working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

سرحدی تنازعات ، ریاستوں کے درمیان تعلقات کار اور انتہا پسندی
محمد عامر رانا
انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز جنیوا میں پڑھا گیا یہ مضمون جنوبی ایشیائی ممالک کے تنازعات کی جامع تصویر کشی کرتا ہے۔ جس میں مضمون نگار نے یہ جاننے کی سعی کی ہے کہ یہ تنازعات، ریاستوں کے درمیان عمومی تعلقات کار میں کس طرح اثر انداز ہورہے ہیں، ریاستوں کے اندرونی اور سرحدی تنازعات کی وجہ سے ریاستیں کمزور ہورہی ہیں، شدت پسند اور علیحدگی پسند قوتیں مضبوط ہو رہی ہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا کو اپنے مسائل مقامی سطح پر بہتر طرز حکومت سے حل کرنے ہوں گے اور نسلی وگروہی اقلیتوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا ہوگا۔ (مدیر)
1947ء میں انگریز کے رخصت ہوتے ہی جنوبی ایشیاء کی تقسیم عمل میں آگئی اور ساتھ ہی کئی فتنہ انگیزیاں سر اٹھانے لگیں جس کے نتیجے میں انسانی ، معاشی ،اقتصادی اور اخلاقی حوالوں سے کئی تنازعات نے بھی جنم لیا اسی تناظر میں جنوبی ایشیاء کے ممالک کے درمیان غیر یقینی صورت حال پیدا ہوئی اور صرف 2008ء میں تقریباً 23098لوگ انتہا پسندی کی نذر ہو گئے۔ (1)

یہ تنازعات مذہبی ،لسانی ،گروہی اور قومیت کی بنیاد پر مختلف ممالک کے درمیان ایک تسلسل سے نظر آتے ہیں ۔ جنوبی ایشیاء میں ان دیرینہ مسائل نے ریاستوں کے سرحدی علاقوں میں سر اٹھایا۔ مثلاً پاکستان اور افغانستان میں ''طالبان'' سامنے آئے بھارت میں آسام ،تری پورہ، کابوڈو لینڈ اور ناگا لینڈ کی تحریکوں نے جنم لیا ۔ میانمار (2)میں روہتگوں ( نویں اور 15ویں صدی عیسوی کے درمیان عرب اور فارس سے میانمار آ کے آباد ہونے والے تاجروں کی نسل) کی تحریک آزادی، تقسیمی پٹی یعنی LOC (3)کے دونوں جانب کشمیر کی آزادی کی تحریک، پاکستان ، افغانستان، ایران اور عراق کے بلوچ علاقوں میں علیحدگی کی تحریکیں اور چین (4)میں ''وویفر'')چینی صوبے سنکیانگ میں ترک مسلمانوں کی تحریک) کے مسائل سمیت تمام تنازعات نے سرحدی علاقوں میں ہی آنکھیں کھولیں اور پھر معروضی حالات نے انہیں بال و پر عطا کیے۔ ان تحریکوں کے بیرونی ممالک سے خفیہ رابطے تھے جنہوں نے ان کے ڈھانچے کو مضبوط کرنے میں بھر پور تعاون کیا اور اس وقت جبکہ جنوبی ایشیا گھمبیر سرحدی مسائل سے دو چار ہے یہ تحریکیں بھی اڑوس پڑوس سے اپنے رابطوں کو مضبوط کرتی نظر آتی ہیں۔

عموماً انتہا پسند تحریکیں بنیاد پرستی سے متاثر ہو کر سامنے آئیں اور پھر ان میں سے بعض نے باقاعدہ عسکری شکل اختیار کر لی۔ ابتدائی طور پر یہ باغیانہ سرگرمیاں ان سیاسی ،سماجی او ر اقتصادی محرومیوں کا رد عمل تھیں جنہیں حکومتوں کے غیر ذمہ دار حکمرانوں کے غلط فیصلوں سے تقویت ملی۔ ''راب جو ہنسن'' کی رائے کے مطابق چار بنیادی عوامل نے ان تنازعات کے سلگتے شعلوں پر مزید ایندھن کا کام کیا۔ ان میں سب سے اہم وجہ جمہوریت کی ثقافت کا فقدان تھا اور ہر سطح پر کرپشن کے عفریت نے اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے۔غربت اور جہالت بھی اپنا کردار خوب نبھا رہی تھی۔ جو ہنسن نے مذکورہ تمام عوامل کو ہر تنازعے کی جڑ قرار دیا ہے (5) بنیادی طور پر گروہی، مذہبی اور ثقافتی پہچان نے انتہا پسندی کی بنیاد رکھی جس نے رفتہ رفتہ مکمل طور پر اپنا قبضہ جما لیا ۔مذہب بھی بدستور کلیدی کردار کے طور پر موجود رہا۔ جہاں تک ان قوتوں کے ڈھانچے کا تعلق ہے تمام علیحدگی پسندوں اور باغی تحریکوں میں انتہا پسندانہ نظریات کو اپنانے کے رجحانات بدرجہ اتم موجود ہوتے ہیں ۔ (6) یہ اپنے ایجنڈے کو مقبول عام بنانے کے لیے تمام منفی او ر تخریبی سرگرمیوں پر عمل پیرا ہونے میں عار محسوس نہیں کرتیں انہی عناصر کے بنیادی مقاصد کو جانچنے کے لیے اس مضمون کی ضرورت محسوس کی گئی ہے جو مندرجہ ذیل نکات کا احاطہ کرتا ہے۔
1۔ سرحدوں پر علیحدگی پسندوں اور باغیوں کی عمومی اور نمایاں خصوصیات اور ان کا باہم ربط۔
2۔ وہ محرکات جو کہ انتہا پسند قوتوں کو سرحدی علاقوں میں تحریک بخشنے میں معاون ہیں۔
ٍ 3۔انتہا پسند گروہوں کی متنازعہ سرحدوں پر سرگرمیاں اور خطرات و خدشات۔
4۔ انتہا پسندی کی تحریکوں کی وجہ سے ریاستوں کے درمیان تعلقات پر اثرات۔

