working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

فاٹا: مسائل اور حل
آصف میاں
برطانیہ نے فاٹا کو روس اور انڈیا کے مابین ایک بفرزون کی حیثیت سے قائم کیا تھا۔ تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ فاٹا کو آج بھی بفرزون ہی کی حیثیت حاصل ہے۔ آج تک قائم ہونے والی پاکستانی حکومتوں کے پیشِ نظر کیا مفاد تھا کہ یہاں پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ لاگو کروایا گیا نہ ہی جدید جمہوری رویوں کو پروان چڑھانے کی کوئی سعی کی گئی۔ کیا اس سے مقصود فاٹا کی اس روایتی تنہائی کو برقرار رکھنا تھا جو پورے جنوبی ایشیا میں اسے ایک الگ تھلگ اور جداگانہ حیثیت عطا کرتی ہے یا پھر مقصد جنگ کے لیے خام مال تیار کرنا اور دنیا بھر میںشدت پسند خیالات رکھنے والوں کا یہاں اجتماع کرنا تھا۔ اگر پیشِ نظر یہی سب کچھ تھا تو بھی نتائج کیا نکلے؟ اس ساری صورتحال کا تجزیہ آصف میاں نے نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں کیا ہے۔ (مدیر)
فاٹا میں موجود خوفناک صورتحال تب ظاہر ہوئی جب گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا اور اپنے ہی تخلیق کردہ طالبان کے خلاف ہو گیا۔ اگرچہ یہ فیصلہ نیم دلی سے کیا گیا لیکن اس کے اثرات سے ڈیڑھ صدی سے قائم سسٹم ہل کر رہ گیا۔

فاٹا ہمیشہ سے سرکار کی طرف سے بے اعتنائی کا شکار تھا۔ القاعدہ اور طالبان نے یہاں آ کے سناٹا ہی طاری کر دیا۔ افغان جہاد شروع ہوا تو روس کے خلاف فاٹا کو لانچنگ پیڈ بنایا گیا اور فاٹا میں پہلی بار باہر سے بے تحاشا لوگ آئے جو جاسوس بھی تھے، جہادی بھی اور جرائم پیشہ بھی۔ ان سب نے مقامی قبائل کے ساتھ اپنے مستحکم رابطے استوار کیے۔ ان رابطوں نے جہاں روس کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کیا وہیں یہ رابطے قبائل کو پیسے کمانے کے نئے ذرائع مہیا کرنے کا باعث بنے۔

منشیات، اسلحہ سمگلنگ اور مختلف ممالک کے عسکریت پسندوں کو ٹریننگ ایسے نئے کام تھے جنہوں نے پیش آمدہ مسائل کے لیے نہ صرف نئے وسائل فراہم کیے بلکہ قبائلی علاقے میں ایک نئی کلاس بھی پیدا کی جس کے پاس بے تحاشا پیسہ آیا، جس کو ان قبائلی نودولتیوں نے اپنا سٹیٹس بہتر کرنے کے لیے استعمال کیا۔ بلکہ اسی پیسے کو استعمال کرتے ہوئے منتخب ایوانوں تک رسائی حاصل کی۔ ان سب کا پس منظر مختلف تھا لیکن ایک مشترک بات ان سب میں افغان جہاد کے بعد پیدا ہونے والی اس کلاس سے تعلق تھا جو اس پیسے کے ذریعے وجود میں آئی۔

فاٹا میں نئی امیر کلاس تو پیدا ہوئی لیکن فاٹا کی روایتی تنہائی برقرار ہی رہی۔ پاکستان کا حصہ ہونے کے باوجود پاکستان سے فاٹا کا تعلق بہت ہی ڈھیلی ڈھالی حالت میں برقرار رکھا گیا۔ پاکستان میں نظام بدلتے رہے، ترقی بھی ہوئی، فاٹا کی نہ قسمت بدلی نہ نظام۔ نہ ہی وہاں ترقی ہوئی۔

