working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

جنگجو اچھے نہیں ہوتے
ظفرعباس
زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ طالبان کے حوالے سے ایک اصطلاح جڑ پکڑ گئی اور یہ اصطلاح تھی اچھے اور بُرے طالبان کے مابین تخصیص کی۔ اس اصطلاح کا استعمال کسی خاص خطے تک ہی محدود نہیں رہ گیا تھا بلکہ امریکا سمیت پوری دنیا میں ہو رہا تھا۔ لیکن ممکن ہے GHQ پر دہشت گردوں کے حالیہ حملے سے پاکستان کی حد تک یہ اصطلاح کم از کم یک طرفہ حیثیت اختیار کر جائے۔ ظفرعباس نے بھی اپنے اس مضمون میں اس امر کا اظہار کیا ہے کہ سیکورٹی، سول انتظامیہ اور دیگر سبھی ادارے اچھے اور برے مذہبی جنگجوؤں کی تمیز یا اچھے طالبان کی اصطلاح استعمال کرنا بند کر دیں گے اور ایسا لائحۂ عمل اختیار کریں گے کہ ان تمام گروپوں کو ملک پاکستان کا دشمن قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کر سکیں۔ (مدیر)
مسلح دہشت گردوں کا گروہ جس نے آرمی ہیڈ کوارٹر (GHQ) کے مضبوط سیکورٹی حصار کو توڑتے ہوئے ہیڈکوارٹر کے اندر حملہ کیا، دہشت گرد یہ جانتے تھے کہ وہ آرمی کے اس محفوظ ہیڈکوارٹر سے زندہ بچ کر باہر نہیں نکل سکیں گے۔ حالانکہ نہ تو ان میں سے کوئی خودکش بمبار تھا اور نہ ہی وہ خود کش جیکٹس پہنے ہوئے تھے۔ اور پھر یہ کہ ان کے پاس کوئی ایسی گاڑی بھی نہیں تھی جو بارود سے بھری ہوئی ہو۔

سیکورٹی ایجنسیاں جو وہ انتہائی مہارت سے انہیں یرغمال بنانے کے منصوبے سے دوچار تھیں، انھوں نے حملہ آوروں کی شناخت اور ان کی تنظیم سے تعلق کو افشاء کرنے میں کافی وقت لیا۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ وہ ایسے ناسمجھ نوجوان نہیں تھے جن کو ذہن سازی کر کے خودکش حملے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ بلکہ وہ انتہائی تربیت یافتہ دہشت گرد تھے۔ جن کو اپنے خاص ٹارگٹ پر مسلح حملہ کے ذریعے اپنے اہداف حاصل کرنے کا فن سکھایا جاتا ہے۔

یہ حملہ رواں سال، مناواں لاہور میں پولیس کے تربیتی مرکز پر دہشت گردی کے حملے اور لاہور ہی میںسری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر حملے سے مشابہت رکھتا ہے۔ جس میں سری لنکا کی ٹیم کو یرغمال بنانے کی سازش تیار کی گئی تھی۔ ان دونوں حملوں میں بھی دہشت گردوں کا گروپ بہت تربیت یافتہ تھا اور اس کے لیے انتہائی مسلح جنگ جوتیار کیے گئے تھے۔ اس حملے سے ان کا مقصد بہت بڑا نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان میں سے چند ایک کو یرغمال بنانا تھا اور وہ یہ نیت کر کے آئے تھے کہ وہ اپنے اس مقصد کے لیے جان بھی دے دیں گے۔

پاکستان میں جہادی سطح کے خودکش حملوں کا اگر ان حملوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو اس طرح کے دہشت گردوں کے حملے کو ''فدائین حملے'' کہا جاتا ہے۔ یہ تقسیم اکثر اوقات مذہبی عقائد پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ایک شدت پسند گروپ یہ سمجھتا ہے کہ خود کش حملے اتنے معتبر نہیں جتنے فدائین حملے ہیں۔ کیونکہ فدائین حملے میں انسان اپنے آپ کو دھماکے سے نہیںاڑاتا بلکہ دشمن سے براہ راست جنگ کرتا ہے۔ یہ دو نظریات اسلامی جنگجوئوں کی تنظیموں اور تحریکوں میں بھی واضح طور پر نظر آتے ہیں جیسا کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری مسلح جدوجہد میں اکثر ایسا دیکھا گیا ہے۔

