Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
کراچی میں بدامنی کا شماریاتی جائزہ |
کراچی کو روشنیوںکا شہر کہا جاتا ہے۔ تاہم عرصہ گزرا، اس شہر کی روشنیاں گہنا چلیں۔ پاکستان کی تاریخ میں اس شہر کی ایک سیاسی، سماجی، معاشی اور تہذیبی حیثیت ہے۔ برسوں سے جاری معاشی، سیاسی، مذہبی اور لسانی کشاکش نے شہر کی اس منفرد حیثیت کو توڑ مروڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال پینتیس ہزار خاندانوں کو اپنے اندر سمونے والا یہ شہر ملک کو قومی جی ڈی پی کا 15 فیصد مہیا کرتا ہے۔ دوسری سطح پر اگر ہمیں بھائی چارے، رواداری اور سیکولرازم کی مثال مہیا کرنا ہو تو بھی کراچی ہی کا نام ذہن میں آئے گا۔ ماضی میں ہندوؤں، مسلمانوں، عیسائیوں، پارسیوں، سکھوں، بدھ مت اور دیگر بے شمار مذاہت سے متعلق لوگ اس شہر میں آباد رہے۔ ثقافتی رنگارنگی اور مذہبی رواداری اس شہر کی روایت رہی ہے۔ لیکن اب آہستہ آہستہ یہ روایت مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے بے شمار کارن ہیں۔ معاشی، لسانی، گروہی، مذہبی اور جرائم پیشہ افراد کی من مانیوں نے انتظامی اداروں کے ڈھانچوں کو کس طور تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے، درج ذیل رپورٹ اس ساری صورت حال سے پردہ اٹھاتی ہے۔ رپورٹ مجتبیٰ راٹھور، مسرور حسین، عامر رانا، صفدر سیال اور عبدالمتین کی مشترکہ تحقیقی کاوش کا ثمر ہے۔ (مدیر)
|
1 شہر کا خاکہ
کراچی صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے اس شہر میں صوبائی اسمبلی، گورنر ہائوس اور سندھ ہائی کورٹ کی عمارتیں واقع ہیں۔ پاکستان کی پیشہ وارانہ افواج میں سندھ پولیس کے ہیڈکوارٹرز کے علاوہ پاکستان رینجرز بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔
i۔ شماریاتِ آبادی
کراچی کی آبادی 15 ملین کے قریب ہے جبکہ سالانہ شرح پیدائش 4.8 فی صد ہے اگر اس کا قومی شرحِ پیدائش سے موازنہ کیا جائے تو ملکی شرح 3.0 فی صد ہے کراچی میں آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح کی بنیادی وجہ وہ ہجرت ہے جو ملک کے چاروں صوبوں سے اس شہر کی جانب جاری ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 35,000 خاندان یا 200,000 افراد ہرسال اس عروس البلاد میں باہر سے آ کر آباد ہوتے ہیں اور اگر یہ تناسب اسی شرح سے بڑھتا رہا تو 2010ء تک شہر کی آبادی 17 ملین تک پہنچ جائے گی ایک حالیہ اعداد و شمار کے مطابق مہاجرین کی آبادی 55 فی صد، پنجابی 14 فی صد، پشتون 9 فی صد، سندھی 7 فی صد، بلوچ 4 فی صد اور دیگر قومیتیں 12 فی صد کی شرح سے موجود ہیں۔
کراچی کا رقبہ 3,336 مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے جو کہ 18 قصبات، 6عدد کنٹونمنٹ اور دیگر ایجنسیوں میں منقسم ہے۔ شہری علاقہ 1800 مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے اس شہر کی وسیع ساحلی پٹی مغرب میں Cape Monze سے شروع ہو کر مشرق میں گھارو تک آتی ہے۔ بلوچستان سے متصلِ گڈانی اور سومیانی کے خوبصورت اور لمبے ساحلوں نے بھی اس شہر کے حسن میں چار چاند لگا دیے ہیں۔ان جزائر کی موجودگی نے سیرو سیاحت کو بھی فروغ دیا ہے۔
ii۔ اقتصادی صورت حال
اقتصادی اور مالی سرگرمیوں کا مرکز کراچی، پاکستان کی معیشت میں 60 فی صد کا حصہ دار ہے۔ یہاں مرکزی اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP)، اسٹاک ایکسچینج اور قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے ہیڈ آفس موجود ہیں اس کے علاوہ بینک، مالیاتی ادارے اور جائیداد کی خرید و فروخت کی کمپنیوں کا جال بھی پھیلا ہوا ہے۔ مزید براں بڑے نشریاتی اداروں کے ہیڈ کوارٹر بھی کراچی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ وفاقی حکومت اعداد و شمار کے مطابق کراچی قومی GDP کا 15 فی صد حصہ مہیا کرتا ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں 42 فی صد اور وفاقی حکومت کا کل 25 فی صد محصول ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے صنعتی منصوبے بھی رات دن کام کر رہے ہیں جن میں سندھ انڈسٹریل اینڈ ٹریڈنگ اسٹیٹ (SITE) قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی مصنوعات میں ٹیکسٹائل، کیمیکل، اسٹیل اور مشینری سے لے کر بے شمار دوسری پیدوار شامل ہیں۔ اپنے جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے کراچی سرمایہ کاری اور کاروبار کے لیے جنت ہے۔ یہ پیشین گوئی بھی کی گئی ہے کہ اگلی دہائی میں کراچی ملک کے بڑے صنعتی اور کمرشل سنٹر میں تبدیل ہوکر امن اور استحکام کے لیے بنیادی کردار ادا کرے گا۔
iii۔ تزویراتی حکمتِ عملی
ملک کی اکلوتی گہری بندرگاہ ہونے کے ناتے کراچی جہاز رانی اور بحری سرگرمیوں کے لیے خاص مقام رکھتا ہے اور خشکی سے محصور افغانستان کے لیے بھی پاکستان کی یہی بندرگاہ کام آتی ہے۔ کراچی دیگر پاکستان سے ہوائی راستے، سڑکوں اور ریلوے لائن سے جڑا ہوا ہے۔ NATO کی تین چوتھائی سپلائی بھی کراچی کی بندرگاہ سے ہوتی ہے جو 1200 کلو میٹر لمبی ہائی وے کے ذریعے پشاور پہنچایا جاتا ہے۔ یہیں سے سپلائی بلوچستان کے دارالخلافہ کوئٹہ کو بھی جاتی ہے۔ NATO کے کنٹینر یہ سپلائی پشاور اور کوئٹہ سے اٹھا کر پڑوسی ملک افغانستان میں اپنے ملٹری بیس میں پہنچاتے ہیں۔ گو کہ نیوی کا ہیڈ کواٹر کراچی میں ہے لیکن پاکستانی نیول ڈاک یارڈ کراچی میں ہے اور اس کی تمام مشینری کراچی اور اس کے اردگرد کے سمندر میں ہے۔ اس ڈاک یارڈ نے 1952ء میں اپنے آغاز سے ہی پاکستان نیوی کے جہاز، آبدوزیں اور دوسرے سمندر جہازوں کی مرمت، تعمیر اور ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔
iv۔ شہریت اور ہجرت
ترقی پذیر ممالک کے شہری مراکز کی طرح کراچی بھی شہریوں کے لیے روز گار کا مرکز بن چکا ہے۔ لیورنٹ گیئر کے بقول کہ تقسیم کے بعد کراچی میں کالے اور گورے کی تفریق نہیں رہی بلکہ اب یہ باقاعدہ منصوبہ شدہ اور بغیر منصوبہ بندی کے علاقوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ پہلے حصے میں رہائشی اور کمرشل ایریا ہیں جنہیں کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (KDA) نے ترقی دی ہے جبکہ دوسرے حصے میں 15 ملین آبادی والے شہر کے 50 فی صد لوگوں کو سایہ میسر ہے جس میں ناجائز قابضین جو کہ دریائی گزرگاہوں، آبی ترسیل اور ریلوے لائن کے اطراف میں بستے ہیں۔ یوں رہائشیں اور بنیادی ضروریات تک رسائی بھی منصوبہ اور غیر منصوبہ شدہ علاقوں کی تقسیم کے مطابق بتدریج تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
منصوبہ بندی کے بغیر تعمیر شدہ علاقوں میں صحت، تعلیم اور تفریح کے ذرائع بھی غیر رسمی سیکٹر میں ارتقا کا نتیجہ ہیں۔ وہ بری طرح متاثر ہیں اور ان میں باقاعدگی کا فقدان ہے۔
وسیم (1998ئ)کے تجزیے کے مطابق پاکستان کے صوبوں میں دیہاتی شہری ہجرت شرح افزائش میں تفاوت کی وجہ سے عمل میں آئی اس نے اس ہجرت کو چار لہروں میں تقسیم کیا ہے۔ ہجرت کی سب سے پہلی لہر (1940-50) میں مہاجرین کی وجہ سے آئی۔ پنجابی اور پختون 1960-80ء کی دہائیوں میں آئے۔ سندھی 1970-90ء میں آئے اور غیر ملکی لوگوں کی بشمول افغان اور ایرانیوں کے (1980-90ئ) کی دہائیوں میں آمد ہوئی۔ تقسیم کے دوران مہاجرین کی ہجرت ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی۔ اثر و رسوخ رکھنے والے مہاجرین نے نقل مکانی کرجانے والے ہندوئوں کی املاک پر قبضہ کر لیا۔ جبکہ غریب مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد ساحلی علاقوں کے ساتھ کچی آبادیوں میں بس گئی کیونکہ مقامی حکومت ان کی مدد کرنے سے قاصر تھی۔
ہجرت کی دوسری لہر پنجابی اور پشتون لوگوں کی تھی جو 1960ء کی دہائی کے وسط سے شروع ہو کر 1980ء کی دہائی تک جاری رہی۔ ویزا کی پابندیوں کی وجہ سے مہاجرین انڈیا میں اپنے عزیز رشتہ داروں سے کٹ کر رہ گئے جبکہ دوسری طرف پختون اور پنجابیوں نے اپنے رشتہ داروں سے نہ صرف تعلق قائم رکھا بلکہ انہیں اس پیسے اور روزگار کے مواقعوں سے فائدہ پہنچایا جو وہ ان صنعتوں سے حاصل کرتے جو کہ زیادہ تر امیر مہاجرین کی جانب سے لگائی گئی تھیں۔ کراچی کی جانب سالانہ شرح ہجرت میں آدھی سے ذرا کم تعداد یعنی تقریباً 350,000 افراد صرف صوبہ سرحد اور پنجاب سے منتقل ہوئے، پختون برادری نے تعمیراتی صنعت، کھدائی اور ٹرانسپورٹ میں مزدوری کے کاموں میں اجارہ داری رکھی۔ پختون اور پنجابیوں نے مسائل کے باوجود اپنا نسلی تشخص بھی برقرار رکھا۔
