Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
تاریخ کا سبق |
حمید اختر
اقوام عالم کے لیے تاریخ فہمی کا ہنر لازم ہے کہ درپیش کسی بھی فکری اور سیاسی بحران سے نبٹنے کے لیے یہ علم معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔ مسلمانوں کے یہاں ماضی کی تاریخ، تاریخ سے بڑھ کر ایک المیہ کی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ایک دائرے، ایک نقطے کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے اور ہم ہیں کہ اس دائرے اور اس مرکزیت کو چھوڑنے پر رضامند ہی نہیں ہوتے۔ بعض دانشوروں نے اسے ''تہذیبی نرگسیت'' کا نام دیا ہے۔ حمید اختر نے اس مضمون میں کچھ اور اوامر کی نشاندہی بھی کی ہے، ان کا کہنا یہ ہے کہ اقوامِ عالم نے تو تاریخ سے کوئی سبق حاصل کیا ہو یا نہیں ہم نے نہیں کیا۔ (مدیر)
|
کچھ عرصہ قبل ہم نے برادر عزیز اطہر ندیم کی ایک تحریر کے حوالے سے اپنے ایک کالم میں طالبان اور ان سے ہمدردی رکھنے والوں کو مسلمانوں کی تاریخ میں جسے غلطی سے اسلامی تاریخ کا نام دیا جاتا ہے خارجیوں کے ایک گروہ کے درمیان مشابہت کا ذکر کیا تھا۔ اپنی تاریخ کا سنجیدگی سے مطالعہ کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ ایسے ہی دوسرے گروہوں کی طرح ''خوارج'' بھی اپنے زمانے کے مقتدر حلقوں سے سیاسی اختلاف کے نتیجے میں سامنے آئے تھے۔ مگر اس اختلاف کو بعد میں عقیدے کی حیثیت حاصل ہوگئی اور ان کا یہ عقیدہ یہ شکل اختیار کرگیا کہ جو کوئی ان کے ساتھ نہیں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور واجب القتل ہے۔
اس ضمن میں جب ہم نے اپنی تاریخ کے اوراق کو مزید کھنگالا اور بعض اہم لکھنے والوں اور غیر جانب داری سے تجزیہ کرنے والوں کی تحریروںکا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ مسلمانوں کی پوری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ حسن جعفر زیدی صاحب نے تو تاریخ فہمی اور اس فکری اور سیاسی بحران کے بارے میں خاصی علمی تحقیق کے بعد جو کچھ لکھا ہے اس کے مطالعے سے ان حالات کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے جن کی وجہ سے آج ہم مشکلات و مصائب کا شکار ہیں۔ ہمارا ذاتی خیال یہ ہے کہ قائداعظم نے گیارہ ستمبر1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں جو بیان دیا تھا وہ ان کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کی روشن مثال تھا لیکن اس ملک کے مقتدر حلقوں نے نہ صرف اس بیان کی اشاعت روکنے کی کوشش کی بلکہ بعد میں اس کی الٹ پالیسیاں اختیار کیں۔ پھر قرار داد مقاصد لائی گئی بعد ازاں اسے آئین کا حصہ بنا دیا گیا ، ضیاء الحق نے جہاد کے نعرے پر اپنا اقتدار مضبوط کرنے کی کوشش میں قوم کو غلط راستے پر ڈال دیا جس کا نتیجہ ایک ہی ہوسکتا تھا جو ہم ان دنوں بھگت رہے ہیں۔ اگر ہم بابائے قوم کے متعین کردہ راستے سے انحراف نہ کرتے اور ہندوؤں، مسلمانوں، سکھوں اور عیسائیوں کے درمیان مذہبی بنیادوں پر امتیاز کرنے کی بجائے ان سبھی کو پاکستانی شہری ہونے کے مساوی حقوق کا حقدار سمجھتے تو اس صورت حال سے یقیناً بچے رہتے جس کی وجہ سے آج سولہ کروڑ پاکستانیوں کے اس ملک کا وجود ہی خطرے میں نظر آرہا ہے اور یہ مملکت خدا داد فرقہ پرستوں کی زد پر ہے۔
