Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
|
|
برطانیہ میں پاکستانی امام |
سجاد اظہر
برطانیہ میں پاکستانی، بنگالی امام حضرات کو خاصی تنقید کا سامنا ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ برطانوی میڈیا اسلام کو بدنام کرنے کے لیے ایسا کر رہا ہے، اس حوالے سے جب آپ حقیقت کو دیکھتے ہیں تو بہت سے اچھے امام حضرات کے ساتھ کچھ کردار ایسے بھی نظر آتے ہیں جن سے محراب و منبر کا تقدس مجروح ہوا ہے، زیر نظر مضمون میں تصویر کے دونوں رخ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ (مدیر)
|
4 اپریل 1574 کو ایک برطانوی باشندہ فادر سیٹون ہندوستان کی سرزمین پر اترا۔ اس کا تعلق عیسائیوں کے تبلیغی مشن سے تھا۔ جو پرتگال کے دارالحکومت لزبن سے بحری جہاز میں بیٹھ کر ہندوستان پہنچا تھا۔ سیٹون ہندوستان پہنچا تو یہاں کی خوشحالی دیکھ کر اپنے باپ کو خط لکھا کہ ''ہندوستان سونے کی چڑیا ہے'' ہمیں ہر صورت اسے اپنے قفس میں بند کرنا چاہئے۔(1) اس کے بعد کی تاریخ سب کو معلوم ہے، برطانیہ نے تقریباً سو سال تک ہم پر براہ راست حکمرانی کی۔
کبھی انگریزوں کے لیے برصغیر سونے کی چڑیا تھا اور آج برطانیہ ہمارے لوگوں کے لیے۔ انیسویں صدی کے وسط میں ہمارے لوگ تواتر کے ساتھ برطانیہ جانے شروع ہوئے۔ مگر اس سے بہت عرصہ قبل برطانیہ میں مسلمانوں کے قدم پہنچ چکے تھے۔ آثار قدیمہ کی دریافت سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ میں مسلمانوں کی تاریخ ہزار سال سے زیادہ عرصے پر پھیلی ہوئی ہے، جس کا ثبوت جنوب مشرقی آئر لینڈ میں ملنے والا ایک بروچ ہے جو کہ نویں صدی کا ہے۔ اس کے علاوہ آٹھویں صدی میں شاہ اؤفا کے دور کے ان سکوں کی دریافت ہے جن پر اسلامی کلمہ شہادت کی مہر تھی۔ اس سے تاریخ کے اس فراموش شدہ دور کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ البتہ برطانیہ میں مسلمانوں کا پہلا بڑا گروہ اٹھارویں صدی کی ابتداء سے پہلے تک نہیں آیا تھا۔ یہ گروہ بھارت سے آیا تھا۔ اگلے دو سو سال میں تجارت اور کاروبار کی وجہ سے برطانیہ اور مسلم ممالک میں رابطے بڑھے۔ خاص طور پر جب برطانوی تجارتی جہازوں نے غیر ملکی عملے کو بھرتی کرنا شروع کیا ۔ 1842 تک تقریباً 3000 مسلمان جنہیں ''لشکری''کے نام سے جانا جاتا تھا، ہر سال برطانیہ آنے جانے لگے۔ اس میں سے کچھ لوگوں نے شادی کر لی اور کارڈف، لور پول، گلاسکو اور لندن جیسے شہروں میں بس گئے۔ اسلامی عقیدے کی بڑھتی ہوئی کشش کچھ ایسی تھی کہ کئی ممتاز برطانوی مسلمان ہوگئے۔ اس میں ہیڈلی کے پانچویں بیرن اور ایک مشہور سول انجینئر، لارڈ بیڈل اور ایک شاعر ولیم کوئیلیم (جنہوں نے برطانیہ کی پہلی مسجد بنائی) اور ایک ناول نگار اور قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ کرنے والے محمد مارڈک پکتھال شامل تھے۔(2 )
