working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

طالبان کی شورش اورمدافعتی حکمت عملی
محمد عامر رانا
پاکستان کے شمال مغربی علاقوں میں جاری طالبان کی شورش کے حوالے سے اس مضمون کی اہمیت اس لیے دوچند ہے کہ اس میں اس شورش کا پس منظر، سرگرمیاں اور مدافعتی حکمت عملی ہی کو موضوع بحث نہیں بنایا گیا بلکہ مستقبل کے خاکے میں یہ بھی دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح اس کا سد باب ہوسکتا ہے۔ پے در پے ہونے والے بے نتیجہ آپریشنز اور طالبان کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ اور اس کے نتیجے میں بری طرح متاثر ہوتی ہوئی ریاست کی ساکھ، یہ سب اس مسئلے کے ایسے رخ ہیں جو کلی جائزے کا تقاضا کرتے ہیں، یہ جائزہ آپ کو اس مضمون میں پوری طرح نظر آئے گا۔ (مدیر)
بالآخرپاکستانی فوج نے اپریل 2009میں طالبان کے خلاف ''راہِ راست'' آپریشن کے نام سے ایک بھر پور حملے کا آغاز کر دیا۔ یہ فیصلہ کن کارروائی ان دو معاہدوں کی ناکامی کے بعد کی گئی جب ملا فضل اللہ کی زیر قیادت مقامی طالبان گروہ اور تحریک نفاذ شریعت محمدی(TNSM)کے امیر صوفی محمد کے ساتھ صوبائی حکومت کا طے پانے والا سمجھوتہ ناکام ہو گیا۔نظام عدل نافذ ہونے کے باوجود طالبان نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ صرف ہتھیار پھینکنے سے صاف انکار کر دیا بلکہ انہوں نے سیکیورٹی فورسز بشمول فوج، فرنٹئیرکور(FC)اور پولیس پر حملے بھی جاری رکھے۔ ابھی جب کہ امن معاہد ہ برقرار تھا اور فوج نے آپریشن بھی شروع نہیں کیا تھا عسکریت پسندوں نے صرف اپریل کے مہینے میں سوات ،دیراور بونیر کے اضلاع میں دہشت گردی کی اٹھارہ کارروائیاں کیںجن میں سے آٹھ حملوں میں سیکیورٹی فورس،آرمی اور پولیس کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ اس سے صاف ظاہر تھا کہ عسکریت پسند وں کی نظر میں امن معاہدے کی کوئی اہمیت نہیں تھی او ر وہ خود ساختہ ایجنڈے پر ہر قیمت میں عمل پیرا رہنا چاہتے تھے۔ جب طالبان نے سوات کے ملحقہ علاقوں مثلاً بونیر اور شانگلہ پر چڑھائی کی تو اس وقت حکومت کو بھی طاقت استعمال کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہ آیا۔

یہ پاکستانی فوج کا فاٹا اور صوبہ سرحد میں 15واں بڑا آپریشن تھاجبکہ اس سے پیشتر جتنے بھی آپریشن ہوئے وہ آخر کار امن معاہدوں پر منتج ہوئے اور طالبان کے ساتھ ہر سمجھوتے کو حکومت نے اپنی فتح قرار دیا جبکہ طالبان ان معاہدوں کی آڑ میںاپنے اثر و نفوذ کو بڑھاتے رہے۔ انہوں نے مختلف علاقوں میں نہ صرف اپنی کمان کو مضبوط کیا بلکہ نئی بھرتیاں بھی کیں جس سے طالبان کو مزید تقویت ملی۔

ملک کے شمال مغربی حصوں میں باغیوں کے خلاف حکومتی اقدامات نے کئی سوالوں کو جنم دیا۔ حکومت کی طاقت ،قابلیت اور عسکریت پسندی کو ختم کرنے کی فوجی استعداد کا ر کے حوالے سے مختلف تحفظات سامنے آئے ۔قبل ازیں طالبان کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومتی اور غیر سرکاری سطح پر نہایت کم کوششیں کی گئیں حالانکہ اس مسئلے کے محرکات اور اس کے پھیلائو کو اس کی اصل روح کے مطابق سمجھنا انتہائی ضروری ہے۔ ابتدا میں طالبان کو افغانستان میں ہونے والے واقعات کے تناظر میں رد عمل کی تحریک سے تعبیر کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ ایک عارضی تحریک ہے جو جلد ہی دم توڑ جائے گی۔ پاکستانی ریاست اور معاشرہ القاعدہ کے ساتھ روابط کے باوجود طالبان کو دہشت گرد قرار دینے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھا اور اس تحریک کو مذہبی ،سماجی، اصلاحی اور سیاسی رنگوں میں دیکھا جا رہا تھا۔ طالبان کو حکومت اور معاشرے کے لیے اس وقت تک خطرناک نہیںسمجھا گیا جب تک کہ انہوں نے باغیانہ سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز نہ کر دیااو ر اپنے آپ کو علاقائی اور عالمی تشدد پسند تحریکوں سے نہ جوڑ لیا۔

زیرِ نظر مضمون میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ طالبان کی سرگرمیوں سے پردہ اٹھایا جائے اور دیکھا جائے کہ اس ابھرتے ہوئے چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے موزوں ترین اقدامات کیا ہو سکتے ہیں ۔ او ر وہ کیا عوامل تھے جنہوں نے اس تحریک کے پنپنے کی راہ ہموار کی اور حکومت نے اس تمام صورت حال پر کس طرح رد عمل کا اظہار کیا۔ یہ وہ اہم ترین سوالات ہیں جن کا تجزیہ کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ اس مضمون میں حکومتی مواقع اور طالبان کی جانب سے در پیش خطرات سے بھی پردہ کشائی کی گئی ہے۔ حکومت کی کمزوریوں کو بھی جانچنے کی کوشش کی گئی ہے اور مستقبل میں پیش آنے والی متوقع ناکامیوں اور کامیابیوں کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے اور ان باغیانہ سرگرمیوں کے نتیجے میں ریاست اور معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات بھی تجزیے میں شامل ہیں۔

پس منظر
افغانستان میں طالبان کے زوال کے بعد القاعدہ کو بھی خاصی ہزیمت اٹھانی پڑی اور وہ بچتے بچاتے پاکستان کے ملحقہ قبائلی علاقوں میں روپوش ہو گئے ۔شروع شروع میں انہوں نے جنوبی وزیر ستان کے قبائلی علاقے میں جمع ہونا شروع کیا اور پھر رفتہ رفتہ ان میں شادیاں بھی رچا لیں یوں دولت اور یکساں نظریاتی اساس کی بنا پر اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا وا دیا۔(1) انہوں نے افغانستان میں اتحادی فوجوں کے خلاف شدید گوریلا کارروائیاں کیں حتیٰ کہ فروری2004ء میں وانا آپریشن کے نام پر پاکستانی فوج نے آپریشن کا آغاز کیا۔ طالبان اور سیکیورٹی فورس کے درمیان پہلا تصادم اس وقت ہوا جب القاعدہ اور طالبان نے مل کر امریکی دستوں اور افغان افسران کو اغواء کرنا شروع کیا۔ انہوں نے مذکورہ مغویوں کو اپنے ان ساتھیوں کی رہائی کے بدلے میں استعمال کیا جو افغانستان کی مختلف جیلوں میں قید تھے۔ ادھر امریکا نے بھی حکومت پاکستان پر دبائو بڑھا دیا کہ وہ طالبان اور القاعدہ کی پشت پناہی سے باز رہے۔ حتیٰ کہ اس نے پاکستان کو یہ دھمکی بھی دی کہ اگر قبائلیوں نے طالبان اور القاعدہ کی مدد جاری رکھی تو ان کے خلاف بھی عسکر ی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔(2) حکومت پاکستان نے قبائلی عمائدین سے رابطہ کر کے انہیں معاملے کی نزاکت سے آگاہ کیا اور ان کے علاقوں میں رہا ئش پذیر غیر ملکیوں کو سرکار کے حوالے کر نے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی مگر قبائلیوں کے مطالبات بڑھتے چلے گئے۔

