Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
انتہا پسندوں کی جنت ''وزیرستان'' کو واگزار کرانے کے معرکے کا آغاز |
عقیل یوسفزئی
مالا کنڈ ڈویژن میں کامیاب فوجی آپریشن کے پیچھے یقیناً یہ حکمت عملی کار فرما تھی کہ فوجی آپریشن شروع کرنے سے پہلے زمین ہموار کی جائے، عوامی تائید حاصل کی جائے، عوامی جماعتوں کی رائے حاصل کی جائے اور سب سے بڑھ کر مقامی قبائل کو ساتھ ملایا جائے۔ انہی اوامر کی بنیاد پر وزیرستان میں آپریشن کرنے کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے، جلد یا بدیر جس کا آغاز ہونے والا ہے۔
عقیل یوسفزئی، دہشت گردانہ کارروائیوں کے پیچھے کارفرما سوچ، طالبان اور طالبانائزیشن کے حوالے سے ماہر تجزیہ نگار مانے جاتے ہیں۔ اس تحریر میں انہوں نے وزیرستان کی صورت حال اور اس صورت حال میں آپریشن کے بعد حاصل ہونے والے نتائج کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر بیان کیا ہے، جو ہم سے اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ اس پر غور ضرور کیاجائے۔ (مدیر)
|
ملکی اور غیر ملکی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی ریاست کی جانب سے شروع کی گئی کارروائی نہ صرف مالا کنڈ ڈویژن میں فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے بلکہ انتہا پسندوں کے ہیڈکوارٹر وزیرستان میں بھی فورسز کی پیش قدمی اور کارروائیاں شروع ہیں۔ مالاکنڈ ڈویژن میں فورسز کے اقدامات اور حکومت کی حکمت عملی کے مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور متعدد علاقوں کے متاثرین کی واپسی کا عمل بھی شروع ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود جنگجوئوں اور فورسز کے درمیان دور اُفتادہ علاقوں میں جھڑپیں جاری رہتی ہیں اور فورسز نے دوسرے مرحلے کے دوران ٹاپ لیڈرشپ کو ٹارگٹ بنانے کی حکمت عملی پر بھی توجہ دینی شروع کر دی ہے۔ پچھلے آپریشن پر جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا ان خدشات سے بچنے کے لیے فورسز نے اب کے بار متعدد عملی اقدامات کئے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فورسز پر مقامی آبادی کا اعتماد بحال ہونا شروع ہو گیا۔ امن پسند حلقوں اور فوج کے درمیان بحالی اعتماد کے بعد رابطے اور تعاون کا ایک موثر نظام قائم ہوا جس کے باعث شر پسند نہ صرف یہ کہ عنقا ہو گئے بلکہ ان سے نمٹنے کا عمل بھی آسان ہو گیا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مالاکنڈ ڈویژن کے تین متاثرہ اضلاع میں اب تک 25 سوسے زائد شرپسندوں اور دوسرے یا تیسرے درجے کے ان کے دو درجن کمانڈروں کو ٹھکانے لگایا جا چکا ہے۔ دوسری طرف فورسز اور صوبائی حکومت کے متعلقہ اداروں نے ان سینکڑوں افراد کو بھی گرفتار کرلیا ہے جو کہ بھیس بدل کر جنگ زدہ علاقوں سے وادی پشاور اور دوسرے علاقوں میں منتقل ہو گئے تھے۔ حکومت، فورسز اور عوام کی اس Coordination نے آپریشن راہ راست کو بڑی حد تک کامیابی سے ہمکنار کردیا ہے اور قوی امکان ہے کہ نومبر کے وسط تک مالاکنڈ ڈویژن کے اکثریتی علاقوں کو کلیئر کر کے متاثرین مالاکنڈ کی واپسی کو ممکن بنایا جا سکے گا۔
فورسز نے انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر عام جنگجوئوں کے خاتمے کے علاوہ ان مراکز اور ٹھکانوں کو تباہ کرنے پر اب کے بار خصوصی توجہ دی جہاں پر شرپسندوں نے مضبوط اور محفوظ نیٹ ورک قائم کررکھے تھے۔ اس ضمن میں پیوچار کیمپ کی مثال دی جا سکتی ہے جہاں پر مقامی اور ملکی جنگجوئوں کے علاوہ غیرملکیوں کی بڑی تعداد گزشتہ کئی برس سے مقیم تھی اور انہوں نے اپنی حفاظت کے لیے انتہائی مضبوط بنکرز بنائے ہوئے تھے۔ پیوچار پر قبضہ کے دوران سپیشل فورسز سمیت بے شمار فوجی جوان زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تاہم ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی اور یہ خطرناک کیمپ اب فورسز کی تحویل میں ہے۔