علیحدگی پسندوںاور باغیانہ سرگرمیوں میں ملوث تخریبی عناصر جانچنے کے لیے یہ مختصر کاوش قطعاً ناکافی ہے تاہم سرحدی علاقوں میں اکٹھے ہونے والے طوفان، حالیہ تنازعات اور بدامنی پھیلانے والی تحریکوں کے بنیادی اسباب کو سمجھنے کے لیے ایک اہم بحث ضرور ہے۔

اس مضمون میں چند اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں جن کا سمجھنا پہلے ضروری ہے مثلاً علیحدگی پسند تحریک سے مراد ہے کہ کسی ملک کے اندر ایسا گروہ جو اپنے حقوق کے حوالے سے ایک علیحدہ اور آزاد مملکت قائم کرنا چاہتا ہے (7)اس کی مثال کشمیر ، تامل، روہنگیا، وویفر، آسام ، ناگا لینڈ اور تری پورہ کی تحریکوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

شورش(Insurgency)عمومی طور پر ایسی جدوجہد کا نام ہے جو حکومت اور متوازی نظام کے حامی گروہوں کے درمیان وقوع پذیر ہوتی ہے ۔ جس میںغیر حکومتی تنظیمیں سیاسی ذرائع اور پروپیگنڈے کا بے دریغ استعمال کرتی ہیں اور اپنے نظریات کے فروغ کے لیے سماجی ، سیاسی اور اقتصادی حقوق کی آڑ میں تخریبی کارروائیوںکو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں جبکہ حکمران اسے غیر قانونی سمجھتے ہیں۔(8) جنوبی ایشیاء میں طالبان نکسل باڑی، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اسلامی جہادی تحریکیں او ر نیپال کی مائو باغی تحریکیں اس قسم میں شامل ہوتی ہیں۔

انتہا پسندی (Extremism)سے مراد یہ ہے کہ مذہبی ،سیاسی یا سماجی بنیاد پر غیر لچک دار رویوں کے حامی عناصر اپنے نظریات کا فروغ چاہتے ہیں۔ (9) اور وہ حکومت کو تخریبی کارروائیوں، جلسے جلوسوں اور دیگر غیر سماجی سرگرمیوں سے مجبور کر تے ہیں کہ ان کے ایجنڈے پر عمل در آمد کرے ۔ سنگھ پریوار اور طالبان تحریکیں انتہا پسندی کی مثال ہیں جو کہ قدیم اور ازمنہ و سطیٰ کے فرسودہ خیالات کا احیاء چاہتی ہیں جب کہ لفظ تحریک(Movment)ایسے ہی نظریات کو پھیلانے والے گروہوں کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔

حالیہ دنوں میں جنوبی ایشیاء کئی اقسام کے تنازعات کی لپیٹ میں رہا ہے ۔ جس میں علیحدگی پسندوں اور باغیانہ عناصر کی سرگرمیاں اپنے نقطئہ عروج پر ہیں ۔تفصیل کے لیے مضمون کے آخر میں موجود چارٹ ملاحظہ کیاجا سکتا ہے۔

ریاستوں کے درمیان سرحدی جھگڑے ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور خیال کیا جاتا کہ موجودہ تنازعات کے پس منظر میں یہ امور بھی پیش پیش ہیں ۔ کشمیر کا مسئلہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سرحدی تنازعے کی بنیاد پر ہی وجہِ نزاع ہے۔ دونوں ممالک نے اقوام متحدہ کی قرار داد کے تحت رضا مندی کا اظہار کیا تھا کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا وہ اپنے مقبوضہ علاقوں پر اقتدار قائم رکھتے ہوئے لائن آف کنٹرول (LOC)کا احترام کریں گے اوریہی وجہ علیحدگی پسند تحریک کو مزید ہوا دینے کا باعث بھی ہے۔

جہاں تک آسام اور تری پورہ کی علیحدگی پسند تحریک کا تعلق ہے وہاں کے رہنے والے لوگ مختلف المذاہب معاشرے کا حصہ ہیں اور یہ علاقے بنگلہ دیش سے ملحق ہیں ۔ بنگلہ دیش جس کی ایک لمبی سرحد ہندوستان کیسا تھ جڑی ہوئی ہے ا س کا ماسوائے 140ایکڑ دریائے جزیرے کے کوئی بڑا سرحدی تنازعہ نہیں ہے اور اس پر بھی دونوں ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے۔ (10) بنگلہ دیش کی میانمار کے ساتھ پانی کی سرحد ہے جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔ہندوستان ان ریاستوں کے درمیان تنازعات کھڑا کر سکتا ہے ۔جنوری 2009ء میں ہندوستانی جہاز نے گیس اور تیل کی تلاش کے لیے سروے کیا اسی طرح نومبر2008ء میںمیانمار نے بھی سروے کا کا م کیا تھا جس سے پتہ چلتا ہے کہ معاملہ سنگینی کا شکار ہو سکتا ہے ۔ (11)

بنگلہ دیش او رانڈیا کے درمیا ن اہم مسائل میںسرحدوں کے آر پار لوگوں کی ہجرت کے امور ہیں اور عموماً یہ امیگریشن سرحدوں کے دونوں اطراف میں رہنے والوں کے عزیز و اقارب کے درمیان ہوتی ہے۔آسام ، تری پورہ، بودو لینڈ اورمغالی کے علیحدگی پسند سرحدوں کے آر پار آسانی سے آتے جاتے ہیںاور یہی وجہ ان کے روابط کو مضبوط کرتی ہے۔ مزید برآں بنگلہ دیش میں ''چٹاگانگ'' 'ہل ٹریک' کے ساتھ بد امنی جو بالآخر 1997ء میں ایک معاہدے کی رو سے اپنے اختتام کو پہنچی تھی، ایک بار پھر سراٹھانے لگی ہے ۔اسی طرح میانمار کے علیحدگی پسند'' رونگیا مسلمان'' بھی بنگلہ دیش اور میانمار کے درمیان ایک سرد جنگ کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے ساحلوں کو آپریشن کے لیے استعمال کر تے رہے ہیں۔(12)