جلد ہی حکومت اور قبائلی عسکریت پسند ایک دوسرے کے مقابلے پر اتر آئے۔ 5ستمبر 2002ء کو صوبہ سرحد کے ضلع بنوں کے ایک قبیلے نے پاکستان آرمی سے ان 6قیدیوں کو رہا کرنے کی اپیل کی جو کہ القاعدہ کے ساتھ رابطوں میں ملوث پائے گئے تھے ۔(3 )اس نے پاک فوج کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ۔جب شمالی وزیر ستان میں اکا خیل کے ایک چھوٹے قبیلے کے کچھ افراد نے افغانستان کے اندر گھس کر پانچ امریکی فوجیوں کو قیدی بنا لیا تو جولائی2003ء کے اس واقعے کے رد عمل کے طور پر پاکستان آرمی نے ان قبائل کے خلاف پہلے بڑے آپریشن کا آغاز کر دیا ۔ یہ آپریشن جو 3روز تک جا ری رہا اسے انٹر سروسز پبلک ریلیشنISPR نے ضابطے کی عام کارروائی قرار دیا ۔ قبائلیوں کے بقول بنوں محض ہیڈ کوارٹر کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ جبکہ ان وزیری قبائل کے خلاف اصل کارروائی درہ اکا خیل میں ترتیب دی جاتی تھی جو امریکن فوجیوں کے اغواء میں بھی ملوث تھے۔ پاکستانی فوج نے مغویوں کو حفاظت سے برآمد کرلیا اور انہیں بنوں ایئرپورٹ کے راستے افغانستان بھجوا دیا۔

اسی دوران حکومت پاکستان نے پٹھانوں کے روایتی جرگے اور لشکر ترتیب دے کر قبائل کو مجبور کیا کہ وہ القاعدہ اور طالبان کی مدد ترک کردیں۔ اس قسم کا پہلا جرگہ اگست 2002ء میں منعقد ہوا اور غیر ملکیوں کو بے دخل کر نے کے لیے اکتوبر 2002ء کے مہینے میں ہی پہلا لشکر بنایا گیا۔(4) تاہم قبائل نے اپنے اقتصادی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کی خاطر اسے نیم دلی سے قبول کیا کیونکہ وہ عسکریت پسندوں کو مجاہدین سمجھتے تھے جو کہ اسلام کی خاطر مشرک قوتوں کے خلاف افغانستان میں نبرد آزما تھے۔ جب یہ کوششیں بار آور ثابت نہ ہو سکیں تو حکومت نے قبائل پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ ان پابندیوں کے خلاف ابتدائی رد عمل انتہائی منفی رہا اور عسکریت پسندوں نے اپنی سرگرمیاں صوبہ سرحد کے شہری علاقوں تک پھیلا دیں انہوں نے پشاور اور بنوں کے اضلاع میں کئی حملے کیے لیکن رفتہ رفتہ ان پابندیوں کے مضمرات واضح ہونا شروع ہو گئے اور عسکریت پسند حکومت سے سمجھوتے کی میز پر آگئے۔حکومت نے مسائل حل کرنے کی خاطر دوسرے کئی پہلوئوں پر بھی غور کیا اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان غیر ملکیوں کی رجسٹریشن پر بھی آمادگی ظاہر کر دی گئی۔ اس وقت تک ملٹری آپریشن سے کوئی قابل ذکر نتائج حاصل نہیں ہوئے تھے اور عسکریت پسند اپنے ٹھکانے بھی مضبوط کر چکے تھے۔ ادھر سیاسی انتظامیہ اور پاکستان آرمی ان قبائل کے ساتھ کئی سمجھوتوں پر گفت وشنید کر رہی تھی۔ اس قسم کا ایک سمجھوتہ جو 27جون 2002ء میں قبائلی سرداروں اور پاکستان آرمی کے درمیان طے پایا تھا جس کی رو سے غیر ملکی عسکریت پسندوں کوپناہ دینے والوں کے گھر اور جائیدادیں تباہ و برباد کر دی جانی تھیں۔ پاکستانی فوج اور سیاسی انتظامیہ نے قبائلی عسکریت پسندوں کو اس غرض سے خطیر رقم بھی مہیا کی۔(5)

جرگے، لشکر، اقتصادی پابندیاں، رجسٹریشن، روپیہ ،پیسہ،فوجی قوت کا استعمال حتی ٰ کہ امن معاہدے ان مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہو گئے۔ رفتہ رفتہ قبائلی علاقوں میں غیر ملکیوں کی موجودگی کا معاملہ پس پردہ چلا گیا اور پاکستانی طالبان یا مقامی طالبان جنہیں القاعدہ کی پشت پناہی حاصل تھی حکومت کے مدِمقابل آ کر ایک بڑے خطرے کی شکل میں نمودار ہوئے ۔ انہوں نے پاکستان اور کشمیر میں واقع مختلف جہادی گروپوں سے تعاون کو مضبوط کیا اور باجوڑ، وزیرستان، مہمند، خیبر اوراورکزئی ایجنسیز میں اپنے گڑھ مضبوط کر نے لگے۔ اس کے علاوہ سوات، درہ آدم خیل، ٹانک، بنوں ، لکی مروت اور صوبہ سرحد میں ڈیرہ اسمٰعیل خان تک اپنا اثر و رسوخ پھیلا دیا اور جیسا کہ کئی شواہد اور میڈیا رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی اگلی منزل پنجاب اور کراچی ہو سکتی تھی۔

طالبان ایک غیر متوازن تحریک
عمومی طور پر شورش سے یہی مراد لی جاتی ہے کہ کسی گروپ یا جماعت کی منفی کارروائیاں جو اس ملک کے اندر ہی اپنے وضع کردہ نظریے پر عمل پیرا ہونے کی خاطر ہر قسم کے اقدامات اٹھانے سے گزیز نہ کریں۔ (6) پاکستانی قبائلی علاقوں میں بھی طالبان کی تحریک ایسے ہی ایجنڈے پر کام کر رہی تھی ۔طالبان کسی خاص امتیاز کی حامل تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ ایسے مختلف گروہوں کا اتحاد ہے جن کے بیشتر مقاصد تو یکساں ہیں مگر ایجنڈے مختلف۔ یوں یہ خاصی گنجلک تصویر بنتی ہے۔ جب امریکی فوجی دستوں نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کرافغانستان کی حکومت کو معزول کر دیا تو ان طالبان کے ساتھ ہمدردی کا پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا او ر خاص طور پر پاکستان کے سرحدی قبائل کے لوگوں میں جو کہ مذہی اور نسلی طور پر پڑوسی افغانوں کے قریب ہیں، ان کی جانب جھکائو میں اضافہ ہوا۔ جب طالبان اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں نے افغانستان سے پاکستان کے قبائلی علاقوں کی جانب رجوع کیا تو انہیں یہا ں گرم جوشی سے خوش آمدید کہا گیا ۔ عسکریت پسندوں نے قبائلی لوگوں کی روایتی مہمان نوازی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جبکہ ان غیر ملکیوں کی موجودگی نے ریاست کے لیے امن و امان کے مسائل جنم دینے شروع کر دیے۔ بیرونی عسکریت پسندوں نے اپنی موجودگی کو تحفظ فراہم کرنے کی خاطر خاص طور پر مقامی لوگوں کو افغانستان میں جہاد کے لیے تیار کیا اور ان مقاصد کی راہ میں مزاحم ہونے والی کسی بھی عسکر ی طاقت کے خلاف نمٹنے کی ترغیب و تربیت فراہم کی۔ مذہبی جماعتوں ،جہادی گروہوں اور وہ مجاہدین جو پہلے روسی فوج کے خلاف لڑ چکے تھے یا1994ء سے2001ء تک افغانستان میں طالبان حکومت کے ماتحت خدمات انجام دے چکے تھے ان کی مقامی طالبان عسکریت پسند گروپوں میں شمولیت کے لئے راہ ہموار کی گئی۔

گذشتہ 8سالوں میں افغانستان اور پاکستان کی سرحدو ں کے دونوں اطراف میں رہنے والے طالبان نے سرحد کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو عسکری اور فنی لحاظ سے مضبوط کیا ہے ۔ ایسی کوئی واضح مثال موجود نہیں کہ 27مارچ2007ء میں فوج اور کمانڈر نیک محمد کے درمیان طے پانے والے معاہدئہ امن سے پہلے مقامی طالبان(پاکستانی طالبان)میںکسی تحریک کی شکل اختیار کرنے کی قوت موجود تھی۔ تاہم ایسی کافی شہادتیں موجود ہیں کہ طالبان شریعت کے نفاذ کے معاملے میں پیش رفت چاہتے تھے او ران کا بنیادی مقصد جہاد کے نام پر عسکریت پسندوں کی بھرتی اور فنڈ اکٹھا کرنا بھی تھا ۔(7) جب بیت اللہ محسود نے 22فروری2005ء میں حکومت کے ساتھ معاہدہ کیا تو اس وقت اس نے قبائلی علاقوں میں خود ساختہ نظام متعارف کرایا۔(8 ) وہ حکومت سے اپنے مقاصدمنوانے میں کامیاب رہا کہ اسے افغانستان میںاپنے دستے نہ بھیجنے کے بدلے میں اس کے علاقے میں شریعت نافذ کرنے کی اجازت دی جائے۔ تاہم اس نے معاہدے پر عمل درآمد نہ کیا اور ساتھ ہی طالبان نے اپنی پوزیشنوں کو مضبوط کرنے کے لیے معاہدے کو استعمال کیا۔ مقامی طالبان نے بھی ان معاہدوں کی طرز پر سمجھوتے کیے اور مکمل کنٹرول حاصل کرنے کے لیے چار نکاتی فارمولے پر عمل کیا جو ان کی تحرک کیلئے سنگ میل ثابت ہوا اور اس سے انہیں نظریاتی،اخلاقی اور سماجی مقاصد حاصل کرنے میں مدد ملی کیونکہ مقاصد ہی ہمیشہ کسی تحریک کے احیاء میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

