working
   
 
   
Untitled Document
موجودہ شمارہ

Untitled Document


Untitled Document
مراسلات
اگلا شمارہ

عسکریت پسند وں کی صحافت اور اس کی حرکیات
محمد عامر رانا
 
صحافت خواہ اپنی پیشہ ورانہ حدود کے اندر رہ کر ہی کی جائے اس کا رائے عامہ اور پالیسی سازی پر اثرانداز ہونا فطری امرہے۔ صحافتی حلقے اور میڈیا کسی بھی ریاست میں آباد شہریوں کی ذہن سازی اور سمت نمائی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ درپیش مشکلات کا حل،پیچیدہ اور پُرخطر راستوں کا آسان سجھاؤ ذرائع ابلاغ کا فرضِ منصبی قرار پاتا ہے۔ تاہم تکلیف دہ صورتِ حال تو اس وقت پیش آتی ہے کہ جب بعض طاقتور گروہ اور تحریکیں مرکزی دھارے کی صحافت پر اس قدر حاوی ہو جاتے ہیں کہ اس کے لیے رہنما اصول اور رجحانات کے تعین کا فریضہ سنبھال لیتے ہیں۔ بعض صورتوں میں ریاستیں خود بھی یہ فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔ اگر صورتحال کا غیرجانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو آج ہم ہر دو حوالوں سے کچھ ایسی ہی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ ریاست، سیاسی، سماجی اورمعاشرتی حوالے سے بحران کا شکار ہے۔ اور میڈیا اس کی درست عکاسی کرنے سے گریزپا۔ وجہ کیا ہے؟ شاید وجہ کوئی ایک ہے بھی نہیں بلکہ بے شمار وجوہات ہیں جن میں سے بعض کی جانب اس تحقیقی مقالے میں اشارے بھی ملتے ہیں۔
پاکستان میں ذرائع ابلاغ کے بڑے وسیلے ٹی وی، ریڈیو، پرائیویٹ چینلز، اخبارات(اردو، انگریزی، علاقائی اور مقامی زبانوں میں چھپنے والے) ہیں۔ تاہم بعض بڑے ادارے اور چینلز جو آبادی کی اکثریت کے مطالعے اور دیکھنے میں آتے ہیں، محسوس کیا گیا ہے کہ وہ ہر عہد میں ایک مخصوص طرز کی فضابندی کرتے ہیں۔ جو یقیناً صحت مندانہ عمل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ آئیے! اس صورت حال کا مزید جائزہ لینے کے لیے ہم یہ مضمون پڑھتے ہیں جواس موضوع پر لکھی گئی کتاب کا ایک حصہ ہے۔
رائے عامہ کی تشکیل اورریاست کی پالیسی سازی میں صحافت کے کردار اور اثر پذیری سے انکار ممکن نہیں۔ اس موضوع پر علمی اور صحافتی سطحوں پر، اس کے سیاسی، سماجی، معاشی اور مذہبی حوالوں سے بے شمار مطالعے ہو چکے ہیں اور اگر ان کا مرکزی نقطہ دریافت کیا جائے تو بیشتر مطالعوں کا اتفاق ہے کہ صحافت خواہ متعین کردہ پیشہ ورانہ حدود کے اندر بھی ہو رائے عامہ اور پالیسی سازی پر اثر انداز ضرور ہوتی ہے۔ صحافت کا یہی دائرہ کار اور اثر پذیری سیاسی، مذہبی، معاشی اور سماجی گروہوں اورتحریکوں کو صحافت کے بطور نظریاتی اور پرپیگنڈہ آلہ کے استعمال کی جانب راغب کرتی ہے۔ کئی صورتوں میں بعض طاقتور گروہ اور تحریکیں مرکزی دھارے کی صحافت پر اتنے حاوی ہو جاتے ہیں کہ اس کے لیے رہنما اصول اور رجحانات کے تعین کا فریضہ بھی سنبھال لیتے ہیں۔ بعض صورتوں میں ریاستیں خود بھی یہ فریضہ سرانجام دیتی ہیں۔ جیسا کہ مشرق وسطیٰ اور مشرقی ایشیا کے بعض ممالک میں صحافت کو ایک متعین کردہ حدود سے تجاوزکرنے پر قوانین، سماجی، مذہبی اور سیاسی دبائو کے ذریعے ایک دائرہ کار میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

