working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

ازبک قیادت میں جنگجوئوں کا افغانستان اور پاکستان میں بڑھتا ہوا کردار
جرمی بنی، جوانا رائٹ

افغانستان اور اب کچھ عرصہ سے پاکستان میں بھی جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت سے حوالوں سے گھمبیر صورت حال اختیار کر چکی ہے۔ اس گھمبیرتا کی ایک وجہ یہاں پر مختلف اسلامی ممالک سے جنگجوؤں کا اکٹھا ہو جانا ہے۔ ان میں اہم کردار ازبک جنگجوؤں کا ہے ۔ عرب، چیچن، تاجک اور ترک دوسرے جنگجو ہیں، جو کافی تعداد میں یہاں در آئے ہیں۔ فی الحال جنوبی ایشیا کے بعض ممالک ان کی شورشوں کا شکار ہیں۔ تاہم وہ وقت زیادہ دور نہیں جب وسطی ایشیائی ریاستیں اور مشرقی یورپ سمیت دنیا کے بڑے خطوں کا ان کی یلغار میں آجانے کا خطرہ ہے، اور آج جس اسلامک جہاد یونین کا مرکز اگر واحد ملک افغانستان ہے، تو کل کئی ملک اس کا مرکز ہوں گے۔ غیر عرب جنگجوؤں کو آئی جے یو میں جمع کرنے اور طالبان سے ملانے میں القاعدہ کا کیا کردار ہے؟ افغانستان میں ازبکوں کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور پاکستان اور افغانستان کے اندر طالبان کے ساتھ تعاون اور القاعدہ کی معاونت۔ ان سب امور کو اس تحقیقی مقالے میں نہایت تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ (مدیر)
پاکستان اور افغانستان کے اندر جاری شورش اور دہشت گردی کی کارروائیوں کے سلسلے میں ازبک قیادت میں جہادی گروپ اہم حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ اسلامک جہاد یونین (آئی جے یو) کا ممکنہ طور پر حقانی نیٹ ورک کے رابطے کے ساتھ افغانستان میں ہونے والے حملوں میں کردار بڑھ رہا ہے۔ یہ تنظیم وسطیٰ ایشیائی اور ترک باشندوں کو جہاد کی ترغیب کے لیے باقاعدہ بیانات اور وڈیوز جاری کرتی رہتی ہے۔ ستمبر 2007ء میں یورپ میں دہشت گردی کے مغرب پر حملوں کے باوجود اسلامی جہاد یونین وسطی ایشیا میں خود کو منظم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ مزید برآں ازبک قیادت میں ایک اور دہشت گرد گروپ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) اسلامک جہاد یونین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے طور پر پروپیگنڈا اور وڈیو بیانات جاری کر کے مسلمانوں کو ترغیب دے رہا ہے کہ وہ جنوبی ایشیا کے ''جہاد'' میں شریک ہوں۔ اسلامک جہاد یونین کا مرکز افغانستان ہے جبکہ آئی ایم یو پاکستانی سیکورٹی فورسز کو نشانہ بناتی ہے اور اس کے بیت اللہ محسود کے عسکریت پسندوں کے ساتھ رابطے ہیں۔ ازبک جہادی گروپ طالبان کے اتحادی ہیں ان کے بیشتر عسکریت پسند تجربہ کار جہادی ہیں اور جو نئے ہیں انہوں نے بھی ازبکستان یا وسطی ایشیاء کے دوسرے ملکوں کی افواج میں نوجوانوں کے لیے لازمی تربیت حاصل کی ہوئی ہے۔

ازبک گروپوں کے پاس اپنے مقامی میزبانوں کے وفا دار بننے کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہوتا اسی لیے مقامی قبائلی گروپوں سے زیادہ قابل بھروسہ ہوتے ہیں۔ اس آرٹیکل میں آئی جے یو کی تشکیل، افغانستان میں اس کی بڑھتی سرگرمیاں ازبکوں کی قیادت میں دونوں گروپوں کے پاکستان اور افغانستان کے اندر طالبان کیساتھ تعاون اور اس سارے عمل میں القاعدہ کی معاونت کا جائزہ لیا جائے گا۔

