working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

عدم مساوات اور عسکریت پسندی
محمد اعظم، صفیہ آفتاب
معاشرے میں عدم مساوات، معاشی ناہمواری اور طبقاتی تقسیم وہ بنیادی عوامل ہیں جو اس عدم مساوات کے شکار معاشرے کی اکثریت کو عسکریت پسندی کی جانب راغب کرنے میںکلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ دورِ موجود کے بعض اہم دانشوروں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہی عدم مساوات، عسکریت پسندانہ رویوں کو پروان چڑھا رہی ہے۔ مزید برآں حکومتی اداروں کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال اور چند مخصوص طبقات کی تمام تر وسائل پر اجارہ داری نے ان عسکریت پسندانہ کارروائیوںمیں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
ایسے کئی اعداد و شمار سامنے آئے ہیں کہ ان متشدد کارروائیوں میں غریب گھرانوں کے نوجوان ملوّث پائے گئے ہیں۔ جن کے جہاد میں کام آ جانے کے بعد ان گھرانوں کی خواتین نے اپنی آئندہ نسلوں میں بھی یہ رویے منتقل کرنا شروع کر دیے ہیں۔ اس تشویشناک صورت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ذیل کے مضمون میں اسی بات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ (مدیر)
اگر دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں کو بانظر عمیق دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں عسکریت پسند اپنی جڑیں مضبوط کرچکے ہیںاور ان کے حملے کرنے کی استعداد کار میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیاں بھی اس امر کی بھرپور غماز ہیں مثلاً خود کش حملوں میں تسلسل، منا واں لاہور میں پولیس کے تربیتی مرکز میں 29 مارچ کا واقعہ یا پھر حکومتی عمارتوں اور عوامی مراکز پر عسکریت پسندوں کے حملے یا اغوا کی وارداتیں ہر جگہ ان کو من مانی کرنے کا پورا موقع ملا۔

نوجوان لوگوں کی عسکریت پسندی کی جانب جھکائو کی کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ یہ کثیر جہتی عوامل کا ملغوبہ ہے۔ تاہم بنیادی طور پر غربت اور غیر مساویانہ روےّوں کو ہی اس تمام صورت حال کا ذمہ دار خیال کیا جاتا ہے۔ کیونکہ غربت انسان کو عسکریت پسندی کی جانب کھینچنے کے لیے ساز گار ماحول فراہم کرتی ہے۔ ایسے پرکشش ماحول کی ساخت میں پیسے کا عدم دستیاب ہونا، روزگار کے مواقع کا فقدان معاشرے میں عسکریت پسند گروہوں کے نمائندوں کی موجودگی اور دہشت گردی کو ہوا دینے والا ادب اور نشرو اشاعت کے ادارے اہم کردار ادا کرتے ہیں اور عمومی طور پر یہ تمام عوامل ان علاقوں میں پائے گئے ہیں جو فوج کے مضبوط گڑھ تصور ہوتے تھے۔ اس مضمون میں ''عدم مساوات'' کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جو کہ عسکریت پسند تنظیموں میں بھرتیوں کی ترغیب کے حوالے سے اہم اور ممکنہ وجوہات میں سے ایک ہے۔

پاکستان میں عسکریت پسندی اور عدم مساوات کے درمیانی رشتے کو دنیا بھر میں کی جانے والی تحقیقات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ تاریخ سے بھی شواہد اکٹھے کیے گئے ہیں لیکن مذکورہ مضمون میں تاریخی پس منظر کے حوالے سے عمیق گہرائی میں جانے کی کوشش نہیں کی گئی۔

اسلام آباد میں موجودCENTER FOR RESEARCH ON POVERTY REDUCTION & INCOME DISTRIBUTION ٰیعنی (CRPRID) ادارے کی حالیہ تجزیاتی رپورٹ میں پاکستان میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے تاریخی پس منظر کے حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے۔ مختلف کُنبوں کی آمدنی اور خرچ پر مبنی فیڈرل بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے سروے کی روشنی میں مرتب شدہ Gini Coefficients کے معیار پر تجزیہ ترتیب دیا ہے۔ 2003ء میں عالمی بینک کی کنبوں کی آمدنی اور خرچ (HIES) کے تخمینہ برائے 99ئتا1998ء کی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ دیہاتی علاقوں کی Gini Coefficient کی قیمت 0.25 رہی جبکہ شہری علاقوں کے لیے صرف 0.35 کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ فیڈرل بیور و آف سٹیٹسٹک آف پاکستان کے تخمینے کا ڈیٹا بھی کچھ اسی نوعیت کا تھا جس کی رو سے شہری تخمینہ 0.36 جبکہ 0.25 دیہاتی علاقے پر مبنی تھا۔ انور کا عدم مساوات کا اپنا ڈیٹا بھی Household income & Expenditure surveys یعنی HIES برائے سال 2001-02 ء کی بنیاد پر بنایا گیا تھا جس میں مذکورہ بالا سالوں میںGini Coefficient کو مستحکم بتایا گیا تھا۔ اس کے تخمینے کے مطابق شہری علاقوں میں اس کی شرح0.36 جبکہ دیہات کے لیے0.25 رہی اور یہ بعینہ وہی تخمینہ تھا جو کہ عالمی بینک نے 1998ء تا 99ء کے سالوں کے لیے تجویز کیا تھا۔