مذکورہ پہلی صورت عموماً سماج اور ریاست کے معروضی، سیاسی، سماجی، معاشی اور مذہبی حالات پر منحصر ہوتی ہے۔ جہاں طاقتور گروہ اور تحریکیں مرکزی دھارے کی صحافت کو تابع مہمل بنانے کی پوزیشن میں نہ ہوں وہاں دو وسیلے اختیار کیے جاتے ہیں۔ ایک مرکزی دھارے کی صحافت میں اثر پذیری کے لیے فکری، نظریاتی اور سیاسی مواد کی ترسیل اور ذہنی، فکری اور نظریاتی مطابقت رکھنے والے افراد کا نفوذ۔ دوسرے ایک متوازی صحافت کا قیام جس میں نہ صرف عوامی حمایت میں اضافے اور اپنے حامیوں کو مجتمع رکھنے جیسے مقاصد کارفرما ہوتے ہیں بلکہ مرکزی دھارے کی صحافت پر اثر انداز ہونے یا اس منصب تک پہنچنے کی سعی بھی شامل ہوتی ہے۔ ایسے صحافتی اداروں کے پیشِ نظر مخصوص مقاصد اوراہداف ہوتے ہیں اس لیے وہ پیشہ ورانہ معیارات کا تعین انہی کے روشنی میں کرتے ہیں جبکہ مرکزی دھارے کی صحافت ایک کاروباری ادارہ ہوتی ہے، اس لیے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے لیے ان پیشہ ورانہ معیارات کا تعین کرے کہ غیر جانبداری کی حدود میں رہتے ہوئے اپنے متنوع قارئین کا اعتماد حاصل کر سکے۔ اگرچہ یہ انتہائی مشکل رستہ ہے اور صحافت ایک ایسا نازک آبگینہ ہے کہ سماج میں معمولی سیاسی، مذہبی، معاشی اور سماجی حدت سے متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے، لیکن غیر جانبداری کے حصول کے لیے جدوجہد ہی اسے وہ مقام عطا کرتی ہے جو اسے سماج میں جاری متوازی صحافتی رجحانات سے ممیز کرتی ہے۔

یہاںیہ امروضاحت کا متقاضی ہے کہ مرکزی دھارے کی صحافت میں دو رجحانات متوازی چلتے نظر آتے ہیں۔ ایک رائے عامہ کی ہمواری اور دوسرے محض اطلاعاتی آلہ کار کی اطلاع کا ابلاغ پوری طرح ہو جائے۔ اکثر صورتوں میں یہ دنوں رجحان ایک ہی صحافتی ادارے میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہاں نمایاں رجحان اس کے رائے عامہ کو ہموارکرنے کے ادارے یا محض اطلاعاتی ابلاغ کا نمائندہ ہونے کا تعین کرتا ہے۔ یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ کوئی صحافتی ادارہ خالص کاروباری ادارہ بھی ہو سکتا ہے اور وہ نظریاتی، سیاسی اور مذہبی اساس پر معروضی حالات کے پیش نظر عارضی پالیسیاں وضع کرتا ہے۔ اس کا مطمح نظر بہرحال اپنے مخصوص وسیع قارئین کی تشفی یا ریاست یا طاقتور سیاسی، مذہبی، معاشی اور سماجی گروہ یا کسی تحریک سے وابستہ اپنے کاروباری مقاصد کا تحفظ اور فروغ ہوتا ہے۔

لیکن سماج میں فروغ پانے والے متوازی صحافتی رجحان ساز ادارے بنیادی طور پر نظریاتی، سیاسی اور مذہبی مقاصد کے تابع ہوتے ہیں اور کاروباری مقاصد اولین ترجیح نہیںرکھتے۔ اگرچہ صحافت کا یہ منظر نامہ خاص پیچیدہ ہے لیکن پاکستان کے تناظر میں چند واضح رجحانات کا تعین ممکن ہے۔ سب سے پہلے پاکستان کی صحافت کے حجم کا مختصر جائزہ لیتے ہیںکہ اس کی اثر پزیری کس حد تک ہے:

پاکستان میں اس وقت باقاعدہ 945 اخبارات اور جرائد شائع ہو رہے ہیں (1)اور ان میں 142 روز نامہ اخبارات ہیں جبکہ ان کی اشاعت کا تخمینہ 64 لاکھ لگایا گیا ہے(2)۔ پاکستان کی آبادی 17 کروڑ 64 لاکھ تک پہنچ چکی ہے ،(3)جبکہ شرح خواندگی 56فیصد ہے(4)۔ پاکستان میں گھروں کی کل تعداد کا سرکاری اندازہ 1998ء میں 19212 لگایا گیا تھا(5)۔ اگرچہ حکومت خانہ شماری اورمردم شماری میں ریڈیو اور ٹی وی سیٹ کا اندراج تو کرتی ہے لیکن کتنے گھروں میں اخبارات تک رسائی ہے اس کا شمار نہیں کیا جاتا۔ 1998ء تک 35 فی صد گھروں میں ٹی وی اور 24 فی صد گھروں میں ریڈیو کی سہولت موجود تھی۔ اخبارات کی تعداد اشاعت اور شرخ خواندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اندازاً 15 فی صد گھرں میں اخبارات کی سہولت میسر ہے تو اندازاً 2882 گھرانے یہ سہولت حاصل کرتے ہیں۔ یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ 1998ء کی مردم شماری کے مطابق ایک گھر میں اوسط افراد کی تعداد 7 بنتی ہے جن میں بالغ افراد کی تعداد 4 افراد فی گھر بنتی ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار لوگ چائے خانوں، مسافر خانوں، جہاز، ریل اور بس کے سفر، تعلیمی اداروں اور لائبریریوں میں بھی اخبارات و رسائل سے ا ستفادہ کرتے ہیں۔دیہی علاقوں میں اجتماعی اخبار بینی کی روایت جس سے ناخواندہ افراد بھی استفادہ کرتے ہیں، ابھی تک قائم ہے۔