بیت اللہ محسود کی چار نکاتی حکمت عملی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے عسکریت پسندوںنے جرائم پیشہ لوگوں کے خلاف اقدامات کئے اور اپنی کارروائیوں کو استحکام بخشنے کے لیے ٹیکس اکٹھا کرنا شروع کیا۔ دوسرے نمبر پر انہوں نے ان قبائلی عمائدین کا قتل کیا یا انھیں نکال باہر کیا جن سے انہیں خطرہ تھا کہ وہ ان کی راہ میں مزاحم ہو سکتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر انہوں نے باہمی جھگڑوں کو نمٹانے کے لیے متوازی انصاف کا نظام متعارف کرایا۔(9) صرف باجوڑ ایجنسی میں انہوں نے 1400مقدمات درج کئے اور اگست2008ء تک1000کا تصفیہ بھی کیا۔ (10) اور آخری نکتہ یہ تھا کہ اپنی انتظامی قوت کو مضبوط کرنے کی خاطر موزوں اور قابل اعتماد افراد کا تقرر کیا۔(11) طالبان نے مقامی لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی خاطر عوام میں رفاہی کام بھی انجام دیے۔ جون 2008ء میں طالبان نے جنوبی وزیر ستان میں ملٹری آپریشن کے دوران متاثر ہونے والے افراد میں 15ملین روپے تقسیم کیے۔(12 )

ان کی حکمت عملی نے مشترکہ ذمہ داریوں کے روایتی احساس پر بھی کاری ضرب لگائی جس کی وجہ سے سیاسی انتظامی امور پر بھی مضر اثرات مرتب ہوئے۔ تمام دوسرے عوامل جو طالبان کے نظریات اور آزادی متاثر کرنے کا موجب بنتے تھے انہیں سختی سے کچل دیا گیا۔ ان میں غیر سرکاری تنظیمیں(NGOs)، رسمی اور جدید تعلیمی ادارے سر فہرست تھے۔ طالبان نے NGOs پر پابندیاں عائد کر دیں۔ آڈیو ،ویڈیو کی دکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور تعلیمی اداروں خصوصاً لڑکیوں کے سکولوںپر حملے کیے گئے۔ جنوری2008ء سے مئی 2008ء کے درمیان انہوں نے 29سکولوں کو نشانہ بنایاجس میں سے 17لڑکیوں کے سکول تھے۔(13) محض فروری 2007ء تک طالبان نے 61 اساتذہ کرام (14) کو قتل کیا جبکہ 25مقامی اور غیر ملکی NGOsکو مجبور کر کے اسلام آباد کی جانب واپس منتقل کر دیا گیا(15) اور درجنوں ''امریکی اور پاکستانی جاسوسوں ''کوبھی مار ڈالا۔(16)

قبائلی علاقوں میں طالبانائزیشن کا عمل تدریجی مراحل سے گزر کر مکمل ہوا اور انہوں نے متوازی انصاف دیا اور انتظامی امور چلائے ۔طالبان رہنمائوںکے بیانات سے یہ اشارے ملتے تھے کہ وہ اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کرتے ہوئے مذکورہ نظام کو نہ صرف فاٹا یا صوبہ سرحد میںنافذ کرنا چاہتے تھے بلکہ اسے رفتہ رفتہ پورے ملک میں پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے ۔ یوں طالبان محض چار سے پانچ سال کے عرصے میں ایک بھر پور تحریک کی شکل اختیار کر گئے۔

طالبان کا طریقہ کار، انداز اور تحریک کا کردار بالکل ''سول وار'' یا انقلابی جدو جہد کی طرح ہے ۔ یہ تحریک ایک بھونچال کی طرح نمودار ہوئی تھی۔ 1911ء کی چینی انقلابی تحریک سے بھی اس کا موازنہ کیا جا سکتا ہے اور 1956ء کی ہنگری کی تحریک سے بھی جوڑ ملتا ہے ۔ یہ تحریک امریکا کی اس سول وار کی طرح منقسم بھی نظر آتی ہے جس نے قوم کو دو دھڑوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

طالبان باغیانہ سرگرمیاں قبائلی روایتی بنیادوں پر استوارہیں۔ انہیں حربی اور تخریبی انداز میں منظم کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ انہیں شہری علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ پھیلانے میں ناکامی کا سامنا کر نا پڑا۔

طالبان کے پھیلائو کے محرکات
بے شمار ایسے عوامل گِنوائے جا سکتے ہیں جنہوں نے طالبان کے پھیلائو میں اہم کردار ادا کیا اور غلط پالیسیوں کی بنا پر ان کی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھا اور استعداد کار کو وسعت ملی۔

فوجی کارروائیاں
یہ وہی قبائلی علاقے تھے جنہوں نے 18ویں صدی میں برطانوی حکومت کے خلاف سخت مزاحمت کی اور ہندوستان میں سید احمد شہید کی تحریک کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔ سید کی عسکری تحریک پنجاب میں سکھ حکومت کے خلاف تھی اور وہ ملک میں شیخ عبدالوہاب نجدی کی طرز کا اسلام نافذکرنا چاہتے تھے اور انہی علاقوں میں انہیں خاصی پذیرائی ملی ۔جب برطانیہ نے ہندوستان پر مکمل قبضہ کر لیا تو اس تحریک کا رخ انگریزوں کے خلاف ہو گیا جو کہ پاک و ہند کی آزادی تک جاری رہا۔ باجوڑ ،خیبر اور مہمند ایجنسیاں اس وقت سید احمد شہید کی تحریک کے حوالے سے مضبوط گڑھ کی شکل اختیار کر چکی تھیں۔(17) طالبان نے بھی اسی اسلامی ورثے کو استعمال کیا اور قبائلیوں کو اپنے حق میں ہموار کر لیا۔

مزید برآں اس وقت پاکستان کا ماحول پہلے سے ہی جہاد کی جانب مائل تھا۔ 9ستمبر2001ء سے پہلے ملک میں 104عسکری جہادی اور 82مختلف فرقو ں کے گروہ اور جماعتیں سرگرم عمل تھیں(18) اور یہ تمام عناصر 1980اور 1990کی دہائیوں میں وجود میں آئے ۔ روس و افغانستان کی جنگ اور کشمیر میں آزادی کی تحریکوں نے ان کی مزید نشوونما کی ۔9/11کے واقعے کے بعد یہ گروہ سکڑ نے شروع ہو ئے اور کشمیر میں 21جہادی اور 39مختلف فرقوں کی نمائندہ تنظیمیں اب بھی موجود تھیں۔ (19)جب کہ فاٹا(FATA)میں ان عسکریت پسندوں کا دائرہ وسیع ہو رہا تھا جہاں 50 سے زائد طالبان گروپس اور کئی دوسری تنظیمیں دیکھتے ہی دیکھتے 6سال کے قلیل عرصے میں معرض وجو د میں آگئیں۔(20)

متعدد تنظیموں کا قبائلی علاقوں میں بھی جال پھیل رہا تھا اور مختلف طالبان گروہ لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کر رہے تھے ۔ مولانا مسعود اظہر جیش محمد کے سربراہ کا دعویٰ ہے کہ مختلف جہادی تنظیموں پرپابندی سے طالبان گروہوں کو تقویت ملی۔ اس نے ایک ہفتہ وار رسالے میں اعتراف کیا ہے کہ:(21)

''کئی طالبان کمانڈر جو کہ آجکل سوات میں لڑ رہے ہیں وہ کبھی جیش محمد جیسی روحانی،وفادار اور اخلاقی تنظیم سے وابستہ تھے اور انہیں کسی مسلمان کو گزند پہنچانے کی ہمت نہیں پڑتی تھی لیکن جب حکومت نے جیش پر پابندی عائد کی تو انہوں نے بھی اپنی راہیں جدا کر لیں اور مقامی اور علاقائی کمانڈر بن بیٹھے ۔یقینا پاکستان میں عسکری گروہوں کا وجود مرکزی جماعتوں پر پابندی کا نتیجہ ہے۔''

قبائلی علاقوں میں پہلے سے موجود عسکری ماحول نے نئے گروپ تشکیل دینے میں طالبان کے کا م کو آسان کر دیا۔ مقامی طالبان گروہوں نے جہادی گروہوں کا لائحہ عمل اپنا یا اور اپنے ڈھانچے کی تشکیل کے لیے بھرتیاں کیں، فنڈ اکٹھے کیے اور پروپیگنڈے کے لئے نشرو اشاعت کے ذرائع کا استعمال کیا ۔ القاعدہ اور دوسرے غیر ملکی عناصر مثلاً ازبک، تا جک وغیرہ نے ان کی استعداد کار میں اضافہ کیا جس سے ان کی آپریشنل کارروائیوں کو تقویت ملی۔

