working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

''کشف المحجوب''
مجتبیٰ راٹھور
حضرت داتا گنج بخش ہجویری اپنی کتاب ''کشف المحجوب'' میں لکھتے ہیں: انسان کے لئے وہ پردے جو راہ حق میں اس پر مانع اور حائل ہوتے ہیں۔ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک کا نام حجاب رینی ہے جو کسی حالت میں اور کبھی نہیں اٹھتا اور دوسرے کا نام حجاب غینی ہے اور یہ حجاب جلد تر اٹھ جاتا ہے۔ ان کی تفصیل یہ ہے کہ کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں جن کے لئے اپنی ذات ہی رہ حق میں پروہ جو حجاب بن جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے نزدیک حق و باطل دونوں یکساں اور برابر ہو جاتے ہیں اور کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے ان کی اپنی صفتیں راہ حق میں پردہ و حجاب ہوتی ہیں اور وہ ہمیشہ اپنی طبع و سرشت میں حق کے متلاشی اور باطل سے گریزاں رہتے ہیں۔ ذاتی حجاب کا نام رین ہے۔ جو کبھی زائل نہیںہوتا۔
حجاب رین کے معنی:
رین جس کے معنی زنگ آلودہ ہونے اور مہر لگنے اور ٹھپہ لگنے کے ہیں۔ یہ تینوں لفظ ہم معنی اور ہم مطلب ہیں۔جیسا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے:
''کَلَّا بَلْ رَانَ علیٰ قُلُوْبِہِمْ مَاکَانُوْا یکسِبُوْن''
یہ لوگ ہرگز راہ حق قبول نہ کریں گے۔ بلکہ ان کے دلوں پر رین یعنی حجاب ذاتی ہے۔ جو کچھ بھی وہ کرتے ہیں۔
حجاب عینی کے معنی:
عین کے معنی اوٹ اور ہلکے پردے کے ہیں یہ وصفی حجاب ہے کسی وقت اس کا پایا جانا اور کسی وقت اس کا زائل ہونا دونوں جائز و ممکن ہیں۔ اس لیے کہ ذات میں تبدیلی شاز ونادر بلکہ نا ممکن و محال ہے اور عین صفات میںتبدیلی جائز و ممکن ہے۔
سیدالطافقہ حضرت جنید بغدادی فرماتے ہیں کہ''رین وطنات کے قبائل میںسے ہے اور غین خطرات کے قبیلہ سے'' وطنات وطن کی جمع ہے۔ جس کے معنی قائم اور پائیداررہنے کے ہیں اور خطرات خطر کی جمع ہے۔ جس کے معنی عارضی اور ناپائیداری کے ہیں اسے اس طرح سمجھنا چاہیے کہ پتھر کبھی آئینہ نہیں بن سکتا۔ اگرچہ اسے کتنا بھی صیقل اور صاف وشفاف کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن اگر آئینہ زنگ آلود ہو جائے تو تھوڑا سا صاف کرنے سے وہ مُجلّی اور مصفّی ہو جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پتھر کے اندر تاریکی اور آئینہ کے اندر چمک اس کی ذاتی اور اصلی خوبی ہے۔ چونکہ ذات واصل قائم اور پائیدار رہنے والی چیز ہوتی ہے اس لئے وہ کسی طرح زائل نہیں ہوسکتی اور صفت چونکہ عارضی و ناپائیدار ہوتی ہے اور وہ قائم اور باقی رہنے والی چیز نہیں ہوتی اس لئے وہ جلد زائل ہو جاتی ہے۔
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری فرماتے ہیں میں نے یہ کتاب''کشف المحجوب'' ان لوگوں کا زنگِ کدورت دور کرنے لئے لکھی ہے۔ جو حجاب غینی یعنی پردۂ صفاتی ہیں گرفتار ہیں اور ان کے دلوں میں نور حق کا خزانہ موجود ہے۔ تاکہ اس کتاب کے پڑھنے کی برکت سے وہ حجاب اٹھ جائے اور حقیقی مصنی کی طرف انہیں راہ مل جائے۔ لیکن وہ لوگ جن کی سرشت و عادت ہی انکار حق ہو اور باطل پر قائم و برقرار رضاہی جن کا شعار ہو وہ مشاہدہ، حق کی راہ سے ہمیشہ محروم رہیں گے۔ ایسے لوگوں کے لئے یہ کتاب تو کیا کوئی بھی کتاب اثر نہیں کرے گی اور وہ ہمیشہ اسے تنقیدی نگاہوں سے دیکھیں گے''۔
حضرات داتا گنج بخش ہجویری کی تصنیف''کشف المحجوب'' کے ابتدائی صفحات میں وجہ تصنیف پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں اور دور حاضر میں جب ہم اپنی زندگی کے شب و روز کو دیکھتے ہیں تو ہم پر یہ حقیقت سے منکشف ہوتی ہے کہ ہر مسلمان کے اندر یہ خوبی یا وصف ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ نیکی سے متاثر ہوتا ہے اور اس کا دل راہ حق کی جانب مائل ہوتا ہے لیکن بسا اوقات حالات و واقعات زندگی میںدرپیش مسائل اسے راہ حق سے دور رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کے دل میں وہ نرمی اور سادگی ضرور برقرار رہتی ہے جو اسے راہ حق کی طرف آنے پر ہمیشہ اکساتی رہتی ہے۔ مگر ہم ایسے بھی مسلمان دیکھتے ہیں جو بظاہر تو مسلمان ہیں اور فرائض کی ادائیگی میں بھی پیش پیش رہتے ہیں مگر وہ راہ حق سے کوسوں دور نظر آتے ہیں کیونکہ راہ حق پر چلنے والا مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے شمع منزل بن جاتا ہے اور جو لوگ یہ راستہ اپنانا چاہتے ہیں وہ ہمیشہ انہی لوگوں کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کی زندگیوں کا معالعہ کرتے ہیں۔ جنہوں نے یہ منزل طے کی ہوتی ہے۔
اس لئے جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ وہ راہ حق کو تلاش کرنے کے سفر میں شریک ہوں وہ انہیں اولیائے کرام اور صوفیائے غطّام کے بیش بہا اور نایاب اقوال و تحاریر سے استفادہ کریں۔ کشف المحجوب اس کی واضح مثال ہے۔ جس کو پڑھ کر انسان حقیقت کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