working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

ہماری بد قسمتی کے سپاہی
خالد احمد
ان دنوں مختلف نجی چینلز پر افواج پاکستان کے سابقہ آفیسران کے حیرت انگیز انکشافات اور مکالموں نے نہ صرف افواج پاکستان کے اندر بلکہ پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں کے اندر بھی بھونچال پیدا کردیا ہے۔ ہر ایک جماعت اسے اپنے خلاف سازش قرار دے رہی ہے۔ معروف تجزیہ نگار اور مصنف خالد احمد نے اپنے اس مضمون میں آئی ایس آئی کے سابق افسر اور آئی بی کے سابق سربراہ بریگیڈیئر امتیاز احمد کے انکشافات کا تجزیہ کیا ہے جس سے موجودہ صورتحال کی صحیح تصویر سمجھنے میں بھرپور مدد ملتی ہے۔ ہم اس مضمون کے ترجمے کو ''فرائیڈے ٹائمز'' کے شکریے کے ساتھ تجزیات کے قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔ (مدیر)

آئی ایس آئی کے سابق افسر اور آئی بی کے پاکستانی سربراہ بریگیڈیر امتیاز احمد (ریٹائرڈ) نے وہ سب کچھ بیان کردینے کا فیصلہ کیا ہے جو ''جمہوری '' پاکستان میں پس پردہ ہوتا ہے۔ یہ تو کوئی نہیں جانتا کہ ان کا اصل مقصد کیا ہے؟ لیکن یہ محسوس کیے بغیر کوئی نہیں رہ سکتا کہ وہ سیاستدانوں کے بجائے پاکستان آرمی کے کچھ ریٹائرڈ بڑے افسروں کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاستدانوں کا خیال ہے کہ وہ انہیں نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ انہیں کوئی نقصان پہنچ رہا ہے تو محض مجموعی نقصان (Collateral Damage)ہے۔

سیاستدانوں کو اس لیے بھی پریشان نہیں ہونا چاہیے کہ امتیاز کے پاس کوئی ثبوت نہیں حتیٰ کہ غلام مصطفےٰ کھر کے خلاف بھی نہیں جن پر امتیاز نے 1988 میں تمام جرنیلوں کو اکٹھے ہلاک کرنے کی سازش کا الزام لگایا ہے۔ ان کے پاس تو مہران گیٹ سکینڈل کے ذریعے آئی جے آئی کے لیے رقم وصول کرنے والوں کے بارے میں بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ثبوت ہے تو آرمی چیف اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ اسد درانی کے خلاف۔ اور یہ اس بیان حلفی میں ہے جو اسد درانی نے سپریم کورٹ میں پیش کیا تھا۔ ایک کے سوا تمام ''رقم وصول کرنے والوں ''نے اس کی تردید کی ہے۔
 
حمید گل کا نشانہ
امتیاز نے اپنے ''اعتراف ''سے اپنے سابق آئی ایس آئی چیف حمید گل کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ خود 1988 میں وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لیے پیپلز پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی کو توڑنے کی ناکام سازش کے مجرم تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں اس کام پر آرمی چیف اور حمید گل نے لگایا تھا جو آئی ایس آئی چھوڑ کر ملتان کے کور کمانڈر بن چکے تھے۔ امتیاز اپنی کم فہمی کی وجہ سے خطرناک ہیں۔ آپ ایسے جاسوس سے کیا سلوک کریں گے جو ''مڈنائیٹ جیکالز'' جیسے چکر میں پھنس جاتا ہو؟