مہاجرین کا تیسرا ریلا اندرون سندھ سے آیا جب وفاقی دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہوا تو انتظامی اورسیاسی ناتے کی بنیاد پر کراچی کا الحاق سندھ سے تھا۔ سندھی قوم پرست رہنما ممتاز بھٹو کی جانب سے کوٹہ سسٹم کی بنیاد پر روز گار، سرکاری زبان کے طور پر سندھی کا ابھرنا اور سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی کا عروج کچھ ایسے عوامل تھے کہ جس سے درمیانی طبقے کے سندھی کسانوں اور مزارعوں کو ''بڑے شہر'' میں پرکشش عہدوں پر متمکن ہونے کی ترغیب ملی۔
ہجرت کا چوتھا مرحلہ اس وقت شروع ہوا جب روس نے 1979ء میں افغانستان میں مداخلت کی افغانستان سے سیاسی پناہ گزینوں کا ریلا آیا یہ لوگ اقتصادی لحاظ سے کراچی میں اقتصادی مواقع کی تلاش میں تھے حالانکہ قانونی طور پر اقوام متحدہ کے بلوچستان اور صوبہ سرحد کے کیمپوں سے انہیں باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ علاوہ ازیں عراق (کُرد)، ایران (بہائی) سری لنکا (تامل) اور اقتصادی مہاجرین کی رجسٹرڈ تعداد 1.5 ملین سے تجاویز کر گئی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی زیر زمین جرائم پیشہ افراد اور دوسری غیر قانونی سرگرمیوں مثلاً ہیروئن وغیرہ کی اسمگلنگ اور انسانی اسمگلنگ جیسی کارروائیوں کا مرکز بن گیا۔
2 سیاسی تشّدد
سیاسی تشدّد نے 2008ء میں بھی امن و امان کو تہہ و بالا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس سال کراچی میں سے 66 حادثات اور اندرون سندھ میں 4 واقعات نوٹ کیے گئے جو کہ باقی صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ تعداد میں رہی (میزانیہ ملاحظہ کریں) ان 66 مذہبی گروہی اور سیاسی واقعات میں 143 افراد قتل ہوئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 333 رہی۔
کراچی میں سیاسی جھگڑوں کے واقعات زیادہ تر سنی تحریک (ST) اور متحدہ قومی موومنٹ (MQM) کے درمیان ہوئے۔ جماعت اسلامی (JI)، عوامی نیشنل پارٹی (ANP) اور پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) بھی سیاسی اور نسلی جھگڑوں کا حصہ بنے کئی جرائم پیشہ گروہ جنہیں سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی ان واقعات میں ملوث پائے گئے۔
3 سیاسی و نسلی تنازعات
کراچی شہر میں سیاسی نسلی اور گروہی اختلافات کی بڑی وجہ سماجی بد امنی ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ سندھی اور مہاجر کے درمیان نسلی فسادات تو اسی روز سے شروع ہو گئے تھے جب انڈیا سے مہاجرین کا پہلا ریلا ہجرت کر کے پاکستان آیا تھا۔ کیونکہ مہاجرین کا بسانا، ہندو وقف املاک کی تقسیم، مسلم لیگیوں کے لیے مراعات یافتہ آسامیوں کا حصول وجہ نزاع بنا۔ وقف پارٹی کی تقسیم تمام مسلم لیگ کو تفویض ہوا تھا جو کہ پاکستان کی اصل ریاست سے ابھری تھی۔
برصغیر کی تقسیم نے سندھ کے سماجی و سیاسی دھارے کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا۔ ہندو جو کہ سندھی معاشرے کا درمیانی اور شہری طبقہ شمار ہوتے تھے۔ وہ 1947ء میں ہندوستان ہجرت کر گئے اور ان کے پیچھے خلا پیدا ہو گیا۔ مزارع اور جاگیردار پیچھے رہے جنہیں سندھی معاشرے کو ترتیب دینا تھا۔
اس وقت مسائل سر اٹھانے لگے جب اکلوتی پارٹی میں سندھی وڈیروں اور مہاجر اکابرین یا خاص طور پر مذہبی لیڈروں اور دانشوروں میں نسلی بنیادوں پر اختلافات نے جنم لیا آزادی کے پہلے سالوں میں کراچی میں مہاجرین نے مسلم لیگ کا ساتھ دیا تاہم حیدر آباد میں کسی متوازی تنظیم کے متعلق سنجیدگی سے غور و خوص شروع ہو گیا۔ حیدر آباد میں سب سے پہلی مہاجر تنظیم کی داغ بیل ایک اندھے حافظ قرآن مبارک علی شاہ نے رکھی جو کہ جے پور سے ہجرت کر کے آیا تھا۔ ''جمعیت المہاجرین'' نے سندھ کی سیاست میں عمل دخل جاری رکھا یہی وجہ تھی کہ سندھ کے پہلے وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو نے 1954ء میں اس گروپ کی سرگرمیوں پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اورنسلی سماجی اور سیاسی بنیاد پر قائم مہاجر تنظیم کو پرانے سندھیوں کے جذبات ابھارنے پر معمول کیا۔
کراچی کے مہاجرین اکثریتی علاقوں اور حیدر آباد میں پکہ قلعہ اور لطیف آباد کے اطراف میں نسلی پیغام کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا اور 1970ء کی دہائی میں یونیورسٹیوں میں مہاجر قومیت کے پلیٹ فارم وجود میں آنے لگے۔
1972ء میں سندھی کو دفتری زبان اور صوبے کے اسکول کالجوں میں لازمی مضمون قرار دینے پرسیاسی مسائل نے جنم لیا۔ مہاجرین نے احتجاجی ریلیاں نکالیں اور سڑکوں پر نکل آئے دو سال بعد کراچی یونیورسٹی میں سمسٹر سسٹم کا اجرا ہوا۔ 27 طلبا جو کہ داخلے سے محروم رہ گئے تھے انہوں نے ''انٹرمیڈیٹ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی'' بنائی جس نے درمیانی مدت میں داخلے کا مطالبہ کیا۔ الطاف حسین اس کا صدر تھا یوں وائس چانسلر کے مستعفی ہونے پر طلبا کو داخلہ مل گیا۔
یوں 1978ء میں مہاجر طلباء نے آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (APMSO) کی بنیاد رکھی۔ ایکشن کمیٹی کی کامیابی نے اس تنظیم کی پر داخت میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ تاہم وسیم (1996) کی رائے میں APMSO کے وجود میں آنے کی اہم وجہ پاکستان نیشنل الائنس (PNA) کے لیڈروں کی وعدہ خلافیاں بنیں جنہوں نے کوٹہ سسٹم کو ختم کرنے اور مہاجرین کے خلاف ظلم و تشدد بند کرانے کی یقین دہائی کرائی تھی۔ نسلی جواز کے حوالے سے کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر مونس احمر رقم طراز ہیں:
''ضیا الحق کے دور میں مہاجرین کی شناخت کے معاملے پر شدت سے اضافہ ہوا اوریہ اپنے آپ کو نسلی طور پر منوانے کے لیے وقت کا اہم تقاضا تھا مذکورہ عہد میں ان کا احساس محرومی انتہائی حدوں کو چھو رہا تھا۔ چنانچہ 1980ء کی دہائی کے وسط میں وہ وقت آ گیا تھا جب ایک پارٹی اور ایک لیڈر کی قیادت میں اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے ''مہاجر قومیت'' کو مضبوط کیا جا سکتا تھا۔ 1978ء میں بننے والی آل پاکستان مہاجر اسٹوڈنٹ آرگنائزیشن (APMSO) نے نوجوان مہاجرین کو اپنے حقوق کی خاطر متحرک کر دیا۔ MQM کا وجود مارچ 1985ء میں عمل میں آیا اور یہ عین اس وقت ہوا جب جنرل ضیاء الحق کے اس فیصلے کو، جس میں دیہاتی شہری کوٹہ سسٹم کو مزید 10 سال کے لیے بڑھا دیاگیا تھا، محض چھ دن ہی گزرے تھے۔ اگست 1986ء میں کراچی میں الطاف حسین نے ایک عوامی اجلاس میں عہد کیا کہ ان کی جدوجہد مہاجر قومیت کوحقوق حاصل ہونے تک جاری رکھی جائے گی۔''
کراچی کی متغیر تاریخ کے حوالے سے نسلی فسادات ایک اہم موڑ ثابت ہوئے۔ کچھ لوگ اس خیال کی مخالفت کرتے ہیں کہ شہری زندگی پر آبادی کے دبائو اور منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے ایسا ہونا ایک قدرتی امر تھا۔ تاہم جب مختلف نسلی گروہ ایک تنگ ماحول میں رہنے پر مجبور ہوں اور انہیں اپنا وجود برقرار رکھنے کی ضرورت بھی ہو تو تشدد آمیز نتائج کا ابر آمد ہونا عین فطری ردعمل ہے۔ MQM اردو بولنے والے مہاجرین پر مشتمل تھی۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ اور تعمیراتی شعبوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے پشتونوں کے خلاف میدان میں کود پڑے۔ پختون اور اردوبولنے والوں میں سب سے پہلے لسانی فساد 1965ء کے انتخابات کے بعد ہوئے تھے۔ پھر اس کے سات سال کے عرصے کے بعد 1972ء میں کراچی اور حیدرآباد کے مہاجرین کے سندھیوں کے ساتھ جھگڑے ہوئے۔ اپریل 1985ء اور 1986ء میں اکتوبر سے دسمبر تک جب پختونوں نے بہاریوں پر اورنگی اور لیاقت آباد میں حملے کیے تو جواباً MQM نے بھی اپنے دفاع میں جوابی کارروائیاں کیں۔
