working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

اسلام کا تصوّرِ جہاد اور دہشت گردی
عائشہ جلال
سلام کا تصورِ جہاد کیا ہے؟ کیا ہم اسے دہشت گردی پر منطبق کر سکتے ہیں۔ دورِ موجود میں اس کی حقیقی شکل کیا ہے۔ برصغیر میں اس کے آغاز اور آغاز ہونے کے طریق کار میں کیا عوامل کارفرما تھے۔ تقسیم پاکستان سے پہلے برصغیر پاک و ہند میں مذہبی جماعتوں کی نظریاتی اساس کیا تھی اور بعد ازاں یہ مذہبی اور نظریاتی اساس کس طرح سیاسی صورتوں میں تبدیل ہوئی۔ پاکستان کی تہذیبی، ثقافتی اور سماجی تشکیل میں ان مذہبی جماعتوں کا کردار کیا رہا ہے اور نئی نسل کو زندگی اور زندگی کے مقاصد کے حصول کے لیے ان مذہبی جماعتوں نے اس نقطہء نظر کو کس نہج پر پروان چڑھایااور یہ ان کے آپسی مفادات، نفرت اور تفاوت کی کن شکلوں میں اجاگر ہوا۔ پاکستان میں مدرسوں کے جال بچھانے اور وہاں طالبان اور مذہبی انتہاپسندوں کی کھیپ تیار کرنے میں کس کا کیا کردار رہا ہے۔ معروف محققہ، دانشور عائشہ جلال نے اپنی کتاب "Partisans of Allah ... Jihad in South Asia" میں اس کا تاریخی تناظر میں جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب کے آخری باب سے ایک حصہ قارئین تجزیات کی نذر ہے۔ عائشہ جلال کی دیگر کتب میں "Self and soveroignty Individual and Community in South Asian Islam since 1850" اور "Democracy and Authoritarianism in South Asia" اہم تصور کی جاتی ہیں۔ (مدیر)

جہادی نقطہ نظر کو شکست خوردگی سے نجات دلانے کے لیے نو آبادیاتی مخالفین مسلمانوں نے ایسی مذہبی اور سیاسی بحث چھیڑی ہے جس کے اثرات برصغیر کے باہر بھی خوب محسوس کیے گئے۔شاعر مشرق علامہ اقبال نے مسلمانوں کو اپنی شاعری کے ذریعے جھنجھوڑا اور یہ پیغام دیا کہ وہ مغرب کی سامراجی قوتوں کی منافقانہ چالوں میں آکر جہاد کے حقیقی تصور سے نظریں چرائے بیٹھے ہیں۔ان کی فلاسفی نے عظیم مصلح دین مولانا ابو اعلیٰ مودودی کے نظریات کو بھی متاثر کیا اور کچھ ایسی ہی بازگشت مصر کی سرگرم سیاسی شخصیت سید قطب (1906ئ۔1966ئ) کے ہاں بھی سنائی دی۔ابن تیمیہ کی طرح مودودی اور قطب مسلمان اسلاف میں اعلیٰ پائے کے دانشور کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ مصنف نے مسلم دنیا میں جہاد کے حوالے سے پائی جانے والی مختلف تاویلوں اور دہشت گردی کے بنیادی عوامل جانچنے کے لیے مولانا مودودی اور قطب کے نظریات سے استفادہ کیا ہے۔

اسلام میں جہاد کے تصور کی کئی توجیہات بیان کی جاتی ہیں ۔اردو زبان میں ''جدوجہد'' کا لفظ بھی جہاد سے مشتق ہے جس کا مطلب داخلی اور بیرونی محنت کے زمرے میں آتا ہے ۔ مسلم دنیا میں جہاد کے ہمہ جہتی مفہوم و مطالب پائے جاتے ہیں۔مثلاً ایران میں شعبۂ زراعت سے متعلق جہادی وزارت اس لفظ کو ان ترقیاتی کاموں کے لیے استعمال کرتی ہے جو عموماً غربت اور جہالت کے خلاف اقدامات پر مشتمل ہوتے ہیں ۔اسلامی سر زمین میں اس کے حقیقی تصوّر سے پہلو تہی کی بنیاد پر کئی مسائل نے جنم لیا جبکہ مقبوضہ مسلم علاقوں میں تلوار کے ذریعے اسلام پھیلانے کے عام فہم مطلب کو ہی جہاد کے جواز کے طور پر پیش کیاجاتا ہے۔

جدیدٹیکنالوجی اور اقتصادی عالمگیریت نے اختیارات کی مرکزیت کے نظریے کو زک پہنچائی ہے۔''القاعدہ ''مشرق وسطیٰ سمیت افغانستان اور پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں جہاد کر رہی ہے حالانکہ وسطی اور جنوبی ایشیا میں جہاد کے بطور مقدس جنگ کی حیثیت سے فروغ پانے والے نظریے نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیاہے۔

یہی وجہ ہے کہ القاعدہ اسلام دشمنوں کے خلاف مذہبی ضابطہ اخلاق کا پروپیگنڈا کر کے اپنے مقاصد حاصل کر رہی ہے۔

جہاد کے متعلق یہ نظریہ کہ کیا وہ بنیادی طور پر جنگ و جدال کا نام ہے یا اس سے روحانی جدوجہد مراد ہے خاصی طویل بحث کا حامل ہے کیونکہ مسلم دنیا میں عملی طور پر جہاد سے کئی مطالب اخذ کیے جاتے ہیں۔

اسلامی روایات کے تناظر میں القاعدہ کے مذہبی دعوے دوسرے مسلمانوں کے نظریات سے سراسر متصادم ہیں۔مسلمانوں کا آج یہ سب سے اہم مسئلہ نہیں ہے کہ اسلام جدید دور کے خارجیوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ لوگ مذہب کی اصل روح کے متعلق استفسار کر رہے ہیں۔خصوصاً امریکہ پر حملوں کے بعد تو اخبارات اور سائیبرسپیس میں جہاد کے متعلق عوام الناس کی خود آگاہی ایک باقاعدہ صنعت کا درجہ اختیار کر چکی ہے ۔ روحانی ،پاکیزگی اور مزاحمتی جہاد جیسے دعوؤں نے اس کے ہمہ جہتی مفہوم کو سمجھنے میں مشکلات حائل کی ہیں۔بعض فقہی تنگ نظری یا جہادی فلسفے سے کم علمی کی وجہ سے قرآنی متشابہ آیات کے متضاد مطالب نکال لیے جاتے ہیں۔القاعدہ کی جانب سے جہاد بطور مقدس جنگ کے پر چار نے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے قوم پرست نو آبادیاتی مخالفوں اور اسلام کے بنیادی نظریے کے درمیان تعلق کو دھندلا کر رکھ دیا ہے۔

امریکہ پر ہونے والے ١١ ستمبر کے حملوں پر مسلمانوں کے خاموش اور متضاد رد عمل کو اس گہرائی سے نہیں سمجھا جا سکتا جب تک کہ ہم نو آبادیاتی دور سے حاصل شدہ قوم پرستانہ جذبات اور اسلام کے سیاسی بنیادی عقائد کے درمیان کوئی تعلق تلاش نہیں کر لیتے حالانکہ ان دو مختلف اسکولوں کے درمیان اختلافات اور متفق علیہ امور کی وضاحت کی جائے۔ مغربی سامراجی نظام پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے دنیاوی اور مذہبی نقطہ نظر کے درمیان واضح فرق سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ دراصل مذہبی محرک کا نو آبادیاتی دور سے موازنہ کیے بغیر اسلام اور سیکولر ازم کے درمیان بٹی ہوئی ایسی افہام و تفہیم کو نظر انداز کر دیا گیا جو کہ مسلم معاشرے میں نفسیاتی اور سیاسی رخنہ اندازی کا موجب بنی ۔سیموئیل ہنٹنگٹن نے اس باہمی تنازعے یا غلط فہمی کو تہذیبی ٹکراؤ( Clash of Civilization) سے تعبیر کیا ہے ۔اگر یہ غلط فہمی یہود و نصاریٰ اور اسلام کے درمیان ایک تاریخی اور قدیم کچھاؤ کا نتیجہ ہے تو امریکیوں کی جانب سے افغانستان اور عراق میں دہشت گردی کی جنگ کی وجہ سے آگے دیکھتے ہوئے جہادی نظریے کو تقویت ملی ہے ۔ اس وقت محض مذہبی اور سیکولر حدود سے آگے دیکھتے ہوئے کیا یہ ممکن ہے کہ مسلمانوں میں مذکورہ نظریے کے سحر کا خاتمہ ہوسکے۔