مسلمان برطانیہ میں قلیل تعداد میں کسی نہ کسی صورت موجود رہے۔ ان کی تعداد میں اضافہ جنگ عظیم دوم کے بعد ہوا جب ہندو پاک اور مشرق وسطیٰ سے کافی تعداد میں مسلمان برطانیہ آئے۔ آج برطانیہ میں تقریباً 20 لاکھ مسلمان آباد ہیں جن میں سے آدھے مسلمانوں کا تعلق پاکستان سے ہے۔ ان میں سے بھی زیادہ تر کا تعلق آزاد کشمیر کے شہروں میرپور، ڈڈیال، چکسواری اور ضلع اٹک کے شہر حضرو سے ہے۔ پاکستان اور آزاد کشمیر سے جانے والے زیادہ تر لوگ اپنے مخصوص طرزِ زندگی اور رہن سہن کی وجہ سے اکٹھے رہنا پسند کرتے ہیں۔ اس لیے لندن، برمنگھم، بریڈفورڈ ، مانچسٹر، گلاسکو، شیفیلڈ وغیرہ میں آپ کو ان کی آبادیاں محلوں کی شکل میں نظر آتی ہیں۔ ان محلوں میں انہوں نے مساجدبھی تعمیر کر لی ہیں۔ شروع شروع میں جب یہ لوگ روزگار کی تلاش میں برطانیہ گئے، تو ان کا خیال تھا کہ عارضی قیام کے بعد واپس آجائیں گے، مگر بعد ازاں پیش آنے والے حالات سے یہ وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ انہوں نے اپنے خاندانوں کو بھی برطانیہ بلوالیا۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جب یہ تارکین وطن تنہا رہتے تھے تو ان کا مذہب کی طرف رجحان بہت کم تھا ، لیکن جب انہوں نے اپنے بیوی بچوں کو برطانیہ بلوالیا تو ان کے مذہبی رجحان میں اضافہ ہو گیا۔(3) شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کو برطانوی معاشرے کی چکا چوند سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔
انہوں نے اپنے محلوں میں مساجد کی تعمیر شروع کی، پاکستان اور آزاد کشمیر سے بڑی تعداد میں مولوی حضرات کو بلوایا۔ جنہوں نے اپنے روایتی انداز میں مساجد کی رونقیں دوبالا کیں اور صبح شام بچوں کو قرآن پاک کی حفظ و ناظرہ کی تعلیم دینا شروع کی۔ آج برطانیہ میں مسلم کونسل آف بریٹن کے مطابق 584 مساجد کام کررہی ہیں جب کہ ایک اور ذریعہ کے مطابق ان مساجد کی تعداد 900 کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے 100 کے قریب خیراتی ادارے بھی کام کر رہے ہیں۔ (4)
ان تمام مساجدمیں سے کچھ باقاعدہ تعمیر ہوئی ہیں لیکن بعض ایسی ہیں کہ ایک بڑا گھر خرید کراسے اندر سے مسجد کی صورت دے دی گئی ہو، زیادہ تر مساجد پرانے چرچ، فیکٹریاں اور پرانے بڑے مکانوں میں قائم ہیں۔(5)
مساجد کا انتظام و انصرام مسجد کمیٹیوں کے ذمہ ہوتا ہے اور کمیٹی کے چیئر مین کی حیثیت نہ صرف مختار کل کی ہوتی ہے بلکہ اس عہدے کے حصول کو تارکین وطن کی بزرگ نسل چودھراہٹ سمجھتی ہے۔ چنانچہ مساجد کی کمیٹیاں برادریوں کے ناموں پر چل رہی ہیں۔ جٹ ، راجے اور دیگر برادریاں اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ الگ مسجد بنائے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کی مساجد کمیونٹی کو درپیش مسائل کے ازالے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں، کیونکہ ان کو پاکستانی طرز پر چلایا جارہا ہے۔ حالانکہ یہاں کے حالات، مسائل اور تقاضے سراسر مختلف ہیں۔ مساجد میں پڑھنے کے لیے جانے والا بچہ مولوی سے اسی لیے نالاں ہوجاتا ہے کہ اس کو مسجد میں وہ ماحول میسر نہیں جو سکو ل میں ہے اور سکول کا ماحول اس ماحول سے قطعی مختلف ہے جو اس بچے کو پاکستان سے آئے ہوئے مولوی صاحبان فراہم کرتے ہیں۔