ٹی وی کے ناظرین اور ریڈیو کے سامعین بلا تخصیص شرخ خواندگی ذرائع ابلاغ سے مستفیض ہوتے ہیں، چونکہ ہمارا مطمح نظر صرف اشاعتی صحافت تک محدود ہے اس لیے توجہ اسی پر مرکوز رکھیں گے۔ پاکستان میں صحافت ذریعہ اظہار کے اعتبار سے تین بڑے درجوں میں تقسیم ہے:

(1 اردو (2 انگریزی (3 علاقائی اور مقامی زبانیں

یہ درجہ بندی صحافتی اداروں کے اہداف اور مقاصد کا بھی تعین کرتی ہے۔ انگریزی صحافت کو زیادہ آزاد، مغرب کے ساتھ مفاہمتی رویے کی حامل اور پالیسی معاملات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے بھرپور سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے قارئین کی تعداد محدود ہے۔ پاکستان میں ڈان، دی نیوز، دی نیشن اور ڈیلی ٹائمز کو بااثر انگریزی اخبارات سمجھا جاتا ہے جبکہ دی پوسٹ، فرنیٹر پوسٹ، پاکستان آبزرور، دی سٹیٹسمین، بلوچستان ٹائمز دیگر چند نمایاں اخبارات ہیں اور ان سب کی مجموعی تعداد اشاعت روزانہ دو لاکھ بنتی ہے(6)۔ اس کے مقابلے میں اردو اخبارات کی تعداد اشاعت کا اندازہ 30 لاکھ روزانہ لگایا گیا ہے۔ انگریزی اخبارات پانچ مقامات اسلام آباد / روالپنڈی، کراچی، لاہور، پشاور اور کوئٹہ سے شائع ہوتے ہیں جبکہ اردو اخبارات ان پانچ مقامات کے علاوہ ہر بڑے ضلعی صدر مقام سے شائع ہوتے ہیں۔ جن میں پنجاب میں ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا، گجرات، بہاولپور اور رحیم یارخان اہم اشاعتی مراکز تصور ہوتے ہیں ،جبکہ سندھ میں حیدرآباد اور سکھر۔ صوبہ سرحد میں کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان، بلوچستان میں حب، آزاد کشمیرمیں مظفر آباد اور شمالی علاقہ جات میں گلگت اہم اشاعتی مراکز ہیں۔ اردو اخبارات میں موضوعاتی تنوع بھی زیادہ ہے ۔ یہ پاکستانی قومیت اور مسلم شناخت سے تشکیل پاتا ہے جس کی حدود میں مختلف اشاعتی اداروں میں پاکستانیت، مذہب اور مسلم قوم پرستی کے رجحانات کمی و بیشی کے ساتھ نمایاں نظر آتے ہیں۔ اردو صحافت کا نمایاں موضوع سیاست اور حکومتی اداروں کی اطلاعاتی، تجزیاتی اور تنقیدی ابلاغ ہے۔ اس موضوع پر اور اس سے ہٹ کر سیکولر اور لبرل خیالات کی پرداخت ایک کٹھن عمل ہے اور اردو صحافت میں ایسے رجحانات سے متعلق رویہ ردعمل کا ہے۔ اس کے مقابلے میں مقامی زبانوں کی صحافت میں لبرل اور سیکولر رجحانات زیادہ قوی ہیں لیکن ان کا ایک مخصوص نظری و سیاسی ہدف، نسلی و لسانی قومیت کی ترجمانی ہے۔ اس وقت پاکستان میں 10 علاقائی و قومی زبانوں میں اخبارات و رسائل شائع ہو رہے ہیں، لیکن سندھی صحافت نے اپنے اسلوب کے باعث اپنا الگ مقام بنایا ہے اور اس وقت چھ نمایاں سندھی روز نامہ اخبارات شائع ہو رہے ہیں۔ جبکہ پنجابی، پشتو اور دیگر علاقائی قومی زبانوں میں صورتحال تسلی بخش نہیں۔ روزانہ، ہفتہ وار اور مہینہ وار اخبارات و رسائل کے باوجود ان زبانوں میں صحافت زیادہ فروغ نہیں پا سکی ہے۔

اب اگر پاکستان کے مجموعی صحافتی حجم میں سے متوازی صحافت کا حصہ دیکھیں تو وہ کسی طور کم نظر نہیں آئے گا۔ سب سے پہلے متوازی صحافتی رجحانات کا جائزہ لیتے ہیں جنہیں تین درجوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

1- سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کے صحافتی ذرائع:
پاکستان میں آغاز سے ہی سیاسی جماعتوں اور تحریکوں کی طرف سے اپنے اخبارات و رسائل کے اجرا کا رجحان رہا ہے۔ شروع میں اس کی وجہ مرکزی دھارے کی صحافت تھی۔ یہ جماعتیں اور تحریکیں اپنے پیغام کو مبسوط انداز سے عوام تک پہنچانا چاہتے تھے۔ اس متوازی صحافت کی تشکیل میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاسی تحریکوں کا مشترکہ ہاتھ رہا، لیکن رفتہ رفتہ مرکزی دھارے کی صحافت ریاستی دبائو سے آزاد ہوتی گئی جس کے پیچھے صحافتی تنظیموں کی طویل جدوجہد ہے۔ بعد ازاں ان تحریکوں اور جماعتوں کا انحصار مرکزی دھارے کی صحافت پر بڑھتا گیا اور ان کے اپنے اخبارات اور رسائل کی تعداد کم ہوتی گئی۔ اس وقت پیپلز پارٹی پاکستان کا ترجمان روزنامہ ''مساوات'' جماعتِ اسلامی کا روز نامہ ''جسارت'' کا لعدم الرشید ٹرسٹ کا روزنامہ ''اسلام'' شائع ہو رہے ہیں اور اسی رجحان کا تسلسل ہیں۔ روزنامہ اخبارات کے علاوہ ہفت روزہ اور ماہنامہ جرائد بھی شائع ہو رہے ہیں جن کا مقصد جماعتی اور تحریکی سرگرمیوں کی تشہیر ہے۔ جیسے جماعتِ اسلامی کا ہفت روزہ ''ایشیائ''، جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) کا ماہنامہ ''الجمعیہ'' مرکزی جمعیت اہلحدیث کا ہفت روزہ ''اہلحدیث'' مزدور کسان پارٹی کا ہفت روزہ ''جدوجہد'' وغیرہ۔ لیکن ان کی تعداد اشاعت کم ہے اور قارئین کا حلقہ جماعتوں سے وابستہ افراد تک محدود ہے۔

2-سماجی، معاشی اور ثقافتی اداروں کے صحافتی ذرائع
مختلف غیرسرکاری تنظیمیں اور سرکاری و غیر سرکاری ادارے اپنے متعین حدود و اہداف کی ترویج اور تشہیر کے لیے ''اطلاعاتی خط'' (News Letters) اور رسائل و جرائد کا اجرا کرتی ہیں، لیکن ان کی تعداد اشاعت اور قارئین کی تعداد بھی محدود ہے۔ مختلف تعلیمی اداروں اور مدارس کے ترجمان رسائل و جرائد کو بھی اس درجے میں رکھا جا سکتا ہے۔

3- غیر ریاستی عناصر (Non State Actors) کے صحافتی ذرائع
غیر ریاستی عناصر کی طرف سے صحافتی ذرائع کا استعمال اور اپنے صحافتی اداروں کی تشکیل کا رجحان افغان سوویت جنگ کے دوران بڑھا جب افغان، پاکستانی اور غیر ملکی عسکری تنظیموں نے اپنے رسائل و جرائد شائع کرنا شروع کیے اور رفتہ رفتہ اس صحافت کا حجم بڑھتا چلا گیا۔

A۔ اس میں عسکری اور غیر عسکری دونوں ذرائع صحافت شامل ہیں اگرچہ عسکری صحافتی ذرائع کا حجم زیادہ ہے۔ ریاست کی حاکمیت کو براہ راست چیلنج کرتے ہیں،ریاست کے نظام کو بدلنا چاہتے ہیں، ریاست کو مخصوص قومی، مذہبی، فرقہ وارانہ مقاصد کے تحت لانا چاہتے ہیں یا ریاست سے علیحدگی چاہتے ہیں اور مقاصد کا حصول تشدد کے رستے سے چاہتے ہیں۔یہاں غیر عسکری ذرائع صحافت سے مراد وہ اخبارات ،جرائد ورسائل ہیں ،جو براہِ راست عسکری گروپوںسے تعلق نہیں رکھتے لیکن ان کے ایجنڈہ سے اتفاق رکھتے ہیں اور اسے اداراتی پالیسی کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔چند مدارس ، مذہبی فلاحی ادارے اور انفرادی حیثیت میںافراد اسی نوع کی صحافت کو فروغ دے رہے ہیں۔

B۔ یہ صحافتی ذرائع بلوچستان کے علیحدگی پسند قوم پرست، قبائلی علاقوں کے طالبان، پاکستان کی عسکری تنظیمیں، پاکستان کی پرتشدد فرقہ وارانہ تنظیمیں اور کشمیر کے مزاحمتی گروپ استعمال کرتے ہیں اور ان کی صحافتی پالیسی متعین مقاصد کے گرد گھومتی ہے۔

