Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
جنوبی پنجاب میں دہشت گردی کا بُھوت |
ملک حسن اقبال
''تجزیات'' کے قارئین کی طرف سے ہمیں وقتاً فوقتاً تحریریں موصول ہوتی رہتی ہیں۔ جو اہم موضوعات اور مسائل کی طرف توجہ مبذول کرواتی ہیں۔ ''تجزیات'' کے خاص شمارے کے لیے ہمیں جنوبی پنجاب میں انتہا پسندی کے موضوع پر دو تحریریں موصول ہوئیں جو اگرچہ ایک مسئلے کو دو مختلف زاویوں سے دیکھتی ہیں لیکن قارئین ان دونوں نقطہ نظر کے ذریعے صورتِ حال کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ پہلی تحریر ڈیرہ غازی خان سے ملک حسن اقبال کی ہے جو ضلعی انتظامیہ میں اہم عہدے پر فائز ہیں اور لکھنے پڑھنے سے شغف رکھتے ہیں۔ جبکہ دوسری تحریر اکرام عارفی کی ہے جو معروف شاعر اور امن کے لیے کاوش کرنے والے متحرک کارکن ہیں۔ (مدیر)
|
پاکستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی تاریخ کو افغانستان میں روس کی مداخلت سے منسلک کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ ستّر کی دہائی سے یہ سلسلہ رواں ہوا اور آہستہ آہستہ ایک کینسر کی شکل میں پاکستان کے طول و عرض میں سرایت کر گیا۔ روس کی افغانستان میں فوجی یلغار نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ امریکہ نے سوچی سمجھی سکیم کے تحت پاکستان کے اس وقت کے حکمرانوں سے مل کر جہاد کے نام پر افغانستان کی نوجوان نسل (جس میں بعدمیں پاکستانی،سعودی، سوڈانی، اسلامی ممالک کے شہری اور دور دراز کے مسلمان علاقوں کے نوجوان لوگ بھی شامل ہو گئے) کو فوجی تربیت اور اسلحہ دیکر روس کے خلاف جنگ میں جھونک دیا۔ یہ جنگ روس کے افغانستان سے انخلا تک جاری رہی۔ روس یہ جنگ نہ صرف ہار گیا بلکہ وہ اقتصادی مسائل کا شکار ہو کر اندرونی شکست و ریخت کی وجہ سے پارہ پارہ ہو گیا۔ امریکہ نے یہ جنگ جیت کر نہ صرف روس کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا بلکہ دنیا میں ایک اکیلی طاقت کے طور پراُبھرا اور تاج برطانیہ کے دور حکمرانی کی یاد تازہ کرنے کی ٹھان لی۔
ادھر افغانستان سے روسی فوج کے جانے کے بعد امریکہ نے ہاتھ کھینچ لیا اور یہاں لاکھوں کی تعداد میں موجود تربیت یافتہ لوگوں نے گروہوں کی شکل میں ایک دوسرے کے خلاف جنگ کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیا۔ اس میں مقامی افغان گروہوں کے ساتھ ساتھ غیر ملکی جو کافی حد تک اب مقامی طور پر پُراثر ہو چکے تھے شامل تھے۔ ان کو اپنے امور چلانے کے لیے نہ صرف روپے پیسے بلکہ سامانِ حرب اور خوراک کی بھی ضرورت تھی۔ یوں انہوں نے ہمسایہ ممالک کو اپنی ان سرگرمیوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ اگرچہ دیگر ممالک بھی متاثر ہوئے لیکن پاکستان جو کہ افغانستان اور روس کی جنگ میں صفِ اوّل کے طور پر استعمال ہوتا رہا تھا اور تمام حربی گروہ اس سے بخوبی آشنا تھے۔ ان سرگرمیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ اس وقت کے مجاہدین، بعد کے طالبان اور حالیہ دور کے دہشت گردوں نے اسی سرزمین یعنی پاکستان کو سب سے زیادہ اپنے ستم کا نشانہ بنایا۔ ہمارے ہمسایہ ملک نے بطور خاص اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کرہمیشہ کی طرح پاکستان دشمنی کا ثبوت دیا۔