چین ،ہندوستان اور پاکستان کے درمیان دنیا کے سب سے لمبے سرحدی مسائل ہیں اور ان تنازعات کی وجہ سے ان ممالک کے درمیان کئی جنگیں بھی ہو چکی ہیں ۔(13)چین اور انڈیا کے درمیان صوبہ ارونا پردیش اور اقصاء چین جو کشمیر (14)کے شمالی علاقے میں واقع ہے کی وجہ سے پرانے تنازعات چلے آتے ہیں لیکن مذکورہ سرحدوں کو علیحدگی پسند تحریکوںکا سامنا نہیں ہے۔(15)

انڈیا اور نیپال کے درمیان''کالا پانی'' جو کہ 75مربع کلو میٹر کے رقبے پر محیط ہے ،کمزور کنٹرول کی وجہ سے کئی مسائل کی زد میں ہے ۔نیپال جو کہ اطراف میں پہاڑوں سے گھرا ہواہے صرف انڈیا کے ساتھ ہی کاروبار کر سکتا ہے اور اپنے کمزور سرحدی انتظام کی وجہ سے بائیں بازو کی تنظیموں اور ہندو گروہوں پر مکمل نظر نہیں رکھ سکتا جو کہ کھلم کھلا اپنے نظریات کو سرحدوں کے پار پھیلاتے ہیں اور اپنے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کر رہے ہیں۔(16)

انڈیا اور بھوٹان کے درمیان بھی گداز سرحد ہے جو کہ کمزور کمان کے درمیان دوڑ رہی ہے ۔ انڈیا کئی مرتبہ بھوٹان پر الزام لگا چکا ہے کہ اس نے اپنی سرزمین پر تخریب کاروں کو تربیت دینے کے لیے کیمپ کھول رکھے ہیں جو کہ ہندوستان میں کارروائیوں میں ملوث ہیں ۔ (17)نیپالی نسل کے ناگا لینڈ ہمالیہ کی ریاست کے لیے مسلسل خطرات کا باعث بنے رہتے ہیں ۔انڈیا کو میانمار کے خلاف بھی ایسی ہی شکایات ہیں جس کی 334کلو میٹرطویل سرحد ہندوستان سے ملتی ہے۔
پاکستان کا افغانستان کے ساتھ بھی متنازعہ ''ڈیورنڈ لائن'' پر سرحدی جھگڑا چلا آتا ہے ۔ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ 2250کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ یہ سرحد 1893میں سرموتمر ڈیورنڈ نے کھینچی تھی جو کہ اس وقت برطانوی ہندوستان میں فارن سیکریٹری تھا۔ افغانستان کا دعویٰ ہے کہ ڈیورنڈ لائن ایک طاقت ور حکومت نے کمزور ملک پر مسلط کی تھی۔ اور اس طرح دوسری جانب ایک اور پشتون ریاست جو کہ( پشتونستان یا پختونستان کے نام کے تحت ہو) کے لیے راہ ہموار کی۔ دوسری جانب پاکستان اس سرحد کے قانونی اور اصولی مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے ۔ جبکہ اس سرحد کے اطراف میں رہنے والے قبائل ایک دوسرے کے علاقوں میں آنے جانے کے لیے آزاد ہیں اور وہ کسی قانونی سرحد کو نہیں مانتے۔

سرحدی تنازعے کے باوجود9/11کے واقعے سے پہلے اس لمبی سرحد پر کبھی کوئی بڑی عسکری لڑائی نہیں ہوئی۔ جب امریکا اور اس کے اتحادیوں نے طالبان حکومت کا تختہ الٹنے کا فیصلہ کیا تو پہلی مرتبہ پاکستان نے بھی القاعدہ اور طالبان کی در اندازی روکنے کے لیے اپنی باقاعدہ فوج مذکورہ سرحد پر تعینات کی ۔ افغانستان نے بھی اپنی سرحد کے ساتھ اپنے فوجی دستوں کا تقرر کیا یہی وجہ ہے کہ چھوٹے موٹے سرحدی جھگڑے آئے روز کا معمول ہیں۔ طالبان اور القاعدہ کی اس سرحد کے دونوں جانب موجودگی نے تمام دنیا کی نظریں اپنی جانب مبذول کر لی ہیں۔طالبان کی سرگرمیوں کی وجہ سے دونوں ممالک متاثر ہوئے ہیں اور ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ دوبارہ سر اٹھانے لگا ہے۔

حالانکہ پاکستان کے چین اور ایران کے ساتھ کوئی سرحدی تنازعات نہیں لیکن بلوچ اور وویفر علیحدگی پسندوں کی وجہ سے ایران اور چین کے تحفظات اپنی جگہ بدستور قائم ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسند تحریک پاکستان اور ایران دونوں ممالک کے لئے یکساں پریشانی کا باعث ہے جبکہ چین میں ''وویفر'' کے پاکستانی جہادیوں سے تعلقات کی بنا پر تشویش پائی جاتی ہے۔

ان علیحدگی پسندوں اور باغیانہ تحریکوں کی سرگرمیوں میں اضافے سے سرحدی علاقوں میں کھچائو میں خاصا اضافہ دیکھنے میںآیا ہے۔ ہندوستان ہمیشہ ہی بنگلہ دیش ،بھوٹان ،پاکستان او ر میانمار کو اپنی سرحدوں میںمداخلت کے حوالے سے مورد الزام ٹھہراتا آیا ہے(18)اور مغربی سرحدوں پر پاکستان کو بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے ۔ پشتون قومی تحریک کو ڈیورنڈ لائن کے متنازعہ فیہ ہونے کے معاملے پر اس قدر تائیدحاصل نہ ہوئی حالانکہ انہیں کابل کی مکمل حمایت بھی حاصل تھی۔

