working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

طالبان تحریک قومیت کی سیاست ،پیش قدمی اور اقدامات
عقیل یوسفزئی
عقیل یوسفزئی ، پشاور کے معروف صحافی ہیں جن کی کتاب ''طالبانائزیشن'' حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ عقیل یوسفزئی نے ''تجزیات'' کے لیے ایک اچھوتے موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور یہ جائزہ لینے کی کوشش کی ہے کہ طالبان کی حالیہ تحریک جس کا مرکزی نکتہ ''مذہب'' ہے کیا وہ مستقبل میں کبھی ''قومیت'' کا روپ دھار سکتی ہے اور پشتون قوم پرستی کی پہلے سے موجود تحریک کو ایک نیا آہنگ دے سکتی ہے؟ اس حوالے سے کیا پیش رفت ہورہی ہے اور کیا ہونے والی ہے ، ان سب سوالوں کے جواب آپ کو اس مضمون میں مل جائیں گے۔ (مدیر)
صوبہ سرحداور افغانستان کے بعض سیاسی حلقوں اور تجزیہ نگاروں نے گذشتہ کچھ عرصہ سے پشتون علاقوں میں موجود طالبان تحریک کے بارے میں اس امکان کا سنجیدگی سے جائزہ لینا شروع کیا ہے کہ کیا طالبان تحریک مختلف مراحل طے کرنے اور تجربات کرنے کے بعد پشتون قومیت (Nationalism)کی شکل اختیار کر سکتی ہے یا نہیں؟

اس امکان کے حق یا مخالفت میں فی الحال ٹھوس دلائل تو سامنے نہیں آرہے تاہم باخبر حلقے معروضی حالات اور بعض تبدیلیوں کے تناظر میں اس امکان کو رد بھی نہیں کر رہے کہ ایسا ہونا مستقبل میں ممکن نہیں ہے ۔

پشتون تاریخ کا بغور جائزہ لیا جائے اور اس خطے میں پیش آنیوالی تبدیلیوں پر نظر ڈالی جائے تو ثابت ہو تا ہے کہ ہر ایک صدی بعد پشتونوں میں سیاسی طرز عمل کے باعث قیادت کی تبدیلیاں رونما ہوتی رہی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ 6کروڑ کی آبادی پر مشتمل دنیا کے سب سے بڑے لسانی گروپ (Athnic group)پشتون قوم کو واقعتا آج مؤثر اجتماعی قیادت کے فقدان کا سامنا ہے جبکہ اس قوم کی ایک بڑی آبادی میں یہ سوچ کافی عرصہ سے پروان چڑھتی نظر آرہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں رہائش پذیر افرادی اور قدرتی وسائل سے مالا مال کروڑوں پشتونوں کے ساتھ کما حقہ انصاف نہیں ہو رہا ۔1978ء سے لیکر 2009ء تک کے عرصے کا ناقدانہ تاریخی جائزہ لیا جائے تو یہ تلخ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ دونوں ممالک میں اس عرصہ کے دوران جنگوں کے نتیجے میں 40لاکھ کے قریب انسان لقمہ ء اجل بن چکے ہیں جبکہ 80لاکھ کے قریب معذوراور مہاجرین بن چکے ہیں۔ اس کا سبب قیادت کا فقدان اور علاقائی و عالمی طاقتوں کی خطے میں کشمکش ہے۔

اس تاثر کی ابتدا 90 ء کی دہائی کے آخری برسوں کے دوران اس وقت ہوئی تھی جب افغانستان میں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد مجاہد تنظیموں نے کابل سمیت افغانستان کے دوسرے اہم شہروں کو آپس کی لڑائیوں کے دوران ملیا میٹ کر کے رکھ دیا جبکہ دوسری طرف پاکستان کی پشتون قوم پرست پارٹیوں کا سیاسی کردار بھی توقعات کے برعکس عملاً محدود ہو کر مایوسیوں میں تبدیل ہوتے نظر آیا ۔ طالبان نے افغانستان پر چڑھائی کا آغاز کیا تو ان کی کامیابیوں میں پشتون عنصر (Factor)سب سے نمایا ں اور مؤثر تھا۔شمالی اتحاد چونکہ عملاً پشتون مخالف قومیتوں کی نمائندگی کر تا آرہا تھا اس لیے طالبان نے اس سیاسی قوت کے خلاف انتہائی جارحانہ رویہ اپنایا۔ ایران کے ساتھ 1996ء سے لیکر 2002ء تک کے تمام عرصہ کے دوران طالبان کا طرز عمل بھی اسی بنیاد پر منفی رہا کیونکہ ایران غیر اعلانیہ طور پر طالبان کی قوت اور حکومت کو افغانستان پر پشتونوں کی بالا دستی قائم کرنے کا ذریعہ سمجھ رہا تھا۔