فاٹا کے نمائندے تو پاکستان کے آئین میں تبدیلی کے لیے ووٹ بھی ڈالتے ہیں اور رائے بھی دیتے ہیں لیکن پاکستان کی پارلیمنٹ فاٹا کے بارے کوئی قانون صدر صاحب کی اجازت کے بغیر نہیں بنا سکتی۔ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ فاٹا میں لاگو نہیں ہوا اور اس لیے بھی نہیں کیا گیا کہ سیاسی پارٹیاں وہاں جائیں گی تو یقینا لوگ ان کے پیچھے لگیں گے اور سسٹم سے ان کی کچھ امیدیں وابستہ ہو جائیں گی۔ ہم کیسے پاکستان کو ایک جمہوری ملک کہہ سکتے ہیں جب تک فاٹا میں جمہوریت نہیںآجاتی۔

فاٹا کو انگریز نے روس اور انڈیا کے درمیان ایک بفرزون بنایا تھا اور ویسے ہی اس نے استعمال کیا۔ انگریزوں نے جتنے ترقیاتی کام کیے وہ سارے فوجی نقطۂ نظر سے تھے۔ انھوں نے فاٹا کا انتظام انتہائی محتاط رہ کر بڑی سمجھ بوجھ سے چلایا اور انتظام میں جزئیات کا بھی خیال رکھا۔ اگر اس نے فاٹا میں فوجی آفیسر بھیجے تو ان کے لیے پشتو سکھانے کا انتظام کیا۔ انتظامی افسر بھی وہ بھیجے گئے جن کی نہ صرف انتظامی صلاحیت مثالی تھی بلکہ ان کو فاٹا میں تعینات کرنے سے پہلے علاقائی رسم و رواج سے واقف کرایا گیا۔

قیام پاکستان کے بعد فاٹا ایک نظرانداز شدہ علاقہ بنتا گیا۔ وفاقی حکومت، گورنر، پولیٹیکل ایجنٹ اور مراعات یافتہ ملکوں کے ڈھیلے ڈھالے نظام کے ذریعے اس کو براہِ راست اپنی نگرانی میں چلاتی رہی۔ اس روایتی نظام میں پولیٹیکل ایجنٹ حکومت کی طرف سے مکمل اختیار کے ساتھ ایجنسی کا انتظام چلاتے رہے۔ پولیٹیکل ایجنٹ بیک وقت انتظامی، عدالتی اور مالی اختیار وہ بھی ایسے کہ جن پرکوئی چیک نہیں تھا۔ پولیٹیکل ایجنٹ اگر کسی کو سزا دیتا تھا تو بعض صورتوں میں ملزم کو اپیل تک کا حق حاصل نہیں تھا اور سزا پانے والا مجرم ضروری نہیں تھا کہ جرم کے ارتکاب میں ہی سزا پائے۔ اجتماعی ذمہ داری کے قانون کے تحت بھائی کی جگہ باپ، چچا یا اسی قبیلے کا کوئی اور فرد یا ایک سے زیادہ افراد بھی سزا پا سکتے تھے۔چھوٹے چھوٹے جرائم پر لوگوں کو لمبی سزائیں سنائی گئیں۔

بادشاہوں والی یہی خودمختاری پولیٹیکل ایجنٹ کے ادارے کو مالی اور انتظامی معاملات میں بھی حاصل تھی۔ پی اے کو دیے جانے والے فنڈز کا آڈٹ تک نہیں ہوتا تھا۔ ترقیاتی کاموں کے لیے آنے والے پیسے مراعات یافتہ ملکوں اور سرکاری اہل کاروں کی جیب ہی میں جاتے رہے۔ فاٹا میں ترقی نہ ہونے کی جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں وہاں قبائل کی یہ سوچ بھی رکاوٹ ہے کہ ہر ترقیاتی کام یا کوئی بھی کام حکومت صرف اپنے فائدے کے لیے کرتی ہے اور اس کا مقصد حکومت کی رِٹ بڑھانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔

قبائلی انتظامیہ پر ایک ہی چیک مؤثر ہو سکتا تھا اور وہ تھا قبائل کے منتخب نمائندوں کا نظام۔ دو ہزار سات تک قبائل کے نمائندے براہ راست عوام کے ووٹ کی بجائے مراعات یافتہ ملکوں ہی کے ووٹ سے منتخب ہو کر اسمبلی میں آتے رہے۔ وہ پیسے دے کر ووٹ خریدتے اور اس کے بعد اقتدار میں آنے والے کا ساتھ دے کر اپنے پیسے پورے کرنے کی کوشش کرتے رہتے۔ اپنے علاقے کے لیے کوئی کام کروانے کی خواہش ان میں کیا ہوتی جبکہ وہ الیکشن بھی کاروبار ہی کی طرح پیسے لگا کر جیتے ہوں۔ اگر کوئی بھولا بھٹکا فرد ان سے کسی کام کے لیے رابطہ کر بھی لیتا تو ان کا جواب یہی ہوتا کہ اب کونسا کام۔ ہم تو آپ کو یا آپ کے فلاں ملک کو پیسے دے کر آئے ہیں۔ اب نمائندے تو براہ راست ہی منتخب ہو کر آتے ہیں، عوام ہی کے ووٹ سے لیکن پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ فاٹا میں نافذ نہیں ہے تو صورتحال میں وہ تبدیلی نہیں آ سکی جو آنی چاہیے تھی۔

افغان جہاد کے دوران جب فاٹا روس کے خلاف لانچنگ پیڈ بنا تو یہاں کے روایتی سسٹم میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوئی۔ جہاں جنگی صورتحال کی وجہ سے فوج اور اس کی ایجنسیوں کا عمل دخل بڑھا اور پولیٹیکل ایجنٹ کے روایتی اور مضبوط ادارے کو پہلی بار اپنے اختیارات میں کسی کو شریک کرنا پڑا بلکہ بعض حالتوں میں تو اپنے اختیارات کو سرنڈر ہی کرنا پڑا اور اس سے بڑھ کر یہ بھی بھیانک حقیقت ہے کہ ایسا کاغذوں میں محض اس کے اختیار میں کسی کمی کے اعلان کے بغیر ہوا۔

ملک جواس قبائلی معاشرے کا ایک بہت اہم کردار تھا، جس کے ذریعے قبائل اپنے مسائل نہ صرف حکومت سے حل کرواتے تھے بلکہ آپس کے معاملات بھی اسی کے ذریعے طے پاتے تھے، افغان جنگ کے دوران ملک کے اس کردار کو قبائلی معاشرے کے دوسرے اہم کردار مولوی نے غیرمؤثر کرنا شروع کر دیا۔ جیسے جیسے مولوی مضبوط ہوا ملک کا کردار کم ہوتا گیا اور ساتھ ہی پولیٹیکل ایجنٹ بھی کمزور پڑتا گیا اورپہلی بار ایک ایسا کردار ابھر کر سامنے آنے لگا تھاجو قیادت ، عدالت اور معاش ان تینوں شعبوں میں جس پر پولیٹیکل ایجنٹ بلا شرکت غیرے قابض تھا، کا متبادل وسیلہ بننا شروع ہوا۔

افغان مہاجروں کی آمد سے جہاں مولوی مضبوط ہوا وہیں معاشرتی سسٹم کا بیلنس بھی تبدیل ہوا۔ کرم اور اورکزئی ایجنسی میں جہاں شیعہ بڑی تعداد میں موجود تھے، وہاں مہاجرین کی آمد سے آبادی کا تناسب تبدیل ہوا اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں شدت آئی اور جیسے جیسے شدت بڑھی ملک کا اثر کم ہوا اور مولوی کا زیادہ۔

افغان جہاد نے جہاں قبائل کو پیسے کمانے کے نئے ذریعے عطا کیے وہاں ہی اس نے پاکستانی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا، منشیات، اسلحہ اور دنیا بھر سے آنے والا پیسہ جو نیک لوگوں نے جنت میں اپنے مکانات کی تعمیر کے لیے مذہب کے نام پر ادھر بھیجنا شروع کیا اور افغان کمانڈروں نے امداد کے لیے آنے والے پیسے کو جب کاروبار میں لگایا تو مقامی قبائل جو ٹرانزٹ (باڑہ مارکیٹ) اور سمگلنگ کے کام سے وابستہ تھے۔ کاروباری طور پر ان نئے افغان تاجروں کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے اور باڑہ مارکیٹوں کے کاروبار پر بھی افغان مہاجروں کا قبضہ ہوتا گیا جبکہ مقامی قبائل معاشی دبائو کا بھی شکار ہوئے۔