امتیاز نے حمید گل کو ایک اور معاملے پر بھی الجھا دیا ہے۔ انہوں نے پہلے تو ایم کیو ایم کو جناح پور سکینڈل سے بری الذمہ قرار دیا اور پھر یہ انکشاف کیا کہ حمید گل نے انہیں نوٹوں سے بھرا ہوا ایک سوٹ کیس الطاف حسین کو پہنچا کر انہیں آئی جے آئی میں شمولیت کے لیے آمادہ کرنے بھیجا تھا۔ الطاف حسین نے یہ رشوت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور رقم اس کے بھیجنے والے کو واپس پہنچادی گئی۔ حمید گل نے اگرچہ اس کی تردید کی ہے لیکن جو نقصان ہونا تھا وہ ہو چکا ہے۔ روپے کی اتنی زیادہ ریل پیل میں کیا صدر غلام اسحق خان کی کوئی مدد حاصل نہیں تھی؟ جن کے اپنے داما د پر بعد میں وینا حیات ریپ کیس میں ملوث ہونے کا الزام لگا۔ اسحق خان کراچی میں جاری لڑائی میں ایک فریق تھے۔

موساد اور را کی کہانیاں
ایسا لگتا ہے کہ آئی ایس آئی میں کوئی بھی نارمل نہیں ہے یا اس بات کی توقع نہیں رکھی جاتی کہ نارمل ہو۔ بریگیڈیئر سید اے آئی ترمذی نے آئی ایس آئی پر اپنی کتاب ''پروفائلز آف انٹیلی جنس'' (1985) میں امریکہ سے اپنی نفرت کے اظہار کی وجہ سے اعتبار خاصا کھودیا لیکن انہوں نے بھی امتیاز پر خاص طور پر نااہلی کا الزام لگایا۔ ترمذی نے اپنی کمزور مالی حیثیت کا ذکر کیا ہے۔ اس کے برعکس امتیاز کہتے ہیں کی تین بنگلے، دو پلازے اور لندن میں ایک بڑا ڈالر اکائونٹ ان کے خاندان کا ہے جو ہمیشہ امیر رہا ہے۔

اگر پاکستان واقعی امریکہ سے نفرت کرتا ہے تو اس کے وہ فوجی افسر اس کی کوئی خدمت نہیں کر رہے جو نااہل ہیں اور ان پر کرپشن کے الزامات لگتے رہتے ہیں۔امتیاز احمد اس کی بد ترین مثال تھے۔ جو اپنی قوم کی (اس قسم کی) خدمت کرتے ہوئے سی آئی اے، موساد اور را سے''مردانہ وار'' لڑے۔ وہ تمغہ بسالت پا چکے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود کہ جوآپریشن انہوں نے کیے انہیںخراب کیا، ہمیشہ عقل کی بجائے جذبات سے کام لیتے رہے۔ آج پیپلز پارٹی، جس سے وہ نفرت کرتے تھے، ان کے انکشافات پر حیران ہے اور وہ آدمی جس سے وہ محبت کرتے تھے اور اب بھی کرتے ہیں یعنی نواز شریف سمجھتے ہیں کہ وہ (امتیاز) ان پر گولہ باری کر رہے ہیں۔

امتیاز اور عامر کی خونی جوڑی
امتیاز اور ان کے ساتھی میجر عامر دونوں ٹیلی ویژن پر آکر یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے لیے ''مڈنائٹ جیکالز'' سازش انہوں نے کی۔ میجر عامر صوابی کے پٹھان ہیں جہاں ان کے بھائی مشہور پنج پیر مدرسہ چلاتے ہیں جسے جہادی نرسری کی شہرت حاصل ہے۔ جب امتیاز کے ساتھ میجر عامر کو بھی فوج سے نکال دیاگیا تو پیپلز پارٹی نے پولیس کے ذریعے پنج پیر مدرسے کا محاصرہ کرنے کی کوشش کی لیکن حتمی مقصد حاصل نہ ہوسکا۔
اسلام آباد سے نکالے جانے کے بعد امتیاز اور میجر عامر دونوں کو نواز شریف نے پنجاب میں پناہ دی جو اس وقت بے نظیر بھٹو سے ''صوبہ مرکز لڑائی'' میں مصروف تھے۔ دونوں انٹیلی جنس افسروں نے اس لڑائی میں کردار ادا کیا۔ 1990 میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کے بعد نواز شریف کی حکومت نے پنج پیر کے مدرسے کو اس طرح بحال کیا کہ مشاہد حسین اور حمید گل ایک جلوس لے کر وہاں گئے۔ حمید گل کو اس وقت تک آرمی چیف آصف نواز فوج سے نکال چکے تھے۔

