working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

بلوچستان کے ممنوعہ علاقوں میں کیا ہو رہا ہے؟
مقبول احمد

بلوچستان…نصف پاکستان، مگر گذشتہ کچھ عرصے سے یہاں کے حالات کی وجہ سے ہر محب وطن تذبذب کا شکار ہے۔ دور دراز اور بے آب و گیاہ ہونے کی وجہ سے یہاں کی حقیقی صورتحال خاصی حد تک پوشیدہ ہے۔ یہ نہیں معلوم ہورہا ہے کہ وہاں کیا ہورہا ہے، اس سوال کے جواب کی تلاش کا سہرا انگریزی جریدہ ''ہیرالڈ'' کے سر جاتا ہے، جس نے بلوچستان کے ممنوعہ علاقوں میں جہاں عموماً قومی پریس کی رسائی نہیں ہے، وہاں جاکر خود حالات کا مشاہدہ کیا ہے، مقبول احمد نے اپنے مشاہدات و تاثرات کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ قلمبند کیا ہے۔ (مدیر)
مجھے بتایا گیا کہ سیکورٹی فورسز نے ڈیرہ بگٹی اور سوئی کو صحافیوں کے لیے ممنوعہ علاقہ قرار دیا ہوا ہے۔ چنانچہ بہت سے صحافی جو بڑے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے لیے خبریں ارسال کرتے تھے اب بعض اداروں اور قبائلی سرداروں کی دھمکیوں کی وجہ سے علاقہ چھوڑ کر کشمور منتقل ہو چکے ہیں اور اب ان کے لیے معلومات کی رسائی کا ذریعہ صرف وہ لوگ ہیں جو سوئی یا ڈیرہ بگٹی آتے جاتے ہیں۔ لوکل اخبارات کے جو نمائندے علاقے میں موجود ہیں وہ یا تو اپنی شناخت چھپائے ہوئے ہیں یا پھر صرف اتنا ہی لکھتے ہیں جتنی ان کو اجازت ہوتی ہے۔

کشمور سے سوئی جاتے ہوئے ہم سب سے پہلے پنجاب کے ضلع راجن پور داخل ہوتے ہیں جو کہ سندھ اور بلوچستان کے درمیان حد فاصل بھی ہے۔ ہم جیسے ہی راجن پور اور سوئی کے درمیان واقع دلائی چیک پوسٹ میں داخل ہوئے تو ایک فوجی نے،جو کہ چیک پوسٹ سے سو میٹر کے فاصلے پر تھا، ہماری گاڑی کو رکنے کا اشارہ کیا۔ جس پر ڈرائیور اتر کر چیک پوسٹ کے اندر گیا تاکہ اپنی شناخت بتا سکے۔ احمد نے مجھے بتایا کہ جب تک ہم سوئی پہنچ نہیں جاتے ڈرائیور ہر چیک پوسٹ پر رکے گا اور ہر بار اپنی شناخت ظاہر کرے گا۔ مسافروں کو یہاں سے سو قدم آگے جاکر خود کو چیک کروانا ہوتا ہے اور اس عمل میں گاری کی خوب اچھی طرح چھان پھٹک کی جاتی ہے۔ مسافروں کو ٹٹول کر دیکھا جاتا ہے اور جب فوجیوں کو اطمینان ہوجاتا ہے تو پھر اجازت دی جاتی ہے کہ وہ جاکر اپنی سیٹوں پر بیٹھ جائیں۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد تین چیک پوسٹوں سے اسی مرحلے سے گزرتے ہوئے ہم سوئی پہنچے۔ڈیرہ بگٹی جو کہ بر لب سڑک واقع ہے یہاں پر ایک چوتھی چیک پوسٹ ہے جہاں پر مسلح قبائلی تعینات ہیں جو گاڑیوں کو پکی سڑک کی بجائے ایک متبادل کچے راستے پر ڈال رہے تھے جو ڈیرہ بگٹی کے دوسرے سرے تک جاتا ہے۔ سوئی کی بگٹی کالونی میں ایک ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ میر علی بگٹی جو ایک ادارے کی آشیر باد سے بگٹی قبیلے کے نواب مقرر ہو چکے ہیں، کو بھی حکومتی سیکورٹی پر بھروسہ نہیں چنانچہ فوج اور F-C کو کہا گیا ہے کہ وہ بگٹی کے قلعے سے دور رہیں جہاں پر میر علی بگٹی رہائش پذیر ہیں ۔

