Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
درس انسانیت |
جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کرنے کے بعد زمین میں اپنے نائب یعنی حضرت انسان کو بھیجنے کا فیصلہ کیا، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ وہ بولے کیا تواس میں ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے گا اور خونریزیاں کرے گا۔ اور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے ہیں اور تیری پاکی بولتے ہیں تو رب العزت نے فرمایا ، میں زیادہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ (سورة البقرہ٣٠)
اس آیت کریمہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو اسے ہر قسم کی آزادی سے نوازا۔ جبکہ فرشتوں کو مختلف ذمہ داریوں کا پابند کر دیا گیا۔ اس لیے جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کیا تو فرشتوں کا اعتراض صرف اس بناء پر تھا کہ انسان فطرتاً آزاد ہے۔ یہ زمین پر جا کر آزاد رہے گا۔ اور زمین میں دنگا فساد پھیلائے گا۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ جو مجھے معلوم ہے وہ تم نہیں جانتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ رب العزّت نے فرشتوں کی اس بات کی نفی کی تھی کہ انسان زمین میں قتل و غارت گری یا خونریزی نہیں کرے گا بلکہ اللہ رب العزت نے انسان کی فضیلت وعظمت کو ظاہر کرنے کے لیے یہ فرمایا کہ مجھے انسان کے بارے میں تم سے زیادہ علم ہے۔
اور جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا کہ اب تم آدم کو سجدہ کرو تو سوائے ابلیس (شیطان) کے سب نے سجدہ کیا۔ اسی بناء پر انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے کہ انسان اگر خالق کائنات کے بتائے ہوئے راستے پر چلتا ہے تو وہ اتنا معتبر ہو جاتا ہے کہ فرشتے بھی اس کے رتبے پر رشک کرتے ہیں۔ اسی لیے جب شیطان نے رب العزّت سے مہلت مانگی تو رب العزّت نے فرمایا تھا کہ اے ابلیس تُو انسانوں کو بہکانے کی کوشش کرکے دیکھ لے۔ مگر جو میرے بندے ہیں۔ میرے اطاعت گزار ہیں وہ کبھی بھی تیری باتوں میں نہیں آئیں گے۔ اور نہ ہی سیدھے راستے سے بھٹکیں گے۔
اللہ رب العزت نے تمام انسانوں میں سے اپنے ان خاص بندوں کا قرآن پاک میں کئی مقامات پر ذکر کیا ہے جو اپنے رب کی اطاعت اور عبادت گزاری میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور دنیا میں پیار و محبت اور امن وسکون کے ساتھ رہتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ بھٹکے ہوئے انسانوں کی راہنمائی کے لیے مختلف ادوار میں پیغمبر اور انبیاء اس دنیا میں بھیجے۔ پس جو لوگ ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلے وہ کامیاب و کامران ٹھہرے اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے انبیاء اور پیغمبروں کی نافرمانی کی، انھیں طرح طرح کی تکلیفیں دیں، انہیں ظالم اور نافرمان قرار دیا۔ انسانوں کو سب سے پہلے تعلیم ہی یہ دی گئی کہ وہ دنیا میں امن و سکون کے ساتھ رہیں اور دنگافساد مت پھیلائیں۔ مذہب سے ہٹ کر تمام انسانوں کو یہ تلقین کی گئی کہ وہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور آپس میں ناحق خون نہ بہائیں۔ قرآن پاک میں کئی مقامات پر ہمیں انسانی جان کی قدروقیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔
جیسا کہ قرآن پاک میں کائنات کے سب سے پہلے قتل کے واقعات بیان کرتے ہوئے رب العزت نے فرمایا کہ لوگوں کو آدم کے ان دو بیٹوں کی سچی خبر کے بارے میں بتائو۔ جب دونوں نے ایک ایک نیاز رب کی بارگاہ میں پیش کی تو ایک کی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی۔ تو ایک بولا قسم ہے میں تجھے قتل کر دونگا۔ تو دوسرے نے کہا۔ اللہ تعالیٰ اسی کی قبول کرتا ہے جو متقی ہیں، بے شک اگر تو اپنا ہاتھ میری طرف بڑھائے کہ مجھے قتل کرے تو میں اپنا ہاتھ تیری طرف بڑھائوں گا کہ تجھے قتل کر دوں۔ پھر فرمایا میں تو چاہتا ہوں کہ میرا اور تیرا گناہ دونوں تیرے ہی پلے پڑیں اور تو دوزخی ہو جائے گا اور یہی ظالموں کی سزا ہے۔تو اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل کی رغبت دلائی تو اسے قتل کر دیا تو وہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گیا۔ (سورة المائدہ31)
اسی بناء پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے پس منظر میں یہ لکھ دیا کہ جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے تمام لوگوں کا قتل کیا۔ اور جس نے ایک جان کو زندہ کیا تو گویا اس نے سب لوگوں کو زندہ کیا۔ (سورة المائدہ32)
پھر ان لوگوں کے لیے سخت ترین سزا تجویز کی جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول ۖ سے جنگ کرتے ہیں۔
فرمایا '' وہ جواللہ اور اس کے رسول سے لڑتے اور ملک میں فساد کرتے پھرتے ہیں ان کا بدلہ یہی ہے کہ گن گن کر قتل کئے جائیں یا سولی چڑھا دیے جائیں۔ یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پائوں کاٹے جائیں۔ یا زمین سے دور کر دئیے جائیں۔ یہ دنیا میں ان کی رسوائی ہے۔اور آخرت میں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ (سورة المائدہ33)
اللہ تبارک و تعالیٰ نے توریت میں ان پر واجب کیا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ، اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں ''بدلہ'' رکھا۔
انسانی جان کی قدروقیمت کے لیے اسلام نے مختلف سزائیں تجویز کی ہیں۔ اور ایک انسان کی دیت 100 اونٹ یا اس کی قیمت کے برابر رقم رکھی گئی ہے مگر آج انسانی جان کی قیمت انتہائی ارزاں ہو چکی ہے۔ بھائی بھائی کا خون کر رہا ہے۔ آپس میں رشتے اور تعلقات کمزور ہو چکے ہیں۔ لوگ انتہائی معمولی بات پر دوسرے کا خون بہا دیتے ہیں۔ ظالموں اور قاتلوں کی اس معاشرے میں اتنی کثرت ہو چکی ہے کہ انتہائی کم قیمت کے عوض انسانی جان لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ جو کسی انسان کے قتل میں ملوث ہوتے ہیں اور دنیا میں دنگا فساد کرتے ہیں وہ انسان کہلائے جانے کہ مستحق نہیں۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں درندوں میں شمار کیا۔ ہم سب کو اس بات پر غور کرنا ہو گاکہ کیا ہم انسانیت کے دائرے سے خارج تو نہیں ہو چکے۔ اور اگر ایسا ہے تو ہمیں انسان بننے کے لیے آپس میں پیارو محبت کو فروغ دینا ہو گا۔ دوسروں کی عزت نفس کا احترام کرنا ہوگا۔ سابقہ گناہوں اور غلطیوں سے توبہ کرنا ہو گی اور دیگر بھٹکے ہوئے لوگوں کو بھی انسانیت کی تعلیم دیناہو گی۔
|
|
|
|
|