Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
جنگ کیسے جیتی جائے |
پیٹر برگن
یہ تاثر عام ہے کہ افغانستان فتح کی نیت سے آنے والی دوسرے ملکوں کی افواج کے لیے ہمیشہ قبرستان ثابت ہوا۔ دورِ برطانیہ سے آج تک اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں جن میں سے تازہ مثال افغانستان میں روسی افواج کی آمد اور ان کی عبرت انگیز شکست ہے۔ اب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ افغانستان اوباما کا ویت نام ثابت ہو گا۔ یہ بات کہنے والے حلقوں میں بعض آوازیں خود امریکی عوام کی ہیں۔ 2002ء تک 6 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ یہ جنگ ایک امریکی غلطی تھی۔ اب ایک حالیہ سروے کے مطابق 42 فیصد لوگوں نے اسے فاش غلطی قرار دینا شروع کر دیا ہے۔ امریکی میڈیا بھی اس سلسلے میں لوگوں کا ہم آواز ہے۔ امریکی اور نیٹو کی افواج کی موجودگی میں افغانستان اور پاکستان میں القاعدہ اور طالبان کی جانب سے شورشوں نے بھی ان امریکی عوامی خیالات کو تقویت پہنچائی ہے۔ آپ کی رائے اس بارے میں کیا ہے؟ شاید یہ مضمون پڑھنے کے بعد آپ اپنے خیالات پر نظرثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ (مدیر) |
گذشتہ برس اپنی انتخابی مہم کے دوران صدر بارک اوباما مسلسل یہ کہتے رہے کہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ پاک افغان بارڈر پر ہو رہی ہے۔ اور اب گویا وہ اپنے وعدوں کے مطابق طالبان اور القاعدہ کی بساط لپیٹ رہے ہیں۔ اس سال کے آخر تک افغانستان میں 70ہزارامریکی فوجی ہوں گے جس کی وجہ سے اوباما کی حکومت کو افغانستان اور پاکستان کے لیے اربوں ڈالر کا اضافی خرچ اٹھانا پڑ رہا ہے۔
اس صورتحال نے ڈیموکریٹک پارٹی میں بعض لوگوں کو سراسیمگی کا شکار کر دیا ہے۔ مئی کے مہینے میں 51 ہائوس ڈیموکریٹس نے افغانستان کی جنگ کے لیے مسلسل فنڈنگ کی مخالفت میں ووٹ دئیے ہیں ۔ ڈیوڈ اوبے ہائوس اپروپری ایشنز کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ یہ کمیٹی وفاقی اخراجات کو کنڑول کرتی ہے۔ ڈیوڈ اوبے نے کہا ہے کہ وائٹ ہائوس کو افغانستان کے معاملے میں واضح نتائج دکھانے ہوں گے اور وہ بھی ایک سال کی مدت کے اندر، وگرنہ وہ فنڈز کی سپلائی روک دیں گے۔ اگر اوباما کی اپنی پارٹی کے لوگوں کا یہ روےّہ ہے تو پھر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اگر اوباما کی افغانستان اور پاکستان سے متعلق حکمت عملی ناکام ہوئی تو ریپبلکن پارٹی والے کیا ردّ عمل ظاہر کریں گے جبکہ وہ پہلے ہی 2010ء میں مڈٹرم الیکشن کی باتیں کر رہے ہیں۔
صرف سیاستدان ہی اس صورتحال پر بے چینی کا اظہار نہیں کر رہے بلکہ امریکہ میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق 42 فیصد لوگوں نے رائے دی ہے کہ یہ جنگ امریکہ کی غلطی ہے جبکہ 2002ء میں صرف 6 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ یہ جنگ ایک غلطی ہے۔ اس جنگ کی صورتحال کو میڈیا نے خواہ مخواہ اہم بنا دیا ہے۔ نیوز ویک نے اپنے جنوری کے شمارے میں ایک ایسا مضمون شامل کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ افغانستان اوباما کے لیے ویت نام ثابت ہو گا۔ ایسے ہی نیویارک ٹائمز نے مختلف لوگوں کی آراء کو جن سرخیوں کے تحت شائع کیا ہے ان میں یہ شامل ہیں۔ ''اچھی جنگ لڑنا ضروری نہیں ہے۔'' اور ''افغانستان ایک اور دلدل ہو سکتاہے۔'' اوباما کی افغانستان میں کامیابیوں کو اب بڑے پیمانے پر تشکیک کی نظروں سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ گذشتہ چند دہائیوں میں جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں لا حاصل مہم جوئی، غلط اعدادو شمار کا حصول اور دونوں ممالک کی تاریخی حیثیت کو قرار دیا جا رہا ہے۔ نہ تو افغانستان اوباما کا ویت نام ہو گااور نہ ہی عراق بلکہ اس بات کا غالب امکان ہے کہ مزید کمک بھیجنے سے افغانستان بروقت سینٹرل ایشیا میں ایک مستحکم اور خوشحال ریاست کی صورت میں ابھرے گا۔
اوباما کی افغانستان سے متعلق پالیسی پر اعتراضات اس لیے بھی شروع ہو گئے تھے کہ افغانستان بہت سی حکومتوں کے لیے قبرستان ثابت ہوا ہے۔ 1842ء میں برطانوی مہمات اور 1978ء میں روسی جارحیت کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ امریکہ کو بھی افغانستان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومتیں کوئی بھی ہوں سکندر اعظم سے سولہویں صدی میں عظیم مغل فرمانروا بابر تک یا پھر انگریزوں کی دوسری افغانستان جنگ جو شکست کے تین دہائیوں بعد ہوئی۔ ان مہم جوئیوں نے افغانستان میں فتوحات دیں۔ اب سلطنتوں کا قبرستان بننے والی بات شاید فرسودہ ہو چکی ہے۔
روسیوں نے تقریباً ایک دہائی تک افغانستان پر جنگ مسلط رکھی۔ اور تاریخ میں اپنے نام ایک اور ذلت کا اضافہ کرکے واپس چلے گئے۔ لیکن افغانستان میں روسی جارحیت سے موجودہ امریکی جنگ یکسر مختلف ہے۔ روس نے اس جنگ کے دوران 10 لاکھ سے زائد افغانوں کا قتل کیا اور 50 لاکھ سے زائد لوگوں کو ہجرت پر مجبور کیا۔ اس صورتحال نے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کو جنم دیا۔ روس کی جارحیت نے افغانستان کو بارودی سرنگوں کے حوالے سے دنیا میں پہلے نمبر پر لاکھڑا کیا ۔اکثر بارودی سرنگیں کھلونا نما بموں پر مشتمل ہوتی تھیں۔ روسی فوجی اکثر غیر تربیت یافتہ اور غیر مہذب ہوتے تھے جنہیں جبری طور پر فوج میں بھرتی کیا گیا ہوتا تھا۔ یہ لوگ شراب پینے ، منشیات کے استعمال اور لوٹ مار میں مگن رہتے تھے۔ مختصراً یہ کہ روسی حکمت ِ عملی اس حکمت عملی سے یکسر مختلف تھی جو شورشوں کو دبانے کے لیے کامیاب انداز سے اپنائی جاتی ہے۔
نتیجتاً روسی جارحیت نے افغانستان میں نسلی اور گروہی تعصبات کو جنم دیا اور تاجک، ازبک، پشتون اور ہزارہ کے علاوہ مُلاّ، شہری، بابو اور کسانوں کے الگ الگ گروہ بن گئے۔ اور اب موجودہ بغاوت کرنے والے افغان دیہی پشتون ہیں جنہیں شہروں اور دوسرے گروہوں سے کم سے کم حمایت حاصل ہے۔آج کی صورتحال پہلے سے مختلف ہے۔ آج لڑنے والے طالبان کی تعداد اگر 20,000 ہے تو روس سے جنگ کے وقت 250,000 تعداد تھی ۔ موجودہ تعداد گذشتہ جنگ کا 10 فیصد ہے۔ اگرچہ آج کے طالبان کو منشیات کی فروخت کے کاروبار سے مالی معاونت ملتی ہے لیکن یہ اس قدر نہیں ہے جو سوویت یونین کے خلاف لڑنے والوں کو مالی اور فوجی امداد کی شکل میں 1980ء کی دہائی کے دوران ملتی تھی۔ مجاہدین کو اربوں ڈالر کی امریکی اور سعودی امداد پاکستان کے ذریعے وسیع البنیاد عسکری تربیت اور جدید امریکی اسلحہ ملتا رہا ہے۔ اس اسلحہ میں اینٹی ائیرکرافٹ سٹنگر میزائل بھی شامل تھے جنہوں نے روسی فضائی طاقت کی کمر توڑ دی تھی۔