انور تسلیم کرتا ہے کہ Gini Coefficient پر بھی چند تحفظات ہیں اس کے بقول عدم مساوات اپنے انتہائی سروں پر چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتی وہ آمدنی کی غیرمساویانہ تقسیم کو مکمل آمدنی کے پیمانے پر جانچتا ہے جس کے مطابق غریب ترین کی شرح 2 فیصد درمیانی 60 فیصد اور امیر ترین کی سطح 20فیصد ہے یہ شرح پوری آبادی کے تناسب سے ہے پاکستان میں آمدنی کے اس غیر منصفانہ طریقہ کار کا تجزیہ کیا جائے تو محض 1990ء کی دہائی میں خاصی مخدوش صورت حال سامنے آئی مکمل تفصیل کے لیے نیچے دیا گیا میزانیہ نمبر (1) ملاحظہ کریں۔
 
1
شہری عدم مساوات میں انتہائی منفی رجحانات سامنے آئے ہیں 2001.02ء میں آبادی کے 20 فی صد امراء کے لیے کل آمدنی کا آدھا حصہ مختص تھا اس ڈیٹا کے مطابق دوسرے گروہوں میں بھی حیرت انگیز نتائج دیکھنے کو ملے شرح آمدنی میں جھکائو کا یہ عمل شہر کے متوسط 60فی صد پر تیزی سے ہوا جس میں اس گروپ کی آمدنی کی شرح 48.2 فی صد رہی جب کہ مذکورہ عشرے میں کل آمدنی کی شرح نمو 40.40فی صد رہی اس ڈیٹا سے یہ حقیقت بھی واضح ہوئی کہ غرباء کے 20 فی صد حصے میں کل آمدنی کا نہایت قلیل حصہ آیا اور ان کے حالات جوں کے توں رہے تاہم درمیانی طبقے کی آمدنی میں کمی کا رجحان رہا اور یہ خصوصاً دیہاتی علاقوں میں دیکھنے میں آیا۔

آمدنی کی غیر مساویانہ تقسیم میں توازن کے حوالے سے حالیہ دنوں میں کمال کا پالیسی ساز منصوبہ بھی سامنے آیا جس میں اس نے چار ایسے عوامل کی نشان دہی کی جو کہ آمدنی کی تقسیم کے اصل نگران ہیں۔ یہ ''اثاثوں کی تقسیم۔ جو کہ زرعی زمین کی غیر منصفانہ بانٹ فعال آمدنی کی تقسیم، یعنی شہری علاقوں میں روز مرہ کی آمدنی میں تفاوت اور دیہاتوں میں فارم اور غیر فارمی آمدنی میں بے قاعدگی ، آمدنی کی ترسیل۔ یعنی اندرونی اور بین الاقوامی، اور حکومتی ٹیکس اور اخراجات کا ڈھانچہ۔ جو کہ خاص طور پر بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کرتا ہے قطعی نا مناسب ہے۔ غیر مساویانہ آمدنی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے پالیسی سازی کے حوالے سے مزید چار اہم نقاط پر زور دیتا ہے۔ یعنی بنیادی ڈھانچے کے لیے زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری، بنیادی سماجی خدمات کی فراہمی ، روزگار کے مواقع کے علاوہ دولت اور خوراک کی فراہمی شامل ہے۔

