Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
طالبان کی سرایت پذیری: خدشات اور حفاظتی اقدامات |
صفدر سیال
آج جب مہذب دنیا دیکھتی ہے کہ طالبان کا بڑھتا ہوا سیلاب اپنے بعض قریبی ہمسایہ ممالک کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا تو وہ پریشان ہو اٹھتی ہے اور اس کے تدارک کے لیے مقدور بھر کوششوں کا جائزہ لیتی ہے اور ان وسائل کو جمع کرنے کی سعی کرتی ہے جو اس سیلابی ریلے کے سامنے بند باندھ سکے۔
تاہم عجیب بات یہ ہے کہ وہ اس امر پر غور نہیں کرتی کہ سیلاب کا یہ پانی یہاں جمع کس طرح ہوا؟ کیا اس وقت ہماری آنکھیں بند تھیں، جب افغانستان پر روسی جارحیت کے دوران مجاہدین پیدا کیے جا رہے تھے اور انہیں رامے، درھمے، سخنے، مدد مہیا کی جا رہی تھی؟ مجاہدین پاک افغان سرحد کے ساتھ نہ صرف تربیتی کیمپ قائم کر رہے تھے بلکہ عبداللہ عظام نے ''مکتب الخدمت'' کے نام سے پشاور اور اسامہ بن لادن نے ''مسجد الانصار'' کے تحت فاٹا کی کر م ایجنسی میں اپنے مرکز قائم کر لیے تھے۔ یہ صورت حال اپنی جگہ … صفدر سیال اس مضمون میں سوال یہ اٹھاتے ہیں کہ آیا، اب یہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے یا اس کا سلسلہ یونہی جاری و ساری ہے۔ (مدیر)
|
تعارف
دینی مدارس سے آنے والے طلبا نے جن میں زیادہ تعدا د پاکستان کے اندر قائم شدہ کیمپوں کے پناہ گزینوں پر مشتمل تھی جب 1994ء میں طالبان کے روپ میں افغانستان میں مجتمع ہو کر قندھار پر قبضہ کر لیا تو اس وقت وہ دنیا کے سامنے ایک پختہ اور منجھی ہوئی تنظیم کے طور پر سامنے آئے ان کا مذہبی و سیاسی تدبر کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی اور نہ ہی ان کے جہادی عزائم ڈھکے چھپے تھے۔ انہوں نے افغانستان میں امریکہ اور پاکستان کی پشت پناہی سے روس کے خلاف کلیدی کردار ادا کیا تھا یہ افغان جنگ کا ہی نتیجہ تھا کہ پاک افغان سرحد کے ساتھ طلبا کے مدارس کی کھیپ اگ آئی تھی اور پاکستان کا دور افتادہ خطہ کراچی بھی ان کی پہنچ سے دور نہیں رہا تھا۔
روسی فوجوں کی واپسی کے بعد افغانستان کو نسلی اور گروہی بدنظمی کا سامنا تھا۔ ایسے میں طالبان اسلامی قوانین (شریعت) کی روشنی میں انصاف اور امن کا ایجنڈا لے کر اٹھے۔ افغانستان کے جنگ زدہ لوگوں کے پاس امن و سلامتی کے لیے اب کوئی دوسری راہ نہیں بچی تھی چنانچہ طالبان کی بحیثیت پختون قومیت اور مذہبی مدارس کی تعلیمی استعداد نے افغانیوں کے دلوں میں گھر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
افغانستان پر روسی جارحیت کے دوران مجاہدین، پاک افغان سرحد کے ساتھ تربیتی کیمپ قائم کر چکے تھے۔ اس وقت عبداللہ عظام نے ''مکتب الخدمت'' کے نام سے پشاور میں جبکہ اسامہ بن لادن نے "مسجد الانصار "کے تحت فاٹا کی کرم ایجنسی میں اپنے مراکز قائم کر لیے۔ اتحادِ اسلامیہ افغانستان کا مرکز بھی علی خیل کی جاجی کنٹونمنٹ کے قریب واقع تھا اس کے علاوہ پاکستانی سرحد کے ساتھ 10 کلو میٹر کے فاصلے پر حزب اسلامی، جمعیت اسلامی اور حزب اسلامی (خالص) نے بھی اپنے اپنے تربیتی کیمپوں کا آغاز کر دیا۔ حزب المجاہدین کے عسکریت پسند جو کہ فاٹا کی ایجنسی شمالی وزیرستان کے ہیڈکوارٹر میرانشاہ سے تعلق رکھتے تھے افغانستان میں داخل ہونے کے لیے غلام شاہ چیک پوسٹ کا راستہ استعمال کرتے تھے۔ وہ عموماً جلال الدین حقانی کی تربیتی چوکی میں رپورٹ کرتے ۔مذہبی مدارس نے ان مجاہدین کی بھرتی اور تربیت کے لیے بنیادی کردار ادا کیا اور یہ رجحان روس کے ٹوٹنے کے بعد بھی جاری رہا۔ ان مدارس کے طلبا کی بدولت خاص طور پر پاکستان کے قبائلی علاقوں اور صوبہ سرحد میں طالبان کی طاقت میں روز افزوں اضافہ ہوتا رہا۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے اسامہ بن لادن نے بھی بے تحاشا فنڈ مہیا کیا جبکہ جلال الدین حقانی اور فضل الرحمن خلیل کی حرکت المجاہدین نے پاکستان بھر سے نئے ریکروٹس کی بھرتی جاری رکھی۔
9/11 کو امریکہ پرحملوں کے بعد ایک بار پھر افغانستان دنیا کے منظرنامے پر نمودار ہوتا ہے۔ جہاں طالبان نے اپنی ساکھ خاصی مضبوط بنا لی تھی اور القاعدہ کے عسکریت پسند بھی ان کی پناہ میں تھے۔ جب امریکہ نے افغانستان میں چڑھائی کی تو طالبان نے محسوس کیا کہ وہ امریکی ہوائی حملوں کے متحمل نہیں ہو سکیں گے چنانچہ زیادہ تر افراد نے پاکستان کی مغربی سرحد کے ساتھ اپنے مستقر قائم کر لیے جہاں سے انہوں نے جہادی کارروائیاں جاری رکھیں۔ اس ناگہانی خطرے کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان نے بھی افغانستان سرحد کے ساتھ ساتھ اپنی مسلح فوج کے لیے 186 پوسٹیں تعمیر کر لیں اسی دوران حکومت پاکستان اپنی سرحد کے ساتھ ساتھ بسنے والے قبائلیوں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ وہ طالبان اور دوسرے مجاہدین کو پناہ دینے سے باز رہیں مگر طالبان نے اپنی روایتی ثقافت اور مذہبی روا داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف افغان طالبان کی مدد جاری رکھی بلکہ حکومتی پیش کش کو یکسر نظر انداز کر دیا۔