(6) پھر ایک اور مسئلہ ان مولوی صاحبان کے ابلاغ کا بھی ہے۔مولوی صاحبان کو چونکہ کمیٹی کی مجلس منتظم ذاتی اثر و رسوخ کی بنا پر برطانیہ بلاتی ہے اس لیے یہ مولوی صاحبان دین کی واجبی سی تعلیم رکھتے ہیں اور انگریزی سے بھی نابلد ہوتے ہیںجو نئی نسل کی زبان ہے۔ ایک مولوی صاحب پاکستان سے بی اے کے طور پر لائے گئے لیکن جب یہاں آئے تو ان کو انگریزی کا ایک لفظ بھی نہیں آتا تھا جب ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں بی اے ہوں لیکن درس نظامی میں ،جو کہ بی اے کے برابر ہے۔(7) برطانیہ میں مساجد کے قیام کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کو اپنے مذہبی تہواروں کا علم ہوگیا۔ جب برطانیہ میں مساجد نہ ہونے کے برابر تھیں تو برطانیہ میں رہنے والے مسلمانوں کو کئی کئی دن رمضان کے آغاز ہونے کا علم ہی نہیں ہوتا تھا۔ اور اسی طرح عید کا دن خاموشی سے گزر جاتا اور بعض اوقات تو پاکستان سے عزیز و اقارب کے خطوط سے رمضان کے شروع ہونے کی خبر ملتی۔(8) برطانوی علماء کا ایک مسئلہ ابلاغ ہے تو دوسرا مسجدوں کے اندر کی سیاست۔ مسجدوں کی کمیٹیوں اور امام حضرات کے درمیان بھی فاصلہ ہے، جس سے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ انتظامیہ کمیٹی سمجھتی ہے کہ امام مسجد ان کا ملازم ہے جب کہ امام مسجداور علماء خیال کرتے ہیں کہ وہ دین کے ملازم ہیں۔(9) آج نہ صرف مساجد کمیٹیوں اور امام حضرات کی تقرری کے معاملات برطانیہ کی مختلف عدالتوں میں تصفیہ طلب ہیں بلکہ ان کی آپس کی لڑائیوں کی خبریں برطانوی میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بھی بنتی رہتی ہیں۔۔ آج برطانیہ میں مساجد اور علماء کرام، برادریوں مسلکوں اور گروہوں کے نام پر تقسیم ہو چکے ہیں کوئی سال اور مہینہ ایسا نہیں گزرتا جب یہ مزید تقسیم در تقسیم کا شکار نہ ہو رہے ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ عید الفطر جیسا مذہبی تہوار بھی آپس کی تقسیم کا شکار ہو کر رہ گیا ہے ، برطانیہ میں تین روز تک عیدیں منائی جاتی ہیں۔ ایک مکتبہ فکر دوسرے مکتبہ فکر کو تسلیم کرنے کو قطعی تیار نہیں ہے۔ (10)
شاید اس کی ایک بڑی وجہ ہمارا وہ معاشرتی سیٹ اپ ہے جس کے تحت ہم مذہب سمیت ہر نظریے کی تاویل اپنے مفادات اور رجحانات کی روشنی میں کرتے ہیں، لیکن برطانیہ میں اب ہماری تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے، جس کی پرورش تو ہمارے اپنے گھروں میں ہوئی مگر جس کی تعلیم یکسر ایک دوسرے ماحول میں ہوئی چنانچہ آج ہماری یہ نسل ہمارے کردار اور رویوں سے بیزار نظر آتی ہے۔ اور یہ اس مولوی کے بھی زیر اثر نہیں جسے ان کے آبائواجداد نے پاکستان سے دینی تعلیم کی غرض سے بلایا تھا البتہ اس نسل میں سے کچھ ایسے ضرور ہیں جو کہ برطانیہ میں نسلی تعصب کی وجہ سے مسجد اور مذہب کے تعلق کا سہارا لیے ہوئے ہیں۔ بظاہر یہ دونوں رجحانات ہی تعمیری نہیں۔ اولاً یہ کہ نئی نسل دین کا حقیقی پیغام سمجھنے سے قاصر ہے اور ایسے میں بعض اوقات وہ ایسے شدت پسند مذہبی لٹریچر کے زیر اثر بھی آجاتی ہے جو اسے دہشت گردی پر اکساتا ہے۔ جس کا ایک منظر 7/7 کے واقعات میں نظر آیا، جن کے ذمہ داران بھی نوجوان تھے اور اسلام کی مکمل تعلیمات اور پیغام کے بارے میں نابلد تھے اور یہ نابلد ہوتے بھی کیوں نہ، برطانیہ میں ہونے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ کی مساجد میں 97 فی صد امام صاحبان ، دوسرے ممالک سے آئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق، پاکستان اور بنگلہ دیش سے ہے جب کہ دوسری طرف برطانوی مسلمانوں کی اکثریت، برطانیہ میں ہی پیدا ہوئی ہے۔(11) چنانچہ دو مختلف معاشروں، ماحول اور حالات میں پیدا ہونے والے لوگ جو ایک دوسرے کی زبان سے بھی آشنائی نہیں رکھتے ان کے درمیان ایک مضبوط تعلق کیسے استوار ہو سکتا ہے۔ نہ صرف امام کے ساتھ بلکہ پاکستانیوں اور بنگلہ دیشیوں کی تیسری نسل کے بچے خود اپنے بزرگوں کے ساتھ جنریشن گیپ جیسے مسائل کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس کی ایک وجہ پسماندگی بھی ہو سکتی ہے۔ برطانیہ میں پاکستان اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کی دوتہائی اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔(12) چنانچہ ایک طرف وہ برطانوی معاشرے سے کٹے ہوئے ہیں تو دوسری طرف اپنے اندر بھی تقسیم کا شکار ہیں۔
برطانیہ میں پاکستانی اماموں کو جہاں ذاتی تعلق، برادری اور علاقے کی بنیاد پر بلایا جاتا ہے وہاں پر بعض ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ بعض لوگوں نے علماء سے پیسے لے کر ورک پرمٹ بیچے ۔ چنانچہ اس طرح نہ صرف علماء کا استحصال ہوا بلکہ بعض بہروپئے علماء اور اماموں کا روپ دھار کر برطانیہ پہنچ گئے۔ ان میں سے بعض نے توٹیکسی چلا کر گزر اوقات کی اور بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے وہاں جا کر ایسے ایسے گل کھلائے کہ انسان کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔ انہی میں سے ایک غلام رسول چشتی المعروف ابوالفتح نامی شخص ہے جس نے فقر کا روپ دھار کر شیطانی کام کیے۔ اس نے اپنا آستانہ سائوتھ ہال لندن میں قائم کیا جہاں مصیبت کی ماری دنیا اس بہروپئے کی کرامات سے شفا حاصل کرنے جاتی تھی۔ جب یہ شخص برطانوی قانون کے شکنجے میں آگیااور اس پر مقدمہ چلا۔ اولڈ بیلی کی عدالت میں اس نے بیان دیا کہ پاکستان میں اس کی چار بیویاں اور گیارہ بچے ہیں، اس نے مزید یہ بیان دیا کہ برطانیہ میں بہت سی لڑکیاں اس کی ''اسلامی گرل فرینڈ'' ہیں۔ زنا کاری اور ریاکاری کے الزامات سچ ثابت ہونے پر عدالت نے اسے گیارہ سال کی سزا سنائی۔ ابوالفتح چشتی کے بعد والتھم سٔو لندن میں پیر سید عبدالقادر جیلانی کے کیس کو برطانوی پریس نے خوب اچھالا۔ پیر صاحب پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے اپنے داماد کے بھائی کو پاکستان میں قتل کروایا۔ جس کی اصل وجہ یہ بتائی گئی کہ پیر صاحب کی بیٹی نے اپنی مرضی سے ایک پاکستانی مسلمان سے شادی کر لی تھی۔ اس پر پیر صاحب نے انتقامی جذبہ کے تحت اپنے داماد کے بھائی کو پاکستان میں اغوا کرکے قتل کر وادیا۔ اس کے بعد اولڈ ہم میں ایک اور افسوس ناک واقعہ پیش آیا جب ایک لڑکی کے جن نکالتے ہوئے پیر صاحب نے لڑکی کو جان سے مار ڈالاجس پر عدالت نے پیر کو عمر قید کی سزا سنادی۔ (13)