اسلامک جہاد یونین کا آغاز
اسلامک جہاد یونین 2002ء میں آئی ایم یو سے الگ ہونے والا گروپ ہے جس کی قیادت نجم الدین جلالوف کے ہاتھ میں تھی جو ابویحییٰ محمد فاتح(1) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے خاتمہ کے بعد جلا لاف کے اسلامک موومنٹ آف ازبکستان (آئی ایم یو) کے سربراہ طاہر یلدشیف (محمد طاہر فاروق) کے ساتھ نظریاتی اختلافات کے باعث آئی ایم یو میں پھوٹ پڑی۔ یلدشیف آئی ایم یو کو علاقائی تنظیم بنانا اور اس کا نام اسلامک موومنٹ آف ترکستان رکھنا چاہتا تھا جبکہ جلالوف کی خواہش تھی کہ ازبکستان(2) کے اندر حملے جاری رکھنے پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔

مارچ اور جولائی 2004ء میں تاشقند(3) (ازبکستان) میں ہونے والے خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے پہلے جلالوف گروپ کے بارے میں لوگ زیادہ نہیں جانتے تھے۔ ازبکستان کے صدر اسلام کریموف نے مئی 2005ء میں صوبہ اندیجان میں ہونے والی گڑبڑ میں جلالوف گروپ کے ملوث ہونے کا ذکر کیا تھا۔(4) ابتداء میں اس تنظیم نے اپنی سرگرمیاں اندرون ملک تک محدود رکھیں تاہم جرمنی میں بم دھماکوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کے بعد سے یہ عالمی سطح پر دہشت گردی کے سلسلے میں آئی ایم یو سے زیادہ بدنام ہو گئی ہے۔

ستمبر 2007ء میں جرمن پولیس نے تین افراد کو گرفتار کیا ان کے قبضے سے بڑی مقدار میں کشیف ہائیڈروجن پر آکسائیڈ برآمد ہوئی جو دھماکہ خیز مواد بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ ان افراد میں دو جرمن نو مسلم اور ایک ترک نژاد جرمن تھا۔ ان تینوں اور ان کے ایک ساتھی (جسے ترکی سے ملک بدر کیا گیا تھا) کے خلاف دہشت گرد تنظیم سے تعلق رکھنے اور بم تیار کرنے سمیت متعدد جرائم کی فرد جرم عائد کی گئی۔

اسلامک جہاد یونین نے افراد کا دفاع نہیں کیا۔ تاہم اس کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں رامسٹین میں امریکی فوجی اڈے (جہاں سے افغانستان میں اتحادی فوج کو کمک پہنچائی جاتی ہے) اور جرمنی میں ازبکستان اور امریکہ کے سفارتخانوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔(5) بیان میں کہا گیا کہ ان حملوں کے بعد جرمنی جنوبی ازبکستان میں ترمذ ائیربیس کو بند کرنے پر مجبور ہو جائے گا جو افغانستان میں موجود جرمن فورسز کو سپلائی فراہم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کے بعد آئی جے یو افغانستان میں ہی حملے کررہی ہے۔

اسلامک جہاد یونین کا افغانستان میں کردار
2008ء سے اسلامک جہاد یونین مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے اس گروپ کے ارکان کے افغانستان کے اندر خودکش بموں، دھماکوں کے بارے میں بیانات اور ویڈیو جاری کر رہی ہے۔ ان میں ترک، کرد اور آذر بائیجانی باشندے شامل ہیں۔ تازہ ترین خود کش حملہ افغان صوبہ پکتیکا میں 3 اور 4 جولائی 2009ء کی درمیانی رات ابو اسماعیل کُردی نے کیا۔(6) پکتیکا کے ضلع زیروک میں فوجی اڈے پر ہونے والے خودکش حملے سے بھی اس کا تعلق ظاہر ہوتا ہے۔اس حملے میں دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی (وی بی آئی ای ڈی) استعمال ہوئی اور راکٹ بھی فائر کیے گئے۔ حملے میں 10 حملہ آور اور دو امریکی فوجی مارے گئے۔(7)