پاکستان کی حکومت فاٹا اور صوبہ سرحد میں امن معاہدوں اور سیکورٹی آپریشن کے باوجود طالبان کی پھیلتی ہوئی سرگرمیوں کو روکنے میں ناکام رہی بعض دفعہ دونوں طریقے بیک وقت بھی آزمائے گئے۔ نومبر 2001ء میں امریکی حملوں کے بعد میرانشاہ میں حقانی مدرسہ اور بیس کیمپ بند کر دیئے گئے۔لیکن حقانی اپنی سرگرمیاں برابر جاری رکھے ہوئے ہے۔ افغانستان کے طالبان کو مجاہدین بھی مہیا کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ سرحد کے آر پار امریکی ڈرون حملوں کی زد میں رہتے ہیں۔ حقانی کی عسکری تنظیمی شعبے کی سربراہی اس کے دو بیٹوں ناصرالدین حقانی اور بدرالدین حقانی کے سپرد ہے جبکہ ان کا ایک اور بیٹا سراج الدین حقانی عرف خلیفہ جی تمام تنظیمی امور کا سربراہ ہے۔ پاکستان میں گذشتہ سات سال کے عرصے میں طالبان کے گروہوں میں اضافہ ہوا ہے۔ دسمبر 2007ء میں 40 عدد سے زائد طالبان گروپوں نے بیت اللہ محسود کی قیادت میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) قائم کی جس کے ایجنڈے میں افغانستان کی بیرونی طاقتوں سے آزادی، صوبہ سرحد اورفاٹا میں اسلامی شریعت کا نفاذ اور پاکستانی فوجی قوتوں کو نشانہ بنانا شامل تھا۔ القاعدہ کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے TTP مقامی قبائل، سیاسی لیڈروں اور پاکستانی فورسز کے خلاف نہایت و حشیانہ کارروائیاں کرتی۔ TTP ان طالبان اور عسکری گروہوں کو بھی نشانہ بناتی جو پاکستانی افواج کے خلاف اقدامات میں اس کے ساتھ تعاون سے انکار کر دیتے۔
TTP کے ظالمانہ اقدامات کے جواب میں جون 2008ء میں ایک اور طالبان اتحاد، مقامی تحریکِ طالبان یا وزیری الائنس کے نام سے سامنے آیا اس میں 14 عدد طالبان جماعتیں شامل تھیں اور یہ گروپ مولوی نذیر اور کمانڈر گل بہادر کے زیر قیادت کام کر رہا تھا۔ فاٹا کی سات ایجنسیوں اور صوبہ سرحد کے کچھ علاقوں میں کل عسکریت پسند جو کہ مختلف طالبان گروپوں سے وابستہ تھے ان کی تعداد 120,000، افراد سے زائد خیال کی جاتی ہے۔ اِن اعداد و شمار میں وہ طالبان گروپ شامل نہیں جو کہ صوبہ سرحد کے مختلف اضلاع اور بلوچستان کی پختون پٹی اور سندھ کے شہری علاقوں میں سرگرمِ عمل تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی طالبان کی تعداد افغان طالبان سے کم نہیں ہے اور ڈیورنڈ لائن کے اطراف میں 200,000 سے بھی زائد طالبان اپنا وجود رکھتے ہیں۔
ساتھ ہی افغان طالبان نے افغانستان کے اندر مشرقی اور جنوبی پشتون علاقوں میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے ہوئے، حملوں کی شدت میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ برطانیہ کے صف اول کے ملٹری کمانڈر بریگیڈیئر مارک کارلیٹن سمتھ کا خیال ہے کہ افغانستان میں اتحادی افواج کی واضح فتح ناممکن ہے۔ چنانچہ برطانیہ کو طالبان سے کسی ممکنہ معاہدے کے لیے ہر دم تیار رہنا چاہیے۔ امریکی سنٹرل کمانڈ کے انچارج جنرل ڈیوڈ پیٹرس بھی افغانستان جنگ کا خاتمہ جلد نہیں سمجھتا۔ وہ کہتا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف ایک لمبی جنگ کی تیاری کرنا ہو گی۔ درحقیقت 2006ء سے طالبان کی افغانستان اور پاکستان کے محاذوں پر جنگی استعداد کار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور وہ جارحانہ عزائم رکھتے ہیں۔
پختون قوم کا مذہبی اور لسانی مزاج، طالبان کی ہمدردی کی اصل بنیاد
افغانستان میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا اثر ڈیورنڈ لائن کے پاکستانی علاقوں میں رہنے والے افراد پر بھی براہِ راست پڑتا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ دونوں اطراف کے لوگوں کی یکساں سماجی اقدار ہیں وہ نسل اور مذہب کے حوالے سے ایک قوم ہیں اور اکثریت کا مسلک بھی حنفی یا سنی اسلام ہے۔
افغانستان میں عوام کی اکثریت پشتون پر مشتمل ہے یہ لوگ جنوب مشرقی افغانستان اور شمال مغربی پاکستان میں بستے ہیں۔ فاٹا کی سات ایجنسیوں خیبر، کُرم، اورکزئی، مہمند، باجوڑ اور شمالی اور جنوبی وزیرستان میں تین ملین قبائلی آباد ہیں جن میں 28 ملین پشتون پاکستان کے بندوبستی علاقوں میں جبکہ 15 ملین افغانستان میں بستے ہیں۔ سرحدوں کے دونوں اطراف میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ شادیاں، کاروبار اور بعض اوقات قبائلی دشمنیوں میں بھی گھرے رہتے ہیں یہ تمام لوگ ''پشتون والی'' روایت کا احترام کرتے ہیں جو کہ قبائل کے لیے ایک اعلیٰ اور عزّت کا قبائلی دستور ہے۔
