working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

" جہادجنگ اور دہشت گردی "از مجتبیٰ محمد راٹھور
صفدر سیال
پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے اور اس کے حکمران مسلمان، اس کی آبادی کی اکثریت اسلامی ہے اور یہاں اسلامی قوانین نافذ ہیں۔ کیا اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق جہاد کے نام پر اس کے اداروں، حکمرانوں یا سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے؟ زیرِ تبصرہ کتاب ''جہاد، جنگ اور دہشت گردی'' کے مصنف سمجھتے ہیں کہ دورِ حاضر میں جہاد کے احکام اور مسائل پر بحث کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کا بھی خیال رکھا جائے جن پر اسلامی ممالک متفق ہو چکے ہیں، علاوہ ازیں جہاد فی سبیل اللہ کن اسباب/وجوہات کی بنا پر فرض ہوتا ہے؟ اس کا اعلان کون کر سکتا ہے؟ اس کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا کسی ایک اسلامی ملک پر حملہ عالمِ اسلام پر حملے کے مترادف ہے اور اسبابِ جہاد مہیا کرتا ہے؟
یہ اور ایسے تمام معاملات پر مصنف نے سیر حاصل بحث کی ہے، جو جہاد اور اس کی معنویت کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ (مدیر)
عالم اسلام بالخصوص پاکستان میں جہاد، جنگ اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر علمی، فکری اور مذہبی مباحث کا آغاز جتنا آج ضروری ہے شاید پہلے کبھی نہ تھا۔ اولاً اس لیے کہ دہشت گردی اور اس کے خلاف جنگ دونوں ہی اسلام کے تصورِ جہاد کو آلودہ کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ ثانیاً پاکستان جہاد کے نام پر دہشت گردی کرنے والوں کی زد میں بھی ہے اور ان دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرنے والوں کی زد میں بھی۔ اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان میں کچھ حلقے اسلامی تصورِ جہاد کی ایک مخصوص نقطۂ نظر سے ترویج کر رہے ہیں اور عوامی سطح پرمعدود اسلامی تفہیم اور غیر منطقی اذہان کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر یا تو لوگوں کو ابہامی و انتشاری کیفیت کی طرف دھکیل رہے ہیں یا اپنے مخصوص نقطۂ نظر سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش میں ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگوں کو جہاد سے متعلق اسلامی احکامات و تصورات کی اصل روح سے آگاہ کیا جائے تاکہ وہ اس ضمن میں غور و خوض کریں اور جہاد اور دہشت گردی کے فرق کو سمجھ سکیں۔ مجتبیٰ محمد راٹھور کی زیر تبصرہ کتاب اس سلسلے کی ہی ایک ابتدائی کڑی ہے جو قرآن، حدیث، فقہ اور اسلامی تاریخ سے جہاد سے متعلقہ امور کی کشید کر کے ہمارے سامنے پیش کرتی ہے۔مصنف نے زیر بحث موضوعات پر مسلکی اور فقہی / اختلافی امور پر روشنی ڈالنے کے لیے جملہ نقطہ ہائے نظر پر بحث کی ہے اور کوشش کی ہے کہ خاص طور پر جہاد کے متنوع امور کے دورِ حاضر میں عملی انطباق کی صورتیں بھی دیکھی جائیں۔ اس سلسلے میں مصنف نے جہاد کو بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کی روشنی میں بھی سمجھنے کی کوشش کی ہے۔

مصنف کے نزدیک جنگ یا قتال (لڑائی) کو جہاد کا جزو تو کہا جا سکتا ہے لیکن صرف جنگ یا قتال پر ہی جہاد کا اطلاق نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جہاد کا تصور اور مفہوم بہت وسیع ہے۔ جبکہ ہر وہ عمل جو اسلام کے تصور جہاد اور آداب القتال کے معیار پر پورا نہ اترتا ہو وہ دہشت گردی کہلائے گا چاہے وہ انفرادی، گروہی یا ریاستی سطح پر ہو۔ مغربی دنیا کے دانشور اور پالیسی ساز جو اسلامی معاشرے میں انتشار اور جنگ کی کیفیت پیدا کررہے ہیں اور مختلف ریاستیں جو بے گناہ عوام کا قتل عام کر رہے ہیں، مصنف انہیں بھی دہشت گردی کے زمرے میں شمار کرتا ہے۔ جبکہ اسلامی حکومت کی باغی لوگوں یا گروہوں کے خلاف کارروائی جو صراحتہً دہشت گردی کا ارتکاب کرتے ہیں جہاد کا نام دیتا ہے۔