ہم جب مین بازار پہنچے تو یہاں ایک رہائشی علاقے میں مزدور ایک گیس پائپ لائن کی مرمت کر رہے تھے جو پنجاب کو گیس سپلائی کرتی ہے۔ چائے کے ایک کھوکھے پرہمیں ایک قبائلی نے بتایا کہ یہاں آئے روز گیس پائپ لائنوں کو اڑایا جاتا ہے ۔ مگر یہ کمپنی (PPL) کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ۔ کم درجے کے ان دھماکوں کا مقصد صرف حکومت کو یہ روشناس کرانا ہے کہ شورش رکی نہیں۔ نہ تو یہ دھماکے رک رہے ہیں اور نہ ہی ان سے گیس کی تنصیبات کو کوئی بڑا خطرہ ہے۔

سوئی کی گلیاں تنگ اور غلاظت سے اسی طرح اٹی پڑی ہیں جس طرح عموماً چھوٹے شہروں میں ہوتی ہیں۔ احمد نے مجھے بتایا کہ یہاں خاموشی کا مطلب یہ نہیں کہ امن ہوگیا ہے بلکہ بگٹی قبیلے میں سرداری کے مسئلے پر یہاں گلی گلی لڑائی چھڑ جاتی ہے۔ آدھے گھنٹے بعد ہم سوئی سے ڈیرہ بگٹی روانہ ہوئے جو کہ تقریباً 50 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ دونوں قصبوں کے درمیان پہلی چیک پوسٹ پر ڈرائیور گاڑی سے اترا اور اپنی شناخت بتانے کے لیے چیک پوسٹ کے اندر گیا۔ میں نے اس کارروائی کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ میں گاڑی کے سامنے سلیمان کیرتھر کی پہاڑیوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری طرف کادروازہ کھلا اور ایک غراتی ہوئی آواز میری سماعت سے ٹکرائی، میں نے دیکھا تو ایک فوجی مجھے کہہ رہا تھا کہ تم ابھی تک سیٹ پر کیوں بیٹھے ہو۔ میں نے ارد گرد دیکھا تو میرے دونوں ساتھی بھی چیک پوسٹ کی طرف رواں دواں تھے۔ فوجی نے پھر اپنا سوال دہرایا جس پر میں نے معذرت کی کہ میں یہاں پہلی بار آیا ہوں ۔ اس نے مجھ سے میرا شناختی کارڈ لیا۔ میں نے بتایا کہ میں ایک این جی او کے ساتھ کام کرتا ہوں۔ اس نے مجھے چیک پوسٹ کی طرف جانے کا اشارہ کیا جہاں میری تلاشی لی گئی۔ چیک پوسٹ کے دونوں طرف کھلے چھتوں والی پک اپ وینیں کھڑی تھیں جو کہ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔ ان کی لائنیں لگی ہوئی تھیں ۔ تمام مسافروں کو فرداً فرداً تلاشی کے اس مرحلے سے گزرنا ہوتا ہے۔ چنانچہ بچے ، بوڑھے اور عورتیں سبھی کو جون کی تپتی گرمی میں چاروناچار یہ سب کچھ برداشت کرنا ہی پڑتا ہے۔

''اس کا مقصد صرف ہماری تذلیل کرنا ہے، یہ حفاظتی اقدام ہر گز نہیں۔'' ہمارے ڈرائیور کی طرف سے جملہ آیا۔ ''جو بندہ ہماری گاڑی کو چیک کر سکتاہے، ہمیںکیوں نہیں کر سکتا، پھر کس مقصد کے لیے ہمیں سو میٹر پیدل چلا کر سیکورٹی پوسٹوں تک لایا جاتا ہے۔'' اس نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ''بلوچوں کو حقوق مانگنے کی سزا دی جارہی ہے۔''

سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے درمیان پہاڑ کی ہر چوٹی پر فوج نے اپنی چوکی بنائی ہوئی ہے۔ تین مزید چیک پوسٹوں سے گزرنے کے بعد ہم اس جگہ پہنچے جہاں پر سڑک دو شاخہ ہوجاتی ہے ۔ ایک سڑک سوئی گیس فیلڈ کو جاتی ہے جب کہ دوسری ڈیرہ بگٹی کو۔ ہم جیسے ہی آگے بڑھے احمد نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ ''یہاں سے F-C کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔'' میں نے آگے دیکھا کہ جلی حروف میں پہاڑ پر F-C کا نعرہ ''چاک و چوبند'' لکھا تھا۔ کار ڈیرہ بگٹی کی قصبے میں داخل ہوگئی۔ یہ اتنا چھوٹا قصبہ ہے کہ کار اس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک صرف 10 منٹ میں جاسکتی ہے۔ بڑی سڑک کے ایک طرف F-C جب کہ دوسری طرف بگٹی کا قلعہ ہے۔ بگٹی قلعے کی دیواریں گولیوں سے چھلنی تھیں اور ان میں جگہ جگہ سوراخ ہوئے تھے۔ بگٹی قلعے کے سامنے تقریباً 50 دکانیں بند بڑی ہوئی تھیں جو کہ مقامی ہندوئوں کی ملکیت تھیں۔ یہ لوگ اب دوسرے شہر وں میں منتقل ہو چکے تھے کیونکہ سیکورٹی فورسز اور بگٹی کے جنگجوئوں کے درمیان جنگ میں یہ دکانیں بھی نشانہ بنی تھیں۔ بگٹی قلعے کے پیچھے قبرستان میں نواب اکبر بگٹی کی قبر ہے جس پر 24 گھنٹے نظر رکھنے کے لیے F-C نے ایک ٹاور بنا رکھا ہے ۔ ایک قبائلی کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد لوگوں کو اکبر بگٹی کی قبر سے دور رکھنا ہے۔ قبرستان کے ساتھ ساتھ اکبر بگٹی کی زمینیں ہیں جہاں پر کبھی گندم اور دالیں کاشت ہوتی تھیں مگر اب یہاں کوئی فصل کاشت نہیں ہوتی اور کھیت ویران ہو چکے ہیں اور وہ لوگ جو کہ 2005 اور 2006 کی جنگ کے دوران علاقہ چھوڑ کر گئے ، دوبارہ نہیں لوٹے۔ ڈیرہ بگٹی جس کی آبادی 70 ہزار تھی اب وہاں بمشکل 10 ہزار لوگ رہتے ہیں۔ڈیرہ بگٹی آفت زدہ لگتا ہے۔ جیسا حکومت دعویٰ کرتی ہے ویسا کچھ نہیں، یہاں آئے روز دھماکے ہوتے ہیں۔ تحصیل بازار میں جس ریسٹورنٹ میں ہم نے دن کا کھانا کھایا وہاں ایک ہفتہ قبل دھماکہ ہوا تھا جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ لوگوں کی چال ڈھال اور گفتگو سے خوف جھلکتا نظر آتا ہے۔ ہمارے میزبان نے کہا کہ آپ جتنی جلدی ہوسکے شہر چھوڑ دیں ۔ یہاں کے حالات سوئی سے زیادہ خراب ہیں اور یہاں غیر بلوچ کا سفر کرنا بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔

واپسی پر سوئی آتے ہوئے ہمیں ایک بار پھر چیکنگ کے انہی مرحلوں سے گزرنا پڑا۔ جب ہم سوئی کی آخری چیک پوسٹ سے گزر کر پنجاب کے علاقے راجن پور میں داخل ہوئے تو ایک بورڈ پر لکھا تھا ''پر امن اور محفوظ پنجاب''۔ راجن پور کے علاقے میں بھی چوروں، ڈکیتوں کا راج ہے مگر یہاں پر سوئی اور ڈیرہ بگٹی کی طرح لوگوں کے ساتھ سلوک روا نہیں رکھا گیا اور نہ ہی ریاستی اداروں کی جانب سے انہیں تضحیک آمیز سلوک کا سامنا ہے۔

ڈیرہ بگٹی کے ہندو
دو سال قبل گوندا رام سے جب ہیرالڈ نے پوچھا تو تب بھی اس کا یہی جواب تھا اور اب بھی وہی ہے کہ وہ نواب اکبر بگٹی جو کہ ہندوئوں کا محافظ تھا، اس کی موت کے بعد ڈیرہ بگٹی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ رام اور اس کے خاندان نے اس وقت ڈیرہ بگٹی کو چھوڑا تھا جب فوج اور F-C کی طرف سے ڈیرہ بگٹی پر بمباری ہو رہی تھی۔ ہندو محلہ کے تمام ہندو اپنا گھر بار چھوڑ کر جانے کو تیار نہیں تھے مگر نواب اکبر بگٹی نے کسی محفوظ مقام سے انہیں پیغام بھجوایا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے علاقہ چھوڑ دیں۔ لال چند کاکہنا ہے کہ ہماری کمیونٹی کے لیے وہ وقت افسوس ناک تھا جب 17 مارچ 2005 کو ان کی عبادت گاہ میں ایک گولہ آکر گرا جس نے مندر کی مشرقی دیوار کو توڑ دیا اور آج تک اس کی مرمت نہیں ہوسکی ۔ جب ہم نے ڈیرہ بگٹی کے ہندو محلے کا دورہ کیا تو یہ ویرانی کا منظر پیش کررہا تھا اور ہندوئوں کی دوکانیں گولیوں اور مارٹروں سے چھلنی ہو چکی تھیں۔ بہت سے ہندوئوں نے ڈیرہ بگٹی سے ہجرت کر کے کشمور ، کندھ کوٹ ، شکار پور اور سندھ کے دوسرے شہروں میں رہائش اختیار کی جب کہ کچھ ایسے تھے جو کہ گھوٹکی میں اہرا کی دربار میں پناہ گزین ہوئے۔ ہندو ڈیرہ بگٹی میں کب اور کیسے آئے تھے اس بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا تاہم سلویہ میتھن نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ڈیرہ بگٹی میں ہندو سولہویں صدی میں مرہٹوں کے دور میں آئے جو کہ شیر شاہ سوری کے بیٹے سکندر سوری کے ساتھ مغل بادشاہ ہمایوں کے خلاف لڑ رہے تھے جس میں ہمایوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ہمایوں کی فوج کا سپہ سالار بہرام خان، بلوچوں کے ہیرو چاکر خان رند (چاکر اعظم) کی فوج کا بھی سپہ سالار رہ چکا تھا ۔میتھن کے بقول چاکر اعظم کو ہمایوں کے خلاف مدد کرنے پر چالیس ہزار قیدی بطور تحفہ پیش کیے گئے ۔ جن کو بعد ازاں چاکر اعظم نے اپنے حمایتی بگٹی اور مری قبائل میں بطور تحفہ پیش کیااوریہ ہندو بھی انہی میں سے تھے۔