طالبان کے ساتھ کمیونسٹ او ر نیشنلسٹ بیک گرائونڈ کی حامل سیاسی پارٹیوں پرچم اور خلق کے متعددایسے اہم لیڈر اور لوگ بھی شامل ہو گئے تھے جو ماضی کے تجربات کی بنیا دپر زبان، ثقافت اور بیورو کریسی میں غیر پشتونوں کی بالا دستی کے خلاف مزاحمت کرتے آرہے تھے۔ دوسری طرف جہادی کمانڈر گلبدین حکمت یار کی حزب اسلامی کی اعلیٰ قیادت اور ارکان بھی اس نکتے پر حزب کے ساتھ وابستہ تھے کہ وہ گلبدین حکمت یا ر کو مجاہد گروپوں میں ایک پشتون لیڈر کے طور پر ابھرتے دیکھ رہے تھے حالانکہ اعلانیہ طور پر حزب اسلامی کی قیادت یا پالیسی کی حد تک اس کا کبھی کھل کر اظہار نہیں کیا گیا اور حکمت یار بار ہا اس قسم کے تاثر کی نفی کر تے آرہے تھے۔

حزب اسلامی اور طالبان کی تحاریک کو اگر افغانستان کی سیاست میں پشتونوں کی غیر اعلانیہ نمائندگی کے تناظر میں واقعات کی روشنی میں دیکھا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ پشتونوں کی ایک بڑی آبادی بائیں بازو کی قیادت کے خاتمے کے بعد دو قوتوں کو اپنی نمائندگی کا حقدار سمجھتی آرہی تھی اور یہ عنصر افغانستان میں اس کے باوجود اب بھی موجود ہے کہ حامد کرزئی او ران کی ٹیم کی مؤثر موجودگی نے گذشتہ چند برسوں کے دوران کابل پر پشتونوں کی سیاسی، ریاستی بالا دستی کے لیے عملی اقدامات کیے ہیں۔

پاکستان کے برعکس افغانستان کے طالبان اور بائیں بازو (نسبتاً) کے پشتون سیاسی گروپوں یا شخصیات کے درمیان بظاہر بڑے اختلافات اور محاز آرائی کے باوجود پشتون قومیت سے وابستہ متعدد بنیادی ایشوز پر اندرون خانہ ایک دوسرے کے لیے نہ صرف ہمدردی ہے بلکہ اس ضمن میں ایک دوسرے کے ساتھ معاونت بھی کی جارہی ہے ۔

یہ واضح ہے کہ آج افغان پارلیمنٹ میں سابق جہادی تنظیموں کے کئی اہم لوگوں کے علاوہ حزب اسلامی اور طالبان کے بہت سے نمائندے پارلیمانی نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔اس حقیقت کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ آج کابل میں حامد کرزئی اور ان کے متعدد اہم ساتھی ماضی میں نہ صرف جہادی کمانڈر اور عہدیدار تھے بلکہ وہ پاکستانی خفیہ اداروں کے پسندیدہ افراد میں بھی شامل تھے۔ اگر بدلتے حالات، تجربات اور ریاستی حصہ داری کی پیش کش کے امکانات جیسی چیزیں موجو د ہوں تو نہ صرف اپنے نظریات کو ممکنہ حد تک بدلا جا سکتا ہے بلکہ بعض بنیادی اہداف اور اتحادیوں پر بھی نظر ثانی کی جاسکتی ہے۔سیاست میں ہمیشہ ایسا ہوتا آیا ہے اور اپنی سلامتی ، مفادات جیسی بنیادی چیزوں کے تناظر میں آج کے کروڑوں پشتونوں میں ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف میں کئی سیاسی تبدیلیاں نہ صرف ممکن ہیں بلکہ اخباری اطلاعات کے مطابق ممکنہ حد تک ایسی تمام تجاویز پر اندرون خانہ کام بھی ہو رہا ہے۔