پاکستان میں حالیہ غیر مساویانہ آمدنی کی تقسیم پر نظر ڈالیں تو Gini coefficient اور خاندان کی ضلعی یا علاقائی سطح کے حوالے سے کوئی تجزیہ نہیں ملتا تاہم پاکستان کے دیہی علاقوں میں زمین کی تقسیم کے معاملات پر کئی تحقیقی کام مکمل کیے گئے ہیں جو کہ اس خطے کی مکمل صورت حال کو واضح کرتے ہیں۔ انور کی حالیہ تحقیق جو کہ Pakistan Integrated Household Survey یعنی PIHS برائے سال 2001.02 کے ڈیٹا کی بنیاد پر تھی میں ملک کے بے زمین گھرانوں اور دیہی غربت کے درمیان تعلق تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس دستاویز کے مطابق 75 فیصد خاندان ایسے تھے جو کسی قسم کی زمین کی ملکیت سے عاری تھے جبکہ 23.9 فی صد خاندانوں کے پاس ایک ایکڑ سے بھی کم زمین تھی محض 0.02 خاندان 5 ایکڑ سے زائد زمین کے مالک تھے۔

اس تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ بے زمین گھرانوں میں غربت کی شرح نسبتاً بلند تھی صرف پنجاب میں بے زمین غریب خاندانوں کی تعداد 44.4 فی صد جبکہ اپنے خاندانوں کے تخمینے کے مطابق ایک ایکڑ سے کم زمین کے مالکان کی تعداد 26.2 فی صد رہی جبکہ سندھ اور بلوچستان میں صورت حال اور بھی مخدوش رہی سندھ کے بے زمین غریب خاندانوں کی فی صد تعداد 58.6 جبکہ صوبہ سرحدمیں یہ تعداد 65.40 فی صد تھی۔ پنجاب میں زمین کے مالکان اور آمدنی کی بنیاد پر Gini coefficient کا تخمینہ لگایا گیا جس کے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آئے۔

2

آمدنی یا اخراجات کی Gini کا موازنہ کیا جائے تو زمین کی ملکیت کے حوالے سے ماسوائے بلوچستان کے باقی تینوں صوبوں میں خاصے غیر مساوی نتائج دیکھنے کو ملے مصنف کے خیال میں یہ تمام صورت حال جامع رپورٹوں کی خامی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے جس میں زیادہ آمدنی والے کنبوں کی آمدنی کو ملخوظ خاطر رکھتے ہوئے آمدنی اور اخراجات کے Gini Coefficient کی مقدار کا تعین کیا گیا تھا جیسا کہ ڈیٹا کی رو سے زمین کی ملکیت کی Gini کاتناسب پنجاب میں بلند تھا اس کے بعد صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کا نمبر آتا ہے۔

پاکستان میں 1990ء کی دہائی میں آمدنی کی غیر مساویانہ صورت حال خاصی مخدوش رہی اور 2001.02ء کے درمیان تو شہری علاقوں میں یہ شرح خاصی بلند تھی۔ حالانکہ حالیہ تخمینے دستیاب نہیں ہیں تاہم خدمات کے سیکٹر میں 2002ء سے عدم مساوات اگر خراب نہیں ہوئی تو معدوم ہونے سے بمشکل بچی۔

پاکستان میں خدمات کے زمرے میں اضافے اور عدم مساوات کے حوالے سے گریفن اور خان نے خاصی بحث و تمحیص کی ہے۔ انھوں نے مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کی فی کس آمدنی میں تفاوت کو اجاگر کیا اور اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا کہ مذکورہ اقتصادی ترقی کی شرح میں فرق کی وجہ سے ہی مشرقی پاکستان کے لوگوںنے مغربی بازو کے خلاف فوجی بغاوت کی تھی۔

مشرقی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے سرمائے کا اصل بہائو محض 16 فی صد تھا اور یہ دورانیہ 1965 تا1968 کے درمیانی عرصے میں دیکھا گیا جبکہ اس عرصے کے دوران مغربی پاکستان میں یہ شرح 75 فی صد رہی۔ پارکنسن نے 1970ء کی دہائی کے شروع میں اجیر کی اصل آمدنی کے بڑھنے میں رکاوٹوں کا مشاہدہ کیا۔ رشیدہ پاٹل نے انصاف اور قانون کی راہ میں غیر مساویانہ برتائو کا تذکرہ کرتے ہوئے قانون کی غلط توضیحات اور شکست وریخت پر روشنی ڈالی۔

عدم مساوات کی اس طرح بھی تشریح کی جا سکتی ہے کہ معاشرے میں لوگوں کے گروہوں کے درمیان پائے جانے والی غیر مساویانہ تفریق جو کہ دولت، حیثیت اور مواقع کی بنیاد پر ہو، عدم مساوات کہلاتی ہے۔ یہ غیر مساویانہ فرق یا اونچ نیچ بالآخر متضاد رجحانات کی جانب ملتفت ہوتے ہیں۔ جس سے معاشرے میں احساس محرومی، نفرت اور کچھائو پیدا ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ یہی عوامل بالآخر بڑے اور سیاسی احتجاج اور افراتفری کا باعث بنتے ہیں۔