یہ کہنا کہ افغانستان ناقابل فتح ہے یہ معنی رکھتا ہے کہ اس خطے پر حکومت اور حکمرانی کرنا مشکل ہے۔ یہاں کے لوگ شورشوں اور بغاوتوں کے ایک ایسے کلچر میں ڈھلے ہیں کہ پرامن مغربی انداز کی حکومت ان کے لیے ناقابل قبول ہے۔ ہتھیار پشتون معاشرے کا لازمی جزو ہیں۔ دشمن داری ان کی روایت ہے۔ اسی لیے کزن (چچا زاد) کا لفظ اور دشمنی کا لفظ ان کے لیے ہم معنی ہیں۔ لیکن تشدد کی سطح افغانستان میں اتنی بلند نہیں ہے جتنا کہ امریکہ میں عام خیال کیا جاتا ہے۔ افغانستان میں 2008ء کے دوران طالبان اور اتحادی فوجوں کے ہاتھوں 2000 شہری ہلاک ہوئے لیکن یہ عراق کے مقابلے میں ایک چوتھا ئی سے بھی کم ہے۔ جہاں گنجان آبادی بھی نہیں ہے اور عام خیال یہ ہے کہ اس پر حکمرانی بھی نسبتاً آسان ہے۔ (عراق میں تشدد کی کارروائیوں کے عروج کے زمانے میں ماہانہ 3200 افراد ہلاک ہوتے تھے جو آج کے افغانستان سے 20گنا زیادہ تعداد تھی)۔ افغان باشندے عراق کی نسبت امریکی کنڑول میں زیادہ محفوظ ہیں۔ افغانوں کی جانیں بھی 1990ء کی دہائی کے امریکیوں کی نسبت زیادہ محفوظ ہیں جب امریکہ میں ہر سال 24,000 قتل ہو جایا کرتے تھے۔
یہ نظریہ کہ افغانستان اب ایک قوم کی شکل میں نہیں ابھر سکتا زیادہ سخت روےّے پر مبنی ہے۔ اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ افغانستان میں عدالتی نظام کے تحت افغانستان، اٹلی اور جرمن کی نسبت زیادہ پرانی قوم ہے۔اٹلی اور جرمن جو انیسویں صدی میں اکٹھے تھے۔
جدید افغانستان کی داغ بیل 1747ء میں احمد شاہ درانی کے اقتدار سے پڑی۔ اور اس طرح سے بھی یہ ایک قدیم قوم ہے۔ اس طرح افغانیوں کے اندر قومیت کا بھر پور احساس پایا جاتا ہے۔
اس عرصے میں مرکزی حکومت اکثر کمزور رہی ہے۔ 1933ء سے 1973ء تک افغانستان پر آخری بادشاہت ظاہر شاہ کی تھی جس نے اگرچہ میانہ روی کے ساتھ حکومت کی لیکن آج بھی تمام افغانی اس کے دور حکومت کے دوران امن اور خوشحالی کی تعریفیں کرتے ہیں۔ آج صدر حامد کرزئی کو بھی مرکزی حکومت کی کمزوری کا مسئلہ درپیش ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ صدر حامد کرزئی اپنی حکومت میں موجود مبینہ کرپشن کو یا تو ختم نہیں کرنا چاہتے یا ان میں اسے ختم کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی۔ ان کے بارے میں ایک لطیفہ یہ مشہور ہو گیا ہے کہ انہیں صرف کابل کا میئر کہا جاتا ہے۔ یہ خیال بڑی حد تک درست ہے لیکن یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ حامد کرزئی کسی حد تک پاپولر لیڈر بھی ہیں۔ 52فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ کرزئی اچھا کام کر رہے ہیں۔ صرف 15فیصد کا ہے کہ وہ ٹھیک کام نہیں کر رہے۔ لیکن اس سے زیادہ لوگ تو امریکہ میں اوباما کے بھی خلاف ہیں یوں بھی دیکھا جائے تو حامد کرزئی 8سالوں سے عہدہ صدارت پر متمکن ہیں افغانی ویسے بھی بڑے جوش و خروش سے حکومتی معاملات میں دلچسپی لیتے ہیں۔ 2004ء کے الیکشن میں 80فیصد سے زائد افغان باشندوں نے انتخابات میں ووٹ ڈالا 19ویں صدی کے اواخر سے امریکہ میں بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگ ووٹ نہیں ڈالتے۔