افغانستان میں اگست کو ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اب کی بارموجود سیاسی پارلیمانی قوتوں کے علاوہ طالبان اور حزب اسلامی کی صف بندی کے آثار بھی دن بدن واضح ہوتے جا رہے ہیں۔مستقبل کا ممکنہ سیاسی منظر نامہ بے شمار تجزیہ نگاروں خصوصاً پاکستانیوں کے لیے چونکا دینے والے نتائج لے کر آ رہا ہے ۔ اگر واقعتا ایسا ہو رہا ہے تو سوال یہ ہے کہ پاکستان کے پشتون علاقے اس قسم کی تبدیلیوں سے باہر رہ سکیں گے؟ اس سوال کا جواب نفی میں ہے۔ یقینا پاکستانی پشتون علاقے ان متوقع تبدیلیوں اور صف بندی سے براہ راست متاثر ہو ں گے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے پشتون علاقوں میں بھی ایک ایسے غیر اعلانیہ سیاسی سیٹ اپ کے لیے تیاریاں ہو رہی ہیں جس میں پشتون قوم پرست اور مذہبی گروپس متعدد اہم ایشوز پر اکٹھے نظر آئیں گے۔ جن ایشوز پر ان قوتوں کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد پیدا کرنے کا منصوبے پر کام ہو رہا ہے ان میں پشتون بیلٹ میں دیرپا امن کا قیام، پاکستان کے اندر پشتونوں کے نئے جغرافیائی سیٹ اپ کے لیے جدوجہد، مکمل صوبائی خود مختاری کا حصول اور وسائل پر ممکنہ اختیار جیسے وہ بنیادی ایشوز شامل ہیںجن کی شدت کا پشتونوں کو تو احساس ہے مگر سیاسی، ریاستی قوتیں ان ایشوز کے حل میں بدقسمتی سے ناکام رہی ہیں۔

اگر افغانستان کے طالبان اور امریکا نواز حکمرانوں میں ڈائیلاگ ہو سکتا ہے اور اس عمل کو خود امریکا اور یورپ کی آشیر باد بھی حاصل ہو تو پاکستان میں موجود ایسی متحارب قوتوں کے درمیان تو ہم آہنگی قائم کرنا اور بھی زیادہ ممکن عمل بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

مالا کنڈ ڈویژن میں نظام عدل کے لیے کی گئی سیز فائر کے دوران اے این پی کے لیڈر اور وزراء جب تواتر سے صوفی محمد اور ان کی تنظیم کا دفاع کرتے دکھائی دے رہے تھے تو اس طرز عمل نے بھی متعدد سوالات کو جنم دیا تھا۔دوسری طرف تحریک نفاذ شریعت محمدی کے علاوہ ''دہشت گر د '' فضل اللہ، مسلم خان اور شاہ دوران کے منہ سے جب بار بار صوبہ سرحد کا نام پشتونخواہ سنا جا رہا تھا تو بھی متعدد بنیادی سوالات سر اٹھا رہے تھے۔ اگرچہ ان سوالات کی گہرائی اور اسباب پر مذاکرات اور چوہے بلی کے کھیل کا عمل حاوی رہا تاہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیںکیا جا سکتا کہ دونوں اطراف سے اس قسم کے طرز عمل سے مستقبل کی بعض پیش بندیوں کے آثار بھی صاف نظر آرہے تھے۔ اس سے قبل 2008ء کے آخری مہینوں کے دوران تحریک طالبان کے امیر بیت اللہ محسود کی اس پیشکش کی باز گشت باقی ہے جس میں انہوں نے اے این پی کو پیغام بھیجا تھا کہ اگر یہ پارٹی پنجاب اور مرکز (اسلام آباد) پر زیادہ انحصار کرنے کی بجائے طالبان کے ساتھ ''مفاہمت'' کر لے تو اس پارٹی کی صوبائی حکومت کے لیے یہ بہت فائدے کی بات ہوگی۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ طالبان (پاکستانی) تحریک کے بعض کمانڈروں کو آف دی ریکارڈ متعدد بار یہ کہتے سنا گیا کہ وہ ڈیورنڈ لائن کو پشتونوں کی تقسیم کا سبب سمجھ کر نہیں مانتے۔ماضی میں افغانستان کے طالبان اور حزب اسلامی بھی اس قسم کا طرز عمل اپناتے نظر آتے ہیں۔

اسی طرح عام لوگوں میں ایک پختہ تاثر یہ ہے کہ وہ طالبان کے سخت گیر رویے کے باجود محض اس بنیاد پر ان کا ساتھ دے رہے ہیں کہ ان میں سے اکثریت پشتونوں کی ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر اے این پی دوسری قوم پرست قوتیں اور سب سے بڑھ کر پی پی پی موجودہ دور اقتدار میں پشتونوں کے اجتماعی مفادات اور مطالبات کے تناظر میں امریکی آشیر باد کے باوجود توقعات پر پورا نہ اتر سکیں تومتبادل کے طور پر جو قوت پشتون بیلٹ میں قیادت کے خلاء کو پر کرنے نکلے گی کیا وہ طالبان نہیں ہو سکتے؟ بظاہر تو اس سوال کے جواب میں بہت سنجیدگیاں حائل ہیں تاہم اس بات کی یقینا گنجائش موجود ہے کہ طالبان اور قوم پرست نہ صرف اکٹھے ہو سکتے ہیں بلکہ دوسرے فریق کی ہچکچاہٹ کے نتیجے میں بنتی صورتحال سے ایسا ہونا یقینی دکھائی دے رہا ہے۔مبصرین کے مطابق اگر طالبان نے تشدد پر مبنی اپنا طرز عمل چھوڑ کر اعتدال کا راستہ اپنا لیا تو یہ امکان یقین میں تبدیل ہو جائے گا۔

دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اس آپشن کو امریکا اور بعض اہم قوتوں کی پس پردہ آشیر باد بھی رہے گی کیونکہ ابھی سے اس قسم کے امکانات پر اندرون خانہ کوششوں کا آغاز بھی کیا جا چکا ہے اور پاکستان کے اہم ریاستی اداروں کو اس آپشن سے متعلق تیاریوں کے ثبوت بھی ملنے کی اطلاعات زیر گردش ہیں۔یہاں اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلایا جا سکتا کہ ماضی میں قوم پرست اور مذہبی گروپ قوم پرستی کے جذبے کے تحت مختلف ادوار میں ایک دوسرے کے ساتھ اکٹھے ہو کر جدوجہد کرتے آئے ہیں۔ اس ضمن میں تقسیم ہند کی جدو جہد آزادی کے علاوہ درانی ، خلجی اور دوسرے افغان حکمران خاندانوں کی متعدد مثالیں پشتون تاریخ کا ایک حصہ ہے ۔ باچا خان جیسی قوم پرست شخصیت نہ صرف مسجد اور حجرے کی سیاست کی بڑی علمبردار تھی بلکہ ان کے اتحادیوں اورساتھیوں میں حاجی صاحب ترنگزئی اور فقیر آف ایپی سمیت متعدد دوسری مذہبی شخصیات بھی شامل تھیں۔ افغانستان اور پاکستان میں ایک ایسی خاموش اکثریت بہر حال موجود ہے جو کہ دینی جذبے کے علاوہ سیاسی ، جغرافیائی اور اقتصادی معاملات کے تناظر میں پشتون قوم پرستوں او ر جنگجو گروپس کے درمیان مستقبل قریب میں قربت کی خواہشمند ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ 2008کے دوران افغانستان کی موجودہ حکومت نے دونوں اطراف کے پشتونوں کو قریب لانے کے لیے نہ صرف سیاسی قائدین کو کابل کے دورے کرائے تھے بلکہ قبائلی علاقوں سے 50سے زائدبااثر عمائدین کو بھی کابل مدعو کیا تھا ۔ان میں متعدد نے کابل میں موجود اعتدال پسند طالبان لیڈروں سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔ ان ملاقاتوںکے دوران بھی اس معاملے پر بات چیت کی گئی تھی۔ اگرچہ ان تمام رابطوں اور ملاقاتوں کا ایجنڈا واضح نہیں تھا تاہم بعض مبصرین اس لمبے عمل کو پشتونوں کی مؤثر سیاسی ،قبائلی اور مذہبی قوتوں کے درمیان ایک ممکنہ ہم آہنگی کا نام دیتے آئے ہیں۔ حجرے اور مسجد کا ایک فارمولہ بھی اس سلسلے کی ایک اہم کڑی سمجھی جاتی رہی ہے ۔ امکان ہے کہ اگر فریقین بعض معاملات میں لچک دار رویہ اپنانے پر آمادہ ہو گئے تو اس فارمولے کو عملی شکل دینے میں کوئی بڑی رکاوٹ حائل نہیں رہ جائے گی۔ اس فارمولے یا امکان کو عملی بنانے میں امریکا سمیت بہت سی بااثر قوتیں بھی غیر معمولی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔مبصرین کا خیال ہے کہ اگر ان قوتوں نے پاکستان کو اس کی سلامتی کے حوالے سے واقعتا ایک غار میں دھکیلنا چاہا تو مذکورہ فارمولا یا اتحاد ایسی کسی صورتحال میں اہم کردار ادا کرے گا۔ اس سلسلے میں اس سروے کے نتائج کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جس کے دوران تجزیہ نگاروں ،صحافیوں اور مذکورہ فریقین سے پوچھا گیاکہ کیا پشتون قومیت اور طالبان کے درمیان ہم آہنگی ہو سکتی ہے تو ایک قابل ذکر تعداد نے اس کا جواب ہاں میں دیا۔امکان یہی ہے کہ اگست میں ہونے والے افغان انتخابات کے بعد اس سمت پیش رفت ہو سکے گی۔