Untitled Document
|
|
|
Untitled Document
|
اگلا شمارہ |
 |
|
بلوچستان کے لیے ''کمزور ریاست'' کا پیکج |
خالد احمد
حال ہی میں وفاق نے این ایف سی ایوارڈ میں اپنی اور صوبوں کی مدد سے بلوچستان کی طرف سے شکایات کا ازالہ کرنے کی سعی کی ہے۔ کیا ماضی میں بلوچستان کے سینے پر لگائے جانے والے زخموں کا اندمال این ایف سی ایوارڈکی اس عارضی مرہم پٹّی سے ممکن ہے؟ خالد احمد کے الفاظ میں خاص طور پر اس وقت کہ جب بلوچستان ایک شدت پسندی کی تحریک کی زد میں ہے جسے طاقت افغانستان سے مل رہی ہے۔ جہاں بیرونی عناصر پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے اکٹھے ہو چکے ہیں۔ ہمیں حقوق سے متعلق آرٹیکل 155، 157، 158، 159، 160 اور 161 کی پاسداری کرنا ہو گی۔ (مدیر)
|
پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک پارلیمانی کمیٹی میں ہونے والے اتفاق رائے کی بنیاد پر بلوچستان کو انتظامی اور مالیاتی اصلاحات کے ایک پیکج کی پیشکش کی ہے۔ پیکج میں کیے گئے وعدوں کو دیکھنے والا کوئی بھی شخص یہی کہے گا کہ مرکزی بلوچستان پالیسی میں جن ناانصافیوں پر تنقید کی جاتی تھی ان میں سے بیشتر کا ازالہ کر دیا گیا ہے۔ لیکن بیرون ملک مقیم باغی بلوچ قیادت اور ان سیاستدانوں نے جو صوبائی اسمبلی کے باہر ہیں پیکج کو مسترد کر دیا ہے۔
پیکج میں شامل اصلاحات کی گہرائی کا جائزہ لیں تو یہ موقف معقول لگتا ہے کہ جو حالات تھے ان میں انتہا پسندی ایک قدرتی ردعمل تھا اور مرکز کو اس سے نہیں گھبرانا چاہیے۔ ان سے مکالمہ ہو گا تو انہیں عملی اقدامات کے ذریعے قائل کیا جائے گا کہ وہ اپنا علیحدگی پسندانہ موقف ترک کر دیں۔ بلوچوں کا غصہ دور کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان میں کوئی شے بھی قبول نہ کرنے کی وجہ دہشت گردی سے ریاست کی رٹ کو پہنچنے والا نقصان بھی ہے۔
پیکج پر پارلیمنٹ میں بحث ہو گی اور بلوچوں کی جو رائے سامنے آئے گی اس کی روشنی میں پیکج کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ پارلیمنٹ اسے بالکل ختم کرنے پر اتفاق نہیں کرے گی اور یہ کہ کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے کے باوجود مرکز کے کچھ حقوق برقرار رہیں گے۔ پاکستان بھر میں بلوچوں کے ساتھ ہمدردی میں جواضافہ ہو رہا ہے۔ بحث کے دوران اس کی حد کا تعین ہو گا۔
پیکج میں کہا گیا ہے کہ کنکرنٹ لسٹ، پولیس آرڈر 2002ء اور بلوچستان لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ء کو ختم کیا جائے گا۔ مشترکہ مفادات کی کونسل کے بارے میں آئین کے آرٹیکل 153 پر مؤثر عمل درآمد ہو گا۔