مولانا مودودی کی بنیادی اصلاحی تحریک میں جہاد کا عنصر اس دور کے برصغیر میں پائے جانے والے فکری ارتقا ء کانتیجہ تھا لیکن کئی اہم امور پر انھوں نے اسلامی روایت پسندوں سے اختلافِ رائے کا اظہار بھی کیا انھوں نے قرآن کے روایتی مفہوم ومعانی سے احتراز برتتے ہوئے سر سید احمد خان اور محمد عبدہ کی راہ اپنائی اور یہی طریق قطب کا بھی تھااور یہ مودودی صاحب کی سیاسی فکر کا ہی نتیجہ تھا کہ نو آبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد اسلام میں عسکری جہادی عناصر ان کے نظریات سے متاثر دکھائی دیے۔مولانا نے دین اور سیاست کو باہم جوڑ تے ہوئے جہادی نظریے کو اپنا موضوعِ سخن بنایا جس نے جنوبی ایشیاء میں تخم ریزی کی۔یہی وجہ ہے کہ جہاد کے دائرے میںرہتے ہوئے اسلامی عسکریت پسندوں کے اخلاقی ایجنڈے سے نمٹنے میں مشکلات حائل ہیں۔ایسی صورتحال میں اخلاقیات کی معیاری غیر معیاری استعداد جانچنے کی بجائے یہ بات اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ عسکریت پسندکی اور نوعیت کے اخلاقی ضابطے مسلط کرنا چاہتے ہیں اور انھیں مسلمان معاشرے کی کس قدر حمایت حاصل ہے۔

عدم یقینی اور مولانا مودودی کا جہاد
سید ابواعلیٰ مودودی، حیدر آباد دکن کے قصبے اورنگ آبادمیں پیدا ہوئے ۔ان کا خاندان صوفیاء کے روحانی سلسلے چشتیہ سے وابستہ تھا ۔انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے گھر اور قریبی مدرسے سے حاصل کی جسے دیوبندی علماء کی سر پرستی حاصل تھی ۔ان کی اعلیٰ تعلیم دہلی کے فتح پوری مدرسے میں مکمل ہوئی۔ علم وحکمت سے ان کی گہری وابستگی انھیں صحافت میں کھینچ لائی اور اس وقت ان کی عمر محض ١٢سال تھی انھوں نے تحریک خلافت اور تحریکِ سول نافرمانی میں بھرپور حصہ لیا اور انگریز حکومت کو بے دخل کرنے کے لیے ایک خفیہ تنظیم میں شمولیت بھی اختیار کی ۔ تحریک ہجرت کے دوران مودودی صاحب نے افغانستان منتقل ہونے کا پروگرام بنایا مگر پھر ارادہ ترک دیا۔انھوں نے ہندستان میں رہ کر ہی سامراج کے خلاف مزاحمت کی اور اسلام کے آفاقی پیغام کو اخبارات کی زینت بنایا۔

مولانا شروع سے ہی اسلام کے جہادی نظریے سے متاثر تھے لیکن صحافتی تقاضوں کی وجہ سے وہ ابھی پس وپیش سے کام لے رہے تھے لیکن 23 دسمبر 1926ء کو سوامی شردھانند کے قتل کے واقعے نے سب کچھ بدل ڈالا اسے عبد الرشید نامی ایک مسلم نے تہہِ تیغ کیا تھا۔ ہندؤوں نے اس واقعے کو خوب اچھالا اور یہ پروپیگنڈا کیا کہ اسلام میں کفار کا قتل ایک مقدس فریضہ سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے قرآنی آیات کی غلط تشریح بھی بیان کی ،حتیٰ کہ گاندھی نے بھی ہندوستان کے مسلمانوں میں مزاحمتی جراثیم ڈھونڈ نکالے ۔مگر انھوں نے بعد میں مسلمانوں سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ تحقیق کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسلام کی اصل طاقت تلوار میں مضمر نہیں ۔''Young India'' میں چھپنے والے گاندھی کے اعترافی بیان نے مودودی صاحب کے لیے تحقیقات کے نئے دروازے کھول دیے ۔ادھر ہندو اصلاح پسند آریا سماج کی شکل میں اسلام کی مسخ شدہ تصویر پیش کرنے میں آگے آگے تھے۔ 1924ء میں ہی ایک ہندو ناشر نے حضرت محمدۖ کی شان اقدس کے خلاف لاہور سے ایک کتاب شائع کی اور آریا سماج کا بانی سوامی دیوآنند کو جو کہ تجرد پن کا مبلغ تھا وہ بھی حضور ۖ کی گھریلو زندگی پرکیچڑ اچھالنے سے باز نہ آیا۔ ادھر علاقائی چھاپے خانوں کے متعصبانہ رویوں نے پنجاب میں مذہبی رواداری کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی تھیں۔

یہی وہ تاریخی عوامل تھے جنھوں نے مولانا مودودی کو مسلمانوں کے تشخص کے حوالے سے میدان میں اترنے پر مجبور کیا اور انھوں نے تکلیف دہ حالات میں اسلام کے حقیقی پیغام کو اس کی اصل روح کے مطابق روشناس کرانے کا تہیہ کر لیا ۔انھوں نے ہندؤوں کے حملوں کو مغرب اور استعمار کے ہتھکنڈوں سے تعبیر کیا جو مسلمانوں کو ذلیل کرنے کی سازش تھی ۔انھوں نے فروری 1927ء میں جمعیت العلمائے ہند کے اخبار ''الجمعیت'' میں جہاد کے موضوع پر لکھنے کا آغاز کیا اور یہ مضمون کئی اقساط میں شائع ہوا ۔بعد ازاں یہ تمام مضامین ''الجہاد فی الاسلام'' نامی کتاب کی شکل میں منظر عام پر آئے ۔مولانا کے ان شروعاتی مضامین میں جہاد کی اصل حکمت کی وضاحت کی گئی کہ انھوں نے ہندؤوں کی نسبت مغرب کو آڑے ہاتھوں لیا۔ مولانا نے اپنی تحقیق میں بتا یا کہ جب مغرب نے کمزور اور غیر مستحکم قوموں پر دھونس دھاندلی سے قبضہ کرنا شروع کیا تو اسی وقت اسلام کے پھیلاؤ کے عمل کو بھی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تلوار کا مرہون منت قرار دیا جانے لگا۔

مغرب نے اپنے آپ کو تمام الزامات سے بری قرار دینے کے لیے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے رد عمل میں محکوم عوام کی نفرت سے بچنے کی تدابیر کے طو ر پر تمام توپوں کا رخ کامیابی سے اسلام کی جانب موڑنے میں کامیاب ہوگئے اور اس کے نتیجے میں اسلام کا جہادی تصور مسخ ہوگیااور یہی تصور بغیر کسی تحقیق کے من و عن تسلیم کر لیا گیا انیسویں اور بیسویں صدی کے دوران مسلمان سکالروں نے جہاد کے متعلق غلط مفہوم کو ختم کرنے کی متواتر کوشش کی لیکن انہوں نے یا تو معذرت خواہانہ لہجہ اپنایا یا پھر موجودہ دور میں مولانا مودودی نے اہل مغرب کی حمایت حاصل کرنے کی خاطر اسلامی تعلیمات میں لچک دار رویہ اپنایا تھا۔ محض دوسروں کو مطمئن کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات کا یہ اظہارِ فکر اہل بصیرت نے ناپسند کیا۔