عموماً غربت اور عدم مساوات کو آمدنی کی تفریق اور غریب اور امیر کے درمیان معاشی فرق پر جانچا جاتا ہے۔ لیکن عدم مساوات محض معاشرے کے گروہوں، خاندانوں اور انفرادی سطح پر آمدنی کے فرق کا ہی نام نہیں بلکہ اس کی اور بھی کئی سمتیں اور وجوہات ہیں۔

عدم مساوات کے مضمون میں خاصا لٹریچر موجود ہے تاہم سادگی سے اسے دو اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی افراد کے درمیان عدم مساوات یا آمدنی کی غیر مساویانہ تقسیم اور چھوٹے گروہ جو کہ رنگ نسل کی بنیاد پر ہیں میں برابری کے فقدان کا عنصر۔

ایسے موقع پر یہ تشخیص کرنا کہ معاشرے میں عسکریت پسندی کا باعث کون سی وجہ ہے خاصا مشکل سوال ہے ۔ مار کسی نظریات کا پرچار کرنے والے لامحالہ اقتصادی حالات کو ہی موردِ الزام ٹھہرائیں گے۔ جب کہ اصلاح پسند یا آزاد خیال غیر مستحکم سیاسی حالات کو دوش دیں گے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی حالات دونوں ہی دگرگوں رہے جس کی وجہ سے معاشرہ عسکریت پسندی کی زد میں آ گیا۔

اس تحقیقی مقالے میں غیر مساویانہ رجحانات اور ان کے عسکری کارروائیوں سے روابط پر بحث کی گئی ہے جبکہ اہمیت کے لحاظ سے اقتصادی صورت حال اور آمدنی کی غیر مساویانہ تقسیم کو اجاگر کیا گیا ہے اور اس پر ہر پہلو سے روشنی ڈالی گئی ہے۔

علاقائی سطح پر پاکستانی معاشرے میں عدم مساوات کی وجہ سے پیدا ہونے والے بگاڑ کو عسکریت پسندی کا مرہون منت نہیں قرار دیا جا سکتا۔ زمین کے مالکانہ حقوق کے حوالے سے غیر مساویانہ تقسیم کی مثالیں صوبہ سرحد میں خاصی اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ ان دونوں صوبوں میں عسکری کارروائیاں عروج پر ہیں جبکہ پنجاب اور سندھ کے صوبوں میں آمدنی اور اخراجات کی بنیاد پر عدم مساوات کی شرح خاصی بلند ہے اور ابھی تک سندھ کے حوالے سے عسکریت پسندوں کی بھرتی کی کوئی قابل ذکر مثال سامنے نہیں آئی۔

تاہم خفیہ اور مکارانہ رابطوں سے انکار بھی ممکن نہیں۔ عسکریت پسندوں کا ایجنڈا نوجوانوں کو متاثر کرتا ہی ہے اور نسلی حوالے سے غیر منصفانہ تقسیم بھی جذبات اور غصے کو ابھارتی ہے۔ عسکریت پسندوں کے خدوخال کو پرکھتے ہوئے دیکھا گیا ہے کہ وہ اعلیٰ درجے کے تعلیم یافتہ اور نچلے متوسط طبقے کے نوجوان تھے وہ پاکستان میں حکومتی عملداری سے بھی شاکی تھی۔ 60 فی صد متوسط خاندانوں کو تجزیاتی سروے کی بنیاد بنا کر انور نے آمدنی کی مد میں انحطاط کو نوٹ کیا ہے۔

لیکن شاید وہ عدم مساوات جو کہ عسکریت پسندی کی راہ ہموار کرتی ہے اس میں دوسرے مخدوش عوامل بھی اپنا حصہ شامل کرتے نظر آتے ہیں۔

مثلاًطاقت کا بے جا استعمال اور وسائل پر اجارہ داری کی وجہ سے بھی عسکریت پسند تنظیمیں مضبوط ہوئی ہیں۔ پاکستان جیسے ملک میں اقتصادی نظام کمزور ہے مزید براں زمینوں کی تقسیم انتہائی غیر مساوی ہے اور تعمیری تعلیم تک رسائی نہایت محدود۔ اور سماجی کاموں کو عملی جامہ پہنانا ممنوع ہے سرمائے کی کمی یا ذاتی خوشحالی کے لیے مواقع جن میں بہتر تعلیم اور صحت سرِ فہرست ہے نہ ہونے کے برابر ہیں۔