آرٹیکل 160 (این ایف سی ایوارڈ) آرٹیکل 161 (کونسل کے طریق کار) آرٹیکل 155 (پانی کی سپلائی میں مداخلت) آرٹیکل 157 (بجلی کے منصوبے) آرٹیکل 158 (قدرتی گیس کی ضروریات میں ترجیح) اور آرٹیکل 159 (ریڈیو ٹی وی نشریات) پر عمل ہو گا۔ اس سے نہ صرف بلوچستان بلکہ تمام صوبوں کے مطالبات پورے ہوں گے۔ اس وقت جبکہ پاکستانی ریاست کمزور محسوس ہو رہی ہے۔ بلوچ باغی اس پیکج کے بدلے اپنی شورش ختم کرنے کو گھاٹے کا سودا سمجھیں گے۔ ان کے نزدیک یہ کمزور مرکزی ریاست کو تقویت پہنچانے کے مترادف ہو گا۔
پیکج میں کہا گیا ہے کہ سیاسی جلا وطنوں کو پاکستان واپسی کا موقع دیا جائے گا (سوائے ان کے جو دہشت گردی میں ملوث ہیں)۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صوبائی اسمبلی نے 2002ء سے اب تک جو متفقہ قرار دادیں منظور کی ہیں، آئین کی حدود میں رہتے ہوئے ان پر عمل درآمدکیا جائے گا۔
سیاسی جلا وطن واپس آ سکتے ہیں اور ان میں وہ بھی شامل ہو سکتے ہیں جنہوں نے دہشت گردی پر اکسایا۔ اس معقول اور عملیت پسندانہ اقدام سے بلوچستان میں امن بحال ہو سکتا ہے۔
پیکج میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت فوری طور پر صوبے میں وفاقی ایجنسیوں کے کردار اور ان آپریشنز کا جائزہ لے جن کا دہشت گردی کے تعاقب سے تعلق نہیں۔ وفاقی حکومت سوئی سے فوج نکالنے کا اعلان کرے اور اس کی جگہ ایف سی تعینات کرے۔ نئی چھائونیوں کے قیام کے منصوبے ختم کیے جائیں۔ (البتہ سرحدی علاقوں میں جہاں ضرورت ہو چھائونیاں بنائی جا سکتی ہیں)۔ اس کا مطلب ہے کہ فی الحال سوئی اور کوہلو میں چھائونیاں نہ بنائی جائیں اور فوج سوئی میں تعمیر شدہ چھائونی ایف سی کے حوالے کر کے وہاں سے چلی جائے۔
پیکج میں ایجنسیوں کو نکالنے کے لیے توکہا گیا لیکن دہشت گردی سے برسرپیکار فورسز کو نہیں۔ اسی طرح وفاق سے چھائونیاں بنانے کے منصوبے ترک کرنے کے لیے تو کہا گیا ہے لیکن سرحدی علاقوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے جن میں مکران کا علاقہ آ سکتا ہے جس میں ایرانی گیس پائپ لائن بچھائی جائے گی اور اس کی حفاظت کرنا ہو گی۔ کوہلو سے فوج ہٹانے میں ایک خفیہ سودا یہ ہے کہ وہاں گیس کی تلاش کی اجازت لی جائے گی لیکن مری قبیلے کے سرداروں کو ایسا کوئی سودا قبول نہیں۔ بلوچ قبائل بالخصوص مری، بگٹی اور مینگل قبیلوں کو چھائونی میں فوج کی جگہ ایف سی کو قبول کرنے سے اتفاق کرنا ہو گا۔ حالانکہ ان کی طرف سے ایف سی کی جگہ لیویز کو تعینات کرنے کا مطالبہ صوبائی اسمبلیاں تسلیم کرتی رہی ہیں۔
اگر بلوچستان میں معمول کے حالات ہوتے تو لوگوں کی اکثریت نے پارلیمانی کمیٹی کی ان سفارشات کا خیر مقدم کیا ہوتا کہ وفاقی حکومت فوری طور پر صوبے کے لیے پانچ ہزار نوکریاں پیدا کرے، وفاقی حکومت گیس ڈیولپمنٹ سرچارج کے 1954ء سے 1991ء تک کے بقایاجات بارہ سال میں ادا کرے جو 120 ارب روپے بنتے ہیں، صوبہ پی پی ایل، او بی ڈی سی ایل اور سوئی ناردرن جیسے اداروں کے 20 فی صد تک رائٹ شیئرز خریدے اور وفاقی حکومت سینڈک منصوبے میں اپنے 30 فیصد حصص میں سے 20 فیصد فوری طور پر صوبے کو دے، منصوبے کی تکمیل اور غیر ملکی کمپنی کے جانے کے بعد حصص صوبے کے ہوں گے۔
