working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

صحابیٔ رسولۖ کی ٹیکسلا میںآمد
انجینئر مالک اشتر
ہندوستان میں عربوں کی آمدورفت قدیم زمانے سے ہے۔ ظہورِ اسلام سے قبل عرب بغرضِ تجارت ہندوستان آتے رہے۔ بعد ازاں اسلام کی ترویج و اشاعت اس آمدورفت کا ایک اہم سبب ٹھہرا۔ ٹیکسلا کے قریب موجود ''پیر صحابہ'' کا مزار اس علاقے میں صحابیٔ رسولۖ کی آمد اور قیام کی یادگار ہے۔ زیر نظر مضمون اسی حوالے سے تاریخ کے اوراق سے کشید کیے ہوئے حقائق پر مبنی ہے۔ (مدیر)
جزیرہ نما عرب کا زیادہ تر حصہ غیر آباد، بنجر اور پتھریلی زمین پر مشتمل تھا۔ یوں فطری طور پر یہاں بسنے والے لوگ زراعت کی بجائے تجارت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ خاندانِ قریش کے فرزند قصی اور ہاشم کے دور میں تجارت خاصی مستحکم ذریعہ معاش بن چکی تھی۔ اہل حبش یمن پر قابض تھے جبکہ شام رومیوں کے زیر نگیں تھا۔ ہاشم نے نجاشی اور قیصر سے ان کی سلطنت میں آمد و رفت کا اجازت نامہ حاصل کر رکھا تھا۔ اس طرح عرب کے سوداگر ایشیائے کوچک تک اپنی اشیاء لے کر جاتے اس کے باوجود کہ بد امنی اور لوٹ مار کا دور دورہ تھا مگر قریش اطراف میں کعبہ کی نسبت اور خدا کے گھر کے نگہبان سمجھے جانے کی وجہ سے حیرت انگیز طور پر خطرات سے محفوظ رہتے تھے۔ تجارت اور بیوپار کے حوالے سے ان کا ذکر قرآن کی سورة قریش میں بھی ملتا ہے۔(1)

ہیرو ڈوٹس لکھتا ہے کہ اسلام کی آمد کے وقت حضورۖ اور ان کے بعض رفقا کا پیشہ تجارت تھا اور وہ حجاز اور شام کے درمیان سامان لایا کرتے تھے۔ مکہ ساہوکاروں اور قرض خواہوں کا شہر تھا۔ سود عام تھا۔ قافلوں کے ذریعے تجارت ہوتی تھی۔ سٹرابو کے بقول عرب ساہوکاری اور تجارت کے پیشے سے وابستہ تھے۔ میلوں اور حج کے مواقع پر بھی تجارتی اشیاء ہی لائی جاتی تھیں۔ ان تجارتی ثمرات کا ہی نتیجہ تھا کہ عرب کی مالدار خواتین بھی اپنا سرمایہ تجارت میں لگاتی تھیں۔ بنوامیہ کے پہلے خلیفہ امیر معاویہ کی والدہ ہندہ کے شام میں کلبی قبیلے سے کاروباری مراسم تھے۔ قریش خاندان کی ایک اورمالدار خاتون حضرت خدیجہ کا سامانِ تجارت بھی شام کی منڈی میں فروخت کے لیے لایا جاتا تھا۔ آنحضوۖر بھی بعثت سے قبل حضرت خدیجہ کے مال کے ساتھ تشریف لائے۔ حضرت ابوطالب اور دیگر امراء قریش ابو جہل و ابوسفیان وغیرہ بھی نامی گرامی تاجر تھے۔(2)

عرب اور ہندوستان کے لوگوں کے درمیان بھی زمانہ قدیم سے ہی تجارتی، معاشی اور مذہبی روابط چلے آتے ہیں۔ عرب تجارت کی غرض سے ہندوستان کے ساحلوں کی جانب آتے اور یہاں سے تجارتی قافلے سازوسامان لے کر عرب کے بازاروں کا رخ کرتے۔ یہ اسی آمد و رفت کا ہی نتیجہ تھا کہ ہندوستان کی مختلف قومیتوں کے افراد نے سرزمین عرب میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی جنہیں وہاں کے لوگ زط (جاٹ) سیابجہ، مید، احامرہ، اساورہ اور سند و ہند کے ناموں سے جانتے تھے۔(3)