تنظیمی استعداد جو قوتِ حیات کو منظم کرتی ہے اقتصادی طاقت کے لیے مواقعوں کی فراہمی کا فقدان اور اسی طرح اثاثوں کی ابتدائی اور غیر مساویانہ تقسیم غیر لچکدار ڈھانچے کی طرف رہنمائی کرتی ہے جو کہ عسکریت پسندی کی تشکیل کا موجب بھی بن سکتا ہے۔ پاکستان میں زمین کی تقسیم کے Gini coefficient سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سخت اور غیر لچکدار رویے بدرجہ اتم موجود ہیں اور خصوصاً دیہاتی علاقوں میں ان کا تسلسل دائمی ہے۔

اس مضمون کے ضمن میں کی جانے والی تحقیقات سے یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ عسکریت پسندی اور ناانصافی یا غیر مساویانہ روےّوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔1970ء کی دہائی میں سیگل مین اور سمپسن کی رپورٹ کے مطابق غیر معمولی اور دلچسپ ذخیرہ ادب جو قدیم یا جدید ہو یا نظریاتی اور تصوراتی ، نے اس خیال کو تقویت بخشی ہے کہ سیاسی عدم استحکام ہی اقتصادی ناہمواری کا باعث ہے انہوں نے اس ضمن میں ارسطو، میڈیسن، اینگلز، کوسر اور ڈیوس کے اقوال بھی نقل کیے ہیں ارسطو کے نزدیک عدم مساوات یا غیر برابری ہی کسی انقلاب کی آفاقی اور اہم وجہ بنتی ہے۔ ارسطو نے اپنی شہرہ آفاق کتاب "The Politics" میں لکھا ہے کہ ''عمومی بغاوت'' ایسی برابری کی بنیاد پر ہوتی ہے جو کہ کم تر اور بہتری کے معیار پر قائم ہے۔ میڈیسن کی رائے میں جائیداد کی غیر مساویانہ تقسیم ہی سیاسی تنازعات کا اہم اور مستقل نقطۂ ارتکاز ہے۔ اینگلز کے خیال کے مطابق اگر سیاسی ڈھانچہ، سماجی اقتصادی حالات کے موافق نہ ہو تو نتیجہ سیاسی ابتری کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔ کوسر کہتا ہے ''بنیادی طور پر سیاسی اقتصادی عدم مساوات کی پیداوارہی تنازعات کی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ جبکہ ڈیوس بھی ارسطو کے انقلابی نظریے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ آمدنی یا دولت کی غیر مساویانہ تقسیم انتہائی درجے کی غیرہمواری اور ناراضگی کا باعث بنتی ہے جو بالآخر کسی تحریک کا راہ ہموار کرتی ہے۔

بلائواینڈ بلائو اور اسٹیفن سمیراینڈ ہیئرر نے بھی اپنے دلائل دئیے ہیں وہ کہتے ہیں۔''بڑھتی ہوئی اقتصادی ناہمواری کا میکانکی نظام تنازعات اور عدم برداشت کو ہوا دینے کا موجب بنتا ہے۔'' ماٹنیز نے امریکہ میں لاطینی قومیتوں کے درمیان مہلک تنازعات کی وجوہات اور تشکیل پر غور کیا ہے اس نے 111 شہروں پر مشتمل تجزیاتی ڈیٹا اکٹھا کیا اور جب اس نے ماضی کے محرکات سے ان کا موازنہ کیا تو اس کے اس خیال کو تقویت ملی کہ اقتصادی عدم مساوات نے ہی امریکہ میں تنازعات کو ابھارنے میں مدد دی۔ تجربات اور نظریات کی روشنی میں کریمر نے اپنے تجزیاتی نوٹ میں لکھا کہ اقتصادی عدم مساوات ان تین عوامل میں سب سے اہم تھے جنہوں نے امریکی نوجوانوں میں عدم استحکام میں اضافہ کیا۔ لوٹ مار کا موجب بننے والے اقتصادی تشدد کے متعلق اس کی رائے درج ذیل تھی۔

''مالی یا مادی مقاصد کے لیے ہر ذریعہ جائز تصور کیا جاتا ہے امریکی معاشرے میں مالیاتی حصول کے لیے خاصا ثقافتی دبائو ہے۔ اور مالی دبائو کا شکار امریکی نوجوان جائز ذرائع سے متنفر ہو کر اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ناجائز ذرائع کی جانب جھکائو رکھتے ہیں۔''