پیسے کے لیے قبائل بہت حساس واقع ہوئے ہیں اور اس کی وجہ وہ انتہائی محدود وسائل ہیں جو ان کو اپنی علاقائی صورتحال میں میسر ہیں۔ گنتی کے چند کام ہیں جو وہ روزگار کے لیے کر سکتے ہیں۔ زراعت کے لیے موسم، پانی اور زمین کی صورتحال موافق نہیں۔ سیاحت؟ رہنے دیں۔ انڈسٹری ؟ فاٹا میں اپنا وجود نہیں رکھتی۔ روایتی کاروبار کے مواقع بھی کم ہیں۔ نوکریوں کا یہ حال ہے کہ بائیس ہزار سرکاری آسامیاں خالی ہیں۔

ان قبائل کا موازنہ پاکستان میں رہنے والوں سے کیا جائے تو اعداد و شمار پریشان کن ہیں۔ پاکستان کی مجموعی شرح تعلیم 43.92 فیصد، سرحد کی 35.41 فیصد جبکہ فاٹا کی 17.42 فیصد ہے۔ جبکہ مردوں کی شرح خواندگی پاکستان کی بحیثیت مجموعی54.81 فیصد، سرحد کی 51.39 فیصد جبکہ فاٹا میں یہی شرح 29.51 فیصد ہے۔ یہ اعداد و شمار فاٹا کی سرکاری ویب سائٹ کے ہیں۔ خواتین کی شرح خواندگی پاکستان میں مجموعی طور پر 32.02 فیصد، سرحد میں 18.82 فیصد جبکہ فاٹا میں 3.00 فیصد ہے۔ اس کا مطلب آپ یہ بھی لے سکتے ہیں کہ خواتین تعلیم حاصل کرتی ہی نہیں۔ فاٹا کی آبادی میں خواتین 48 فیصد ہیں۔

اگر ہم صرف اعداد و شمار ہی کو دیکھیں تو ہم صورتحال کو صحیح سمجھ نہیں پائیں گے۔ کم شرح تعلیم ، کم وسائل اور مواصلات کے انتہائی محدود وسائل اور روزگار کے انتہائی کم ذرائع۔ پارلیمنٹ میں تین سے چار فیصد کے درمیان نمائندگی۔ پورے فاٹا کا چند ارب روپے کاترقیاتی بجٹ جسے اگر تقسیم کیا جائے تو پندرہ سو روپے فی کس سالانہ بنتا ہے۔ان سب باتوں سے جس قسم کے لوگ اور علاقے کا نقشہ بنتا ہے وہ اتنا غلط ہے کہ اگر اس پر بنیاد رکھ کر کوئی پالیسی بنائی جائے تو اس کی ناکامی اتنی مکمل ہو گی کہ کامیابی کا تصور بھی محال ہے۔

قبائل پاکستان میں ایک متوازی معیشت چلا رہے ہیں۔ ایوب خان کے دور میں طے پانے والے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے معاہدے نے قبائل کو موقع فراہم کیا کہ وہ دنیا بھر سے سامان افغانستان منگوائیں اور پھر اس کو پاکستان واپس لا کر فروخت کریں۔ اس کاروبار کا حجم آج کل کے برے حالات میں بھی دو ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ دنیا بھر میںپیدا ہونے والی پوست کا پچانوے فیصد افغانستان میں پیدا ہوتا ہے اور اس کا پچاس فیصد پاکستان کے قبائلی علاقوں سے گزر کر باہر جاتا اور استعمال ہوتا ہے۔ کسی قسم کے اسلحہ کی خریدوفروخت کے اعداد و شمار ہی میسر نہیں ہیں لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صرف چھوٹے اسلحے کی سالانہ سیل اربوں روپے میں ہے۔ ٹرانسپورٹ کے کاروبار پر بالخصوص لمبے روٹ پر قبائل کا مکمل کنٹرول ہے۔ کراچی میں آئل ٹینکر اور واٹر ٹینکر مکمل طور پر قبائل ہی کے پاس ہیں۔ فاٹا سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ افغانی پاسپورٹ پر یورپ میں سیاسی پناہ حاصل کر چکے ہیں۔