9/11 کے بعد دنیا نے دہشت گردی کو مسلمانوں کے ساتھ مخصوص کرنا شروع کر دیا اور''اسلامی دہشت گردی'' جیسی اصطلاحات سامنے آئیں۔ مصنف نے قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ اسلام امن و سلامتی کا درس دیتا ہے اور کچھ نادان مسلمان افراد یا گروہ فتنہ و فساد پھیلا رہے ہیں تو یہ لوگ مذہبی نہیں ہیں کسی مسلمان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ خوفِ خدا بھی رکھتا ہو اوراسلام کی روح سے بھی واقف ہو، پھر فتنہ و فساد یا ظلم و تشدد کرے یا اس کی مدد کرے۔ دہشت گردی میں ظلم، قتل و غارت، تشدد شامل ہوتا ہے جو قرآنی تعلیمات کے مطابق زیادتی اور فساد کی شکلیں ہیں۔ اسلام پر دہشت گردی کا الزام لگانا یا دہشت گردی کے لیے اس مذہب کا استعمال کرنا دونوں مذموم صورتیں ہیں۔

مصنف نے فقہائے کرام کی بیان کردہ جہاد کی جملہ اقسام پر سیر حاصل بحث کی ہے جن میں (1) جہاد النفس، (2) جہاد الشیطان، (3) جہاد المجتمع ائو جہاد بالامر با المعروف و النہی عن المنکر، (4) جہاد المنافقین، (5) جہاد الکفار اور (6) جہاد المرتدین شامل ہیں۔ اپنے نفس سے جہاد کرنا سب سے مشکل جہاد ہے اس لیے اسے جہاد اکبر کہا گیا ہے۔ وسائل جہاد کے ضمن میں مصنف لکھتا ہے کہ جہاد اپنی جان، مال، زبان، قلم، ہاتھ اور دل کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔

جہاد کے احکام سے متعلق خرابی اس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب مختلف گروہ یا فرقے قرآن و حدیث اور فقہی مسائل کی اپنی اپنی تاویلات سامنے لاتے ہیں۔ جہاد کے قرآنی احکام سے متعلق اپنی رائے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان آیات و احادیث کے سبب نزول، سیاق و سباق، حالت و واقعات اور ناسخ و منسوخ سے مکمل آگاہی ہو اور اس کے ساتھ ساتھ آئمہ کرام، مفسرین و محدثین کے اقوال و افعال کا بھی علم ہو۔ مصنف اس ضمن میں اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بعض مصنفین نے صرف اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے ایسی آیات و احادیث کا سہارا لیا جن کا اگر مذکورہ علوم کی روشنی میں مطالعہ کیاجائے تو ان کا مفہوم یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کتابوں میں بعض اوقات جہاد کا نام استعمال کر کے مخالف فرقوں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے اور امتِ مسلمہ کے جہاد کے متعلق مشترکہ مؤقف کی نفی کی گئی ہے۔ مصنف سمجھتا ہے کہ قرآنی آیات اور احادیث سے شرعی احکام کے استنباط میں آئمہ کرام کے درمیان ہر دور میں اختلاف پایا جاتا رہا ہے لیکن اس اختلاف کو کبھی بھی وجہ تنازعہ نہیں بنایا گیا جیسا کہ آج کچھ گروہ کر رہے ہیں۔ جہاد کے بارے میں مسلمانوں میں موجود اختلافی بحث کا مصنف نے ان تین سطحوں پر بڑا تفصیلی جائزہ لیا ہے:
(1) جہاد کا حکم دفاعی (defensive) ہے یا اقدامی (Pre-emptive)۔
(2) جہاد کی علّت کفر ہے یا محاربت
(3) جہاد کے متعلق وہ آیات جن میں مطلقاً کفار سے جنگ کرنے کا حکم ہے وہ دائمی ہے یا جز وقتی اور اس کی غایت و انتہا کیا ہے؟ ان تینوں امور پر قرآن و حدیث ، تاریخ اور فقہائے کرام کے اجتہادی نکات کی جزئیات قاری کے سامنے رکھنے کے بعد، مصنف نے موجودہ حالات میں ان کے علمی انطباق کو یوں بیان کیا ہے:
(1) اسلام نے مسلمانوں کو ہرجگہ اپنے دفاع کا حکم دیا ہے اور ظلم و تشدد سے روکا ہے۔
(2) جزیہ اور لااکراہ فی الدین کے احکام سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاد کرنے کی علّت جنگ اور قتال ہے اور کفر نہیں اور جنگ بھی صرف اس سے جو اسلام اور مسلمانوں سے جنگ کرے۔
(3) مسلمان اور غیرکے درمیان مسلح تصادم مستقل نہیں۔ اگرچہ ان کے درمیان نظریاتی تصادم موجود ہے لیکن مسلح تصادم کی صورت اس وقت ہو گی جب محاربہ ہو گا اور جب جہاد کی فرضیت کا سبب پایا جائے گا۔