مختلف طالبان گروہوں کا کردار
طالبان نے مختلف قبائل کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ ان کی طرز پر مختلف عسکری تنظیمیں بنائیں ۔ ابتدائی طور پر وزیری قبائل ہی طالبان کے ساتھ شمولیت اختیار کر رہے تھے جس کی وجہ سے دوسرے قبائل ہچکچاہٹ کا شکار تھے ۔ انہیں خوف تھاکہ وزیری اپنا اثر و رسوخ بڑھا لیں گے ۔ چنانچہ طالبان نے اپنی حکمت عملی تبدیل کی اور دوسرے قبیلوں کو بھی برابر حقوق دے دیے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اِس وقت FATAمیں الگ الگ عسکری گروہ کام کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے اپنے قبیلوں میں ان تحریکوں کو مضبوط کر دیا ہے ۔اپنی جیلیں قائم کر رکھی ہیں۔ اس طرح انکا انتظامی بوجھ بھی تقسیم ہو گیا ہے اور جب پاکستان آرمی ان کے خلاف آپریشن کر تی ہے وہاں یہ مقامی طالبان مل کر اس کی راہ میں مزاحم ہوتے ہیں۔

پاک افغان سرحد کے آر پار طالبان تحریک کی کامیابی کے پیچھے دو عناصر کار فرما ہیں ایک پشتون زبان اور دوسرے نمبر پر مذہبی ہم آہنگی۔ ایک زبان کی وجہ سے طالبان ایک متحدہ طاقت ہیں جبکہ ان کا مکتبہ فکر حنفی اسلا م ہے ۔(22)
 
مقاصد
ہر تحریک کے پیچھے ایک پرکشش مقصد کار فرما ہوتا ہے(23) جس سے وہ ایک مضبوط پلیٹ فارم کی صورت میں نمودار ہوتی ہے۔ اگر مقاصد واضح نہ ہوں تو جرائم پیشہ لوگ غالب آ جاتے ہیں۔خانہ جنگیوں کے مطالعے کے ماہر گیلولہ کے مطابق1945-50یونان میں کمیونسٹ اس لئے ناکام ہوئے کہ ان میں مشترکہ مقاصد کا فقدان تھا۔ ادھر طالبان اپنے مقاصد کو نہایت خوشنما طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ حالانکہ اگر ہم غور سے دیکھیں تو ان کی بنت کی ترتیب نظریاتی، سیاسی اور فقہی اختلافات کا مجموعہ ہے جس کا بنیادی مقصد ''دیو بندی''طرز فکر کے اسلام کا احیاء ہے ۔پہلے پہل انہوں نے فرقہ بندی کے بغیر لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کیں اور ان کا مقصد افغانستا ن کو امریکی اتحادی طاقتوں سے آزاد کرنا تھا۔ اس کے لیے جہاد کا آغاز کیا گیا جو اسلا م کی اقتصادی اور سیاسی اساس کے نظریے پر قائم تھا ۔انہوں نے مختلف ممالک کے اسلامی نظریات کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کی تاکہ غیر مسلموں کو افغانستان کی سرزمین سے نکال باہر کر یں او راس مقصد کی خاطر انہوں نے سرحدی اور جغرافیائی تقسیم کو بھی نظر انداز کیا۔

لوگوں نے اسے ایک انقلابی تحریک سے مشابہت دی اور طالبان نے بھی نہایت مہارت سے اپنا نظریہ متعارف کرایا۔ مذہبی سیاسی جماعتیں جو الیکشن کے طریقہ کار کا حصہ ہیں اور معتدل مزاج سکالرز بھی ان میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں، وہ بھی طالبان کے نظریات کا رد اعتماد سے نہیں کرتے ۔

سیاسی ڈھانچہ
طالبان نے قبائلی علاقوں میں سرکار کی حکومتی اور سیاسی کمزوریوں کا بھر پور فائدہ اٹھایا۔ وہ افغانستان کی طالبان طرز کی حکومت کو یہاں بھی متعارف کرانا چاہتے تھے۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 247کے تحت FATAوفاق کی عملداری میں آتا ہے ۔ اور انتظامی طور پر فاٹا 7سیاسی اکائیوں یا ایجنسیز پر مشتمل ہے جن میں باجوڑ ، مہمند،خیبر،اورکزئی،کرم شمالی اور جنوبی وزیرستان شامل ہیں۔اس کے علاوہ وہ چار سرحدی علاقے مزید بھی ہیں جو فرنٹئیر ریجن (FRs)کہلاتے ہیں ان میں پشاور ،کوہاٹ ،بنوں اور ڈیرہ اسمٰعیل خان جبکہ D.I.Khanکو مزید دو سرحدی علاقوں (FRs)میں منقسم کیا گیا ہے جوFR, D.I.Khan اور FR, Tankپر مشتمل ہیں۔ اسی طرح بنوں بھی FR, Bannuاور FR, Lakki کا مجموعہ ہے۔ ان قبائلی علاقوں کے انتظامی اور عدالتی امور 1901میں انگریزوں کے متعارف کرائے ہوئے Frontier Crime Regulations یعنی(FCR)کے مطابق چلائے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ،قبائلی لوگ اور کئی ماہرین ان قوانین کو انسانی بنیادی حقوق سے عاری سمجھتے ہیں کیونکہ ان قوانین کی بعض شقوں میں علاقہ بدری ،جائیداد سے محرومی ،مکان کا گرایا جانا وغیرہ شامل ہیں ۔مثلاً قبائلی علاقے سے بندوبستی علاقے میں داخل ہونے کی ممانعت (جزو نمبر21) گھر سے بیدخلی (جزونمبر36)کسی ایک شخص کے جرم کا پورے قبیلے پر جرمانہ(جزو نمبر23,22)دیوار بنانا یا گرانا (جزو نمبر31تا 33) (24) کسی گھر کا گرانا یا بنانا محض اس بنیاد پر کہ وہاں ڈاکو اور چور دیکھے گئے ہیں (جزو نمبر34) کسی شخص کے جرم کا اس کے رشتہ داروں پر جرمانہ عائد کرنا اور اس کی جائیداد کو فروخت کرنا (جزو نمبر56) اور پولیٹیکل ایجنٹ کے فیصلے کے خلاف کسی بھی عدالت کا دروازہ نہیں کھٹکھٹایا جا سکتا(جزو نمبر60)وغیرہ وغیرہ۔(25)

فاٹا میں ہر ایجنسی میں حکومت کا منتظم پولیٹیکل ایجنٹ (سول سرونٹ) ہوتا ہے جو صوبہ سرحد کے گورنر کو جواب دہ ہوتا ہے ۔ وہ مقامی عمائدین جو ملک کہلاتے ہیں ،کی وساطت سے قبائلیوں سے رابطہ رکھتا ہے ۔ طالبان نے اس تمام نظام کو عضو معطل بنا کر رکھ دیا ہے۔ انہوں نے پولیٹیکل ایجنٹ کو بے اثر کر دیا ہے اور قبائلی ملکوں کو یا تو قتل کر ڈالا ہے یا پھر انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سوات اس سلسلے کی نمایاں مثال ہے ۔ پاکستان کے سابق سفیر ہمایوں خان کہتے ہیں۔(26) ''1997ء تک مالا کنڈ میں کوئی عدالتی نظام موجود نہیں تھا، صرف شریعت اور رسوم و رواج کا مروجہ نظام نافذ العمل تھا۔ حکومت کو وہاں ضلعی عدالتوں کا نظام متعارف کرنے میں 5سے 10سال کا عرصہ لگا۔ صوفی محمد کے ساتھ حالیہ معاہدے کے بعد یہ عدالتیں بھی بے اثر ہو کر رہ گئیں۔ چنانچہ لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ حکومت ان کی حفاظت او ر نگہبانی سے قاصر ہے چنانچہ وہ انتہا پسندوں کے اردگرد اکٹھے ہو نے لگے''۔