9/11کے واقعات تک یہ سرحدیں بالکل خاموش تھیں اور کسی قسم کی فوجوں کی تعیناتی کا کوئی خواب و خیال بھی نہیں تھا ۔ اس پر سکون سرحد نے سوویت یونین کی در اندازی کے خلاف بہت اہم کردار ادا کیا تھا ۔ مجاہدین نے پاکستان کے سرحدی علاقوں کو استعمال کرتے ہوئے مکمل تربیت ، بھرتیاں اور تمام امدادکھلے عام حاصل کی۔ مغربی ممالک بشمول امریکا اور سعودی عرب نے بھی بھرپور معاونت کے لیے پاکستانی سرحدی علاقوں کا ہی انتخاب کیا۔ (19)

لیکن 9/11کے بعد حالات نے پلٹا کھایا اور امریکیوں نے اپنے اتحادیوں کی معیت میں القاعدہ اور اسکے مدد گارطالبان کو کچلنے کی خاطر افغانستان پر چڑھائی کر دی جبکہ ان طالبان کی ریڑھ کی ہڈی کے طور پر پاکستان کے قبائلی علاقہ یعنی FATAنے خاصی شہرت حاصل کی۔ (20) انہوں نے اپنے ڈھانچے اور روابط کو دوبارہ مجتمع کیا اور تاریخ میں پہلی مرتبہ سرحد کے آر پار دراندازی اور عسکری کارروائیوں کی روک تھام کے لیے پاکستان کو یہاں بھی اپنی فوج کی نقل و حرکت میں اضافہ کرنا پڑا۔ ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب یہی پشتون قبائل آباد ہیں۔ وہاں ایسے کئی گھر دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا ایک کمرا پاکستان میں جبکہ کے دوسرا کمرا افغانستان کے علاقے میں تعمیر کیا گیاہے۔ کچھ ایسی ہی صورت حال انڈیا اور بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ ساتھ علاقوں پر بھی گذرتی ہیں اور یہاں کے باسی سماجی،مذہبی،ثقافتی،اقتصادی اور خونی رشتوں میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ایسی ہی اور مثالیں دیکھنی ہوں تو بنگلہ دیش میانمار ،بھوٹان انڈیا اور پاک افغان سرحدوں کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

سرحدوں کے آر پار رہنے والوں کی غیر مساوی تقسیم نے بین الاقوامی سرحدی مسائل کو جنم دیا ہے۔ اس نے نہ صرف سرحدی مشکلات میں اضافہ کیا ہے بلکہ مختلف ریاستوں نے ان مذہبی گروہوں کو مضبوط کرنے میں مدد فراہم کی ہے۔مزید برآں مشترکہ سرحد سے جہاں ریاستوں کے درمیان تجارتی اور ثقافتی روابط بھی بڑھتے ہیں وہاں غیر قانون سرگرمیوں، انسانی تجارت اور اسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ (21)پاک افغان سرحد تو اسلحہ او ر منشیات کی اسمگلنگ کی جنت خیال کی جاتی ہے۔ کچھ ایسا ہی منظر انڈیا اور بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ بھی دیکھنے میں آیا ہے جہاں انسانی آمدو رفت عروج پر ہے۔ (22)

ان سرحدوں نے ایٹمی رازوں کو چرانے میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ ہندوستان کی ریاست''جھاڑکھنڈ'' نے جو نیپال کی سرحد کے قریب واقع ہے ،ایٹمی اسمگلنگ کے حوالے سے اپنے رابطوں کو مضبوط کیا ہے۔ (23)فروری2008ء میں پولیس نے ضلع سیال میں 4کلو گرام یورینیم کی اسمگلنگ کا انکشاف کیا۔(24) ان سرحدوں پر نرم قوانین کی وجہ سے مختلف گروہوں نے اپنے نظریات،انسانی ذرائع،ہتھیار اور مشینری کو آسانی سے آر پار منتقل کیا ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کے دور میں پاکستانی قبائلی علاقے بھی ان کے اثرات سے محفوظ نہ رہ سکے۔ مقامی قبائل اس نظام حکومت سے سرعت سے متاثر ہوئے اور چند گروہوں نے طالبان کے مفادات کو مضبوط کرنے کی خاطر طالبانائزیشن کے ایجنڈے پر عمل در آمد بھی شروع کر دیا۔ شروع شروع میں تو ان گروہوں نے اس قدر زورنہیں پکڑا مگر طالبان کی افغانستان میں پسپائی کے بعد القاعدہ او ر طالبان نے ان کی مالی، نظریاتی اور میکانکی معاونت کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب طالبان نے شمالی جنوبی وزیر ستان، باجوڑ ،خیبر اور مہمند ایجنسیوںمیں جو کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں واقع ہیں ،اپنی خود ساختہ شریعت کے نفاذ کا اعلان کر دیا اور کافی حد تک اس میں کامیابی بھی حاصل کی .

کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا بنگلہ دیش، انڈیا اور میانمار کو بھی ہے جنہیں اپنے سرحدی علاقوں میں علیحدگی پسندوں کے بڑھتے ہوئے رجحانات سے نمٹنا پڑرہا ہے۔''روہنگوں'' کی آزادی کی تحریک اپنے تعلق کو افغان جہاد سے جوڑتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان میں انتہا پسندی کے نظریات کی پیوند کاری بھی ہوگئی ہے۔ان تحریکوں نے کسی قسم کے سیاسی، تاریخی،سماجی اور اقتصادی عوامل کے بغیر جنم لیا اور بعد میں مذہبی انتہا پسندی کی لپیٹ میں آ گئیں۔ (25)

ہندوستان کی سیاسی اور سماج پرست علیحدگی پسند تحریکیں جو کہ آسام اور تری پورہ میں متحرک ہیںوہ بھی اسلامی علیحدگی پسندوں کے متوازی گروہوں کی صورت میں ظاہر ہوئی ہیں۔اسلامی متوازی تحریکوں کا ایجنڈا بھی ایک جیسا ہی ہے یعنی وہ اسلامی معاشرے کے قیام پر زوردیتے ہیں۔ محض 1998تک آسام میں قومی ایجنڈے کی بنیاد پر 7گروہ سرگرم عمل تھے اور اب وہاں 6مسلمان علیحدگی پسند تنظیمیں بھی وجود میں آ چکی ہیں(26)ان تحریکوں نے بنگلہ دیش کے جہادی گروپس مثلاً جماعت المجاہدین(JUM)اور حرکت الجہاد اسلامی(HUJI)سے اثرات قبول کیے ہیں۔ (27)ان گروہوں کے روہنگیا لبریشن موومنٹ پر بھی اثرات مرتب ہوئے اور انھوں نے افغان جہادیوں سے بھی روابط قائم کیے۔