دو سال بعد ستمبر 1988ء اور پھر مئی 1990ء میں دوبارہ مہاجر سندھی فساد پھوٹ پڑے۔ ستمبر 1988ء کے بدقسمت جمعہ کے روز کراچی اور حیدر آباد میں 200 افراد قتل ہوئے۔ MQM اور سندھی قوم پرستوں نے ایک دوسرے کے مضبوط گڑھ پر بھرپور حملے کیے اور یہ اس وقت ہوا جب مرکزی حیدر چوک کا دوسرا نام رکھنے کی کوشش کی گئی اور پوسٹر تبدیل کیے گئے۔ حیدر آباد کے لوگ 1990ء کی دہائی کے آخری پانچ سالوں کو ''جنگ کے سال'' کے طور پر یاد کرتے ہیں۔
اسی دوران مہاجر قومی موومنٹ (حقیقی) کے نام سے ایک نئی تنظیم MQM کے اندر سے ہی معرضِ وجود میں آئی اور ان دونوں کے درمیان پرتشدد واقعات دیکھنے میں آئے۔ اندرونی خلفشار سے شروع ہونے والے یہ فسادات 12 مئی 2007ء کے بدقسمت دن ختم ہوئے جس میں مہاجرین، پختون اور PPP کے سرگرم کارکنوں سمیت 48 افراد کی جانیں ضائع ہوئیں۔
2008ء کے عام انتخابات میں عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے سندھ اسمبلی کی دو سیٹیں جیتنے پر MQM کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی۔
4 مذہبی، گروہی اور عسکری تنازعات
کراچی میں درجنوں کی تعداد میں مذہبی گروہ اور عسکری تنظیمیں موجود ہیں لیکن ان میں سے چند ہی عسکری حوالے سے فعال ہیں۔ ان میں لشکرِ جھنگوی، جیشِ محمد، جماعت الفرقان، حرکت المجاہدین، جنڈولہ، لشکرِ طیبہ اور حرکت الجہاد اسلامی قابلِ ذکر ہیں۔ کئی فرقہ پرست تنظیمیں مثلاً سپاہِ صحابہ پاکستان، تحریکِ جعفریہ پاکستان اور سنی تحریک بھی سیاسی محاذوں پر سرگرم عمل ہیں۔ گروہی اور عسکری تنظیموں کے علاوہ بھی کراچی دیگر کئی اہم مذہبی جماعتوں کے استحکام کے لیے بھرپور مدد فراہم کرتا ہے۔ ان جماعتوں میں جماعت اسلامی، جمعیت العلمائے پاکستان، جمعیت العلمائے اسلام، مرکزی جمعیت اہلحدیث، جمعیت غربائے اہلحدیث، جماعت المسلمین، دعوت اسلامی اور تبلیغی جماعت قابل ذکر ہیں۔ کئی مذہبی خیراتی تنظیموں کے ہیڈ کوارٹر بھی اس شہر میں واقع ہیں، ان میں ممنوعہ الرشید ٹرسٹ، الاختر ٹرسٹ اور الفرقان ٹرسٹ شامل ہیں اس کے علاوہ مذہبی جماعتوں کے مدارس بھی اپنا بھرپور کردار نبھا رہے ہیں نہ صرف ان مذہبی اور فرقہ پرست گروہوں کے عقائد ایک دوسرے سے متصادم ہیں بلکہ یہ نسلی اور سیاسی کھچائو میں بھی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ خصوصاً JI اور سنی تحریک کی MQM کے خلاف سخت سیاسی رقابت ہے۔
5 منظم جرائم
کراچی میں ٹیلی ویژن کے صحافی عبدالستار کہتے ہیں کہ یہاں تقریباً 200 گینگ متحرک ہیں جو جرائم کی منظم کارروائیاں کرتے ہیں ان گروہوں میں دائود ابراہیم گروپ اور لیاری گینگ نے کراچی کے کمزور انتظامی ڈھانچے کا خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے تجارتی حوالے سے بھی اقدامات کیے ہیں۔ تجارتی بنیادوں پر ہونے والی جرائم کی سرگرمیاں عموماً سیاسی پس منظر رکھتی ہیں اور براہِ راست یا بالواسطہ طور پر دہشت گردی سے جڑی ہوتی ہیں۔ ان منظم جرائم نے کراچی کے امن اور سماجی ڈھانچے کے لیے خاصے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔
گارڈن ٹائون کراچی میں واقع اینٹی وایئولینس کرائم سیل کے پولیس سپرنٹنڈنٹ جناب خرم وارث کے بقول یہ گروہ مختلف اقسام کے جرائم میں ملوث ہیں ان کی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ''بھتہ'' ہے۔ قتل و غارت، اغوا برائے تاوان، ڈکیتی، چوری، بھتہ وصولی، جوا، منشیات فروشی، دہشت گردی اور دوسرے جرائم کے مرتکب ان گروہوں کے پیچھے زیر زمین کام کرنے والے بڑے بڑے گروپوں کا ہاتھ ہوتا ہے۔
ان کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ غیر قانونی بھتہ کی شکل میں ہوتا ہے یہ لوگ شکاگو مافیا کے اسٹائل میں کاغذ کی ایک چٹ بھیجتے ہیں جس میں وہ رقم لکھی جاتی ہے جو انہیں درکار ہوتی ہے شادی کی تقریب اور دلہا کو اغوا کاروں سے بچانے کے لیے بھی پیسوں کا تقاضا کیا جاتا ہے۔ ڈرگز کا بہائو بھی انہی کے زور بازو کے ذریعے ممکن ہوتا ہے۔ وہ بچوں اور نوجوانوں کوغیر قانونی خرید و فروخت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یکم دسمبر 2005ء سے 30 نومبر 2006ء تک کراچی میں کم از کم 30,000 چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں نوٹ کی گئیں۔
6 عسکری اور مذہبی گروہ
i۔ جنڈولہ
10 جون 2004ء کو کورکمانڈر کے فوجی کانوائے پر حملے کے تین روز بعد جب سات دہشت گرد پکڑے گئے تو ''جنڈولہ'' نامی تنظیم منظر عام پر آئی۔ ''جنڈولہ'' دہشت گردی کی کئی کارروائیوں میں ملوث پائی گئی جس میں بینک ڈکیتی، اغوا برائے تاوان اور کار چوری کی وارداتیں بھی شامل تھیں۔
جب عطاالرحمن کو 2003ء میں جماعت المسلمین سے نکالا گیا تو اس نے یہ تنظیم بنائی۔ عطاالرحمن کی گرفتاری کے بعد قاسم طوری اس کا منتظم بنا یہ نئی تنظیم اس ایرانی گروپ جنڈولہ سے متاثر تھی جو کہ ایران کے صوبے بلوچستان و سیستان میں سرگرم عمل تھی۔ یہ تنظیم ان نوجوانوں پرمشتمل تھی جو کہ شاہ فیصل کالونی، ماڈل کالونی اور لانڈھی کے علاقوں میں رہتے تھے۔
جنڈولہ نے سب سے پہلی اہم کارروائی کورکمانڈر احسن سلیم حیات پر کراچی میں کی جس میں کئی فوجی مارے گئے۔ بعد ازاں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے عطاالرحمن سمیت کئی کارکنوں کو پکڑ لیا جس سے ان کی کارروائیاں متاثر ہوئیں۔ بعد میں قاسم طوری کو موقع ملا کہ وہ اس گروپ کو منظم کرے۔ اس نے کراچی سے نوجوان لڑکے بھرتی کیے اور انہیں تربیت کیے لیے وانا (WANA) بھیج دیا۔ 2007ء میں جنڈولہ نے کراچی میں اپنی پناہ گاہیں مضبوط کر لیں اور کئی بینک لوٹے۔ ایک کارروائی سعود آباد میں کی گئی جس میں سات پولیس والے ہلاک ہوئے۔ عدالتی فیصلے کے دو سال بعد پولیس نے شاہ لطیف قصبے پر چھاپہ مار کارروائی کی بھاری گولیوں کے تبادلے کے بعد بالآخر پولیس قاسم طوری، طیب داد اور طلحہ کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو گئی جب کہ جنید اور عبداللہ مارے گئے۔
مکمل عسکری تنظیم ہونے کی وجہ سے جنڈولہ کے اصل مقاصد میں امریکی اور برطانوی مفادات اور تنصیبات کو نقصان پہنچانا شامل تھا۔ عطاالرحمن نے تحقیقات کرنے والوں کو بتایا کہ اس کا گروپ ان حکومتی کوششوں کے خلاف سرگرم ہے جو کہ القاعدہ کو شمالی مغربی سرحد سے ہٹانے کے لیے انجام دی جا رہی ہیں۔ ان میں سے کچھ افراد کی وفاداریاں جماعتِ اسلامی اورجمعیت المسلمین سے وابستہ رہی تھیں مگر یہ جماعتیں ان سے پہلے ہی لاتعلقی کا اظہار کر چکی تھیں۔
جنڈولہ نے کراچی میں نوجوانوں اور مذہبی مکتبوں سے طلباء کو بھرتی کیا اس تنظیم کو کسی مذہبی جماعت کی حمایت حاصل نہیں تھی صرف القاعدہ اور طالبان ان کی پشت پناہی کرتے تھے۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس وسیم قریشی جو کہ جنڈولہ کے گرفتار ارکان کے خلاف تحقیقاتی ٹیم میں شامل تھے نے اعتراف کیا کہ دہشت گرد تنظیمیں عمومی طور پر روایتی دائو پیچ استعمال کرتی ہیں لیکن جنڈولہ کے کیس نے ہمیں ہر مرتبہ نئے چکمے دیے۔
ii۔ لشکر جھنگوی
کراچی میں لشکرِ جھنگوی کے چھ گروپ سرگرمِ عمل ہیں جن میں قاری ظفر، قاری شکیل، فاروق بنگالی اور اکرم لاہوری گروہ شامل ہیں۔ قاری ظفر گروپ القاعدہ سے تعلقات کی بنا پر زیادہ مضبوط خیال کیا جاتا ہے۔ یہ کراچی میں کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کا نشانہ مغربی مفادات اور شیعہ حضرات ہیں۔
محمد ظفر الیاس، قاری ظفر جن کا ملت کالونی اور اورنگی ٹائون کراچی سے تعلق ہے ان کے القاعدہ اور طالبان سے رابطے قائم ہیں۔ یہ لوگ جنوبی پنجاب کے رہنے والے ہیں اورحالیہ دنوں میں قبائلی علاقوں اور فاٹا میں روپوش ہیں۔ قاری ظفر پاکستان میںکئی خودکش حملوں میں شامل رہا ہے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے اسے امریکی سفارت کاروں کے قتل میں ملوث ہونے پر سزا سنائی ہے۔ وہ 1990ء کی دہائی میں طالبان کے ساتھ افغانستان کی جنگ میں شامل رہا ہے اورکہا جاتا ہے کہ وہیں القاعدہ سے اس کے تعلقات قائم ہوئے۔ طالبان حکومت کے انحطاط کے بعد ظفر نے جنوبی وزیرستان میں پناہ لے لی اور کبھی کبھی صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں میں کارروائیاں کرتا رہا۔