فورسز نے مالاکنڈ ڈویژن میں آپریشن کی عملی کارروائیوں کے علاوہ شرپسندوں کے حامی عناصر اور افسران کے خلاف بھی اقدامات کئے تاکہ ان قوتوں کی عوامی حمایت کو کم یا ختم کیاجائے۔ اس کے ساتھ ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جو حکومت کے حامی ہیں۔
موجودہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ماحول دیکھنے کو ملا کہ پشتون بیلٹ میں پاکستانی آرمی کے ساتھ نہ صرف یہ کہ بہتر تعلقات کے قیام کی ابتداء ہوئی بلکہ لوگوں نے امن کے لیے پاکستانی فوج کے ساتھ تمام تر خطرے کے باوجود مثالی تعاون بھی کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اتنہا پسندوں نے عوام کو دیوار سے لگا کر ان کی جان و مال کو بڑے خطرے میں ڈال دیا تھا اورجب فورسز نے عملاً شرپسندوں کے خاتمے کا آغاز کیا تو عوام نے نہ صرف ان کو سپورٹ فراہم کی بلکہ شرپسندوں اور ان کے حامیوں کی نشاندہی کر کے فورسز کے کام کو ممکنہ حد تک یقینی بھی بنایا۔
مالاکنڈ ڈویژن میں جاری آپریشن کے ساتھ ساتھ حکومت کے کہنے پر وزیرستان کی دو ایجنسیوں اور بعض بندوبستی علاقوں میں بھی کارروائیوں کی ابتداء کی گئی۔ اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ بیت اللہ محسود کے ساتھیوں کا محاصرہ کر کے ان کی مزاحمت کے خطرے کو ختم کر دیا جائے کیونکہ سوات آپریشن کے ردعمل کے طور پر وزیرستان بیسڈ طالبان اور ان کے غیر ملکی معاونین پاکستان کے دوسرے شہروں کو نشانہ بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔ ایک خطرہ یہ بھی تھا کہ اگر وزیرستان کو کھلا چھوڑ دیا جاتا توجنگجو کمانڈر متبادل راستے اپنا کر مالاکنڈ ڈویژن سے پناہ کی تلاش میں یہاں پہنچ جاتے جس کے باعث آپریشن کے نتائج ادھورے رہ جاتے۔
وزیرستان پر ہاتھ ڈالنے سے یہ اندازہ لگانا آسان ہو جاتا ہے کہ حکومت اور اعلیٰ فوجی قیادت اب کے بار انتہاپسندوں کے خاتمے کا نہ صرف ارادہ کر چکی ہے بلکہ وہ امن کے قیام کے لیے بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنے کا رسک بھی لے سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انتہا پسند بھی کھل کر میدان میں نکل آئے ہیں۔
بعض دفاعی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ سوات آپریشن کے خاتمے اور امن کی بحالی تک فورسز کو وزیرستان کی شکل میں دوسرا محاذ نہیں کھولنا چاہیے تھا۔ ان کی نظر میں فوج کے لیے بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا کافی پیچیدہ اورمشکل عمل بن سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو اس مؤقف کو کلی طور پر ردّ بھی نہیں کیا جا سکتا تاہم عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیرستان کو قابو کرنا نہ صرف غیرملکی اتحادیوں کے اطمینان کے لیے ضروری ہو گیا ہے بلکہ وزیرستان کے جنگجوئوں کی موجودگی میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کو دوسرے علاقوں کا رخ کرنے سے روکنا بھی ممکن نہیں ہو گا۔ عسکری اور حکومتی حکام کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان کے تمام کمانڈر اور کمانڈ سسٹم وزیرستان میں ہیں اس لیے جب تک ان کے گردگھیرا تنگ نہیں کیا جاتا امن کے قیام اوردہشت گردی کی روک تھام کا ہدف حاصل کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