نرم گوشہ رکھنے والے مسلمانوں پر نقطہ چینی کرنے والے نقادوں نے مولانا مودودی کے جہادی تصور کو کفار کے خلاف جنگ کی بجائے نہایت شریفانہ برتائو پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ۔ نو آبادیانہ نظام کے مخالف مسلمانوں کی طرح انہوں نے بھی تلوار یا اسلحے کے ساتھ جہاد کی مخالفت نہیں کی لیکن انہوں نے اس الزام کی بھی سختی سے تردید کی کہ اسلام اپنے پیروکاروں کو قتل و غارت کا درس دیتا ہے۔ مولانا نے ثبوت کے طور پر قرآن حکیم کی یہ آیت پیش کی۔

''اس بنا پر ہم نے بنی اسرائیل کے لیے یہ قرار دیا کہ جو شخص کسی انسان کو بغیر اس کے کہ وہ ارتکاب قتل کرے اور روئے زمین پر فساد پھیلائے، قتل کردے تو یہ اس طرح ہے گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جو کسی ایک انسان کو قتل سے بچالے تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخشی ہے اور ہمارے رسول واضح دلائل کے ساتھ بنی اسرائیل کی طرف آئے پھر بھی ان میں سے بہت سے لوگوں نے روئے زمین پر ظلم اور تجاوز کیا۔ (5:32)

مولانا نے واضح کیا کہ ہر معاشرے میں زندہ رہنے کا حق ہر انسان کے لیے برابر ہے اور دنیا کا کوئی مذہب کسی انسان کو دوسرے انسان کے قتل کرنے کی ترغیب نہیں دیتا۔ دوسرے سیکولر قوانین تو جزوی انداز میں قتل سے منع کرتے ہیں جب کہ اسلام انسان کے دل میں وہ احساس اور جذبہ پیدا کرتا ہے جو اسے قتل جیسے جرم کے ارتکاب کے خلاف اکساتا ہے۔ مولانا نے اسلامی تعلیمات کو حضرت عیسیٰ کے پہاڑی وعظ (Sermon on the mount) اور ہندو فلسفے اہنسا سے بھی زیادہ انسانیت ساز اور انسان دوست قرار دیا۔ آزاد کی طرح انہوں نے بھی''حق'' کو انسانی زندگی سے بھی فزوں تر گردانا یعنی اگر کوئی شخص کسی انسان کے قتل کا مرتکب ہوتا ہے یا سماجی امن میں بدنظمی (فتنہ) پیدا کرتا ہے ۔ اس کا واجب القتل ہونا انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے مترادف ہے۔ اسلام بہترین ضابطہ حیات ہے جو کہ فہم و ادراک کی کسوٹی پر آزادی اور امن و امان قائم کرنے کے لیے اور برائی کو جڑ سے اکھیڑ پھینکنے کی خاطر ظالم کا خون بہانا جائز سمجھتا ہے بلکہ جب عیسائی قوم پرستوں نے طاقت اور اقتدار حاصل کیا تو انہوں نے بھی سزائے موت کے قوانین پر عمل کو بہتر کیا جب کہ ہندو مذہب کے صلح کل کے پیغام کے باوجود منو کا قانون ان افراد کے لیے موت کی سزا تجویز کرتا ہے جو رسوم و رواج میں تخریب کا باعث ہوں۔ قرآن کا قانونِ قصاص نہ صرف فرد کو تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ اجتماعی طور پر بھی معاشرے میں امن کا پیغام ہے کیونکہ ایک فرد چند افراد کو متاثر کرتا ہے جب کہ بہت سے لوگ مل کر اجتماعی طور پر قومی، سیاسی، اقتصادی اور روحانی ابتری کا سبب بن سکتے ہیں۔

جب کسی معاشرے میں برائی اور جرائم کو روکنے کے لیے زبانی یا رسمی اقدامات ناکام ہوجائیں تو یہ صورت حال اخلاقی بدنظمی کو جنم دیتی ہے ۔ اس وقت ایمان کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ انسانیت پرست طبقہ تلوار لے کر اٹھ کھڑا ہو اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک زمین پر خدا کا قانون نافذ نہ ہو جائے نا انصافیوں کے خلاف جنگ کو مولانا مودودی خدا کی جنگ قرار دیتے ہیں اور اسے ''جہاد فی سبیل اللہ'' کہتے ہیں اور اس میں چھوٹے بڑے سب سے یکساں سلوک ہوتا ہے اور یہ جنگ کفار کے خلاف ہو تو جہاد یا قتل میں کوئی تمیز نہیں سمجھی جاتی۔ مولانا مودودی نے اسلام کی روشن فکر کو نیکی کے پیمانے پر پرکھتے ہوئے جہاد کی مثال اس طرح بیان کی''سچائی کی اس جنگ میں ایک رات کا جاگنا ہزار راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے سے بہتر ہے اور میدانِ جنگ میں لڑنا گھر میں ساٹھ سال تک کی عبادت سے افضل ہے''۔ ظلم اس لیے غلبہ پاچکا ہے کیونکہ مسلمانوں نے جہاد کی روش ترک کردی ہے۔ مولانا مودودی نے سامراج کے خلاف اپنے ایجنڈے پر اظہار رائے کرتے ہوئے کہا کہ قوم اس لیے بیرونی طور پر مدافعت کرنے سے قاصر ہے کیونکہ وہ ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں کرتی اور اپنی غیرت و حمیت سے ہاتھ دھو بیٹھی ہے۔ قوموں کو پھلنے پھولنے کے لیے قربانی کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا ورنہ وہ بیرونی آقائوں کے محکوم ہوجائیں گے اور یہ زندہ رہنے کا سب سے گھٹیا درجہ ہوگا۔ روحانی اور جسمانی طور پر مغلوب انسان پستی میں گر جاتا ہے کیونکہ طاقت ور شخص کبھی بھی کسی کو اپنے اوپر مسلط نہیں کرتا۔ انہوں نے انیسویں صدی کے جدت پسند ، ہندوستانی مسلمانوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے دفاعی جہاد کا نظریہ اپنالیاتھا۔ عالمی مذہب کے طور پر اسلام کا پھیلائو تلوار کا نتیجہ تھا لیکن لوگوں کو مجبور کر کے مسلمان نہیں کیا گیا تھا بلکہ انہوں نے متاثر ہو کر رضاکارانہ طور پر اس کی تعلیمات قبول کی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کہنا یکسر غلط ہے کہ اسلام نے تلوار کے ذریعے لوگوں کو مسلمان بنایا اور یہ بھی درست نہیں کہ نشرو اشاعت میں تلوار کا کوئی کردار نہیں رہا دراصل سچائی ان دونوں نظریوں کے درمیان کہیں پوشیدہ ہے دنیا کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ تلوار کی قوت اور تبلیغ کی طاقت دونوں نے مل کر اپنا اہم کردار ادا نہ کیا ہو۔

مولانہ مودودی نے اپنے مشہور و معروف لیکچر ''اسلام میں جہاد '' میں مغرب کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے شعلہ فگن آنکھوں اور داڑھیوں والے مذہبی جنونیوں کو تلواریں لیے بڑھتے ہوئے دکھایا جو طاقت کے زور پر لوگوں کو کلمہ پڑھاتے تھے۔ انہوں نے مغرب کے چہرے کو بے نقاب کیا جو دنیا کو اپنے سامان کی فروخت کے لیے ہر قیمت پر اپنی تجارتی منڈی بنانے پر تلا ہے اور ہر قسم کے خطرناک ہتھیاروں سے مسلح ہے اور توجہ ہٹانے کے لیے مسلمانوں کے ماضی کی جانب لوگوں کا رخ موڑنا چاہتا ہے مسلمانوں نے جو کچھ کیا وہ ماضی کے اوراق میں دفن ہوچکا ہے لیکن ان کے مثبت عملی اقدامات تو آج کی دنیا دن رات ملاحظہ کر رہی ہے۔ افریقہ ، یورپ، ایشیاء اور امریکہ کون سا زمین کا ٹکڑا ایسا ہے جو کہ خون خرابے سے محفوظ ہے اور یہ جنگ و جدال ان کی اپنی غیر مقدس جنگوں کا شاخسانہ ہے۔