امریکہ مخالف جذبات
نواز شریف پر امریکہ مخالف جذبات و خیالات کا غلبہ تھا۔ ذہنی طور پر ان کی رہنمائی مشاہد حسین کر رہے تھے۔ پھر قوم کی اس طرح برین واشنگ کی گئی تھی کہ اسے یقین تھا کہ امریکہ بھارت کو اکسا رہا ہے کہ وہ پاکستان کو تباہ کردے۔ ابھی تک یہی صورت حال ہے لیکن نواز شریف جو اَب ایک پختہ کار سیاستدان ہیں، مشاہد حسین اور حمید گل کی تقریروں میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ یقینا بریگیڈیئر امتیاز اور میجر عامر جیسے لوگوں سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔
اگر کوئی امتیاز کا دماغ کھول کر دیکھ سکے تو صاف ظاہر ہوگا کہ وہ اپنے دو سینئر اسلم بیگ اور حمید گل پر غصہ نکال رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تو آنکھیں بند کر کے ان کا کہا مانتے رہے۔ ان کا وہ زخم بھی شاید ہرا ہو جو اسلم بیگ نے بے نظیر سے اتفاق کر کے ان کو فوج سے باہر نکال کر لگایا۔ وہ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ جب ان کے خلاف کرپشن کے کیس چل رہے تھے تو حمید گل نے انہیں مصیبت میں اکیلا چھوڑ دیا تھا۔ حمید گل کہتے ہیں ''ان کا غصہ پراسرار ہے۔ میرے خلاف دھاڑنے سے پہلے وہ میرے چمن کا بلبل تھا۔''

گل اور بیگ کے کارنامے
مبینہ بھارتی ''گھوسٹ'' مصنف ولسن جان کا کہنا ہے کہ بش حکومت نے کسی کے دستخط کے بغیر دو صفحات کی دستاویز حکومت پاکستان کو بھیجی تھی جس میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل کے طالبان اور القاعدہ کے نیٹ ورکس کے ساتھ تعلقات کا تذکرہ تھا۔ اس کے جواب میں حمید گل نے لندن کے ''الشرق الاوسط'' کو انٹرویو دیا جس میں حکمت یار اور شمالی وزیرستان میں مقامی گروپ کے ساتھ اپنے ذاتی روابط کا ذکر کیا لیکن کہا کہ یہ سوویت یونین کے خلاف جنگ کے زمانے کے دوست ہیں۔ جہاد افغانستان میں ان کے اپنے دو بیٹے بھی لڑے تھے۔

اسلم بیگ کو تو جسٹس (ر) سعید الزماں صدیقی نے ایک طرح سے پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ جنہوں نے ٹیلی ویژن پر آکر یہ کہا ہے کہ وہ بیگ کے خلاف ''مہران گیٹ'' کیس سن رہے تھے کہ 1999 میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ یہ کیس اصغر خان نے دائر کیا تھا جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اسلم بیگ نے پیپلز پارٹی کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے پرچم تلے اکٹھے ہونے والے سیاستدانوں میں ڈیڑھ کروڑ روپے تقسیم کیے۔ آئی ایس آئی کے سربراہ حمید گل نے شہید خاندان سے فوج کی نفرت کے پیشِ نظر آئی جے آئی'' ایجاد'' کی تھی۔