بلوچ انتہا پسند پیکج کو مسترد کر دیں گے کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ مرکز شورش سے چکرایا ہوا ہے اور اس پر افغانستان کے راستے بھارت کا دبائو بھی ہے۔ عالمی برادری نے بھارت سے خطرہ ختم کرنے کے لیے اس کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی جس حکمت عملی کی سفارش کی ہے اس پر اسلام آباد نے توجہ نہیں دی۔ اس کا مطلب ہے کہ بلوچوں کو 1940ء کی قرارداد پاکستان کے مطابق خودمختار حیثیت دینے کا مطالبہ جاری رہے گا۔
مذاکرات کب ہوں؟
جب باغی زور پکڑ رہے ہوں تو ریاست ان سے بات کیسے کرے؟ فاٹا کے باغیوں سے بات چیت کر کے ریاست نے یہ سیکھا ہے کہ اسے مضبوط پوزیشن سے بات کرنی چاہیے۔ وہ اس نتیجے پر یہ دیکھ کر پہنچی کہ قبائلی جنگجو جب طاقتور ہوتا ہے تو وہ بات کرنے پر تیار نہیں ہوتا بلکہ مار دھاڑ پر توجہ دیتا ہے۔ عالمی تدبر یہ کہتا ہے کہ بات کرنے کا وقت وہ ہے جب مخالف کمزور ہو۔
پاکستان تیسری دنیا کی کئی دوسری ریاستوں کی طرح ایک کمزور ریاست ہے۔ اس کے ادارے لڑکھڑا رہے ہیں اور اس کی پولیس اور عدالتیں طاقتور افراد سے ڈرتی ہیں۔ یہ اس لیے بھی خوف زدہ ہے کہ اس کی بعض کمزوریاں ایسی بھی ہیں جو تیسری دنیا کے دوسرے ملکوں میں نہیں۔ اس کے اکثر علاقوں میں اس کی رٹ اتنی کمزور ہے کہ غیر ملکی آزادانہ آ جا سکتے ہیں اور شریعت کے نام پر ریاست کو چیلنج کرنے کے لیے مقامی لوگوں کی مدد سے اپنی چھوٹی چھوٹی ریاستیں بنا سکتے ہیں۔ یہ کمزوری ایسی ہے تیسری دنیا کے غیر مسلم ممالک جس کا شکار نہیں ہیں۔ ریاست نے جہاد میں ملوث ہو کر اپنے لیے یہ حالات خود پیدا کیے۔
فرانسس فوکویاما نے اپنی کتاب "State Building: Governance and world order in the twenty-first century" میں لکھا ہے:
''کمزور گورننس اقتدار اعلیٰ کے اس اصول کو نقصان پہنچاتی ہے جس پر بین الاقوامی نظام استوار ہے۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ کمزور ریاستیں اپنے اور دوسروں کے لیے جو مسائل پیدا کرتی ہیں وہ اس امکان کو بہت بڑھا دیتے ہیں کہ مسئلے سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی نظام میں سے کوئی اور ان کی خواہش کے خلاف، زبردستی ان کے معاملات میں مداخلت کرنا چاہیے۔ یہاں کمزور کا مطلب پالیسیوں پر عملدرآمد اور نفاذ کی اداراتی صلاحیت کا نہ ہونا یا اس کی کمی ہے جو بالعموم سیاسی نظام کے قانونی عدم جواز کا نتیجہ ہوتا ہے۔''(ص:129)
بلوچوں کے مصائب کی وجہ اچھی گورننس کا نہ ہونا اور انہیں نظر انداز کیا جانا ہے۔ اس وقت بلوچستان ایک شدت پسند تحریک کی زد میں ہے جسے طاقت افغانستان سے مل رہی ہے جہاں بیرونی عناصر پاکستان پر دبائو ڈالنے کے لیے اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔
(بشکریہ ''فرائیڈے ٹائمز'')
|
|
|
|
|