بلوچستان کے قوم پرست علیحدگی پسندوں کا اس میں حصہ بہت کم ہے۔ اس کے علاوہ غیر ریاستی عناصر کی صحافت کے مختلف رجحانات اور اداروں کے درمیان تال میل نظر آئے گا اور ایک عسکری یا فرقہ ورانہ تنظیم اور یہاں تک کہ مدرسے یا مذہبی سیاسی جماعت کے اخبارات و رسائل میں مذہبی، سیاسی، معاشرتی، معاشی اور اخلاقی نقطۂ نظر میں اتفاق اور ہم آہنگی نظر آتی ہے لیکن مقاصد اور اس کے حصول کے لیے حکمت عملی کی بنیاد پر فرق نظر آئے گا۔
عسکریت پسند صرف اشاعتی صحافت کے محاذ پر ہی سرگرم عمل نہیں ہیں بلکہ ذرائع ابلاغ کے تمام ممکنہ اداروں کو استعمال کرتے ہیں۔ ان میں انٹرنیٹ، ریڈیو، سی ڈی / ڈی وی ڈی کی ترسیل اور روایتی اطلاعاتی ''شب نامے'' (Night Letters) بھی شامل ہیں۔ عسکریت پسند جن مقاصد کے حصول کے لیے اور جس طریقہ کار سے ان ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہیں اس کے لیے ''اطلاعاتی حکمت عملی'' (Strategic Communication) کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے اور پاکستان کے تناظر میں اس حکمت عملی کا ایک کمزور پہلو ہے اور دوسرا مضبوط۔ کمزور پہلو عسکریت پسندوں کا ٹیلی وژن چینل کا نہ ہونا ہے۔ جس کی بنیادی وجہ اس کے حصول میں حائل قانونی اور آئینی پیچیدگیاں اور ریاست کی سخت پالیسی ہے۔ اس کمزوری کے تدارک کے لیے جہادی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کا استعمال کیا جا رہا ہے لیکن ان کی ترسیل مشکل اور مہنگا کام ہے۔ علاوہ ازیں عسکریت پسند مرکزی دھارے کے الیکٹرانک میڈیا کو استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چونکہ مرکزی دھارے کا الیکٹرانک میڈیا، قانونی ضوابط کے مطابق ان کے حسب منشاء انداز میں تشہیر نہیں کر سکتا۔ اس لیے عسکریت پسند اپنی ''اطلاعاتی حکمتِ عملی'' میں اشاعتی صحافت پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ متوازی صحافت کے مختلف رجحانات کا آپس میں تال میل ہے اسی طرح متوازی صحافت خصوصاً عسکریت پسند، مذہبی سیاسی جماعتوں کے صحافتی ذرائع کے کئی رجحانات مرکزی دھارے کی صحافت میں بھی نظر آئیں گے۔ صحافت کے ان مختلف رجحانات کے ملتے جلتے اوصاف اور خصوصیات سے پاکستانی صحافت کا ایک مجموعی مزاج تشکیل پاتا ہے اور یہ مجموعی مزاج تنوع بھی رکھتا ہے اور اس مزاج سے ہٹ کر چلنے کے رجحان بھی نظر آتے ہیں۔

پاکستانی صحافت کا مزاج سمجھنے کے لیے ملک کا سیاسی، مذہبی اور علاقائی پس منظر نہایت اہمت کا حامل ہے۔ پاکستان میں موجود سیاسی، مذہبی اور سماجی منظر نامہ پاکستان کے تشخص کے مسئلے سے جڑا ہے۔ پاکستان کے قیام کا مقصد مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست تھا، لیکن جب ریاست وجود میں آ گئی تو تشخص کا مسئلہ پیدا ہوا کہ آیا یہ جدوجہد ایک خالص مذہبی ریاست کے حصول کے لیے تھی یا برصغیر میں مسلم قومیت اور اس کے معاشی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے۔ اعتدال پسند دانشور قاضی جاوید(6) کے تجزیے کے مطابق تحریک پاکستان میں جو لوگ پیش پیش تھے ان کا مطمح نظر تھا کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کے سیاسی، مذہبی، سماجی اور معاشی مفادات خطرے کی زد میں رہیں گے۔ اس لیے اس کا حل ان کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ تحریک پاکستان کے رہنما آج کی مقبول اصطلاح کے مطابق ''اعتدال پسند'' تھے لیکن وہ مسلم قومی ریاست اور مذہبی ریاست کے فرق کو نمایاں نہیں کر سکے اور مذہب اور مسلم قومیت کے تصورات کے درمیان ابہام رہا۔ یہاں تک کہ اصطلاحاتی فرق بھی نمایاں نہ ہو سکا۔ یہی وجہ تھی کہ بیشتر مذہبی جماعتیں اور تحریکیں جو قیامِ پاکستان کے خلاف تھیں۔ جب الگ ریاست وجود میں آ گئی تو پاکستان آ کر یہاں ا یک خالص مذہبی ریاست کے خدوخال وضع کرنا شروع کیے اور اس کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔ تحریک پاکستان کی اعتدال پسند قیادت نے بھی ایسے رجحانات کی حوصلہ افزائی کی جو نئی ریاست کو بھارت سے الگ تہذیبی و ثقافتی تشخص کو اجاگر کرتے تھے اور یہ پاکستان کے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری تصور کیا گیا کہ نئی ریاست کے اوصاف جدا ہوں۔ بانی پاکستان محمد علی جناح ، جن کے نزدیک مغربی طرز پر ایک قومی ریاست کا نقشہ واضح تھا(7)پاکستان کے قیام کے کچھ ہی عرصہ بعد وفات پا گئے اور دیگر رہنمائوں نے نئی ریاست کے لیے ابھرتے ہوئے اندرونی سیاسی، معاشی، معاشرتی چیلینجز اور خصوصاً بھارت کی جانب سے نئی ریاست کے لیے جارحانہ رویوں کے سامنے قائد کے ریاستی تصور کو قربان کر دیا اور ریاست کے مذہبی تصور میں پناہ حاصل کی۔ قرار دادِ مقاصد 1949ء اس کی واضح علامت بن کر سامنے آئی اور نسلی، لسانی اور ثقافتی طور پر متنوع قوم کو مذہب کی رسی سے باندھنے کی کوشش کی گئی۔ یہ اسی کش مکش کا نتیجہ تھا کہ 1973ء تک ملک کا متفقہ آئین نہیں بن پایا اور جب تک ریاست اس اتفاق پر پہنچی ملک کا بڑا حصہ لسانی بنیادوں پر الگ ہو چکا تھا۔