فاٹا کے بارے میں بات کرتے ہوئے اس علاقے کے بارے میں مغرب کا نقطۂ نظر ہرگز نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جس کا خیال یہ ہے کہ یہ دہشت گردوں کی جنت ہے۔ القاعدہ اور طالبان کی قیادت ادھر روپوش ہے اور 9/11 جیسے کسی دوسرے حملے کی پلاننگ کر رہی ہے۔ اسی لیے افغانی طالبان پناہ کے لیے ادھر آتے ہیں اور یہاں کے قبائلی افغانستان میں جا کر کارروائی کرتے ہیں جبکہ پاکستان بھر سے جہاد کے شوقین یہاں آ کے ٹریننگ لیتے اور پھر لڑنے کے لیے افغانستان جاتے ہیں۔ ان سب باتوں سے انکار ممکن نہیں لیکن اس صورتحال کا حل کیا ہے۔ قبائل سے رابطے کے روایتی ادارے اب فاٹا میں اپنا وجود نہیں رکھتے۔ پولیٹیکل ایجنٹ ملک اب نام کو تو موجود ہیں لیکن تاریخ کا حصہ ہیں۔ حکومت ان سے حالت جنگ میں ہے اور کوشش کے باجود مکمل فتح حاصل نہیں کر سکی۔

صورتحال کا ایک حل قبائل بھی بتاتے ہیں۔ ''انڈرسٹینڈنگ فاٹا'' کے نام سے چھپنے والی ایک رپورٹ جو مختلف سوالات کے جوابات جاننے کے لیے ایک سروے پر مشتمل تھی۔ میں پچاس فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ فاٹا میں طرز زندگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ انصاف، تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کا حکومت سے مطالبہ کیا گیا۔ چونتیس فیصدا فراد نے کہا کہ فاٹا کو صوبہ سرحد میں ضم کر دیا جائے تئیس فیصد نے صورتحال کو جوں کا توں برقرار رکھنے کا کہا جبکہ بیس فیصدنے فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانے کے حق میں رائے دی۔پچاس فیصد سے زائد افراد نے پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے فاٹا میں نفاذ کا مطالبہ کیا۔ دہشت گردانہ سرگرمیوں کے ضمن میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں ساٹھ فیصد نے خودکش دھماکوں کو غیراسلامی قرار دیا۔پچھتر فیصد افراد کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین کو اپنے وطن لوٹ جانا چاہیے اور پچاس فیصد کا کہنا تھا کہ افغان مہاجرین نے معیشت پر برے اثرات مرتب کیے۔

شہید بھٹو فائونڈیشن نے بھی فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے حوالے سے ایک رپورٹ تیار کی جس کی سفارشات تیار کرنے میں قبائل کو شریک کیا گیا اور تمام ایجنسیوں سے ان کی شرکت یقینی بنائی گئی۔ ان سفارشات کے مطابق آئین پاکستان کو فاٹا تک ایکسٹنڈ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس اور پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ کے فاٹا میں نفاذ کی سفارش کی گئی۔ پاکستان کے عام شہری کی طرح قبائل کو بھی بنیادی انسانی حقوق کی آئینی ضمانت فراہم کرنے کی سفارش کی گئی۔ فاٹا کو صوبہ سرحد میں ضم کرنے، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے دائرۂ کار میں لانا اور ایف سی آر میں ترامیم کی سفارش خاص نکات تھے۔

مختلف قبائلی سٹوڈنٹس سے کیے گئے ایک سروے سے یہ بات سامنے آئی کہ خواتین کو تعلیم دینے کا ایک ہی آسان طریقہ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے والی ہر بچی کو وظیفہ دیا جائے۔ خواتین کی تعلیم کے مخالف پیسے ملنے کے ایک آسان ذریعے کی مخالفت نہیں کر سکیں گے۔ یہ سارے اقدامات بڑی تیزرفتاری کے ساتھ کرنے کی ضرورت ہے ورنہ حکومت تبدیلی لانے کا سوچتی رہے گی اور وہاں انقلاب آ بھی چکا ہوگا۔