افغانستان پر حکومت کرنا اگر ممکن نہیں ہے تو پھر یہ کہنا کہاں تک درست ہو گا کہ افغانستان میں جنگ امریکہ کے لیے ویت نام والے نتائج کی حامل ہو گی۔ شاید ہی ایسا ہو۔ ہاں اتنی بات مشترک ہو سکتی ہے کہ طالبان ہوں یا ویت نام دونوں امریکہ فوج کے مخالف ہیں۔ اب 20ہزار طالبان کے لیے تو افغانستان کے ایک قصبے پر قبضہ کرنا بھی مشکل کام ہے۔ عسکری قوت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو وہ کسی بڑے حملے کے متحمل نہیں ہیں نہ ہی جنگی حکمت عملی میں انہیں کوئی مہارت حاصل ہے۔ دیکھا جائے تو ویت نام کی جنگ کے دوران ویت کونگ اور شمالی ویت نامی فوج کی تعداد 5لاکھ سے زیادہ تھی جن کے پاس توپخانہ اور ٹینک تھے اور انہیں سوویت یونین اور مائو نواز چین کی بھر پور حمایت حاصل تھی اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد اس سے بہت کم تھی۔ گذشتہ برس افغانستان میں 154امریکی فوجی ہلاک ہوئے جو طالبان کے خروج کے بعد سے اب تک سب سے زیادہ تعداد ہے۔ دوسری طرف 1968ء میں ویت نام کی جنگ کے دوران اتنی ہی تعدادمیں امریکی فوجی 4 دنوں میں ہلاک ہوتے تھے۔ ویت نام میں شہریوں کی ہلاکت لاکھوں میں تھی جبکہ افغانستان کے شہریوں کی ہلاکت کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی مداخلت پر وہ خرچ کبھی نہیں اٹھا جو ویت نام میں ہواتھا۔ دراصل اب تک امریکی مہم جوئی کے وہ نتائج بھی سامنے نہیں آئے جو وہ توقع کر رہے تھے۔ ویت نام کی جنگ کے دوران امریکہ اپنے جی ڈی پی کا 10 فیصد عسکری اخراجات کی نذر کر دیتا تھا۔ آج امریکہ کے عسکری اخراجات جی ڈی پی کے 4 سے 5 فیصد تک ہیں۔ اور اس سارے خرچ میں گذشتہ برس افغانستان پر صرف 6 فیصد خرچ ہوا جبکہ عراق پر خرچ اس 5گناہ زیادہ ہوا۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ ویت نامیوں اور عراقیوں کے برعکس افغانستان کے لوگوں نے بڑی حد تک عالمی طاقتوں کی موجودگی کو قبول کر لیا ہے۔ 1905ء میں جب طالبان کے خروج کو 4سال ہو چکے تھے 10 میں سے 8 افغانیوں نے BBC/ABC کی رائے دہی میں امریکہ کے حق میں ووٹ دیا۔ اور اپنے ملک میں بیرونی فوجوں کی موجودگی کو بھی اتنی ہی تعداد میں لوگوں نے پسند کیا۔ افغانستان میں حالیہ برس منعقد ہونے والے ایک سروے کے مطابق اب افغانی امریکی مداخلت کو قبول کر چکے ہیں۔ یہ تعداد اس سے زیادہ ہے جو امریکہ دوسرے ملکوں میں بھی حاصل کرتا ہے۔ (لبنان میں نہیں)۔ افغانوں کی بڑی تعداد اپنے ملک میں دوسرے ملکوں کی افواج کی موجودگی کو قبول کر چکی ہے۔ افغانی نہیں کہتے کہ امریکہ یا دوسرے ملکوں کے لوگ چلے جائیں۔ لیکن ان کے نزدیک اپنے وعدوں کے مطابق مڈوائف جیسی تربیت کے ذریعے بھی ملک کو خوشحال بنایا جا سکتا ہے۔ افغانستان کے بارے میں اوباما کی پالیسی پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یا تو وہاں امریکی اپنے عزائم میں کمی کریں یا پھر وہاں سے مکمل طور پر نکل جائیں۔
مختصراً دلیل یہی ہے کہ امریکہ پہلے بھی دو مرتبہ ایسا کر چکا ہے اور اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 1989ء میں CIA کی تاریخ میں ایسا ہوا کہ افغانستان میں انہوںنے روسیوں کو شکست دینا چاہی اور اور جارج ایچ ڈبلیو بش کی حکومت نے کابل میں اپنی ہی ایمبیسی بند کر دی۔ پھر کلنٹن کی حکومت نے دنیا کے غریب ملک میں امداد بھیجنا بند کر دی۔ 1990ء کی دہائی میں افغان سول وار کے نتیجے میں طالبان سامنے آگئے جنہوں نے القاعدہ کو متبرک بنا دیا۔2001ء میں دوسرے بش کی حکومت نے طالبان کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ افغانستان ایک غریب ملک ہے جسے کم سے کم نقصان پہنچنا چاہیے۔ اب افغان فوج کا مسئلہ تھا جو طالبان کے ظہور کے 2سال بعد بھی صرف 5000 افراد پر مشتمل تھی۔ اتنی تو ایک امریکی شہر ہیوسٹن کی پولیس کی تعداد ہوتی ہے۔ 2001ء کے بعد کہیں سے نئے طالبان نکل آئے جنہوں نے القاعدہ کے زیر اثر خود کش حملے شروع کر دئیے۔ IED آپریشنز ، قید، سرقلم کرنا اور ویڈیو کے ذریعہ مہمات کا آغاز ہوا۔ (جبکہ 9/11 سے پہلے کے طالبان نے تو ٹیلی ویژن پر پابندی عائد کر دی تھی)۔
ہم حسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے یہ کیوں سوچیں کہ اوباما کی طرف سے فوج اور مالی امداد کی فراہمی سے بہتری کے امکانات پیدا ہوں گے۔ یہ تو سوچا جا سکتا ہے کہ خود افغانستان کے لوگوں اور شورشوں کے خلاف بغاوت کا مرکز ہونے کی وجہ سے ہماری کامیابی کے امکانات زیادہ ہیں۔ BBC/ABC کے سروے کے مطابق 58فیصد افغان عوام نے یہ رائے دی ہے کہ صرف 7فیصد لوگ طالبان کے حق میں ہیں جو ان کے ملک کے لیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہو رہے ہیں۔ جبکہ 8 فیصد لوگوں نے کہا ہے کہ خطرہ امریکہ سے ہے۔
کچھ اور مثبت اشارے بھی ملتے ہیں۔ مہاجرین اپنے ان علاقوں کو واپس نہیں جاتے جہاں انہیں روشن مستقبل نظر نہ آتا ہو اور طالبان کی شکست کے بعد 40 لاکھ افغان مہاجرین اپنے گھروں کو واپس چلے گئے ہیں۔ (اس کے برعکس اتنی ہی تعداد میں عراقی مہاجرین نے 2003ء میں اپنا گھر چھوڑا مگر کم ہی واپس گئے ہیں)۔ 20 لاکھ افغان بچے سکولوں میں زیرتعلیم ہیں جن میں بچیاں بھی شامل ہیں۔
طالبان کے دور میں موسیقی، پتنگوں، فلموں، آزاد اخبارات اور ٹی وی سٹیشنز پر پابندی تھی جو اب سب جگہ پر موجود ہیں۔ ہر چھٹے افغان کے پاس موبائل فون ہے۔ 2007ء میں ورلڈ بینک کے مطابق افغانستان میں GDP بڑھنے کی شرح 14 فیصد تھی۔ طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کی غربت کا یہ عالم تھا کہ ورلڈ بینک اس کی معیشت کی پیمائش کرنے کا بھی روادار نہیں تھا۔
آج 40 فیصد افغانوں کا خیال ہے کہ ان کا ملک صحیح سمت میں ترقی کر رہا ہے۔ (جبکہ بش انتظامیہ کے دنوں میں 17 فیصد امریکی یہ کہتے تھے کہ افغانستان درست سمت میں ترقی کر رہا ہے)افغانستان کی منشیات کے کاروبار سے وابستگی کرپشن اور بڑھتی ہوئی تشدد کی وارداتیںترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ افغانستان جیسی صورتحال تاریخ میں شاید ہی کسی ملک کو درپیش آئی ہو جس میں اندرونی خلفشار بھی ہو، جہاں قبائلی نظام اور پھر طالبان کا ظہور ہو تو حالت کیا ہو گی۔ افغان یہ نہیں کہتے کہ افغانستان بلجیم بن جائے گا۔لیکن یہ توقع ضرور کرتے ہیں کہ ایک دن وہ افغانستان بن جائے جو روسی حملے سے پہلے 1970ء کی دہائی میں تھا۔ اور پھر شاید ملک اپنے ذاتی اور دیگر وسائل کی بنا پر ترقی کرے۔
اوباما کی افغانستان کے بارے میں حکمت عملی ایسے ہی اہداف پر مبنی ہے لیکن سب سے پہلے وہ افغان عوام کی حفاظت ضروری سمجھتے ہیں اور یہی افغانوں کا پہلا مطالبہ ہے کہ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے۔ جنوبی افغانستان جہاں شورشیں عروج پر ہیں وہاں امریکہ دو میرین بریگیڈ اور ایک سٹرائیکر بریگیڈ لگا رہا ہے جس میں فوجیوں کی کل تعداد 17,000 ہے۔ برٹش ، ڈچ اور کینڈین فورس اس کے علاوہ ہے۔ یہ صرف امن مشن نہیں ہیں۔ یہ آگے بڑھیں گے۔ طالبان کے علاقوں کا صفایا کریں گے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں گرفتار کریں گے۔ ایسے علاقے میں یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی کہ جہاں NATO کی فوجیں پہلے بھی موجود رہی ہیں لیکن ان پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ کابل میں ایک مغربی سفارتکار نے ہنستے ہوئے مجھے بتایا کہ جنوب میں نیٹو کے فوجی ہر سال چمن کی گھاس کاٹتے ہیں لیکن اس مرتبہ ارادہ یہ ہے کہ گھاس کو دوبارہ آگے ہی نہ آنے دیا جائے۔
افغانستان سے متعلق اوباما کی حکمت عملی پر ایک سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ امریکہ مزید فوجیں بھیج رہا ہے کیونکہ ابھی پینٹاگون بھی مزید کمک بھیجے گا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان کی اپنی فوج اور پولیس میں ہونے والے اضافے کی بدولت ہوسکتا ہے کہ اوباما یہ چاہتے ہوں کہ افغانستان کی فوج اور پولیس بڑھ کر اتنی ہو جائے کہ انتظام اور سیکورٹی کا کام ہو سکے تو امریکہ اپنی فوج واپس بلائے۔
آج افغان فوج اورپولیس کی تعداد 160,000 ہے جو عراق کی سیکیورٹی سروسز کا ایک چوتھائی ہے اور انہیں ایک ایسے ملک میں نظم و ضبط کو بحال کرنا ہے جس کی آبادی عراق سے زیادہ ہے۔ اوباما افغان پولیس فورس کو بتدریج بڑھانا اور بہتر بنانا چاہتے ہیں اور افغان آرمی کی تعداد بھی دگنی کرنا چاہتے ہیں۔ فوج کو بڑھانا اس لیے ضروری ہے کہ افغان سب سے زیادہ اپنی فوج پر بھروسہ کرتے ہیں کیونکہ فوج نے ثابت کیا ہے کہ وہ ایک قومی ادارہ ہے۔ افغانستان کی دفاعی ضروریات کے لیے 82 ائربورن ہیں۔ 4,000 ٹرینزز کو افغانستان بھیجا جا رہا ہے۔ افغان حکومت ان فورسز کے افراد کو بہترین تنخواہیں دینے کی پالیسی پر بھی گامزن ہے۔
مزید فوج افغانستان بھیجنے پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ یہ فوجی مزید شہریوں کی ہلاکت کا باعث بنیں گے۔ اور یہی بات افغان عوام کو اشتعال دلاتی ہے۔ جبکہ مزید فوجی بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ شہریوں کی ہلاکت میں کمی واقع ہو۔ اس صورتحال کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان میں فضائی حملوں پر زیادہ انحصار کیا گیا ہے۔ اور بری فوج کم رہی ہے۔
2008ء میں جنوری سے اگست تک 2400 فضائی حملے کئے گئے جو عراق سے 3 گنا زیادہ ہیں۔ اقوام متحدہ نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میری فوج کی بجائے فضائی فوج کے حملوں سے یہ ممکن ہوا ہے کہ 64 فیصد ہلاکتیں فضائی حملوں سے ممکن ہوئی ہیں اور اس کا کریڈٹ 2008ء میں حکومت کو جاتا ہے۔
شہریوں کی ہلاکتوں کی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے افغانستان کے نئے کمانڈر لیفٹینیٹ جنرل سیٹلے میک کرسٹل نے جون میں اپنی سینٹ کی کنفرمیشن کے موقع پر کہا کہ گریز کی پالیسی کو بڑی احتیاط سے برتنا ہو گا کیونکہ یہ امریکی ملٹری آپریشنز کے لیے بہت اہم ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ اس تصور کے بارے میں زیادہ مبالغہ آرائی نہیں کر سکتا۔ میک کرسٹل اپنے ساتھ کے افسران میں مؤثر ترین افسر ہیں۔ انہوں نے اپنی عسکری حکمت عملی میںیہ طے کیا ہے کہ افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکتیں نہ ہوں اور ان کا یہ پیغام کمانڈ سے متعلقہ تمام لوگوں تک ازخود پہنچ جائے گا۔