چوٹی کے کمانڈروں کی گرفتاری یا مارے جانے کے بعد قاری ظفر نے اپنا علیحدہ گروپ ترتیب دیا اس نے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے کراچی میں جرائم کی کارروائیوں کو تیز کیا۔ اس گروپ کی سرگرمیاں اس وقت متاثر ہوئیں جب 16 فروری 2007ء کو اس کے تین بڑے عسکریت پسند شاہد، فرحان اور غنی سبحان گرفتار کر لیے گئے۔ شاہد کا تعلق حیدر آباد کے اونچے طبقے کی کلاس اور لطیف آباد سے تھا اور وہ ایک مرتبہ لاہور میں چوری کرتے ہوئے پکڑا جا چکا تھا۔ حیدرآباد کے ایک مقامی جہادی قاری اکبر نے شاہد کو ایک شیعہ گھرانے میں چوری کرنے کا کام تقویض کیا۔ فرحان (الیاس ناصر) بھی حیدرآباد کا رہنے والا تھا اس نے بھی ایک مقامی جہادی مشتاق کے ساتھ مل کر کام کا آغاز کیا۔ ایک تحقیقاتی پولیس ٹیم کو فرحان نے آگاہ کیا کہ اس نے 60 کلوگرام بال بیرنگ خرید کر وانا میں قاری ظفر کے حوالے کیے۔ پولیس ذرائع کے مطابق تیسرا مشکوک فرد غنی سبحان 2001ء میں کابل گیا جہاں وہ طالبان کے ساتھ جہاد میں شامل رہا اور پھر زخمی بھی ہوا۔ اس دوران اسے کئی سینیر طالبان رہنمائوں سے ملنے کا اتفاق ہوا وہ القاعدہ کے نیک محمد سے بھی ملتا رہا اور اس کے مرنے کے بعد غنی کے وزیرستان میں فقیر محمد سے بھی قریبی تعلقات قائم رہے۔
گروپ کے ممبران پاکستان میں خود کش حملوں میں ملوث رہے اور اس کے علاوہ دیگر جرائم مثلاً ڈکیتی، کار چوری، بینکوں کی لوٹ مار اور قتل و غارت بھی کرتے رہے۔ قاضی ظفر گروپ کے ایک ممبر انوارالحق کو موت کی سزا ہوئی وہ کراچی میں امریکی قونصلیٹ کے خود کش حملے میں مطلوب تھا۔ قاری ظفر گروپ کے بہت سے ممبران طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان میں لڑ چکے تھے اس کے علاوہ انہوں نے جیش محمد اور حرکت المجاہدین کے ساتھ کشمیر کے جہاد میں بھی حصہ لیا تھا۔
قاضی ظفر پر پاکستان میں بم حملوں میں ملوث القاعدہ کو افرادی قوت مہیا کرنے کا الزام بھی ہے۔ اس گروپ نے خفیہ ایجنسیوں کے ان دو افسران کو بھی قتل کیا جنہوں نے قاضی ظفر کے بھائی انور کو گرفتار کیا۔ وہ القاعدہ کے کئی جرائم میں بھی مطلوب تھا۔ قاضی ظفر ابھی تک فرار ہے اس کا گروہ اب بھی کراچی میں فعال ہے۔ القاعدہ سے تعلقات اور فاٹا میں ہیڈکوارٹر ہونے کی وجہ سے اس گروپ کی کارروائیاں شدومد سے جاری و ساری ہیں۔
iii۔ حرکت الجہاد الاسلامی (HUJI) اراکان
ہم کراچی میں اراکان کے برمی مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد دیکھ سکتے ہیں۔ کورنگی کا علاقہ برمی ٹائون کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور اسے ''چھوٹا اراکان'' بھی کہتے ہیں۔ 130 ارکانی مدارس یہاں پر کام کر رہے ہیں۔ ان مدارس کے استادوں اور طلباء کی کوششوں سے کراچی میں حرکت الجہادالاسلامی اراکان کی پاکستانی شاخ بھی قائم کی گئی ہے۔
مدرسہ اسلامیہ ا ورنگی ٹائون کے مہتم مولانا احمد حسین حرکت الجہادالاسلامی کے پاکستان کے سرپرست ہیں۔ اس کے مرکزی امیر مولانا عبدالقدوس ہیں جو کہ پاکستان میں بھی موجود ہیں اور نائب امیر مولانا رئوف عالم وفا ہیں۔ اس ادارے کے مندرجہ ذیل شعبے پاکستان میں موجود ہیں:
عسکری شعبہ سیکرٹری مولانا عبدالقدوس
نشر و اشاعت مولانا صادق ارکانی
محکمہ انتظام و تعلقات مابین بنگلہ دیش و برما
اس تنظیم کے حرکت الاسلامی عالمی سے بھی تعلقات ہیں۔ یہ ارکانی مجاہدین یقینا اپنی تربیت کوٹلی میں موجود HUJI کے پاکستانی کیمپ سے حاصل کرتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر یہ گلہ کرتے نظر آتے ہیں کہ HUJI کے پاکستانی ممبران ان سے بھرپور تعاون نہیں کرتے۔ کراچی میں موجود ان کے 48 مدارس میں سے 30 مدارس برمی کالونی میں واقع ہیں۔ یہ مدارس جہاد کے لیے بھی تربیت دیے ہیں۔ بنگلہ دیش اور برما سے تعلق رکھنے والے کراچی کے یہ HUJI عسکریت پسند فرقہ وارانہ دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔
iv۔ حرکت المجاہدین العالمی (HUMA)
حرکت المجاہدین العالمی درحقیقت حرکت المجاہدین ہی ہے۔ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کا قیام 2002ء میں آخرالذکر سے اختلافات کے بعد علیحدگی پر ہوا۔ حرکت المجاہدین کا افغان اور کشمیر کے جہاد میں کافی عرصہ تک عمل دخل رہا۔ HUMA بنیادی طور پر کراچی کی جماعت ہے۔
پاکستان میں موجود جہادی عسکریت پسند اپنی کارروائیاں شروع کرنے سے پہلے اکثر اپنے نام تبدیل کرتے رہتے ہیں۔ یہ جہادی گروپ اپنے لیڈروں کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں تقسیم ہونے کے بعد نئے ناموں سے کام شروع کرتے ہیں۔ حکومت کے مختلف جہادی تنظیموں پر پابندی عائد کرنے کے بعد ''حرکت المجاہدین العالمی'' وجود میں آئی۔ آصف ظہیر جس نے القاعدہ کے افغانستان کیمپ کے بم اور کیمیائی ہتھیار بنانے کی ٹریننگ حاصل کی ہوئی تھی۔ اس کا بانی ہے۔ اس کا تعلق بنوری مسجد سے تھا۔ وہ حرکتِ جہاد اسلامی کے قاری سیف اللہ اختر سے بہت متاثر تھا اور اس نے تقریباً نصف درجن کے قریب دیوبندی گروپوں کے لیے بم بھی بنائے۔ آصف ظہیر کو فرانسیسی انجینئروں کے قتل کی منصوبہ بندی کرنے پر سزائے موت دی گئی۔ اس تنظیم نے 2003ء میں کراچی کے اندر شیل کمپنی کے 21 پٹرول اسٹیشنوں کو اڑایا۔
اس کے زیادہ تر قائدین آج کل قانون کی گرفت میں ہیں جبکہ محمد عمران جو کہ اس جماعت کا امیر ہے اور محمد حنیف جوکہ نائب امیر ہے اور عسکری شعبہ کا سربراہ بھی ہے اس تنظیم کو چلاتے رہے ہیں۔ بعد ازاں 7 جولائی 2007ء کو یہ دونوں صدر مشرف پر قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کر لیے گئے۔ 14اپریل 2007ء کو کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے انہیں سزائے موت سنا دی۔
مارچ 2004ء میں حرکت المجاہدین کے 9 نمائندوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ عسکریت پسند مقدونیہ کی گورنمنٹ سے ان آٹھ پاکستانیوں کا بدلہ لینا چاہتے تھے جنہیں مقدونیہ کی سرحد پر القاعدہ کے ارکان کے شعبہ میں مارچ 2002ء میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اگست 2005ء میں انسدادِ دہشت گردی کی کراچی عدالت نے انہیں 60 سال قید کی سزا سنائی۔ اس تنظیم میں وسیع پیمانے پر حملہ کرنے کی صلاحیت موجود تھی۔ بہرحال اس تنظیم کے قائدین کی گرفتاری کے بعد اس تنظیم کی دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے۔ یہ تنظیم پولیس کانسٹیبل کے قتل،مقدونیہ کے قونصلیٹ میں دھماکے، ٹارگٹ کلنگ اور ڈکیتیوں میں ملوث پائی گئی تھی۔ اس گروپ نے پیر آباد کراچی میں واقع آغا خان فیلٹس میں دھماکہ کروایا، شیرٹین ہوٹل کراچی میں خود کش حملہ کروایا، جس میں 11 فرانسیسی انجینئر مارے گئے اور امریکی قونصلیٹ کے باہر خود کش حملہ کروایا جس میں 12 پاکستانی بھی مارے گئے تھے۔
v۔ تحریک اسلامی لشکری محمدی (TILM)
تحریک اسلامی لشکر محمدی (TILM) ایک اور سفاک دہشت گرد گروپ ہے جو کہ کئی کالعدم عسکری تنظیموں کے سابق ممبران پر مشتمل ہے۔ یہ تنظیم غیر مسلموں اور غیر ملکی تنظیموں کو نشانہ بناتی ہے۔
TILM دراصل کالعدم جیش محمد اورحرکت المجاہدین کے ممبران نے لال مسجد کے ملٹری آپریشن 2007ء کے بعد بنائی۔ اس گروپ کے ارکان جو کہ افغان جہاد میں بھی شریک رہے ایک نیا گروپ جیش اور دیگر گروپوں کے اختلاف کے بعد تشکیل دیا۔ ان کا اولین مقصد ان سیاست دانوں کو قتل کرنا تھا جنہیں وہ غیر مسلم تصور کرتے تھے اور جنہوں نے لعل مسجد اور جامعہ حفصہ کے ملٹری آپریشن کی حمایت کی تھی۔
اگرچہ اس گروپ کے اکثر ارکان ابھی تک آزاد ہیں۔ پھر بھی کافی سارے شدت پسند گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ اس کا تنظیمی ڈھانچہ ابھی تک معلوم نہیں کیا جا سکا ہے لیکن یہ کہا جاتا ہے کہ TILM کے دو گروپ ہیں اور ایک گروپ کے ارکان جو کہ مبینہ طور پر 26 فروری 2008ء کو ایک عیسائی NGO کے آٹھ ارکان کے قتل میں ملوث تھے گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