اسلامی تعلیمات اورسیرت نبویۖ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ اسلام داخلی و خارجی سلامتی اور عالمی امن کا داعی ہے۔ حقیقت میں اسلام بین الاقوامی معاہدات کو فروغ دیتا ہے تاکہ علمی طور پر امن اور سلامتی ممکن ہو سکیں۔ ملکوں کے درمیان سفارتی رابطے اسلام کی نظر میں خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہوں کے قاصد کو عزت و احترام دیتے۔ آج کچھ لوگ اگر غیرمسلموں سے اس لیے روابط نہیں رکھنا چاہتے کہ وہ دینِ اسلام کے مخالف ہیں، تو مصنف کے نزدیک، انہیں اسلام کی تاریخ پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی ممالک، اس عالمی نظام کا حصہ ہوتے ہوئے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے پرمجبور ہیں۔

مصنف سمجھتا ہے کہ دورِ حاضر میں جہاد کے احکام اورمسائل پر بحث کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ بین الاقوامی قوانین اور معاہدات کا بھی خیال رکھا جائے جن پر اسلامی ممالک متفق ہو چکے ہیں۔ ایک اسلامی ملک انفرادی حیثیت سے کسی دوسرے ملک سے جو معاہدہ کرتا ہے اس کا پاس بھی ضروری ہے۔ اسلامی تعلیمات اور سیرتِ نبویۖ کا تو یہی تقاضہ ہے۔ تاہم اگر اسلامی ممالک سمجھتے ہیں کہ اقوام متحدہ پر بڑی اقوام کی اجارہ داری ہے یا یہ قوانین غیراسلامی ہیں یا اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں تو یہ حکمرانوں کا کام ہے کہ وہ اس پر آواز بلند کریں یا اس سے الگ ہو جائیں۔ معاہدات و قوانین میں شامل رہ کر ان کی خلاف ورزی، غیر اسلامی فعل ہے۔

جہاد کی فرضیت کے حوالے سے مصنف سمجھتا ہے کہ اگر عام مسلمان صرف قرآن پاک کی آیات کے تراجم پر انحصار کرے اور اس پر اپنا حکم اور رائے قائم کرے تو اسلامی احکام کے دیگر مآخذ جن میں احادیث، اجماع، اجتہاد اور قیاس کا انکار ہوتا ہے۔

جمہور فقہاء اور علماء کے نزدیک جہاد فرضِ کفایہ ہے، فرض عین نہیں کیونکہ ہر وہ چیز جو گروہ کے لیے فرض ہو ہر ایک کے لیے نہ ہو فرضِ کفایہ کہلاتی ہے۔ حنیفہ، مالکیہ اور حنابلہ اس بات پر متفق ہیں جب کہ بعض شافعی فقہاء نے بھی یہی کہا ہے۔ تاہم فقہا کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ بعض حالات میں جہاد ہر شخص پر واجب ہو جاتا ہے۔ (1) جب کفار مسلمانوں کے کسی ملک پر حملہ کر دیں اور ملک کے اندر داخل ہو جائیں۔ (2) جب امام کسی قوم کو جہاد پر نکلنے کے لیے کہے تو تمام لوگوں پر نکلنا واجب ہو جاتا ہے اگر کوئی عذر نہ ہو۔(3) جب دو گروہ لڑائی کے لیے آمنے سامنے آ جائیں اور صفیں باندھی جا چکی ہوں، تو مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں کہ پیچھے ہٹیں کیونکہ اس صورت میں جہاد فرضِ عین ہوجاتا ہے۔