خونی عداوتیں
سورج اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔ پانی کا ایک ٹینکر سوئی کی محمد کالونی میں واقع میاں خان حمزانی بگٹی کے گھر میں آیا، جب ٹینکر تمام پانی ، زیر زمین ٹینکی میں منتقل کر چکا تو حمزانی کا چھوٹا بھائی عمر بگٹی گھر سے باہر آیا۔ اس نے دیکھا کہ ٹینکر نے رستہ بند کر رکھا ہے تو وہ ایک لمحے کو رکا۔ اس دوران ٹینکر ایک زور دار دھماکے سے پھٹ گیا جس کی آواز پورے سوئی میں سنائی دی، ٹینکر کا ڈرائیور اور عمر بگٹی دونوں ہلاک ہو گئے۔

یہ واقعہ 28 مئی کو پیش آیا جب میر علی بگٹی کو بگٹی قبیلے کا سربراہ بنے ایک ہی ہفتہ ہوا تھا۔ سوئی کے مکینوں کا کہنا ہے کہ اس حملے کا ہدف میر علی بگٹی ہی تھے کیونکہ اسی ٹینکر کو بعد ازاں بگٹی ہائوس جانا تھا مگر یہ ٹینکر ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی پھٹ گیا۔ لیکن جس کے گھر پھٹا وہ بھی میر علی کا قریبی ساتھی تھا۔ اگلے دن میر علی کے بندوں نے وڈیرہ علی محمد مندرانی کو اٹھا لیا جو کہ براہمداغ بگٹی کا مددگار تھا اور جس پر ٹینکر بم دھماکے کا شبہ تھا۔ اس کے بعد سے اب تک علی محمد مندرانی، میر علی کی پرائیویٹ جیل میں بند ہے۔ جس کی نگرانی میر علی کا چھوٹا بھائی طالح بگٹی کر رہا ہے۔ یہ بات سوئی کے تحصیل بازار میں ایک قبائلی نے بتائی۔ میر علی بگٹی کی سرداری کے بعد اس طرح کے واقعات معمول بن کر رہ گئے ہیں۔ براہمداغ کو چونکہ اکبر بگٹی نے اپنے بعد نواب نامزد کر دیا تھا اس لیے براہمداغ کے حمایتی میر علی کو نواب نہیں مانتے اس لیے دونوں گروپوں کے درمیان ایک دوسرے کے افراد کو اغوا کرنا اور مارنا معمول بن چکا ہے۔ ڈیرہ بگٹی اور سوئی کے رہائشیوں کا موقف ہے کہ میر علی کے آنے کے بعد ان کی زندگیاں دائو پر لگی ہوئی ہیں۔

