working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

سلیم اشرف: صفدرآباد.....ڈھابان سنگھ

ستمبر میں بھی آپ کو تجزیات کیلئے لکھ کے بھیجا تھا اور اکتوبر میں دوبارہ بھیج رہا ہوں۔ تجزیات کے سلسلے میں یہاں میرے پاس کیسی صورتحال ہے۔ تجزیات ایک نہایت قابل احترام دوست کی وساطت سے جنوری 2009 سے باقاعدگی سے موصول ہورہا ہے۔ تجزیات کے مسلسل مطالعہ کے بعد یہ بات ذہن میں آتی ہے کہ جو کام ہمارا تعلیمی نظام نہیں کر سکا، ہمارے ادارے نہیں کر سکے وہ کام تجزیات کر رہا ہے۔ یہ ایک فکری تحریک ہے۔ یہ جریدہ ان دانشوروں اور لکھاریوں کیلئے نہیں ہے جن کی وجہ سے آج ہم تاریکی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ یہ جریدہ طالب علموں کیلئے اور عام قاری کیلئے ہے جو اس ملک ایسا دیکھنا چاہتے ہیں جیسا 11اگست 1947 کی دستور ساز اسمبلی میں محمد علی جناح نے کہا تھا۔
 
تجزیات مبارکباد کا مستحق ہے کہ یہ نوجوانوں میںایک مثبت سوچ پیدا کرنے والا جریدہ ہے۔ نوجوانوں ہمار امستقبل ہیں لیکن جن معاشروں میں فرقہ واریت ،انتہا پسندی، عسکریت پسندینوجوانوں سرایت کر جائیں تو پھر اسے برباد کرنے کیلئے باہر سے کسی کو آنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ 1947 میں برصغیر پاک و ہند کے نقشے سے پاکستان نمودار ہوا تھا اگر اس طرح کی فکری سوچ، علمی سوچ شروع دن سے پروان چڑھتی ہوئی تو 1971 میں پاکستان کے نقشے سے بنگلہ دیش کبھی بھی دنیا میں ایک اور ملک کا اضافہ نہ کرتا۔ خیر تجزیات اس حوالے سے دیر آئند درست آئند والی بات ہے۔ اکتوبر کے شمارے میں اداری سے لیکر مراسلہ تک اپنے اندر گہری جانکاری لئے ہوئے ہے۔ اگر اس پہ بات شروع کریں تو بہت لمبی ہو جائے گی۔ اداریہ میں ریاست اور قانون کی پاسداری کے حوالے سے پڑھ کے ایتھنا دیوی کے شہر ایتھنز میں 502 ججوں کی عدالت سے موت کی سزا پانے والے سقراط کی یاد آتی ہے جس نے کہا تھا " کہ ریاست کبھی برقرار نہیں رہ سکتی جہاں کسی کو سزا سنائی جائے اور نافذالعمل نہ ہو" کچھ اس طرح ہی کی صورتحال ہمارے ساتھ اپنے اس ملک میں موجود ہے۔ خالد احمد کا مضمون ہماری بدقسمتی کے سپاہی واقعی ہماری بدقسمتی کی عکاسی کرتا ہے۔ خدا کرے اب یہ سپاہی ملک میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس عوام کو بدقسمت نہ کر سکیں اور نہ آنے والی نسلوں کی بقاء ہے۔ کہ جس ملک میں حکمران قبضہ گروپ، اشرافیہ آزاد اور عوام غلام ہوں اور اوپر سے دوہرا ظلم کہ بدقسمتی کے سپاہی بھی موجود ہوں تو وہاں بڑی آسانی سے ڈالروں اور ریالوں کے عوض کہیں بھی کسی بھی طرح کا جہاد شروع کیا جاسکتا ہے۔ جسکا نتیجہ آج پورے نمبرز کے ساتھ ہمارے سامنے موجود ہے۔ ملک میں جاری جنگ کو اپنے منطقی انجام تک پہنچائے بغیر شائد ہم اپنا وجود برقرار نہ رکھ سکیں۔
 
زاہد حسن کے مضمون اقلیتوں کے انسانی حقوق کے حوالے سے پڑھ کر کچھ زخم پرانے یاد آتے ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کیلئے زندگی پہلے ہی سہل نہ تھی اب کچھ اور ہی زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔ 1977 میں جنرل ضاء الحق نے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ تو کیا ہی ساتھ میں امتیازی قوانین کا ایک ایسا اضافہ کیا کہ غیر مسلموں کی زندگی کو جہنم بنا دیا۔ شانتی نگر 1997 سے لیکر1اگست2009تک اس ملک میں مسیحی برادری کیساتھ جو کچھ ہوا وہ احسان فراموشی کی بد ترین مثال ہے۔ پاکستان کی اکثریت کے شانے بے روزگاری، مہنگائی ، انتہا پسندی اور ذلت کے ناقابل برداشت بوجھ سے دہرے ہیں انہیں اپنے غموں سے ہی فرصت نہیں کہ وہ لوگوں کو مذہب کے نام پر زندہ جلانے پہنچ جائیں۔ یہ کام وہ کرتے ہیں جو امتیازی قوانین کے ساتھ ہی معرض وجود میں آئے۔ جو شائد یہاں پہلے دن سے پیدا ہو گئے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو امن کے۔ علم کے اور اس کی سلامتی کے دشمن ہیں۔ یہاں تک کہ قرآن کے حافظ سجاد ظہیر کو جلانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان عناصر کو معاشرے اس طرح ختم کرنے کی ضرورت ہے جس طرح جنوبی پنجاب کا کسان اپنی کپاس کی فصل سے لشکری سنڈی اور کالے تیلے کا خاتمہ کرتا ہے۔ اسی میں ہماری اور آنے والی نسلوں کی بقاء ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جتنا اندھیرہ علم وفکر میں ہمارے ملک میں ہے شائد ہی کہیں اور ہو۔ تجزیات جیسے جریدے زیادہ سے زیادہ شائع ہو کر قارئین کے خصوصا طالب علموں کے ہاتھ میں پہنچنا چاہئے پھر ان پہ گفتگو اور بحث کا سلسلہ چلنا چاہئے تاکہ جہالت کا اندھیرا دور سکے اور علم کی روشنی پھیلے۔ تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کے سامنے زندہ رہ سکیں۔ کیونکہ یہ بی پڑھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ کتابیں ہی دنیا پہ اصل حکمرانی کرتی ہیں۔ ہم اس فکر انگیز جریدے کی ٹیم سے توقع کرتے ہیں کہ وہ اپنی علمی وفکری کاوشیں جاری رکھے گی۔