ہندی تاجروں کی کثرت سے آمد کی وجہ سے ہندوستانی اشیاء کی عرب میں خاصی مانگ تھی۔ خصوصاً عود، کافور، زنجبیل، بام، گوند، عطریات، جواہرات، ہندی تلواریں، ساگوان کی لکڑی، کپڑے اور دوسرے قیمتی پارچہ جات کی فروخت اوراستعمال عام تھا اس کے علاوہ ناریل، املی اور مصالحہ جات میں سیاہ مرچ، الائچی، ڈلی اور چینی وغیرہ ہند سے ہی عرب لائی جاتی تھیں۔ مصالحوں اور خوشبویات کے نام سنسکرت سے ہی عربی میں مستعمل ہوئے ہیں جن میں مشک، کافور، فلفل، زنجبیل، صندل، ساج (ساگوان) نارجلیل، قرنفل (لونگ) وغیرہ قابلِ ذکر ہیں جبکہ عودِ ہندی، قسطِ ہندی، تمرہندی کا اپنے نام سے ہی ہندوستان سے تعلق ظاہر ہوتا ہے۔(4)

دراصل ''کافور'' ہندی لفظ کپور کا معرب ہے ''زنجبیل'' ہندی لفظ زنجابیر سے عربی میں مستعمل ہوا ہے جس سے مراد سونٹھ ہے جبکہ تازہ زنجبیل ''ادرک'' کہلاتی ہے۔ ''قرنفل'' حقیقت میں کرن پھول کا معرب ہے جسے عرفِ عام میں ''لونگ'' کہتے ہیں۔ عرب اسے قرنقول کا نام بھی دیتے ہیں اسی طرح ''فلفل'' عربی میں مرچ کو کہتے ہیں۔ ''ساج'' بھی ہند کی عمارتی لکڑی ساگوان کا عربی نام ہے سالم بلی کو عرب ''ساجہ'' کہتے ہیں اس طرح ساگوان کا نام ''ساج'' مشہورہو گیا۔(5)

بلاذدی نے انساب الاشراف میں روایت کی ہے کہ رسول اکرمۖ مدینہ منورہ میں جس چارپائی پر آرام فرماتے تھے اس کے پائے ساگوان کی لکڑی سے بنائے گئے تھے اور اسے حضرت اسعد بن زرارہ نے خدمتِ نبویۖ میں پیش کیا تھا۔ بعد ازاں اسی چارپائی پر آپۖ کی نمازِ جنازہ بھی ادا کی گئی۔ امام بخاری نے ''الادب المفرد'' میں بیان کیا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرے کا شمالی دروازہ ساگوان کا تھا۔ اس طرح سنہ 30ھ میں جب حضرت عثمان نے مسجد نبوی کی تعمیر و توسیع کی تو اس کی چھت میں ہندوستان کی ساگوان کی لکڑی کا استعمال کیا۔(6) عود کی خوشبو سے عرب اپنی محفلوں کی رونق کو دوبالا کرتے تھے سب سے پہلے حضرت عمر فاروق نے عود سے مسجد نبوی کو معطر کیا۔(7)