ٹارگٹ کلنگ، بم بلاسٹ، اغوا، ڈکیتی اور دھماکہ خیز مواد کا استعمال TILM کے بنیادی طریقہ کار ہیں۔ اپنے مقاصد کے لیے یہ گروپ جدید اسلحہ استعمال کرتا ہے۔ پولیس نے گرفتار شدہ شدت پسندوں کے قبضے سے بارود، برقیاتی سازو سامان، سی ڈیز اور معروف شخصیات جن میں سیاست دان، ملکی اور غیر ملکی NGO کے نمائندے اور اعلیٰ پولیس افسران کی ہٹ لسٹ بھی پکڑی ہے۔
یہ گروپ پولیس سے چھینا گیا اسلحہ سوات سے سمگل کرتا ہے اور کورنگی انڈسٹریل ایریا میں ایک لیبارٹری بھی چلا رہا تھا جہاں مختلف اشیاء کے استعمال سے زہریلے کیمیائی مادے ا ور بم بنائے جاتے تھے۔ اس لیبارٹری کو جدید ریموٹ کنٹرول اور ٹائم بم، بوبی ٹریپ اور زہریلے کیمیائی مادے بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ گروپ کے ارکان نے بڑے بڑے گودام کرایے پر حاصل کر رکھے تھے۔ جہاں اغوا شدہ بندوں کو رکھا جاتا اور حکومت کو مجبور کیا جاتا کہ ان کے گرفتار شدہ ارکان کے بدلے میں ان کو چھوڑا جائے۔ انھوں نے لیاقت حسین (VP نیشنل بنک) دادا فیروز مرزا اور ڈاکٹر حمیداللہ کو اغوا کیا تھا، انھوں نے ان پر تشدد کیا اوران سے روٹری کلب، لائنز کلب اور تھیوصوفیکل سوسائٹی کے ممبران کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ ان افراد سے حاصل شدہ معلومات کے بعد ان اداروں کے بہت سارے ممبران کو قتل کر دیا گیا۔ یہ گروپ جدید اسلحہ سے لیس تھا اس لیے یہ وسیع پیمانے پر حملے کرنے کی صلاحیت کا حامل تھا۔ کراچی میں کام کرنے والی NGOs کو مسلسل اس گروپ کی طرف سے دھمکیاں ملتی رہتی تھیں۔
vi۔ (SSP) سپاہِ صحابہ پاکستان
سپاہ صحابہ پاکستان دیوبندی فرقہ سے تعلق رکھنے والی سب سے بڑی تنظیم تھی جس پر حکومت نے 12 جنوری 2002ء کو پابندی عائد کر دی تھی۔ لیکن یہ تنظیم مختلف ناموں کے ساتھ کام کرتی رہی ہے۔ سب سے پہلے اس نے اپنا نام ''ملت اسلامیہ'' کے نام سے تبدیل کیا یہ بھی 16 نومبر 2003ء کو کالعدم قرار دے دی گئی۔ یہ تنظیم اب اہل سنت و الجماعت پاکستان کے نام سے کام کر رہی ہے۔ لیکن اس کے ارکان (شدت پسند) اب بھی سپاہ صحابہ پاکستان کا نام استعمال کرتے ہیں۔ شہر کی دیواریں حقیقتِ حال بیان کرتی نظر آتی ہیں۔
6ستمبرSSP،1985ء کو پنجاب کے شہر جھنگ میں قائم کی گئی۔ مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی، مولانا ایثار الحق قاسمی اور مولانا اعظم طارق سپاہ صحابہ کے حقیقی بانی تھے۔ اس کے قیام کے موقع پر اس کو انجمن سپاہ صحابہ کا نام دیا گیا اور مولانا حق نواز جھنگوی کو اس کا سپریم کمانڈر بنایا گیا۔ حق نواز جھنگوی کو 1990ء میں جھنگ میں قتل کردیا گیا۔ حق نواز جھنگوی کے قتل سے اس گروپ کو تقویت ملی اور مولانا ایثار الحق قاسمی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ وہ بھی 1991ء کو قتل کر دیے گئے اور مولانا ضیاء الرحمن فاروقی نے قیادت سنبھال لی۔ 18 جنوری 1997ء کو مولانا ضیاء الرحمن فاروقی سپاہ صحابہ کے کچھ دیگر راہنمائوں کے ساتھ کاربم دھماکے میں مارے گئے۔ تب مولانا اعظم طارق نے امیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سنبھالیں اور SSP کو ایک اعتدال پسند مذہبی جماعت کی حیثیت سے روشناس کروانے کی کوشش کی اور دیوبندی جماعتوں کی ہمدردی حاصل کی۔ وہ اس سے پیشتر بھی تین دفعہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہو چکے تھے۔ سپاہ صحابہ کے لیڈروں کے قتل کا سلسلہ جاری رہا۔ مولانا اعظم طارق کو بھی 4 اکتوبر 2003ء کو اسلام آباد میں گولی مار دی گئی۔ اس کے بعد مولانا محمد احمد لدھیانوی نے اعظم طارق کے بعد قیادت سنبھالی۔
مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا عبدالغفور ندیم، مولانا علی شیر حیدری، خلیفہ عبدالقیوم، خادم حسین ڈھلوں اور مولانا عالم طارق اس جماعت کے نمایاں راہ نما ہیں۔ مولانا اورنگزیب فاروقی جو کہ سندھ شاخ کے لیڈر ہیں اور الیاس زبیر کراچی شاخ کے راہنما ہیں۔
سپاہ صحابہ کے مندرجہ ذیل نمایاں مقاصد ہیں:
(1 پاکستان کومکمل طور پر ایک سنی مملکت بنانا
(2 نظام خلافت کا دوبارہ نفاذ (خلافت راشدہ)
(3 پاکستان میں سنیوں کا دفاع اور شرعی قوانین کا نفاذ
(4 شیعوں پرحملہ کرنا کیونکہ یہ غیر مسلم تصور کیے جاتے ہیں۔
SSP، شیعہ تنظیم ''تحریکِ نفاذ فقہ جعفریہ'' کے ردعمل میں تشکیل دی گئی جس کا قیام 1979ء میں ہوا تھا۔ شروع میں اس کا مقصد شیعہ مسلک کے لوگوں کو عسکری کارروائیوں کے ذریعہ نقصان پہنچانا تھا۔ بہرحال قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں داخلے کے بعد انہوں نے شدت پسند عناصر کو اپنی جماعت سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی۔ اگرچہ SSP یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ان کی مذہبی سیاسی اساس ہے، مگر یہ اپنے فرقہ پرستانہ عزائم پر بھی قائم ہے۔ اس کے ممبران جو کہ وقفے وقفے سے SSP سے علیحدہ ہوئے انھوں نے مختلف تنظیمیں بنا لیں۔ لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ کا عسکری بازو تصور کیا جاتا تھا۔ دونوں دھڑوں کے مشترکہ عزئم ہیں۔
پاکستان کے بیشتر تجزیہ نگاروں کو یقین ہے کہ SSP اور LeJ میں 1996ء میں جو علیحدگی ہوئی وہ محض SSP کو اپنی سیاسی سرگرمیوں پر فرقہ واریت کے دفاع کے لیے توجہ مرکوز کرنے کا موقع فراہم کرنے کی ایک چال تھی۔ جنوری 2009ء میں سی آئی ڈی، کے محکمہ نے سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والے انتہائی مطلوب افراد کے ناموں پر مشتمل ایک فہرست "Red Book" شائع کی جس کی رو سے SSP کا پورے ملک میں ایک مضبوط جال ہے۔ ان کو پورے ملک خصوصاً کراچی کے دیوبندی مدارس کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
2008ء میں سپاہ صحابہ نے ڈنمارک کے اخبارات کے توہین آمیز خاکوں کے خلاف احتجاج کے ذریعے دوبارہ اپنی کارروائیاں شروع کیں اور ڈنمارک اور مغرب کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ یہ احتجاج ان کے مرکز واقع مسجد صدیق اکبر، ناگن چورنگی کراچی میں منعقد کیا گیا۔ یہ 2001ء میں SSP پر پابندی کے بعد کوئی بڑی عوامی ریلی تھی۔
اخباری اطلاعات کے مطابق، کالعدم فرقہ پرست جماعت SSP نے صوبہ سندھ میں دوبارہ اپنی کارروائیاں شروع کر دی ہیں خصوصاً کراچی شہر میں اور یہ روز بروز قوت حاصل کرتی جا رہی ہے۔
SSP نے 2009ء کے اوائل میں تین بڑے بڑے عوامی اجتماعات منعقد کیے۔ کراچی میں خدا کی بستی کے اجتماع میں انھوں نے نمایاں افرادی قوت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے محمود آباد اورخدا کی بستی سمیت شہر کے دیگر مقامات پر بھی اپنے دفاتر دوبارہ قائم کر لیے ہیں۔ مولانا عبدالغفور ندیم مرکزی سیکرٹری اطلاعات SSP اور ASWJP نے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ انھوں نے SSP پر پابندی کی وجہ سے ASWJP کے نام سے کام شروع کر دیا ہے۔ اس کے راہ نمائوں کو 2003-04 میں رہا کردیا گیا تھا اور انھوں نے ASWJP کے تحت کام شروع کر دیا ہے۔
یہ تنظیم بننے کے بعد کراچی میں فرقہ وارانہ فسادات میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے زیادہ تر ارکان بشمول دو قانونی مشیروں مظہر حسین انصاری (15 اپریل 2009ئ) اور حافظ احمد بخش (30 جون 2009ئ) کومخالف جماعت نے قتل کرا دیا ہے۔
vii۔ سنی تحریک (S.T)
سُنّی تحریک (S.T) حنفی اسلام کی ایک بریلوی سوچ کی حامل فرقہ وارانہ جماعت ہے۔ حکومت نے اس پر 12 جنوری 2002ء سے نظر رکھی ہوئی ہے۔ محمد سلیم قادری نے 1990ء میں سنی تحریک کی بنیاد رکھی۔ اس کا تعلق سعید آباد، کراچی سے تھا۔ میٹرک کرنے کے بعد اس نے رکشہ چلانے کی مزدوری شروع کی۔ دعوت اسلامی کے 1980ء کے قیام پر یہ اس کی سعید آباد شاخ کا لیڈر تھا۔ اس کے بعد اس کا عروج شروع ہوا۔اس کی شعلہ بیانی نے اس کے لیے دعوت اسلامی اور جمعیت علماء پاکستان میں اس کا مقام بنایا۔ 1980ء کے الیکشن میں جمعیت علماء اسلام نے اسے PA.75 سے سندھ اسمبلی کا امیدوار نامزد کیا مگر اسے شکست ہوئی۔ الیکشن کے بعد سلیم قادری نے ٹیکسی چلانا چھوڑ دی اور کپڑے اور مرغبانی کا کام شروع کر دیا۔ 1990ء میںاس نے دعوت اسلامی کو چھوڑ کر سنی تحریک قائم کی۔