سوئی کے بگٹی ہائوس میں میر علی کے پہلے دن یعنی 30 مئی کو اس کے بندے ان تمام افراد کو اٹھا کر لے آئے جو اسے نواب نہیں مانتے تھے۔ سات بندوں کو فی کس 5 لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا جب کہ دیگر چھ افراد کو جلتے کوئلوں پرچلایا گیا(یہ بلوچ روایت ہے جس کے تحت بے گناہ افراد کے پائوں نہیں جلتے) جب یہ لوگ بغیر پائوں جلنے کے کوئلوں سے گزر گئے تو انہیں رہا کردیا گیا۔ جب کہ جن سات لوگوں پر جرمانہ کیا گیا وہ کوئی امیر نہیں بلکہ عام آدمی تھے جن کے پاس دینے کو کچھ نہیں تھا وہ آج کل جرمانے کی رقم دینے کے لیے سوئی کی گلیوں میں بھیک مانگ رہے ہیں۔ کوئلوں پرچلانے اور جرمانے جیسے واقعات پر جب میر علی کے ترجمان دریان بگٹی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ا س پر تبصرے سے انکار کر دیا اور بعد ازاں رابطہ بھی نہیں کیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ جب حساس ادارے سوئی کی صورت حال پر قابو پانے میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے میر علی کو میدان میں اتارا اور اب بھی ایک حساس ادارے کا اعلیٰ افسر 24 گھنٹے بگٹی ہائوس میں ہوتا ہے اور میر علی کے لوگ صرف اپنے مخالفوں کو ہی نہیں مارتے بلکہ ان لوگوں کو بھی مارتے ہیں جن کی نشاندہی حساس ادارے کرتے ہیں۔وڈیرہ ذانونے ضلع رحیم یار خان سے ہمیں فون پر بتایا کہ اس کے چھوٹے بھائی سبزل کو اتنے برے طریقے سے مارا گیا کہ اس کا ایک گردہ ہی ناکارہ ہوگیا۔ ہمیں چھ لاکھ جرمانہ ادا کرنے کا کہا گیا جس پر ہم اپنا گھر بار چھوڑ کر رحیم یار خان آگئے۔ اس طرح بارودی سرنگیں جو کہ پہلے سیکورٹی فورسز کے خلاف استعمال کی جارہی تھیں۔ اب ان کا نشانہ مخالف قبائلی اور عام شہری بھی بن رہے ہیں۔ بڑے اخبارات میں اس طرح کے واقعات کی خبریں نہیں آتیں۔ مثلاً بڑے اخبارات کے مطابق 20 مئی سے 20 جون تک ، بارودی سرنگ سے صرف ایک طالب علم ہلاک ہوا لیکن جعفر آباد کی تحصیل صحبت پور میں ہمیں بتایا گیا کہ صرف گذشتہ سات دنوں میں 13 لوگ جن میں تین بچے بھی تھے وہ صحبت پور اور اچ میں ہلاک ہوئے۔ 14 جون کو ڈیرہ بگٹی میں دو افراد بارودی سرنگ کا نشانہ بن گئے اس کے چار دن بعد پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ کا ایک ملازم اپنے بیٹے کے ہمراہ موٹر سائیکل پر جارہا تھا کہ بارودی سرنگ پھٹ گئی جس سے باپ بیٹا دونوں بری طرح زخمی ہوگئے۔ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ مقامی افراد بارودی سرنگوں کا ذمہ دار بی ایل اے کو نہیں ٹھہراتے جو کہ ماضی میں گیس تنصیبات اور سیکورٹی فورسزکو نشانہ بناتی رہی ہے۔ ان کا شبہ سیکورٹی اداروں پر ہے۔ یہ صحیح ہے یاغلط بہرحال یہ حقیقت ہے کہ لوگوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان انتہائی بداعتمادی کی فضا موجود ہے۔

سرداری نظام کی واپسی
میر علی بگٹی کے بعد حکومت پر عوامی تنقید بڑھ گئی ہے۔ وہ سرداری نظام کی واپسی پر سوالات کرتے ہیں کیونکہ ابھی وہ یہ نہیں بھولے کہ 24 اگست 2006کو بگٹی قبائل کے سرداروں نے ایک جرگے میں سرداری نظام کو خیرباد کہہ دیا تھا اور اس وقت کے جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اس کا خیرمقدم کیا تھا۔ اس کے تین روز بعد اکبر بگٹی کو قتل کر دیا گیا۔ اب مقامی لوگ کہتے ہیں کہ اس وقت جو حکومتیں سرداری نظام کو ختم کرنے میں ملوث تھیں وہی اب سرداری نظام کو دوبارہ لانے میں ملوث ہیں۔ بگٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والا ایک فرد جو کہ آج کل ڈیرہ اللہ یار ضلع جعفرآباد میں رہائش پذیر ہے، اس کا کہنا ہے کہ حکومت نے گذشتہ چار سال میں ایک سکول، سڑک یا ہسپتال نہیں بنائی جبکہ اس سے قبل وہ یہ پراپیگنڈہ کرتی تھی کہ قبائلی سردار ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ڈیرہ بگٹی میں تو گذشتہ چار سال میں کوئی سردار نہیں تھا۔ پھر ترقیاتی کام کیوں نہیں ہوئے۔ کلپر اورمسوری جو کہ بگٹی قبیلے کی ذیلی شاخیں ہیں، وہ بگٹی سرداروں سے عاجز تھے۔ اب دوبارہ سرداری نظام کی واپسی پر وہ بھی خاموش ہیں۔ ایک کلپر سردار نے کہا کہ ''ڈیرہ بگٹی کو دوبارہ دورِ جاہلیت کی نذر کر دیا گیا ہے۔'' انھوں نے مزید کہا کہ ''ہم حکومت سے روزگار مانگ رہے تھے، اس نے ہمیں سردار دے دیا۔'' میر علی کی سرداری بھی ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ روایت ہے کہ جب کوئی سردار بنتا ہے تو بگٹی قبیلے کی ساتوں ذیلی شاخیں اسے سردار تسلیم کرتی ہیں مگر یہاں تو سات ذیلی شاخوں راہجہ، مسوری، کلپر، مندرانی، شمبانی، نوتھانی اور پیروزانی میں سے صرف دو نے میرعلی کو سردار تسلیم کیا ہے۔ حتیٰ کہ میرعلی جو کہ راہجہ کی شاخ برکزئی سے تعلق رکھتا ہے، اس کے اپنے قبیلے کے لوگ بھی اس کی وفاداری پر شک و شبہ کا اظہار کرتے ہیں بلکہ اس نے سردار بننے کے بعد ابھی تک نواب اکبر بگٹی کی قبر پر فاتحہ بھی نہیں پڑھی جو یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ وہ کس کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔

ایک بار پھر دربدری
عیسیٰ خان ڈیرہ بگٹی، کوہلو او رسوئی سے دربدر ہونے والے 80 ہزار بلوچوں کی آواز بن گیا جو سیکورٹی فورسز اور بلوچ جنگجوئوں کے درمیان جھڑپوں کی وجہ سے اپنا گھربار چھوڑ کر قریبی علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے۔ عیسیٰ خان کی کاوشوں کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ کے سرداروں نے دربدر ہونے والوں کو پناہ دی مگر جب سے میرعلی بگٹی، بگٹی قبیلے کا تیسرا سردار بنا ہے تب سے اس کی کاوشوں پر پانی پھرنا شروع ہو گیا ہے۔ براہمداغ اور میرعلی کے درمیان چپقلش کا براہ راست اثر ان دربدر افراد پر بھی پڑ رہا ہے جو کہ جعفرآباد، نصیرآباداور سندھ کے اضلاع جیکب آباد اور کشمور میں رہائش پذیر ہیں۔ جب سے میرعلی آیا ہے تب سے ڈیرہ بگٹی کے نواحی اضلاع میں تشدد میں اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ بات جیکب آباد کے ایک صحافی نے بتائی۔ وہ جاگیر دار جنھوں نے پہلے دربدر ہونے والوں کو اپنی زمینوں پر قیام کی اجازت دی تھی وہ اب کہہ رہے ہیں کہ وہ چلے جائیں۔ جب ہم نے متاثرین کے کیمپوں کا دورہ کیا تو اس رائے کو درست پایا۔ ڈیرہ اللہ یار میں حاجی جمل خان بگٹی گوٹھ میں جو کیمپ 2007ء میں لگے تھے، جون 2008ء میں وہ خالی ہو چکے تھے۔ ڈیرہ اللہ یار میں مری فارمز کے ساتھ رہنے والے ایک پناہ گزین نے بتایا کہ 20 مئی کوبراہمداغ اور میرعلی کے حامیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ میں تین افراد ہلاگ ہو گئے۔ اس کے بعد مقامی جاگیردار نے تمام پناہ گزینوں کو کہا کہ وہ علاقہ خالی کر دیں۔ کیونکہ وہ نواب اکبر بگٹی کے دو پوتوں کے درمیان ہونے والی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ چونکہ زیادہ تر پناہ گزین براہمداغ کے ساتھ تھے اس لیے ان علاقوں کے جاگیرداروں کو شبہ ہے کہ میرعلی کے ساتھی ان کے رشتہ داروں کے لیے جو سوئی میں رہتے ہیں، مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔ 19 جون کو نواب شاہ میں نصیرآباد کے سابق یونین ناظم مرید بگٹی کو جو بی ایل اے کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا بھی رکن تھا، قتل کر دیا گیا۔ اس کے ایک روز بعد ڈیرہ مرادجمالی میں ایک بس اڈے پر دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک فرد ہلاک اور کئی زخمی ہو گئے۔ اس واقعہ کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ کالو بگٹی نے یہ کہا ''یہ نئی صورتحال متاثرین کے لیے باعثِ تشویش ہے کیونکہ ابھی انھیں متبادل عارضی پناہ گاہوں کی تلاش ہے۔ نصیر آباد اور جعفرآباد سے بے دخل کیے جانے والے پناہ گزین اب کوشش کر رہے ہیں کہ انھیں کوٹ ڈیجی، ہالہ اور حیدرآباد میں رہنے کی جگہ مل جائے مگر یہاں بھی مشکل نظر آ رہا ہے۔ ہمارے لوگوں کے پاس روزگار نہیں اور مقامی افراد ہمیں روزگار دیتے بھی نہیں۔ نئی جگہ پر جا کر مقامی لوگوں کے دل جیتنے کے لیے ہمیں ایک بار پھر نئے سرے سے محنت کرنا ہو گی۔''