ساتویں صدی عیسوی کے شروع میں صحرائے عرب کے آس پاس کی سلطنتیں اپنے عوام سے بدسلوکی، جنگوں اور اخلاقی بے راہ روی کی وجہ سے انحطاط پذیر تھیں ایسے میں جب حضرت محمدۖ خدا کی راہ میں صلحِ کل کا آفاقی نعرہ بلند کر کے اٹھے تو تمام محکوم اور محروم طبقات کے لوگ ان کے اسلامی جھنڈے تلے جوق در جوق اکٹھے ہونے لگے۔ قومِ قریش کی جانب سے تکالیف، مخالفتوں، خفیہ اور محلاتی سازشوں اور سورشوں کی یلغار نے اسلام کی نشر و اشاعت میں رکاوٹیں حائل کر رکھی تھیں صلح حدیبیہ کے بعد 7ھ میں جب ایک پرامن اسلامی معاشرے کی تشکیل ممکن ہوئی تو حضرت محمدۖ نے پہلی فرصت میں اپنے اطراف میں پھیلی ہوئی مملکتوں کے حکمرانوں کو دعوتِ اسلام دینے کے لیے مکتوبات روانہ کیے تاکہ بنی نوع انسان کی نجات کی جانب رہنمائی کی جا سکے۔ اس وقت چار بڑی سلطنتیں اپنا وجود رکھتی تھیں۔ فارسی حکومت وسطی ایشیاء سے ایران و عراق تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہاں خسرو پرویز حکمران تھا اس کی جانب حضورۖ نے عبداللہ بن حذافہ سہمی کو روانہ کیا۔ سلطنتِ روم جس میں ایشیائے کوچک، فلسطین، شام مصر اور یورپ کے بعض علاقے شامل تھے کی جانب دحیہ کلبی کو بھیجا گیا۔ قیصر روم ہرقل نامہ برسے نہایت عزت و تکریم سے پیش آیا۔ مصر کے گورنر جریح بن مینا قبطی عرف مقوقس نے بھی حضور کے قاصد حاطب بن بلتعہ سے نیک برتائو کیا۔ عمرو بن امیہ کو حبشہ کی جانب نجاشی بادشاہ سے ملاقات کے لیے روانہ کیا اس کی حکومت مصر کے جنوب سے لے کر بحیرئہ قلزم کے مغربی ساحل پر حجاز ویمن کے بالمقابل پھیلی ہوئی تھی حضورۖ کا خط پا کر نجاشی نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔ اس کے علاوہ سلیط بن عمرو کو یمامہ اورشجاع بن وہب اسدی کو شام کی جانب بھیجا گیا۔(8)

بحرین میں بنوعبدالقیس اور بنو بکر بن وائل کے حاکم منذر جو کہ ایرانی حکومت کے نمائندے تھے، حضورۖ کا نامہ مبارک پا کر حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے۔ عمان میں بنو ازد کے حاکم عبید بن جلندی اور جیفر بن جلندی بھی مسلمان ہو گئے۔(9)

مجموع الرسائل نامی قلمی نسخے میں جمع الجوامع کے حوالے سے تحریر ہے:
''روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے پانچ اصحاب کے ہاتھوں اہلِ سندھ کے پاس اپنا نامہ مبارک روانہ فرمایا جب یہ حضرات سندھ میں نیرون کوٹ (حیدر آباد) میں آئے تو وہاں کے کچھ لوگ مسلمان ہوگئے پھران میں سے دو صحابہ واپس چلے گئے اور اہل سندھ نے کھل کر اسلام قبول کیا اور باقی تین حضرات نے سندھیوں کو تفصیل سے اسلام کے احکام سنائے اور یہیں انتقال کیا۔ ان صحابہ کرام کی قبریں آج تک موجود ہیں۔''

فتوحات کے اعتبار سے خلافتِ راشدہ کا دور (سنہ 11ھ سے 40ھ تک) اسلام کا سنہرا دور تصور ہوتا ہے کیونکہ اس عرصے میں مسلمانوں نے افریقہ میں پیش قدمی کرتے ہوئے طرابلس تک کا علاقہ اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ شمال میں قفقاز تک فتوحات کیں اورمشرق میں ماوراء النہر یعنی وسطی ایشیاء میں سمر قند، بخارا اور ترکستان تک ان کے گھوڑے پہنچے۔ جبکہ ایران و عراق سے ہوتے ہوئے ہندوکش، مکران اور سندھ کے بعض علاقے بھی ان کے تصرف میں آ گئے۔ تقریباً سنہ 21ھ میں مکران فتح ہوا جس سے ہندوستان سے باقاعدہ روابط اور سیاسی تعلقات استوار ہوئے۔