سلیم قادری کے قتل کے بعد سنی تحریک بجائے کمزور ہونے کے مزید طاقتور ہوئی۔ اس نے ملک کے 14 اضلاع میں اپنا جال بچھایا۔ مگر کراچی اس کا مرکز نگاہ رہا۔ اس کی تمام لیڈر شپ کے قتل کے بعد ایک چھ رکنی کمیٹی جس میں شاہد غوری، انجینئر عبدالرحمان، قاری خلیل الرحمان، شہزاد منیر، ثروت اعجاز اور خالد ضیاء شامل ہیں تشکیل دی گئی۔ اس کا مرکزی دفتر بابائے اردو روڈ پر واقع ایک وسیع عمارت میں واقع ہے۔ اس عمارت میں اس کے مرکزی امیر اور دیگر عہدے داران کے دفاتر ہیں۔ یہ اہل سنت خدمت کمیٹی کا دفتر بھی ہے، جو کہ کراچی، حیدرآباد وغیرہ میں مدارس اور مساجد تعمیر کرنے میں مصروف ہے۔ اس کمیٹی نے سعید آباد، کراچی میں 2000 مربع گز پر مشتمل ایک ہسپتال بھی تعمیر کیا ہے۔ اس کمیٹی کے زیر سایہ بہت سارے شعبے مثلاً ایمبولینس سنٹر، کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ ، امداد برائے طلبائ، جہیز فنڈ اور خوراک کی تقسیم کے پروگرام چل رہے ہیں۔
سنی تحریک، اہلحدیث اور دیوبندی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے ردعمل میں وجود میں آئی ہے اس کو جماعت اہل سنت، جمعیت نوجوانانِ اسلام اور جمعیت علماء پاکستان کی حمایت حاصل رہی ہے۔ سنی تحریک دراصل برکاتی فائونڈیشن نے اہل سنت کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم کی۔ سنی تحریک نے اپنے آپ کو غیر سیاسی جماعت ظاہر کیا اور چار نکاتی پروگرام پر توجہ مرکوز کی۔
(1 اہل سنت کے حقوق کا تحفظ
(2 اہل سنت کی مساجد کا دفاع
(3 عام آدمی کو جھوٹے عقائد سے بچانا۔
(4 انتظامیہ سے اہل سنت کی مساجد اور مزارات کا قبضہ اہل سنت کو دلوانا۔
سنی تحریک کو یہ گلہ تھا کہ انتظامیہ، اعلیٰ عہدوں اور گورنمنٹ کے مذہبی اداروں پر اہلحدیث اور دیوبندیوں کی اجارہ داری تھی۔ بریلوی فرقے کی ان اداروں میں نمائندگی برائے نام ہے۔ اس کا خیال تھا کہ سنی اپنے حقوق اس وقت تک حاصل نہیں کر سکتے جب تک وہ وہی طریقہ کار اختیار نہ کرتے جو کہ اہل حدیث اور دیو بندی جماعتوں نے اختیار کیے ہوئے تھے۔
ابتداء سے ہی سنی تحریک نے فرقہ وارانہ جماعت کا انداز اپنایا اور سپاہ صحابہ اور لشکر طیبہ کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اس کی ان گروپوں کے ساتھ کراچی، حیدر آباد، نواب شاہ اور ساہیوال میں متعدد جھڑپیں ہوئیں اور 1988ء تک اس کے 17 کارکنان مارے گئے۔ سنی تحریک نے اہلحدیث اور دیوبندی مساجد کو خصوصی نشانہ بنایا۔ ان کا نقطہ نگاہ یہ تھا کہ یہ مساجد اہل سنت کی تھیں جن پر دوسرے گروپوں نے قبضہ کر لیا تھا۔
ST نے 18 دسمبر 1992ء کو اپنی طاقت کا پہلا مظاہرہ اس وقت کیا جب اس نے ایم اے جناح روڑ پر ایک ریلی کا انعقاد کیا۔ اس ریلی کا مقصد انتظامیہ پر یہ دبائو ڈالنا تھا کہ وہ مسجد نور (رنچھوڑ لائین) سنیوں کے حوالے کرے۔ جلد ہی یہ ریلی طیش میں آ گئی اور کاروں کو آگ لگا دی گئی۔ درجنوں لوگ زخمی ہوئے۔ سنی تحریک کے 34 کارکناں کو گرفتار کیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد لوگ سنی تحریک کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس قسم کے واقعات کے بعد دیوبندیوں اور اہلحدیث مساجد پر پنجاب اور سندھ میں سنی تحریک کے حملوں میں شدت آ گئی۔
سلیم قادری 18 مئی 2001ء کو دیگر پانچ افراد کے ساتھ مارا گیا۔ کراچی میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے۔ سپاہ صحابہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور اہل حدیث اور دیو بندی مساجد مدارس پرحملے کیے گئے۔ سلیم قادری کے قاتلوں میں سے ایک کو جھڑپ کے دوران موقع پر ہی مار دیا گیا جو کہ بعد میں سپاہ صحابہ کے کارکن کی حیثیت سے پہچان لیا گیا۔
ST کے بہت سارے عناصر کا MQM سے تعلق رہا تھا جو کہ 1990ء کے اوائل میں فوجی آپریشن کے وقت سنی تحریک میں شامل ہو گئے تھے۔ 2002ء میں پابندیوں سے بچنے کے لیے ST نے اپنا انداز بدلا اور سیاسی رنگ اختیار کیا اور 10 اکتوبر 2002ء میں MQM کے حریف کے طور پر سامنے آئی۔
viii۔ طالبان
حالیہ سروے کے مطابق طالبان ،کراچی میں اپنا رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں انٹیلی جینس کے اداروں نے PPP، MQM اور ANP کی جماعتوں کو کراچی میں آگاہ کیا ہے کہ وہ بیت اللہ محسود کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔
اسی دوران MQM کے سربراہ الطاف حسین نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ ٹرکوں کے ذریعے بہت سارے لوگ سرحد اور قبائلی علاقوں سے کراچی میں لائے جا رہے ہیں۔ کراچی میں طالبان کے نہ صرف قبائلی عسکریت پسندوں سے تعلقات ہیں بلکہ ان کے القاعدہ اور دیگر کالعدم عسکری گروپوں سے بھی تعلقات ہیں۔ TTP کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن بینک ڈکیتوں، چوریوں، گاڑیاں چھیننا اور اغوا برائے تاوان پر ہے۔ TTP پاکستان بشمول کراچی میں منظم جرائم پیشہ گروہوں کی مدد حاصل کرتی ہے۔ اسی طرح TTP نے بہت سارے جرائم پیشہ عناصر کو مختلف عہدوں پر بھرتی کیا ہوا ہے۔ وہ اپنے ان جرائم کے جواز میں باور کراتے ہیں کہ ان بینکوں، امیر لوگوں کے گھروں اور کمپنیوں کو لوٹنا جائز ہے کیونکہ انھوں نے یہ دولت غیر اسلامی طریقہ سے جمع کی ہے۔ جس میں سود بھی شامل ہے۔ TTP اپنی ان باتوں کے جواز میں یہ دعویٰ بھی کرتی ہے کہ چونکہ وہ پاکستانی سیکورٹی فورسز اور طاقتور US، NATO اور ISAF آرمی کے خلاف حالت جنگ میں ہیں تو اس مقدس جنگ میں ان کے لیے غیر قانونی ذرائع استعمال کرنا جائز ہے۔
اس مقصد کے حصول کے لیے TTP نے مختلف حجم کے ''کمانڈو گروپ'' تشکیل دے رکھے ہیں۔ جن کو وہ پاکستان کے مختلف حصوں میں بینک ڈکیتی اوردیگر وارداتوں کے لیے روانہ کرتے ہیں۔ ان کمانڈر گروپوں کے مدد TTP کے پاکستان میں موجود مختلف شہروں کے وہ ایجنٹ کرتے ہیں جو کہ ٹارگٹ کا انتخاب بھی کرتے ہیں اورمختلف تجارتی اداروں کا جائزہ لیتے رہتے ہیں جن میں بینک بھی شامل ہیں اور ان جرائم کے لیے بنیادی لوازمات کا بندوبست کرتے ہیں۔ یہ کمانڈو گروپ کامیابی سے ان دیئے گئے اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔ جرم کے ارتکاب کے فوراً بعد یہ شہر کو چھوڑ دیتے ہیں اور سیدھے شمالی یا جنوبی وزیرستان جا کر تمام آمدنی TTP کی قیادت کے سپرد کر دیتے ہیں۔ مصدقہ ذرائع کے مطابق یہ کمانڈو ٹیم آمدنی میں سے اپنا حصہ وصول کرتی ہے۔
ix۔ سپاہ محمدۖ
سپاہ محمد شیعہ سوچ کا حامل فرقہ وارانہ عسکری گروہ ہے، جسے حکومت نے 14 اگست 2001ء کو کالعدم قرار دے دیا تھا مگر یہ اب بھی لاہور اور کراچی میں سرگرم عمل ہے۔ یہاں تک کہ اس نے اپنا نام بھی نہیں بدلا زیر زمین اپنے اصل نام سے ہی متحرک ہے۔
سپاہ محمد 1993ء میں سینئر قائدین کی تحریک پر سپاہ صحابہ اور لشکری جھنگوی کے ردعمل میں قائم کی گئی اور غلام رضا نقوی، صدر تحریک جعفریہ جھنگ نے اس کے قیام کا اعلان کیا۔ امامیہ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن اور امامیہ آرگنائزیشن کے بیشتر نوجوانوں نے اس میں شمولیت اختیار کی۔ SM نے اپنی پہلی میٹنگ لاہور میں منعقد کی جس میں 2000 کے قریب کارکنان نے شرکت کی۔ میٹنگ کے اختتام پر SM کی قیادت نے پریس کانفرنس میں علی الاعلان کہا کہ ''ہم لاشیں اٹھا اٹھا کر تنگ آ چکے ہیں اگر خدا کی مرضی یہی ہے تو ہم تمام حساب ابھی بے باق کر دیں گے۔ ہم تاریخ سے سپاہ صحابہ کا نام و نشان مٹا دینگے۔'' جب SM نے اعظم طارق پر سرگودھا میں حملہ کی ذمہ داری قبول کی تو شیعہ اور سنی فسادات پھوٹ پڑے، پولیس اور انٹیلی جینس ایجنسی کے پاس باوثوق رپورٹیں موجود ہیں کہ کراچی میں سپاہ محمد کے عناصر موجود ہیں۔ مبینہ طور پر علی مستحسن اس کی کراچی میں کارروائیاں چلا رہا ہے۔ اس گروہ کے شیعہ اکثر یتی آبادی والے علاقے جس میں شاہ فیصل کالونی، انچولی، النور سوسائٹی، جعفر طیار، ملیر اور لیاقت آباد شامل ہیں، مضبوط روابط ہیں۔
اس گروہ کو شیعہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی مدد حاصل ہے۔ یہ گروہ SSP کے متعدد قائدین کے ملک بھر میں قتل میں ملوث ہے.