مہران بینک کا صفایا
اسلم بیگ کے بارے میں خیال ہے کہ انہوں نے مہران بینک سے بھاری رقوم نکلوائیں کیونکہ وہ اس کی سرپرستی بھی کرتے رہے تھے۔ انہوں نے آئی ایس آئی پر زور دے کر اس کا خاصا زرمبادلہ اس بینک میں رکھوایاتھا۔ ارد شیر کائوس جی نے ڈیلی ٹائمز (22 جنوری2006 ) میں لکھا کہ بیگ نے اس بینک سے کافی رقم خود اپنے لیے بھی نکلوائی تھی۔ (کائوس جی جس اخبار میں لکھتے تھے اس نے یہ مضمون ''زیادہ سخت '' ہونے کی وجہ سے نہیں چھاپا تھا) یہ تفصیلات اصغر خان کیس کی سماعت کرنے والی عدالت کے سامنے جنرل (ر) نصیر اللہ بابر نے بھی پیش کی تھیں۔

ایک بینک اکائونٹ شیٹ پر یہ درج تھا: ''جی / ایل اکائونٹ: ایکٹیویٹی رپورٹ: اکائونٹ 12110101 جی۔ بیگ'' ۔ اس میں 23 اکتوبر 1991اور12 دسمبر 1993 کے درمیان لین دین ہوا۔ اس میں سے بھاری رقوم '' فرینڈز'' کو منتقل کی گئیں جو جنرل بیگ کا بنایا ہوا تھنک ٹینک تھا۔ اس مالی سکینڈل کی بو پھیلنے کے باوجود وہ اسے چلاتے رہے۔ اس کی کانفرنسوں میں شرکاء کو ہوائی جہاز کے ٹکٹ بھیج کر بلایا جاتا اور لگژری ہوٹلوں میں ٹھہرایا جاتا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بیگ اپنی عوامی قیادت پارٹی کا یوتھ ونگ بھی چلاتے رہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ وہ پارٹی اپنے فنڈز خود پیدا کرتی ہے۔

شاطر لیکن لاپرواہ
ہماری بد قسمتی کے ایک اور سپاہی جن کے اعمال ان کے سامنے آرہے ہیں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی ہیں۔ انہیں اس پریشانی کا سامنا ہے کہ سپریم کورٹ اب بھی اس معاملے کی سماعت شروع کر سکتی ہے جس میں مہران گیٹ کی رقم تقسیم کرنے والے وہی تھے۔ وہ صفائی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور صدر غلام اسحق خان کے حکم پر عمل کر رہے تھے اور انہوں نے عدالت میں بیان حلفی پیش کر دیا تھا جس میں ان سے رقم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے نام درج کر دیے تھے۔

اسد درانی اپنی تحریروں میں لاپرواہی کی حد تک بے باک ہیں۔ وہ بحث کے دوران جان بوجھ کر چونکانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس دماغ ہے تو '' دیکھو میں کتنا خطرناک ہوں'' جیسا امیج بالکل غیر ضروری ہے۔ وہ ایسی غلطیوں سے مبرا نہیں تھے جو صرف کم ''آئی کیو'' کے لوگ کرتے ہیں لیکن ایک غیر تزویراتی جوڑ توڑ والی فوج میں ''آئی کیو'' کی ضرورت بھی کسے ہے۔

حکمت عملی کے بغیر زندگی
مہران گیٹ کی تمام کوششوں کے نتیجے میں غلام اسحق خان نے 1990 میں بے نظیر کو برطرف کردیا۔ اسلم بیگ نے درانی کو ایم آئی اور آئی ایس آئی دونوں کی نگرانی پرمامور کیا۔

درانی مارچ 1992 تک آئی ایس آئی کے سربراہ رہے جس کے بعد آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے انہیں نیشنل ڈیفنس کالج سونپ دیا۔ تب انہوں نے وہ غلطی کی جو ہمارے جنرل اکثر کر بیٹھتے ہیں۔ انہوں نے بے نظیر سے رابطے شروع کردیے اور وہ یہ سمجھنے لگیں کہ وہ فوج سے بات کررہی ہیں۔