احیائے اسلام کی تحریک میں جہاد کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہم نے جہاد کا راستہ ترک کردیا ہے اس لیے زوال کے شکار ہیں۔جعفر زیدی صاحب کی تحقیقات کے مطابق جو انہوں نے مستند تاریخی حوالوں سے بیان کی ہے مسلمانوں کی تاریخ میں اس قسم کے جہاد کی مثال یا تو خوارج کی ہے یا قرامطہ کی،خوارج حضرت علی اور امیر معاویہ سے برگشتہ ہو کر علیحدہ ہو جانے والے مسلمان تھے، مذہباً انتہا پسند اور راسخ العقیدہ تھے، ان کی نظر میں غیر خارجی مسلمان کافر تھے جن سے بجز اسلام یا تلوار کے کوئی دوسرا رویہ اختیار نہیں کیا جاسکتا اور یہ کہ ان کی عورتوں اور بچوں کا قتل بھی جائز ہے۔ قرامطہ اگرچہ مذہبی عقائد کے لحاظ سے خوارج سے مختلف تھے تاہم سیاسی مقاصد دونوں کے ایک تھے اور وہ یہ کہ کسی بھی مرکزی حکومت کی حاکمیت کو تسلیم نہ کرنا اور جہاں کہیں بھی موقعہ ملے بد نظمی اور بد امنی پیدا کرنا۔اپنے سیاسی مخالفین اور عوام الناس پر ظلم و ستم کرنا خوارج کی طرح ان کا بھی معمول تھا، جب بھی کسی علاقے پر قبضہ کرتے یا غلبہ حاصل کرتے تو بے دریغ لوٹ مار اور قتل و غارت گری کرتے تھے، طالبان اور ان سے ہمدردی رکھنے والی مذہبی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو ان کا رویہ بھی بعینہ یہی نظر آتا ہے۔یہ کچھ ہماری بد قسمتی ہے اور کچھ نا خواندگی اور کم علمی کا سبب ہے کہ ہمارے ہاں اکثر لوگ حیائے اسلام کے نعروں سے متاثر ہو کر ایسے گروہوں کے اثر میں آجاتے ہیں جو انہیں نجات کا راستہ دکھاتے ہیں، حسن بن صباح کی جنت اور خود کش حملہ آوروں کو جنت اور حوروں کی نوید دینے میں مماثلت صاف اور واضح نظر آتی ہے، خوارج کی تحریک اموی عہد میں بڑی طاقت ور تھی، وہ اپنے جہاد کو ''خروج فی سبیل اللہ'' کہتے تھے اور اس وجہ سے خارجی کہلاتے تھے، انہوں نے عراق، خراسان اور حجاز میں کئی بار علم بغاوت بلند کیا۔ ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے، خلق خدا کو بھی مارا مگر کہیں اپنی حکومت قائم نہ کرسکے، عباسی دور میں ان کی تحریک ماند پڑ گئی اور بالآخر معدوم ہوگئی۔ طالبان کا حشر بھی یقیناً یہی ہوگا کہ وہ اپنے اس حشر تک پہنچنے سے پہلے تباہی پھیلانے میں ضرور کامیاب ہیں، خوارج اور قرامطہ ہی نہیںہماری پوری تاریخ ایسے لوگوں کے ذکر سے بھری پڑی ہے جنہوں نے سیاسی اقتدار کے حصول کیلئے مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا۔ ابن خلدون نے مذہب کے نام پر مسلح تحریکیں چلانے والے کئی لوگوں کا ذکر کیا ہے جن میں بغداد میں خالدوویوس، سہیل بن سلام، سوس میں تو بندوی نامی صوفی اورعماّرہ میں عباس نامی شخص شامل ہے، ان لوگوں نے کتاب اللہ اور سنت رسولۖ کے قانون کے نفاذ کیلئے مسلح تحریک شروع کی۔ ابن خلدون کے بیان کے مطابق اصل میں یہ لوگ ریاست و سرداری حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کی آرزوان کے دل میں سمائی ہوتی ہے، اب چونکہ اسباب عادیہ ان کے سازگار نہیںہوتے اس لیے یہ اپنے مقصد تک پہنچنے سے عاجز رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ تمام اسباب سے کنارہ کش ہو کر دینی ڈھونگ رچاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مذہب کے پردے میں اپنے مقصود کو پالیں گے۔ اس معیار پر اگر ہم اپنے ہاں کی مذہبی جماعتوں کی 62 سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ان کے رویے اس سے مختلف نہیں بلکہ ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن کا روّیہ بھی واضح ہو جاتا ہے جس نے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے انتہا پسند مذہبی حلقوں کے خلاف نہ صرف زبان بند کر رکھی ہے بلکہ جس صوبے میں اس کی حکومت ہے وہاں ان کی متشددانہ کارروائیوں سے اغماض برتنے کی پالیسی بھی اپنائی ہوئی ہے، اس ساری صورت حال کی ذمہ داری اسلامی ریاست، نفاذ شریعت اور اسلامی نظام کے وہ نعرے ہیں جسے حسن جعفر زیدی بجا طور سے تجریدی اصطلاح قرار دیتے ہیں ان کے اس خیال کے بارے میں کہ اسلامی اتحاد و اخوت کی بنیاد پر مسلم امہ کا تصور بھی تجریدی تصّور ہے۔
احیائے اسلام کی تحریک یا نعروں کی بنیاد چند مفروضے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسلامی نظام حکومت کے احیائ، جہاد کے ذریعے کفّار کے خاتمے اور دنیا پر مسلمانوں کے غلبے اور ایسی ہی بہت سی خواہشوں کو ماضی کے حوالے سے پورا کرنے کی بجائے اگر ہم بدلے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے اور منجمد تاریخی مفروضوں کی بجائے سائنسی طور پر اپنے مذہب کی سربلندی اور اس کی تعلیمات عام کرنے پر توجہ دیں تو یہ ہمارے لیے یقیناً زیادہ بہتر ہوگا۔
ہم یہ بات متعدد بار دہرا چکے ہیں کہ قرآن شریف میںجو ہمارے دین کی بنیاد ہے کسی اسلامی ریاست کا ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔علماء اور فقہا اس کی تعبیر یہ کرتے ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسو لۖکو یہ معلوم تھا کہ دنیا مستقل طور پر ارتقا پذیر ہے اس لیے ان کی طرف سے قرآن شریف میں ایسی کسی ریاست کے خدوخال موجود نہیں کیونکہ ایسا کوئی بھی شکنجہ مسلمانوں کی ترقی میں رکاوٹ بن سکتا تھا۔ مگر احیائے اسلام کے جذباتی نعروں کے ذریعے مخصوص مذہبی اور سیاسی گروہ اسلامی ریاست کے قیام کے نعرے ہمیشہ ہی بلند کرتے رہے ہیں، جناب حسن جعفر زیدی نے گزشتہ دو ڈھائی سو سال کی تاریخ سے اس کی جو چند موٹی موٹی مثالیں پیش کی ہیں ان میںبرصغیر میںشاہ ولی اللہ کی علمی سطح پر شروع کی جانے والی ایسی تحریک بھی شامل ہے جسے بعد میں سید احمد شہید بریلوی نے وہاں تحریک کی صورت میں عسکریت کاجامہ پہنایا، انہیں عارضی کامیابی بھی حاصل ہوئی اور شمالی مغربی صوبے کے ایک حصے میں طالبان طرز کی شرعی حکومت بھی قائم ہوگئی لیکن کچھ ہی عرصے بعد 1891ء میں رنجیت سنگھ کے فرانسیسی جرنیلوں نے بعض قبائلیوں کی مخبری کی مدد سے بالاکوٹ کے مقام پر جہادی لشکرکو گھیرے میں لے کر سید احمد اور سید اسماعیل سمیت سینکڑوں جہادیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا،پشاور اور اس کے نواحی علاقے پر سکھ حکومت کا قبضہ واگزار ہوگیا ۔جہادیوں کا لشکر تتر بتر ہوگیا اورہزاروں بنگالی اور جہادی نوجوان جو اس جہاد کے لئے سینکڑوں میل دور واقع اپنے گھروں سے آئے یہاں مر کھپ گئے، تاریخ شاہد ہے کہ اس جہادی تحریک کا سب سے زیادہ فائدہ انگریروں کو ہوا، مشرقی بنگال کے مسلمان کسانوں کی مسلح تحریک جس سے بنگال کے انگریز فارم مالکان زچ ہوچکے تھے ماند پڑ گئی اور اس کا رخ سینکڑوں میل دورشمال مغربی سرحدی سکھ ریاست کی جانب موڑ دیاگیا، ہری سنگھ نلوہ نے جسے رنجیت سنگھ نے اس علاقے کا پہلا گورنر مقرر کیا تھا اس علاقے کے مسلمانوں پر وحشیانہ مظالم ڈھائے اور ان کا جینا دور بھر ہو گیا۔
بیسویں صدی کے اوائل میںتحریک خلافت کے دوران ہجرت کی شکل میں سامنے آنے والی تحریک دوسری مثال ہے، ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق اس میں حصہ لینے والوں کی تعداد 5 لاکھ سے 30 لاکھ تک تھی جو ہجرت کے نعروں کے اثر میں برادر اسلامی ملک افغانستان میں پہنچے تو اس نے انہیں قبول کرنے سے انکار کیا، ان کا جو حشر ہوا وہ ہماری تاریخ کا حصّہ ہے، حالیہ تاریخ میں ایک مثال نام نہاد افغان جہاد کی ہے، جو مذہبی جماعتیں ان دنوں قرآن پاک کی اس آیت(5/51) کا بار بار حوالہ دے رہی ہیں کہ''یہودو نصاریٰ'' کبھی مسلمانوں کے دوست نہیںہوسکتے ان کے بیشتر رہنماؤں نے اسی جہاد کے دوران یہودی لابی اور اس کے سرغنہ امریکی قومی سلامتی کے مشیر برزنسکی سے پشاور جاکر بہ نفس نفیس امدادی رقوم وصول کیں اوریہود و نصاریٰ سے مکمل یکجہتی کا اعلان بھی کیا، کیا یہ حیرت انگیز نہیں کہ افغانستان سے 1989ء میں سوویت یونین کے انخلاء سے لے کر 2001ء تک ان جہادی اسلامی تنظیموں میں حکومت سازی پر اتفاق نہ ہوسکا اور وہ بارہ برس تک خانہ جنگی میں مبتلا رہیں، مکہ میں بیت اللہ شریف میں بیٹھ کر معاہدے کرنے کے باوجود یہ ایک دوسرے پر اعتماد نہ کرسکیں ،اس کے باوجود یہی تنظیمیں اور گروہ پھر نفاذ اسلام کا پرچم لے کر میدان میں آگئی ہیں اور انتہا پسندی اور متشددانہ کارروائیوں سے خلق خدا کی تباہی اور بربادی کا سامان کررہی ہیں ، اگر ہم تاریخ کے اس سبق کوتسلیم کرلیںتوبہت سی مشکلات سے بچ سکتے ہیں۔بادشاہی نظام ہویا قبائلی گزرے ہوئے زمانوں میں کوئی ریاستی نظام کسی مذہب یا عقیدے سے پیدا نہیں ہوئے بلکہ اپنے اپنے علاقے کی معاشی و سماجی ترقی کے حوالے سے قائم ہوئے تھے اس کی ایک مثال میثاق مدینہ ہے جس کی علماء حضرات زیادہ تر غلط تاویلات پیش کرتے رہتے ہیں۔