اسلامک جہاد یونین حقانی نیٹ ورک کی معاونت سے حملے کرتی ہے، حقانی نیٹ ورک ایک ایسا دھڑا ہے جس کی قیادت افغان ہے اور یہ طالبان کے نام سے کارروائیوں میں مصروف ہے۔(8) دونوں گروپوں کا آپس میں گہرا رابطہ ہے۔ جس کا انکشاف 3 مارچ 2008ء کے خودکش دھماکوں کے بعد ہوا۔ صوبہ خوست کے ضلع سباری میں ہونے والے اس حملے میں خود کش حملہ آور نے جدید دھماکہ خیز گاڑی استعمال کی۔ حملے میں دو امریکی اور دو افغانی فوجی ہلاک ہوئے۔(9) طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے حملے کی ذمہ داری قبول کی۔ ذبیح اللہ طالبان کے دو ترجمانوں میں سے ایک ہے جو سرکاری طور پر ''اسلامی امارات افغانستان'' کی طرف سے اعلامیے جاری کرتے ہیں۔ طالبان کمانڈر سراج الدین حقانی اس پروٹوکول سے الگ ہو گیا اور پاکستانی مجاہدوں کو فون کر کے اس حملے کا مسٹر مائنڈ ہونے کا دعویٰ کیا۔(10)

چند روز بعد اسلامک جہاد یونین نے ترک زبان میں جہادی ویب سائٹس کے ذریعے ایک بیان جاری کیا جس میں اس حملے کا کریڈٹ ترک نژاد جرمن شہری Cuney ciftei المعروف سعد ابوالفرقان کو دیا گیا۔ اس کے بعد ایک وڈیو بھی جاری کی گئی جس میں سعدابوالفرقان کو دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی (وی بی آئی ای ڈی) تیار کرتے اور دھماکہ خیز مواد جیسے تھیلے ٹرک پر لادتے دکھایا گیا۔ اس وڈیو میں دھماکہ کی فوٹیج بھی دکھائی گئی۔(11) اس وڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد ابوالفرقان کو جہادی گروپوں میں پذیرائی حاصل ہوئی۔ جبکہ افغانستان میں جاری شورش کی پیچیدہ صورتحال بھی مزید نمایاں ہو گئی۔ تینوں حریف دھڑوں کے دعوے اپنی اپنی جگہ درست ہو سکتے ہیں۔ حملہ اسلامک جہاد یونین اور حقانی گروپ کی مشترکہ کارروائی تھی ا ور افغان طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول کی۔ تاہم اس کے بعد ماسوائے جلال آباد کے ایک حملے کے آئی جے یو نے جن حملوں کی ذمہ داری قبول کی وہ حقانی نیٹ ورک کے زیر اثر مشرقی افغانستان کے علاقوں میں ہوئے۔ اس سے آئی جے یو اور حقانی نیٹ ورک کے قریبی تعلقات کا اظہار ہوتا ہے۔

ترک تعلق اور القاعدہ کا اثر و رسوخ
2007ء کے بعد جے یو کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی شہرت ترک زبان میں پروپیگنڈا مہم کی مرہون منت ہے۔ اس پروپیگنڈا مہم کے باعث ترک جہادی اسی گروپ کی سرگرمیوں کا محور بن گئے ہیں۔ تعلقات عامہ کی اس مہم کے بارے میں خیا ل کیاجاتا ہے کہ یہ ترک زبان جاننے والے اور انٹرنیٹ کی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد کا کام ہے جو آئی جے یو اور دیگر گروپوں کے بیانات کا ترجمہ کرتے اور ان کی تشہیر کرتے ہیں۔ آئی جے یو اوراس سے ہمدردی رکھنے والی ویب سائٹس مثلاً شہادت زمانی (شہادت کا وقت) ترکوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ وہ جہاد میں شامل ہو جائیں یا اس کی حمایت کریں وہ ہلاک ہونے والے عسکریت پسندوں کو ''شہدائ'' قرار دے رہیں ہے۔ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ یہ ترک سائبر جہادی آئی جے یو کے کیسے اتحادی بن گئے۔ البتہ اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں طالبان کے ساتھ جہاد میں شامل ہونے کے لیے آنے والے ترک حقانی نیٹ ورک سے منسلک ہو رہے ہیں۔ اس عمل کا تذکرہ ترک گروپ عائفتہ المنصورہ (فاتح گروپ) کے لیڈر ابو ذر نے الف میڈیا میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں بھی کیا ہے۔ ابوذر کا کہنا ہے کہ اس کا گروپ گزشتہ 15 برس سے شمالی قفقاز (کاکیشیا) میں برسرپیکار تھا لیکن 2009ء کے اوائل میں یہ افغانستان منتقل ہو گیا۔ جہاں اسے مقامی مددگار (انصار)(12) دیے گئے جن کے ساتھ مل کر کام کیا جا رہا ہے۔(13)