اوباما حکومت کی ان خصوصیات کو بہت سے دوسروں نے بھی کمک پہنچائی جس سے یہ محسوس ہوا کہ بش حکومت کی عجلت میں اپنائی گئی پالیسیوں پر عملدرآمد میں ایک رخنہ محسوس کیا گیا ہے۔ ایک تو یہ کہ منشیات کا کاروبار کرنے والوں کا پتہ لگا کر افیون کی کاشت میں کمی کرنا تھا۔ اس عمل سے غریب کا شتکاروں کو مالی نقصان کا اندیشہ تھا اور یوں نئے طالبان کی بھرتی کا رستہ کھل گیا۔ اوباما نے افغانستان میں مستحکم حکومت کے قیام کے لیے ایران کی مدد بھی طلب کی ہے۔ ایران وہ ملک ہے جس نے 2001ء میں بون میں ہونے والی میٹنگ کے دوران پہلی افغان حکومت کے قیام میں بھی بڑی مدد کی تھی۔
فروری اور مئی میں واشنگٹن میں منعقد ہونے والی میٹنگز کی طرح امریکہ، پاکستان اور افغانستان کے حکام کی میٹنگز بھی جاری رکھنا چاہتا ہے۔ اس سے افغانستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات میں بھی بہتری آئے گی جو کئی مرتبہ بے اعتمادی کا شکار ہوئے ہیں۔
خوشگوار ماحول میں یہ بات بہت ناگوار ہے کہ افغانستان کی القاعدہ کا تذکرہ کیا جائے جن کے پاس نیوکلیئر ہتھیار بھی ہوں یا مشرق میں پہلے طالبان کا ہیڈکوارٹر موجود ہو۔ اوباما کی پاکستانی نقطہ نظر سے پاک افغان پالیسی، اوباما پر تنقید کرنے والوں کا بڑا ہدف ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اوباما کے لیے پاکستان کو ایک مضبوط حکمت عملی فراہم کرنا مشکل ہے اس لیے کہ پاکستان کے پاس اپنی کوئی مضبوط حکمت عملی نہیں ہے۔ اگر پاکستان کو پاکستان کے اندر عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہے تو پھر ایسے مسائل پر بھی غور کرنا ہو گا جو خطے میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ایسا نہ کر سکنے کے نتیجے میں افغانستان اور پاکستان میں شورشین طاقت پکڑتی چلی جائیں گی۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں دو طرح کی حکومتیں کام کر رہی ہیں ایک تو منتخب مگر کمزور سیاسی حکومت ہے تو دوسری جانب مستحکم فوجی طاقت سیاسی حکومت کو عسکری حکمت عملی کی واقفیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اور اکثر فوج کے ساتھ الجھائو کا شکار رہی ہے۔ جبکہ قومی سلامتی کے امور میں فوج کو جیسے ہر طرح کی ویٹو پاور حاصل ہے۔ اس دوران پاکستان آرمی عسکریت پسندوں کے خلاف تقریری کارروائیاں کرنے سے خاموش کرانے میں شش وپنج کا شکار ہو گئی۔ اور عام طور پر یہ ہوتا رہا کہ طالبان کے خلاف جامع اور موثر منصوبہ بندی کرنے میں ناکام رہی( وادی سوات میں حالیہ گولہ باری اور فضائی حملوں اور لاکھوں لوگوں کی ہجرت اور شورش کو ختم کرنے کے لیے کوئی زیادہ موثر طریقہ نہیں ہے)۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عام شہریوں کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگرچہ طالبان اور حکومت کے مابین امن معاہدہ بھی ہوا تھا لیکن کیا مستقبل میں حکومت انہیں تخفظ دے سکے گی۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستانی حکومت اس معاملے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی۔ یہ عسکریت پسند پاکستانی ریاست کو اب بھی نشانہ بناتے ہیں جو مستقبل کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہو رہے ہیں۔