13 ویں اور 16ویں صدی کے درمیان کئی پشتون قبائل افغانستان سے ہجرت کر کے ان علاقوں میں آ بسے جو اب پاکستان میں شامل ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کے اطراف میں رہنے کے باوجود انہوں نے اپنے رہن سہن اور قبائلی نظام کو صدیوں سے برقرار رکھا ہوا ہے حالانکہ ان پر ہندوستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کا خاصا دبائو رہا۔ افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں روز مرّہ کے معاملات کے لیے قبائلی قانون موجود ہے اس لیے سیاسی طور پر دونوں اطراف میں رہنے والے قبائل کے لیے سرحد کی اہمیت محض واجبی حیثیت کی حامل بن کر رہ گئی ہے۔
افغانستان کے موجودہ تناظر میں اگر پختون قوم کا تاریخی پس منظر دیکھنا ہو تو اس کے لیے ماضی میں جھانکنا پڑے گا جب انڈیا میں مغل، ایران میں صفوی حکمران اور ازبک حکومت وسطی ایشیا میں انحطاط پذیر تھیں جو کہ باہمی سیاسی ابتری اور جنگوں کا نتیجہ تھا۔ اسی دور میں افغان اور پشتون کی اصطلاحات مستعمل ہوئیں اور پشتون کو حقیقی افغان کے طور پر تسلیم کر لیا گیا۔ 1747ء میں پشتون غزالی قبائل کا ''لوئی جرگہ'' 9 دن تک قندھار میں منعقد ہوا جس میں احمد شاہ ابدالی کو بادشاہ چن لیا گیا۔ احمد شاہ ابدالی اپنے نام کے آخری حصے کو درانی سے بدل کر پشتون قوم کا نجات دہندہ بن گیا۔ 1772ء میں درانیوں نے درالحکومت، قندھار سے کابل منتقل کر دیا اور شمالی افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد دوسری نسلوں کو بھی افغان قوم میں مدغم کر لیا۔ اس طرح آئندہ آنے والی دو صدیوں تک غزالیوں اور درانیوں، پشتون اور غیر پشتون کے درمیان جھگڑے اور تنازعات جاری رہے۔
پاک افغان سرحد پر پاکستانی پشتون کی مدد افغانوں کے لیے یا ان کی پاکستانی پشتون کے لیے یاموجودہ صورتِ حال میں طالبان کی مدد کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ یہ لوگ انگریزوں اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے حکمرانوں کے خلاف بھی اسی طرح نبردآزما رہے ہیں۔ نادر خان (جو کہ 1929ء سے 1933ء میں قتل ہونے تک افغانستان کا بادشاہ رہا) کو 1929ء میں ڈیورنڈ لائن کے دونوں اطراف کے پشتونوں نے حبیب اللہ کلکانی (جو کہ بچہ سقہ کے نام سے مشہور تھا) کے خلاف بھرپور مدد فراہم کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ پشتون قومیت کو مضبوط کرنے ا ور افغان بھائیوں کی مدد کے حوالے سے وزیرستان ایک نہایت اہم مقام رکھتا ہے۔
روسی مداخلت کے وقت بھی ایسی ہی مثال دیکھنے میں آئی جب انہی مذہبی اور نسلی بنیادوں پر سرحد کے دونوں جانب کے پشتونوں نے مل کر دشمن کا مقابلہ کیا۔ سرحد کے اطراف میں بسنے والے پشتون قبائل نے جب یہ دیکھا کہ مارکسی اور سیکولر نظریات اسلامی ا ور پشتون روایت کی راہ میں مزاحم ہوں گے تو وہ اسلام اور اپنی مذہبی پہچان کو بچانے کے لیے میدانِ عمل میں کود پڑے۔ افغانستان کے شمالی علاقہ جات سے شروع ہونے والا یہ جہاد جلد ہی ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا اس طرح افغان پشتونوں کی حمایت میں پاکستانی پشتون بھی صف آرا ہو گئے۔
طالبان کی اس ابتدائی کامیابی کا راز بھی بنیادی طور پر انہی دو اجزاء پر مشتمل تھا یعنی پشتون نسل اور اسلام نواز روایات۔ اس کے علاوہ انہیں پشتو زبان، پشتون افرادی قوت، حنفی اسلامی مکتبہ فکر، بنیاد پرستی کے رجحانات اور اقتصادی مدد اور مذہبی تعلیمی اداروں کی صورت میں بھی ممکنہ فوائد حاصل تھے۔
اسلامی بنیاد پرستی کے زعم نے طالبان کو ایک مذہبی تحریک میں بدل دیا ہے۔ اس کی سماجی پذیرائی میں نسلی پہلو کی آمیزش سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ نسلی اقلیتوں کو طالبان نے قدیم اسلامی روایات کے امین اور پشتون قوم کی سربلندی جیسے مقاصد کی تکمیل کا عندیہ دیا اور ان خیالات کی اس وقت تصدیق ہو گئی جب طالبان نے مزار شریف پر قبضہ کرنے کے بعد ایک دم مسلکی تعصبانہ رویہ اپنایا۔ افغانستان میں طالبان کے دورِ حکومت میں شیعہ اور ہزارہ قبائل کے افراد سکون سے عاری رہے۔ طالبان کی نسل پرستانہ حکمت عملی کی وجہ سے ہزاروں لوگ ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور سینکڑوں لوگوں کو زیر حراست بھی رکھا گیا ان میں 2000 تاجک اور ہزارہ قبیلے کے وہ افراد بھی شامل تھے جنہیں کابل سے گرفتار کر کے بدنام زمانہ پل چرخی جیل سمیت کئی دیگر جیلوں میں بھی قید رکھا گیا۔ روسی فوجوں کی افغانستان سے واپسی کے بعد بھی پشتون اور غیر پشتون کے درمیان کھچائو بڑھ گیا۔ اب طالبان مذہبی اور پشتون حوالے سے جانے پہچانے جا رہے تھے۔
طالبان کے مختلف محاذ