2004ء سے فاٹا اور سرحد کے دیگر علاقوں میں طالبان کے خلاف فوج کے آپریشن نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ جس میں عدالتی نظام اور عام لوگوں کے جانی او ر مالی نقصانات کا مداوا بھی شامل ہے۔ یہ مسائل تا حال حل طلب ہیں ۔ قبائلی لوگ اپنی جائیداد او ر جانوں کے تاوان کا مطالبہ کر رہے ہیں جو طالبان اور فوجی آپریشن کی بھینٹ چڑھے۔ حکومت عام آدمی اور اس کی جائیداد کی حفاظت کرنے سے بھی قاصر دکھائی دیتی ہے ، انصاف مہیا کرنا تو بہت دور کی بات ہے۔ ساتھ ہی کئی جرائم پیشہ افراد بھی سرگرم عمل ہو چکے ہیں۔ وہ لوٹ مار ،قتل و غارت اور اغواء برائے تاوان کی کارروائیوں میں ملوث ہیں اور پکڑے نہیں جاتے ۔ لوگوں کی دوبارہ آباد کاری کے لحاظ سے نہایت قلیل کام کیا گیا ہے ۔ تعمیراتی ڈھانچے کی ان خامیوں کی وجہ سے ہی طالبان فاٹا اور دوسرے بندوبستی علاقوں میں مضبوط ہوئے ہیں کیونکہ انہوں نے لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے متوازی عدالتیں قائم کی ہیں جو فوری انصاف مہیا کر تی ہیں۔

فاٹا میں لوگ ابھی تک سیاسی حقوق سے محروم ہیں۔ یہاں بھی حکومتی کمزوریوں کی وجہ سے ہی ریاست اور معاشرے کے درمیان تعلقات کار بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔اس تمام صورت حال سے طالبان نے فائدہ اٹھایا ہے اور انہوں نے اپنی معاشرتی روایات کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی اور انتظامی امور سنبھال رکھے ہیں ۔انہوں نے قوم ،قبیلے اور نسلی اختلافات کو بھی ختم کیا ہے جس سے مقامی لوگ انہیںنجات دہندہ سمجھنے لگے ہیں۔

اثر پذیر حکمت عملی
طالبان نے اپنی سرگرمیوں کا آغاز نہایت باقاعدہ او رمنظم طریقے سے کیا۔ اس تحریک کے پاس نظریاتی سوچ ہے اور اسی وجہ سے اسے بین الاقوامی طور پر اور ملک کے اندر مدد اور حمایت حاصل رہی ہے ۔ اپنے مقاصدحاصل کرنے کے لیے ان کا طریقہ کار کچھ اس طرح سے ہے:
ا۔ یہ ریاست کو غیر مستحکم کرنے کے اقدامات کرتے ہیں تاکہ عوام اپنے تحفظ کی خاطر ان کی جانب رخ کریں۔
ب۔ وہ چاہتے ہیں کہ حکومت طالبان کے کنٹرول والے علاقوں میں مداخلت نہ کرے تاکہ وہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔
ج۔ وہ حکومتی ڈھانچے میں کچھ آئینی او ر قانون ضابطوں کو طاقت کے بل بوتے پر تبدیل کرانا چاہتے ہیں جو ان کی نظر میں دین سے متصادم ہیں۔

کچھ طالبان کے ایجنڈے میں فرقہ پرستی کے عناصربھی شامل ہیں ۔ جن میں شیعہ او ر خانقاہی صوفی مکتبہء فکر کے نظریات پر خاصا سخت مؤقف پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے القاعدہ جیسی بین الا قوامی تنظیموں سے روابط ہیں او ر وہ تمام حکومتوں کو غیر مستحکم کر کے اپنے نظریات کا فروغ چاہتے ہیں۔

2004ء تک پاکستانی طالبان کا ارتکاز محض غیر ملکیوں کی حفاظت ،افغانستان میں جنگ کے لیے بھرتی،ٹریننگ اور ان کے آپریشن کے لیے مدد فراہم کرنے تک محدود رہا ۔تاہم اہم سیاسی موڑ اس وقت آیا جب انہوں نے منصوبہ بندی سے آپریشن کر کے حکومتی افسران اور سیکیورٹی کے عہدیداران کو اغواء کرنا شروع کیا۔ حالانکہ خود کش حملوں نے بھی سرکاری اداروں کو خاصا بدل دیا تھا مگر اغوا کی حکمت عملی طالبان کو حکومت سے مذاکرات کی میز پر لے آئی۔ اب وہ برابری کی بنیاد پربات کر سکتے تھے۔ بعض آزاد ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ طالبان نے 1000سے زائد سیکیورٹی افسران کو اغواء کیا اور پھر ان کی رہائی کے عوض اپنے 500عسکریت پسند ساتھیوں کوحکومتی جیلوں سے آزاد کرایا۔ اس طرح اغواء کی حکمت عملی ہی حکومت اور طالبان کے درمیان گفت و شنید کا باعث بنی۔

بہترین لیڈر شپ بھی طالبان کے لئے خاصی مفید ثابت ہوئی۔ خصوصاً نیک محمد اورعبداللہ محسود جیسے راہنما اور اب بیت اللہ محسود اور فضل اللہ نے تمام طالبان کو اپنے تنظیمی ڈھانچے میں پرو رکھا ہے۔(27)

تحریک طالبان پاکستان (TTP)نے جو فضل اللہ کی زیر قیادت عسکری تنظیم ہے ،چھوٹے چھوٹے گروہوں کو جمع کر کے تحفظ فراہم کیا ہے اور وہ بیت اللہ محسود کی کمان میں کام کر تے ہیں ۔ اور پھر ان کی یہی کوشش ہوتی ہے کہاانہیں افغانستان کے سپریم لیڈر ملا عمر کے جھنڈے تلے جمع کر دیا جائے ۔ اور جب کوئی بھی نیا گروہ جو (TTP)میں آنا چاہتا ہو اسے شریعت کے نفاذ اور ملاعمر سے وفا داری کا عہد دینا پڑتا ہے۔(28)

(TTP)نے اپنے ذیلی گروپوں کو سختی سے یہ ہدایت کر رکھی ہے کہ وہ اپنی آمدنی کا 50فیصد حصہ ''جہاد فنڈ'' میں جمع کرائیں گے۔ اس فنڈ کو جہاد افغانستان اور قبائلی علاقوں میں طالبان کی سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔(29) یہ چھوٹے چھوٹے گروہ زیادہ تر فاٹا کی مہمند اور اورکزئی ایجنسیوں اور صوبہ سرحد کے بندوبستی علاقوں کے علاوہ ٹانک اور بنوں میں جرائم کی کارروائیوں میں بھی ملوث ہیں۔ خصوصاً اغوا ء برائے تاوان، قتل وغارت گری اور کاروباری حضرات پر ٹیکس بھی اپنی اقتصادی ضروریات پوری کرنے کی خاطر وصول کیا جاتا ہے۔ محسود کے سیاسی مخالفین چاہے سیاسی انتظامیہ میں ہو ں یا قبائلی عمائدین ہوں شمالی اور جنوبی وزیرستان میں رہ کر اس کی مخالفت مول لینے کا سوچ نہیں سکتے ۔ اسی طرح فاٹا کی دوسری ایجنسیوں میںبھی کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے جہاں بیت اللہ محسود کے اتحادی پوری طرح اپنی طاقت کا لوہا منوا چکے ہیں ۔

طالبان اپنے نظریاتی پروپیگنڈے میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنے بنیادی مقصد کے حصول کا تہیہ کر رکھا ہے اور اسی بنیاد پر لوگوں کو اپنی طرف بلاتے ہیں۔ وہ نظریاتی دشمن کو ہر گز معا ف کرنے کو تیار نہیں جس کے لئے وہ اپنے دو نکاتی ایجنڈے پر کام کر تے ہیں ۔
1۔ وہ لوگ جو غیر اسلامی طریقے پر عمل پیرا ہیں یا ان کی مدد کرتے ہیں ناقابل معافی ہیں۔
2۔ مشرک ، ملحد اور بے دین لوگ یا ان کے دوست او ر حواری جوان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں وہ بھی اسی زمرے میں شمار ہوتے ہیں ۔ان کے نزدیک ان سے نمٹنا بھی عین شرعی تقاضا ہے۔

شورش کا سد باب
شورش سے نمٹنے کی کوئی بھی تحریک تحفظ قائم کئے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ڈیوڈ گیلولہ نے اپنی کتاب میں سوال اٹھایا ہے کہ باغیوں کو کون تحفظ فراہم کر تاہے؟اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ خود ہی کہتا ہے کہ مختلف تحریکوں کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ باغیوں کا قلع قمع کرنے والے خود ہی ان کی حفاظت کرتے ہیں ۔(30) گو کہ اس نے کمیونسٹ تحریکوں کے تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کیامگر اس کا تجزیاتی نوٹ خاصا قیمتی ہے ۔ ایسے ہی بعض عوامل طالبان تحریک میں بھی تلاش کئے جا سکتے ہیں ''گیلولہ''بعض حقائق بیا ن کرتا ہے جو کہ باغیانہ تحریکوں کی آبیاری کرتے ہیں۔

(i)مسئلے کو سمجھنے کا فقدان
''جب کسی باغیانہ تحریک کا آغاز ہوتا ہے تو ریاست اس کی اثر پذیری، وسعت اور دہشت کو محسوس کرنے میں کج فہمی کی بنیاد پر نظر انداز کر دیتی ہے اور اس طرح مسئلے سے اس کی اصل روح کے مطابق انصاف نہیں ہوپاتا''