80ء کی دہائی میں کچھ افغان سوویت جنگ اور باقی ماندہ فوجی آمر ضیاء الحق کی سیاسی پالیسیاں، جن میں اس نے مذہب کو بطور آلہ کے استعمال کیا کے باعث پاکستان قائد کے تصور ریاست کی متضاد تصویر بن چکا تھا۔ فوج کی سیاست میں بار بار مداخلت سے ایک غیر مستحکم سیاسی نظام کی بنیاد پڑی اور اعتدال پسند سیاسی جماعتیں بھی عوامی تحریکوں اور حکومت سازی کے عمل میں مذہبی قوتوں کی دست نگر بن کر رہ گئیں اور قوت اور اقتدار کا اصل مرکز فوج کو منتقل ہو گیا۔ غیر مستحکم سیاسی ڈھانچے کو علاقائی سیاسی اور تزویراتی مفادات اور کش مکش نے مزید زک پہنچائی اور غیر ریاستی عسکری گروپ ان مفادات کے بہترین محافظ قرار پائے اور وہ مذہبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ریاست کے اسلامی تشخص کے محافظ بھی ٹھہرے۔ معتدل سیاسی قوتیں معتوب ٹھہریں اور انہیں ملک کے علاقائی تزویراتی مفادات اور اسلامی تشخص کے لیے مستقل خطرہ قرار دے دیا گیا۔ لیکن اس سارے عمل اور عرصے میں عوام کا اعتماد جمہوریت اور سیاسی جماعتوں پر بحال رہا۔

اس پس منظر میں پاکستانی صحافت کی پرداخت ہوئی اور اس کے رجحانات متعین ہوئے۔ ریاست نے جب اپنے تشخص کے لیے مذہبی قوتوں کا ایجنڈا مستعار لیا تو اسی کے مطابق ریاستی اداروں کی تشکیل شروع ہوئی۔ خصوصاً تعلیم اور صحافت کے شعبوں کو ''نئے تشخص'' کی ترویج کے لیے استعمال کرنا شروع کیاگیا۔ پچاس کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں پنجاب کی حکومت نے صحافتی اداروں پر دبائو ڈالنا شروع کیا کہ وہ مخصوص مذہبی نظریات کا پرچار کریں اور حکومت کے ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن نے اخبارات میں رقوم تقسیم کیں اور انہیں اکسایا گیا کہ قادیانیوں کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کریں اور اس کا انکشاف ایک انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں ہوا(8)۔ سماجی امور کے محقق ظفر اللہ خان (8)کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل 1962ء میں اپنے قیام سے لے کر 1993ء تک صحافت کے لیے سفارشات جاری کرتی رہی کہ کس طرح صحافت بے حیائی اور فحاشی کو روک سکتی ہے اور ایک اسلامی معاشرے کے قیام میں معاون ہو سکتی ہے اور ریاستی اداروں کے علاوہ مذہبی جماعتیں اور ان کے ادارے صحافت کے لیے مخصوص مذہبی اصول وضع کرتے رہے۔ مثال کے طور پر جماعتِ اسلامی کے لیے مطبوعاتی ادارے، ادارہ معارفِ اسلامی نے ''اسلامی صحافت'' کے نام سے کتاب شائع کی، جس کے لکھاری سید عبیداسلام تھے جو ریڈیو پاکستان میں کئی برس ملازم رہے۔ انہوں نے پاکستانی معاشرے کو اسلامی اقدار کے مطابق ڈھالنے والی صحافت کے کردارپر بحث کی اور تجاویز دیں کہ کس طرح ہم صحافت کو اس رخ پر ڈھال سکتے ہیں۔

اس موضوع پر کئی مطالعے موجود ہیں لیکن اس پس منظر میں واضح طور پر نظر آئے گا کہ پاکستانی صحافت خصوصاً مرکزی دھارے اردو صحافت نے کس طریقے سے ان تبدیلیوں کے اثرات قبول کیے اور کس طرح آزادانہ لبرل رجحانات کے لیے دائرہ کار محدود ہوتا گیا۔

پاکستانی صحافت میں دائیں بازو کے سیاسی اور نظری فروغ پر دفاعی اور سیاسی محقق عائشہ صدیقہ کا تجزیہ ہے کہ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو لبرل ازم کی تعریف کو غلط طور پر محدود فریم ورک میں مقید کر دیا گیا ہے او رامن خواہی اور سیاسی لبرل ازم یا متوازی سیاسات کو لبرل سیاست کا حصہ ہی نہیں سمجھا جاتا اور دوسرے پاکستان میں بایاں بازو بتدریج کمزور ہوتاجاتا ہے(9)۔