عہدِ فاروقی (634-644ئ) میں فاتح مکران حکم بن عمرو ثعلبی غفاری (سنہ 23ھ) سندھ اور مکران کے امیر بنے جبکہ سہل بن عہدی خزر جی انصاری ان کے معاون تھے۔ عثمانی دور (644-656ئ) میں عبیداللہ بن معمر تیمی قرشی مکران کے امیر تھے جن کے سبکدوش ہونے کے بعد عمیر بن سعد اور ابن کندیر قشیری نے بالترتیب عنانِ امارت سنبھالی۔(10) حضرت علی کے دورِ خلافت (656-661ئ) میں حارث بن مرہ عبدی یہاں کے امیر بنے انہوں نے مکران سے آگے بڑھتے ہوئے سندھ کے مزید علاقے فتح کیے۔ قیقان (قلات) پر قبضے کے بعد قندابیل (بشمول گھنڈاوہ اور درہ بولان) میں اپنا حربی مرکز قائم کیا۔(11)

یاد رہے کہ پہلا دارا لامارة کیز یاکیج کے مقام پر بنایا گیا تھا جو کہ مکران کا مشہور شہر اور قدیم بندرہ گاہ تھی۔ یہاں کثرت سے کھجور کے باغات اور نخلستان تھے۔ یہ خطہ عرب و ہند کے درمیان بحری رابطے کا دروازہ بھی تصور ہوتا تھا۔حضرت عثمان کے عہد کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عامر کی ہمراہی میں شمالی سرحدی صوبے پر لشکر کشی کی گئی تھی اس جہاد میں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین سمیت حضرت عبداللہ بن زبیر نے بھی حصہ لیا تھا۔(12) تاریخ اسلام (ص170) کے مصنف ڈاکٹر حمیداللہ نے بھی عبداللہ بن عامر کی غزنی اور کابل کو مطیع بنانے کے بعد ہندوستان کے سرحدی علاقوں کی جانب پیش قدمی کی تصدیق کی ہے۔

امیر معاویہ کے عہد میں زیاد بن امیہ بصرہ جب خراسان کا گورنر مقرر ہوا تو اس نے عبدالرحمن بن سمرہ بن حبیب کو کابل فتح کرنے کے لیے بھیجا اس کا ایک سپہ سالار حضرت مہلب بن ابی صغرہ درہ خیبر کے راستے سرحدی صوبے کو فتح کرنے کے بعد گندھارا پر قابض ہو گیا اور تحصیل صوابی میں واقع لاہور کو اپنا صوبائی دارالحکومت بنایا۔ مہلب بن ابی صغرہ نے پرشور (پشاور) لاہور (لاہور تحصیل صوابی) ہند (ہنڈ) ٹیکشاسلہ (ٹیکسلا) مارکلہ (مار گلہ) اور بناہ (بنوں) کے شہروں کو فتح کر کے اپنی امارت میں شامل کیا جب لاہور فتح ہوا اس وقت ترک شاہی خاندان کا زبیل نامی شخص جو کہ بدھ مت کا پیرو کارتھا اس خطے کا حکمران تھا۔(13)

امام ابن کثیر سندھ میں محمد بن قاسم کی فتوحات کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ ان کی آمد سے پہلے بلادالہند میں صحابہ کرام تبلیغ کی غرض سے آ چکے تھے۔ ان صحابہ کرام نے اسلام، احادیث اور فقہ کی تعلیمات عام کی اور یوں رفتہ رفتہ مساجد اور مدرسوں کا قیام عمل میں آتا گیا۔(14)

امام ابن ابی حاتم رازی، کتاب الجرح و التعدیل کے مقدمہ میں رقم طراز ہیں کہ رسول مقبول حضرت محمدۖ کے وصال کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم دنیا کے کونے کونے میں پھیل گئے۔ یہ حضرات احادیث کے راوی تھے انہوں نے احکامِ الٰہی اورسنتِ رسول کو عام کیا ان کے بعد تابعین و تبع تابعین رحمہم اللہ کا دور آیا انہوں نے بھی ان ممالک میں اسلامی تعلیمات کی ترویج فرمائی۔