یہ دلائل اس معاشرے کے لیے نہایت مناسب اور موزوں خیال کیے جاتے ہیں جہاں اقتصادی عدم مساوات موجود ہو پاکستان کے مختلف حصوں میں عسکریت پسندوں کی موجودگی خصوصاً کراچی میں غیر قانونی سرگرمیاں کچھ ایسے ہی روےّوں کی غماز ہیں۔

ویڈز کے نظرئیے کے تحت ''آمدنی میں عدم مساوات ہی محرومیوں کی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے اور اوسط درجے سے زائد آمدنی والے لوگوں میں متشدد عوامل کے خلاف خاصا مضبوط تاثر پایا جاتا ہے جو کہ مختلف نوعیت کی ریسرچ سے ثابت بھی ہو چکا ہے'' ویڈز اختتامی نوٹ میں لکھتا ہے کہ ''زائد اوسط آمدنی پُر تشدد کارروائیوں سے کم سے کم علاقہ رکھتی ہے جیسا کہ اس ضمن میں سب سے کم شرح اموات کے اعداد و شمار سے جانچا جا چکا ہے''۔ وہ مزید لکھتا ہے گو کہ تشدّد کی وضاحت کرتے ہوئے میرے نتائج نسبتاً محرومیوں کی زیادہ حمایت نہیں کرتے لیکن اسے یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔'' دوسری جانب ایک اور تحقیق میں ویڈز نے 1960ء کی دہائی کے دوران مزید ڈیٹا اکٹھا کیا جس میں 47کے قریب قوموں کو شامل کیا گیا تھا اور اس میں اس بات کی وضاحت کی گئی تھی کہ عدم مساوات تشدد کی راہ میں حصہ دار نہیں ہے۔

ملک یا ممالک کے اندر آبادی کی بنیاد پر فی کس آمدنی یا فی گھرانہ آمدنی کے درمیان فرق بھی عسکریت پسندی کے عوامل میں ایک اہم جزو تصور ہوتا ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر اس نظرئیے کو آزمایا بھی جا چکا ہے۔عالمی طور پر شمال اور جنوب میں مضبوط تفاوت پایا جاتا ہے کیگلے اور وٹکوف دلائل دیتے ہیں کہ یہ اختلافات بین الاقوامی برادری میں تشویش کا باعث بنتے ہیں اور اس وقت عالمی منظر نامے میں سب سے اہم مسئلہ بھی یہی ہے۔ کئی ماہرین امیر ملکوں کو تیسری دنیا کے ممالک میں موجود بدامنی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔ یہ نظریہ ایک دوسرے پر بھروسے کی اساس پر قائم تھا جبکہ دنیا کا نظام اس سے مختلف ہے۔

تیسری دنیا میں دیہاتوں میں پایا جانے والا زمینوں کا غیر مساویانہ اور ناہموار تقسیم کا نظام بھی کلیدی کردار کا حامل ہے روزیٹ کے بقول زمین کے مالکانہ حقوق میں غیر مساویانہ روےّوں اور سیاسی تشدد آمیز واقعات میں گہرا ربط ہے۔سیاسی ذرائع کی تقسیم اور حصول کے ساختی ڈھانچے میں فرق سے سیاسی عدم مساوات کی جانب اشارہ ملتا ہے حالانکہ آئینی طور پر تمام شہری سیاسی حوالے سے برابری کے فوائد کے حقدار ہیں لیکن عملی طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ عموماً امرا کا طبقہ یا بااثر افراد ہی طاقت ور ہوتے ہیں۔ یہ غیر رسمی اور غیر مساویانہ روےّے پاکستان کے سیاسی ڈھانچے میں گہرائی تک اپنی جڑیں پھیلا چکے ہیں۔ اور لوگوں کی اکثریت طاقت سے محروم اور حکومت سے دور ہے۔

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ممبران بھی سماجی عدم مساوات کا شکار ہیں لوگوں کی اکثریت انہیں گھٹیا تصور کرتی ہے اور بسا اوقات ایسے محسوسات ہی انہیں عدم برداشت اور پُر تشدد کارروائیوں کے اتھاہ سمندر میں دھکیل دیتے ہیں۔ پڑوسی ملک ہندوستان میں بھی ایسا ہی نظریہ فروغ پا چکا ہے جہاں قومیتوں کے درمیان پُرتشدد واقعات کا وقوع پذیر ہونا آئے دن کا معمول بن چکا ہے۔ قبائلی علاقوںمیں سکھ قوم کا طالبان کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کا حالیہ واقعہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور اکثر اوقات متاثر ہونے والے افراد اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ پر امن رہنے سے وہ اپنا وجود باقی نہیں رکھ سکیں گے اس طرح وہ یہ سوچنے پر مجبور کر دئیے جاتے ہیں کہ ان کی بقا کا راز عسکریت پسندی اورپُر تشدد کارروائیوں میں مضمر ہے۔

