رہا حتیٰ کہ 20ویں صدی کی آخری دہائی آن پہنچی ۔کارگل کا واقعہ بھی اسی تسلسل کا شاخسانہ تھا جو ماضی میں وقوع پذیر ہو چکا تھا۔ نواز شریف اقتدار سے محروم ہو گئے لیکن کارگل کا ولن مشرف مذاکرات کی میز پر آ گیا اور واجپائی سے اس اعلامیہ پر متفق ہو گیا کہ پاکستان کی جانب سے کشمیرمیں کوئی در اندازی نہیں ہوگی۔
مذاکرات کی حوصلہ شکنی کی سیاست
ہر دفعہ غیرریاستی طاقتوں نے ہندوستان میں حملے کیے جس سے گفت و شنید کا سلسلہ سبوتاژ ہوا لیکن بین الاقوامی دبائو کی وجہ سے ان دونوں نیوکلیئر طاقتوں نے ہمیشہ مذاکرات کا دامن تھاما۔ اس دفعہ پاکستان بھی یہی چاہتا تھا کہ گفت وشنید کو آگے بڑھایا جائے کیونکہ بعض عناصر خیال کرتے ہیں کہ قبائلی علاقوں میں بد امنی کی صورت حال میں انڈیا کا خفیہ ہاتھ بھی کار فرما ہے۔ کیونکہ انڈیا چاہتا تھا کہ ان غیر ریاستی طاقتوں کی سرگرمیوں کو 2008میں ممبئی میں ہونے والے حملوں کے تناظر میں دیکھا جائے۔ اس دوران ان حملوں کو مرتب کرنے والی ملیشیا کے سربراہ کو رہا کر دیا گیا۔ مزیدبرآں لال مسجد کے رہنما کی رہائی بھی عمل میں آ گئی۔ سپریم کورٹ کے ان فیصلوں سے انڈیا اور بین الاقوامی برادری سناٹے میں آگئی۔
برابری کا جنون
پاکستانی سفارت کار مذاکرات کے باوجود کسی بھی کارروائی کا جواب دینا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ پھر بھلا مذاکرات کا کیا فائدہ ہوا؟ پاکستان کو نہایت سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ اب تک انڈیا کے ساتھ اپنی پالیسی کی ناکامی اور جنگوں میں الجھے رہنے سے کیا فائدہ ہوا۔ انڈیا کے ساتھ گفت وشنید ایسے عمل کا حصہ ہونا چاہیے جس میں ملک کی اپنی اصلاح ہو اور یہی وہ نکتہ ہے جس کا مغرب تقاضا کر تا ہے اور پاکستان اسے بہ یک جنبش اَبرو نظر انداز بھی کر سکتا ہے لیکن پھر اسے اس امداد سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے جو اقتصادی مسائل سے دو چار مغربی ممالک پاکستان کی اقتصادی صورت حال کو سہارا دینے کے لیے دے رہے ہیں۔ ہمارے سفارت کار چاہتے ہیں کہ پاکستان اپنے آپ کو درست سمت میں لائے جبکہ وہ ہندوستان سے بھی مذاکرات کے حامی ہیں ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انڈیا بھی اس سمت میں پیش رفت کرے گا۔
خود اصلاحی کے بہروپ
پاکستان کی خود اصلاحی کا انڈیا سے کوئی تعلق نہیں جوڑا جا سکتا کیونکہ اسے دنیا میں رہنے کے لیے اپنا تحفظ درکار ہے ۔لیکن یہ اس وقت اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جب متوازی غیر حکومتی عناصر طالبان اور القاعدہ کے ساتھ مل کر عسکری کارروائیوں کا سبب بنتے ہیں۔ لوگوں کے سر کاٹنے سے انڈیا کے ساتھ مذاکرات میں رکاوٹ پیش آتی ہے۔ ذاتی درستی سے تمام دنیا کی ہمدردیاں بھی حاصل ہوں گی اور انڈیا سے تعلقات کار میں اضافہ بھی ممکن ہے۔ تاہم نئے مذاکرات کی شروعات پر پاکستان اور انڈیا میں سے پاکستان کو زیادہ ذمہ داری کا ثبوت دینا پڑے گا اور مذاکرات کی کامیابی کے لیے بھی پاکستان کو ہی فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہوگا۔
ذاتی اصلاح کا تصور