امام نسائی نے سنن کے ''باب غزوة الہند'' میں اور امام طبرانی نے ''معجم'' میں ''سند جید'' کے ساتھ حضرت ثوبان مولی سے روایت کی ہے کہ حضور نے فرمایا:
''میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ نے نارِ جہنم سے محفوظ رکھا ہے ایک وہ گروہ جو ہندوستان میں جہاد کرے گا اور دوسرا وہ گروہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ رہے گا۔''

امام ابن عساکر اور امام ابن کثیر نے بھی غزوہ ہند کی حدیث کی روایت کی ہے۔ حضرت ابوہریرہ کے دل میں تمام عمر یہ حسرت رہی کہ کاش وہ ہندوستان کے غزوے میں شرکت کرتے۔ اصحاب کی ایک کثیر تعداد بھی ہندوستان کے جہاد میں شرکت کی خواہش مند رہی یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم ہندوستان میں غزوات و فتوحات اور تبلیغ کے سلسلے میں مسلسل آتے رہے۔

مشہور مورخ ابو محمد عبداللہ بن مسلم بن قتلیہ دینوری (المتوفی 276ھ) نے تحریر کیا ہے کہ جب عمر سعد کی افواج نے حضرت امام حسین کو کوفہ کے راستے میں روکا تھا تو انہوں نے ہند کی جانب ہجرت کر جانے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔(15)

ہفت روزہ ''نشیمن'' ایبٹ آباد کی 15 اکتوبر 1985ء کی اشاعت میں جناب نور محمد نظامی نے بھی درہ خیبر اور مارگلہ کے درمیان صحابہ کرام سے منسوب مختلف مزاراتِ مقدسہ کا ذکرکیا ہے۔ مشہور مصنف ڈاکٹر شیر بہادر خان اپنی تصنیف ''تاریخ وادیٔ چھچھ'' (ص163) میں رقم طراز ہیں:

''تحصیل ''صوابی'' کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ اصلی لفظ صحابی تھا کیونکہ اس قصبے میں کئی اصحاب رسولۖ کی قبریں بیان کی جاتی ہیں اس لیے صحابی سے بدلتے بدلتے ''صوابی'' نام پڑ گیا۔''(16)

ٹیکسلا سے چند کوس کے فاصلے پر مشرقی جانب جرنیلی سڑک سے ذرا ہٹ کر ''سرائے خربوزہ'' نامی قصبہ ہے یہاں سے چند منٹوں کی مسافت پر ''پیر صحابہ'' کے نام سے ایک مزار صدیاں بیت جانے کے باوجود عوام الناس کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس کے متعلق رائے یہی ہے کہ یہ کسی جیّد صحابی کا مدفن ہے جو دیگر کئی صحابہ کرام کی طرح اسلام کا پیغام پھیلانے کی خاطر اس خطے میں تشریف لائے اور پھر یہیں انتقال فرمایا۔

موجودہ مزار کی تزئین و آرائش سے پیشتر یہاں وسطی ایشیائی طرز کی عمارت تھی جسے مغل تعمیرات میں استعمال ہونے والی چھوٹی اینٹوں اور چونا گچہ سے بنایا گیا تھا۔ حالیہ تعمیرات کا ڈھانچہ تقریباً وہی ہے مگر جہاں ضرورت محسوس کی گئی وہاں دستیاب شدہ بڑے حجم کی اینٹوں سے بھی کام چلا لیا گیا۔ مزار کی دیواریں ہشت پہلو ہیں جس کا تعمیراتی نقشہ وسطی ایشیائی طرزِ تعمیر سے مشابہ ہے۔ مذکورہ فنِ تعمیر کو منگولوںاور مغلوں نے ایرانی، ترک اور تاجک ہنرمندوں کو اپنے ساتھ ہندوستان لا کر متعارف کرایا تھا۔