مہران گیٹ کی حد تک درانی محفوظ تھے۔ انہیں بے نظیر سے بات کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ 1993 میں بر سر اقتدار آنے پر بے نظیر نے کہیں جنرل کاکڑ سے یہ بات کردی کے درانی ان (کاکڑ ) کی طرف سے ان ( بے نظیر ) سے بات کرتے رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں درانی کو فوج سے ریٹائر ہونا پڑا۔ البتہ بے نظیر نے انہیں جرمنی میں سفیر بنادیا۔ انہیں باعزت طور پر گھر چلے جانا چاہئے تھا لیکن انہوں نے ایسا انہیں کیا اور مشرف حکومت میں بھی سعودی عرب میں سفارت قبول کر لی۔ یہ ایک عادت بن گئی۔ پھر وہ مشرف کے خلاف ریٹائرڈ افسروں کی تنظیم میں شامل ہوگئے اور اب ان کا مطالبہ ہے کہ مشرف پرمقدمہ چلا کر انہیں پھانسی دی جائے۔ یہ ہے حکمت عملی کی بجائے جوڑ توڑ پر پلا ہوا دماغ۔

غلاظت کے چھینٹے
بریگیڈئیر امتیاز اپنے دوست میجر عامر کی وجہ سے منظر عام پر آئے ۔ جنہیں (اگر خبر درست ہے تو) گزشتہ ماہ ایوانِ صدر مدعو کیا گیا تھا ور مبینہ طور پر آئی بی سنبھالنے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انہوں نے انکار کر دیا جس کے نتیجے میں میرے پسندیدہ ایڈیٹر نے ''جناح'' (27 اگست 2009) میں تبصرہ کیا۔ خوشنود علی خاں نے لکھا ''امتیاز (اس بار پیپلز پارٹی سے )آئی بی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ جب انہوں نے سنا کہ پیپلز پارٹی میجر عامر کو آئی بی کا سربراہ بنارہی ہے تو انہوں نے فوراً ٹی وی چینلز پر طوطا بن کر پیپلز پارٹی کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ انہیں آئی بی کی کمانڈ دی جائے تو وہ نواز شریف کو تباہ کرسکتے ہیں۔''

جیسا کہ پاکستانی سیاست میں ہوتا ہے، افواہیں حقیقت بن گئی ہیں اور ایک جنگ ہمارے سامنے جاری ہے۔ ٹیلی ویژن پر امتیاز کا سامنا کرتے ہوئے غلام مصطفےٰ کھر نے غصے میں آکر یہ الزام لگایا کہ صدر زرداری نے گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان (کھر) کی امتیاز کے ذریعے کردار کشی کی تیاری کے لیے پانچ کروڑ روپے بھیجے ہیں۔ اگر کھر کا خیال ہے کہ پانچ کروڑ روپے صرف ان کے لیے مختص کیے گئے تو انہیں غلطی ہوئی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا امتیاز کے ذریعے نواز شریف کے خلاف مہم کے پیچھے زرداری کے مذموم عزائم محسوس کی کرنا زرداری کے خلاف اس کی مہم کی بنیاد بن جائے گا۔

فوج کے جسم سے اس کے کردار کے جواز کی آخری دھجی بھی اتار کر سیاسی طور پر غیر مستحکم اور اقتصادی طور پر ناکام پاکستان تباہ کن بحران میں پھنس جائے گا۔ ''ہماری بد قسمتی کے سپاہی'' اس وقت سب کی توجہ کا مرکز بنے ماضی کی غلاظت اچھال رہے ہیں۔ بیشتر غلاظت قومی سلامتی کے اس ازکار رفتہ نظریے سے پیدا ہوئی ہے جس پر فوج اب بھی قائم ہے۔ اس سارے عمل کے نتیجے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس کے نتیجے میں خود ریاست ڈھیر ہو سکتی ہے۔

(بشکریہ فرائیڈے ٹائمز)