چند بہروپیوں کے باوجود آئمۂ مساجد اور علماء کے مثبت کردار سے انکار ممکن نہیں۔ کونسلر نویدہ اکرام بریڈ فورڈ کی لارڈ میئر ہیں انہوں نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دراصل ہمارے امام حضرات بھی ہماری کمیونٹی کے مجموعی کردار کو ظاہر کرتے ہیں۔ حالات و واقعات میں یہ کردار مثبت بھی ہے اور بعض کیسوں میں منفی بھی۔ ابھی حکومت برطانیہ نے ایک پروگرام ترتیب دیا ہے کہ کس طرح شہریت اور مذہب کو باہم مربوط کیا جائے۔ لوگوں کو بتایا جائے کہ مذہب ان کو ملک اور معاشرے کے خلاف نہیں اکساتا ۔ اس پروگرام کے تحت امام حضرات سکولوں میں جاکر بچوں کو پڑھا بھی رہے ہیں اور انہیں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس بھی کرا رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات کو رد کیا کہ زبان اس سلسلہ میں رکاوٹ ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے تمام بچے اپنی مادری زبان بول اور سمجھ سکتے ہیں اور مساجد میں علماء اور امام حضرات بھی انہیں مادری زبان میں تعلیم دیتے ہیں۔ (14)
مسعود اقبال جنجوعہ ہیلی فلیکس میں امیگریشن کے وکیل ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امام حضرات کے کردار نے ہمارا بیڑہ غرق کر دیا ہے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں جتنے بھی علماء حضرات برطانیہ آئے یہ کسی باقاعدہ مدرسے سے فارغ التحصیل نہیں تھے بلکہ انہوں نے چند سورتیں اور خطبے رٹے ہوئے تھے۔ یہ قرآن و حدیث سے نابلد تھے اور زیادہ تر انہی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے جہاں سے تارکین وطن آئے تھے۔ چنانچہ ان کو برطانیہ میں رشتہ داری یا برادری کی وجہ سے بطور امام مسجد کے بلالیا گیا۔ جنہوں نے اپنی کم علمی کی بدولت یہاں آکر ہمیں مزید تقسیم کردیا۔ ان کا کام چندے اکٹھے کرنا رہ گیا۔ برطانیہ میں جتنی گیارہویں شریف کی محفلیں ہورہی ہیں وہ صرف چندے اکٹھے کرنے کا بہانہ ہیں اور اتنی محفلیں آپ کو پاکستان میں نہیں ملیں گی۔ پھر چندے اور پیسے اکٹھے کرنے کے لیے ان علماء نے طلاقیں، حلالے، تعویز گنڈوں کا کام بھی شروع کر دیا اور خوشحال زندگی بسر کرنے لگے۔ عموماً یہ امام حضرات پاکستان سے ایک ان ٹرینڈ مولوی بھی بلا لیتے ہیں اور جب اس کو برطانیہ میں مستقل قیام کی اجازت مل جاتی ہے تو ایک گلی چھوڑ کر وہ اپنا ایک الگ مدرسہ کھڑا کر دیتا ہے جس سے مذہبی منافرت اور دہشت گردی کو ہوا ملتی ہے۔ یہاں پر ایسے مدرسے بھی ہیں جن کے چار پانچ سو بندے کمیشن لے کر چندہ اکٹھا کرتے ہیں۔ یہ ایک مافیاہے جسے عالم یا امام کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ایک مولوی کو اپنے مرید کی بیوی پسند آگئی تو اس نے مرید سے طلاق دلوا کر شادی کر لی۔ اس طرح حالیہ دنوں میں بریڈ فورڈ کا ایک مولوی اپنی سوتیلی بیٹی کے ساتھ زنا کاری کرتے ہوئے پکڑا گیا۔ یہ ہے ان کا کردار، اس طرح کے واقعات آئے روز سننے کو ملتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری کمیونٹی اور مذہب بدنام ہو رہا ہے۔(15)