دیواروں اور گول گنبد کی اتصالی پٹی پر روشنی اور تازہ ہوا کے لیے روشندان بنائے گئے تھے جن میں اب اینٹیں چن دی گئی ہیں گنبد کے اوپر ایستادہ افقی کلس خدائے واحد کی گواہی دے رہا ہے۔ مزار کا چوبی دروازہ مغرب کی سمت کھلتا ہے جہاں عرب سے آنے والی ہوائیں غریب الوطن صحابی کو سلام پیش کرتی ہیں۔ مزار کے عین مرکز میں کچی قبر بنی ہوئی ہے جس پر نہایت سلیقے سے مٹی کی لپائی کر دی گئی ہے۔ عقیدت مندوں نے قبر مبارک کو سبز چادروں سے ڈھانپ کر صاحب قبر سے اپنی گرم جوش محبت کا اظہار کیا ہے۔

اسلام کی ابدی اور لافانی پیغام کو دنیا بھر میں روشناس کرانے کی خاطر صحابی رسول کی اپنے وطن سے دوری کی اس شعر میں غمازی کی گئی ہے جو کہ مزار کی لوحِ پیشانی پر درج ہے

ہر ملک ، ملکِ ما است
کہ ملکِ خدائے ما است

مزار کا مضافات ایک حسین لینڈ اسکیپ اور دلفریب نظارہ پیش کرتا ہے۔ اسلام آباد کے پہاڑوں سے آنے والی ندی ریلوے پل کے نیچے سے ہو کر مزار کا طواف کرتے ہوئے گزرتی ہے۔ قدرتی چشموں کا بہتا ہوا یہ پانی کبھی خشک نہیں ہوا۔ مزار کے احاطے میں ٹھنڈے اور میٹھے پانی کا کنواں موجود ہے اس کی تعمیر کا زمانہ نا معلوم ہے لیکن تراشیدہ پتھروں سے کنوئیں کی قدامت کا عندیہ ملتا ہے۔ کشادہ صحن میں جگہ جگہ زیتون، انجیر، کیلے، لیموں، آم، انار اور کھجور کے درخت لگے ہیں۔ حدِ نگاہ پھُلاہی، بکائین، ببول اور شیشم کے درخت پھیلے ہوئے ہیں۔ خود رو جھاڑیوں اور رنگ برنگے پھولوںکی بھرمار ہے جن کی سوندھی سوندھی خوشبو سے فضا مہکتی رہتی ہے۔ جنگلی پرندے بھی چہار سو اپنی سریلی آوازوں کا جادو جگاتے نظر آتے ہیں اور گلہریاں آنکھ مچولی کھیلتی ہیں۔ مزار کے استقبالی دروازے کے سامنے برگد کا درخت ہے جس کی لمبی لمبی شاخیں سرنیہوڑائے ادب سے جھکی رہتی ہیں۔ شمال مغربی جانب ایک مسجد بھی تعمیر کر دی گئی ہے۔ زائرین کے ٹھہرنے کے لیے کمرے بھی تیار ہو چکے ہیں۔ اب باقاعدگی سے ہر ماہ چاند کی چودہ تاریخ کو قوالی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

بری امام کے میلے میں شرکت کے لیے جب زائرین پشاور سے ڈالی کے ہمراہ یہاں سے پیدل گزرتے ہیں تو ایک رات ''پیر صحابہ'' میں قیام کرتے ہیں۔ اس طرح ٹیکسلا اور مضافات سے آنے والے دیگر عقیدت مند بھی یہاں ٹھہرتے ہیں اور قریب ہی واقع سرائے خربوزہ نامی گائوں کے لوگ میلے میں شرکت کرنے والے زائرین کی میزبانی کا شرف حاصل کرتے ہیں۔

سرائے خربوزہ ''پیر صحابہ'' سے چند قدموں کے فاصلے پر واقع ہے موجودہ گائوں قلعے کی دیواروں کے اندر تعمیر کیا گیا ہے۔ پرانی تعمیرات کے آثار جابجا موجود ہیں یوں لگتا ہے کہ اس قلعے کی تعمیر میں دفاعی نقطۂ نظر کے ساتھ ساتھ صحابیِ رسول کی قربت کا شرف بھی حاصل کیا گیا ہے۔