حقیقتاً معاہدہ جو آنحضرتۖ نے ہجرت کے بعد مدینہ میں مہاجرین، انصار اور یہودیوں کے درمیان طے کیا تھا اس کے مطابق ہر قبیلے کوما قبل اسلام سے رائج اپنے اپنے دستور کے مطابق اپنے معاملات چلانے کا حق تھا، یہودیوں کو اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے اپنے امور اپنے دستور کے مطابق بجا لانے کااختیار حاصل تھا، معروف معنوں میں کوئی ریاست ہی قائم نہیں کی گئی تھی۔اسلامی ریاست تو دور کی بات ہے، قرآن وحدیث میں بھی آپ کی بطور رسولۖ اطاعت پر زور دیاگیا ہے۔ بطور حکمران کے نہیں،خود آپ نے رسالت کا دعویٰ کیا نہ کہ حکمرانی کا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ آنحضرت ۖنے ایسے کسی نئے ادارے کو وضع کرنے کی بجائے جن سے عرب قبائل اس سے پہلے نا واقف تھے مروجہ اصولوں پر مبنی راستہ اختیار کیا۔ معاملات طے کرنے کے لیے ثالثوں کے تقررکا روایتی طریقہ اختیار کیا گیا۔مسلمانوں نے متعدد بار یہودی کاہن اپنے ثالث مقّرر کیے اور یہودیوں نے کئی بار حضورۖ کو اپنا ثالث مقرر کیا۔ اس رویے کے مقابلے میں آج احیائے اسلام کا نعرہ لگانے اور جہاد کے ذریعے کفار کا خاتمہ کرنے والی تنظیموں کے رویوں پر توجہ دی جائے تو صاف معلوم ہوگا کہ ان کی سرگرمیوں ،عزائم اور ارادوں کا تعلق اسلام اور اس کی تعلیمات یا روایات سے ہرگز نہیں ہے بلکہ وہ اس پردے میں اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہیں۔ سوات، بونیر اور مالاکنڈ کے علاقوں میں اپنے عارضی غلبے کے دوران جہادیوں نے عام مسلمانوں سے جو سلوک کیا اس سے کون واقف نہیں ، انہیں اسلام کے پاسبان سمجھنے والے سادہ لوح حضرات کا فرض ہے کہ وہ اپنے رویے پر سنجیدگی سے غور کریں۔
ایک اور تاریخی مغالطہ جس کی وجہ سے عالم اسلام بالعموم اور جنوبی ایشیا کے مسلمان بالخصوص مصائب اور ابتلاء کا شکار ہیں یہ ہے کہ مسلمانوں کا عروج ان کے درمیان اتحاد کی وجہ سے ہے۔ اس کے متعلق جناب حسن جعفری زیدی نے اپنے ایک پر مغز مقالے میں جن حقائق کی نشان دہی کی ہے ان کے مختصر ذکر سے اصل صورت حال واضح ہو جاتی ہے۔
ان کی تحقیق کے مطابق پیغمبرۖ اسلام کے زمانے سے لے کر آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مسلمان متحد رہے ہوں۔ یہ صورت حال صرف مسلمانوں پر ہی موقوف نہیں دوسرے مذاہب اور عقائد کے ماننے والے بھی باہمی مفادات پر لڑتے جھگڑتے رہے ہیں۔کیونکہ اتحاد عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ ہمیشہ مشترکہ مفاد کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ ماضی میں مسلمانوں کے اتحاد کی بات ہماری اپنی تاریخ کے مطابق درست ثابت نہیں ہوئی۔ آنحضورۖ کے انتقال کے بعد مرکزیت کے خلا کو پُر کرنے کے لیے آپ کے جانشین کے تقرر کے بارے میں نہ کتاب میں کوئی تصریح موجود تھی نہ سنت میں۔ چنانچہ خلفاء کی نامزدگی کے سلسلے میں صدیوں سے رائج قبائلی سماج کے طریقے بروئے کار لائے گئے۔ تیسری خلافت کا خاتمہ اورچوتھی خلافت کا قیام باغی بلوائیوں کی شمشیروں تلے انجام پایا جو نہ صرف قبائلی سماج بلکہ اس وقت کی موجودہ دنیا میں رائج دوسرے مروجہ نظام یعنی ملوکیت میں بھی اس وقت اختیار کیا جاتا تھا جب تنازعہ حل نہ ہوتا۔ اسلام کے ابتدائی تیس،چالیس برس کے دوران جبر تک طاقت کا مرکز جزیرہ نمائے عرب یعنی مدینہ میں رہا مسلمانوں نے صدیوں سے قائم قبائلی سماج کے سیاسی دستور کے رسم و رواج اختیار کیے اور وہ مؤثر بھی رہے لیکن جب اسلام ایسے علاقوں تک پھیلا جو ہزاروں برس سے موروثی بادشاہت کے نظام ملوکیت میں رہ رہے تھے تو پھر خلافت کامرکز بھی انہی علاقوں یعنی دمشق اور بغداد کی طرف منتقل ہوگیا۔ مولانا حنیف ندوی کا کہنا ہے کہ'' خلافت راشدہ کسی لگے بندھے نظام کا نام نہ تھا اور نہ اس کا قالب اورڈھانچہ ایسا دستوری تھا کہ اس کو نظام یا آئین کی موجودہ اصطلاحوں سے تعبیر کیا جاسکے اور اس سے کسی خاص حکومت پر استد لال کیا جاسکے''۔ لیکن جب حالات بدلے اور امیر معاویہ نے دمشق میں بازنطینی محلات میں رہائش اختیار کی اور شاہانہ تزک و احتشام ، لباس وپوشاک اختیار کیا تو حضرت عمر نے اس پر ناراضگی کا اظہار کیا۔ اس پر امیر معاویہ کا جواب یہ تھا کہ''میں بازنطینی سلطنت کی سرحد کے قریبی علاقے کا حاکم ہوں ۔جنگ وجہاد تزک و احتشام سے ان پر رعب داب ڈالنے کی ضرورت ہے'' حضرت عمر نے اس دلیل کو قبول کرلیا۔
افسوس ہے کہ آنے والے زمانوں میں اس لچک اور رواداری کی روایات ختم ہوگئیں جس کا اظہار ہماری تاریخ کے ابتدائی دور میں اور خود آنحضرتۖ کے زمانے میں ہوا۔ مسلمان ابتداء میں جزیرہ نمائے عرب کی قبائلی کنفیڈریشن کے سیکولر نظام پر رہے کہ وہاں تہذیبی ترقی اس مرحلے تک ہی ہوئی تھی پھر عالمی سطح پر رائج ملوکیت اور موروثی بادشاہت کے سیکولر نظام میں داخل ہوگئے کہ مفتوحہ علاقے تہذیبی ارتقاء کے اگلے مرحلے میں کئی صدیوں سے رہتے چلے آرہے تھے۔ مسلمان حکمرانوں نے بھی دین اور سیاست کو الگ رکھا اور علمائے دین نے کبھی سیاسی اقتدار کے حصول یا اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کوئی تحریک نہیں چلائی لیکن ہمارے ہاں پرانی روایتوں اور مفروضوں پر اصرار اور تکرار جاری ہے۔ اس قسم کی صورت حال ہمیشہ فتنہ و فساد پر منتج ہوتی ہے۔چنانچہ خلیفہ ثالث مسلمان بلوائیوں اور خلیفہ چہارم مسلمان خوارج کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ وہ بڑی لڑائیاں اکابر صحابہ اور اہلسنت کے مابین جنگ جمل اور جنگ حنین کی صورت میں لڑی گئیں اور اس کے کچھ عرصہ بعد ہی سانحہ کربلا درپیش ہوا۔بنوامیہ کے 90سالہ عہد اقتدار میں بے شمار چھوٹی چھوٹی جنگوں کے علاوہ گیارہ بڑی جنگیں ہوئیں جن میں لاکھوں مسلمان مارے گئے۔ امویوں کے اقتدار کے خاتمے پر عباسیوں کا عروج ہوا تو انہوں نے امویوں کو چن چن کر قتل کیا۔ عباسیوں کے پانچ سو سالہ(138ھ تا 656ھ) عہد اقتدار میں 37 عباسی خلفیہ ہوئے جن میں سے 14 مسلمانوں کے ہاتھوں قتل ہوئے البتہ اس دور کے ابتدائی زمانے میں مسلمان علمی، فکری اور تہذیبی ترقی میں اپنی معراج پر پہنچے۔ ادب، شعر،فلسفہ، ریاضی، کیمیا، طبعیات اور طب کے کئی ماہر پیدا کیے لیکن اس ترقی کا کوئی تعلق اسلامی اتحاد و اخوت سے نہیں تھا کہ ایسے کسی اتحاد کا دور دور تک کوئی نام و نشان موجود نہیں۔ ترقی کی وجہ یہ تھی کہ عالم پر قدغن لگانے والی اور تقلید جامد کی پیروی کرنے والی قوتیں کمزور تھیں جبکہ علم وفن کے حصول اور نئی اختراعات کو فروغ دینے کی معتزلہ جیسی تحریک کو عارضی طور پر سرکاری سر پرستی بھی حاصل ہوئی لیکن کچھ عرصہ بعد تقلید جامد کا غلبہ ہوا اور ان علوم کا چراغ بجھنا شروع ہوگیا اس کی جگہ فقہیت اورملائیت نے لے لی۔ چنانچہ جب تاتاری یلغار ہوئی تو ماورا النہر، خراسا، فارس، خوارزم اور بغداد تک ہر شہر میں فرقہ وارانہ تناؤ اور مولو یانہ مباحث عروج پر تھے۔ اشعری، حنبلی، شفعی،شیعہ و سنی کے تنازعات کا حال یہ تھا کہ کوئی ایک فرقہ تاتاریوں سے امان کاوعدہ لے کر ان کے لئے شہر کے دروازے کھول دیتا تھا کہ دوسرے فرقے کے لوگوں کو تباہ کردیاجائے مگر تاتاری امان کا وعدہ بھول کر سب کوتباہ و برباد کر ڈالتے تھے۔
اگر ہم غور کریں تو آج ہماری حالت بھی ویسی ہی ہے جب تک ہم خود فریبیوں کو ترک کرکے ماضی کے مفروضوں سے نجات حاصل نہیں کرتے ہماری حالت بہتر ہونے کے بجائے بگڑتی جائے گی۔ اس صورت حال سے نکلنے کا راستہ وہی ہے جو قائداعظم نے اپنی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر میں تجویز کیا تھا اور جس سے انحراف کی سزا ہم مسلسل بھگت رہے ہیں۔اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ ہم اپنے لیے وہی نظام حکومت اختیار کریں جسے آج کی مہذب دنیا نے درست سمجھا ہے یعنی پارلیمانی نظام۔ یہ ہمارے مذہب سے ہرگز متصادم نہیں ہے بلکہ ان روایات پر عمل پیرا ہونے کی واضح صورت ہے جس پر آنحضرتۖ،خلفائے راشدین اور ان کے زمانے کے فوری بعد آنے والے مسلمانوں نے عمل کیا۔ تاریخ کایہ سبق بھی یادرکھنا ضروری ہے کہ مذہب یا عقیدہ اتحاد قائم نہیںکرتا( اس کی ایک مثال مشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی ہے) کسی قوم کے عروج اور ترقی کا تعلق مذہبی اتحاد و اخوت سے نہیں ہوتا بلکہ ہرکوئی اپنے مفاد کے حوالے سے اتحاد کرتا ہے، نہ صرف ظالم اپنے مفاد کیلئے متحدہو جاتے ہیں آج امریکی سامراج اور افغانوں کے حق میں غیرمسلم عوام یورپ، امریکہ، جاپان اور کوریا میں مظاہرے کررہے ہیں جبکہ بیشتر مسلمان ممالک کی حکومتیں امریکہ کی اتحادی ہیں۔ ایسے میں مسلمان عوام کے فطری اتحادی وہ غیر مسلم عوام ہیں جو عالمی امن کے مشترکہ دشمنوں امریکہ اور اس کی حلیف مسلم و غیر مسلم حکومتوں پر مشتمل ہیں مگر ہمارے جہادی جنہیں کفار قرار دے کر ختم کرکے غلبہ اسلام کے نعرے پر بنی نوع انسان کی تباہی اور بربادی کی کوشش کررہے ہیں۔
(روز نامہ ''ایکسپریس'' کے شکریے کے ساتھ)
|
|
|
|
|