جبری شادیوں کے مسئلہ پر بھی امام حضرات کے کردار پر شک کا اظہار کیا جاتا ہے اور عموماً دیکھا گیا ہے کہ علماء حضرات جبری شادیوں کے مسئلے پر عورتوں کو صبر کی تلقین کر کے انہیں تشدد برداشت کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ سی آئی پی کے ایک سروے میں بتایا گیا کہ کچھ امام حضرات خواتین کے بارے میں تعصب رکھتے ہیں۔(16) کچھ خواتین نے جب اپنے خاوندوں کے پرتشدد رویے کے حوالے سے امام حضرات سے رجوع کیا تا کہ شرعی نقطۂ نظر سامنے آسکے تو ان امام حضرات نے انہیں صبر کی تلقین کی جب کہ شیفیلڈ کی ایک 15 سالہ لڑکی جس کا نکاح فون پر پاکستان میں ایک 40 سالہ شخص سے کر دیا گیا تھا، اس کی شادی کو ہوم آفس نے قبول کر نے سے انکار کر دیا مگر برطانیہ کی اسلامک شریعہ کونسل نے اس شادی کو تسلیم کر لیا۔
قاضی اشتیاق احمد کونسل برائے مساجد کے ترجمان ہیں ۔ یہ کونسل 90 سے زائد مساجد اور مدرسوں کی نگہبان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ کے مسلمان دنیا کے مختلف خطوں سے آکر یہاں آباد ہوئے ہیں جن کی الگ الگ ثقافت اور روایات ہیں اس لیے اس بات کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ بعض امام حضرات، شریعت کی بجائے اپنی لوکل روایات کی پاسداری کر رہے ہیں۔ ایسے امام حضرات کو تربیت کی ضرورت ہے۔ ہمیں اب یہاں کے مقامی تربیت یافتہ امام حضرات کی ضرورت ہے جو یہاں کی معاشرت اور ثقافت کو سمجھتے ہوں، خواتین سکالرز کو بھی آگے آنا چاہئے۔
_________________
حوالہ جات
1۔ ''پاکستان سے انگلستان تک''، مصنف یعقوب نظامی، نگارشات پبلشرز ، اشاعت سوم، صفحہ44
2۔ ''برطانوی مسلمان''، شائع کردہ، دولت مشترکہ آفس لندن ، صفحہ 16
3۔''دو وطن'' مصنف سجاد اظہر، اشارات پبلشرز کراچی، صفحہ74,75
4۔ www.salaam.co.uk/mosques/index-php
5۔ ''پاکستان سے انگلستان تک''، مصنف یعقوب نظامی، نگارشات پبلشرز ، اشاعت سوم صفحہ365-366
6 ۔''دو وطن'' مصنف سجاد اظہر، اشارات پبلشرز کراچی، صفحہ 60-61
7۔ ایضاً ص 120
8۔ کامیاب لوگ'' مصنف فیضان عارف ، پبلشرز بک ہوم، انٹرویو سید لخت حسنین، صفحہ 214
9۔ ایضاً،صفحہ 220
10 ۔ برطانیہ کے علمائے اہلسنت و مشائخ ، مصنف خالد اطہر، پی پی اے پبلیکیشنز اسلام آباد، صفحہ512
11 ۔ www.quilliamfoundation.org/articals/mosques.
12 ۔ www.statisticsgov.uk/cci
13 ۔ ''پاکستان سے انگلستان تک'' مصنف یعقوب نظامی، صفحہ 372-373
14۔ انٹرویو 20 جولائی 2009 ، بذریعہ فون
15۔ انٹرویو 20 جولائی 2009 ، بذریعہ فون
16 ۔ بی بی سی ایشین نیٹ ورک، سنجیو بھٹو
|
|
|
|
|