مغل شہنشاہ جہانگیر نے ''تزک جہانگیری'' میں اس گائوں کا تذکرہ کچھ یوں کیا ہے:
''پیر کے دن 10 محرم 1016ھ (1607ئ) کو میں نے موضع سرائے خربوزہ میں پڑائو ڈالا۔ قدیم زمانے میں گکھڑوں نے یہاں ایک گنبد بنایا تھا وہ اس جگہ آنے والے مسافروں سے محصول لیتے تھے چونکہ گنبد کی شکل خربوزہ سے ملتی جلتی ہے اس لیے یہ موضع خربوزہ کے نام سے مشہور ہے۔''(16)

یہاں سے چند کوس کے فاصلے پر سنگ جانی کا قصبہ واقع ہے۔ وہاں بھی مغلیہ عہد کا ایک قلعہ موجود تھا۔ اس کے بھی محض چند آثار باقی ہیں جب کہ ایک گیٹ جوں کا توں ایستادہ ہے جو آج کل مقامی ہائی اسکول کے صدر دروازے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ مقامی سادات کے جدِ امجد شاہ جہاں کا مزار بھی یہاں مرجعِ خلائق ہے۔ مشہور سیاح مور کرافٹ نے جب اس علاقے کا نقشہ مرتب کیا تھا تو اس نے سنگ جانی کی بجائے سرائے شہاہجہانی کا نام تحریر کیا۔ ہو سکتا ہے کہ سنگ جانی، سرائے شاہجہانی کی بگڑی ہوئی شکل ہو۔

شہرۂ آفاق محقق، تاریخدان اور ماہر بشریات ڈاکٹر احمد حسن دانی بھی اپنی زندگی میں کئی مرتبہ ''پیر صحابہ'' تشریف لائے۔ محکمہ آثارِ قدیمہ کے بڑے بڑے سکالرز اور محقق بھی ان کے ہمراہ ہوتے۔ ان تمام حضرات کی یہی رائے تھی کہ یہ مرقدِ منورہ صحابی رسولۖ کا ہے جو ہو سکتا ہے کہ 1400 سال پہلے اسلام کی تبلیغ کی غرض سے ٹیکسلا کی شہرت سن کر یہاں تشریف لائے اورپھر یہیں انتقال فرمایا اور یوں اس جگہ کا نام بھی ان سے منسوب ہو گیا۔
واللہ اعلم بالصواب
__________________
حوالہ جات
-1 تاریخ ارض قرآن، ج2، ص425 تا 429، مولف سید سلیمان ندوی
-2 Outlines of Islamic Culture, by A.M.A, Shushtery, 1954, p:147
-3 خلافتِ راشدہ اور ہندوستان، مولفہ قاضی اطہر مبارک پوری، 2004ئ، ص25
-4 تاریخ ارض قرآن، ج2، ص420، مولف سید سلیمان ندوی
-5 عرب و ہند عہد رسالت میں، مولف اطہر مبارک پوری، 1965ئ، ص29 تا 40 و 47 تا 51
-6 شفاء الغرام باخبار البلدا الحرام، ج2، ص371
-7 الدرة الثمینہ فی تاریخ المدینہ فی آخر شفاء الغرام، ج2، ص147
-8 تاریخ اسلام، مولف علامہ فروغ کاظمی، ص374 تا 375
-9 خلافتِ راشدہ اور ہندوستان، مولف قاضی اطہر مبارک پوری، ص224 تا 225
-10 خلافتِ راشدہ اور ہندوستان، مولف قاضی اطہر مبارک پوری، ص146
-11 چچ نامہ، ص77، 78
-12 ماہنامہ ''الحق'' اکوڑہ خٹک، ص29، اشاعت اپریل 1985ئ، میجر ریٹائرڈ امیر افضل خان
-13 تاریخ فرشتہ، جلد اول، اردو ترجمہ عبدالحئی خواجہ
-14 البدایہ والنہایہ، ج9، ص88
-15 معارفِ ابن قتیبہ، ص95 طبع مصر 1934ئ، اور مہیج الاحذان، ص163
-16 تزک جہانگیری جلد اول، ص198، مترجم اعجاز الحق قدوسی، مجلسِ ترقی ادب لاہور، 1968