ایک جیسے نصب العین کے باوجود ان متوازی تحریکوں میں قومی علیحدگی پسند تحریکوں کی نسبت برداشت کا مادہ کم ہے۔ او ر یہی عوامل ہیں جو عموماً فرقہ واریت اور قومیتی تصادم کا باعث بنتے ہیں۔ انڈوبنگلہ دیش سرحد پر واقع مغالی کے مغربی گھارو ہلذ ڈسٹرکٹ میں 1992سے اب تک دو بڑے تصادم وقوع پذیر ہو چکے ہیں(28)اور ان تنازعات کے پیچھے علیحدگی پسند گروہوں کا ہی ہاتھ کارفرما تھا۔

اگر کشمیر کی آزادی کی تحریکوں پر نظر ڈالی جائے تو یہاں بھی ہمیںکچھ ایسے ہی بحران اور مسائل ان تحریکوں کے پس منظر میں کارفرما دکھائی دیتے ہیں۔ آزادی کی تحریک کے اس دوسرے پیچیدہ باب کے کھلنے سے پہلے یعنی1980کی آخری دہائی میں ان تحریکوں کی کمان قومیت پرستوں یعنی جموں اینڈ کشمیر لبریشن فرنٹ(JKLF)کے ہاتھ میں تھی۔ اس گروپ کے معتدل مذہبی نظریات تھے لیکن1980 کی دہائی کے اواخر اور 1990کی دہائی کے شروع میںجہادی تنظیموں نے ان کی جگہ لے لی او ر انہوں نے مقبوضہ کشمیر میںکارروائیوں کا آغاز کر دیااور اب ان کے اپنے اپنے حلقہ اثر ہیں اوران کے راہنما ببانگ دہل یہ دعویٰ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ کسی بیرونی مدد اور مداخلت کے بغیر بھی طویل عرصے تک اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکتے ہیں۔ (29)

یہی رجحانات متوازی تحریکوں یعنی پاکستان میں بلوچستان اور چین میں مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ بلوچستان میں ان باغی اور علیحدگی پسند گروہوں کی کمان بائیں بازو کے قوم پرستوں کے ہاتھوں میں ہے لیکن پچھلے دو سالوں سے علیحدگی پسندوں کی ایک متوازی اسلامی تحریک''جنداللہ'' کے نام سے وجود میں آئی ہے (30)جو کہ اس خطے میں ایک نئی تبدیلی کا آغاز معلوم ہوتا ہے۔''جنداللہ'' بھی "Greater Blochistan"کے لیے ایک مختلف نظریے کے تحت کام کر رہی ہے اور اس گروہ کے پاکستانی فرقہ پرست تنظیم ''سپاہ صحابہ'' اور طالبان (یا القاعدہ) سے بھی روابط ہیں۔

بلوچ علیحدگی پسند تحریک کا سب سے بڑا ہدف ایرانی بلوچستان ہے جس کے لیے وہاں کے شیعوں میں فرقہ واریت کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔اس طرح بتدریج بلوچستان میں بائیں بازو کے علیحدگی پسندوں کا اثرو رسوخ کم ہوتاجائے گا اور بالآخر سرحد کے دونوں جانب مذہبی فرقہ واریت بڑھنے لگے گی۔

صوبہ سنکیانگ کی علیحدگی پسند تحریک بھی چین میں کچھ ایسے ہی حالات سے دو چار ہے جہاں اب القاعدہ کے انتہا پسند گروہوں نے تحریک کو یر غمال بنا لیا ہے۔

اسلامی بنیاد پرستی کے رجحانات نے نہ صرف جنوبی ایشیاء کے علیحدگی پسندوں کو متاثر کیا ہے بلکہ بائیں بازو کے نظریات بھی ان اثرات سے بچ کے نہ رہ سکے۔ اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ تما م علیحدگی پسند تحریکیں جو جنوبی ایشیاء میں سرگرم عمل ہیں وہ اسلامی اور بائیں بازو کے ترقی پسندوں کے مکاتب فکر سے متاثر ہیں۔

نیپال اور انڈیا میں مائو اور کمیونسٹوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مضبوط بندھن استوار کر رکھے ہیں اور سرحدوں کے ساتھ ساتھ قصبوں میں بسنے والے ایک جیسے نظریے کے اسیر ہیں ۔اسی طرح سری لنکا کے تامل علیحدگی پسند اور ہندوستان کسی مذہبی یا بائیں بازو کے ایجنڈے پر کا رفرما نہیں ہیں بلکہ در حقیقت یہ تحریکیں قومی نظریات پر کا م کر رہی ہیں۔ ''تامل ایلم''1990میں مشرقی سری لنکامیں بسنے والے سینکڑوں مسلمانوں اوربدھسٹ کا قتل عام کیا اور انہوں نے مساجد او ر بدھوں کی خانقاہوں کو بھی اجاڑ دیا۔

یہ ان انتہا پسند تحریکوں کا ایک مختصر سا جائزہ تھا جنہوں نے پہلے سے موجود متنازعہ فیہ حالات کی وجہ سے سرحدی علاقوں میں اپنے اثر ورسوخ کو تقویت دی ۔ انتہا پسندی کا یہ عفریت ان پر امن سرحدوں پر بھی اپنے نوکیلے پنجے گاڑ رہا ہے جہاں ایسی تحریکیں ابھی وجو دمیں نہیں آئیں۔مثلاً پاکستان اور انڈیا کی جنوبی سرحدی پٹی پر سندھی گائوں عمر کوٹ اورمٹھی جو کہ ہندو اکثریتی علاقوں پر مشتمل ہیں، جہادی گروپوں کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے ۔ (31)اور کچھ ایسے ہی حالات کا سامنا سرحد کے پار بھی ہے جہاں ''سنگھ پریوار'' اپنے بال و پر درست کر رہا ہے (32) اورسرحدوں پر ان گروہوں کی موجودگی سیکیورٹی کے مسائل میں اضافہ کر رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ مذہبی فسادات کی شکل اختیار کر لے کیونکہ مسلمان اور ہندو سرحدوں کی دونوں جانب موجود ہیں اور یہ قومیتیں ایک دوسرے کے علاقوں میں دراندازی کر کے حالات کو مزید بگاڑ سکتے ہیں۔