پاکستان میں تعلیم کے مروجہ اختلافی نظام سے مواقع کی غیر مساویانہ تصویر نظروں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔ ذہین ترین طلبا جو غریب پس منظر سے ابھر کر سامنے آتے ہیں ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ پبلک سیکٹر میں قائم اردو اور علاقائی زبانوں میں تعلیم دینے والے اداروں میں تعلیم حاصل کریں کیونکہ انگلش میڈیم اسکول ان نادار طلبا کی پہنچ سے دور ہوتے ہیں ان اسکولوں کی معیاری تعلیمی قابلیت کی وجہ سے بیوروکریسی کے مقابلے کے امتحانات میںاوپر کے طبقے کے نوجوان نمایاں کامیابی حاصل کرتے ہیں مقابلے کے ان امتحانات میں انگریزی بولنے اور لکھنے والے امیدواروں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اس طرح اردو میڈیم کے اداروں سے کامیاب طلبا کی برابری کی بنیاد پر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔

مواقع کے لحاظ سے عدم مساوات کی ایک اور مثال شہر اور دیہات کی تقسیم کی بنیاد پر بھی ہے۔ پاکستان میں شہری اور دیہاتی زندگی دو مختلف قطبین کے فاصلوں پر واقع ہے۔ دیہی علاقوں میں تعلیم، صحت اور دوسری سہولیات زندگی نہ ہونے کے برابر ہیں یا ٹاواں ٹاواں وجود رکھتی ہیں جبکہ یہی دیہات 80 فی صد کے قریب مزدور اور کارکنوں کی فورس مہیا کرتے ہیںجبکہ دیہاتی آبادی سمجھتی ہے کہ شہری لوگ ان کی خدمات کے صلے کا تمام پھل خود ہڑپ کر جاتے ہیں اس طرح یہ نظرانداز کیا جانے والا طبقہ شدید ناانصافی کا شکار نظر آتا ہے۔ دیہاتوں کے رہنے والے شہریوں کی دولت، روےّوں اور زندگی کی سہولتوں سے شاکی نظر آتے ہیں اس طرح بے روزگار دیہاتی نوجوان جلد ہی عسکریت پسندوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

امریتاسین نے بلحاظ جنس سات اقسام کی غیر مساویانہ روےّوں کی نشاندہی کی ہے جو کہ بنیادی سہولتوں کی عدم مساوات، محضوص مواقع کی عدم مساوات، پیشہ وارانہ عدم مساوات، مالکانہ حقوق کی عدم مساوات اور خاندانی روایت کی عدم مساوات پر مشتمل ہیں۔ وہ برملا کہتا ہے کہ مختلف اقسام کے یہ غیر مساویانہ روےّے اکثر مسائل کا سبب بنتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان میں جنسی تفریق بدرجہ اتم موجود ہے۔ پرائمری اسکولوںمیں زیر تعلیم طلباء کی تعداد طالبات سے 30 فی صد سے زائد ہے۔ نسوانی حقوق کے ماہرین کی رائے میں 1979 ء میں نافذ کیا جانے والا حدود آرڈنینس پاکستان کی تاریخ کا بدترین امتیازی قانون تھا۔

پاکستانی معاشرے میں خواتین برابری کے حقوق سے محروم ہیں۔ چاہے وہ تعلیمی میدان ہو، ملازمتوں کا میدان ہو، کاروبار ہو یا ثقافتی شعبے ہوں ہر جگہ ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ وہ سماجی اور ثقافتی شعبوں میں برابر کے مواقع سے بھی محروم ہیں۔ ان سماجی تبدیلیوں میں کوتاہیوں کے ارتکاب کے نتیجے میں پاکستانی خواتین مردوں کی نسبت زیادہ دقیانوسی پن کا شکار ہیں اور وہ ان فرسودہ نظریات کی مردوں میں بھی تخم ریزی کرتی ہیں۔ یہ پسماندگی بالآخر انھیں افراتفری اور عسکریت پسندی کی جانب دھکیل دیتی ہے اور یہ سچ ہے کہ مائیں، بہنیں اور بیویاں اپنے مرحوم عسکریت پسند رشتہ دار پر فخر محسوس کرتی ہیں اور اسے ہیرو کا درجہ دیتی ہیں۔