اس گروپ کی طرف سے جون میں ایک بیان میں صوبہ خوست میں اس کے دو ارکان کی موت کی اطلاع دی گئی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقامی نیٹ ورک ہی انصار ہے۔(14) اگرچہ عائفتہ المنصورہ اور آئی جے یو کے درمیان تعلق کے کوئی واضح شواہد نہیں ملے۔ ترک جہادی پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان ایجنسی میں حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے پر جمع ہوتے ہیں جہاں ان کی زبان بولنے والا گروہ موجود ہے۔(15) القاعدہ کے آئی جے یو اور حقانی گروپ کے اتحاد کے ساتھ روابط کے کچھ اشارے ملے ہیں اور القاعدہ آئی جے یو کے ترک جہادیوں سے تعلقات کو ایک اثاثہ خیال کرتی ہے۔

ان گروپوں کے درمیان آپریشنل رابطوں سے القاعدہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی اور نیا نیٹ ورک ترکی اور یورپ میں حملوں میں معاون ثابت ہو گا یا پھر آئی جے یو وسطی ایشیا میں اپنی کارروائیوں کے لیے القاعدہ سے تکنیکی مہارت حاصل کر سکے گی۔

القاعدہ اور آئی جے یو کے درمیان رابطے کی واضح مثال 28 مئی 2009ء کو سامنے آئی جب القاعدہ رہنما ابویحییٰ اللبیبی اور آئی جے یو کے لیڈر یحییٰ احمد فاتح ایک وڈیو میں اکٹھے دیکھے گئے۔(16) اس طرح پہلی بار کسی القاعدہ رہنما نے آئی جے یو کی کھلے عام بات کی۔ القاعدہ افغانستان کے لیے عمومی کمانڈر شیخ سعد مصطفےٰ ابوالزید نے 10 جون کو ایک بیان میں ترکوں سے امداد کی اپیل کی۔(17)

الجزیرہ ٹی وی کے صحافی نے ایک انٹرویو میں جب القاعدہ کی طرف سے طالبان کی حمایت کی وضاحت چاہی تو ابوالزید نے کہا ''خوست میں گزشتہ برس کا آپریشن میڈیا میں رپورٹ ہو چکا ہے یہ خوست ایرپورٹ پر امریکی کمانڈ ہیڈکواٹر پر حملہ تھا الحمد اللہ یہ القاعدہ نے اپنے طالبان بھائیوں کی شراکت سے کیا۔ یہ خوست میں ہونے والا ایک بڑا آپریشن تھا جس میں ہم نے حصہ لیا۔ خوست، کابل اور دیگر مقامات پر بہت سے فدائی آپریشن ایسے تھے جن کا منصوبہ ہمارے بھائیوں (طالبان) نے بنایا اور ہم نے اس میں شرکت کی۔(18)

یقینا خوست کے قریب امریکہ کے بڑے اڈے فارورڈ آپرٹینگ بیس سالیرنو پر 18 ،19 اگست 2008 ئکیے گئے حملے کی طرف اشارہ تھا۔(20) القاعدہ واضح طور پر خود کو حقانی نیٹ ورک کی آپریشنل کامیابیوں سے منسلک کرنے اور آئی جے یو کی ترک جہادی کمیونٹی کو متحرک کرنے کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ بات تو بالکل درست لگتی ہے کہ القاعدہ نے ازبکوں، ترکوں اور حقانی نیٹ ورک کے درمیان رابطوں میں کردار ادا کیا ہے لیکن اس بات کی آزاد ذرائع سے شہادتیں ناکافی ہیں۔ غیر عرب جنگجوئوں کو آئی جے یو میں جمع کرنے اور طالبان سے ملانے میں القاعدہ کا ہاتھ ہے۔