ان لوگوں کی خاندانی دشمنیاں اور دیگر مسائل کی وجہ سے لوگ انھیں پناہ نہیں دیتے جبکہ ان کے ساتھ دوسرا المیہ یہ تھا کہ جنرل مشرف کے دور میں حکومت یہ ماننے کے لیے ہی تیار نہ تھی کہ بلوچستان میں لوگ اتنی بڑی تعداد میں دربدر ہوئے ہیں اور نہ ہی حکومت نے عالمی اور مقامی تنظیموں کو اجازت دی کہ وہ ان لوگوں کے ریلیف کے لیے کچھ کر سکیں۔ جولائی 2006ء میں عالمی ادارہ اطفال کی جانب سے ایک سروے سامنے آیا جو کہ نصیر آباد، جعفرآباد، سبی اور بولان کے اضلاع میں کیا گیا تھا۔ سروے میں کہا گیا کہ پناہ گزینوں کے چھ فیصد بچے اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ اگر بروقت طبی امداد نہ ملی تو وہ ہلاک ہو جائیں گے۔ رازق بگٹی جو کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام یوسف کے ترجمان تھے، انھوں نے جون2007ء میں بتایا تھا کہ نصیرآباد میں 2000ء سے زیادہ متاثرین موجود نہیں ہیں اور یہ ثابت کرنے کے لیے وہ ہمیں خود نصیرآباد لے کر جائیں گے مگر یہ وعدہ ایفا نہ ہو سکا۔ کیونکہ ایک ماہ بعد رازق بگٹی کو قتل کر دیا گیا۔ حکومت بدل گئی مگر ان لوگوں کے ریلیف کے لیے کچھ نہیں ہوا۔ موجودہ حکومت کا المیہ تو یہ ہے کہ اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کس وقت کون سا وعدہ کیا تھا۔ پھر ملک کی شمالی حصے میں بھاری تعداد میں جو لوگ دربدر ہوئے اس نے بھی قوم اور ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے۔

تمام تر حالات کے باوجود عیسیٰ خان کو یقین ہے کہ ایک دن وہ اپنے گھر سوئی واپس لَوٹ جائے گا۔ ایسا کب ہو گا وہ نہیں جانتا لیکن اسے یقین ہے کہ حالات جلد بہتر ہو جائیں گے۔ آپس میں لڑنے والوں کو جلد معلوم ہو جائے گا کہ ا س کا فائدہ صرف اسٹیبلشمنٹ کو ہو رہا ہے، بلوچ عوام کو نہیں۔ لیکن اگر بلوچوں اور تنازعے کی تاریخ دیکھی جائے تو ایسی امید کم ہے۔

کل اور آج
عبدالستار کو آج بھی وہ واقعہ یاد ہے جب 1990ء میں سردار خان محمد کے بیٹے امیرحمزہ نے یونین کونسل الیکشن میں نواب اکبر بگٹی کے حمایت یافتہ امیدوار کے مقابلے پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ اس ایک واقعہ نے عبدالستار کی آنے والی زندگی بدل ڈالی۔ اکبر بگٹی اس واقعے سے ناراض ہوا۔ بعد ازاں 1992ء میں امیرحمزہ کو قتل کر دیا گیا۔ سردار خان محمد نے اس قتل کی ذمہ داری اکبر بگٹی پر عائد کی۔ اس کے ایک ماہ بعد کلپروں نے اکبربگٹی کے بیٹے طلال بگٹی کو قتل کر دیا جس پر دونوں قبائل کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اکبر بگٹی نے کلپروںکے خلاف سفاکانہ ردِعمل کا مظاہرہ کیا اور سوئی میں کلپروں کا شاید ہی کوئی ایسا گھر بچا ہوگا جس پر راکٹ فائر نہ کیا گیا ہو۔ عبدالستار نے اپنی یادداشت تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے نواب اکبر بگٹی کے پاس کئی بار پیغامات بھجوائے کہ عام چکروں کا ان کے بیٹے کے قتل میں کوئی کردار نہیں لیکن وہ نہیں مانے۔ جس کے بعد عبدالستار کے خاندان کے لیے سوئی چھوڑنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ میری شادی کو 20 دن ہوئے تھے۔ ''میرے والد کا انتقال ہو چکا تھا اس لیے گھر میں کمانے والا واحد شخص میںہی تھا۔'' عبدالستار نے سب سے پہلے اندرونِ سندھ تھل ضلع جیکب آباد میں پناہ لی مگر یہاں پر روزگار کے ذرائع ناپید تھے۔ آخر کار اسے اپنے ایک دوست کی پشاور میں واقع فیکٹری میں نوکری مل گئی۔ لیکن تنخواہ اتنی قلیل تھی کہ وہ تھل میں اپنے خاندان کے لیے بمشکل ہی کچھ بچا پاتا۔ آخر کار دل پر پتھر رکھ کر اس نے اپنی آبائی جائیداد فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا اور صرف 4 ہزار فی ایکڑ کے حساب سے 20 ایکڑ اراضی بیچ ڈالی۔ جس سے حاصل ہونے والی رقم سے اس نے 1995ء میں تھل میں چاول صاف کرنے کی ایک فیکٹری لگا لی۔