اس مضمون میں غیر مساویانہ روےّوں کے اسباب اور عوامل پر بحث نہیں کی گئی بلکہ یہ غیر مساویانہ اشکال اور عسکریت پسندی کے درمیان باہمی روابط کے گرد احاطہ کرنے کی کوشش ہے۔ عسکریت پسند جنہوں نے حکومت کے لیے مختلف مسائل کھڑے کیے ہیں وہ مغربی دنیا کے خلاف شدید نظریات رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ مسلم دنیا کے خلاف سازشوں میںملوّث ہیں۔ اور وہ انہیں سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی محاذوں پر مصروف عمل دیکھتے ہیں۔ مسلم دنیا اور غیر مسلم ممالک کے درمیان اور ترقی یافتہ ممالک کے اسلام مخالفت اقدامات نے بھی پاکستان اور دوسرے لوگوں میں عسکریت پسندی اور افراتفری کو پھیلانے میں مدد دی ہے ان عسکریت پسندوں کی رائے میں مغربی طاقتوں کی اسلام مخالف سیاست نے امیر اور غریب کے درمیان تفاوت کو بڑھایا ہے۔

مغربی ممالک کے سیاسی ہتھکنڈوں کے ساتھ ساتھ ان کے ترقیاتی اداروں اور کار پوریشنوں کو بھی ترقی پذیر حکومتوں کے اقتصادی ڈھانچے کو کمزور کرنے کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ لندن اور روبنسن دونوں برونشہر اور چیزڈون کا حوالہ دیتے ہوئے ان سے اتفاق کرتے ہیں کہ ترقی پذیرریاستوں میں ان نجی تنظیموں کے عمل دخل سے دولت کی غیر مساویانہ تقسیم عمل میں آئی ہے۔ کارپوریشنیں اور تنظیمی ادارے جو کہ ان پسماندہ ممالک میں اپنا عمل دخل بڑھاتے ہیں وہ رائج شدہ اجرت سے زائد مزدوری ادا کرتے ہیں جو کہ ان کے ملازمین اور دوسرے شہریوں میں تفریق میں اضافے کا موجب بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام عسکریت پسند گروہوں کے لیڈر مغربی طاقتوں پر نقطہ چینی کرتے ہیں کہ وہ دوسرے ممالک کا دولت اور طاقت کے زور پر استحصال کرتے ہیں تاکہ وہاں کے اقتصادی اور سیاسی نظام کو اپنی دسترس میں رکھ سکیں ان استحصالی قوتوں کے مقابلے میں پھر کیسا روےّہ اپنایا جا سکتا ہے۔ عسکریت پسند تنظیموں کے رہنما کہتے ہیں کہ خارجی لوگ ہمارے مفادات کو نقصان پہنچانے سے نہیں چوکتے جواباً ہم بھی مغربی طاقتوں اور ان کے شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

اختتامیہ
مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں اور مذکورہ تحقیق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کا بنیادی سبب عدم مساوات ہے۔ مزید براں یہی وہ بنیادی عوامل ہیں جو ملک میں لاقانونیت کو فروغ دیتے ہیں۔ پاکستانی ریاست اور معاشرہ عدم مساوات جیسے مسائل سے نمٹنے میں بری طرح ناکام رہا ہے اور یہ لوگوں میں احساس محرومی کا باعث بنا ہے۔ انصاف کے جلد حصول کے لیے شکایت اور ملک میں عدالتی نظام میں خرابیاں اور رکاوٹوں جیسے عوامل نے حکومت کو طالبان کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا اور اسے سوات میں ''نظامِ عدل ریگولیشن'' نافذ کرنا پڑا۔

عدم مساوات کا شکار ہونے والے چاہے اقتصادی ، سماجی، سیاسی، قانونی یا کسی اور میدان میں ہوں وہ بالاآخر ان تمام شعبوں کو انحطاط پذیر کر دیتے ہیں اور معاشرہ عدم استحکام سے دو چار ہو جاتا ہے اور پھر یہ حالات انہیں اپنے نظام کے خلاف باغیانہ اقدامات پر اکساتے ہیں جو آخر کار عسکریت پسندی کا موجب بنتا ہے جبکہ پُرامن معاشرے اس لیے پُرامن کہلاتے ہیں کہ ان کا معاشرتی ڈھانچہ سیاسی، قانونی اور معاشی لحاظ سے برابری کے ستونوں پر قائم ہوتا ہے۔

(انگریزی سے ترجمہ: انجینئر مالک اشتر)