بعض ناقدین کا خیال ہے کہ اگر افغانستان میں امریکہ کو کامیابی حاصل ہوتی ہے تو پاکستان کی صورتحال ابتر ہو سکتی ہے کیونکہ طالبان اور ان کے ساتھی پاکستان چلے جائیں گے اور پاکستان جیسی نیوکلیئرریاست کے لیے بھی خطرے کا باعث ہوں گے جبکہ پاکستان پہلے ہی گونا گوں مسائل کا شکار ہے۔ لیکن اس نظرئیے پر بھی یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ القاعدہ تو خود پاکستان میں ہی 1988ء میں معرض وجود میں آئی تھی اوربہت سے طالبان لیڈر اور عسکریت پسند مدرسوں اور مہاجر کیمپوں کی پیداوار ہیں۔ جب 1990ء کی دہائی میں افغانستان میں سول وار کا زمانہ تھا تو یہی پاکستانی طالبان وہاں جا کر اپنی کارروائیاں کر رہے تھے۔
یہ خیال کرنا کہ عسکریت پسندوں کا ٹھکانہ افغانستان میں ہے یا پاکستان میں بالکل غلط ہے کیونکہ دراصل یہ لوگ کئی دہائیوں سے دونوں ملکوں میں آباد ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے پاکستان کی راہ لے لی ہے۔ اگرچہ 9/11 جیسا واقع تو نہیں ہوا لیکن بہت سے واقعات نے مل کر بڑی تباہی پھیلا ئی ہے۔ جیسے طالبان نے بے نظیر بھٹو کو قتل کیا۔ میریٹ ہوٹل اسلام آباد میں القاعدہ کی بمباری اور فائرنگ پاکستان کے دورے پرآئی ہوئی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملہ۔ پولیس اکیڈمی لاہور پر حملہ۔ سترہ سالہ لڑکی پر کوڑے برسانے کی فلم جاری کرنا اور سوات سے ضلع بونیر میں داخل ہونے کا طالبان کا فیصلہ جو کہ اسلام آباد سے صرف 60 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ سب ایسے ہی مذموم مقاصد کی تکمیل کی مثالیں ہیں۔ ان تمام واقعات نے پاکستان قوم میں غم و غصّے کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ طالبان کی طرف جھکائو رکھنے والی سیاسی پارٹی ایم ایم اے کو 2008ء کے انتخابات میں صرف 2فیصد ووٹ ملے ہیں۔ اور ساتھ ہی خودکش حملوں کی حمایت پاکستان میں 2002ء میں 33 فیصد تھی جو کم ہو کر 2005ء میں صرف 5 فیصد رہ گئی ہے۔
امریکہ اب نہ تو فوری طور پر افغانستان سے نکل سکتا ہے اور نہ ہی آسانی سے ایک مستحکم اور پائیدار افغان ریاست کے قیام کو ممکن بنا پا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ طالبان اور القاعدہ پھر زور پکڑ جائیں گے۔ خوش قسمتی سے امریکہ عراق کی طرح افغانستان میں تنہا نہیں ہے۔ افغانستان میں 42 ملکوں کے اتحادی موجود ہیں جو فوج اور سازو سامان کے ساتھ نیٹو کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔ اس اتحاد میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں جیسے 2005ء میں ترکی نے انٹرنیشنل سیکیورٹی اسسٹنس فورس کی صورت میں مدد فراہم کی اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور اردن نے بھی اپنے فوجی بھیجے تھے۔
امریکا نے طالبان کو 2001ء کے موسم گرما میں پسپا کر دیا تھا۔ اب یہ امریکا کی اضافی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ جب وہ افغانستان سے نکلے تو دنیا کو یقین ہو کہ افغانستان ایک مرتبہ پھر انسانیت کے دشمن دہشت گردوں کا ٹھکانہ نہیں بنے گا اور یہ کہ افغانستان امن و استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔ ایسا ہونے پر تصور کیا جا رہا ہے کہ افغانستان کے پر شکوہ پہاڑ، شاداب وادیاں اور یاسمین کی خوشبو والے باغات پہلے کی طرح اس مرتبہ پھر سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر لیں گے۔
|
|
|
|
|