آئی جے یو نے 26 مئی 2009ء کو خود اپنے ملک میں یہ ثابت کر دیا کہ وہ طالبان سے الگ قوت ہے۔ ازبک حکام نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ کرغزستان بارڈر پر خان آباد کے نزدیک ایک پولیس چیک پوسٹ پر صبح سویرے حملہ کیا گیا اسی روز ایک خود کش حملہ آور نے اندیجان میں خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ آئی جے یو نے 28 مئی کو جاری کی گئی ویڈیو میں اس کی ذمہ داری قبول کر لی جو اس بات کا ثبوت تھی کہ وہ ازبکستان میں حملے کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ان حملوں کا افغانستان میں شورش سے کوئی تعلق نہیں۔

آئی ایم یو اپنی کم حیثیتی تسلیم کرنے سے گریزاں
آئی جے یو کی طرح آئی ایم یو بھی افغانستان اور پاکستان میں اپنی کارروائیوں کی بھرپور پبلسٹی کر رہی ہے۔ اس سال جنوری،مارچ اور اپریل میں اس نے اپنی وڈیوز جاری کیں جن میں جرمن جنگوئوں کو دکھایا گیا جو اپنے ہم وطنوں کو ان کے ساتھ افغانستان میں شامل ہونے کی دعوت دے رہے تھے۔(20)

11 جولائی 2009ء کو آئی ایم یو نے ایک وڈیو جاری کی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس کے ایک رکن نے 4 اپریل کو پاکستان کے علاقے میران شاہ (شمالی وزیرستان) میں خود کش حملہ کیا تھا۔

یہ اس واقع سے مماثلث رکھتا ہے جس میں ایک پاکستانی فوجی اور سات سویلین ہلاک ہوئے۔(21) یہ شاید پہلی مرتبہ ہوا کہ آئی ایم یو نے خود کش دھماکوں کا دعویٰ کیا۔(22) اس وڈیو میں چین، جرمنی، روس، تاجکستان اور ترکمانستان سمیت مختلف ملکوں اور جنگجوئوں کی نشاندہی کی گئی۔

آئی ایم یو نے جن خود کش حملوں کا دعویٰ کیا ان کی جائے وقوعہ سے ان کے میزبانوں کے اہداف کی ترجیحات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ جبکہ آئی جے یو جو حقانی نیٹ ورک کے ساتھ اتحاد کرچکی ہے اس کی زیادہ تر کارروائیاں افغانستان میں ہوتی ہیں، آئی ایم یو اپریل 2007ء میں بیت اللہ محسود سے مل کر لڑ رہی ہے جب اسے مخالف دھڑے مولوی نذیر گروپ نے جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا سے نکال دیا تھا۔(23) بیت اللہ محسود کا گروپ اور اس کے اتحادی پاکستان کی ریاست کے ساتھ لڑائی میں شدت لا رہے ہیں۔ اس لڑائی میں ازبک وفادار اور قابل جنگجو ساتھی شمار ہونے لگے ہیں۔ آئی ایم یو افغانستان کے شمالی صوبے زابل اور جنوبی صوبے غزنی میں بھی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

نتیجہ
آئی ایم یو اور آئی جے یو کے درمیان زیادہ سے زیادہ ملکوں کے جنگجو جمع کرنے، خود کش حملوں کی صلاحیت کے مظاہرے کی مقابلہ بازی۔ آئی جے یو کو بادی النظر میں اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اپنے طور پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرے، لیکن ان کا میزبان طالبان حقانی گروپ اگر چاہے تو ان حملوں کی تردید کر سکتا ہے ۔ اس طرح غالباً ایسے مزید حملوں کے لیے رضا کار بھرتی کرنے کی مہم کو فروغ حاصل ہوتا ہے اورنظریاتی اعتبار سے پختہ بمباروں کی مستقل بنیادوں پر سپلائی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔

آئی ایم یو بھی اب ایسی ہی حکمت عملی اپنا رہی ہے اور توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مزید خودکش حملوں کے دعوے کر سکے گی۔ وہ پاکستانی طالبان کی طرف سے کیے گئے خودکش حملوں کی ذمہ داری اور سربلندی کی بجائے فوجیوں کو نشانہ بنانے کے دعوے کرے گی تاکہ انہیں جائز سمجھا جائے۔ آئی ایم یو نے آئی جے یو کی راہ پر چلنے کی کوشش جاری رکھی تو وہ وسطی ایشیا میں پھر سرگرم ہونے پر بھی غور کرے گی اور خود اپنے لوگوں کے سامنے یہ مظاہرہ کر سکے گی کہ وہ سابقہ سوویت جمہوریائوں کی حکومتوں سے نبردآزما ہو سکتی ہے۔ جہاں تک القاعدہ کا تعلق ہے، وہ ترکی اور یورپ میں آئی جے یو کے نیٹ ورک تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش میں اور آئی جے یو کے بڑھتے ہوئے حملوں سے پروپیگنڈے کا فائدہ اٹھانے کے لیے خود کو اس کے ساتھ منسلک رکھے گی۔
__________________________
جرمی بنی آئی ایچ ایس جینز کے دہشت گردی اور شورش کے بارے میں سینئر تجزیہ کار اور ''جینز ٹیررازم اینڈ سیکورٹی ائیر'' کے ایڈیٹر اور جینز انٹیلی جنس ریویو'' کے ایسوسی ایٹ ایڈیٹر (ٹیررازم اینڈ انسرجنسی) ہیں۔
جوانارائٹ ایک جرنلسٹ ہیں جنہوں نے 2009 ء - 2008 ء میں جنیز کی اسائمنٹ پر 8 ماہ عراق اورافغانستان میں کام کیا۔