روسی مداخلت ختم ہوتے ہی 1992ء سے 1997ء تک افغانستان کو خانہ جنگی کا سامنا کرنا پڑا۔ جنگجو اپنے اپنے حصے بخرے کر رہے تھے اسی جنگ کے نتیجے میں طالبان ایک طاقت بن کر سامنے آئے۔ روس کے خلاف جنگ سے مایوس نوجوان پاکستان میں اپنے مدرسوں میں واپس لوٹ رہے تھے یا واپس افغانستان میں اپنے گھروں کی راہ لے رہے تھے۔ ان کے بڑے کسی فیصلے کے منتظر تھے۔ چنانچہ ملا عمر کی قیادت میں انہوں نے اپنے مختصر ایجنڈے کوپیش کیا جس کے اہم نکات میں امن و امان کی بحالی، لوگوں سے اسلحہ کی بازیابی، شریعت کے قانون کا نفاذ اور افغانستان میں اسلام کو مضبوط کرنا شامل تھا۔ طالبان نے جلد ہی اپنے آپ کو عسکری طاقت کے طور پر منظم کرنے کے بعد 1994ء کے موسم خزاں میں قندھار پر قبضہ کر لیا اور پھر شمال اور مغرب کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے 1995ء میں ہرات پر اور پھر 1996ء میں کابل پر بھی قابض ہو گئے۔
اس صورت حال نے عرب اور وسطی ایشیا سے غیر ملکی اسلامی عسکریت پسندوں کی افغانستان میں آمد کی حوصلہ افزائی کی۔ پاکستانی طالبان تو پہلے سے ہی سرحدوں کی قید سے آزاد تھے مذہبی گروہوں مثلاً دیوبندی یا اِن کی بڑی جماعت جمعیت العلمائے اسلام (JUI) تک ہی طالبان کی حمایت محدود نہیں تھی بلکہ اس کا حلقہ خاصا وسیع ہو چکا تھا۔ پاکستان کے مذہی گروہ اور سیاسی پارٹیاں، خصوصاً جن کی جڑیں مدارس سے جڑی تھیں روزِ اول سے کابل کی فتح، ہندوکش تک سرحدوں کے پھیلائو اور ملک کے شمالی حصوں میں رہنے والے روایتوں حریفوں سے جنگ تک، اپنی بھرپور مدد فراہم کر رہی تھیں۔ جو خوراک اور مالی امداد کی صور ت میں ہوتی تھی۔ نوجوان جنگجوئوں کو مقدس جنگ کی اہمیت جتلا کر کہ وہ کافروں کے خلاف جہاد میں شریک ہیں، جنگ لڑنے کے لیے قائل کر لیا جاتا۔ ہزاروں عرب، چیچین اور ازبک باشندے بھی طالبان کی قوت کا باقاعدہ حصہ بن چکے تھے۔
طالبان کے ابتدائی ایجنڈے کو سیاسی اورمذہبی ناخدائوں نے وسعت دے رکھی تھی اور یوں طالبان رفتہ رفتہ مکمل طور پر القاعدہ کے اثر و رسوخ میں آ گئے جنہوں نے طالبان کو زیرنگوں کرنے کے لیے ان کی عملی اور اقتصادی مدد جاری رکھی اور وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ دنیا ان کی موجودگی سے بے خبر رہے۔ 1996ء سے 2001ء کے درمیان القاعدہ نے دنیا بھر سے افغانستان میں اکٹھے ہونے والے تقریباً 30,000 عسکریت پسندوں کی عسکری تربیت کی۔
پاکستان سے جانے والے زیادہ تر جنگجوئوں کی تعداد ان افراد پر مشتمل تھی جن کا مذہبی متعصب دہشت گرد تنظیموں سے تعلق تھا اور اب اپنی جماعتی ہمدردیوں کی بنیاد پر افغانستان میں پناہ گزیں ہو چکے تھے۔ ان کے باہمی تعلقات کی اہم وجہ، روسی مداخلت کے دوران مشترکہ جنگی کارروائیاں اور پاکستان کے چند مدارس میں ہم مکتب رہنا تھا ان میں مشترکہ مسلکی تعلق، مدارس کی سماجی سرگرمیاں، مشترکہ پالیسی اورسماجی اور سیاسی ہم خیالی جیسے اہم امور شامل تھے۔
تاہم یہ صورت حال زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔ سقوطِ کابل کے بعد اب طالبان حکومت کے پاس صرف ایک ہی راستہ تھا کہ وہ افغانستان کے دور دراز علاقوں میں سر چھپا لیں یا پاکستان میں اپنے مددگاروں کے اڈوں پر منتقل ہو جائیں۔ چنانچہ دو سالوں کی طوالت کے دوران یعنی جنوری 2002ء سے 2004ء میں موسم بہار تک طالبان، القاعدہ اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے عسکریت پسند پاکستان کے قبائلی علاقوں خصوصاً جنوبی وزیر ستان میں آ کر آباد ہوتے رہے۔ پاکستانی خفیہ ایجنسیاں اس پر متفق ہیں کہ 2003ء میں سابق صدر پرویز مشرف پر ہونے والے قاتلانہ حملوں کی منصوبہ بندی جنوبی وزیرستان میں کی گئی تھی۔ مارچ 2004ء میں پاک فوج نے ان علاقوں میں آپریشن کیا جس کے نتیجے میں 46 جوان کام آئے جبکہ 63 عسکریت پسند مارے گئے اور 166 کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسی آپریشن کے بعد وزیری عسکریت پسند ہیرو کے طور پر ابھرے اور نیک محمد کا رتبہ معتبر ہو گیا وہ افغانستان میں طالبان کے شانہ بشانہ لڑ چکا تھا اور القاعدہ کے لیڈروں کو تو رابورا کی پہاڑیوں سے باحفاظت نکال لانے پر مشہور تھا۔ چند ہفتوں بعد اس نے ملا داد اللہ کو اپنے حفاظتی چھاتے میں کوئٹہ سے جنوبی وزیرستان لانے میں مدد فراہم کی تھی جو کہ وہاں طالبان کو منظم کرنا چاہتا تھا۔
طالبان حکومت کو امریکی مداخلت کے بعد دوبارہ برسرِ اقتدار لانے کے لیے پاکستانی طالبان نے شمالی ا ور جنوبی وزیرستان میں کئی حکمت عملیاں اور منصوبے تیار کیے۔ وہ ایک ایک کر کے قبائلی ایجنسیوں پر قابض ہو تے گئے جنوبی اور شمالی وزیرستان سے باجوڑ اور مہمند ایجنسی تک جا پہنچے فوج کی جانب سے ہر جارحانہ اقدام نے انہیں اپنے خیالات کو مزید پھیلانے اور مزید علاقے کو اپنے تصرف میں لانے کی حوصلہ افزائی کی۔