توپیںداغنا اور بندوقوں سے گولیاں چلانا تو اب تک انگریزوںکی شان ٹھہری ہے۔ جب کہ جہاد کا تذکرہ مسلمانوں کی زبانوں اور لکھنے لکھانے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اور یہ سب کچھ سیاسی مظاہرے کی مانند ہے جہاد بحیثیت ایک مقدس جنگ جو کہ خدا کی راہ میں لڑی جاتی ہے کو سمجھنے میں خاصی رکاوٹیں حائل ہیں۔ اسلام ایک انقلابی تحریک کا نام ہے جو دنیا کے سماجی نظام کو بدلنا چاہتا ہے اور اس کی ان نظریات کے مطابق تعمیر کرنا چاہتا ہے جس کا تعلق بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود سے ہو۔ مسلمانوں کے بارے میں یہ نقطۂ نظر کہ وہ تمام حکومتوں اور ریاستوں کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں ، اسلام کے تصور کے خلاف ہے ۔ جہاد ایک ہما جہتی اصطلاح ہے جو کہ ایک ایسی نظریاتی ریاست کا قیام عمل میں لانے کا باعث بنتی ہے جہاں انسانوں میں ذہنی اور عملی تبدیلیاں لائی جاسکیں۔ تمام انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ایمانداری سے کام کرنا، خدا کی راہ میں کام کرنے کے مترادف ہے اور اس سلسلے میں رنگ، نسل، قوم اور ملک کی تمیز نہیں ہوتی اور یوں حزب اللہ یعنی خدا کی جماعت کا وجود عمل میں آتا ہے جو محض نیکیوں اور راست بازی کے کاموں پر یقین رکھتی ہے۔

خدا کی جماعت کی تائید مسلمانوں کے دین کی اصل سچائی ہے مولانا کے خیال کے مطابق جہاد میں دفاعی اور جارحانہ دونوں وصف موجود ہیں یعنی اگر مسلمانوں کی جماعت یہ دیکھے کہ اسلامی تقاضے مجروح ہورہے ہیں تو قوانین کی پاسداری کے لیے جارحانہ کارروائی کرے اور دفاعی حکمت عملی اس وقت اختیار کرنی ہوگی، جب ریاستی قوت کو مجبور کرنے کے لیے اسلامی اصولوں کا احیاء ضروری ہو۔

لوگوں کو غیر اسلامی طریقوں سے باز رکھنے اور دبائو ڈالنے کی بجائے خدا کی جماعت حکومت سے سختی سے پیش آتی ہے جو کہ اخلاقی اصولوں کو معاشرے میں رائج کرنے کی اصل محرک سمجھی جاتی ہے۔ اسلام کا جنگی نظریہ مغربی سامراج کے توسیع پسندانہ جنگی عزایم سے بالکل مختلف ہے گو کہ دونوں اسکول ملکوں کو مفتوح کرتے ہیں لیکن ان کے اساسی اصولوں میں زمین و آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ ایک جگہ اقبال کہتے ہیں:

پرواز تو دونوں کی ہے اس ایک جہاں میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

مولانا مودودی بحیثیت سیاسی کارکن اور صحافی شاید اقبال کی طرح کا شاعرانہ اوج یا فلسفے کا ادراک نہ رکھتے ہوں یا آزاد کی سطح کی اتھاہ معراج کے حامل نہ ہوں لیکن انہوں نے پسماندہ مسلم معاشرے کے نقاد کے طور پر مغربی استعماری نظام میں اپنا نقطہ نظر بھرپور انداز میں پیش کیا۔ انہوں نے خلافت عثمانیہ کی ناکامی کا ذمہ دار عرب قوم پرستوں اور ترکوں کی تنگ نظری کو قرار دیا ۔ ایک انسان کے اوپر دوسرے انسان کی ظالمانہ حکومت کو خدا کے اقتدارِ اعالی سے تبدیل کرنے کے لیے مودودی صاحب کی تحریریں اور تقریریں ان مسلمانوں کے لیے خاصی مددگار ثابت ہوئیں جو اسلامی اساس اور سیاسی و ثقافتی اقدار میں بٹے ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ مولانا کی 1941ء میں قائم ہونے والی تنظیم ''جماعت اسلامی'' کے جھنڈے تلے اکٹھے ہو گئے اس طرح انہوں نے بھرپور انداز میں ''جاھلیہ'' کی مخالفت کی۔ یہ ایک ایسی اصطلاح تھی جو کہ اسلام کے آنے سے پہلے پائے جانے والے نظریات کے متعلق معرضِ وجود میں آئی۔

مولانا کا یقینِ کامل تھا کہ اسلام کی فلاسفی کسی تہذیب کی خوشہ چین نہیں اس لیے انہوں نے اسے ایک ثقافتی امتیازی خصوصیت کا حامل سمجھا ۔ ان کا غیر تصفیہانہ رویہ جو کہ غیر جمہوری کردار کا غماز تھا وہ معاشرے میں پائے جانے والے اختلافات کے درمیان سمجھوتے سے انکار کی شکل میں سامنے آیا۔ جیسا کہ اسلام کی ضد ''جاھلیہ'' ایک ایسے جہاد کی متقاضی تھی جو انسانیت کے نقطہ نظر سے ذہنی اور جذبات انگیز انقلابات لانے کا جواز فراہم کرتی تھی۔ مولانا مودودی نے بھی مغربی تہذیبوں اور دیگر لا مذہب قوموں کے درمیان تعلقات اور ہم آہنگی کو قریب سے دیکھا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ کوئی تہذیب اتنی ہی اچھی ہوتی ہے جس قدر اس کا ضابطہ اخلاق اچھاہو جبکہ اسلام میں خداکے اقتدار اعلیٰ کا تصور کائنات میں سب سے مقدم ہوتا ہے اور یہی اخلاق تصور اسے باقی تہذیبوں سے ممیز کرتا ہے مگر بدقسمتی سے بنو امیہ کا اقتدار قائم ہونے کے بعد مسلمان دوبارہ ''جاھلیہ'' کی ثقافت میں ڈھل گئے جس سے غیر انقلابی رویّے پروان چڑھے۔چونکہ ریاست کے موقع پرست عناصر نے اسلام کے مکتبہ فکر کو زبانی جمع خرچ سے جاری رکھا مگر مسلمان اس کی اصل تعلیمات میں کی جانی والی تبدیلیوں سے متنفر ہی رہے اس بدنیتی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کی بجائے آرٹ ،لٹریچر اور ''جاھلیہ'' کے فلسفہ حیات نے مسلمانوں کے شعور پر غلبہ پالیا۔ مولانا مودودی کی رائے میں ناچ،گانا اور پینٹنگ ''جاھلیہ '' کے فنون کا حصہ ہیں جو کہ سماجی ناہمواری کا نتیجہ ہے ۔مسلمان غیر اخلاقی زینے طے کر رہے ہیں کیونکہ بعض علماء نے اسلام میں مشرکانہ جذبات شامل کر دیے۔اس تمام دنیاوی آلودگی کے باوجود اسلام کا اخلاقی پہلو اور تعلیمات محفوظ رہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان قوم باقی غیر مسلم اقوام کی نسبت ہمیشہ اخلاق کے بلند معیار پر فائز رہی ہے۔ذاتی طور پر ہر مسلمان اسلام پر عمل پیرا ہوتا ہے لیکن انفرادی سعادت مندی کافی نہیں۔ایک پاکیزہ ریاست کے قیام کے لیے منظم اور متحدہ سوچ اور کاوشوں سے ہی اسلام کا احیاء ممکن ہے اور یہی وہ مقام ہے جہاں ایک مصلح دین یعنی ''مجدد' کا کردار شروع ہوتا ہے اور یہی مولانا مودودی کا حا صل مقصد ہے ۔انھوں نے اس نظریے کو غلط قرار دیا کہ ہر صدی کے آغاز یااختتام پر مجدد تشریف لاتے ہیںمسلم تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو وہ ہر دور میں موجود رہے ہیں اور عموماًوقت ساتھ ساتھ مجدد کی موجودگی بھی اتمام حجت کے طور پر قائم رہی۔