x۔ جعفریہ الائنس (اتحاد)
جعفریہ الائنس کئی چھوٹے شیعہ گروپوں پر مشتمل ہے۔ MQM کے سینئر علامہ عباس کمیلی جعفریہ الائنس کے سربراہ ہیں۔ جبکہ دیگر قائدین میں مولانا قرة العین عابدی، مولانا نثار قلندری، مولانا حسین مسعودی، علامہ فرقان حیدر عابدی، سلیمان مجتبیٰ، مولانا منور، علامہ آفتاب حیدر جعفری، مولانا محمد عون نقوی اور مجاہد عباس شامل ہیں۔ آل پاکستان شیعہ ایکشن کمیٹی (APSAC) کے قائد علامہ مرزا یوسف بھی کراچی کے نمایاں شیعہ قائدین میں شامل تھے۔
جعفریہ الائنس کا کراچی کی شیعہ آبادی کے ساتھ مربوط رابطہ اور اثر و رسوخ ہے۔ یہ واحد گروہ ہے جو کہ مخالف گروہوں کے ایکشن کے خلاف کراچی شہر میں مظاہرے کرتا ہے، اس گروہ کو MQM اور PPP کی حمایت حاصل ہے۔
xi۔ تحریک جعفریہ
تحریک جعفریہ علامہ ساجد نقوی کی قیادت میں پاکستان کی ایک بڑی شیعہ سیاسی جماعت ہے۔ اس جماعت کو اس کے فرقہ وارانہ عقائد کی وجہ سے 12 جنوری 2002ء میں کالعدم قرار دیا گیا مگر یہ ابھی بھی متحرک ہے اور اس نے اپنا نام ملت جعفریہ سے تبدیل کر لیا ہے۔ علامہ حسن ترابی کے 2006ء میں قتل کے بعد اس جماعت کی کراچی میں سیاسی حمایت ختم ہو گئی ہے۔
7 جرائم پیشہ گروہ
i۔ شعیب گروپ
بدنام زمانہ شعیب گروپ کا کراچی میں ایک مربوط نظام ہے، لیکن یہ شعیب خان کے پراسرار قتل کے بعد معدوم ہو گیا ہے جو کہ کراچی میں بڑی تعداد میں جوئے کے اڈے چلاتا تھا۔ اس کا والد بھی لیاقت آباد میں سٹے کا کاروبار کرتا تھا، وہ ان چھوٹے چھوٹے جرائم سے جرائم کی بڑی دنیا میں آیا اورکراچی اور بیرون ملک کرائے کے قاتلوں کے گروہ چلانے لگا۔
شعیب خان جو کہ آقا شعیب رمی والا کے نام سے جانا جاتا تھا، اس نے اپنے کیرئیر کا آغاز کراچی کے مضافات سے کیا جو کہ چھوٹے منظم جرائم کے لیے بہترین ماحول ہے۔ چند ہی سالوں میں اس کی ان مجرمانہ سرگرمیوں نے اسے کراچی کے مضافات سے ڈیفنس کے پوش علاقے میں پہنچا دیا۔ چھوٹے پیمانے کا غنڈہ جب دائود ابراہیم سے ملا تو سونے میں نہا گیا۔ 90ء کی دہائی کے وسط میں شعیب خان نے دبئی میں جوئے کا اڈا چلانا شروع کر دیا۔ دبئی میں ہی شعیب خان کی ابراہیم سے ان کے مشترک شوق جوئے کی وجہ سے ملاقات ہوئی۔ دونوں دوست بن گئے۔ یوں شعیب خان نے کراچی میں دائود کے بھتے کے کاروبار کو سنبھال لیا۔
دائود ابراہیم سے اختلاف
کہا جاتا ہے کہ 1998ء میں شعیب نے ایک پاکستانی تاجر عرفان گوگا کو قتل کر دیا جس نے دبئی میں شعیب کے جوئے خانہ سے ڈھیروں رقم جیتی تھی۔ عرفان کی لاش تو کبھی نہ مل سکی مگر اس کی گاڑی دبئی ایئرپورٹ کی پارکنگ سے مل گئی۔ گوگا کے خاندان والوں نے شعیب خان کو قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس سے پہلے کہ شعیب کے ورانٹ گرفتاری نکلتے شعیب پاکستان بھاگ گیا۔ ابراہیم بھی عرفان کو جانتا تھا اور جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے جب ابراہیم نے شعیب سے مبینہ قتل کے متعلق دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ کیونکہ عرفان، ابراہیم کو گالیاں دے رہا تھا اس لیے اس نے اس کو قتل کر دیا۔ دائود ابراہیم اس کی باتوں سے مطمئن نہ تھا۔ بعدازاں شعیب نے دائود ابراہیم کے دستِ راست ابراہیم بھولو کو اغوا کے بعد قتل کر دیا۔ مبینہ طور پر، 8 جنوری 2001ء کو ابراہیم بھولو نے شعیب سے اس کے مکان واقع ڈیفنس میں اس سے 700,000/- ڈالر کے جھگڑے کو نمٹنانے کے لیے ملاقات کی پھر وہ دوبارہ کبھی نہ دیکھا جا سکا۔
2005ء میں سندھ حکومت نے ان زیر زمین مجرموں کے گروہوں کے خلاف ایکشن لینے کا پروگرام بنایا۔ شعیب کو لاہور سے گرفتار کر کے کراچی منتقل کیا گیا۔ 27 جنوری 2007ء کو جب اسے سنٹرل جیل، کراچی سے ہسپتال منتقل کیا جا رہا تھا وہ سینے میں درد کی وجہ سے مر گیا۔ تحقیقات کے دوران شعیب نے ان سیاستدانوں اور پولیس والوں کے نام ظاہر کیے جن کے اس کے ساتھ تعلقات تھے۔ پولیس نے شعیب کے خلاف 16 سے زائد کیس درج کیے۔
ii۔ لیاری گینگ
لیاری، کراچی کاایک قدیم قصبہ ہے جو غنڈہ گردی اور جرائم کا مرکز بن چکا ہے۔ جس وجہ سے بہت سارے معصوم لوگوں کی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ شیرو، دادل، لالو، اللہ بخش عرف کالا ناگ، اقبال عرف بابو ڈکیٹ، ارشد پپو اور رحمان ڈکیٹ سمیت، متعدد گروپ یہاں کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ حال ہی میں مختلف گروہوں کے درمیان جنگ پھر بھڑک اٹھی اور لیاری کے گردو نواح کے علاقوں میں مجرمانہ سرگرمیاں بڑھ گئیں کیونکہ عموماً یہ مجرم (غنڈہ گرد عناصر) لیاری سے باہر نکل کر چوریاں کرتے، لوگوں کو لوٹتے اور دوبارہ اپنے گینگ میں واپس چلے جاتے ہیں۔
لیاری ملاحوں کی تھوڑی سی آبادی والا ایک چھوٹا سا قصبہ تھا مگر جب سے بندر گاہ بنی، بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لوگ نقل مکانی کر کے یہاں آباد ہو گئے۔ سینما گھروں، شراب خانوں اور منشیات کے اڈوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مختلف گروہوں کے ساتھ تعلقات استوار ہوئے۔ جب 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے شراب پر پابندی عائد کی اوربعد ا زاں ضیاء الحق نے فلم انڈسٹری پر پابندیاں عائد کیں تو اس علاقے میں شراب کی بھٹیوں اورمنشیات کے کاروبار نے جس میں حشیش اور ہیروئن بھی شامل تھی بہت زور پکڑ لیا۔ ان حالات میں ذاتی رنجشیں، مختلف گروہوں کے درمیان جھڑپوں کا باعث بنیں۔ اسی دوران زیر زمین مجرمانہ سرگرمیاں اس علاقے میں ترقی کرتی رہیں۔
لیاری مجرموں کی محفوظ و مضبوط پناہ گاہ بن گئی ہے جس کے دور دراز کے علاقوں تربت، خضدار، گوادر، پنجگور، کوئٹہ، ٹھٹھہ اور گھارو میں بھی روابط ہیں۔ چاکیواڑہ، شیدی ویلج، پکچر روڈ اور دوسرے علاقوں سے چلنے والی بس سروس نے سمگلنگ کے اس رابطے کو مزید مضبوط بنا دیا ہے۔ کپڑا، کپڑے کے ملبوسات، خشک میوہ جات، منشیات اور ایران سے سمگل شدہ اسلحہ سمگلنگ کی ان اشیاء میں شامل ہے۔ منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ نے ان مجرمانہ سرگرمیوں میں اور تیزی پیدا کردی ہے جبکہ بھتہ، اغوا برائے تاوان اور کرائے کے قاتل تو اب معمول کی بات ہیں۔
لیاری کے اندر ٹرانسپورٹ کا نظام ان گروپوں کے درمیان اختلاف کو مزید بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ چاکپواڑہ، شید ویلج روڈ اور لی مارکیٹ میں سڑک کے کنارے اڈوں پر کھڑی بسیں جو بلوچستان، سرحد اور سندھ جاتی ہیں ان گروہوں کو فی پھیرہ 100 روپے سے 500 روپے بھتہ دیتی ہیں۔ اس بھتہ خوری کی وجہ سے لڑائی میں بس ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کے علاوہ چھ ٹائم کیپر بھی ہلاک کیے جا چکے ہیں۔
iii۔ رحمان ڈکیت گروپ
موجودہ دور تک لیاری کا 85% سے زائد علاقہ اس گروہ کے کنٹرول میں تھا۔ عبدالرحمن جو کہ رحمان ڈکیت کے نام سے جاناجاتا ہے۔ حاجی داد محمد المعروف دادل کا بیٹا ہے جس کے سر کی قیمت 5 کروڑ روپیہ مقرر کی گئی ہے اور جو مبینہ طور پر منشیات اور اسلحہ سمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور اقدام قتل کی متعدد وارداتوں میں ملوث ہے۔ حاجی لالو بھی لیاری کا ایک بدنام زمانہ مجرم تھا۔ رحمان ڈکیت حاجی لال عرف لالو، جو کہ ارشد پپو کا باپ تھا کی زیر سرپرستی کام کرتا رہا تھا۔ پہلے پہل جب اس کی عمر 14 سے 17 سال تھی وہ بابو ڈکیت کے ساتھ کام کرتا رہا، مگران دونوں میں اس وقت دشمنی شروع ہو گئی جب آخر الذکر نے اس کے چچا تاج محمد کو قتل کر دیا۔ اپنے چچا کے قتل کے بعدرحمان ڈکیت نے اپنا گروپ بنانے کی کوشش کی مگر اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔ حاجی لال کی پشت پناہی کی وجہ سے 23 جون 2004ء کو رحمن ڈکیت نے اپنے چچا کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے بابو ڈکیت کو مار ڈالا۔
رحمن ڈکیت اور عرفات جو کہ حاجی لالو کا بیٹا ہے دونوں کو پولیس نے گرفتار کر لیا، عرفات ضمانت پر رہا ہو گیا جبکہ رحمن جیل میں رہا جس کی وجہ سے حاجی لالو اور رحمن ڈکیت میں اختلافات بڑھے۔ حاجی لالو کی گرفتاری کے بعد رحمن ڈکیت گروپ کے ساتھ جھگڑے میں حاجی لالو کے بیٹے ارشد پپو نے قیادت سنبھال لی۔