دہشت گردی کے مختلف ادوار رہَے۔ اسّی اور نوّے کی دہائیوں میں مذہبی دہشت گردی اپنے عروج پر رہی جس میں نہ صرف جید علماء کو ہرفرقے سے نشانہ بنایا گیا بلکہ مساجد، امام بارگاہیں اور دوسرے مذہبی مقامات بھی ان کا نشانہ بنے اور ہر طرح سے مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔ اور جب بھی ان کارروائیوںکا کھرا تلاش کیا گیا تو وہ انہی علاقوں کی طرف گیا ۔اسی دوران پاکستان کی اقلیتوں کو بھی نہیں بخشا گیا اور ان کا بھی خون ناحق بہایا گیا ۔ حکومت نے جب بھی بڑی کارروائی کا سوچا، مصلحتیں آڑے آئیں اور کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ 9/11 کے بعددنیا میں ایک بڑی تبدیلی آئی اور امریکہ اپنے دشمنوں کا پیچھا کرتے ہوئے افغانستان پہنچ گیا۔ پاکستان ایک بار پھر صف اوّل کا ملک بن گیا۔ اور تاریخ دہرائی جانے لگی۔ لیکن اب کی بار یہ پتہ چلانا مشکل ہو گیا کہ امریکہ افغانستان میں کس سے جنگ کر رہا ہَے۔ کون دشمن ہَے اور کون دوست۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دوست دشمن سب ہی جنگ کا حصہ بن گئے۔ اور پاکستان ایک بار پھر میدان جنگ بن گیا۔ روایتی آمریت نے ملکی اور قومی مفادات سے بالاتر ہو کر ایک بار پھر دست تعاون بڑھایا تاکہ جواب میں عرصہ اقتدار میں طوالت کی بھیک مل سکے۔ افغانستان میں موجود ملکی اور غیرملکی حربی گروہوں نے جوابی کارروائیوں کا آغاز کیا تو پاکستان براہ راست ایک بار پھر جنگ کی لپیٹ میں آگیا۔ خاص طور پر وہ علاقے جو افغانستان کی سرحد کے ساتھ ہیں۔ عملی طور پر میدان جنگ بن گئے امریکہ اور اس کے حواریوں نے پاکستان کی حکومت اور فوج کو ان دہشت گردوں کے مقابل کھڑا کردیا اور اس جنگ کو جس کی بنیاد خود اس نے رکھی تھی پاکستان کی جنگ بنادیا۔ آج ہماری فوج سوات، مالاکنڈ اوروزیرستان میں عملی طور پر برسرپیکار ہَے۔ خدا کاشکر ہَے کہ دہشت گرد شکست سے دوچار ہوئے ہیں اور فوج کو کامیابی ہوئی ہَے۔
یہ تو تھی مختصر تاریخ جس کے اندر طویل اور بھیانک داستانیں پوشیدہ ہیں۔ لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ امریکہ کی"Do More" پالیسی پاکستان کے انتہائی اقدامات کے باوجود خوش نظر نہیںآتی۔ آئے دن نئے الزامات تراشے جاتے ہیں۔ نئے علاقے بتائے جاتے ہیں اور دہشت گردی کے نام پر نئی نئی کارروائیوں کے لیے کہاجاتا ہَے۔ ان میں سرفہرست '' جنوبی پنجاب میںدہشت گردی کا بھوت'' ہَے۔ ہر طرف سے مختلف طریقوں سے یہ باور کرایا جارہا ہَے کہ اب دہشت گرد جنوبی پنجاب میں جمع ہو چکے ہیں اور ان کے خلاف جنوبی پنجاب خصوصاً ڈیرہ غازی خان اور راجن پور میں فوجی کارروائیوں کے تذکرے ہو رہَے ہیں۔ ہمارے میڈیا نے بھی نادانستہ طور پر اس کا خوب پرچار کیا ہَے۔ اگر چہ حقائق اس کے بر عکس ہیں۔