5 ستمبر 2006ء کو حکومت نے شمالی وزیر ستان کے طالبان کے ساتھ ایک اور معاہدہ کیا حالانکہ عسکریت پسندوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ سرحد پار افغانستان میں حملے نہیں کریں گے لیکن پاکستان کے پاس ایسے کوئی ذرائع نہیں تھے جو ڈیورنڈ لائن کے آر پار خلاف ورزیوں پر طالبان کو جزا و سزا دے سکیں۔ طالبان کا دوسرا نشانہ پاکستان کی سیکورٹی کے ادارے تھے۔ اس وقت فاٹا طالبان کی عسکری سرگرمیوں کا مرکز بن چکا تھا جہاں سے افغانستان کے لیے تربیتی اڈے اور افرادی قوت مہیا کی جاتی اور صوبہ سرحد میں طالبان کے نظریات پھیلانے کا کام انجام دیا جاتا۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت نے درحقیقت پاکستان کے مدارس کے طلباء اور عسکریت پسند گروہوں کو بے حد متاثر کیا تھا۔ طالبان کے کابل پر قبضے کے دو سال بعد ہی پاکستان میں ویسی ہی تبدیلیوں کے لیے راہ ہموار کرنا شروع کر دی گئی۔ فاٹا کی اورکزئی ایجنسی میں 1998ء میں ملا محمد رحیم نے افغانستان میں طالبان کی طرز پر پہلی ''تحریکِ طالبان ''جماعت کی بنیاد رکھی۔ اپنے قیام کے فوراً بعد ہی تحریک نے ٹیلی ویژن، وی سی آر اور موسیقی کی دوسری تفریحات پر پابندی عائد کر دی۔ 13 دسمبر 1998ء کو اس شرعی عدالت نے ایک قاتل کو پھانسی دے دی۔ تحریک طالبان کے رہنمائوں نے جلد ہی تحریک کو اورکزئی ایجنسی کے دیگر 18 قبائل تک پھیلا دیا اور اس میں نیم قبائلی علاقے بھی شامل تھے۔
2001ء تک سرحدی پٹی کے دونوں اطراف کے رہنے والے طالبان نے افغانستان میں ''اسلامی خلافت'' کے مرکز پر اپنا ارتکاز قائم رکھا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو افغانستان کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا کیونکہ انہی قبائل نے پہلے غیر پشتون جنگجوئوں کے خلاف اور دوبارہ امریکی فوج سے نمٹنے کے لیے انہیں افرادی قوت مہیا کی تھی۔ اگر فاٹامیں ایک نظر پاکستانی طالبان کے بڑے گروہوں پر ڈالی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ بشمول نیک محمد، عبداللہ محسود، بیت اللہ محسود، مولوی فقیر، گل بہادر اور مولوی نذیر معہ دوسرے لیڈروں کے 11 ستمبر کے امریکہ پر حملوں سے پہلے بھی افغان طالبان کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔
حفاظتی اقدامات
پاکستان اور افغانستان کے طالبان نہ صرف ان دونوں ممالک کے لیے خطرہ ہیں بلکہ پورا خطہ ان سے متاثر دکھائی دیتا ہے افغانستان جو کہ اپنی سالمیت، امن اور بقا کی جنگ لڑ رہا ہے مزید تنازعات کا متحمل نہیں ہوسکتا ادھر پاکستان بھی ان باہمی جھگڑوں کو برداشت کرنے سے عاجز آ چکا ہے۔ لیکن زمینی حقائق مختلف نقشہ پیش کرتے ہیں۔ نہ تو نیٹوا امریکی (NATO - US)فوجیں طالبان کے خطرے کو کم کرنے میں کامیاب ہوئیں اور نہ ہی افغانستان کے سیکورٹی کے ادارے ملک میں امن و امان سے دو چار ہیں یہاں بھی طالبان نے اپنے آپ کو خاصا مضبوط کر لیا ہے انہوں نے اپنے افرادی علاقوں اور صوبہ سرحد میں سرگرم پاکستانی افواج میں بد دلی اور عوام میں مایوسی پھیلائی ہے۔
طالبان کی جانب سے دونوں ممالک میں بڑھتے ہوئے خطرات کو سمجھنے کے لیے تین سطح پر تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ حکمت عملی، عملی کارروائی اور چابک دستی۔ طالبان نے پاکستان اور افغانستان میں اپنی حکمت عملی اور نظریے کو کامیابی سے پھیلایا ہے۔ انہوں نے دونوں ممالک میں اپنے اصولوں کی اسلامی ضابطہ حیات کے تناظر میں جامع تشریح کی ہے اب وہ اپنے نظریات کے دائرے کو مزید وسیع کرتے ہوئے مذہب اور نسلی بنیاد پر عوام الناس پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ وہ اپنے دشمنوں سے ہوشیار رہیں۔ طالبان اپنے ''نظریاتی دشمنوں'' کو معاف نہیں کرتے جنہیں دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے نمبر پر وہ لوگ ہیں جو کہ ''غیر اسلامی تعلیمات'' کا احیا اور تقلید کرتے ہیں اور دوسرے نمبر پر ''کافر یا ان کے دوست'' ہیں۔ پہلی قسم بڑی تعداد میں ایسے افراد یا اداروں پر مشتمل ہے جس میں لڑکیوں کی تعلیم، عورتوں کے حقوق اور ملازمتیں، موسیقی اور وڈیو کی دکانیں، انٹرنیٹ کیفے، NGO اور مغربی مفادات کے مراکز وغیرہ شامل ہیں۔ یہ لسٹ یہاں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس بات کا طالبان خود فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں کہ کون سی شے غیر اسلامی ہے اور پھر مجرم کو موقع پر ہی سزا دی جاتی ہے۔ لٹریچر اور فون کالز کے علاوہ طالبان کے اپنے FM ریڈیو چینل بھی ہیں جس میں شرعی نظریات کا پرچار کیاجاتا ہے۔ ان کے دشمنوں کی لسٹ میں امریکہ، مغرب اور اس کے اتحادی، چاہے وہ پاکستانی یا افغانستان کی سیکورٹی افواج ہی ہوں اور مقامی یا قبائلی افراد جو مغرب کے مفادات اور غیر اسلامی عناصر کی مدد کرتے ہوں۔