اب ذرا عسکریت پسند صحافت کی جانب دوبارہ واپس آتے ہیں۔ یہاں سردست عسکریت پسند صحافت کے چند رجحانات کا مرکزی دھارے کی صحافت سے موازنہ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ فرق کہاں واضح ہوتا ہے اور ان کے مزاج کس طرح مختلف ہیں:
-1 مرکزی دھارے کی صحافت کا بڑا حصہ اور عسکریت پسند صحافت کے علاقائی سیاسی وژن میں مشترک خصوصیات یہ نظر آتی ہیں:
-A مغرب، خصوصاً امریکہ سے متعلق دونوں طرزِ صحافت کا رویہ ایک جیسا ہے۔ دونوں پاکستان کے بیشتر مسائل کا ذمہ دار امریکہ اور مغرب کو قرار دیتے ہیں۔
-B اسرائیل کو برائی کا محور سمجھتے ہیں۔
-C بھارت، پاکستان کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہے اور اس کے وجود کے درپے ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی اس کے واضح ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے اور کشمیریوں کے حقوق غصب کیے ہوئے ہے۔
-D چونکہ بھارت، امریکہ اور اسرائیل امّتِ مسلمہ اورخصوصاً پاکستان کے خلاف مشترکہ ایجنڈا رکھتے ہیں اس لیے تینوں کا پاکستان کے خلاف اتحاد ہے۔
-E پاکستان کا ایٹمی پروگرام ان کا مشترکہ ہدف ہے۔
-F پاکستان میں دہشت گردی میں بھی یہ تینوں ممالک ملوّث ہیں اور ''معصوم'' قبائلیوں اور پاکستانیوں کو ورغلا کر اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
-G پاکستان کے حکمران نااہل ہیں اور بیرونی قوتوں کے ایجنٹ ہیں۔
-2 دونوں طرزِ صحافت قومی سطح پر درج ذیل مشترکہ وژن پر متفق نظر آتے ہیں:
-A دونوں ریاست میں اچھی حکومت قائم کرنے کی عدم صلاحیت کی نشاندہی کرتے ہیں۔
-B سماجی خرابیوں کی وجہ بھارتی ثقافتی برتری اور مغربی اقدار کو قرار دیتے ہیں۔
-C بیرونی مداخلت کے باعث حکومتیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتیں۔
-D چونکہ حکومت بیرونی قوتوں کی کٹھ پتلی ہے اس لیے عوام کی بہتری اس کی ترجیح نہیں، بلکہ یہ اپنے داتی مفادات کو تحفظ دیتی ہے اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم رکھتی ہے۔
-3 اب ذرا، ان رجحانات پر غور کرتے ہیں جو دونوں طرح کے طرز صحافت کو ایک دوسرے سے جدا کرتے ہیں:
-A مرکزی دھارے کی صحافت، جمہوریت اور جمہوری اقدار پر یقین رکھتی ہے جبکہ عسکریت پسند صحافت نظام کی تبدیلی کی بات کرتی ہے۔
-B مرکزی دھارے کی صحافت حقوق کی جدوجہد کے لیے احتجاجی جبکہ عسکریت پسند تشدد کی راہ کے حمایتی نظر آتے ہیں۔
-C مرکزی دھارے کی صحافت ایک قومی وژن جس میں مذہب ایک اہم عنصر ہے، کی نمائندہ ہے۔ جبکہ عسکریت پسند صحافت خالص مذہبی وژن کی حامل ہے۔
-D عسکریت پسند صحافت اُمت کے اتحاد اور مغرب کا مقابلہ کرنے کے لیے عسکری جدوجہد کی داعی ہے جبکہ مرکزی دھارے کی صحافت میں اس پر ابہام ہے۔
-E عسکریت پسند صحافت مخصوص جماعتی، فرقہ ورانہ مذہبی فکری مقاصد کے تابع ہے اور پیشہ ورانہ صحافتی تقاضے زیادہ اہمیت کے حامل نہیں۔ مرکزی دھارے کی صحافت پیشہ ورانہ تقاضوں کو ترجیح دیتی ہے ا گرچہ پیشہ ورانہ صحافت کے لیے بہتری کی گنجائش ہے اور اس کے لیے صحافتی ادارے اور تنظیمیں کوشش بھی کرتی ہیں۔
-F دونوں کے خبروں پیش کرنے کے انداز اور الفاظ کے انتخاب میں فرق ہے۔ ایک میں خبریت اور دوسرے میں حقائق کو اپنے مقاصد کے مطابق ڈھالنے کا انداز نمایاں ہے۔
ان کے علاوہ بھی کئی امتیاز موجود ہیںجن کا زیادہ تر تعلق پیشہ ورانہ طریق کار سے ہے لیکن ایک نمایاں فرق، مرکزی دھارے کی صحافت میں موضوعاتی تنوع ہے اور اس میں متوازی سیاسی، نظری سماجی اور معاشی رجحانات کے لیے گنجائش موجود ہے جبکہ عسکریت پسند صحافت ان اوصاف سے محروم اور یکسانیت کا شکار ہے۔ عسکریت پسند صحافت کا مرکزی دھارے کی صحافت پر سب سے بڑا اعتراض اس کا تنوع ہی ہے اور اسے پیش کرنے کے انداز پر بھی ہے۔ لیکن عسکریت پسند صحافت، ایسے صحافتی مزاج کے لیے مخاصمانہ رویہ رکھتی ہے، جو لبرل اور سیکولر طرز فکر کی حامل ہے۔ خصوصاً انگریزی صحافت کے لیے مجموعی رویہ خاصا جارحانہ ہے۔ کالعدم جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر جو اپنے ہفت روزہ اخبار "القلم" میں سعدی کے قلمی نام سے لکھتے ہیں۔ اپنے ایک مضمون بعنوان ''بے چارے'' میں لکھتے ہیں کہ:
"مجھے ترس آتا ہے ان صحافی مردوں اور عورتوں پر جنہوں نے یہ امید لگا رکھی ہے کہ جہاد بند ہو جائے گا…کم عقل لوگوں! آخرت کا تو تم نے سوچا نہیں مگر جہاد کے خلاف کام کرکے اپنی دنیا کیوں برباد کر رہے ہو ؟یہ بھاری پتھر تم سے نہیں اٹھایا جائے گا۔تم عبداﷲبن ابی اور ابن سینا سے زیادہ سازشی اور میر جعفراور میر صادق سے زیادہ عیار نہیں ۔تم سمجھتے ہو کہ انگریزی اخبارات میں مجاہدین کے خلاف "جاسوسی کالم"لکھو گے تو تمہارے کہنے پر امریکہ والے ان مجاہدین کو ختم کر دیں گے ؟ عجیب بے وقوفی ہے اور عجیب بد نصیبی "..... (10)