جنوبی پنجاب کے علاقے خاص طور پر ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے اضلاع میں دہشت گردوں کے بارے میں پہلی خبر تقریباً چھ ماہ قبل نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی۔ خاص طور پر وزیرستان کے فوجی آپریشن سے قبل یہ خبریں بطور خاص پھیلائی گئیں۔ کہ ڈیرہ غازی خان چونکہ وزیرستان سے ملحق ہَے اس لئے دہشت گرد ڈیرہ غازی خان میں، خاص طور پر قبائلی پٹی میں پناہ گزین ہو گئے ہیں۔ درحقیقت وزیرستان اور ڈیرہ غازی خان کی قبائلی پٹیاں جغرافیائی، ثقافتی، علاقائی اور دیگر لحاظ سے بالکل مختلف ہیں۔ ان لوگوں کا آپس میں تاریخی طور پر کوئی میل جول نہیں ہَے اور نہ ہی ان کی زبان ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھتی ہَے۔ وزیرستان میں پشتون آباد ہیں جو پشتو بولتے ہیں اور ان کا قدرتی تعلق ڈیرہ اسماعیل خان، کرک اور بنوں سے ہَے جبکہ ڈیرہ غازی خان کی قبائلی پٹی کے لوگ بلوچ ہیں جو بلوچی بولتے ہیں اور ان کا تعلق ڈیرہ غازی خان، جام پور اور راجن پور کے علاقوں سے ہَے۔ پاکستان بننے سے قبل بھی ان کے تعلقات جغرافیائی وجوہات کی بنا پر اتنے قریبی نہیں رہَے۔ یہی وجہ ہَے کہ فوجی آپریشن کے باوجود IDPs میں کوئی بھی ڈیرہ غازی خان کے علاقوں کی طرف نہیں آیا۔ ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کے قبائلی علاقے تقریباً ساڑھے گیارہ ہزار مربع کلو میٹر پر محیط ہیں۔ ان میں اڑھائی لاکھ بلوچ آباد ہیں۔ تاریخی طور پر یہاں حکومتوں کے خلاف کبھی بغاوت نہیں ہوئی۔ ان کے رسم و رواج اور زندگی میں اگر ارتعاش پیدا نہ کیا جائے تو ان کودیگر عوامل سے کوئی سر وکار نہیں۔ ان تمام نقادوں کے لیے یہ بات باعث حیرت ہوگی کہ اس تمام علاقے میں کوئی دینی مدرسہ سرے سے موجود ہی نہیںہَے۔ یہاں اس طرح کوئی تربیت تو دور کی بات سرکاری سکولوں کے علاوہ کوئی درسگاہ بھی موجود نہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی پنجاب میں اگر چہ دینی مدارس موجود ہیںلیکن ان میں دہشت گردی کے کسی منظم نیٹ ورک کا وجود ممکن نہیں ہَے۔ یہاں کوئی ایسا علاقہ نہیں ہَے جہاں حکومتی نمائندے، میڈیا اور عام لوگوں کی رسائی نہ ہو۔
اگر ان علاقوں میں چند لوگ پکڑے گئے جن کا تعلق دہشت گردی کی کارروائیوں سے تھا یا اگر دہشت گردی کا اِکادُکا واقعہ ہوا تو اس سے مطلب یہ ہرگز نہیں لیا جا سکتا کہ یہاں دہشت گردی کی تربیت ہو رہی ہَے یا خدانخواستہ یہاں دہشت گردوں کے اڈے ہیں۔ جہاں تک مدارس کے منتظمین کا تعلق ہَے یہ بات ریکارڈ پرہَے کہ انہوں نے بارہا اپنے مدارس حکومتی اداروں اور میڈیا کو پیش کئے ہیں تاکہ اس بات کا احساس دلایا جا سکے کہ وہ سوائے مذہبی تعلیم کے اور کوئی کام نہیں کررہے۔ وہ ہر قسم کی یقین دہانی کرواچکے ہیں۔ بدقسمتی سے عام جرائم اور جرائم پیشہ افراد کی کارروائیوں کو بھی دہشت گردی سے جوڑ دیا جاتا ہَے۔ حالانکہ یہ جرائم مدتوں پُرانی روایات اور ریکارڈ کے مطابق پہلے سے ہوتے آرہَے ہیں جن کے خلاف ریاست کے ادارے ہمیشہ نبردآزما رہَے ہیں۔
ان حالات میں جنوبی پنجاب کو دہشت گردی میں ملوث کرنا کسی اور ایجنڈے کا حصہ لگتا ہَے۔ اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے والے زمینی حقائق سے لاعلم ہیں۔ دہشت گرد جہاں ہیں ان کے ساتھ وہیں پر نبٹنا ہوگا اور غیر ضروری طور پر دوسرے علاقوں کو اس کی لپیٹ میں لانا عوامی رد عمل کے ساتھ ساتھ وسائل کا ضیاع بھی ہو گا۔
|
|
|
|
|