گذشتہ چار سالوں میں سرحدی پٹی کے دونوں اطراف میں بسنے والے طالبان اپنے نظریات کے فروغ میں خاصے سرگرم عمل رہے ہیں۔ طالبان کے نشر واشاعتی اداروں ''امت'' اور ''منبع الجہاد'' کی جانب سے ہزاروں ویڈیوز، DVD's پاکستان اور افغانستان کے بازاروں میں محض واجبی قیمت پر دستیاب ہیں۔ اسی دوران 2007ء سے لے کر آج تک اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر رہنمائوں کی 151 صوتی اور تصویری وڈیو جاری ہوچکی ہیں۔ صرف 2006ء میں افغان طالبان نے 85، اساتذہ اور طلباء کو قتل کیا اور 187 اسکولوں کو جلا دیا۔ جبکہ جنوبی افغانستان میں طالبان کے خطرے کے پیشِ نظر 350 اسکول بند کر دیئے گئے۔ 2008ء میں پاکستانی علاقوں سوات، دیر، پشاور اور کوہاٹ میں واقع لڑکیوں کے 111 سکول 6 مخلوط اسکول اور 2 عدد لڑکوںکے اسکول طالبان کا نشانہ بنے اس کے علاوہ فاٹا میں مہمند، باجوڑ اورکزئی اور خیبر کی قبائلی ایجنسیوں میں واقع درجن اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا گیا اور 2008ء میں ہی طالبان نے صوبہ سرحد اور فاٹا میں 100 سے زائد موسیقی کی دکانیں، حجام کی دکانیں اور موبائل فون کی دکانیں تباہ و برباد کر دیں۔
خصوصاً 2006ء سے طالبان، افغانستان اور پاکستان میں زیادہ فعال ہو گئے افغانستان میں باغیوں کے خلاف سرگرمیاں ا ور پاکستان میں سیکورٹی آپریشن انہیں پوری طرح قابو کرنے میں ناکام رہے جبکہ دوسری جانب ان ممالک میں طالبان کی جانب سے بھرتیاں، تربیتی پروگرام اور بروقت کارروائیاں برابر جاری رہیں۔
2002ء سے 2005ء کے درمیان طالبان نے افغانستان کے چار صوبوں میں طاقت حاصل کر لی یہی وہ وقت تھا جب کوئٹہ میں طالبان کے رابطوں پر پوری طرح نظر نہ رکھی جا سکتی تھی کیونکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے قبائلی علاقوں میں مصروف عمل تھے۔ 18 مئی 2006ء کو طالبان نے چاروں صوبوں پر حملہ شروع کر دیا جس میں جنگجو طوفان کی طرح ٹوٹ پڑے۔ جنوب میں سرگرم طالبان کمانڈر داد اللہ نے دعویٰ کیا کہ 20 اضلاع معہ 12,000 مسلح طالبان اس کے کنٹرول میں ہیں تب سے اس نے جنوب میں متوازی حکومت قائم کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ پختونوں کی نسلی وابستگی اور انصاف و امن کے فقدان نے طالبان کی جانب سے حکومتی اتھارٹی کو چیلنج کرنے میں بھرپور مدد کی۔
2006ء سے افغان طالبان نے خودکش اور روایتی حملوں میں خاصا اضافہ کیا ہے جس میں کلیدی سیاسی رہنمائوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔ 2007ء میں افغان پولیس ان کا مرکزی ہدف رہی ا س میں پولیس کے 900 جوان مارے گئے۔ مزید براں 2005ء کے دوران اور بعد میں مرنے والے امریکیوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا کیونکہ 2002ء سے 2004ء میں 149 افراد کے مقابلے میں 2005ء سے 2008ء تک 1,468 امریکیوں کو قتل کیا گیا۔
NATO کو یہ جان کر بھی حیرت ہوئی کہ طالبان نے Improvised Explosive Devices یعنی (IEDs) میں خاطر خواہ اضافہ کیا اور 2005ء میں کیے گئے 530 حملوں کے مقابلے میں 2006ء میں 1297 حملے کیے۔ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق 2006 اور 2007 کے دوران بتدریج 1931 اور 2615 کے قریب IEDs حملے ہوئے۔
ایسے کئی شواہد بھی ملے ہیں کہ طالبان گروپوں نے اپنے آپ کو پاکستان اور افغانستان میں گوریلا جنگ کے لیے دوبارہ منظم کرنا شروع کر دیا ہے۔ 2006ء میں یورپ اور شمالی افریقہ سے القاعدہ کی مدد کے لیے عراق جانے والے خود کش حملہ آوروں کو افغانستان کی جانب ہانک دیا گیا۔ فرانس کے ایک خفیہ ادارے نے عسکریت پسندوں کے ایک نئے روٹ یا راستے کا انکشاف کیا ہے جو شمالی افریقہ سے ہوتا ہوا پشاور میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ 2001ء سے 2005ء کے سالوں میں افغانستان میں 23 خود کش حملے ہوئے جبکہ ہر آنے والے سال میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا اسی طرح 2006ء میں 123 اور 2007ء میں 140 جبکہ 2008ء میں 84 خود کش حملوں کے واقعات ہوئے۔ (چارٹ نمبر (I) ملاحظہ کریں) پاکستان میں فاٹا اور صوبہ سرحد کے علاقوں میں بھی خود کش حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جہاں 2007ء میں 42 اور 2008ء میں 48 حملے کیے گئے۔
افغان طالبان جنگ کو مغربی پالیسی ساز اداروں کی میز تک گھسیٹ لائے ہیں۔ ہوا یوں کہ 14 جنوری 2008ء کو کابل کے سرینہ ہوٹل میں خود کش بمباروں نے دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں ایک نارویجین مبصر سمیت چھ افراد مارے گئے۔
اس طرح کی منظم کامیابیوں نے طالبان کو دلیر بنا دیا جبکہ عوام مزید خوف زدہ ہو گئے۔ طالبان کی افغانستان کے اندر کارروائیوں سے جنگ نہ صرف جنوبی علاقوں بلکہ مرکزی اور شمالی محاذوں تک پھیل چکی ہیں اور اس طرح براہِ راست یا بالواسطہ طور پر NATO اور امریکیوں کا جانی اور مالی نقصان بڑھ گیا۔
