Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
چین کا عروج اور دہشت گردی |
پال جے سمتھ
چین ہمارا قریبی ہمسایہ ہی نہیں بلکہ ہم اس سے دوستی کے دعوے دار بھی ہیں۔ جدید تر ٹیکنالوجی میں چین اور چینی انجینئرز نے محنت اور ہمت کے ساتھ اپنا علیحدہ مقام بنایا ہے۔ تاہم چینی انجینئرز کو دنیا بھر میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ وہ انسانوں کی بھلائی، اور جس ملک میں موجود ہوتے ہیں اس ملک کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن دنیا بھر کے مختلف ممالک میں چینی انجینئرز کا اغوا اور مسلسل ہلاکتیں پوری دنیا کے لیے سوالیہ نشان ہیں۔ دس کے قریب ہلاکتیں تو پاکستان میں ہی ہوچکی ہیں، ایتھوپیا، نائیجیریا، زیمیبیا اور بعض دیگر ممالک میں بھی ان پر حملے ہوئے ہیں۔ اس ساری صورت حال کے پیچھے کیا عوامل کار فرما ہیں؟ بین الاقوامی سطح پر ایسے واقعات کے تدارک کے لیے ٹھوس لائحہ عمل اور خصوصی انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینے کی از حد ضرورت ہے۔ (مدیر)
|
18 اکتوبر 2008ء کو سوڈان کے ایک عسکریت پسند گروپ نے ملک کے جنوبی علاقے میں کام کرنے والے چین کی نیشنل پٹرولیم کارپوریشن کے نو، چینی ملازمین کو اغوا کر لیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اغوا کاروں کا مطالبہ تھا کہ انہیں جنوبی کردوفان کی تیل کی آمدنی میں سے حصہ دیا جائے لیکن بعد میں ایسے بیانات آئے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ انہوں نے چینی کارکنوں کو اس لیے بھی اغوا کیا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ چین خرطوم کی حکومت کو فوجی امداد دیتا ہے اور اس طرح ان کے خطے کو محروم رکھنے میں مدد کرتا ہے۔
آئندہ چند دنوں میں اغوا کا یہ واقعہ ایک المیے میں بدل گیا کیونکہ مغویوں کو چھڑانے کا آپریشن ناکام ہو گیا اور نو مغویوں میں سے پانچ کو قتل کر دیا گیا۔ چین کے وزیر خارجہ یانگ جائی چی نے کہا یہ واقعہ حالیہ برسوں میں بیرون ملک کام کرنے والے چینی کارکنوں کی ہلاکت کے سنگین ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ ہمیں اس سے شدید صدمہ پہنچا ہے۔ بعد میں چینی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں نہتے چینی کارکنوں کے اغوا اور قتل کی اس غیر انسانی دہشت گردانہ کارروائی پر شدید غم و غصے اور مذمت کا اظہار کیا۔ سوڈان میں چینی کارکنوں کا اغوا حالیہ برس میں اس نوعیت کا واحد واقعہ نہیں تھا۔ افریقہ، جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا اور دوسری جگہوں پر چینی کارکنوں کے اغوا اور ان پر حملوں کے کئی واقعات ہوئے ہیں جن میں کافی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ ان میں سے بیشتر واقعات دہشت گردی اور مقامی شورشوں کے باعث ہوئے اور بعض کی جڑیں چین مخالف نسلی اور مجرمانہ تشدد میں تھیں۔
ان واقعات کی وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں یہ حملے یہ ضرور یاد دلاتے ہیں کہ بین الاقوامی نظام میں ابھرتی ہوئی طاقتوں کو دہشت گردی اور سیاسی تشدد کی شکل میں خاصے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مزید یہ کہ آنے والے سالوں اور عشروں میں انرجی سیکورٹی اور قدرتی وسائل کے حصول کے لیے چین کی عالمی کوششیں جوں جوں بڑھتی گئیں ان خطرات میں بھی کافی اضافہ ہو گا۔
چین کا سیاسی اور اقتصادی طور پر ابھرنا اکیسویں صدی کے اوائل کے اہم ترین جیوپولیٹکل واقعات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ امریکی انٹیلی جنس کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے ''آئندہ پندرہ بیس برسوں میں بہت کم ملکوں کا اپنا پر چین کا زیادہ تر ہو گا۔ موجودہ رجحانات جاری رہے تو 2025ء تک چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور ایک بڑی فوجی طاقت ہو گا۔'' چین کو بھی اپنے سے پہلے کی کئی بڑی ابھرنے والی طاقتوں کی طرح یہ پتہ چل رہا ہے کہ بڑی طاقت کی حیثیت (جس کے ساتھ بیرون ملک موجودگی بھی جڑی ہوئی ہے) کو بعض اوقات تند و تیز ردعمل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ رجحان افریقہ میں سب سے نمایاں ہے جہاں چینی کمپنیوں نے توانائی اور قدرتی وسائل کی تلاش کے منصوبے شروع کئے ہوئے ہیں۔ اگرچہ عام طور پر ان کا خیر مقدم کیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات چینی کارپوریشن اور افراد کو زبردست تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سوڈان کے واقعہ سے ایک سال پہلے ایتھوپیا کے اوگارن نیشنل برشن فرنٹ سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے تیل کمپنی کے چینی کارکنوں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اگرچہ فرنٹ نے بعد میں اپنی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا کہ ان کا ہدف چینی کارکن نہیں ایتھوپیا کے فوجی تھے۔ چینی کمپنیوں اور افراد کے خلاف اسی طرح کے حملے نائیجیریا، زیمیبیا اور دوسرے ملکوں میں بھی ہوئے۔
حکومت پاکستان چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو ہمیشہ ہر آزمائش پر پوری اترنے والی سدا بہار دوستی قراردیتی ہے۔ چینی انجینئروں اور دوسرے کارکنوں پر تشدد کے واقعات اس دوستی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جولائی 2007ء میں حب (بلوچستان) میں چینی انجینئروں سے بھری ہوئی ایک بس پر بم سے حملہ کیا گیا اگرچہ اس سے کوئی چینی ہلاک نہیں ہوا لیکن اسی مہینے پشاور میں تین چینی کارکنوں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔ فروری 2006ء میں تین چینی انجینئروں کو حب میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا اور مئی 2004ء میں تین چینیوں کو لاہور میں کار پر بم مار کر ہلاک کیا گیا۔
دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی چینی مفادات پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ جون 2004ء میں کندوز (افغانستان) کے قریب گیارہ چینی تعمیراتی کارکنوں کو ہلاک کیا گیا۔ مئی 2009ء میں پاپوا نیوگنی میں کان کنی کا کام کرنے والی چینی کمپنی کے عملے اور مقامی کارکنوں میں تصادم ہوا جس کے نتیجے میں دونوں طرف سے کئی افراد زخمی ہوئے۔ اس کے چند دن بعد پاپوا نیوگنی کے دارلحکومت پورٹ مورس بائی میں چینیوں کی دکانوں اور تجارتی اداروں پر حملے ہوئے۔ بیرون ملک ہی نہیں چین کو ملک کے اندر بھی سنکیانگ کے ویغور خود مختارعلاقے کی طرف سے یا اس سے تعلق رکھنے والی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس علاقے میں غیر ہن ویغوراور دوسری اقلیتوں کی اسی لاکھ آبادی ہے۔
اگرچہ تمام ویغور تشدد میں ملوث نہیں، مشرقی ترکستان اسلامی تحریک بیجنگ کی سیکورٹی کے لیے مسلسل خطرہ بنی ہوئی ہے۔ 2008ء کی اولمپک گیمز سے کچھ ماہ پہلے اور ان کے دوران چینی حکام نے کئی سازشوں کو ناکام بنایا جن میں سے بیشتر اسی مشرقی ترکستان اسلامی تحریک اور اس کے اتحادیوں سے منسوب کی گئی تھیں۔ مارچ 2008ء میں چائنا سدرن ایرلائنز کے ارمچی (سنکیانگ) سے بیجنگ جانے والے ایک جیٹ طیارے پر ایک 19 سالہ ویغور لڑکی اور اس کے ساتھی کی خود کش حملے کی کوشش طیارے کے عملے نے ناکام بنا دی۔ طیارے کا راستہ بدل کر اسے ایک قریبی شہر میں بحفاظت اتار لیا گیا۔ اپریل 2008ء میں چینی حکام نے اعلان کیا کہ انہوں نے دو دہشت گرد گروپوں کو پکڑا ہے جو اولمپکس کے دوران خود کش حملے اور اغوا کی وارداتیں کرنے والے تھے۔ عسکریت پسندوں کے کچھ منصوبے کامیاب بھی ہوئے مثلاً اگست 2008ء میں سنکیانگ میں متعدد حملے ہوئے۔ ان میں سے ایک کا شغر (سنکیانگ) میں پولیس افسروں پر ہوا جن میں سولہ افسر ہلاک اور سولہ زخمی ہوئے۔ چھ دن بعد 10 اگست 2008ء کوایک پندرہ سالہ لڑکی سمیت پندرہ دہشت گردوں کے ایک گروپ نے باردو سے لدی گاڑی کوچہ کے پولیس سٹیشن سے ٹکرادی جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔ اس کے بعد کاشغر کے قریب ایک حملہ کیا گیا جس میں تین سیکورٹی آفیسر مارے گئے۔ ملک میں اور بیرون ملک اپنے شہریوں کے خلاف دہشت گردی اور مجرمانہ تشدد پر چین کا ردعمل کئی رخی ہے مثلاً افریقہ اور جنوبی ایشیا میں چینی کمپنیاں اس بات پر ازسر نو غور کر رہی ہیں کہ وہ بزنس کس طرح کریں۔ چائنا نیشنل پٹرولیم کارپوریشن نے ایک جائزے میں اٹھارہ ملکوں کی نشاندہی کی جہاں عسکریت پسندوں کے حملے کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے۔ ایسے ملکوں میں زیادہ خطر ناک جگہوں پر مقامی عملہ بڑھا کر نوے فیصد تک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چینی حکومت نے میزبان ملکوں پر زور دیا ہے کہ وہ چینی سرمایہ کاروں اور کارکنوں کو بہتر سیکورٹی اور تحفظ فراہم کریں۔ مثلاً پاپوا نیوگنی کی حکومت سے کہا گیاکہ وہ چینیوں کی تجارت والے علاقے میں ان کے تحفظ کے لیے پولیس کی تعداد بڑھائے۔ مئی 2009ء میں ایک پاکستانی اخبار نے خبر دی کہ چین نے پاکستانی حکام سے چینی کارکنوں کے تحفظ کے سلسلے میں اقدامات پر بات چیت کے لیے 22 رکنی وفد اسلام آباد بھیجا ہے۔
پاکستان کی وزارت داخلہ نے چینیوں کو یقین دلایا کہ اس نے چینی کارکنوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے ہیں۔ اس موقعہ کے لیے خصوصی سکواڈ بنائے گئے ہیں۔ سیکورٹی پاک چین تعلقات میں ایک حساس معاملہ بن گیا ہے۔ 2008ء میں پاکستان میں چین کے سفیر لوء زائو ہوئی نے الزام لگایا کہ ''مشرقی ترکستان اسلامی تحریک کے ارکان بعض اوقات پاکستانی سرزمین کو بھی اپنی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اس طرح پاک چین دوستی کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس طرح کے سیکورٹی چیلنجز دونوں طرف کی اس خواہش کے لیے خطرہ ہیں کہ پاکستان کو ریلوے اور ہائی وے کے رابطے کے ذریعے مشرق وسطیٰ اور افریقہ سے چین سے ملانے والی انرجی اور کمرشل کو ریڈور بنایا جائے۔
دہشت گردی اور تشدد کے خلاف چین کی حکمت عملی کا دوسرا اہم جزو اس کا شنگھائی تعاون تنظیم میں سرگرم ہونا ہے۔ 1996ء میں ''شنگھائی 5''کے نام سے قائم ہونے والی یہ تنظیم اب سب سے زیادہ توجہ بین الملکی تشدد پر دے رہی ہے جس کا ایک مظہر ریجنل اینٹی ٹیررسٹ سٹرکچر(RATS) کا قیام بھی ہے جس کا صدر دفتر تاشقند (ازبکستان) میں ہے اگرچہ RATS بنیادی طور پر ایک تجزیاتی ادارہ ہے جو رکن ممالک کے آپریشنز میں رابطہ پیدا کرتا ہے لیکن اس کے ذریعے دہشتگردی کے منصوبوں کو ناکام بنانے اور دہشت گرد تنظیموں کے لیے سازگار ماحول میں کمی لانے میں بھی کامیابیاں ہوئی ہیں۔ مارچ 2009ء میں روس کی فیڈرل سیکورٹی سروس کے جنرل سمرنوف نے کہا کہ RATS نے دہشت گردی کے 97 منصوبوں کو ناکام بنایا جن میں سے 50 عام مقامات کے لیے بنائے گئے تھے۔ شنگھائی تعاون تنظیم چین کو اس کی فوج کی انسداد دہشت گردی کی صلاحیت بہتر بنانے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ اگست 2007ء میں ''پیس مشن 2007ئ'' کے نام سے شنگھائی تنظیم کی دوسری مشترکہ فوجی مشقیں روس اور چین میں ہوئیں جن میں تنظیم کے تمام رکن ممالک نے حصہ لیا۔ اس سے پہلے صرف روس چین کی ایسی مشقیں 2005ء میں ہوئی تھیں۔
ان کے علاوہ بھی چین نے پاکستان، بھارت، تاجکستان اور دوسرے ملکوں کے ساتھ متعدد بار دو طرفہ فوجی مشقیں کی ہیں جن کا مقصد انسداد دہشت گردی ہی تھا۔
چین نے اپنے سے پہلے ابھرتی ہوئی ریاستوں کی طرح یہ سمجھ لیا ہے کہ دنیا میں بھی سیاسی اور تجارتی موجودگی میں اضافے کے نتیجے میں بعض اوقات خاصے خطرات ہوتے ہیں۔ چین نے ان سے نمٹنے کے لیے متذکرہ بالا جو اقدامات کیے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین کو دہشت گردی کا چیلنج بڑی طاقتوں میں تعاون اور رابطہ کے لیے سٹرٹیجک موقع فراہم کر سکتا ہے۔ یہ تعاون عالمی دہشت گردی کے لیے سازگار ماحول انتہائی محدود کر کے چین کے مفادات بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بننے والے ہر طرح کے ملکی اور بین الملکی تشدد کے سامنے ایک طرح کی دیوار تعمیر کر سکتا ہے۔
|
|
|
|
|