آج اس واقعے کو 17 سال ہو چکے ہیں۔ مجھے اپنے فیصلوں پر کوئی پچھتاوا نہیں۔ میری اور میرے خاندان کی قسمت بدل گئی ہے اورآج میں اس قابل ہوں کہ میں اپنے چھوٹے بھائیوں اور چچازادوں کو تھل کے اچھے سکولوں میں پڑھا رہا ہوں۔ میرا ایک بھائی لاڑکانہ کے چاندکا میڈیکل کالج میں پڑھ رہا ہے جبکہ دوسرا چچازاد فارغ التحصیل ہو کر سرکاری محکمے میں کمپیوٹر کے شعبے کا سربراہ ہے۔ آج عبدالستار نہ صرف اپنی کارکردگی پر فخر کرتا ہے بلکہ اسے یہ بھی یقین ہے کہ اگر وہ اور اس کا خاندان سوئی سے ہجرت نہ کرتا تو اس کی تقدیر کبھی نہ بدلتی۔ اس طرح بظاہر ایک ناخوشگوار واقعہ کا اختتام اچھا ہوا۔

وزیرِاعلیٰ بلوچستان کیا کہتے ہیں
نواب محمد اسلم خان رئیسانی بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ ہیں جب ہم نے ان سے پوچھا کہ حکومت نے 2006ء میں ڈیرہ بگٹی میں سرداری نظام کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا تو اس کے بعد نیا سردار لانے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ حکومت سرداری نظام ختم نہیں کر سکتی۔ یہ فیصلہ صرف قبائل خود ہی کر سکتے ہیں۔ 2006ء میں بگٹی قبائل نے سرداری نظام ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور اب انھوں نے خود ہی اگر کوئی دوسرا فیصلہ کر لیا ہے تو آپ ان سے خود ہی پوچھیں کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ میرے قبیلے اور بگٹی قبیلے کے درمیان ماضی میں کچھ اچھے تعلقات نہیں رہے۔ اس لیے میں ان کے اندرونی معاملات پر کچھ کہنانہیں چاہتا۔ ایک اور سوال کے جواب میں اسلم رئیسانی نے کہا کہ جنرل مشرف کے دور میں 900 لوگ بلوچستان سے غائب ہوئے جن کے بارے میں شبہ ہے کہ انھیں ریاستی اداروں نے غائب کیا۔ ہماری حکومت نے کچھ لوگوں کو بازیاب کرایا مگر ابھی بہت سے لوگوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ ملک سے باہر چلے گئے۔ نواب اسلم ریئسانی نے کہا کہ 90 ہزار لوگ بلوچستان میں دربدر نہیں ہوئے بلکہ یہ تعداد صرف 30 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اب لوگ واپس اپنے علاقوں میں آرہے ہیں اور ان کی حکومت اس سلسلہ میں کام کر رہی ہے۔ جب وزیر اعلیٰ بلوچستان سے پوچھا گیا کہ ڈیرہ بگٹی میں بڑی تعداد میں فوج کیوں تعینات ہے تو انہوں نے کہ میری مرضی ہو تو سیکورٹی فورسز کو پورے بلوچستان سے نکال دوں، حالات تو ملک کے دیگر حصوں میں بھی خراب ہیں مگر وہاں یہ سب کچھ نہیں ہورہا جو بلوچستان میں کیا جارہا ہے۔

(تلخیص :سجاد اظہر)