طالبان کی بڑھتی ہوئی جارحانہ کارروائیوں اورکرزئی حکومت کی جانب سے امن و امان قائم کرنے کے فقدان نے افغانستان میں سلامتی کے حوالے سے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے جس سے ملک اور پورے خطے میں خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔ افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکت کے بڑھتے ہوئے واقعات نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو متفکر کر دیا ہے ایک طرف تو وہ افغانستان کے لوگوں کی ہمدردی حاصل کرنا چاہتے ہیں اوردوسری جانب عوام میں روپوش عسکریت پسندوں پر بم برساتے ہیں جس سے مقامی لوگوں میں امریکہ کے خلاف بدلہ چکانے کے جذبات پیدا ہوئے اور ان کے خلاف نفرت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ 2006ء سے 2008ء تک 4,991 عام شہری کام آئے اور جس حکمت عملی سے امریکہ افغانستان کے مسئلے پر کام کر رہا ہے اور جو واقعات ملک کے اندر رونما ہو رہے ہیں اس سے تو یوں نظر آ رہا ہے کہ ابتدائی اندازوں کے برعکس اس جنگ کے طول کھینچنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے شعبے (UNICEF) کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں بدامنی، جنگ، افراتفری اور بعض اوقات خود کش حملوں سے جس قدر بچوں کا نقصان ہوا ہے شاید ہی کسی اور ملک میں بچوں کی اتنی تعداد متاثر ہوئی ہو!
پاکستان اور افغانستان میں ماضی قریب میں پیش آنے والے یہ واقعات اس سے پہلے اتنی تعداد میں کبھی پیش نہیں آئے۔ خصوصاً پاکستان میں اضافہ نمایاں رہا۔ اگست 2008ء سے جنوری 2009ء کے دوران چھ ماہ کے قلیل عرصے میں پاکستانی صوبہ سرحد اور قبائل میں 5408 افراد قتل ہوئے جبکہ 5383 افراد زخمی ہوئے اور اسی مدت کے دوران افغانستان میں 2529 افراد قتل جبکہ 1,193 زخمی ہوئے (دونوں ممالک کے موازنے کے لیے چارٹ نمبر (2) ملاحظہ کریں:
پاکستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں جو کہ شمالی اور جنوبی وزیرستان اور باجوڑ کے قبائلی علاقوں تک محدود تھیں 2006ء کے بعد بڑھتی ہوئی فاٹا کی ساتوں ایجنسیوں اور صوبہ سرحد میں بنوں، کوہاٹ، کرک، ڈیرہ اسمعیل خاں، دیر، لکی مروت، سوات اور ٹانک کے اضلاع تک پھیل گئیں۔ جب 2008ء کے سال کی آمد ہوئی تو صوبہ سرحد کا دارالخلافہ پشاور کے ساتھ ساتھ چارسدہ، شبقدر اور مردان بھی طالبان کے حملوں کی لپیٹ میں آ چکے تھے جب اپریل 2009ء کے آخری ہفتے میں حکومت نے سوات پر فوجی آپریشن کا آغاز کیا تو اس وقت درحقیقت وہاں حکومتی عملداری ختم ہو چکی تھی اور صوبہ سرحدکے بندوبستی علاقوں میں طالبان گروہوں کا جال پھیل چکا تھا جس سے ایک خطرناک صورتِ حال کی نشاندہی ہوتی تھی کیونکہ ہر گروہ اپنی من مانی کاروائیوں میں آزاد تھا اور حکومت ان کے خلاف بر وقت آپریشن کرنے کے لیے شناختی مسائل سے دوچار تھی۔ کوہاٹ اور سوات اس کی واضح مثالیں ہیں اسی دوران طالبان کی کرم ایجنسی، ہنگو اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں فرقہ واریت کی کارروائیوں میں بھی ہاتھ پایا گیا۔ ان کے پرانے جہادی دور کے اتحادی لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ فرقہ پرستی کی کارروائیوں کے لیے باقاعدہ شہرت رکھتے ہیں اور وہی انہیں ہوا دیتے آئے ہیں۔
NATO کی ترسیل جو کہ صوبہ سرحد اور فاٹا سے ہو کر افغانستان جاتی ہے اسے بھی طالبان کے ہاتھوں زک پہنچی۔ 2008ء میں مختلف کمپنیوں کے پارکنگ ٹرمینل پر عسکریت پسندورں نے اپنی حربی چال بازیاں استعمال کرتے ہوئے متواتر حملے کیے۔ افغان سپلائی کے لیے یہ ٹرمینل پشاور اور اس کے ملحقہ جنگ زدہ قبائلی علاقوں میں واقع ہیں۔ حملے کی زد میں رہنے والے یہ ٹرک ایندھن، خوراک اور دیگر سازو سامان تاریخی درہ خیبر سے گزار کر افغانستان میں قیام پذیر اتحادی افواج کے کیمپوں میں پہنچاتے ہیں۔ خیبر ایجنسی کا یہ راستہ کئی سالوں سے انہی مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا تھا۔ 2008ء کے آخری تین چار مہینوں میں TTP کے عسکریت پسندوں نے جمرود کے قریب اپنا زمینی مستقر قائم کیا اور امربالمعروف نامی عسکری تنظیم کے ساتھ فوجی جھڑپ کے بعد انہیں نیٹو کی مدد سے روک دیا کیونکہ وہ رقم کے عوض سپلائی پہنچانے والے ٹھیکیداروں کو بحفاطت راستے سے گزارنے کے ذمہ دار تھے۔ کہا جاتا ہے کہ TTP کے عسکریت پسندوں کا ہی NATO کی سپلائی لائن کو نشانہ بنانے کی عمومی کارروائیوں کے پیچھے ہاتھ کافرما رہا ہے۔