جنوبی ایشائی ریاستیں اپنے اختلافات دور کرنے کے لیے انتہائی کوششیں کر رہی ہیں اور اس کے لیے انہوں نے سیاسی او ر طاقت کے استعمال کے راستے کھلے چھوڑ رکھے ہیں۔ ہندوستان اپنے شمالی حصے میں جبکہ پاکستان مغربی سرحدوں پر قبائلیوں کے ساتھ مسائل حل کرنے کی جستجو میں ہے جس میں تا حال کوئی کامیابی نظر نہیں آتی۔مشکل یہ ہے کہ یہ باغیانہ اور علیحدگی پسند تحریکیں ان اقلیتی قومی اور مذہبی گروہوں پر مشتمل ہیں جو کہ سرحدوں کے دونوں جانب تقسیم ہیں اور ان عوامل کی بیخ کنی اس وقت اور بھی مشکل تر ہو جاتی ہے جب حکومتیں اقتصادی اور سماجی بحرانوں کا شکار ہوں۔

جنوبی ایشیائی ممالک ایک دوسرے کے بارے میں عدم اعتماد کا شکار ہیں اور اسی وجہ سے وہ کوئی ایسا لائحہ عمل اختیار کرنے سے قاصر ہیں جو کہ مشترکہ دشمنوں سے نمٹنے میں مدد دے ۔ امن کے لیے موجودہ کوششوں کے باوجود کشمیر کا مسئلہ حل طلب چلا آتا ہے جس کا فائدہ اٹھا کر انتہا پسند قوتیں اپنا اثر ورسوخ بڑھا رہی ہیں ۔

جنوبی ایشیائی ریاستوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ انتہا پسندی ایک ایسی طاقت ہے جو ان کے رویوں کو غیر لچک دار بنائے دیتی ہے اور ان کے مسائل کے حل کی راہ میں ایک اونچی دیوار کی مانند ہے ۔علیحدگی پسندوں کی انتہا پسندی سرحدوں کے تنازعات کو مزید گنجلگ بناتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ یہ شدت پسند عناصر سرحدوں سے اپنا اثر و رسوخ ملک کے اندر تک پھیلا دیتے ہیں ۔پاکستان میں طالبانائزیشن،بنگلہ دیش میں اسلامائزیشن اور ہندوستان میں مائوایسٹ اور نکسل باڑی،نیپال میں ہندوئوں کی انتہا پسند کارروائیاں علیحدگی پسندی اور فرقہ واریت کی ایران میں تخم ریزی سے اس وقت تک نہیںنمٹا جا سکتا جب تک کہ مناسب اقدامات کے طور پر تمام متاثرہ ریاستیں مل کر کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے نہ کر لیںاو رایک دوسرے کی جانب دوستی کا باقاعدہ ہاتھ نہ بڑھا ئیں۔

جنوبی ایشیائی ریاستوں کے مابین سرحدی جھگڑوں کا آغاز سامراجی دور کے خاتمے کے بعد ہوا جب بد قسمتی سے ان سرحدی گائوں میں رہنے والوں کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی حقوق کو یکسرنظر انداز کر دیا گیا۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ قومیتوں کے یہ گروہ تنہائی کا شکار ہو گئے اور ساتھ ہی سرحدوں کے آرپار ہم خیال اور ہمدرد گروہوں کے درمیان روابط میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔محرومی کے اس احساس نے مختلف قومیتوں میں شدت پسندی کو ہوا دی ان سرحدی جھگڑوں کو نمٹانے کے لیے قابل قبول حل کی فوری ضرورت ہے اور اس سے سرحدوں پر انتہا پسندی جیسے مسائل سے نمٹنے میں خاصی مدد مل سکتی ہے۔ اور ساتھ ہی ریاستوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ و ہ ان نسلی اور قومی گروہی مسائل پر فوری توجہ دیں تاکہ اقلیتوں اور مختلف قومیتوں کو قومی دھارے میں شامل کر کے ان کی محرومیوں کا تدارک کیا جاسکے۔

علیحدگی پسندوں سے نمٹنے کے لیے جنوبی ایشیاء کی حکومتیں انتہائی قدم کے طور پر طاقت کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ سرحدی علاقوں میں انتہا پسندوں اور باغیوں کو طاقت سے کچلنے سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکتے جسکی واضح مثال پچھلے دنوں امریکا ،نیٹو اور پاکستان آرمی کی پاک افغان سرحد پر مشترکہ کارروائی تھی جو ناکامی پر منتج ہوئی اور طالبان او رالقاعدہ کا معاملہ جوں کا توں رہا۔ تاہم سری لنکا میں حکومت کو LTTEکے علاقوں میں خاصی کامیابی حاصل ہو چکی ہے لیکن ان قومیتوں کا وجود اس وقت تک مسائل سے دو چار رہے گاجب تک ان کی بحالی او ر قومی سیاسی دھارے میں دوبارہ شمولیت کے لیے مناسب اور موزوں اقدامات نہیں کیے جاتے۔غیر حل شدہ تنازعات یا پر امن مقاصد کی آڑ میں عسکریت پسندوں کو کھلی چھٹی نہیں ملنی چاہیے ورنہ وہ پھلنا پھولنا شروع کر دیتے ہیں اور متوازی حکومتیں قائم کر لیتے ہیں اور یہ محض اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ریاستیں وہاں اپنا اعتماد کھو بیٹھتی ہیں ۔جنوبی ایشیاء کی ریاستوں کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں تا کہ اپنی سرحدوں پر بڑھتے ہوئے ہیجان کے خلاف متبادل اقدامات اٹھا سکیں۔ کٹڑ اور انتہا پسند تنظیمیں ایسے حالات میں بہتر پوزیشن پر ہوتی ہیں جب حکومتیں اپنے سرحدی اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کو آنکھیں دکھا رہی ہوتی ہیں ۔ منظم ،بہترین ،فہم و فراست اور معاملات فہم حکومتیں ہی اپنی سرحدوں پر وقوع پذیر ہونے والی انتہاپسندانہ کارروائیوں سے نمٹنے کی اہل ہوتی ہیں اور مقامی آبادیوں کو بھی اپنے ساتھ شامل کر کے مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