حکومت نے بیت اللہ محسود گروپ کا خوف اور اس کی طاقت کم کرنے کے لیے فورسز کی کارروائیوں کے علاوہ سیاسی اقدامات اٹھانے پر بھی کافی توجہ دی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں ان لوگوں کے ساتھ رابطے بحال کیے گئے جو طالبان کی جانب سے پاکستان کے اندر کارروائیوں کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔ اس ضمن میں زین الدین محسود، ترکستان اور ایسے دوسرے کمانڈروں کی خدمات حاصل کی گئی ہیں جو ماضی میں بیت اللہ محسود کے ساتھی تھے اور بعد میں بوجوہ ان سے الگ ہو گئے تھے۔ ایسے لوگوں کی حمایت سے جہاں بیت اللہ گروپ کی قوت میں کمی واقع ہو گئی وہاں وہ قبائلی عمائدین اور بااثر لوگ بھی اپنا کردار ادا کرنے پر پھر سے آمادہ ہوں گے جو اب تک خوف کے باعث انتہا پسند گروپوں کے خلاف مزاحمت کی بجائے خاموشی یا معاونت کی پالیسی پر عمل پیرا تھے۔
غیرجانبدار مبصرین کا خیال ہے کہ بیت اللہ محسود گروپ کو درمیان سے ہٹانا اگر ناممکن نہیں توایک مشکل اور ٹف ٹاسک ضرور ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس کا نیٹ ورک محض وزیرستان تک محدود نہیں ہے بلکہ حکومت کی سابقہ کوتاہیوں کے باعث ساتوں قبائلی ایجنسیوں میں یہ نیٹ ورک موجود ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پشاور سمیت صوبہ سرحد کے ایک درجن کے قریب اضلاع میں بھی بیت اللہ کے ساتھی اور جنگجو موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ان کو حقانی گروپ کی سرپرستی بھی حاصل ہے کیونکہ افغانی اوردوسرے طالبان گروپ موجودہ حالات میں بیت اللہ محسود ہی کو سب سے موثر اور طاقتور طالب کمانڈر سمجھتے آئے ہیں۔ اسی اہمیت کا نتیجہ ہے کہ افغان طالبان قیادت نے جون کے آخری ہفتے میں حکومت پاکستان کے دو اہم حامی کمانڈروں ملا نذیر اور حافظ گل بہادر کو پیغام بھیجوایا کہ وہ بیت اللہ کے خلاف کسی بڑی سرگرمی یا کارروائی کا حصہ بننے سے گریز کریں۔
قبل ازیں ملا عمر نے بیت اللہ کے خلاف بغاوت یا مزاحمت کا راستہ روکنے کے لیے تین رکنی وفد بھی بھیجا جس نے اورکزئی ایجنسی میں 18 جون کو بیت اللہ کے نائب حکیم اللہ محسود کے ساتھ ملاقات کر کے ان پر زوردیا کہ وہ دوسرے کمانڈروں کے ساتھ معاملات درست کر کے تحریک طالبان کے ٹوٹنے یا کمزور کرنے کا راستہ روک لیں۔ ذرائع کے مطابق افغان اور عرب طالبان کی کوشش ہے کہ بیت اللہ محسود کے نیٹ ورک کو قائم رکھنے دیاجائے اور یہی وجہ ہے کہ بعض اہم لوگ لمبے عرصے تک فریقین کے درمیان مصالحت کے لیے سرگرم عمل رہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ بیت اللہ محسود گروپ نے پاکستان آرمی کے خلاف مزاحمت کرنے کی بجائے وقتی طور پر ''پسپائی'' کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت وزیرستان یا دوسرے علاقوں میں مقابلے کی جگہ فورسز اور حکومت کو جواب دینے کے لیے خود کش اور ٹارگیٹیڈ اٹیکس (Targeted Attacks) کا فارمولا اپنا کر دوسرے شہروں خصوصاً پشاور، اسلام آباد ا ور لاہور کو نشانہ بنایا جائے گا۔
بیت اللہ محسود کے خاتمے یا ان کو لگام ڈالنے کا انحصار ان کے خلاف مقامی اور غیرمقامی (افغانستان) طالبان کے روّیے اور پالیسی پر بھی ہے۔ اگر افغانستان طالبان نے ان کے سر پر سے ہاتھ اٹھایا اور حقانی کمانڈروں نے رائے عامہ ہموار کر کے اپنی عسکری اور عوامی قوت کو عملاً ثابت کیا تو بیت اللہ گروپ کی کمر توڑنے کا راستہ ہموار ہو جائے گا تاہم یہ توقع رکھنا کہ بیت اللہ کے دوسرے ساتھی ملا فضل اللہ کی طرح آسانی سے درمیان سے ہٹ جائیں گے زیادہ درست تجزیہ ثابت نہیں ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی فورسز اور حکومت واقعتا ایک خطرناک مگر ناگزیر جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ سیاسی اقدامات اور اصلاحات پر بھی توجہ دی جائے۔
|
|
|
|
|