طالبان کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا جب یہ تحریک قبائلی علاقوں میں نشوونما پارہی تھی تو حکومت بار بار یہی کہتی رہی کہ یہ کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے، اس سے کسی بھی وقت نمٹا جا سکتا ہے۔ حکومت یہی خیال کرتی تھی کہ یہ ایک چھوٹا سا مشتعل گروہ ہے جو حکومت کی اتھارٹی کو چیلنج کر نے کی استطاعت نہیں رکھتا لیکن یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ جب بھی کوئی تحریک کسی مقصد کی خاطر چلائی جائے تو اسے نہایت سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے اور کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔

(ii)قومی اتفاق رائے
نہ صرف حکومت بلکہ لوگ بھی اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ حکومت کی رٹ چیلنج نہیں کی جاسکتی۔ دوسرا مسئلہ تب سر اٹھاتا ہے جب حکومت ان باغیانہ عناصر کی سرگرمیوں کو دبانے کی کوشش کرتی ہے اور اسے عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی جس کی وجہ سے اس کی کامیابی مشکوک ہو جاتی ہے۔ اس کی حالیہ مثال سری لنکا کی حکومت کا تامل باغیوں کے خلاف اقدامات ہیں لیکن پھر انہیں رائے عامہ سے مجبورہو کر قومی اتفاق رائے حاصل کرنا ہی پڑا ۔

(iii)باغیوں سے نبرد آزما مدبّر قیادت
کسی بھی متنازعہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے قیادت کا مضبوط اور مصمم ارادوں پر قائم رہنا ضروری ہے کیونکہ
(ا) باغیوں کے پاس خوشنما مقاصد ہوتے ہیں جو عوام الناس کے دل جیتنے کے لیے کافی ہیں۔
(ب) باغیانہ سرگرمیاں اچانک سر نہیں اٹھاتیں او رلوگوں کا اس کے خلاف رد عمل نہایت سست ہوتا ہے۔(31) یہی وجہ ہے کہ طالبان کے معاملے میں یہ عنصر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ سیاسی اور فوجی قوتیں بے بصر ثابت ہوئیں اور عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے نہایت کم کوششیں عمل میں لائی گئیں۔

(iv)باغیوں سے نمٹنے کی استعداد کار
گیلولہ کے دلائل کے مطابق'' باغیوں سے نمٹنے کے لیے نہ صرف مضبوط ارادے والی قیادت ضروری ہے بلکہ انہیں جنگی حکمت عملی اور متوقع رکاوٹوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ شروع شروع میں پاکستانی فوج میں سرعت سے لڑائی لڑنے اور مسئلے کے حل کی جانب کافی مسائل سامنے آئے کیونکہ طالبان مذہبی اور گروہی تحریک تھی جوان کے لئے نفسیاتی کھچائو کی باعث بنی۔ اس کے علاوہ پاک فوج نے محض روایتی جنگ کے حوالے سے تربیت حاصل کی تھی جبکہ باغیوں سے نمٹنے کے لیے مختلف انداز اختیار کرنا پڑتا ہے۔

(v) نفع اور نقصان کا اندازہ
باغیوںکے پاس حکومت کی نسبت اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے بہتر جواز اور مواقع ہوتے ہیں کیونکہ یہ عناصر خود فیصلہ کرتے ہیں کہ اپنا کام کب اور کہاں سے شروع کریں حتیٰ کہ بیرونی عوامل بھی ان کی ہر وقت راہنمائی کرتے ہیں جو ان کی تحریک کو آکسیجن فراہم کرنے کے مترادف ہے ۔(32) باغیوں کا اپنی سرگرمیوں کو شروع کرنا نسبتاً آسان اور ارزاں ہوتا ہے (33) جب کہ اس کا تدارک کٹھن اور مہنگا ہوتا ہے۔باغی پروپیگنڈا بھی خوب پھیلاتے ہیں تاکہ اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کر سکیں ۔ ان کا پروپیگنڈہ سیال مادے کی مانند اثر پذیری کرتا ہے کیونکہ نہ تو ان کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں اور نہ ہی جائیداد کا فکر فاقہ ہوتا ہے۔ وہ پروپیگنڈے کے بل بوتے پر فوائد حاصل کرتے ہیں (تقابلی جائزے کے لیے چارٹ ملاحظہ کریں)۔

1

(vi)شورش کے سد باب کے ممکنہ ذرائع
باغیوں کی سرگرمیوں پر قابو پانے کے لیے سیاسی ڈھانچہ ،انتظامیہ یعنی بیورو کریسی ،پولیس اور فوج کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی نظام کے فقدان اور قبائلی علاقوں میں کمزورانتظامیہ کا طالبان نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ پولیس اور علاقائی سیکیورٹی فورسز یعنی خاصہ داران، لیویز اور فرنٹئیر کنسٹیبلری (FC)غیر مؤثر انتظامیہ اور سیاسی ناعاقبت اندیشی کی بھینٹ چڑ ھ گئے۔ پولیس کی ہراول دستے کے طور پر غیر موجودگی نے فوج کے لیے مشکلات کھڑی کردیں اور ان کا زیادہ وقت سرکشوں کی تلاش کے لیے متبادل انتظامات میں صر ف ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے روایتی طریقوں کو آزما یا یعنی جرگہ، لشکر، چیدہ چیدہ آپریشن اور امن کے معاہدوں سے کام چلایا لیکن یہ تمام حربے بھی مفید ثابت نہ ہوئے ۔ امن معاہدوں نے الٹا طالبان کو مضبوط کیا اور حکومت کی عملداری مزید کمزور پڑی ،فوجی کارروائیوں کی وجہ سے طالبان کا پھیلائو بڑھتا گیا اور انہوں نے مزید عسکریت پسند بھی بھرتی کر لئے۔ (34) دوسری جانب طالبان خوب سمجھتے تھے کہ اپنے مقاصد کیسے حاصل کرنے ہیں اور مقامی لوگوں کو اپنے مقاصد کے لیے کیسے ہموار کرنا ہے۔ حکومت نے بھی چند طالبان گروپوں کو استعمال کرنے کی کوشش کی جن میں وزیرستان کے ملا نذیر اور حافظ گل بہادر شامل تھے تا کہ ان میں پھوٹ ڈالی جائے مگر یہ عمل بھی موثر حکمت عملی سے نہ چلایا جاسکا۔

(vii)جغرافیائی حالات
''جغرافیائی حالات طاقت ور کو کمزور اور کمزور کو طاقت ور بنا دیتے ہیں ''۔ (35) قبائلی علاقوں میں طالبان کو جغرافیائی فوائد حاصل ہیں کیونکہ وہ پہاڑی دشوار گزار راستوں سے اچھی طرح واقفیت رکھتے ہیں اور موسم سے آشنا ہیں۔ مزید برآں انتہا پسندوں کی زیادہ تر تعداد آبادی کے بیچ میں رہتی ہے جس کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائیاں انتہائی مشکل ہو جاتی ہیں ۔ لیکن اس وقت صورت حال مزید الجھ جاتی ہے جب سرحدوں کے آس پاس آپریشن کرنا پڑیں کیونکہ اس وقت انہیں بیرونی طور پر بھی مالی اور اخلاقی مد د حاصل ہو جاتی ہے۔ طالبان کی مثال سامنے رکھیں تو یہ بات واضح ہو تی ہے کہ سرحدی علاقوںمیں اسمگلرز اور مختلف مافیا بھی سرگرم عمل ہیںجو کہ پاک افغان بارڈر پر بین الاقوامی انتہا پسند وں سے مل کر کام کرتے ہیں اور اس وجہ سے بھی صورت حال کبیدہ خاطرہو چکی ہے۔ کیونکہ جب کوئی علاقہ بین الاقوامی سرگرمیوں کی آماجگاہ بن جاتا ہے تو باغیوں کے مقاصد میں بھی حالات کے مطابق تبدیلی وقوع پذیر ہو تی ہے۔ جس سے حکومت کو ان سے نمٹنے میں مشکلات پیش آتی ہیں ۔اس طرح پاکستان کو افغانستان کے بارڈر کے ساتھ انڈین قونصلیٹ قائم کرنے کے بارے میں خاصے تحفظات در پیش ہیں اور کابل کے اسلام آباد کے ساتھ معاندانہ رویے نے بھی کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔

طبعی و جغرافیائی محل وقوع کی اہمیت
ایک اور اہم اور خاص عنصر جو کہ پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے درمیان وجہ نزاع ہے وہ ان قبائلی علاقوں کا طبعی و جغرافیائی محل وقوع ہے اور اسی وجہ سے یہ پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی کہ فوجی آپریشن کتنا طول کھینچے گا ۔ادھر انتہا پسند اپنے مقصد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور ان میں کسی قسم کی لچک نظر نہیں آتی۔ اوپر سے طبعی و جغرافیائی ماحول نے ان باغیوں سے بھر پور طریقے سے نمٹنے کے لیے حالات کو مخدوش بنا دیا ہے ۔9/11سے پہلے کے پالیسی ساز ادارے طالبان کو عسکری اثاثے گردانتے تھے اور وہ ان سے ہر گز محروم نہیں ہونا چاہتے تھے۔ اور اس کیلئے کئی دلائل دیے جاتے تھے مثلاً امریکا کے عزائم واضح نہیں کہ وہ کتنا عرصہ افغانستان میں ٹھہرے گا اور دوسرا حکومت پاکستان یہ سمجھتی ہے کہ انڈیا امریکا کی آشیر باد سے بلوچستان میں حالات خراب کرنے میں ملوث ہے۔ اوریہی وجہ تھی کہ طالبان کوپاکستان کے لیے سرمایہ تصورکیا جا رہا تھا ۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکا ،انڈیا،افغانستان اور دوسرے ممالک انہی طالبان کو پاکستان کے خلاف بھی استعمال کر رہے ہیں۔ بیرنٹ روبن اور احمد رشید اس رائے کا اظہار کرتے ہیں(36) ''پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کو یقین ہے کہ امریکن ،انڈین افغان اور روسی اتحاد خفیہ طور پر پاکستان کے ٹکڑے کرنے کے درپے ہیں ۔اسٹیبلشمنٹ کے افسران یہ بھی خیال ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان کے اندر عسکریت پسندوں کا وجود اس کی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ شتر بے مہار کی طرح بپھرے ہی جارہے ہیں اور اگر انہیں نکیل نہ ڈالی گئی تو کسی وقت بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔''

ان تمام حقائق کے باوجود امریکا ان علاقوں میں القاعدہ کی باقیات کا تعاقب جاری رکھنا چاہتا ہے۔

(37) شورش کا سدباب اور چند سفارشات
(1)طالبان کے اندر نفاق
طالبان کے اندر چار اہم کمزوریاں پائی جاتی ہیں جن سے فائدہ اٹھانا ممکن ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان خامیوں کی وجہ سے ہی وہ اپنی تحریک کوانقلابی رنگ نہیں دے سکے۔
(ا) طالبان نے ابھی تک ایسا کوئی ایجنڈا متعارف نہیں کروایا جو موجودہ سیاسی نظام کے متبادل تصورہو، وہ محض جمہوریت کے مخالف ہیں۔سیاسی مذہبی جماعتیں بھی طالبان کے غیرجمہوری رویے کی وجہ سے ان سے الگ تھلگ ہیں اور انہیں شہروں میںحمایت حاصل نہیں ہو سکی۔
(ب)طالبان کے درمیان فرقہ بندی کا عنصر اور خصوصاً یک مسلکی کی چھاپ انہیں دیگر مذہبی مسالک سے الگ تھلگ کرتی جا رہی ہے۔
(ج) گروہی طور پر طالبان کئی نظریاتی گروہوںمیں بٹے ہوئے ہیں اور اسلامی بھائی چارے کا آفاقی نظریہ اپنی اساس کے مطابق نہیں پنپ سکا۔ قبائلی تفریق نے بھی کئی غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے۔ مزید برآں وہ تمام قبیلوں کی نمائندگی بھی نہیں کرتے اور وہ اپنے آپ کو قبائلی قدروں سے بھی کاٹ رہے ہیں۔
(د) طالبان جو نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں اسے ملک میں پذیرائی حاصل نہیں کیونکہ وہ اسلام کی اصل روح اور حکمت کو عملی پیمانے سے جانچنے کا ادراک نہیں رکھتے۔ اس لئے انہیں بیشتر مذہبی سیاسی جماعتوں او ر اسلامی سکالرز کی حمایت بھی حاصل نہیںاور یہی وجہ ہے کہ وہ ابھی تک عوام الناس میں مقبولیت حاصل نہیں کر سکے۔
(ہ) مزید برآں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے سے ان کی مقبولیت کا گراف نیچے آیا ہے۔
اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ان عسکریت پسندوں سے کس طرح نمٹتی ہے لیکن اس کے لئے بہترین حکمت عملی ، قابلیت، استعداد کار اور حاضر دماغی کی ضرورت ہے مگر ابھی تک تو ان تمام عوامل کا فقدان ہی دیکھا گیا ہے۔

(2)حکمت عملی کی سطح
گیلولہ انتہا پسندی سے نمٹنے کی حکمت عملی کے مختلف پہلو آشکار کر تا ہے (38) جو کہ پالیسی ترتیب دینے والوں کے لیے قابلِ توجہ ہیں:
(ا) فوجی طاقت کو مضبوط کیا جائے تاکہ وہ عسکریت پسندوں سے مقابلے کے لیے بہتر پوزیشن میں ہو۔
(ب) باغیوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے فوجی دستوں کو گائوں گائوں، قصبات اور جہاں بھی آبادی ہو تعینات کیا جائے۔
(ج) مقامی آبادیوں سے روابط قائم کریں اور عسکریت پسندوں سے ان کے میل جول پر نظر رکھیں۔
(د) عسکریت پسندوں کے اثرو رسوخ کو کم کرنے کے لیے مقامی سیاسی طاقتوں کو مضبوط بنائیں، انتظامیہ اور نظام عدل کو فعال بنائیں تاکہ لوگوں میں احساس محرومی پیدا نہ ہو۔
(ہ) مقامی اتھارٹیز کو مختلف امور کی انجام دہی میں مصروف رکھیں، غیر فعال افسران کو تبدیل کیا جائے اور ذہین افسروںکی ہر طرح کی مدد کی جائے۔ مقامی دفاعی اکائیوں کو مضبوط بنائیں مثلاً لشکر ، خاصہ دار فوج وغیرہ ترتیب دیں جو قبائلی روایات کا حصہ ہیں۔
(و) '' اگر سچائی سے پرکھیں تو عسکریت پسندی سے نمٹنے کا فارمولا کچھ اس طرح ہے کہ یہ 20%فوجی کارروائیوں پر مبنی ہو جبکہ 80%سیاسی طور پر حل کیا جائے''(39)
(ز) نظریاتی اساس بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے مگر شورش زدہ علاقوں میںلوگوں کے دل اور دماغ جیتنا بھی بے حد ضروری ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب ریاست اور سول سوسائٹی مشترکہ کاوشیں انجام دیں اور تمام اقدامات مل کر اٹھائیں۔

(3)دہشت گردی کا محاذ
بین الاقوامی اور مقامی عسکریت پسند گروہ اپنے طریقہ کار اور اہداف کو تیزی سے تبدیل کرتے ہیں جیسا کہ 2009ء کی پہلی سہ ماہی میں دیکھنے میں آ یا ہے کہ دہشت گردوں نے پاکستان میں آپریشن کرتے وقت مختلف حکمت عملی اپنائی۔ خصوصاً صوبائی دارالحکومت لاہور میں انہوں نے کامیاب کارروائیاں کیں۔

عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے بہتر حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں سیکیورٹی فورسسز کی طاقت اور استعداد کو بڑھانا اور خفیہ اداروںکے نظام کو بہتر کرنا بھی ضروری ہے تاکہ مختلف ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں باہمی ہم آہنگی پیدا ہو۔