یہی طریقہ اکثر فرقہ واریت میں ملوث تنظیموں اور افغانستان میں مصروف جہادی تنظیموں نے بھی اپنایا۔ اگرچہ ان میں سے اکثر خودکش حملوں کو بھی اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔

پاکستانی بنیاد پرست اور کشمیری جہادی گروپس میں سے کچھ جن کو 9/11 کے بعد دہشت گرد قرار دے کر کالعدم قرار دیا گیا۔ یہ لوگ اپنی کارروائیاں مکمل بند کرنے کی بجائے یا تو مختلف چھوٹے چھوٹے گروپوں میں منقسم ہو گئے اور پاکستانی حکومت اور ایجنسیوں کے مدمقابل آ کھڑے ہوئے۔

اس وقت سے دہشت گرد حملوں کا سلسلہ سرحدوں سے دور ہو کر پاکستان کے اندر آ گیا۔ جس کے پیچھے یہی انتہائی اعلیٰ تربیت یافتہ جنگجو تھے۔ انھی دہشت گرد حملوں میں سابق صدر اور آرمی سربراہ جنرل پرویز مشرف پر کیے جانے والے حملے بھی شامل ہیں جن کو اسلامی جنگجو اپنا سب سے بڑا مخالف تصور کرتے تھے اور اسے اپنے ''جہاد'' کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ اس عرصہ کے دوران مختلف علیحدہ گروپوں نے دوبارہ ایک جھنڈے تلے جمع ہونا شروع کیا اور آپس میں اتحاد کرنا شروع کر دیا۔ خاص کر جب یہ لوگ وزیرستان اور مالاکنڈ کے علاقوں میں پناہ لینے کے لیے داخل ہوئے۔ جنوبی پنجاب کے بھی کچھ علاقے ان جنگجوئوں کے محفوظ ٹھکانے بنے۔ اس طرح ایک نیا اتحاد سامنے آیا جو القاعدہ، افغانی طالبان، تحریک طالبان پاکستان اور پنجابی طالبان کے اشتراک سے معرض وجود میں آیا۔ اسی عرصہ کے دوران مختلف دیگر تنظیموں کے نام بھی سامنے آتے رہے۔ جن میں حرکة المجاہدین العالمی 2002ء کے دوران سامنے آئی۔ جبکہ 2003ء میں مالاکنڈ کے علاقے میں جامعہ حفصہ بریگیڈ سامنے آیا۔ اسی دوران ایک حملے میں ایک گروپ نے حملے کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے آپ کو تحریک طالبان (امجد فاروقی گروپ) قرار دیا۔ امجد فاروقی دسمبر2003ء میں پرویز مشرف پر حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا جو بعد میں نواب شاہ کے علاقے میں سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا۔ لشکر جھنگوی اور جیشِ محمد کے گروپس نے بھی وزیرستان میں قائم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ وابستگی حاصل کرلی جو اس علاقے کو پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ یہی دو ایسے گروپ ہیں جو اپنے ارکان کی ایک کثیر تعداد رکھتے ہیں جن کو ''پنجابی طالبان'' کہا جاتا ہے اور جن کا ملک کے اندر تمام جنگجوئوں سے براہ راست رابطہ ہے جو اسلام آباد سے کراچی تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ سابق جہادی ہیں جو کشمیر اور افغانستان کے جہادی میدانوں میں مصروف عمل رہے ہیں جو خود کش حملوں کی بجائے لڑنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اسی طرح کے ''فدائین'' گروپوں کو آرمی اور سویلین خفیہ اداروں نے راولپنڈی اور اسلام آباد کے مختلف علاقوں سے گرفتار بھی کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی چند ایسے مصروف عمل گروپس موجود ہیں جو اپنے مخالفین کے خلاف کسی بھی موقع پر حملہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

شاید کہ GHQ پر ہونے والا حملہ ساری صورتحال کو اس طرح تبدیل کر دے کہ سیکورٹی اور سویلین انتظامیہ اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف دیگر ادارے اچھے اور برے مذہبی جنگجوئوں کی تمیز یا اچھے طالبان کی اصطلاح استعمال کرنا بند کر دیں گے اور ایسا لائحۂ عمل اختیارکریں گے کہ ان تمام گروپوں کو ملک پاکستان کادشمن قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کر سکیں گے۔

(بشکریہ روزنامہ ''ڈان'')
(انگریزی سے ترجمہ: مجتبیٰ محمد راٹھور)