حوالہ جات
1 ابو یحییٰ فاتح نے 31 مئی 2007ء کو ایک انٹرویو میں اس بات کی تصدیق کی کہ یہ گروپ 2002ء میںتشکیل دیا گیا۔ یہ انٹرویو ویب سائٹ:
www.sehadetzanani.com/haber_delay.php?haber_id=1203
پر دیکھا جا سکتا ہے۔
امریکی وزارت خزانہ نے 18 فروری 2008ء کو ابو یحییٰ فاتح کو بلیک لسٹ کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ وہ نجم الدین جلالوف ہے۔ ازبکستان کے سرکاری میڈیا نے تصدیق کی کہ جلالوف اکتوبر 2000ء سے آئی ایم یو کا رکن ہے۔
2 آئی ایم یو نے 2003ء میں اسلامک موومنٹ آف ترکمانستان کا نام اختیار کیا اورنام کی تبدیلی کی تصدیق اس گروپ کے حراست میں لئے گئے ایک رکن نے 25 نومبر 2005ء کو Moskovskiye Novosti کو انٹرویو میں بھی کی۔ لیکن گروپ نے پھر پرانا نام اختیار کر لیا۔
3 یہ دعوے اسلامی جہاد گروپ کے نام پر جاری کیے گئے جسے امریکہ نے مئی 2005ء میں دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ لگتا ہے کہ تنظیم نے اسلامی جہاد یونین نام انہی دنوں اختیار کیا۔
4 یہ اقتباس اسلام کریموف کی 14 مئی 2005ء کو کی گئی تقریر سے لیا گیا جو ٹیلی وپژن پر نشر ہو گی۔ یہ تقریر بی بی سی کی مانٹیرنگ سروس سے بھی مل سکتی ہے۔
5 جرمنی کی وفاقی وزارت داخلہ کے 11 ستمبر 2007ء کے بیان کے مطابق اسلامی جہاد یونین (آئی جے یو) نے جرمنی میں ناکام حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
6 آئی جے یوکابیان:www.sehadetzamani.com/haber_php?hder_id-1254.
پر دیکھا جا سکتا ہے۔
7 افغانستان میں ہلاک ہونے والے امریکی فوجی ''بی سی سی 4 جولائی 2009ئ''۔
8 حقانی نیٹ ورک کی کارروائیوں کے علاقے کے بارے میں دیکھیے:
unravelling Haqqani'sNet
جینز ٹیررازم اینڈ سیکورٹی مانیٹر 30 جون 2009ء کمبائنڈ جائنٹ ٹاسک فورس 82 کی طرف سے جاری کیا گیا۔ پریس ریلیز ''اتحادی فورسز کا حقانی نیٹ ورک پر فوکس 19 اکتوبر 2007ء جس میں بتایا گیا کہ سراج الدین نے اپنے والد کی جگہ حاصل کر لی۔ یہ بیان آن لائن دستیاب نہیں ہے۔
9 امریکی فوج کے ترجمان نے مصنفین سے گفتگو میں حملے کی تفصیلات کی تصدیق کی۔
10 طالبان کے دعوئوں سے متعلق دیکھئے ''طالبان کا خوست میں امریکی فوج کے کیمپ پر حملہ ''دی نیوز 4 مارچ 2008ئ''۔
11 یہ وڈیو
www.sehadetzamani.com/harber_detay.php?haber_id=1911
پر دیکھی جا سکتی ہے۔
12 ''انصار'' سے مراد یثرب (مدینہ) کے شہری جنہوں نے مسلمانوں کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت (622 عیسوی) کے موقع پر ان کی مدد کی تھی۔ معاصر جہادی لفظ ''انصار'' کو مقامی فورس اور مہاجرین غیر ملکی جنگجوئوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
13 یہ انٹرویو
www.elifinedya, word_press.com/2009/05/29/17 پر دیکھا جا سکتا ہے۔
14
www.elifinedya, word_press.com/2009/06/22
Zulum-son-buluncaya-kadar-savasacagiz/.
15 یہ واضح نہیں کہ یہ عمل کس طرح سے منظم کیا جاتا ہے۔ بعض پشاور آتے ہیں جہاں سے انہیں شمالی وزیرستان میں ترکی بولنے والوں کے پاس بھیجا جاتا ہے کچھ لوگ ان کی رہنمائی کرتے ہیں دیکھئے پال کروسک سینک (Paul cruick skank) "The 2008 Belgium cell and FAIA's Teirorist Pipeline, CTC Sentinel2:2 (2009)
16 وڈیو
www.sehadlzamani.com/reklam-detay-php?id=79 پر دیکھی جا سکتی ہے۔
17 عربی بیان کا ترک زبان میں ترجمہ ویب سائٹ:
www.taifetulmansura.com/71811-seyh-Edu-yezid'den-Mesaj-var-html.
پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
18 یہ انٹرویو الجزیرہ ٹی وی پر 21 جون 2009ء کو نشر ہوا۔
19 امریکی ملٹری انٹیلی جنس ذرائع کا نجی انٹرویو ایف او بی سالیر نیو، افغانستان فروری 2009ء کو لیا گیا۔ حملے کی مزید تفصیلات کے لیے دیکھے:
"unrevelling haqqani's net." واقعہ کی مختصراً نشاندہی ایک دستاویز میں کی گئی ہے جو القاعدہ کے امریکی کارکن Beryant Nealvinas (جو نومبر 2008ء میں پاکستان سے پکڑا گیا تھا) سے کی گئی تحقیقات پر مشتمل ہے۔vinas نے بتایا کہ اس کی منصوبہ بندی القاعدہ کے لیڈروں نے کی تھی۔ اس نے خود کش بمبار کی شناخت ترک بتائی اگرچہ آئی جے یو نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ خودکش بمبار ان کی تنظیم سے تعلق رکھتا تھا۔
20 آئی ایم یو کی طرف سے اپریل میں جاری کی گئی وڈیو سے اس کے تعلق کے بارے میں تفصیلاً ویب سائٹ:
www.amsarnet.info/shawthread.php?p=8113 پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
21 ''میراں شاہ'' خودکش حملے میں 8 افراد ہلاک ہوئے'' ڈیلی ٹائمز 5 اپریل 2009ئ
22 وڈیو کے ساتھ لنک ویب سائٹ:
www.ansarnet.info/showthread.php?p=1998
23 بیت اللہ محسود اور ازبک جہادیوں کے درمیان روابط کے با رے میں پاکستانی پریس نے خاصے ثبوت دیے ہیں۔ مزید ثبوت آئی ایم یو کی ویڈیو ''اللہ کے سپاہی'' میں ملتا ہے جس میں بیت اللہ محسود کے نائب حکیم اللہ محسود کو قبضہ میں کی ہوئی ایک humvee چلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
24 ذاتی انٹرویو امریکی ملٹری انٹیلی جنس ذرائع ایف او بی شارانا، افغانستان جنوری 2009ئ۔