ٍٍ اگر امریکا افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں علاقائی سوچ کو مد نظر رکھتے ہوئے پالیسی سازی کر سکتا ہے تو یہ ممالک جبکہ ان کے پاس SARRCجیسا پلیٹ فارم بھی موجود ہے خود کیوں کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے۔ جنوبی ایشیاء کی اس علاقائی تنظیم میں ایران اور چین کو مہمان نمائندے (Observer)کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ اس طرح یہ تمام ممالک مل کر اپنی سطح پر بھی علاقائی اور مقامی مسائل حل کر سکتے ہیں اور انتہا پسندی کا قرار واقعی تدارک بھی کیا جا سکتا ہے۔
3

حوالہ جات
(1)پاکستان سیکیورٹی رپورٹ 2008ء پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز اسلام آباد جنوری2009ئ، صفحہ23
(2) عرب اور ایرانی تاجر جو کہ میانمار میں نویں او ر پندرہویںصدی میں پہنچے ،جو روہنگیاس کہلاتے ہیں۔
(3)پاک بھارت جنگ1947-48ء کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے پاکستانی اور بھارتی کشمیر کے مابین عارضی حد بندی لائن بنائی گئی۔
(4)یغرز ،ترک مسلمان جو کہ چین کے صوبے سنکیانگ جا کر آباد ہوئے۔
(5)''ریجن ان ٹرمائل '' راب جانسن کی کتاب۔طبع نیو دہلی،پہلا ایڈیشن، صفحہ 15
(6) جانسن ، صفحہ 16
(7) آکسفورڈ انگلش ڈکشنری نواں ایڈیشن2002ئ
(8) جان رچرڈ تھکرہ کی ڈکشنری آف ٹیرا رزم ، صفحہ 127
(9) این میکلن اور ایسٹر میکمیلن کی آکسفورڈ کنسائز ڈکشنری آف پالیٹکس2003ئ
(10) بی بی سی کی ویب سائیٹ
(11) ڈان اسلام آباد 27دسمبر2008ئ
(12)جان کلوتھئیر2اگست2008ء اے ایف پی
(13) بھارت چین کے درمیان 1962ء کی جنگ ،پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965ئ، 1971ء اور1998کی جنگیں۔
(14)اروناچل پردیش ،بھارت کی شمال مشرقی ریاست جس پر چین اپنا حق جتاتا ہے ۔اس کے ساتھ کا علاقہ اکسائے چین پر بھارت اپنا حق جتلاتا ہے ۔ اکسائے چین کا علاقہ تاریخی طور پر لداخ کا حصہ ہے جو کہ انیسویں صدی میں کشمیر کا حصہ تھا یہاں 1962ء میں چین نے ایک سڑک تعمیر کر دی جس پر بھارت کو رنج ہوا ،اس طرح دونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑگئی ۔
(15) بھارتی وزیر اعظم کے دورئہ چین(جنوری2008ئ) کے موقع پر چین نے ایک بار پھر اروناچل پردیش کا مسئلہ اٹھایامگر دونوں ملک تجارتی روابط بڑھانے پر راضی ہو گئے۔
(16)بھارت کے مائو نواز لوگوں کے روابط نیپال میں اپنے ہم خیالوں سے ہیں ۔بالکل اسی طرح جس طرح نیپالی ہندوؤں کے بھارتی ہندوئوں کے ساتھ ہیں۔ اس بارے میں مزید معلومات آپ PIPSکی ویب سائیٹ پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
(17)
www.satp.org/stporgip/southasia
(18)بھارتی صوبہ تری پورا کے وزیر اعلیٰ نے الزام عائد کیا کہ بنگلہ دیش نے 26تربیتی کیمپ سرحد کے ساتھ قائم کر رکھے ہیں ( روزنامہ نوائے وقت لاہور،23ستمبر2006ئ)
(19) مزید تفصیلات کے لیے سیٹوکول کی کتاب ''گھوسٹ وارز'' دیکھئے۔
(20) ''القاعدہ فائٹس بیک'' مصنف محمد عامر رانا۔ PIPS پبلیکیشنز 2008
(21) روزنامہ مشرق، پشاور، 7 نومبر 2005
(22)
www.satp.org/satporgtp/publication/faultlines
volume14/article7
(23) وجے ٹائمز نے لکھا کہ سمگلروں نے یورینیم کی افزودگی کے لیے ریڈیو ایکٹومیٹریل بھیجا جو کہ ایٹمی ہتھیار بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کی منزل القاعدہ ہو سکتی ہے۔
(24) اے پی پی 28 فروری 2008
(25) ''القاعدہ فائٹس بیک'' مصنف محمد عامر رانا۔ PIPS پبلیکیشنز 2008
(26) انا ٹومی آف کانسپا ئریسی ، جائدیپ سکھیا 25:185-197,2002
(27) دونوںکا فکر و فلسفہ یکساں اور مرکز پاکستان تھا۔
(28) ہندوستان ٹائمز دہلی، 11 مارچ 2002
(29) سید صلاح الدین کا بیان ، روزنامہ ''امت'' کراچی، 23 اپریل 2007
(30) جند اللہ، جس کے سربراہ عبدالمالک ریگی ہیں جن کو ایران سے جلا وطن کیا گیا تھا اور اس کے بعض خلیجی ممالک سے روابط ہیں۔
(31) شمالی سرحدیں تھر کے صحرا (سندھ) سے شروع ہوتی ہیں جو کہ جنوب میں رن آف کچھ تک چلی جاتی ہیں یہ سرحد 1923-24 سے ہے۔