رحمان ڈکیت کو جون 2006ء میں کوئٹہ سے گرفتار کیا گیا اور کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا۔ پولیس اور انٹیلی جینس ایجنسیوں کے ساتھ 3 ماہ زیر حراست رہنے کے بعد 22 اگست 2006ء کو رحمن ڈکیت فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ ایران فرار ہونے کا سوچ رہا تھا مگر فالج کی وجہ سے اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔
لیاری میں رحمن ڈکیت نے دارلین، گبول روڈ، لاسی باڑہ، بنو کمہار واڑہ، چیل چوک، مہراب خان، عیسیٰ خان روڈ، فقیر محمد در خان روڈ، دھوبی گھاٹ، نور محمد ویلج، مل ایریا اور نوالین کے علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے تین لڑکوں پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی جب کہ اس نے مختلف علاقوں میں اپنے کاروبار کی نگرانی کے لیے اپنے بااعتماد ساتھیوں کو متعین کیا۔ نور محمد عرف بابا لاڈلا، ملا نثار، عبدالجبار عرف جھینگو اور ستار بلوچ اس کے نمایاں غنڈے تھے۔ بہت سے بلوچ اور ایرانی مجرم بھی اس کی صفوں میں شامل تھے۔
ہر گروہ جوئے خانے، کیسینو اور تاجروں اور ٹرانسپورٹروں سے بھتہ وصول کرنے کا کام کرتا ہے اور اغوا برائے تاوان اور سمگلنگ سے بھی مال کماتا ہے۔ یہ گروہ علاقے پر اپنا کنٹرول رکھنے کے لیے دوسرے گروہوں کے علاوہ پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں بھی ملوث رہا ہے۔ اس گروہ نے مخالفین کی جائیدادوں پر قبضہ بھی کر رکھا ہے۔
رحمن ڈکیت گروپ کی مختلف علاقوں پر اجارہ داری قائم ہے اور یہ سیاسی قائدین، مختلف تحریکوں، لوگوں اورقانون نافذ کرنے والے اداروں سے ملی بھگت کرتا ہے۔ گینگ سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے اہداف حاصل کرنے کے لیے مختلف حیلے آزماتے ہیں۔ جس میں تشدد، قتل، اغوا برائے تاوان، دھماکے اور خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ شامل ہے۔
iv۔ ارشد پپو گروپ
یہ لیاری کا دوسرا بڑا مجرموں کا گروہ ہے جس کا سربراہ ارشد پپو ہے۔ اس نے اپنے باپ حاجی لالو سے تربیت حاصل کی تھی جوکہ علاقہ کا بدنام غنڈہ ہے۔ ارشد پپو کو جدید خود کار ہتھیار چلانے میں مہارت حاصل ہے۔ اس کو ایک ماہر نشانہ باز کی حیثیت سے شہرت حاصل ہے۔ وہ ہمیشہ نشانہ بازی کے مقابلے جیتتا رہا ہے جو کہ اس کا والد خضدار میں منعقد کراتا رہا ہے۔ اس کے والد کے PPP سے اچھے تعلقات تھے مگر بعد میں وہ گرفتار کر لیا گیا۔ حاجی لالو اپنے بیٹے ارشد پپو اور رستم بروہی کے ذریعے اغواء برائے تاوان اور بھتہ وصول کرنے کا کاروبار چلاتا رہا، رستم بروہی کے معشوق بروہی کے ساتھ اچھے تعلقات تھے مگر حاجی لالو کی گرفتاری کے بعد اس نے رحمن ڈکیت گروپ میں شمولیت اختیار کر لی۔ غفار ذکری نے ارشد پپو کو رستم بروہی کی گرفتاری کے بعد لیاری میں بلوایا اور اسے رحمن کے چند خاص دوستوں سمیت اپنے گروپ میں شمولیت کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی۔
ارشد پپو نے مجید اسپیڈ اور حسین ایرانی جوکہ دونوں سمگلر ہیں کے ساتھ مل کر رحمن ڈکیت کی گرفتاری کے بعد لیاری میں جوئے کے اڈے چلائے۔ مگر رحمن ڈکیت کی پولیس کی حراست سے پراسرار طور پر فرار کے بعد مجید اسپیڈ اور حسین ایرانی نے دوبارہ ارشد پپو سے رابطہ نہیں کیا اور اسے یہ جوئے خانے بند کرنے پڑے۔ ایک انٹرویو میں اس نے بتایا کہ رحمن ڈکیت اس کی ہٹ لسٹ پر ہے اور اس کے بعد بابا لاڈلا، رئوف ناظم، ساجد ٹانڈ اور ہیڈ کانسٹیبل انور کالیا ہیں۔ اس نے بتایا کہ ایک گروہ کو چلانا بہت مشکل کام ہے کیونکہ اس کے لیے بہت زیادہ پیسہ درکار ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے پاس کوئی بینک بیلنس نہیں البتہ اس کی پراپرٹی گلشن اقبال، ڈیفنس ایریا، پاک کالونی، لیاری اور تربت میں ہے اور ایک بنگلہ کوئٹہ میں اور دو بنگلے حب میں ہیں۔ اس نے انکشاف کیا کہ کاروبار چلانے کے لیے اسے پولیس کو پیسہ دینا پڑتا ہے۔ اس کے سر کی قیمت 3 کروڑ روپیہ ہے اور وہ 60 سے زیادہ قتل، اغوا برائے تاوان اور پولیس مقابلوں کے مقدموں میں مطلوب ہے۔
وہ اپنے ساتھی پولیس کے امام بخش سمیت کراچی سے گرفتار ہوا۔ بلوچستان کی حکومت نے سندھ حکومت سے درخواست کی کہ اسے اس کے حوالے کیا جائے کیونکہ وہ بہت سارے مقدموں میں اسے درکار ہے۔ ارشد پپو کی گرفتاری کے بعد غفار ذکری اس کا گروہ چلا رہا ہے۔ غفار ذکری، طارق ایرانی، نثار بنگالی، حسن حسّو، ملا سلطان، محمد علی تنگو، ندیم ایرانی، حارث، عامر ڈالیا، ملا نواز، شاہ زیب، عبدالقادر، حمید عرف معشوق، آصف، عبدالحمید اس کے گروہ کے ارکان تھے۔ کچھ تو مارے گئے اورکچھ گرفتار ہوئے مگر ابھی تک کچھ گروہ کے لیے کام کر رہے ہیں۔
ارشد پپو نے مختلف کام کرنے کے لیے متعدد گروپ بنائے ہوئے تھے۔ عبدل دبئی والا کو لیاری کے دبئی چوک میں تعینات کیا گیا تھا کہ وہ بابا لاڈلہ کا داخلہ بند کر سکے۔ دوسری ٹیم ملا محبوب پر مشتمل تھی اور اس کا کام گل محمد لین کو سنبھالنا تھا۔ اسی طرح شعیب اور جبار لنگڑا تیسری ٹیم کی قیادت کرتے تھے اور ان کا کام سنگولین کو سنبھالنا تھا۔ غفار ذکری بھی ایک گروپ کی قیادت کرتا تھا۔ عامر دھوبی ڈالمیا کے علاقے پر حکومت چلاتا تھا۔ سعید عرف کالو کرنٹ، یوسی ناظم، اس کا بھائی عامر دھوبی اور ایاز پٹھان بھی ارشد پپو کے لیے کام کرتے تھے۔ ارشد پپو اپنے گینگ ممبران کی ہر آڑے وقت میں مدد کرتا تھا۔
وہ ہرلڑکے کو اس کے نشے کے علاوہ 500 سے 1000 روپے، روزانہ کے حساب سے دیتا تھا۔ وہ اپنے ان ساتھیوں کو جو کہ جیلوں میں تھے یا مختلف جھڑپوں میں مارے گئے ان کے خاندانوں کی مدد کرتا تھا۔ ارشد پپو گروپ مختلف قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی قتل، راہزنی، اغواء برائے تاوان، سمگلنگ، منشیات کا کاروبار، جوائ، بھتہ شامل ہے چلاتا تھا۔ ارشد پپو کا میوہ شاہ قبرستان میں مضبوط نظام تھا اور وہ ہر گورکن سے 500 روپے وصول کرتا تھا بصورت دیگر انہیں جہاں آباد کے عقوبت خانے میں اذیت دی جاتی۔ ناصر جو کہ ارشد کا قریبی ساتھی تھا ان گورکنوں سے بھتہ وصول کرنے پر مامور تھا۔ وہ لیاری میں ٹرانسپورٹروں سے بھی پیسے وصول کرتے تھے۔
v۔ ڈی گینگ (سرقہ باز)
ڈی گینگ سی ڈیز کی غیر قانونی ریکارڈنگ کی وجہ سے جانا جاتا ہے جو کہ بعد میں سستے داموں فروخت کی جا تی ہیں۔ یہ گروہ دہشت گرد گروہوں کے لیے سی ڈیز تیار کرنے کے کام میں بھی ملوث ہے۔ زبیر موتی والا اور سیٹھ دلاور اس گینگ کے قائد مانے جاتے ہیں۔ زبیر موتی والا اس گروہ کا اہم رکن ہے اور کہا جاتا ہے کہ آج کل ملائیشیا میں ہے۔ وہ FBI کے کراچی میں چھاپے سے پہلے فرارہو گیا تھا۔ سیٹھ دلاور، ڈی سی کوڈ کمپنی کا مالک بھی سنگاپور بھاگ گیا۔ جہاں سے وہ غیر قانونی سی ڈی یورپ اور مشرق وسطیٰ کو بھیجتا ہے۔ اس کے منافع کا بڑا ذریعہ سی ڈیز کو باہر بھیجنا ہے۔ وہاں ایک سی ڈی تقریباً 4 سے 5 ڈالر میں فروخت ہوتی ہے۔ کراچی ایئر پورٹ کے کچھ ملازمین بھی ڈی کی اس غیر قانونی برآمد میں ملوث ہیں۔ دبئی اس غیر قانونی تجارت کی گزرگاہ ہے۔
اس گروپ میں سیکورٹی ایجنسیوں کو جھانسا دینے کی پوری پوری صلاحیت موجود ہے۔ نہ صرف FIA والے ان فیکٹریوں کے مالکان جن میں غیر قانونی DVDs اور CDs بنتی ہیں ان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ وہ ان لوگوں کے نام ظاہر کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں باوجود اس کے کہ ان لوگوں کے گھروں پر متعدد چھاپے مارنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔ اندرونی ذرائع کے مطابق ان چھاپوں کے دوران جولوگ گرفتار ہوئے CD مافیا چلانے والوں کے ملازم ہیں گو کہ اس گروپ کے دہشت گردوں کے ساتھ نظریاتی رابطے نہیں مگر ان کے ساتھ تجارتی روابط موجود ہیں۔
(انگریزی سے ترجمہ: انجینئر مالک اشتر)
|
|
|
|
|