پاکستانی طالبان نے غیرملکی اور دوسری عسکری تنظیموں کو فاٹا اور صوبہ سرحد میں تربیتی سہولتیں فراہم کرنے کے حوالے سے پاکستان کے شمالی علاقوں کے پار بھی اپنا اثر و رسوخ مضبوط کیا ہے۔ بیت اللہ محسود کے القاعدہ سے باقاعدہ راوبط قائم تھے جس کی وجہ سے پاکستان میں طالبان کی تحریکوں میں بھی کافی متحرک تبدیلیاں دیکھنے کو آئیں۔ پاکستان میں معرض وجود میں آنی والی تنظیم ''جنڈولہ'' جوکہ پہلے ہی ایران میں سرگرم عمل تھی اور اسی نام سے جانی جاتی تھی، کے بھی القاعدہ اور طالبان سے قریبی رابطے تھے۔
بیجنگ (چین) بھی کئی مواقع پر پاکستان سے چینی مسلمان علیحدگی پسندوں کی قبائلی علاقوں میں موجودگی پر تشویش کا اظہار کر چکا تھا۔ چینی حکام نے کئی مرتبہ عندیہ دیا کہ تقریباً 500 سے لے کر 1000 کی تعداد میں اوئی غرز کے مسلمان 2001ء کی افغان جنگ میں طالبان کے شانہ بشانہ لڑے تھے اور 300 کے قریب مسلمان جن کا تعلق چین کے مغربی صوبے سنکیانگ سے تھا طالبان کی افواج کے ہمراہ لڑتے ہوئے گرفتار ہوئے تھے جبکہ سینکڑوں مزید علیحدگی پسند افغانستان اور پاکستان میں روپوش تھے۔
افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کے بعد شمالی ترکستان کی اسلامک موومنٹ (ETIM) اور طاہریلاشیف کی اسلامی موومنٹ آف ازبکستان (IMU) نے پاکستان اور افغانستان کے طالبان کے ساتھ کسی نہ کسی طرح تعلقات استوار رکھے۔ حالانکہ IMU کی عسکریت پسند تنظیم کا تعلق ازبکستان سے تھا مگر افغانستان میں طالبان حکومت کے دور میں اس تنظیم میں چیچین، تاجک، ترک، اوئی غرز اور برمی گروہوں کے افراد شامل رہے اور اس اتحاد کی بڑی وجہ ان کی مشترک ثقافت، یکساں چہرے مہرے، عادات واطوار اور ڈیل ڈول تھے۔ طالبان وسطی ایشیائی تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلقات کو خاص اہمیت دیتے تھے اور اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کے طالبان کے مخالف گروہ شمالی اتحاد کے ساتھ نسلی اور ثقافتی مماثلت اور رشتے تھے۔ چنانچہ ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے اور ان کی وفا داری ثابت کرنے کی خاطر طالبان نے ان تمام گروپوں کو ایک تنظیم میں اکٹھا کر کے ان کی علیحدہ شناخت پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔ یہ تمام لوگ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ضم ہو گئے لیکن 9/11 کے بعد یہ پھر طاہریلاشیف کی قیادت میں مجتمع ہونے لگے۔ اکتوبر 2007ء سے ازبک اور دیگر وسطی ایشیائی ریاستوں کے عسکریت پسندوں کے شمالی وزیرستان ایجنسی میں میرالی کے علاقے میں رہائش اختیار کرنے پر خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ شمالی وزیرستان کے قبائل کے ساتھ اپنے بگڑتے ہوئے تعلقات کار کی وجہ سے وسطی ایشیائی ریاستوں کے عسکریت پسند یعنی ازبک، اوئی غرز، تاجک اور چیچین نئی پناہ گاہوں کی تلاش میں ہیں ان کی کوشش ہے کہ وہ مزید شمال کی جانب مالا کنڈ باجوڑ، مہمند اور درہ آدم خیل کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے وسطی ایشیا اور سنکیانگ کے قریب پہنچ جائیں۔
اختتامیہ
افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ کو شروع ہوئے آٹھ سال کا عرصہ بیت چکا ہے مگر طالبان کی کارروائیوں بشمول خود کش حملوں کی تعداد میں اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے اور افغانستان و پاکستان سمیت دونوں ممالک اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ 2006ء سے سرحدی پٹی کے دونوں جانب طالبان کے حملوں اور دہشت گردی کی جنگ کی وجہ سے بھاری تعداد میں عام انسانی آبادی کے گھائل ہونے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس انداز میں انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کیے جاتے ہیں طالبان بھی اسی طرح اپنی حکمت عملی اور طریقہ واردات تبدیل کر لیتے ہیں۔ انہوں نے 2001ء میں دفاعی حکمت عملی کا آغاز کیا تھا جو بتدریج سفاک دفاعی جنگ میں تبدیل ہوچکی ہے افغان طالبان نے اپنی شوریٰ کو آج بھی برقرار رکھ کر حکومت کے سرپر مسلسل خطرہ مسلط کر رکھا ہے انہوں نے اپناحلقہ اثر بھی وسیع کر لیا ہے۔ طالبان لیڈر ملا عمر ابھی تک گرفت سے آزاد رہ کر پاک افغان سرحد کے دونوں جانب اور فاٹا اور بلوچستان میں بڑی مہارت سے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
پاک افغان سرحد کے ساتھ جنگ میں اضافے سے طالبانائزیشن کے ماحول میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا طالبان کی بڑھتی ہوئی قوت اور حکومت کی بگڑتی ہوئی عملداری سے نہ صرف یہ خطہ بلکہ پوری دنیا کا مستقبل بھی خطرے سے دوچار ہے۔ سالوں سے جاری عسکریت پسندی کی جنگ نے پاکستان اور افغانستان کو خون میں نہلا دیا ہے بلاشبہ اس میں اتنی قوت ہے کہ یہ حدود کو چیر کر پورے خطے کو اپنی آگ کی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
|
|
|
|
|