اب سوال یہ ہے کہ عسکریت پسندوں کی صحافت کا پاکستان میں جواز کیا ہے اور حکومت کی اس سے متعلق پالیسی کیا ہے؟ اس رپورٹ پر کام کرتے ہوئے ماہرین کی طرف سے درج ذیل نکات سامنے آئے:
-1 عسکریت پسند صحافت ایک پروپیگنڈہ مہم کا حصہ ہے، اس لیے اسے صحافت کے مطالعے سے یکسر نکال دینا چاہیے اور حکومت کو اس پروپیگنڈہ کو روکنے کے لیے پالیسی وضع کرنا چاہیے۔
-2 عسکریت پسند صحافت، مرکزی دھارے کی صحافت پر اثر انداز ہو رہی ہے جو آزادیٔ صحافت کے دائرہ کو محدود کر رہی ہے۔
-3 عسکریت پسند صحافت کا پھیلائو جاری ہے اور مرکزی دھارے کی صحافت کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
-4 عسکریت پسند صحافت کے بڑے حصے میں امکان موجود ہے کہ وہ مرکزی دھارے کے پیشہ ورانہ معیارات کے مطابق خود کو ڈھال لے اورمرکزی دھارے کی صحافت میں ضم ہو جائے۔ خصوصاً دائیں بازو کے سیاسی، نظری صحافت (جسارت، روزنامہ امت) کے معیار پر آ سکتی ہے۔

لیکن یہ سوالات بہت گھمبیر ہیں اور ان کے جوابات اتنے آسان نہیں۔ حکومت اگرچہ عسکریت پسند صحافتی اداروں اور ان کے اخبارات و جرائد پر کئی بار پابندی عائد کر چکی ہے لیکن یہ دوبارہ نئے ناموں سے سامنے آ جاتے ہیں۔ حکومت ان اقدامات کے باوجود، خود بھی کوئی پالیسی فیصلہ نہیں لے سکی ہے۔
___________________

حوا شی
1۔ Media in Pakistan, Report by International Media
Support, July 2009
2۔ ایضاً
3۔ 2009ء میں شرح افزائش کا اندازہ 1.45فیصد لگا یا گیا ہے۔
4۔ شرح خواندگی کے اعداد و شمار پاکستان سوشل اینڈ لیولنگ میر منٹ سروے 2007-08سے لئے گئے ہیں۔
5۔ یہ اعداد وشمار 1998ء کی خانہ شماری سے لئے گئے ہیں۔
6۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتمام لاہور میں منعقدہ سیمینا ر "عسکریت پسندوں کے صحافتی اسلوب اور اثرات "سے خطاب ، 16نومبر 2009ئ
7۔ Cohen, Stephen, The idea of Pakistan, Brookings
Institution, 2004, P 26
8۔ حسین نقی نیشنل کوآرڈینیٹر انسانی حقوق کمیشن پاکستان کا محمد اعظم ، ریسرچر پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کو انٹر ویو Source: Muhammad Azam, Redicalization and media, Conflict and peace studies, issue Oct-Dec 2008, Islamabad
9۔ پاک انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے زیر اہتما م اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار" پاکستان عسکریت پسند صحافت اور اس کے اثرات "سے خطاب ، اکتوبر 2009ء
10۔ عائشہ صدیقہ ۔میڈیا کی سیاست ) Polotics of the Media) ڈان اسلام آباد ، 2جنوری 2009ئ
11۔ سعدی کے قلم سے "بے چارے" ، ہفت روزہ "القلم "، پشاور 27نومبر تا 10دسمبر 2009ء