جہاد فی سبیل اللہ کن اسباب اور وجوہات کی بناء پر فرض ہوتا ہے اس کا اعلان کون کرسکتا ہے؟ اس کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا کسی ایک اسلامی ملک پر حملہ تمام عالم اسلام پر حملے کے مترادف ہے اور اسبابِ جہاد مہیا کرتا ہے؟ کیا مسلمانوں کی آزادی کی جنگیں جہاد ہیں؟ جہادِ فی سبیل اللہ کی شرائط کیا ہیں؟ یہ اور ان جیسے دیگر کئی سوالات دورِ حاضر کے بڑے حساس اور اہم موضوعات ہیں جن کے بارے میں زیادہ تر مسلمان، بالخصوص پاکستانی ابہام کا شکار ہیں۔ ان کی اکثریت شاید اس ضمن میں صحیح اسلامی پیغام سے ناآشنا ہے۔

مصنف کے نزدیک مسلمانوں کی جنگ کو جہاد فی سبیل اللہ کہنے سے پہلے جنگ کے مقصد اور سبب کو مدِنظر رکھنا ہو گا۔ اگر سبب جنگ ان اسباب میں سے ہے جواسلام نے بیان کیے ہیں اور پھر مقصد بھی ان مقاصد جہاد میں سے ہے جو اسلام نے متعین کیے ہیں تو پھر اس جنگ کو ہم جہاد فی سبیل اللہ کہہ سکتے ہیں۔ اسباب و مقاصد سے یہ معلوم ہونے کے بعد کہ یہ جنگ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ یہ کسی گروہ یا تنظیم کی بھی ذمہ داری نہیں کہ وہ کسی جنگ کو جہاد قرار دے یا اس کا اعلان کرے بلکہ تمام امتِ مسلمہ کے فقہائے کرام اور علماء اس بات پر متفق ہوں کہ یہ جہاد فی سبیل اللہ ہے تو پھر شریعت کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط کے مطابق کوئی بھی مسلمان حکمران جہاد کا اعلان کر سکتا ہے۔ مسلمانوں کی آزادی کی تحریکیں اگر اس اصول پر ہیں تو وہ جہاد فی سبیل اللہ ہیں۔

جہاد فی سبیل اللہ کے اسباب میں سے ایک سبب مظلوم مسلمانوں کی حمایت ہے جس پر مصنف نے موجودہ حالات کے تناظر میں بڑی مفصل گفتگو کی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دوسرے ملک / ممالک میں مظلوم مسلمانوں کی حمائت یا دفاعی طور پر کمزور مسلم ریاست کی مدد جائز ہے لیکن بین الاقوامی قانون اور معاہدات کو بھی مدنظر رکھنا ہو گا جیسا کہ قرآن پاک میں یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ اگر مظلوم مسلمان کسی ایسے ملک میں ہوں جن کا مسلمانوں کے ساتھ معاہدہ ہو تو اس صورت میں مسلمانوں پر معاہدہ کی پابندی لازمی ہو گی۔ دوسری بات یہ کہ ریاست کے حکمران کی مرضی کے بغیر کوئی فرد یا گروہ مدد کے لیے نہیں جا سکتا اور تیسری بات یہ کہ کچھ فقہا کے نزدیک اگر کوئی مسلمان ملک کسی دوسرے ملک کے مسلمانوں کی مدد کرنا چاہے تو اس کے لیے اسے اعلانِ جنگ کرنا ہو گا۔