مولانا مودودی نے نیم مجدد اور ظہور مہدی کے درمیان فرق کی وضاحت کی۔ ایک عام مجدد اپنے دور کے سیاسی حالات اور مختلف امور کی صحت کو اسلامی پیمانے پر پرکھتا ہے اس نے نہ صرف ایک ملک بلکہ تمام دنیا میں سیاسی قوت کو دبانے کے لیے اور اسلامی قانون کے نفاذ کی خاطر سازگار حالات پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔ مولانا مودودی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ امام مہدی کی آمد کے تصور نے عام لوگوں میں اخلاقی سست روی کو فروغ دیا ان کے خیال میں وہ دشمن کی جدید فوج کے خلاف روحانی طاقت سے جہاد کریں گے حالانکہ امام مہدی جدید ترین جنگ لڑیں گے جو وقت کی ضرورتوں کے عین مطابق ہوگی۔دوسرے انقلابی لیڈروں کی طرح وہ بھی سیاسی اور ثقافتی حوالے سے طاقت ور تحریک چلائیں گے اور اس طرح وہ موجودہ قوتوں پر قابو پالیں گے اور جدید علمی و سائنسی اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آئے گا۔

مولانا مودودی بھی مجددیوں کی اس لسٹ میں سے ایک ہیں جس میں تیمیہ، احمد سرہندی اور ولی اللہ شامل تھے۔ مسلم علاقوں میں منگولوں کی چڑھائی کے وقت تیمیہ نے اسلام کو لوگوں میں فطری سوجھ بوجھ کے مطابق پیش کیا ۔مغل شہنشاہ اکبر کی ہندونواز سیاست کو اسلام میں ملاوٹ کے عمل سے روکنے کے لیے سر ہندی کا کردار اظہر من الشمس ہے جبکہ ولی اللہ جیسے مجدد کی وجہ سے ہی ہندوستان کے مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات پر عمل جاری رکھا حا لانکہ انھوں نے تلوار نہ اٹھائی جب کہ ان کے بعد آنے والے اس سے بری الذمہ رہے ۔شاہ اسمعیل اورسید احمد بریلوی حالانکہ مجدد نہیں تھے۔ مگر انھوں نے بھی ولی اللی کے خیالات کا پرچار کیا جن کے خیال میں دنیاوی آسائشوں اور مال و منال میں دلچسپی نہ رکھنے والوں نے ''جہادفی سبیل اللہ''کے نظریے کو فروغ دیا تھا ان کی فوج کا نظم و ضبط مثالی تھا انھوں نے جہاد کے اسلامی تصور سے کبھی روح گردانی کی سپاہیوں نے عورتوں سے بد سلوکی نہیں کی اور نہ ہی غیر ضروری طور پر کسی انسان کی زندگی کو زک پہنچائی ۔یہ لوگ دن کے وقت گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہوتے ہیں او ر رات کو مصلیٰ ٔ عبادت ان کا بچھوناہوتا اگر حکومت قائم ہوجاتی تو سادہ زندگی اور غربت ان کی عمومی زندگی کا خاصا تھا اور حاکم کی نظر میں چھوٹے بڑے سب برابر ہوتے ۔مجلس شوریٰ کے اجلاس میں بحث ہوتی اور شریعت کے مطابق عدل وانصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے ۔

مولانا مودودی جانتے تھے کہ برصغیر کے مسلمان مجاہدین کا نام عزت سے لیتے ہیں اور ان کی قربانیوں کو احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں لیکن جہاد فی سبیل اللہ جیسی آفاقی اکائی کی ناکامی کی وجوہات پر غور نہیں کرتے جو کہ علی گڑھ جیسے اسکول کی سوچ کو بھی پروان چڑھاتی تھیں کہ برطانوی راج میں مذہبی اصلاح بھی جہاد سے کم نہیں۔ مگر یہ نظریہ غلط تھا مولانا مودودی نے شکست کی تاریخی وجوہات تلاش کرتے ہوئے یہ اخذ کیا کہ جو کام مذہبی مصلح دین سر ہندی سے ولی اللہ تک صوفیاء کی اصلاح کے لیے انجام دیا گیا تھا ناکامی پر منتج ہوا اور یہ انحراف نادانستگی میں ہوئے۔

عالم اسلام کی ان دو جید شخصیتوں کی سوچ ان کو قطب کہلوائے جانے سے نہ روک سکی اور وہ اپنے دور کے عظیم روحانی استاد مانے گئے۔انھوں نے مرشد اور مرید کے نظام کو تبدیل کرنے کی کوشش کی مگر ان کی اصلاحات کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کیونکہ انھوں نے روحانی تجربات کا انوکھا اظہار کیا تھا۔

مولانا مودودی کا خیال تھا کہ سید احمد اور شاہ اسمٰعیل نے قبائل اسلامی انقلاب کے لیے تیار نہ کر کے عملی سطح پر ناکامی کا ثبوت دیا۔انھوں نے سادگی سے یہ سمجھ لیا تھا کہ پٹھان غیر اسلامی قوانین سے عاجز آئے ہوئے ہیںاس لیے اسلامی حکومت کو خوش آمدید کہیں گے لیکن جس اہم وجہ سے ان کے مقصد کو نقصان پہنچا وہ در اصل یورپین قوت اور سید احمد کے پیروکاروں کے درمیان فوجی طاقت کا عدم توازن تھا ۔یورپ کی لائبریریوں میںفلسفیوں،سائنسدانوںاور تحقیقی کاموں کا انبار لگا ہوا ہے جس سے لوگوں کے ذہنی رویوں میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں جناب ولی اللہ اوران کے بیٹوں نے محدود حلقے کے لوگوں کے لیے کتابیں لکھیں ۔ہندوستان میں فلسفہ ،اخلاقیات، امورِ زندگی ،سیاست اور اقتصادی علوم پر بحث و مباحثوں پر زندہ تھا ۔نئی نئی ایجادات نے انجینئرنگ اور جنگی طریقہ کار میں ترقی متعارف کرائی جس سے انقلابِ فرانس اور صنعتی انقلابات آئے لیکن سید احمد اور شاہ اسمٰعیل کو یہ خیال نہ آیا کہ علما ء کا کوئی وفد ہی یورپ بھیجتے تاکہ سائنس کے میدان میں ان کی ترقی کا ادراک ہوتا اور انھیں تویہ علم نہیں تھا کہ ہندوستان میں اسلام کو اصل خطرہ سکھوں سے نہیں بلکہ انگریزوں سے تھا۔

جہاد کی ناکامی سے یہ ثابت ہوا کہ مذہبی اصلاحات صرف شریعت کے احیاء سے ہی ممکن نہیں بلکہ ایک وسیع الخیال اور جامع تحریک کی ضرورت ہے جس کی بنیاد اجتہاد پر رکھی جائے۔ جدید جاھلیہ نے قرآن و سنت کی روشنی میں متعین شدہ راہ میں رکاوٹیں ہی کھڑی کی ہیں۔ مسلمانوں کو ماضی کے کسی بھی سکالر کے عقائد تک خود کو محدود کرنے سے احتراز برتنا چاہیے۔ ایک جدید مجدد کو ماضی کے پیامبروں کا پرتو نہیں ہونا چاہیے اور جو لوگ باطنی تجربات سے اپنے عقیدے کو زندہ رکھتے ہیں محض نقال ہیں۔ ہندوستانی صوفیاء کی روایات بھی مقامی رسوم و رواج سے متاثر ہیں جن میں خدا کی بجائے شخصی افکار زیادہ ہیں۔ مولانا مودودی نے لوگوں کو متنبہ کیا کہ ایسے لوگوں کے دام فریب میں نہ آئیں اور سنی روایت کے مطابق اخلاقی بصیرت کے معیار پر مذہبی اصلاح کے مقام کو خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں انہوں نے سرہندی اور ولی اللہ کو ان کے کام کی وجہ سے مجدد تسلیم کیا مگر انہیں خدا کی جانب سے بپتسما پر مامور شخصیت ماننے سے انکار کر دیا۔ مولانا مودودی نے سید سلیمان ندوی کے اس الزام کی بھی سختی سے تردید کی کہ وہ اپنے آپ کو ایک مجدد کے طور پر منوانا چاہتے ہیں اور عنقریب مہدی ہونے کا دعویٰ کرنے والے ہیں۔