(32) انتہا پسند ہندو پاکستانی سرحد کے قریب پہنچ گئے، روزنامہ 'نوائے وقت'، 9 فروری 2005
(33) ارکان تحریک کی بنیاد 1948 میں رکھی گئی مگر یہ 1978 میں اسی وقت منظر عام پر آئی جب برما کی حکومت نے غیر قانونی تارکین وطن کو بے دخل کرنا چاہا۔
(34) بنگلہ دیش سے آنے والے تارکین وطن، آسام میں ہونے والی یورش کی وجہ ہیں۔ چنانچہ ایک تحریک شروع ہوئی جس نے غیر قانونی تارکین وطن کے انخلا کا مطالبہ کر دیا۔
(35) بھارت کا ایک نسلی گروپ بوڈو، جو شمال مشرق میں سرگرم ہے۔ وہ آسام میں الگ بوڈو ریاست کا مطالبہ کر رہا ہے۔
(36) چٹا گانگ کا پہاڑی علاقہ جو 13295 مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے جہاں قبائلی آباد ہیں۔ جب بنگلہ دیشی حکومت نے یہاں بے زمین بنگالیوں کو زمین الاٹ کرنا چاہی تو مقامی قبائلیوں نے مسلح تحریک شروع کر کے اس عمل کو روک دیا۔
(37) خالصتان کی تحریک جو 1970 میںشروع ہوئی اور یہ تحریک پنجابی بولنے والے علاقوں (بھارتی اور پاکستانی) کو ملاکر ایک الگ ''سرزمین'' بنانا چاہتی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے بیان دیا کہ شدت پسند سکھ اب بھی متحرک ہیں، ڈان 6 مارچ 2008 ۔
(38)کشمیر کے علیحدگی پسند گروپ دو حصوں میں تقسیم ہیں ایک خود مختار کشمیر کا حامی ہے تو دوسرا گروپ ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتا ہے۔
(39)بنگلہ دیش کو مغربی اضلاع میں بائیں بازو کے شدت پسندوں کا سامنا ہے۔ اس گروپ کا مقصد بنگلہ دیش کو سوشلسٹ ریپبلک بنانا ہے۔
(40) مائو نے نیپال میں 10اپریل 2008ء کے انتخابات جیت لیے اور بادشاہت کو ختم کر کے حکومت بنائی۔
(41)متی پور میں جنگ اس وقت شروع ہوئی جب بھارت نے ریاست کی آزاد حیثیت ختم کرکے زبردستی اس کاالحاق اپنے ساتھ کر لیا جس کے خلاف1964ء میں یونائیٹڈ نیشنل لبریشن فرنٹ نے جدو جہد شروع کر دی۔
(42) موزورام جو کہ 1987ء سے قبل ریاست آسام کا حصہ تھا جب یہاں قحط پڑا تو بھارت کی مرکزی حکومت لوگوں کی توقعات پر پورا نہ اتر سکی چنانچہ 28فروری1966ء کو میزو نیشنل فرنٹ نے آزادی کی تحریک شروع کر دی۔
(43) بھارت کا ایک جنگجو گروپ جو کہ شمال مشرقی ریاست مگھالیہ میں متحر ک ہے جو کہ خاص قبیلے کے لیے الگ صوبے کا مطالبہ کر رہا ہے جو گارو قبیلے کے لوگوں سے پاک ہو۔
(44)جب انگریزوں نے برصغیر چھوڑا تو ناگاوالوں نے الگ ریاست کا مطالبہ کیا مگر ان کا مطالبہ نہ تو انگریزوں نے مانا نہ بھارتی سرکار نے جس پر انہوں نے 1965ء میں ناگانیشنل کونسل بنا کر تحریک شروع کر دی۔
(45)نیگزیلئیز، عموماً ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو کہ مزدوروں اور بے زمین لوگوں کے حقوق کے لیے بااثر طبقات کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا، ایسے بہت سے گروپوں کا سیاسی ونگ کہلاتی ہے۔
(46)سانگھ پریوار، بااثر ،طاقتور اور قوم پرست ہندوئوں کی مجموعی شناخت ہے جبکہ اس کا عملی اظہار آر ایس ایس ،ویشوا ہندو پریشد،بجرل دل اور بی جے پی جیسی جماعتیں بھی ہیں۔
(47) سری لنکا کے تامل، کولمبو کی سنہالی حکومت کے خلاف ہیں۔ سری لنکا کے مشرقی حصے میں بہت بڑی تعداد میں سنہالی ،تاملوں کا نشانہ بنے اور بے گھر ہوگئے۔
(48)اس تحریک کا مقصد تامل ناڈو کو ہندو برہمنوںکے چنگل سے چھڑانا ہے اور اس مقصد کے لیے تامل نیشنل آرمی کے نام سے کئی گروہ متحرک ہیں۔
(49)بنگال سے (جو بعد ازاں مشرقی پاکستان اور پھر بنگلہ دیش بن گیا) سے ہندوئوں کی تری پورا ریاست میں ہجرت جس کے بعد مقامی افراد اقلیت بن کر رہ گئے۔جس کے بعد مقامی افراد نے ریاست میں آنے والے مہاجرین کے خلاف تحریک شروع کر دی۔
(50)یونائیٹڈ بنگال لبریشن موومنٹ اکتوبر1999ء میں متحرک ہوئی جس کا مقصد تری پورہ میں بنگالی افراد کا تحفظ تھا۔
(51)یغرز گذشتہ دس سالوں سے چینی صوبہ سنکیانگ سے الگ ایک خود مختار ریاست مشرقی ترکستان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
(52)پشتون قوم پرست جو کہ ساٹھ اور ستر کی دہائی سے متحرک ہوئے وہ پاکستان اور افغانستان کے پشتو بولنے والے علاقوں کو ملا کر الگ پشتون ریاست بنانا چاہتے ہیں۔