(4)علاقائی او ر عالمی تناظر
قبائلی علاقوں میں انتہا پسندی کی وجہ ان علاقوں کاسٹریٹجک پس منظر بھی ہے۔ پاکستان کے بہت سے تحفظات اپنی جگہ ہیں جب کہ علاقائی اور عالمی طاقتیں بھی اپنے مفادات کی جنگ لڑ رہی ہیں ۔ اس تنازعے کے چند کلیدی نکات درج ذیل ہیں۔
(ا) پاکستان، کا بل میں ہمیشہ سے ایک دوست حکومت کا خواہاں رہا ہے کیونکہ ماضی میں افغانستان نے پاکستان کے لیے کئی مشکلات پیدا کیں۔ 1986ء تک کابل کی تمام حکومتیں براہ راست بلوچستان اور صوبہ سرحد میں علیحدگی پسندوں اور قومیت پرستوں کی تحریکوں کو ہوا دیتی رہی ہیں اور اس دور میں انڈیا کا افغانستان سے عسکر ی، سیاسی اور سٹریٹجک اتحاد بھی قائم رہا۔ اور اب پھر افغانستان انڈیاسے اپنے تعلقات کو دوبارہ اہمیت دے رہا ہے جبکہ بلوچستان اور قبائلی علاقوں میں بھی ان کی مداخلت کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
(ب)پاکستان کی بین الاقوامی برادری کو اعتماد میں لینے کی سفارتی کوششیں ابھی تک بار آور ثابت نہیں ہوئیں اور سٹریٹجک مفادات کے حوالے سے بھی اعتماد کی فضا پیدا نہیں کی جا سکی۔
(ج) ایران امریکا تعلقات ، امریکا چین تعلقات، وسطی ایشیاء اور روس کے مغرب سے تعلقات پیچیدہ رجحانات کا مرقع ہیں۔ ان کے باہمی تنازعات اور مفادات براہ راست پاکستان اور افغانستان کی ریاستوں کو متاثر کرتے ہیں اور دونوں حکومتیں عسکری ،اقتصادی اور داخلی مسائل سے دو چار ہوتی ہیں جس سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں جو ریاستوں کے درمیان رنجشیں بڑھانے کا موجب بھی بنتی ہیں۔
(د) بین الاقوامی برادری خصوصاً امریکا موجودہ صورت حال کو اپنی داخلی سلامتی کے تناظر میں دیکھتا ہے جبکہ پاکستان کی خواہش ہے کہ امریکا ان مسائل کو علاقائی پس منظر میں پرکھ کر کسی مستقل بنیاد پر حل تلاش کرے۔
(ر) پاکستان اندرونی اور بیرونی طور پر نشریاتی اداروں کے پروپیگنڈے کی دو دھاری تلوار کی زد پر ہے۔ مقبول عام قومی پریس حکومت پر امریکی اور مغربی ممالک کے ساتھ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کو تنقیدی نظر سے دیکھتا ہے دوسری جانب بین الاقوامی پریس اسلا م آباد کی آپریشنل کارروائیوں کو یکسر ہی شکوک و شبہات کی نذر کر دیتا ہے۔قومی اور بین الاقوامی میڈیا عسکریت پسندوں اور ان کی سرگرمیوں کو متضاد قسم کے تبصروں سے اچھالتا ہے۔اس طرح بین الاقوامی برادری میں پاکستان کیخلاف شکوک وشبہات جنم لیتے ہیں اور مسائل کے حل کی سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

پاکستان، باراک حسین اوباما کے بر سر اقتدار آنے سے پر امید تھا کہ وہ پاک افغان پالیسی کو علاقائی سرحدی تناظر میں حل کرنے کی کوششیں کرے گا۔(40) لیکن بدقسمتی سے امریکا نے پاکستان پر مزید ذمہ داریوں کا بوجھ لاد دیا اور خود مضبوط اقدامات سے گریز کیا اور خطے میں موجود ریاستوں کے کردار کو فعال بنانے پر زور دیا تاکہ افغانستان اور کشمیر کے ساتھ مسائل کے حل کی جانب بین الاقوامی برادری کی حمایت حاصل ہو سکے۔ یہ بھی توقع کی گئی کہ ہندوستان افغانستان میں سیکیورٹی ایجنسی RAW کے حوالے سے اپنے کردار کو شفاف بنائے گا۔(41)

دنیا اس وقت پاکستان سے مزید اقدامات کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ اس کی سلامتی اور مفادات کے حوالے سے کوئی مستقل لائحہ عمل سامنے نہیں آرہا۔ حکومت کو عسکریت پسندوں کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھنی چاہئیں اس لئے نہیں کہ اس کی اندرونی سلامتی اور تحفظ دائو پر لگا ہوا ہے بلکہ اس لئے کہ سفارتی ، علاقائی اور اقتصادی صورت حال بھی نہایت دگرگوں ہے ۔ سیاسی راہنمائوں کو دیانت داری سے کوششیں کرتا ہوں گی تاکہ قومی اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے اب سفارت کاروں کا اصل امتحان ہے دیکھتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی برادری کو علاقائی تنازعات اور اپنے تحفظات کے حوالے سے کس حد تک باور کر انے میں کامیاب ہوتے ہیں۔عسکریت پسندوں کی فتنہ انگیزیوں سے نمٹنے کے لیے نتیجہ خیز سیاسی اور موزوں کارروائیوں کی منصوبہ بندی سے گیند کو بین الاقوامی برادری کے میدا ن میں پھینکا جا سکتا ہے تاکہ'' Do more"کا نعرہ ان کے لئے بھی بلند کیا جا سکے۔


2


حوالہ جات
(1) روزنامہ مشرق پشاور 7فروری 2005ئ
(2) ''القاعدہ فائٹس بیک'' محمد عامر رانا اور روہان گونارتناکی کتابPIPS اسلام آباد 2006ء صفحہ 54
(3) ڈیلی ٹائمز 6ستمبر2002ء ، محمد عامر رانا
(4) ''القاعدہ فائٹس بیک'' محمد عامر رانا اور روہان گونارتنا کی کتاب، صفحہ 55
(5) ایضاً، صفحہ 93
(6) ڈیوڈ گیلولہ کی کتاب کائونٹر انسرجنسی وارفئیر، صفحہ1
(7) ملا نذیر کا انٹرویو، روزنامہ ایکسپریس پشاور 17مئی 2007ء ا ز جمشید باغوان
(8) ڈان 22فروری 2005ئ
(9) اگست 2008ء میں بیت اللہ محسود نے طالبان کا عدالتی نظام متعارف کرایا اور تمام ذیلی عدالتوں کو عدالت عظمیٰ کے ماتحت کیا جس کاچیف جسٹس محمد رئیس محسود کو مقرر کیا گیا۔بحوالہ روزنامہ ڈان17اگست2008ئ
(10) دی نیوز پشاور،4اگست2008ئ
(11)دی نیوز اسلام آباد ،خالد عزیز ،یکم جون2008ئ
(12) امت کراچی،7جون 2008ئ
(13)PIPSکا ڈیٹا بیس، جس کا ماخذ قومی میڈیا ہے۔
(14)نیوز لائن، مارچ2007ئ
(15) روزنامہ اسلام پشاور،13مئی 2007ئ
(16)PIPSڈیٹا بیس
(17)محمد عامر رانا کی کتاب جہاد اور جہادی،صفحہ 10-19
(18)اے ٹو ذی آف جہادی آرگنائزیشنز ان پاکستان ،محمد عامر رانا کی کتاب
(19)PIPSڈیٹا بیس
(20) 40گروہوں نے تحریک طالبان پاکستان میں شمولیت اختیار کر لی جس کی قیادت بیت اللہ محسود کے ہاتھ میں ہے ،جبکہ دیگر گروہ جو کہ اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھے ہوئے ہیں ان میں خیبر ایجنسی کا لشکر اسلام ،شمالی وزیر ستان کے قاری گل بہادر ،جنوبی وزیرستان کے مولوی نذیر، باجوڑ کے ڈاکٹر اسماعیل کا گروہ اور درہ آدم خیل کے مقامی جنگجو (دیکھیے چارٹ1)
(21)سعدی ،مولانا مسعود اظہر کا قلمی نام، القلم پشاور22-28مئی 2009ء
(22)رسول بخش رئیس کی کتاب'' ریکورنگ دی فرنٹئیر سٹیٹ
(23)گیلولہ کی کتاب، صفحہ 12
(24) فاٹا کے بارے میں عوامی نیشنل پارٹی کی تجاویز
(25) روزنامہ جناح 8اپریل 2008ئ
(26)ہمایوں خان ،صفدر سیال سے انٹرویو 18مارچ 2009ئ
(27)طالبان کمانڈر نیک محمد کے قتل کے بعد بیت اللہ محسود نے آپریشنل کمانڈر کے طور پر چارج سنبھالا مگر طالبان کی سپریم کونسل نے عبداللہ محسود کو عہدہ دے دیا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے''القاعدہ فائٹس بیک''
(28)یہ معلومات قبائلی علاقہ جات میں کئے گئے انٹرویوز سے سامنے آئیں ۔
(29) گورنر سرحد اویس احمد غنی نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ بیت اللہ محسود کا سالانہ خرچہ3ارب روپے ہے۔ ڈیلی ٹائمز30مئی 2008ئ
(30)گیلولہ کی کتاب ''کائونٹر انسرجنسی وار فئیر''،صفحہ 17
(31)ایضاً
(32)ایضاً، صفحہ 3
(33)ایضاً ،صفحہ 4
(34) رحیم اللہ یوسفزئی ،نیوز لائن شمارہ 29مئی 2009ئ
(35)گیلولہ کی کتاب''کائونٹر انسر جنسی وار فئیر''، صفحہ21
(36) برنٹ آر روبن اور احمد رشید''فرام گریٹ گیم ٹو گرانڈ بارگین'' فارن افئیرز،نومبر،دسمبر2008ئ
(37)ایضاً
(38)گیلولہ کی کتاب''کائونٹر انسر جنسی وار فئیر''، صفحہ 55-56
(39)ایضاً صفحہ 63
(40) برنٹ آر وبن اور احمد رشید ''فرام گریٹ گیم ٹو گرانڈ بارگین''فارن افئیرز
(41)ایضاً