مولانا کے اسلام کے بارے میں اتنی حتمی توجیہہ اور اظہار رائے پر لوگوں کے ذہنوں میں شک و شبہات ابھرے۔ پرانے علماء نے روایتی تعلیمات کو رد کرنے پر احتجاج کیا مگران کے خیالات سے اتفاق رائے رکھنے والے بھی موجود تھے۔ جہاد سے متعلق ان کے مضامین نے علامہ اقبال کو بے حد متاثر کیا۔ وہ خیال کرتے تھے کہ مودودی کی شکل میں ایک ایسا نوجوان سکالر میسر آ گیا ہے جوکہ بدلتے ہوئے زمانے کے تقاضوں کے مطابق شریعت کو پیش کرنے کے قابل ہے گور داس پور میں مولانا مودودی کی تقرری میں مدد دینے کے علاوہ یہ بھی قیاس کیا جاتا ہے کہ علامہ اقبال نے لاہور میں بادشاہی مسجد کے امام کے طور پر بھی ان کی تعیناتی کے لیے سفارش کی تھی۔ یہ دونوں اشخاص 1937ء کے اواخر میں ایک دوسرے سے ملتے رہے اور اسلامی قوانین میں بتدریج اصلاحی پروگرام پر اتفاق رائے کا اظہار کیا۔

یہ عظیم منصوبہ علامہ اقبال کی 1938ء میں بے وقت موت سے ساقط ہو گیا جبکہ مولانا سے ان کے تعلقات نے بھی کئی ابہام پیدا کیے۔ کچھ مغربی اسکالرز شاعرِ مشرق اور اسلام کے بنیاد پرستانہ خیالات میں کوئی فرق محسوس نہیں کرتے اور دونوں متنازع فیہ خیال کیاجانا غلط فہمی کا نتیجہ ہے جبکہ اقبال کے تمام خیالات کے بہائو کا مرکز ایک متحرک فرد تھا جس نے زمین پر بااختیار اور مکمل آزادی حاصل کی اور مولانا مودودی نے یہ تمام قوت ایک مجدد میں مجتمع کر دی تھی۔ علامہ اقبال نے لوگوں کی جانب سے تمسخر اڑائے جانے کوایک شعر میں منظوم کیا ہے۔

واعظِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں

مولانا مودودی مسلمانوں کے حقیقی تشخص کے لیے فکر مند تھے وہ بنیادی طور پر پیدائشی مسلمان کہلوانے کے حق میں نہیں تھے بلکہ اسلام کی معرفت رکھنے والا مسلمان چاہتے تھے۔ مولانا نے اقبال کی طرح دین کو زندگی پر ترجیح دی۔

مارکسیت کے تنقیدی جائزے کے بعد مولانا مودودی اس نتیجے پر پہنچے کہ انقلابی پروگرام کی مخالفت بے سود ہے اپنے وقت کے دور اندیش قاری کے طور پر وہ یہ سمجھتے تھے کہ ایک جدید ریاست ہی اپنے حقیقی مقاصد کا ادراک رکھ سکتی ہے۔ انہوں نے دین کو حکومت جانا اور شریعہ کو قانون کا نام دیا اور عبادات کو قوانین کے احترام میں خود سپردگی کا درجہ دیا ا ور حکمران کو اولی العمر درجہ دیا اور قوانین کی پاسداری کو مذہبی فریضہ قرار دیا۔ ایک انسان بیک وقت دو مذاہب کا پیروکار نہیں ہو سکتا۔ خدائے واحد پرایمان اور دنیاوی قوانین کا اتصال شرک پر مبنی ہے کیونکہ دو طرح کے خیالات دنیاوی حکمرانوں کے قوانین اور خدا کی شریعہ کے درمیان غلط فہمیوں کو جنم دیتے ہیں۔ مسلمانوں کی وہ عبادات جو شریعہ سے مطابقت نہیں رکھتیں مصنوعی ہوتی ہیں کیونکہ عمل سے زندگی بنتی ہے اور خدا کے دین کی راہ حتمی ہے جبکہ عموماً جمہوریت یا روایتی قوم پرستی کودین کی طرح پوجا جاتا ہے۔

جب تک خدا کے قانون کا عدالتوں میں نفاذ نہیں کر دیا جاتا اور اس کی حقیقت مسلمہ نہیں ہوتی اس وقت تک ہندوستان میں اسلام پر عمل درآمد کرانا خام خیالی پر مبنی ہے مولانا مودودی نے اپنے دلائل کے ثبوت میں قرآنی آیات کو پیش کیا وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ دوسرے مذاہب کی طرح اسلام محض زبانی قبول و ایجاب کاہی نام نہیں اور اسے رسوم و رواج کا مجموعہ بھی نہیں کہا جا سکتا اسلام تو زمین پر خدا کے قانون کی سربلندی کے لیے جہادی عمل پر زور دیتا ہے۔

''یہاں یقینِ کامل کا امتحان ہے کہ اگر تمہارا ایقان محکم ہے توتم کسی دوسرے دین کا حصہ بن کر چین کی نیند نہیں سو سکتے اسلام پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ کسی دوسرے مذہب کے احکام کی پیروی کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کانٹوں کے بستر پر سو رہے ہیں اور زہر تناول کر رہے ہیں اور خدا کے قانون کا نفاذ محض ایک سطحی سی خواہش بن کر رہ گیاہے۔ لیکن اگر کوئی کسی دوسرے دین کا ساتھ پرامن طریق سے نبھا رہا ہے تو اسے مومن نہیں کہا جا سکتا اگر وہ کتنی ہی عبادات کیوں نہ کر لے۔''
مولانا مودودی کے مسلمان اور کافرکے درمیان اس تفریق نے کئی اہل ایمان کو ان کے متعین کردہ معیار سے خارج کر دیا انہوں نے مسلمانوں کے دوغلے رویوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جو جمہوریت کے لیے جہاد کرتے ہیں ان کے بقول ''اگر یہ لوگ اپنے آپ کو مسلمان خیال کرتے ہیں تو وہ سراسر غلطی پر ہیں ___ ایک شخص کبھی بھی اپنے دین سے مخلص نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ دوسرے مذہب کے فروغ سے اپنی خدمات ترک نہ کر دے۔''

مولانا مودودی کے اپنے عہد کے جہادی بیانات کی حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ انسانیت کو اخلاقی اور ثقافتی پستی میں گرنے سے بچانے کا اسلامی جہادی تصور اورریاستی قوت کا حصول انہیں دوسرے نو آبادیاتی مخالف مسلمان مفکرین سے ممیز کرتا ہے۔ اقبال نے اس خیال کو ایک غلطی قرار دیا کہ اسلام میں ریاست کا غلبہ تسلیم کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو سماجی تبدیلیاں متعارف کرانے کے لیے اجتہاد کی ضرورت ہے اسلام میں وہی ریاست حکومتِ الہیہ کی دعویٰ دار ہو سکتی ہے جس کا مقصد روحانی جمہوریت کا فروغ ہو۔زمین کسی ایسے خدا کے نمائندے کی متحمل نہیں ہوسکتی جو حکومت الہیہ کی آڑ میں اپنے آمرانہ عزائم رکھتا ہو۔ اقبال پرامید تھے کہ اسلام کی ولولہ انگیز وسعت پذیری، قدامت پسندانہ اور آمرانہ سختیوں کے باوجود خود بخود اپنی راہیں تلاش کر لیتی ہے۔ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے ساتھ ہی اجتہاد کا حق صرف منتخب شدہ مسلم اسمبلی کو حاصل ہے اور اسلام کے مختلف مکتبہ فکر کے اختلافات کا حل موجودہ دور کے تقاضوں کے تناظر میں ''اجماع'' میں ممکن ہے انہوں نے ترکوں کی ایک منتخب شدہ اسمبلی میں اجتماعی اجتہادی ذمہ داری نبھانے پر اظہار پسندیدگی کیا۔ حکومت کا جمہوری انداز نہ صرف اسلام کی روح کے مطابق ہے بلکہ وہ بدلتے ہوئے حالات کے تحت اسلامی دنیا میں توازن کے لیے وقت کی اہم ضرورت بھی ہے۔