ان ممالک میں جو نسبتاً کمزور اور چھوٹے ہیں شکست پر محمول کیا جاتا ہے۔ وہ عزت کو تمام عوامل سے مقدم جانتے ہیں اور قومی اقتصادی صورت حال جیسی بنیادی ضروریات سے لاتعلق رہتے ہیں۔ امریکا نے بھی اپنے آپ کو درست سمت میں لانے کے لئے کئی اقدامات کیے۔ خصوصاً ویت نام کی جنگ کے بعد اس نے ایک اہم قدم اٹھایا جو بش دور کے بعد عمل میں لایا گیا۔ لیکن پاکستان کو اپنی اصلاح احوال کے لیے ہندوستان کے ساتھ باہمی فضا کو بہتر بنانا ہو گا اور اس کے لیے کئی دیرینہ معاملات سے صرف نظر بھی کرنا ہوگا۔
متبادل حکمت عملی
گفت وشنیدکے لیے متبادل ذرائع استعمال کرنے پڑیں گے۔ یہ اس لیے بھی مفید ہے کہ اس کے لئے مخالفین کے دبائو کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور فریقین کے حقیقی نظریات کو سمجھنے میں بھی مدد ملے گی۔ ماضی میں اس طرح کے واقعات کا مثبت رد عمل سامنے آیا لیکن ہٹ دھرمی کی فضا نے اس سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھانے دیا۔ لیڈر حضرات اس صورت حال سے اچھی طرح عہدہ برآہو سکتے ہیں۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آگے جانے کا راستہ بند ہے تو وہ متبادل طریقے ڈھونڈنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں ۔
20جون 2009ء کو ڈان اخبار میں اے جی نورانی Indo-Pak Dialogue after Mumbai کے عنوان سے لکھے گئے مضمون میں رقم طراز ہیں ''متبادل راستے سے حوصلہ افزا نتائج حاصل کیے گئے ہیں ۔ 2مئی کو وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے بیان کی تصدیق کی اور بتایا کہ وہ اور جنرل مشرف در حقیقت کشمیر کے معاملے پر سمجھوتے کے قریب پہنچ گئے تھے جس میں تمام مسائل کا غیر روایتی حل تلاش کرنے کی کوشش شامل تھی لیکن جنرل مشرف اس وقت گونا گوں مشکلات سے دوچار تھے جس میں چیف جسٹس کے ساتھ ٹکرائو کے علاوہ دوسرے کئی محاذ بھی کھلے ہوئے تھے، چنانچہ سارا معاملہ ہی چوپٹ ہو کر رہ گیا۔
سارک سمجھوتوں پر عمل در آمد
احسن قدم کے طور پر پاکستان کو سارک کے پلیٹ فارم پر کیے گئے تمام سمجھوتوں پرعمل درآمد ممکن بنانا ہو گا کیونکہ اس دستاویز پر انڈیا اور پاکستان دونوں طاقتوں نے برضا و رغبت دستخط کر رکھے ہیں۔ مثلاً1999ء میں نواز اور واجپائی کی ملاقات میں طے پایا تھا کہ سارک ممالک 2000ء کے مقاصد اور نصب العین کے لیے مل کر کام کریں گے اور جنوبی ایشیاء کے عوام کی فلاح وبہبود اور ان کے معیار ِزندگی کو بلند کرنے کے لیے اقتصادی ، سماجی اور ثقافتی ترقی کے کاموں کو فوقیت دی جائے گی۔
ایک مثال جس سے کئی پاکستانی اچنبھے کا شکار ہوئے وہ جناب زرداری کا وہ بیان تھا جس میں انھوں نے اپنے افغان ہم منصب کو ایک ایسے سمجھوتے کی پیش کش بھی کی جس سے انڈیا کے افغانستان اور وسطی ایشیاء میں تجارت کے لیے دروازے کھل سکتے تھے۔ اور یہ ضروری بھی تھا کیونکہ 1990کے مذاکرات کے بعد ان دو ریاستوں نے ایک دوسرے کے ساتھ جو کھیل کھیلے ہیں وہ ایک کھلی کتاب کی مانند نظروں کے سامنے ہیں۔
(بشکریہ : ڈیلی ٹائمز 30جون2009ئ)
(انگریزی سے ترجمہ: مالک اشتر)
|
|
|
|
|