امتِ مسلمہ اس وقت پچاس سے زائد ریاستوں پر مشتمل ہے۔ موجودہ حالات میں ایک دوسرے کی مدد کن بنیادوں پر ہو گی؟ بین الاقوامی معاہدات کے علاوہ ان میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ وہ اپنے دفاع کے ساتھ دوسروں کا دفاع بھی کر سکیں۔ مصنف کے خیال میں ہر مسلمان ملک کو اپنے آپ کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد وہ مل کر ایسا دفاعی معاہدہ تشکیل دے سکتے ہیں جس کی رُو سے کسی بھی مسلمان ملک پر حملہ تمام مسلمانوں پر حملہ تصور ہو۔ اقوام متحدہ کے منشور کی دفعہ "51" کے تحت اس انتظام کی گنجائش موجود ہے اور معاہدہ شمالی اوقیانوس کی تنظیم (NATO) اسی کے تحت بنائی گئی ہے۔ جو جہاد کی شرائط میں سے ہے۔

پاکستان اندرونی طور پر بہت سی جہادی اور جنگجو تنظیموں کا چیلنج درپیش ہے۔ مصنف نے (1) اسلامی تاریخ، (2) مسلمان اہلِ علم کی آراء اور (3) جہاد کے احکام کی روشنی میں اسلامی ملک کے اندر خود مختار اور آزاد جہادی تنظیموں کے قیام اور دوسرے ممالک میں کارروائیوں کو غیر اسلامی قرار دیا ہے۔ تاہم بعض فقہاء نے ایسے گروہوں کی کارروائیوں پر حکومتی خاموشی کو تائید کے مترادف گردانا ہے اور لکھا ہے کہ یہ جہاد حکومت کی مرضی سے ہو رہا ہے۔
اسلامی تاریخ اور احکام جہاد میں تو آزاد یا سرکاری سر پرستی میں قائم جہادی تنظیموں کا تصور نہیں ملتا۔ کتاب کے آخری حصے میں مصنف نے خودکش حملوں کی قانونی اور اسلامی حیثیت کا بھی جائزہ لیا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے اصول و ضوابط کی روشنی میں اگر خود کش حملوں کے جواز اور عدم جواز کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے جواز کے لیے درج ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے۔
-1 خودکش حملہ مسلح تصادم کے دوران کیا جائے نہ کہ حالت امن میں۔
-2 حملہ کرنے والا عام شہریوں کے لباس میں نہ ہو بلکہ فوجی یا جنگی لباس میں ہو۔
-3 حملے کا ہدف مخالف فریق کے جنگجو ہوں۔
-4 یہ کہ حملے میں ایسا طریقہ یا ہتھیار استعمال نہ کیا جائے جو ممنوع ہو۔

خودکش حملوں کے جواز کے لیے اسلامی فقہ کے جس جزئیے سے استدلال کیا جاتا ہے، حنفیہ فقہا نے اسے جائز ٹھہرایا ہے کہ کوئی غازی تنہا دشمنوں کی صفوں میں گھس جائے اگر اسے یقین ہو اس طرح کے حملے سے وہ دشمن کو شدید نقصان پہنچائے گا یا اس طرح وہ دشمن کو خوفزدہ کر دے گا تاہم یہ حکم اس موقع کے لیے ہے جب دو فوجیں جنگ کر رہی ہوں یا جنگ کرنے والی ہوں اور ہر فریق دوسرے فریق کے متعلق جانتا ہے کہ وہ لڑائی کے لیے آیا ہے۔
تاہم عصر حاضر میں بالخصوص پاکستان میں ہونے والے حملے خودکش حملے بے گناہ اور معصوم شہریوں کو شہید کر رہے ہیں جو قرآن و حدیث اور فقہ کے قطعی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ مصنف کے بقول آج کل خودکش حملہ کی جگہ فدائی حملہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو درحقیقت خودکش حملہ ہوتا ہے اور ایسا کوئی بھی حملہ جو حالتِ جنگ میں نہ ہو بلکہ حالت امن میں ہو اور دشمن کی بجائے معصوم شہریوں پر ہو قطعی طور پر شریعت کی نظر میں ناجائز تصور ہو گا۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے جہاں بیشتر اسلامی قوانین نافذ ہیں۔ پاکستان کے حکمران بھی مسلمان ہیں لہٰذا یہ فاسق اور کافر حکومت کے زمرے میں بھی نہیں آتی کہ جہاد کے نام پر اس کے اداروں، حکمرانوں یا سیکورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جائے۔