مولانا مودودی کا حکومت الہیہ کا تصور عوام کے اقتدار اعلیٰ کو خارج از امکان قرار دیتا ہے۔ لیکن ان کی جانب سے جمہوریت کے لیے نرم گوشہ اس صورت میں ممکن ہے کہ ریاست شریعت کی تاویل کے لیے ایسے علماء کی تجاویز پر عمل کرے جو عربی زبان کا علم اور اسلامی لٹریچر کی پوری پوری سمجھ بوجھ رکھتے ہوں۔ انہوں نے اسلام کے تغیر پذیر اور غیر متغیر قوانین کے فرق کی وضاحت کی اور شرعی قوانین کو ریاستی قوانین کے مساوی قرار دینے کو سختی سے رد کیا اور خدا کی جماعت کی مرتب شدہ پالیسیوں پر ریاستی چھاپ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اسلامی معاشرے میں عدل و انصاف اور مساوات موجود ہوں تو ا ختلافات ختم ہو جائیں گے۔ خود کو اللہ کے سپرد کر دینے کا مطلب ہے کہ جو بھی جتنے اختیارات کا حامل ہے خدا کی خوشنودی کی خاطر کام کرے۔

مولانا مودودی نے اس بحث کا اس نظریاتی استحقاق پراختتام کیا کہ فرد کو اپنی ذاتی خواہش اور حدود کی جانچ میں اسلامی ریاست کے فوائد اور نقصانات پر نقطہ چینی سے دور رہنا چاہیے۔ اقبال کا مسلمان ایک روشن خیال اور مہذب انسان ہے اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ علم کے بغیر ایک برہمن ہمیشہ برہمن ہی رہے گا لیکن مسلمان کے لیے اسلام کا علم حاصل کرنا ضروری ہے اقبال نے اسے مزید آسان الفاظ میں یوں سمجھایا کہ ایک بت پرست جس کا دل زندہ ہے بہتر ہے اس مسلمان سے جو مکہ کے مقدس حرم میں سو رہا ہے۔ علامہ اقبال نے محسوس کیا کہ ایک ایسا کام جواگر دنیاوی مقاصد کے لیے ہو اور زندگی کی لامتناہی رنگینیوں کو پیش نظر رکھ کرنہ انجام دیا جائے تو یہ روحانی سودا ثابت ہو گا اور اس نظریے میں سر سید کے نقطۂ نظر کے مطابق تنگ نظری دنیا سے محبت کا نتیجہ ہے نہ کہ مذہب اس کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

مولانا مودودی کے قرآن و حدیث کی روشنی میں خواتین کے کردار کے حوالے سے نظریات بھی واضح ہیں۔ حالانکہ وہ علماء کے روایتی خیالات کے امین نہیں ان کی رائے میں خواتین کے لیے سماجی پابندیاں مسلمانوں کی دفاعی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں جبکہ مغربی ثقافت نے اسے اخلاقی امراض کے کنارے لا کھڑا کیا ہے۔ انہوں نے مغرب زدہ مسلمانوں کو سفید یرقان کا شکار قرار دیا جنہیں سیاسی اصطلاح میں وطن فروش کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے اقبال کے ان خیالات سے اتفاق کیا کہ خاتون کا اصل کردار بچے کی نگہداشت و پرورش، ہمدرد بہن، قربانی دینے والی بیوی اور فرض شناس بیٹی کے روپ میں ہے لیکن انہوں نے اس کی معاشرتی حصہ داری کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ عورت اپنی ماہانہ نجاست کی وجہ سے جسمانی اور ذہنی طور پر کمزور ہو جاتی ہے اور یوں گھر سے باہر کام پرجانے کے لیے قطعاً ناموزوں ہے۔ جبکہ مغرب نے مرد عورت کی تمیز ہی ختم کر دی ہے اور اس نے اسے آزادی نسواں کا نام دے کر اپنے سرمایہ داری نظام کے دوام کے لیے عورت کا استحصال کیا ہے۔

مولانا مودودی کی مغربی سامراجی نظام کی مخالفت اقبال کے ان خیالات کی توثیق کے مترادف تھی جو انہوں نے مذہب کے ثقافتی پہلو کو مدنظر رکھ کر بیان کی کیونکہ مذہب کے بغیر اخلاقیات عبث ہیں خدا کے سماجی اور اخلاقی قانوں کے بغیر اچھے اور برے کی تمیز اور نیکی بدی کا تصور مفقود ہے۔ کسی اخلاقی قانون کے پیچھے باختیار ذات کی نفی الجھنوں اورمسائل کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔ اسلام کی صورت میں بہترین ضابطہ حیات موجود ہے جو انسانیت کو تاریکی کے گڑھے سے نکال سکتا ہے اس کی فلاسفی نے رنگ،نسل اور ملک کا تصور مٹا کر ایک امہ کا پیغام دیا ہے۔ اسلام کا ڈھانچہ ایک متحرک اور ترقی یافتہ بنیاد پر قائم ہے اور اس نظام میں مرغ باد نما کی طرح کا خود غرضی کا پہلو نہیں ملتا۔

تمام اخلاقیات کا منبع ایک مطلق العنان خدا کی ذات ہے۔ اس کے وضع کردہ قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں۔غیرمسلم اسلام کے اخلاقی اسلام کی آفاقیت پرمسلمانوں سے بحث کرنے کی جرات نہیں رکھتے۔ جونہی علماء دین اسلام کو ریاست کی طاقت کے طور پر منوا لیں گے تو سود پرپابندی عائد ہو گی اور لین دین کے تمام کاروبار اسلامی اصولوں کی بنیاد پر ہوں گے۔طوائفوں کے کوٹھے بند کر دئے جائیں گے اور تمام برائیوں کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ غیر مسلم خواتین کو اس بات کا طابع بنایا جائے گا کہ وہ شرم و حیا کے اخلاقی اصولوں کو مدنظررکھ کراسلام کے قوانین کا احترام کریں۔ مسلمانوں کی جماعت سینما گھر بند کر دے گی اور ایسی تمام غیرمسلم ثقافتی سرگرمیوں کو روک دیا جائے گا جس سے انسانی جذبات بر انگیختہ ہونے کا احتمال ہو۔ مولانا مودودی نے نقطہ چینی کا جواب دیتے ہوئے برملا اعلان کیا کہ دنیا کا کوئی بھی مذہب اتنی لچک کا مظاہرہ نہیں کرتا جس قدراسلام میں رواداری، تحمل اور برداشت پائی جاتی ہے۔ اسلام دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کو امن و شانتی کی شرائط پراس طرح پھلنے پھولنے کا موقع دیتا ہے جس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔

مولانا مودودی کی رائے میں صرف مسلم معاشرے میں ہی راہِ نجات کا راز پوشیدہ ہے۔اسلامی تحریک کا احیاء نہ صرف آخرت کے لیے ضروری ہے بلکہ دنیا میں بھی امن و سکون کا باعث ہے۔ مولانا نے آخرت کی خاطر روح بیدار کرنے کے ساتھ دنیا میں کامیابی کا مظہر اسلامی انقلاب کو قرار دیا اپنے دنیاوی نظریے کے کردار کی وضاحت میں انہوںنے روحانی گروہ کی بجائے علما کی کونسل کو خدا کے اصولوں کا معمار قرار دیا۔

مولانا مودودی نے دین کو عقلیت پسندی کے سیاسی حصار میں ڈھال کر دنیاوی مذہب کے روپ میں پیش کیا ان کی رائے میں مغربی ملحدانہ نظریات سے متاثر ہونے والے بڑے مسلمانوں سے نمنٹے کے لیے فوری جہاد کی ضرورت تھی۔ پاکستان کے علیحدہ ملک کی حیثیت سے وجود کی انہوں نے مخالفت کی انہوں نے ایک اسلامی ریاست کے حوالے سے آئینی بحث کی تجویز پیش کی ایک انقلابی کی بجائے ان کی سوچ کا محور ارتقائی تھا انہوں نے پرتشدد ذرائع سے حکومت کے حصول کو رد کیا اور مصر کے ''اخوان المسلمین'' سے بھی دوری پر رہے۔ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جماعت اسلامی آئینی طریقے سے تبدیلی لانے کے لیے الیکشن میں حصہ لیتی رہی ہے جبکہ اس کی حمایت یافتہ طلباء کی شاخ میں اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر تشدد بھی دیکھنے میں آیا ہے۔

اپنے اسلامی تشخص کی خاطر اس ملک میں جس کے بننے کی انہوں نے مخالفت کی تھی مولانا مودودی نے پاکستانی ریاست کے دو مرکزی مسائل پر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جن میں سے ایک انڈیا سے کشمیر کا تنازعہ تھا جبکہ دوسرا احمدی قومیت کا اسلام سے متنازعہ تعلق تھا۔کیونکہ پاکستان کے انڈیا سے سیاسی تعلقات قائم ہوچکے تھے اس لیے نوزائیدہ مملکت کی جانب سے کشمیری مجاہدین کی مدد شریعہ کے خلاف تھی جبکہ مودودی نے کشمیری جدوجہد کوایسی جنگ قرار دیا جو کہ اسلامی فقہ کی رو سے جہاد کے تقاضے پوری کرتی تھی۔ چنانچہ کشمیر کو پاکستان کا جائز حصہ سمجھتے ہوئے انہوں نے ہندوستان سے تعلقات توڑنے کو ترجیح دی۔

مولانا کا 1953ء میں احمدیوں کواسلام سے خارج کرنے کی تحریک میں بھرپور کردار بھی کشمیر میں جہاد کے نظریے کا ہی حصہ تھا۔ پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور مسلمان اس نظریے کی تشریح کے منتظر تھے۔ احمدی مرتد ہو چکے تھے اور اسلامی قانون ان کے خلاف جہاد کا مطالبہ کر رہا تھا پاکستان کو شریعت کی رو سے کشمیر میں بھی جہاد کا آغاز کرنا چاہیے تھا انڈیا سے سفارتی تعلقات کا توڑنا گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا۔ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لیے بنیاد پرستی کی یہ توجیہ پریشانی کا باعث بنتی جا رہی تھی۔ 1950ء کی دہائی میں مولانا مودودی کی جب کوئی شنوائی ممکن نہ ہوئی اور ان کی تعریف میں رطب اللسان ہونے کی بجائے 1953ء میں ایک فوجی عدالت نے انہیں موت کی سزا کا حکم سنا دیا اور ان پر جو الزام عائد کیا گیا وہ کشمیر میں جہاد کی بجائے احمدیوں کے سوال پر ان کا سخت موقف تھا۔

مولانا نے مرزنا غلام احمد کے پیروکاروں کو غیرمسلم اقلیت قرار دینے کو اپنا اور اپنی جماعت کا اخلاقی مقصد قرار دیا۔ احمدی حضرات اپنے لیڈر کو پیغمبر کا درجہ دینے اور جہاد سے برات کے اظہار کے بعد اسلام کے بنیادی ارکان سے انحراف کے مرتکب ہوئے تھے وہ دیگرمسلمانوں سے سماجی اور مذہبی تعلقات توڑ کر اپنے آپ کو اس گروہ سے پہلے ہی علیحدہ کر چکے تھے۔ یہ کہنا بالکل غلط تھا کہ احمدیوں کواسلام کے دائرے سے نکال باہر کرنے سے دوسرے مکاتب فکر کی سرکوبی کے لیے راہ ہموار ہو جاتی کیونکہ کسی دوسری فقہ کے پیروکار احمدیوں کے فتنے سے بڑھ کر خطرناک نہیں ہو سکتے تھے۔ احمدی اسلام کی آڑ میں اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے اہم انتظامی عہدوں پر ملازمتوں پر قابض ہو چکے تھے۔ یہ صورتِ حال مسلمانوں کے لیے خاصی تشویش کا باعث تھی اور وہ ایک اقلیت کو اکثریت کی حق تلفی کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔

1953ء میں فرقہ وارانہ احتجاج اپنی انتہا کو چھونے لگے۔ کچھ بریلویوں کی جانب سے یہ مطالبہ سامنے آیا کہ مولانا مودودی کو بمعہ دیوبندی مکتبہ فکر کے ایک علیحدہ اقلیتی گروہ قرار دیا جائے۔ احمدیوں کو برطانوی سامراج کا ایجنٹ کہا گیا اور انہیں اہم عہدوں سے الگ کرنے کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ پاکستان کے احمدی وزیر خارجہ چودھری ظفر اللہ خان خاص طور پر اس تحریک کا نشانہ بنے اور اس معاملے پر سوائے ایک آدھ مکتب کے تمام مسلمان علماء میں مکمل یکجہتی دیکھنے میں آئی۔

انکوائری کمیشن جو اس تحریک کے حوالے سے تحقیقات کر رہا تھا اس نتیجے پرپہنچا کہ اس تحریک کے دواہم محرک ''مجلس احرار'' اور ''جماعت اسلامی'' اپنے مفادات کی خاطر اس موومنٹ میں شامل تھے کیونکہ مجلس احرار نے تقسیم سے قبل کانگرس کے سیکولر قوم پرست نظریات کی حمایت کی تھی جبکہ جماعت اسلامی،مسلم لیگ کے علیحدہ پاکستانی ریاست کے مطالبے کی مخالفت میں پیش پیش رہی تھی۔ اس طرح وہ اپنے سابقہ نظریات کی تلافی کرنا چاہتے تھے۔ انکوائری کمیشن کی رائے میں احتجاج کندہ کے مطالبات اسلامی مملکت کے تصورکے خلاف تھے چنانچہ مولانا مودودی پر الزامات عائد کر کے ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا گیا لیکن ان کی شہرت اور دیگر وجہ کی بنیاد پر گرفتاری کے بعد 1955ء میں رہائی بھی عمل میں آئی۔ آزادی سے پہلے وہ اس بات پر قائم تھے کہ مسلح جہاد سے ہی عمومی حکومت کو الٰہی ریاست بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن کمیشن کے روبرو انہوں نے اقرار کیا کہ جہاد کا اعلان اس وقت ہونا چاہیے جب حکومت کسی غیر مسلم ملک سے برسرپیکار ہو۔

ان تمام تجربات کے بعد جماعت اسلامی نے ریاستی طاقت حاصل کرنے کی خاطر پہلا قدم اٹھاتے ہوئے سماجی اور ثقافتی تبدیلی لانے کے لیے تعلیمی نظام متعارف کرایا۔ یوں جماعت اسلامی نے نظریاتی طور پر مولانا مودودی کے تعلیمی انقلاب سے خود کو مربوط کر لیا اور آرمی جیسے ادارے سے بتدریج دخل اندازی کی توقع بھی قائم رکھی۔ جماعت نے اپنے آپ کو سیاسی طور پر فرقہ واریت سے دور رکھا اور اس نے اپنے انتخابی الحاق کو ہم خیال سیکولر جماعتوں کے ساتھ استوار کیا۔ مولانا مودودی کے سیاسی اور ثقافتی نظریات کو ان کی جماعت کے سیاسی شعبے نے پاکستان اور بیرون ممالک تک پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن دنیاوی آسائشوں سے موافقت نے ان کی مذہبی اصلاحات سے متعلق ابہام پیدا کیے۔ مولانا مودودی کے پیروکاروں نے ان کے اصولوں پر سرعت سے عمل پیرا ہوتے ہوئے اصل روح کھودی۔ 1979ء میں مولانا کی وفات تک جماعت اسلامی کے سیاسی اثرات نہایت محدود رہے۔ اسی دوران ایران کا اسلامی انقلاب اورروس کی افغانستان میں دراندازی بھی شروع ہوئی۔ مولانا مودودی کی تعلیمات کی بنیاد پرست تنظیموں پر پڑنے والے اثرات کو سمجھنے کے لیے مذکورہ نظریات پر ہونے والی تنقید کا احتیاط سے تجزیہ کرنا پڑیگا جن پر جماعت اسلامی اوردیگر پاکستانی تنظیموں کو تنقید کا سامنا رہا۔ (جاری ہے)

(انگریزی سے ترجمہ: مالک اشتر)